اودھ کی شام قرۃ العین حیدر

سیما علی

لائبریرین
عجیب۔۔۔ بیحد عجیب۔۔۔ تو تم میرے ساتھ نہیں ناچوگی، نہیں۔ کیوں کہ تم انگریز ہو اور اعلیٰ خاندانوں کی ہندوستانی لڑکیوں کا فوجیوں اور خصوصاً امریکن اور انگریز فوجیوں کے ساتھ رقص کرنا بڑی ویسی بات ہے اور جویہ دیوزاد سا فوجی پچھلے آدھ گھنٹہ سے برابر تمہارے ساتھ لڑھک رہا ہے وہ تو ہندوستانی ہے اور میرے چچا کا دوست ہے۔ تم ہندوستانیوں میں آپس میں بڑی محبت ہے۔ اور کیا ہئی۔۔۔ ارے جم تم تو انگریز ہو ۔ فرنگی، بنئے، سفید فام، چقندر یا شلجم۔ ایک تم خوبصورت ہو تو کیا ہوا۔ تمہارے بھائی بند تو چقندروں ایسے ہوتے ہیں سارے کے سارے، بڑی بے ایمان قوم ہے تمہاری۔ اب تمہیں کان پکڑ کر ہم نکال دیں گے کہ تشریف لے جائیے آپ گھر کو روتے ہوئے۔ کیوں کہ بھئی ہم کو تو آزادی ملنے والی ہے۔ سمجھے۔

ارے یہ بال روم میں پالیٹکس کس بد مذاق نے چھیڑ دی۔ ارے جم تم اس کی کچھ مت سننا۔ یہ بڑی وہ ہے۔ مسلم لیگر بڑی سخت۔ یہ تمہیں بتائے گی کہ جناح ایشیا کا سب سے بڑا آدمی ہے۔ جم اگر ہندوستان کو سمجھنا چاہتے ہو تو میں تمہیں کتابیں دوں گی پڑھنے کو۔ ٹیگور کی گیتان جلی اورنیتا جی کی سوانح عمری۔ اس کے علاوہ رامائن اور مہا بھارت بھی کافی مفید ہے۔ اس سے کرما اور نروان اور مکتی کے سب راز عیاں ہوجائیں گے۔ چودہ طبق روشن ہوجائیں گے تم پر۔ اور بھئی جم ہم تو کسی غیر ملکی سے بات بھی کرنا روا نہیں رکھتے۔ اور کیا۔ لیکن تمہاری بات ذرا دوسری ہے۔ اسی لیے تمہیں ہم نے مدعو کیا ہے کیوں کہ تم ایک لارڈ کے لڑکے ہو اور میرے بھائی کے ساتھ آکسفرڈ میں پڑھ چکے ہو اور اس طرح کے نہیں ہو جس طرح کے تمہارے ہم وطن نظر آتے ہیں اور تم بے حد خوبصورت اور دلکش ہو۔ تمہاری سبز آنکھوں میں رومان، افسردگی، بے کسی ، شرارت، سب کی ملی جلی لہریں تیرتی رہتی ہیں۔

مجھے تمہاری آنکھیں بہت پسند ہیں لیکن اس کے باوجود میں تمہارے ساتھ رقص نہیں کروں گی۔ تمہارا لہجہ بہت عمدہ ہے۔ تم پہلے انگریز ہو جو صحیح اور اچھے تلفظ کے ساتھ انگریزی بول سکنے کے علاوہ کسی ٹھوس اور سنجیدہ موضوع پر دیر تک آسانی سے گفتگو کر سکتے ہو۔ تم سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولے اڑاتے ہوئے کورنل وائلڈ کے سے انداز میں کہتے ہو کہ ہندوستان کے دو ہفتے کے قیام میں تم جن تین چار ہندوستانی لڑکیوں سے ملے انہوں نے تم کو بہت زیادہ امپریس کیا۔ وہ بہت عمدہ ہوتی ہیں۔ ان کے دماغ میں ideas ہیں اور وہ چین کی خانہ جنگی اور کمیونزم اور انڈونیشیا کی آزادی پر لمبی لمبی ثقیل بحثیں اسی خوب صورتی کے ساتھ کرتی ہیں جس خوب صورتی کے ساتھ وہ مانی پوری اور کتھک اور رمبا کرتی ہیں۔ ان کے انداز میں لوچ اور گفتار میں شیرینی ہے۔ ان کے قہقہے جل ترنگ جیسے ہوتے ہیں اور ان کے لباس گویا مرقع چغتائی کے نقرئی اوراق کھول دیئے گئے ہوں۔ ہم نے تمہاری ان باتوں کو بہت پسند کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انگریز ہوتے ہوئے بھی تم نے بال روم میں فلور پر سب سے پہلے میرے رو پہلے غرارے کو نوٹس کیا تھا۔ تو تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ تم لکھنؤ میں ہو جہاں شامِ اودھ ہوتی ہے۔

یہ اودھ در اصل ایک بڑی رومینٹک سی سلطنت تھی۔ تاریخ کے سنہرے صفحات پلٹو تو معلوم ہوگا اور اس کے بادشاہ اوپیرا اور سنگیت سبھاؤں میں راجہ اندر اور جوگی بنا کرتے تھے۔ بڑے نالائق اور نکمّے تھے وہ لوگ۔ جبھی تو یہ جگمگاتی ہوئی پرستان جیسی سرزمین ان سے چھین لی گئی اور یہ جو بکا ر اور بے مصرف سے تعلقہ داران کے زمانے کی یاد گار باقی رہ گئے ہیں۔ ان کی ریاستیں اور زمینیں ہماری نئی جمہوری اور نمائندہ حکومت اب بے چارے مظلوم کسانوں کو دے دے گی کیوں کہ یہ جنتا راج کا نیا زمانہ ہے۔ آیا خیالِ شریف میں تمہارے؟ اور تم نے اوما کی مرہٹی اسٹائل کی ساری کی بہت تعریف کی تھی اورکہا تھا کہ اس طرح کی ایک ساری تم اپنی بہن کے لیے دلایت لے جاؤ گے۔ تو وہ بھی کیا یاد کرے گی۔ بے چاری۔ اور تمہیں زینت کے جوڑے میں سجے ہوئے زرد اور بنفشی پھول بے حد آرٹسٹک نظر آتے تھے۔

