جاسمن
لائبریرین
انڈے کی چوری
فرسٹ ائیر فول کے اولین دن تھے۔ ابھی تک ہم سوشل ورک اور این جی او جیسے الفاظ سے ناواقف تھے۔ لیکن کائنات بنانے والے نے ہمیں توفیق دی اور ہم نے ایک چھوٹا سا گروپ بنایا اور اس کا نام "انجمنِآبروئے پاکستان" رکھا۔ اس کے سات مقاصد تھے۔
جو کچھ تھوڑا بہت یاد ہے، لکھ رہی ہوں۔
1۔ دین پہ عمل۔ (کم از کم ایک ماہ میں ہم کسی ایک بات پہ عمل کی کوشش کریں گے تاکہ یہ ہماری عادت میں شامل ہو جائے۔)(ہم پھر اس پہ بات کرتے تھے کہ میری یہ عادت پختہ ہوئی یا ابھی وقت لگے گا وغیرہ)
2۔ تبلیغ: وہی اصول ایک ماہ یا کچھ زیادہ عرصے بعد اپنے ارد گرد لوگوں کو احسن طریقے سے بتایا جائے گا۔
3. خود کی اصلاح
4. لوگوں کی اصلاح: تیسرے نمبر والی خود کی اصلاح کرنے کے بعد یہی اصلاح اپنے ارد گرد لوگوں کی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
نوٹ: حالانکہ یہ باتیں ملتی جلتی تھیں لیکن ہمیں جتنا اور جیسا سمجھ آیا۔ اور دوسرے ہم دین پہ عمل میں عبادات و معاملات وغیرہ کو فوقیت دیتے اور اصلاح میں عمومی عادات وغیرہ۔
5. علم کا فروغ: پڑھائی میں کمزور طالبات کی مدد۔ ملازمین کو ان کے بچوں کو سکول داخل کرانے پہ راغب کرنا اور عملی مدد۔
6. فنڈ جمع کرنا۔
7. اس فنڈ سے مستحق لوگوں کی مدد
بعد میں شجرکاری اور کالج کی صفائی کا خیال رکھنا، خوبصورت بنانا، بک بینک، مشورہ سینٹر وغیرہ بھی شامل کیے۔
بچکانہ سی کوششیں تھیں۔ اس انجمن کی صدر مجھے بنایا گیا اور مختلف عہدے بشمول خزانچی تقسیم ہوئے۔ ہم جیب خرچ جمع کرتے اور کچھ پیسے اپنے گھر والوں یا رشتے داروں سے لیتے۔
ان ہی دنوں کی بات ہے کہ ہماری شامت آئی اور ہم نے ہاسٹل کا رُخ کر لیا۔ یعنی داخلِ ہاسٹل ہو گئے۔ فوری طور پہ جو کمرہ ہمیں دیا گیا، وہاں ہماری روم میٹ ہمارے مزاج کی تھیں۔ ہاسٹل میں راوی بہت اچھا اچھا لکھ رہا تھا بس راوی نے ہاسٹل کی وارڈن کے بارے ڈنڈی مار دی تھی۔ مزاج اور نام کی شمس تھیں۔ انھیں نہ جانے کیا سوجھی کہ ہمیں تحریم علی(فرضی نام) کا روم میٹ بنا دیا اور اگلے دن اس کے کمرے میں منتقل ہونے کا فرمانِ شمس تھا۔ ہم نے خوب آہ و بکا کی۔ ہماری روم میٹ ہمیں ٹُکر ٹُکر تکتی رہیں۔ حفیظ کے مصرع میں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ
ہم کر رہے ہیں آہ و بکا، وہ مزے میں ہیں
اس جبری حکم نامے کے بعد ہمیں ہمارے کئی بے دردوں نے خوب خوب ڈرایا تھا۔ کہاں تم مولون اور کہاں وہ ڈسکو! تم اس کمرے میں نماز کیسے پڑھو گی؟ وہ ہر وقت انگریزی گانے سنتی ہے اور وہ بھی تیز آواز میں۔ وہ سگریٹ پیتی ہے۔ تم کیسے رہو گی اس کے ساتھ۔ وہ بس انگریزی بولتی ہے۔
