انگریزی کی محدودیت

انگریزی کی محدودیت

کہتے ہیں انگریزی بہت بڑی زبان ہے۔
پھر وہ ایک لے پر جھومنا شروع کر دیتے ہیں۔
مست ہو کر ناچنا گانا شروع کر دیتے ہیں
(اچھا اس گانے میں کوئی لے، تال، سر ،راگ، شاعری یا موسیقی تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں یہ غلاموں کا گانا ہے

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی
اقبال)

"انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے
یہ علم کی زبان ہے
یہ ایک "انٹرنیشنل لینگویج "ہے"۔

اور ایسا کہتے ہوئے ان کی گردن اکڑ جاتی ہے، سینہ پھول جاتا ہے اور سر تن جاتا ہے۔
گویا یہ ان کے اباو اجداد کی زبان ہے جس کی شان بیان کرنا حق پدری ادا کرنے کے مترادف ہے۔

جہاں تک علم، سائنس اور ٹیکنالوجی اور انگریزی کی بات ہے اس پر میں کئی دفعہ بات کر چکاہوں اور آپ سب کو یہ باور کروا چکا ہوں کہ یہ عقل سے اتنی ہی دور بات ہے جتنا کہ لندن سے نیویارک دور ہے اور اس میں حقیقت کا کوئی شائبہ تک نہیں۔