دراصل بالوں میں پھول سجانے کا ہم لوگوں کو ایک خاص فن آتا ہے کیوں کہ ہندوستان پھولوں، خوشبوؤں اور نغموں کا ملک ہے۔ سمجھے؟ ارے کیا ہندوستان ہندوستان چلّا رہی ہو۔ ابھی گئی تھیں ملک کی واحد قومی جماعت کے خلاف الیکشن میں حصہ لینے۔ لیگ کی ایجنٹ کہیں کی۔ جم میں تم سے کہہ جو رہی ہوں کہ اس سے پولیٹکس کی باتیں نہ کرو۔ یہ تمہیں اپنے پاکستان کا مطلب بھی نہیں سمجھا سکے گی۔ آج تک نہیں سمجھا پائی اور پاکستان ہوجائے گا۔ مس حیدر! تو آپ سے ملنے کے لیے پہلے پاسپورٹ حاصل کرنا پڑے گا۔ یعنی بھئی اگر لاہور جانا ہے تو پہلے پاسپورٹ بنواتے پھرو، پھر محصول ادا کرو۔ بڑی طوالت ہوگی۔ بے وقوفی کی باتیں مت کرو۔ آنند۔کتنے چغد ہو۔ یہ تھوڑا ہی ہوگا۔ چلونا چیں۔ والٹر کے لیے ہال کی روشنیاں مدھم کردی گئیں۔ پاکستان کے متعلق بعد میں طے کرتے رہیں گے۔۔۔

عجیب۔۔۔ بے حد عجیب۔۔۔ کیا بات ہے جم۔ تمہاری آنکھوں میں پھر وہی جھلک لہرا اٹھی جیسے چڑیا کا ایک معصوم چھوٹا سا بچہ سخت کرب اور بے چینی میں مبتلا ہو اور بے بسی کے مارے تڑپ بھی نہ سکے۔ تم اپنی کرسی پیچھے سرکا کر ایک طرف کو کیوں جھک گئے۔ جب کہ والٹر کا ایک پیارا سا نغمہ اپنی پوری دلآویزی کے ساتھ بج رہا ہے اور مرمریں فلور پر رقصاں جوڑے ہال کے کناروں پر بکھری ہوئی میزوں اور کرسیوں کے قریب سے تیزی کے ساتھ چکّر کاٹتے ہوئے گزر رہے ہیں۔ غرارے اور ساریاں اور سائے۔ جاؤ تم بھی ناچواور ناچتے ہوئے انسانوں کے اس متحر ک اور رنگا رنگ جو ار بھاٹا میں کھو کربھول جاؤ کہ تم کہاں ہو اور کس سے باتیں کر رہے ہو۔ ہم لوگوں سے ملتے وقت تمہیں سوچنے کی عادت بالکل چھوڑ دینی چاہیے۔ جب اپنے ویلز کی شکار گاہوں کو واپس جاؤ گے اس وقت تمہیں کافی فرصت ہوگی کہ ہمارے کمینے پن، احسان فراموشی اور جنسی اور دوسری غلاظتوں کا اپنی عظمت، اپنی اعلیٰ تہذیب اور اپنی چاک کی سفید پہاڑیوں اور نیلے سمندروں کی خوب صورتی سے موازنہ کر کے ایک کتاب لکھ ڈالو۔ کہاں تک لڑے جاؤ گی بھائی! اس سے متعارف ہوئے ابھی تمہیں ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوا اور تم لڑتے لڑتے اس کا دماغ چاٹ گئیں۔۔۔
وہ بے چارہ اپنے ہم قوموں کی پچھلی نالائقیوں پر سخت شرمندہ اور نادم اور پشیماں ہے اور اس کی سبز آنکھوں میں وہی رومان، غمگینی، بے کسی اور شرارت کی ملی جلی لہریں جھلملا رہی ہیں اور اس کے معصوم اور بہادر برطانوی دل میں صرف یہی ایک خواہش ہے کہ تم اس کے ساتھ ایک آخری والٹر کرلو کیوں کہ کل صبح ہندوستان کو آزادی ملنے والی ہے اور اسے کان سے پکڑ کر تمہارے گھر سے نکال دیا جائے گا اور رات گہری ہوتی جارہی ہے اور آرکیسٹرا کی اسٹیج کے نیچے بھاری زرد پردوں کے سائے میں نیلگوں مرمریں فرش پر کیبرے کی دو سفید فام لڑکیوں نے شب کا آخری ناچ شروع کردیا ہے اور ہال کے بڑے بڑے اور چوڑے دریچوں کے باہر خوابیدہ فضاؤں میں ’گڈنائٹ ماری‘ کے اداس سر لرز رہے ہیں۔

جم کی آنکھیں نیند سے جھکی جارہی ہیں۔ جم تم خواب کیوں دیکھتے ہو؟ تمہیں خواب نہیں دیکھنے چاہئیں۔ انگریز ہمیشہ جاگتا رہتا ہے۔ وہ صرف مشین گن چلانا جانتا ہے۔ تم بھی بڑے جھوٹے ہو۔ پوزیئر ہو بڑے زبردست۔ تم غلط کہتے ہو کہ تمہیں اس پر اسرار سرزمین سے عشق ہے جس میں ٹیگور کے گیت ہیں اور اودے شنکر کا ناچ ہے اور ہمالیہ کی برفانی بلندیاں اور نیلوفر سے بھی بھری ہوئی وادیاں ہیں۔۔۔ اور۔۔۔ اور جہاں کی سیاہ آنکھوں والی لڑکیاں اپنے بالوں میں زرد اور بنفشی پھول سجاتی ہیں اور رو پہلے غرارے پہنتی ہیں۔ یہ سب غلط ہے، جھوٹ ہے، دھوکا ہے بہت بڑا۔ یہاں پر صرف گندگی ہے اور غربت اور بے مزگی اور زندگی کا ناگوار، ناقابلِ برداشت بوجھ۔ زندگی کا کوئی مقصد نہیں، کوئی مصرف نہیں۔ اس یک رنگی، اس بے کیفی، اس خستگی اور اکتاہٹ کے شدید احساس کو تم نہیں سمجھ سکتے۔ تم مے فیئر کے نیلگوں ایئر کنڈیشنڈ بال روم میں بیٹھ کر ہندوستان سے اظہارِ ہمدردی کرنا چاہتے ہو۔ تم گدھے ہو بہت اعلیٰ قسم کے ۔ سمجھے؟