گانے سننے پہ تو ہمیں اعتراض نہیں تھا، لیکن انگریزی گانے۔!! یہ بات البتہ ڈرانے والی تھی۔ اور بولتی بھی انگریزی ہے۔ لو جی! ہم مزید خوفزدہ ہو گئے۔ ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ کالج ، محلے و رشتے داروں میں ہمیں مولون کیوں سمجھا جاتا رہا؟ بلکہ اہلِ محلہ تو ہمیں بچپن سے اللہ والی کہتے تھے۔ یہاں شہزاد مارکیٹ میں ایک پرانے محلے دار ملے جو ہماری بچپن کی سہیلی کے بھائی تھے، وہ ہمیں اللہ والی پکار رہے تھے۔بچپن میں تو ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا لیکن اب بہت شرمندہ۔ کہاں ہم کہاں یہ مقام! لیکن وہ کہنے لگے کہ بھئی ہم تو اسی نام سے پکاریں گے۔ حالانکہ میں ایک عام سی لڑکی تھی۔ بس بچپن میں جب بولنا سیکھا تو اکثر بچوں کی طرح اللہ کہنے لگی اور ساتھ ساتھ زور شور سے سر بھی اوپر نیچے ہلاتی جاتی تھی۔ خیر تو ذکر ہو رہا تھا دوسری راہداری میں واقع اس کمرے میں جانے کا جہاں ہماری نئی روم میٹ تھی۔ ذہن میں ہاسٹل کی لڑکیوں کے ڈراوے تھے (سگرٹ، ٹیپ ریکارڈر پہ انگریزی گانے، ڈانس، انگریزی ہی بولتی ہے، اور نجانے کیا کیا)
مرتے کیا نہ کرتے، دو برس کا سامان تھا، سو باندھ لیا۔ ذہن کے پردے پہ پنجابی فلموں کے ہیرو کی وہ چلتی تصویر آ رہی تھی جس میں وہ ایک ڈنڈا شانے پہ رکھے چلا جا رہا ہے کہ جس ڈنڈے کے پرلے سرے پہ ایک گھٹڑی بندھی ہے۔ ہمارے پاس ایسا ڈنڈا نہیں تھا، نہ ہی گھٹڑی تھی۔ بیگ ہی شانے پہ لٹکائے، کچھ سامان ہاتھ میں پکڑے اس کمرے کی اور چل دیے۔ لرزتے کانپتے کمرے میں داخل ہوئے۔ دو بیڈز کا کمرہ تھا۔ تحریم موجود نہیں تھی۔ اطمینان کا سانس لیا۔ اس کی چارپائی کے پیچھے میز پہ ٹیپ ریکارڈر موجود تھا جو کہ خاموش تھا۔
اب ہوتا یہ تھا کہ جب میں کمرے میں موجود ہوتی، وہ باہر ہوتی اور جب وہ کمرے میں آتی تو میں باہر چلی جاتی۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے ڈرتے تھے۔ رات کو ہماری مجبوری تھی اکھٹے رہنا۔ کچھ دنوں بعد بیچاری عادت سے مجبور اور میری خاموشی سے حوصلہ پا کر ہلکی آواز میں ٹیپ ریکارڈر پہ انگریزی نغمے چلانے لگی۔ میں اردو میڈیم کی پیدوار پہلی بار انگریزی نغمے خاموشی سے سن رہی تھی لیکن سمجھ ککھ نہیں آتی تھی۔(اب بھی نہیں آتی
میں اپنے حساب کی شرارتی تھی اور وہ اپنے حساب کی۔ اس کے گروپ میں چند سینئیر لڑکیاں بھی تھیں۔ یہ لوگ آدھی رات کو دوسری لڑکیوں کو ستانے کے لیے کوئی نہ کوئی نئی حرکات کرتیں۔ کبھی دروازے کے باہر کومنٹس لکھ دیے۔ ٹوتھ پیسٹ سے دروازے پہ کچھ شکل بنا دی۔ خاص کر دو بہنیں ان کے نشانے پہ تھیں۔ وہ بہنیں بے حد وہمی تھیں۔ بستر کی چادریں تو دھوتی تھیں لیکن گدے وغیرہ بھی دھوتی رہتی تھیں۔