کئی بار میں ان سائنسدانوں، انجینئروں، ڈاکٹروں اور عالموں کی بات کر چکا ہوں جن کا انگریزوں یا انگریزی سے دور پار کا تعلق بھی نہیں تھا مگر وہ اپنے اپنے شعبے کے امام تھے، نابغہ ہائے روزگار تھے۔اس ضمن میں ارسطو، سقراط ، ہومر، ارشمیدس، جالینوس، بو علی سینا، رازی، غزالی، ابن الہیثم اور بقراط سے لے کر پاسچر، آئن سٹائن، لیون ہک، سٹراسبرگر، لیوازے، بوائل، ٹیگور، اقبال، کانٹ، گوئٹے، ٹالسٹائی، موپاساں، والٹیئر، گورکی، ڈاکٹر عبدالسلام اور بیشمار دوسرے اشخاص کا نام لیا جا سکتا ہے۔
اب آ جائیے اس بات کی طرف کہ انگریزی ایک" انٹرنیشنل لینگویج "ہے۔
اچھا آئیں دیکھیں یہ انٹرنیشنل لینگویج کہاں کہاں بولی جاتی ہے، لکھی، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔
برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، آدھا کینیڈا اور شاید
جنوبی افریقہ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ انٹرنیشنل لینگویج پورے یورپ میں صرف برطانیہ میں استعمال ہوتی ہے اور برطانیہ میں بھی ویلز میں ویلش اور اسکاٹ لینڈ میں اسکاٹش استعمال ہوتی ہے۔ برطانیہ کا ایک ہمسایہ ملک آئر لینڈ ہے وہاں آئرش زبان استعمال ہوتی ہے۔
جہاں تک آسٹریلیا کی بات ہے وہاں کی انگریزی اور برطانیہ کی انگریزی میں وہی تعلق ہے جو امیتابھ بچن کی بولی ہوئی ہندی اور اردو میں ہے۔
انگریزی پاکستان، بھارت، فلپائن، زمبابوے، کینیا، نائیجیریا، اور یوگنڈا میں بھی ہے، مگر کتنی ہے یہ آپ سب بخوبی جانتے ہیں۔
اچھا ان ملکوں میں چھدری چھدری انگریزی ہے مگر جہاں جہاں اور جس جس شعبے میں یہ ہے یہ بدعنوانی، بدانتظامی، نوسربازی، دھوکہ دہی، فریب کاری، وطن فروشی اور کئی دیگر گھناؤنے جرائم کے ساتھ گندھی ہوئی ملتی ہے۔ اس کا ان ممالک میں خالص حالت میں پایا جانا ناممکنات میں سے ایک بات ہے۔
اچھا اب اگر آپ انگریزی سیکھ کر فرانس جاتے ہیں تو گونگے اور بہرے،
اگر روس جاتے ہیں تو گونگے اور بہرے
اور یہی حال جرمنی، سویڈن، ڈنمارک، ناروے، سپین، پرتگال، مالٹا، ترکی، ایران، سعودی عرب، چین، ملائیشیا، انڈونیشیا، کوریا ، جاپان اور دنیا کے 200 دیگر ممالک میں جانے والوں کا بھی ہوتا ہے۔ ان ملکوں میں جتنے انگریزی بولنے والے ملتے ہیں شاید اس سے کچھ زیادہ ہی اردو بولنے والے بھی مل جائیں۔ اور اس پر طرہ یہ کہ فرانس اور جرمنی جیسے ملکوں میں انگریزی بولنے والوں سے باقاعدہ نفرت کی جاتی ہے اور ان کو سننے، سمجھنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
اب جب پاکستانی اپنے زعم میں انگریزی سیکھ کر اپنے آپ کو چیمپئن سمجھنا شروع کر دیتے ہیں تو دراصل وہ اپنے آپ کو دنیا کے ان چند ممالک تک محدود کر دیتے ہیں۔ ان کی تعلیم، ان کی ملازمتیں، ان کے کاروبار بھی اسی حوالے سے محدود ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان انہی ممالک کا غلام بن کر رہ گیا ہے حالانکہ دنیا ان ممالک کے دائرے سے بہت زیادہ ان ممالک کے دائرے سے باہر ہے مگر پاکستانیوں کی بدقسمتی ملاحظہ کریں کہ ہمارے غلام حکمرانوں اور پالیسی سازوں نے ہمیں دنیا کے ایک بہت بڑے حصے سے تعلقات بنانے سے، وہاں جا کر تعلیم حاصل کرنے سے ان کے ساتھ کاروباری تعلقات استوار کرنے سے روک دیا ہے۔
اب جن لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا ایک عالمی گاؤں (یا ایک عالمی کمرے) میں بدل چکی ہے، دنیا سکڑ چکی ہے اور اب یہاں (ان کی دانست میں) انگریزی کا چلن ہے وہ سوائے احمقوں کی جنت میں رہنے اور ڈبکیاں لگانے کے اور کچھ نہیں کر رہے۔ اب بھلا یہ تو بتائیں کہ وہ یورپی یونین جس کی کرنسی ایک ہے، جس کا جھنڈا ایک ہے، جس کی ایک پارلیمنٹ ہے، جس کے رکن ممالک کی سرحدیں ختم ہو چکی ہیں کیا اس یورپی یونین نے کسی ایک زبان کو رابطے کی زبان مان لیا ہے۔ کیا اس یورپی یونین نے انگریزی کی بالادستی کو تسلیم کر لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔
میں سائنس کا طالب علم ہوں۔ اب سائنس کی دنیا میں یونانی، لاطینی اور فرنچ کو انگریزی سے کہیں زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ (حقیقت یہ ہے کہ سائنسی اصطلاحات اور تشریحات میں انگریزی کا کوئی مقام نہیں ہے)۔ قانون اور طب میں یونانی اور لاطینی کو وہ اہمیت حاصل ہے جس کا انگریزی تصور بھی نہیں کر سکتی۔
فٹبال کی بین الا قوامی تنظیم (فیفا) اور اولمپکس (او آئی سی) کی بین الاقوامی تنظیموں کے نام تک انگریزی میں نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کی چھ سرکاری زبانیں ہیں جن میں سے ایک انگریزی بھی ہے۔ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ یہ اقوام متحدہ کی واحد سرکاری زبان تک نہیں ہے۔
اب جب یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک نے، اقوام متحدہ نے انگریزی کو کسی قابل نہیں سمجھا تو پاکستانی بزرجمہر کیا یورپی یونین کے رکن ممالک اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے زیادہ گلوبلیائی ہو گئے ہیں۔ ان کو علم ہونا چاہئیے کہ دنیا کے اندر پاکستانی غلاموں کے سوا انگریزی کو وہ اہمیت دینے کو کوئی ذی ہوش انسان تیار نہیں جو اہمیت یہ اپنے زعم میں انگریزی کو دے رہے ہیں۔