اودھ کی شام بہت کالی اور بہت خنک رات میں تبدیل ہوگئی ہے اور مے فیئر کی گیسٹ نائٹ اختتام پر ہے۔ تمہاری پلکیں خوابوں کے بوجھ سے جھکی جارہی ہیں۔ زینت کے بالوں کے زرد پھول مرجھا کر فرش پر گر چکے ہیں۔ جنہیں روندتے ہوئے ہم ابھی نیچے چلے جائیں گے، ہم سب کے سب اور یہ جگمگاتا ہوا رقص کا ایوان خالی ہوجائے گا اور اس کی تیز برقی روشنیاں ایک ایک کر کے بجھادی جائیں گی اور آج کی رات کے بعد ہم سب تمہیں بھول جائیں گے۔ یہ سیاہ فام مدراسی کارٹونسٹ، جو ایک کونے میں خاموشی سے اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے اپنی اسکیچ بک میں تمہارے بے شمار پروفائل بنا چکا ہے، اور یہ خوب صورت اور ڈیشنگ اور مغرور ہمارے ہاں کے روزانہ انگریزی اخبار کا ایڈیٹر، اور آنند، ریڈیو کا یہ پروگرام ڈائریکٹر، جو انگریزی میں شاعری کرتے کرتے سب کو بور کردیتا ہے اور اوما جو ایڈی لیمار کی طرح حسین ہے اور تمہیں پورن برھما کا فلسفہ سمجھانے کی کوشش میں اپنی ساری شام ضائع کرچکی ہے۔ وہ کہہ رہی ہے کہ وہ اگلی اتوار کے پانیر کے میگزین سیکشن میں تمہارے متعلق ایک کہانی لکھے گی اور زینت، جوسپرانو ہے، اورمیرے بھائی کی منگیتر، وہ تمہاری یاد میں ایک گیت کمپوز کرنے والی ہے اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا ہے کہ میں تمہاری ایک تصویر بناؤں گی اور اس میں تمہاری آنکھوں کے لیے آسمان کی نیلاہٹ اور کشمیر کی گل پوش جھیلوں کی سبزی اور چاند کی بھیگی بھیگی کرنوں کی جھلملاہٹ کے رنگ استعمال کروں گی اور آنند اپنی انگریزی نظموں کا جو مجموعہ لندن سے شائع کروا رہا ہے اس میں تمہارے اوپر بھی چند شعر شامل کرے گا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ کل صبح کے بعد جب کہ تم ہندوستان سے جاچکے ہوگےتم اس آسانی اور اطمینان کے ساتھ فراموش کردیئے جاؤگے۔ جس آسانی اور اطمینان سے زندگی کی اور بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں اور واقعات بھلا دیئے جاتے ہیں۔

در اصل یہ سب بے کار کی باتیں ہیں۔ تم نے ہماری تصویروں کی تعریف کی، ہمارے رقص دیکھے، ہماری موسیقی کو پرکھا لیکن یقین جانوں کہ ہماری تصویریں، ہمارے افسانے اور ہمارے ناچ کوئی معنی نہیں رکھتے۔ جب زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے تو ان چیزوں کا کیا ہوسکتا ہے۔ کوئی End ہی نہیں۔ تو Meansکی بہتری یا افادیت میں سر کھپانے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہارے میٹر آف فیکٹ برطانوی دماغ کے لیے ذرا انوکھی باتیں ہیں نا؟ ہم سب تمہارے لیے بہت انوکھے ہیں، اوما اور زینت اور میں۔۔۔ سارے کے سارے۔ ہمارا فلسفہ بھی انوکھا ہے جسے ہم Confucianism کا فلسفہ کہتے ہیں۔ جو بہترین ہے اور انتہائی مفید۔ زندگی جس طرح بھی سامنے آئے اسے اپنا لو۔ نرالا فلسفہ ہے نا۔ ہر نرالی چیز ہی تو دل چسپ ہوتی ہے ورنہ تم اس وقت یہاں نہ ہوتے۔

یہ انسانیت کی لڑائی بے حد انوکھی تھی جس کی وجہ سے تم ویلش قلعے اور اپنی پہاڑی شکار گاہوں اور اپنا لارڈ باپ کو کشنوں پر سر ٹیکے لیبر گورنمنٹ کے بجٹ پر نکتہ چینی کرنے کے لیے چھوڑ کر اس وقت یہاں مے فیئر بال روم میں بیٹھے ویدانت کے فلسفے اور پاکستان کے جواز سے الجھنے کی کوشش میں مصروف ہو۔ یہ زندگی اور یہ شامیں بالکل نرالی ہیں جن میں آنے والے قحط اور مسٹر ہو ور کے اپنے اپنے اندیشے ظاہر کرنے کے بعد اپنی میزوں پر سے اٹھ اٹھ کر رقص میں گھومتے گھومتے متواتر پانچ چھ گھنٹے گزرجاتے ہیں اور ہم بالکل نہیں تھکتے۔

اوما انتہائی انوکھی لڑکی ہے کہ اعتقاداً سخت ہندو ہونے کے باوجود ایک مسلمان سے شادی کر کے غرارہ پہن کر سلام علیکم کہتی ہے اور میں شاید اس سے بھی زیادہ انوکھی ہوں کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی جے ہند اور نمسکار کر لیتی ہوں جب کہ تمہیں بتایا گیا ہے کہ ہم لوگ بازاروں میں ایک دوسرے کے گلے کاٹ ڈالتے ہیں۔

’گوڈسیو دی کنگ‘ بجنا شروع ہوگیا ہے۔ جم فوراً کھڑے ہوجاؤ۔ تم میرے ساتھ ان باتوں میں اس قدر محو ہوگئے کہ تمہیں اس کا بھی خیال نہیں رہا۔ ہم لوگ نیچے جارہے ہیں۔ اپنے نیشنل اینتھم کے بعدنیچے آکر پورٹیکو میں ہم سے رخصت ہولینا کیوں کہ رات بھیگی جارہی ہے اور سفیدے کے درختوں کے پیچھے سے ابھی چاند طلوع نہیں ہوا ہے اورتمہیں معلوم ہونا چاہیے جم کہ اندھیری راتوں میں ہم لڑکیوں کو خواہ مخواہ ڈرلگا کرتا ہے۔

رات خاموش ہے اور ہماری کار تیزی سے مے فیئر کے پورٹیکو کی نیلگوں اور خنک دھندلی روشنیوں کو پیچھے چھوڑتی آرہی ہے۔ دور لامارٹیز کالج کی پر شکوہ فرانسیسی عمارتوں کا سیاہ عکس ان کی سیڑھیوں کے نیچے سوتی ہوئی جھیل پر لرز رہا ہے۔ چپ چاپ اور بے حس! اور سکندر باغ، دلکشا اور بنارسی باغ کے وسیع سبز مخملیں میدان، اور سفیدے کے جنگل، مدھم چاندنی کے سنّاٹے میں سائیں سائیں کر رہے ہیں اور گومتی کے شاندار موتی محل برج کے کنارے دریا پر جھکی ہوئی سرخ پتھر کی ایک شہ نشین پر آسمان کے مقابلے میں سلہٹ سا نظر آرہا ہے اور اس کے سامنے چھتر منزل خاموشی اور غرور سے آدھی رات کے آسمان کی طرف اپنی طلائی چھتری بلند کیے اپنی رقص گاہ کی روشنیاں اپنے قدموں میں بہتی ہوئی گومتی کی سطح پر پھینک رہی ہے۔ یہ اودھ کی رات کا نقشہ ہے اور جم تم چند گھنٹوں بعد ان راتوں سے ہمیشہ کے لیے دور ہوجاؤگے اور تمہارا ڈیکوٹا طیارہ گومتی اور سر جو اور گنگا کی روپہلی لکیروں کے اوپر سے گزرتا، انہیں نیچے چھوڑتا ہوا دور مغربی سمندروں کے اونچے بادلوں میں کھو جائےگا۔

آدھی رات کا پرند پھر چلّا اٹھا ہے۔ چاروں طرف دور دور تک پھیلی ہوئی خوابیدہ کائنات پر پرستان کا سحر چھا رہا ہے۔ دریچے کے باہر، شریفے کے درختوں کی دوسری جانب سڑک کے کنارے وہ پرانا شاہی پھاٹک خاموشی سے ایستادہ ہے اور اس کی اوپر کی منزلوں اور شہ نشینوں میں مدھم روشنیاں جھلملا رہی ہیں۔دور چوکی دار باغ کی رکھوالی کرتے کرتے چلّا اُٹھتا ہے۔ ہَو ہَو ہَو۔۔۔ لا لا لا۔۔۔ اور اس کے برہا کی آواز بازگشت دیر تک گومتی کی روپہلی ریتوں پر گونجتی رہتی ہے اورایریل کے بانس پر بیٹھے ہوئے چنڈول کی تیز آواز رات کے سنّاٹے کو کاٹتی ہوئی اندھیرے کی وسعتوں میں پھیلتی جارہی ہے۔ چنڈول ذات کے لحاظ سے الّو کے چھوٹے بھائی کی ایک قسم ہے۔ جم بھی الّو کا چھوٹا بھائی ہے۔ اور مجھے یاد ہے کہ اس نے سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو کر ‘خدا حافظ کہتے وقت‘ کار کا دروازہ بند کرنے سے پہلے، جھک کر میرے غرارے کے پائنچے سمیٹ کر اندرا اٹھانے میں میری مدد کرتے ہوئے، جوفٹ بورڈ پر گرے جارہے تھے، اگلی سیٹ پر مسز رحمن کو سگریٹ کا دھواں اڑاتے دیکھ کر مجھ سے چپکے سے کہا تھا کہ اسے عورتوں کا سگریٹ پینا بالکل پسند نہیں اور وہ اپنی بہنوں کو بھی سگریٹ نہیں پینے دیتا کیوں کہ وہ امریکن نہیں انگریز ہے اور انگریز بہت قدامت پرست ہوتے ہیں۔۔۔

اور رات کے دو بجنے والے ہیں اور فرش پر برقی چولھے کے قریب کافی کی پیالیاں بے ترتیبی اور اکتاہٹ کے انداز میں منتشر ہیں۔ ابھی بہت پڑھنا ہے کیوں کہ امتحان میں ایک ہفتہ رہ گیا ہے۔ کیا کریں گے اتنا پڑھ کر جانے۔ پرانے زمانے کے بادشاہوں کا وہ پھاٹک اندھیرے میں زیادہ بلند، زیادہ ہیبت ناک اور زیادہ خوب صورت نظر آرہا ہے جس کی خوب صورتی اور عظمت سے دل میں ایک نا قابلِ بیان خوف سا محسوس ہوتا ہے اور جس کی عظیم الشان محرابوں کے نیچے سے دن بھر یو۔ ٹی۔ سی۔ کے جیپ اور لائبریری کو جانے یا وہاں سے واپس آنے والی لڑکیوں کے گروہ گزرتے رہتے ہیں اور میں پڑھنے کے بجائے تصویریں بنا رہی ہوں اور زینت کہتی ہے کہ تم تصویریں کیوں بناتی ہو۔ مت بنایا کرو تصویریں ، بلکہ کوئی اور مفید کام شروع کردو۔ مثلاً باورچی خانے کے باغ میں گو بھی کی کیاریاں تیار کرو تاکہ زیادہ غذا پیدا کی جاسکے اور گورنمنٹ ہاؤس کی ٹی پارٹیوں میں گورنر صاحب کی میم صاحب ہم لوگوں کی زیادہ تعریف کیا کریں اور زینت اکنومکس کی موٹی موٹی کتابوں کو قالین پر پھینک کر اپنی پیانو کی کاپی کے ورق الٹتے ہوئے سلام کا کوئی شعر گنگنا رہی ہے،

میں اگر زندہ ہوں پھر شامِ اودھ آئے گی، یا جانے کیا۔

واقعہ یہ ہے کہ ہم سب چغد ہیں۔
از
قرۃ العین حیدر

قرۃ العین حیدر - افسانہ
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
افسانے کا ماخذ بھی ضرور دیا کریں
جناب اعجاز عبید صاحب !!!!!!
انشاء اللہ ضرور یہ میرے پاس کتاب موجود تھی ۔مستعار لینے والے کبھی واپس نہیں کرتے ،میں نے تلاش کے بعد نیٹ سے لی ہے ۔کیونکہ میری پسندیدہ مصنفہ کی تحریر ہے ۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
میں نے تین چار ماہ پہلے ہی قرۃ العین حیدر کی کلیات کئی جلدوں میں ترتیب دے کر پوسٹ کی ہے، ان کے مجموعوں کے حساب سے۔ مفت کتب میں دیکھیں، آئندہ وہیں سے کاپی کیا کریں کہ کئی ماہ کی پروف ریڈنگ کی گئی ہے متون کی۔
 

سیما علی

لائبریرین
میں نے تین چار ماہ پہلے ہی قرۃ العین حیدر کی کلیات کئی جلدوں میں ترتیب دے کر پوسٹ کی ہے، ان کے مجموعوں کے حساب سے۔ مفت کتب میں دیکھیں، آئندہ وہیں سے کاپی کیا کریں کہ کئی ماہ کی پروف ریڈنگ کی گئی ہے متون کی۔
سر ضرور آئندہ وہیں سے کاپی کروں گی انشاءاللہ
 

عمار نقوی

محفلین
میں نے تین چار ماہ پہلے ہی قرۃ العین حیدر کی کلیات کئی جلدوں میں ترتیب دے کر پوسٹ کی ہے، ان کے مجموعوں کے حساب سے۔ مفت کتب میں دیکھیں، آئندہ وہیں سے کاپی کیا کریں کہ کئی ماہ کی پروف ریڈنگ کی گئی ہے متون کی۔
سر لنک فراہم کر دیجئے ! مجھے بھی پڑھنا ہے۔
 
عجیب۔۔۔ بیحد عجیب۔۔۔ تو تم میرے ساتھ نہیں ناچوگی، نہیں۔ کیوں کہ تم انگریز ہو اور اعلیٰ خاندانوں کی ہندوستانی لڑکیوں کا فوجیوں اور خصوصاً امریکن اور انگریز فوجیوں کے ساتھ رقص کرنا بڑی ویسی بات ہے اور جویہ دیوزاد سا فوجی پچھلے آدھ گھنٹہ سے برابر تمہارے ساتھ لڑھک رہا ہے وہ تو ہندوستانی ہے اور میرے چچا کا دوست ہے۔ تم ہندوستانیوں میں آپس میں بڑی محبت ہے۔ اور کیا ہئی۔۔۔ ارے جم تم تو انگریز ہو ۔ فرنگی، بنئے، سفید فام، چقندر یا شلجم۔ ایک تم خوبصورت ہو تو کیا ہوا۔ تمہارے بھائی بند تو چقندروں ایسے ہوتے ہیں سارے کے سارے، بڑی بے ایمان قوم ہے تمہاری۔ اب تمہیں کان پکڑ کر ہم نکال دیں گے کہ تشریف لے جائیے آپ گھر کو روتے ہوئے۔ کیوں کہ بھئی ہم کو تو آزادی ملنے والی ہے۔ سمجھے۔