ہے خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب سے
جی انگریزی ایک انٹرنیشنل لینگویج ہے۔

جی کیوں کیونکہ ہم اسی طریقے سے اس ملک کے 20 کڑور لوگوں کو بدستور غلام بنائے رکھ سکتے ہیں۔ یہ ہے اس انٹرنیشنل لینگویج کی حقیقت۔

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی۔

کیا کیا جائے
ذ
تحریک پاکستان اردو- فیس بک
 
زبان ، الفاظ کا مجموعہ ۔۔۔ الفاظ ، انسان کی سوچ کے بنیادی بلاک، سوچ کی تعمیر الفاظ سے۔ اردو فقط اٹھارہ سو الفاظ کا ہیر پھیر اور انگریز ی دو لاکھ الفاظ کا مجموعہ ۔۔۔ کا کہہ رہے ہو بھئی ، عجب کہہ رہے ہو بھی ۔۔۔
 

زیک

مسافر
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ انٹرنیشنل لینگویج پورے یورپ میں صرف برطانیہ میں استعمال ہوتی ہے اور برطانیہ میں بھی ویلز میں ویلش اور اسکاٹ لینڈ میں اسکاٹش استعمال ہوتی ہے۔ برطانیہ کا ایک ہمسایہ ملک آئر لینڈ ہے وہاں آئرش زبان استعمال ہوتی ہے
ہاہا ہاہاہاہاہا ہاہاہا
 

ظفری

لائبریرین
میں تو جب مشین لینگوئج ( کوڈ) کو دیکھتا ہوں تو انگریزی زبان کی وسعت کا قائل ہوجاتا ہوں ۔
[ op | rs | rt | address/immediate]
35 3 8 68 decimal
100011 00011 01000 00000 00001 000100 binary​
 

زیک

مسافر
یہ آرٹیکل کا مصنف کون ہے اور کس غار میں چھپا ہوا ہے کہ اسے دنیا کا کچھ علم ہی نہیں۔ اسے چاہیئے کہ کچھ دنیا پھرے
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ آرٹیکل کا مصنف کون ہے اور کس غار میں چھپا ہوا ہے کہ اسے دنیا کا کچھ علم ہی نہیں۔ اسے چاہیئے کہ کچھ دنیا پھرے
تحریک پاکستان اردو- فیس بک
اگر اردو اس وقت انگریزی کا متبادل پیش کرنے کے قابل ہے تو اردو کو اپنا لینا چاہئے۔ اگر اردو اس قابل نہیں تو اس پر کام کیا جانا چاہئے، نہ کہ دوسری زبانوں پر کیچڑ اچھالا جائے :)
اچھا ان ملکوں میں چھدری چھدری انگریزی ہے مگر جہاں جہاں اور جس جس شعبے میں یہ ہے یہ بدعنوانی، بدانتظامی، نوسربازی، دھوکہ دہی، فریب کاری، وطن فروشی اور کئی دیگر گھناؤنے جرائم کے ساتھ گندھی ہوئی ملتی ہے۔ اس کا ان ممالک میں خالص حالت میں پایا جانا ناممکنات میں سے ایک بات ہے۔
معاف کیجئے گا، یہ افراد کا رویہ ہے، انگریزی کا نہیں۔ ورنہ اس وقت برطانیہ، آسٹریلیا وغیرہ کرپشن میں نمبر ون ہوتے :)
 