ارے یہ بال روم میں پالیٹکس کس بد مذاق نے چھیڑ دی۔ ارے جم تم اس کی کچھ مت سننا۔ یہ بڑی وہ ہے۔ مسلم لیگر بڑی سخت۔ یہ تمہیں بتائے گی کہ جناح ایشیا کا سب سے بڑا آدمی ہے۔ جم اگر ہندوستان کو سمجھنا چاہتے ہو تو میں تمہیں کتابیں دوں گی پڑھنے کو۔ ٹیگور کی گیتان جلی اورنیتا جی کی سوانح عمری۔ اس کے علاوہ رامائن اور مہا بھارت بھی کافی مفید ہے۔ اس سے کرما اور نروان اور مکتی کے سب راز عیاں ہوجائیں گے۔ چودہ طبق روشن ہوجائیں گے تم پر۔ اور بھئی جم ہم تو کسی غیر ملکی سے بات بھی کرنا روا نہیں رکھتے۔ اور کیا۔ لیکن تمہاری بات ذرا دوسری ہے۔ اسی لیے تمہیں ہم نے مدعو کیا ہے کیوں کہ تم ایک لارڈ کے لڑکے ہو اور میرے بھائی کے ساتھ آکسفرڈ میں پڑھ چکے ہو اور اس طرح کے نہیں ہو جس طرح کے تمہارے ہم وطن نظر آتے ہیں اور تم بے حد خوبصورت اور دلکش ہو۔ تمہاری سبز آنکھوں میں رومان، افسردگی، بے کسی ، شرارت، سب کی ملی جلی لہریں تیرتی رہتی ہیں۔

مجھے تمہاری آنکھیں بہت پسند ہیں لیکن اس کے باوجود میں تمہارے ساتھ رقص نہیں کروں گی۔ تمہارا لہجہ بہت عمدہ ہے۔ تم پہلے انگریز ہو جو صحیح اور اچھے تلفظ کے ساتھ انگریزی بول سکنے کے علاوہ کسی ٹھوس اور سنجیدہ موضوع پر دیر تک آسانی سے گفتگو کر سکتے ہو۔ تم سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولے اڑاتے ہوئے کورنل وائلڈ کے سے انداز میں کہتے ہو کہ ہندوستان کے دو ہفتے کے قیام میں تم جن تین چار ہندوستانی لڑکیوں سے ملے انہوں نے تم کو بہت زیادہ امپریس کیا۔ وہ بہت عمدہ ہوتی ہیں۔ ان کے دماغ میں ideas ہیں اور وہ چین کی خانہ جنگی اور کمیونزم اور انڈونیشیا کی آزادی پر لمبی لمبی ثقیل بحثیں اسی خوب صورتی کے ساتھ کرتی ہیں جس خوب صورتی کے ساتھ وہ مانی پوری اور کتھک اور رمبا کرتی ہیں۔ ان کے انداز میں لوچ اور گفتار میں شیرینی ہے۔ ان کے قہقہے جل ترنگ جیسے ہوتے ہیں اور ان کے لباس گویا مرقع چغتائی کے نقرئی اوراق کھول دیئے گئے ہوں۔ ہم نے تمہاری ان باتوں کو بہت پسند کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انگریز ہوتے ہوئے بھی تم نے بال روم میں فلور پر سب سے پہلے میرے رو پہلے غرارے کو نوٹس کیا تھا۔ تو تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ تم لکھنؤ میں ہو جہاں شامِ اودھ ہوتی ہے۔

یہ اودھ در اصل ایک بڑی رومینٹک سی سلطنت تھی۔ تاریخ کے سنہرے صفحات پلٹو تو معلوم ہوگا اور اس کے بادشاہ اوپیرا اور سنگیت سبھاؤں میں راجہ اندر اور جوگی بنا کرتے تھے۔ بڑے نالائق اور نکمّے تھے وہ لوگ۔ جبھی تو یہ جگمگاتی ہوئی پرستان جیسی سرزمین ان سے چھین لی گئی اور یہ جو بکا ر اور بے مصرف سے تعلقہ داران کے زمانے کی یاد گار باقی رہ گئے ہیں۔ ان کی ریاستیں اور زمینیں ہماری نئی جمہوری اور نمائندہ حکومت اب بے چارے مظلوم کسانوں کو دے دے گی کیوں کہ یہ جنتا راج کا نیا زمانہ ہے۔ آیا خیالِ شریف میں تمہارے؟ اور تم نے اوما کی مرہٹی اسٹائل کی ساری کی بہت تعریف کی تھی اورکہا تھا کہ اس طرح کی ایک ساری تم اپنی بہن کے لیے دلایت لے جاؤ گے۔ تو وہ بھی کیا یاد کرے گی۔ بے چاری۔ اور تمہیں زینت کے جوڑے میں سجے ہوئے زرد اور بنفشی پھول بے حد آرٹسٹک نظر آتے تھے۔

دراصل بالوں میں پھول سجانے کا ہم لوگوں کو ایک خاص فن آتا ہے کیوں کہ ہندوستان پھولوں، خوشبوؤں اور نغموں کا ملک ہے۔ سمجھے؟ ارے کیا ہندوستان ہندوستان چلّا رہی ہو۔ ابھی گئی تھیں ملک کی واحد قومی جماعت کے خلاف الیکشن میں حصہ لینے۔ لیگ کی ایجنٹ کہیں کی۔ جم میں تم سے کہہ جو رہی ہوں کہ اس سے پولیٹکس کی باتیں نہ کرو۔ یہ تمہیں اپنے پاکستان کا مطلب بھی نہیں سمجھا سکے گی۔ آج تک نہیں سمجھا پائی اور پاکستان ہوجائے گا۔ مس حیدر! تو آپ سے ملنے کے لیے پہلے پاسپورٹ حاصل کرنا پڑے گا۔ یعنی بھئی اگر لاہور جانا ہے تو پہلے پاسپورٹ بنواتے پھرو، پھر محصول ادا کرو۔ بڑی طوالت ہوگی۔ بے وقوفی کی باتیں مت کرو۔ آنند۔کتنے چغد ہو۔ یہ تھوڑا ہی ہوگا۔ چلونا چیں۔ والٹر کے لیے ہال کی روشنیاں مدھم کردی گئیں۔ پاکستان کے متعلق بعد میں طے کرتے رہیں گے۔۔۔

عجیب۔۔۔ بے حد عجیب۔۔۔ کیا بات ہے جم۔ تمہاری آنکھوں میں پھر وہی جھلک لہرا اٹھی جیسے چڑیا کا ایک معصوم چھوٹا سا بچہ سخت کرب اور بے چینی میں مبتلا ہو اور بے بسی کے مارے تڑپ بھی نہ سکے۔ تم اپنی کرسی پیچھے سرکا کر ایک طرف کو کیوں جھک گئے۔ جب کہ والٹر کا ایک پیارا سا نغمہ اپنی پوری دلآویزی کے ساتھ بج رہا ہے اور مرمریں فلور پر رقصاں جوڑے ہال کے کناروں پر بکھری ہوئی میزوں اور کرسیوں کے قریب سے تیزی کے ساتھ چکّر کاٹتے ہوئے گزر رہے ہیں۔ غرارے اور ساریاں اور سائے۔ جاؤ تم بھی ناچواور ناچتے ہوئے انسانوں کے اس متحر ک اور رنگا رنگ جو ار بھاٹا میں کھو کربھول جاؤ کہ تم کہاں ہو اور کس سے باتیں کر رہے ہو۔ ہم لوگوں سے ملتے وقت تمہیں سوچنے کی عادت بالکل چھوڑ دینی چاہیے۔ جب اپنے ویلز کی شکار گاہوں کو واپس جاؤ گے اس وقت تمہیں کافی فرصت ہوگی کہ ہمارے کمینے پن، احسان فراموشی اور جنسی اور دوسری غلاظتوں کا اپنی عظمت، اپنی اعلیٰ تہذیب اور اپنی چاک کی سفید پہاڑیوں اور نیلے سمندروں کی خوب صورتی سے موازنہ کر کے ایک کتاب لکھ ڈالو۔ کہاں تک لڑے جاؤ گی بھائی! اس سے متعارف ہوئے ابھی تمہیں ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوا اور تم لڑتے لڑتے اس کا دماغ چاٹ گئیں۔۔۔
وہ بے چارہ اپنے ہم قوموں کی پچھلی نالائقیوں پر سخت شرمندہ اور نادم اور پشیماں ہے اور اس کی سبز آنکھوں میں وہی رومان، غمگینی، بے کسی اور شرارت کی ملی جلی لہریں جھلملا رہی ہیں اور اس کے معصوم اور بہادر برطانوی دل میں صرف یہی ایک خواہش ہے کہ تم اس کے ساتھ ایک آخری والٹر کرلو کیوں کہ کل صبح ہندوستان کو آزادی ملنے والی ہے اور اسے کان سے پکڑ کر تمہارے گھر سے نکال دیا جائے گا اور رات گہری ہوتی جارہی ہے اور آرکیسٹرا کی اسٹیج کے نیچے بھاری زرد پردوں کے سائے میں نیلگوں مرمریں فرش پر کیبرے کی دو سفید فام لڑکیوں نے شب کا آخری ناچ شروع کردیا ہے اور ہال کے بڑے بڑے اور چوڑے دریچوں کے باہر خوابیدہ فضاؤں میں ’گڈنائٹ ماری‘ کے اداس سر لرز رہے ہیں۔

جم کی آنکھیں نیند سے جھکی جارہی ہیں۔ جم تم خواب کیوں دیکھتے ہو؟ تمہیں خواب نہیں دیکھنے چاہئیں۔ انگریز ہمیشہ جاگتا رہتا ہے۔ وہ صرف مشین گن چلانا جانتا ہے۔ تم بھی بڑے جھوٹے ہو۔ پوزیئر ہو بڑے زبردست۔ تم غلط کہتے ہو کہ تمہیں اس پر اسرار سرزمین سے عشق ہے جس میں ٹیگور کے گیت ہیں اور اودے شنکر کا ناچ ہے اور ہمالیہ کی برفانی بلندیاں اور نیلوفر سے بھی بھری ہوئی وادیاں ہیں۔۔۔ اور۔۔۔ اور جہاں کی سیاہ آنکھوں والی لڑکیاں اپنے بالوں میں زرد اور بنفشی پھول سجاتی ہیں اور رو پہلے غرارے پہنتی ہیں۔ یہ سب غلط ہے، جھوٹ ہے، دھوکا ہے بہت بڑا۔ یہاں پر صرف گندگی ہے اور غربت اور بے مزگی اور زندگی کا ناگوار، ناقابلِ برداشت بوجھ۔ زندگی کا کوئی مقصد نہیں، کوئی مصرف نہیں۔ اس یک رنگی، اس بے کیفی، اس خستگی اور اکتاہٹ کے شدید احساس کو تم نہیں سمجھ سکتے۔ تم مے فیئر کے نیلگوں ایئر کنڈیشنڈ بال روم میں بیٹھ کر ہندوستان سے اظہارِ ہمدردی کرنا چاہتے ہو۔ تم گدھے ہو بہت اعلیٰ قسم کے ۔ سمجھے؟

اودھ کی شام بہت کالی اور بہت خنک رات میں تبدیل ہوگئی ہے اور مے فیئر کی گیسٹ نائٹ اختتام پر ہے۔ تمہاری پلکیں خوابوں کے بوجھ سے جھکی جارہی ہیں۔ زینت کے بالوں کے زرد پھول مرجھا کر فرش پر گر چکے ہیں۔ جنہیں روندتے ہوئے ہم ابھی نیچے چلے جائیں گے، ہم سب کے سب اور یہ جگمگاتا ہوا رقص کا ایوان خالی ہوجائے گا اور اس کی تیز برقی روشنیاں ایک ایک کر کے بجھادی جائیں گی اور آج کی رات کے بعد ہم سب تمہیں بھول جائیں گے۔ یہ سیاہ فام مدراسی کارٹونسٹ، جو ایک کونے میں خاموشی سے اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے اپنی اسکیچ بک میں تمہارے بے شمار پروفائل بنا چکا ہے، اور یہ خوب صورت اور ڈیشنگ اور مغرور ہمارے ہاں کے روزانہ انگریزی اخبار کا ایڈیٹر، اور آنند، ریڈیو کا یہ پروگرام ڈائریکٹر، جو انگریزی میں شاعری کرتے کرتے سب کو بور کردیتا ہے اور اوما جو ایڈی لیمار کی طرح حسین ہے اور تمہیں پورن برھما کا فلسفہ سمجھانے کی کوشش میں اپنی ساری شام ضائع کرچکی ہے۔ وہ کہہ رہی ہے کہ وہ اگلی اتوار کے پانیر کے میگزین سیکشن میں تمہارے متعلق ایک کہانی لکھے گی اور زینت، جوسپرانو ہے، اورمیرے بھائی کی منگیتر، وہ تمہاری یاد میں ایک گیت کمپوز کرنے والی ہے اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا ہے کہ میں تمہاری ایک تصویر بناؤں گی اور اس میں تمہاری آنکھوں کے لیے آسمان کی نیلاہٹ اور کشمیر کی گل پوش جھیلوں کی سبزی اور چاند کی بھیگی بھیگی کرنوں کی جھلملاہٹ کے رنگ استعمال کروں گی اور آنند اپنی انگریزی نظموں کا جو مجموعہ لندن سے شائع کروا رہا ہے اس میں تمہارے اوپر بھی چند شعر شامل کرے گا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ کل صبح کے بعد جب کہ تم ہندوستان سے جاچکے ہوگےتم اس آسانی اور اطمینان کے ساتھ فراموش کردیئے جاؤگے۔ جس آسانی اور اطمینان سے زندگی کی اور بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں اور واقعات بھلا دیئے جاتے ہیں۔