نایاب

لائبریرین
انگریزی زبان کی اہمیت سے انکار بلاشبہ " جہل " کا عکاس ۔۔۔۔۔
زبان کوئی بھی محدود نہیں ہوتی ہر زبان خودمیں مکمل ہوتی ہے ۔
اور اسے استعمال کرنے والے اس کے اک لفظ سے پوری داستان کا ابلاغ کرنے پر قادر ہوتے ہیں ۔
اور جو اس زبان سے انجان ہوں ان کے نزدیک یہ زبان " فضولیات " میں شامل قرار پاتی ہے ۔
درج بالا مضمون احساس کمتری کا عکاس ہے ۔
بہت دعائیں
 

صائمہ شاہ

محفلین
یہ آرٹیکل کا مصنف کون ہے اور کس غار میں چھپا ہوا ہے کہ اسے دنیا کا کچھ علم ہی نہیں۔ اسے چاہیئے کہ کچھ دنیا پھرے
ستم تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو خود احساس نہیں کہ یہ کس جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ایسی مضحکہ خیز پوسٹس پر اب بندہ انہیں مضحکہ خیز ریٹنگ نہ دے تو اور کیا کرے
 

نایاب

لائبریرین
اگر اردو اس وقت انگریزی کا متبادل پیش کرنے کے قابل ہے تو اردو کو اپنا لینا چاہئے۔ اگر اردو اس قابل نہیں تو اس پر کام کیا جانا چاہئے، نہ کہ دوسری زبانوں پر کیچڑ اچھالا جائے
پچھلے دنوں اردو ادب سے منسلک اک مشہور ہستی نے اردو کے " محدود " ہونے کا شکوہ کیا تھا ۔
 

زیک

مسافر
یوروپین یونین کی ۲۰۱۲ کی رپورٹ کے مطابق ای یو میں 38 فیصد لوگ جن کی مادری زبان انگریزی نہیں ہے وہ انگریزی بول سکتے ہیں۔
 

محمد امین

لائبریرین
فیس بک پر کچھ عرصہ پہلے تحریکِ نفاذِ اردو کا صفحہ جوائن کیا تھا اس امید پر کہ خالص علمی و تحقیقی گفتگو میں شرکت کا موقع ملے گا لیکن اسی طرح کی "چولیں" ہوتی ہیں وہاں پر ۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
ہنسی ہے کہ رک ہی نہیں رہی

اس مضمون کو لکھنے والے صاحب نے شاید کبھی اوکسفرڈ انگریزی لغت کا مطالعہ نہیں کیا۔ اس میں امریکہ، برطانیہ، انڈیا، آسٹریلیا، نیوزیلینڈ وغیرہ کی انگریزی کو باقاعدہ انگریزی کا ڈایالیکٹ لکھا گیا ہے۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صرف ذاتی تجربہ بیان کرتا ہوں کہ انگریزی زبان گلوبل اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ کاروبار کی زبان ہے، میرا واسطہ تقریباً ساری دنیا کے خریداروں سے رہتا ہے، مشرقی یورپ، مغربی یورپ، روس، براعظم شمالی امریکہ، براعظم جنوبی امریکہ، براعطم ایشیا، اور آسٹریلیا وغیرہ اور واحد مشترک چیز انگریزی زبان ہے جس کی وجہ سے ان سے رابطہ ممکن ہوتا ہے۔ انگریزی نہ ہوتی تو میرے جیسے لاکھوں کروڑوں لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے کہ کون بیس پچیس زبانیں سیکھ پاتا اور کاروبار کیسے ممکن ہوتا۔

یہ کوئی سات آٹھ سال پہلے کی بات ہے، ایک آسٹریلین خریدار ہماری کمپنی کو بالکل اچانک ہی مل گیا۔ اُس نے کہا وہ چین سے خرید رہے تھے گو آپ کی کوالٹی ان جیسی نہیں لیکن ہم پھر بھی آپ کے پاس آ رہے ہیں اور وجہ یہ ہے کہ چین میں ہماری ہدایات نہیں سمجھی جاتیں، اُن کے ساتھ ہمیں زبان کا مسؑلہ ہے۔
 
زبان ، الفاظ کا مجموعہ ۔۔۔ الفاظ ، انسان کی سوچ کے بنیادی بلاک، سوچ کی تعمیر الفاظ سے۔ اردو فقط اٹھارہ سو الفاظ کا ہیر پھیر اور انگریز ی دو لاکھ الفاظ کا مجموعہ ۔۔۔ کا کہہ رہے ہو بھئی ، عجب کہہ رہے ہو بھی ۔۔۔
اس تحریر میں اردو اور انگلش کے بارے میں کوئی تقابل نہیں کیا گیا صرف انگلش کے بارے میں ایک خاص حوالے اور پس منظر سے بات کی گئی ہے ، تو ذخیرہ الفاظ کے مبینہ تقابلی اعداد بیان کرکے آپ کس بات کو عجب قرار دے رہے ہیں؟
عربی کے ذخیرہ الفاظ دس لاکھ سے کہیں زیادہ بیان کیے جاتے ہے
 
انگریزی کی محدودیت
جہاں تک آسٹریلیا کی بات ہے وہاں کی انگریزی اور برطانیہ کی انگریزی میں وہی تعلق ہے جو امیتابھ بچن کی بولی ہوئی ہندی اور اردو میں ہے۔
ہنسی ہے کہ رک ہی نہیں رہی
Australian English differs from other varieties of English in vocabulary, accent, pronunciation, register, grammar and spelling.
http://en.wikipedia.org/wiki/Australian_English
 
صرف ذاتی تجربہ بیان کرتا ہوں کہ انگریزی زبان گلوبل اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ کاروبار کی زبان ہے، میرا واسطہ تقریباً ساری دنیا کے خریداروں سے رہتا ہے، مشرقی یورپ، مغربی یورپ، روس، براعظم شمالی امریکہ، براعظم جنوبی امریکہ، براعطم ایشیا، اور آسٹریلیا وغیرہ اور واحد مشترک چیز انگریزی زبان ہے جس کی وجہ سے ان سے رابطہ ممکن ہوتا ہے۔ انگریزی نہ ہوتی تو میرے جیسے لاکھوں کروڑوں لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے کہ کون بیس پچیس زبانیں سیکھ پاتا اور کاروبار کیسے ممکن ہوتا۔

یہ کوئی سات آٹھ سال پہلے کی بات ہے، ایک آسٹریلین خریدار ہماری کمپنی کو بالکل اچانک ہی مل گیا۔ اُس نے کہا وہ چین سے خرید رہے تھے گو آپ کی کوالٹی ان جیسی نہیں لیکن ہم پھر بھی آپ کے پاس آ رہے ہیں اور وجہ یہ ہے کہ چین میں ہماری ہدایات نہیں سمجھی جاتیں، اُن کے ساتھ ہمیں زبان کا مسؑلہ ہے۔
ویسے چین کے ارباب اختیار اگر اپنے ملک میں انگلش زبان کو رائج کر دیتے ( سرکاری اور تعلیمی زبان انگلش کو قرار دیتے ) تو اس آسٹریلین خریدار سے ہاتھ نہ دھوتے اور لیکن پھر امکان ہے کہ راوی چین ہی چین لکھتا اور چین اتنی ترقی نہ کر سکتا
استثناء کھبی بھی کوئی اصول نہیں بناتا، جیسا کہ اس وقت پورے عالم میں چین کی بنی اشیاء کی بھرمار ہے
اس آسٹریلین خریدار نے گھاٹے کا سودا کیا کہ معیار پر سمجھوتہ کر لیا، اس کو میرا مشورہ ہے کہ کسی مترجم سے رجوع کر لیتا تو یوں نقصان نہ اٹھاتا
 
Top