در اصل یہ سب بے کار کی باتیں ہیں۔ تم نے ہماری تصویروں کی تعریف کی، ہمارے رقص دیکھے، ہماری موسیقی کو پرکھا لیکن یقین جانوں کہ ہماری تصویریں، ہمارے افسانے اور ہمارے ناچ کوئی معنی نہیں رکھتے۔ جب زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے تو ان چیزوں کا کیا ہوسکتا ہے۔ کوئی End ہی نہیں۔ تو Meansکی بہتری یا افادیت میں سر کھپانے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہارے میٹر آف فیکٹ برطانوی دماغ کے لیے ذرا انوکھی باتیں ہیں نا؟ ہم سب تمہارے لیے بہت انوکھے ہیں، اوما اور زینت اور میں۔۔۔ سارے کے سارے۔ ہمارا فلسفہ بھی انوکھا ہے جسے ہم Confucianism کا فلسفہ کہتے ہیں۔ جو بہترین ہے اور انتہائی مفید۔ زندگی جس طرح بھی سامنے آئے اسے اپنا لو۔ نرالا فلسفہ ہے نا۔ ہر نرالی چیز ہی تو دل چسپ ہوتی ہے ورنہ تم اس وقت یہاں نہ ہوتے۔

یہ انسانیت کی لڑائی بے حد انوکھی تھی جس کی وجہ سے تم ویلش قلعے اور اپنی پہاڑی شکار گاہوں اور اپنا لارڈ باپ کو کشنوں پر سر ٹیکے لیبر گورنمنٹ کے بجٹ پر نکتہ چینی کرنے کے لیے چھوڑ کر اس وقت یہاں مے فیئر بال روم میں بیٹھے ویدانت کے فلسفے اور پاکستان کے جواز سے الجھنے کی کوشش میں مصروف ہو۔ یہ زندگی اور یہ شامیں بالکل نرالی ہیں جن میں آنے والے قحط اور مسٹر ہو ور کے اپنے اپنے اندیشے ظاہر کرنے کے بعد اپنی میزوں پر سے اٹھ اٹھ کر رقص میں گھومتے گھومتے متواتر پانچ چھ گھنٹے گزرجاتے ہیں اور ہم بالکل نہیں تھکتے۔

اوما انتہائی انوکھی لڑکی ہے کہ اعتقاداً سخت ہندو ہونے کے باوجود ایک مسلمان سے شادی کر کے غرارہ پہن کر سلام علیکم کہتی ہے اور میں شاید اس سے بھی زیادہ انوکھی ہوں کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی جے ہند اور نمسکار کر لیتی ہوں جب کہ تمہیں بتایا گیا ہے کہ ہم لوگ بازاروں میں ایک دوسرے کے گلے کاٹ ڈالتے ہیں۔

’گوڈسیو دی کنگ‘ بجنا شروع ہوگیا ہے۔ جم فوراً کھڑے ہوجاؤ۔ تم میرے ساتھ ان باتوں میں اس قدر محو ہوگئے کہ تمہیں اس کا بھی خیال نہیں رہا۔ ہم لوگ نیچے جارہے ہیں۔ اپنے نیشنل اینتھم کے بعدنیچے آکر پورٹیکو میں ہم سے رخصت ہولینا کیوں کہ رات بھیگی جارہی ہے اور سفیدے کے درختوں کے پیچھے سے ابھی چاند طلوع نہیں ہوا ہے اورتمہیں معلوم ہونا چاہیے جم کہ اندھیری راتوں میں ہم لڑکیوں کو خواہ مخواہ ڈرلگا کرتا ہے۔

رات خاموش ہے اور ہماری کار تیزی سے مے فیئر کے پورٹیکو کی نیلگوں اور خنک دھندلی روشنیوں کو پیچھے چھوڑتی آرہی ہے۔ دور لامارٹیز کالج کی پر شکوہ فرانسیسی عمارتوں کا سیاہ عکس ان کی سیڑھیوں کے نیچے سوتی ہوئی جھیل پر لرز رہا ہے۔ چپ چاپ اور بے حس! اور سکندر باغ، دلکشا اور بنارسی باغ کے وسیع سبز مخملیں میدان، اور سفیدے کے جنگل، مدھم چاندنی کے سنّاٹے میں سائیں سائیں کر رہے ہیں اور گومتی کے شاندار موتی محل برج کے کنارے دریا پر جھکی ہوئی سرخ پتھر کی ایک شہ نشین پر آسمان کے مقابلے میں سلہٹ سا نظر آرہا ہے اور اس کے سامنے چھتر منزل خاموشی اور غرور سے آدھی رات کے آسمان کی طرف اپنی طلائی چھتری بلند کیے اپنی رقص گاہ کی روشنیاں اپنے قدموں میں بہتی ہوئی گومتی کی سطح پر پھینک رہی ہے۔ یہ اودھ کی رات کا نقشہ ہے اور جم تم چند گھنٹوں بعد ان راتوں سے ہمیشہ کے لیے دور ہوجاؤگے اور تمہارا ڈیکوٹا طیارہ گومتی اور سر جو اور گنگا کی روپہلی لکیروں کے اوپر سے گزرتا، انہیں نیچے چھوڑتا ہوا دور مغربی سمندروں کے اونچے بادلوں میں کھو جائےگا۔

آدھی رات کا پرند پھر چلّا اٹھا ہے۔ چاروں طرف دور دور تک پھیلی ہوئی خوابیدہ کائنات پر پرستان کا سحر چھا رہا ہے۔ دریچے کے باہر، شریفے کے درختوں کی دوسری جانب سڑک کے کنارے وہ پرانا شاہی پھاٹک خاموشی سے ایستادہ ہے اور اس کی اوپر کی منزلوں اور شہ نشینوں میں مدھم روشنیاں جھلملا رہی ہیں۔دور چوکی دار باغ کی رکھوالی کرتے کرتے چلّا اُٹھتا ہے۔ ہَو ہَو ہَو۔۔۔ لا لا لا۔۔۔ اور اس کے برہا کی آواز بازگشت دیر تک گومتی کی روپہلی ریتوں پر گونجتی رہتی ہے اورایریل کے بانس پر بیٹھے ہوئے چنڈول کی تیز آواز رات کے سنّاٹے کو کاٹتی ہوئی اندھیرے کی وسعتوں میں پھیلتی جارہی ہے۔ چنڈول ذات کے لحاظ سے الّو کے چھوٹے بھائی کی ایک قسم ہے۔ جم بھی الّو کا چھوٹا بھائی ہے۔ اور مجھے یاد ہے کہ اس نے سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو کر ‘خدا حافظ کہتے وقت‘ کار کا دروازہ بند کرنے سے پہلے، جھک کر میرے غرارے کے پائنچے سمیٹ کر اندرا اٹھانے میں میری مدد کرتے ہوئے، جوفٹ بورڈ پر گرے جارہے تھے، اگلی سیٹ پر مسز رحمن کو سگریٹ کا دھواں اڑاتے دیکھ کر مجھ سے چپکے سے کہا تھا کہ اسے عورتوں کا سگریٹ پینا بالکل پسند نہیں اور وہ اپنی بہنوں کو بھی سگریٹ نہیں پینے دیتا کیوں کہ وہ امریکن نہیں انگریز ہے اور انگریز بہت قدامت پرست ہوتے ہیں۔۔۔

اور رات کے دو بجنے والے ہیں اور فرش پر برقی چولھے کے قریب کافی کی پیالیاں بے ترتیبی اور اکتاہٹ کے انداز میں منتشر ہیں۔ ابھی بہت پڑھنا ہے کیوں کہ امتحان میں ایک ہفتہ رہ گیا ہے۔ کیا کریں گے اتنا پڑھ کر جانے۔ پرانے زمانے کے بادشاہوں کا وہ پھاٹک اندھیرے میں زیادہ بلند، زیادہ ہیبت ناک اور زیادہ خوب صورت نظر آرہا ہے جس کی خوب صورتی اور عظمت سے دل میں ایک نا قابلِ بیان خوف سا محسوس ہوتا ہے اور جس کی عظیم الشان محرابوں کے نیچے سے دن بھر یو۔ ٹی۔ سی۔ کے جیپ اور لائبریری کو جانے یا وہاں سے واپس آنے والی لڑکیوں کے گروہ گزرتے رہتے ہیں اور میں پڑھنے کے بجائے تصویریں بنا رہی ہوں اور زینت کہتی ہے کہ تم تصویریں کیوں بناتی ہو۔ مت بنایا کرو تصویریں ، بلکہ کوئی اور مفید کام شروع کردو۔ مثلاً باورچی خانے کے باغ میں گو بھی کی کیاریاں تیار کرو تاکہ زیادہ غذا پیدا کی جاسکے اور گورنمنٹ ہاؤس کی ٹی پارٹیوں میں گورنر صاحب کی میم صاحب ہم لوگوں کی زیادہ تعریف کیا کریں اور زینت اکنومکس کی موٹی موٹی کتابوں کو قالین پر پھینک کر اپنی پیانو کی کاپی کے ورق الٹتے ہوئے سلام کا کوئی شعر گنگنا رہی ہے،

میں اگر زندہ ہوں پھر شامِ اودھ آئے گی، یا جانے کیا۔

واقعہ یہ ہے کہ ہم سب چغد ہیں۔
از
قرۃ العین حیدر

قرۃ العین حیدر - افسانہ
؟
 

سیما علی

لائبریرین
پلے کیسے پڑے گا، قرۃ العین کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے بندے کا انٹیلکچوئل ہونا ضروری ہے۔
بھیا ہم نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں اور بڑے جغادری قسم کے لوگوں کو یہ کہتے سناُ ہے یار “آگ کا دریا” میں کیا رکھا ہے پڑھنے کو۔۔۔۔۔جبکہ آگ کا دریا ناول ادب سے محبت کرنے والوں اور حساس دل رکھنے والے دوستوں نے اگر نہیں پڑھا تو کچھ نہیں پڑھا ۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
عمار نقوی
ہمیں قرة العین حیدر کیوں پسند ہیں اُنہی کے الفاظ میں بتاتے ہیں:
اردو کے نقاد انہیں سمجھ ہی نہیں پائے۔ وہ ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں اور فکشن کی سمجھ نہیں رکھتے۔ جمیل اختر کی کتاب ’انداز بیاں اور میں‘ ایک سوال کے جواب میں کہتی ہیں۔

’دیکھئے۔ میں بقراطی، فلسفیانہ گفتگو پسند نہیں کرتی۔ ایک کریٹیو رائٹر جب لکھنے بیٹھتا ہے تو ایک پورا کریٹیو پروسیس ہوتا ہے۔ آپ لوگ بعد میں بحث کرتے ہیں کہ اس طرح کیوں لکھا۔ کریٹیو رائٹر کے معاملے میں آپ لوگ بہت گڑ بڑ کرتے ہیں۔‘ افسانے اور ناول کے تعلق سے جب علم نفسیات کا ذکر آیا تو یہاں بھی اپنے غصے پر قابو رکھنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ انہوں نے صاف لفظوں میں کہا۔ ’مجھے کیا پتہ۔ کیا میں کسی سائیکڑک کے پاس جاؤں، تجزیہ کراؤں، پھر بتاؤں کہ کون سی نفسیات کام کررہی ہے۔

مجھے تاریخ اور ماضی سے دلچسپی کیوں ہے؟ اس کی نفسیات کیا ہے۔ لکھنے والے کی نفسیات کیا ہوتی ہے۔ قرة العین حیدر پر اچھا اور برا دونوں طرح کا لکھا گیا مگر آخر تک انہوں نے نقاد کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ میں اپنی بات یہیں سے شروع کرتا ہوں۔ کریٹیو رائٹر کا اپنا ایک کریٹیو پروسیس ہوتا ہے۔ وہ اپنی مخصوص فکر اور وژن کے ساتھ ایک ایسی کائنات میں ہوتا ہے، جس کا تجزیہ کرنا آسان نہیں۔ ان پر بے پناہ لکھا گیا۔ آج بھی لکھا جا رہا ہے۔
جیسے کسی مصور کے شاہکار کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔ اور ہر بار کینواس کی آڑی ترچھی لکیروں اور رنگوں کی آمیزش سے خیال ومعنی اور فکری بصیرت کی ایک نئی دنیا سامنے آجاتی ہے، اسی طرح یہ کہنا مشکل نہیں کہ قرة العین حیدر کی تحریروں تک رسائی کے لیے ابھی اور انتظار کرنا ہوگا۔ یہ بات غور طلب ہے کہ نقادوں کے رویہ سے آخر تک وہ بیزار کیوں رہیں۔ ؟ جب کہ ان ان کے نام قصیدے پڑھنے والے بھی کم نہیں تھے اور دوسری طرف ترقی پسند اور جدیدیت کے حامی بھی، جو ان کی تحریروں کے منکر تھے۔

عام فکشن کی طرح قرة العین حیدرکے فکشن کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔ اپنے ہم عصروں میں مختلف ایک طلسمی شخصیت کی حامل، اور اس شخصیت پر زبردست مطالعہ کا اثر کہ ماضی، حال اور مستقبل سب تخلیقی پروسیس کے عمل میں شعور کی روکا حصہ بن کر ایک دوسرے میں سما جاتے۔ پھر کہاں کا ماضی، کہاں کا مستقبل اور کیسا حال، خود قرة العین حیدر کو بھی کہاں پتہ ہوتا تھا۔ اس لیے شاہین کی پرواز کی طرح آسمانوں، لا مکانوں کی سیر کرتی ہوئی وہ ہندوستان کے ساتھ ساتھ ایک مکمل دنیا، ایک وسیع کائنات کو بھی اپنے ساتھ ساتھ لیے چلتی تھیں۔

منقول
 
Top