ان ہی دنوں مس شمس نے مجھے بلا کے تحریم اینڈ گروپ کی جاسوسی کا حکم دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ گروپ ہاسٹل کا ماحول خراب کر رہا ہے۔ میں ان کی حرکتوں سے مس شمس کو باخبر رکھوں۔ میں ازحد پریشان تھی۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیا کروں؟ یہ پتہ چل گیا کہ مس شمس نے مجھے تحریم کا روم میٹ کیوں بنایا۔ بجائے جاسوسی کرنے کے میں رفتہ رفتہ اس گروپ کا حصہ بن گئی۔ یہ لوگ مجھے اچھے لگنے لگے۔ مجھے ان کی شرارتوں میں کوئی ایسی قابلِ گرفت چیز نظر نہیں آ تی تھی کہ جس کو بنیاد بنا کے ان کی کردار کشی کی جائے۔ شرارتیں ہلکی پھلکی تھیں اور میرے خیال میں کسی کو نقصان نہیں پہنچاتی تھیں۔ تاہم جن لڑکیوں سے متعلق دروازوں اور راہداری کی دیواروں پہ پیپر پہ کومنٹس چپکائے ہوتے، وہ چین بچیں ہوتی تھیں۔ خود مس شمس مسکراہٹ تک سے نابلد تھیں تو ایسے میں یہ شرارتیں انھیں ناقابلِ معافی لگتیں۔ وہ پیچ و تاب کھاتی رہتیں اور مجھ سے توقع رکھتیں کہ میں انھیں اندر کے رازوں سے باخبر رکھوں گی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ میں نہ سچ بول سکتی تھی نہ ہی جھوٹ۔ جان عجب جنجال میں پھنسی تھی۔ سو بس خاموشی اختیار کیے رکھتی۔
کچھ دنوں کے لیے گھر چلی گئی اور وہیں سے روز ڈے سکالر کے طور پہ کالج جانے لگی۔ ڈے سکالرز کو ہاسٹل میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ بہت سختی تھی۔ چاہے ہم ہاسٹل کے تھے لیکن جب ہم گھر سے کالج جاتے تو ہاسٹل نہیں جا سکتے تھے۔ ایک دن ہمیں کالے کوے نے کاٹا اور تین سہیلیوں(ساری ڈے سکالرز تھیں) کے ساتھ (پوری انجمنِ آبروئے پاکستان یا چھڈ یار گروپ) ہم ہاسٹل جا پہنچے۔ سامنے سے مس شمس تشریف لاتی نظر آئیں۔ ایک استانی صاحبہ کالج کی تقریبات میں آنے والے مہمانوں کے لیے ہاسٹل سے برتن وغیرہ لینے آئی ہوئی تھیں۔ سہیلیاں تو ان کے ساتھ ایسے مصروف ہو گئیں کہ جیسے وہ برتنوں کو سر پہ رکھ کے لے جائیں گی۔ اور ہم ٹی وی لاؤنج میں پردے کے پیچھے جا چھپے۔ مس شمس کسی کے ساتھ نجانے کیا کیا چیک کراتی ہوئی ٹی وی لاؤنج ہی میں آ گئیں۔ یہ پردہ۔۔۔ انھوں نے پردے کا نجانے کیا کرنا تھا۔۔۔۔ پھر راوی جو لکھتا ہے، وہ بتانے والا نہیں۔ ایک بار پھر ایسا ہوا کہ میں اپنی کوئی چیز لینے ہاسٹل چلی گئی۔ ظاہر ہے کہ بہت سا سامان ہاسٹل پڑا تھا۔ مس شمس کو دیکھ کے ایک کمرے میں گھس گئی اور ان کی آواز قریب آتی سن کے چارپائی کے نیچے گھس گئی۔ وہ آئیں اور چارپائی کے نیچے جھانکنے لگیں۔ راوی دوسری بار پھر خاموش ہے۔ ویسے یہ راوی بڑے گیپ چھوڑتا ہے۔
آخرکار میں پھر ہاسٹل آ گئی۔ تحریم سے میری دوستی تو نہیں ہو سکی تاہم ہم اچھے روم میٹس بن گئے۔ باتیں بھی کرنے لگے۔ اس کی انگریزی سے میں خوفزدہ تھی لیکن وہ ٹھیک ٹھاک اردو بولتی تھی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے حلقۂ احباب کے وہ ڈراوے بتائے جو ہمیں اک دوجے کے بارے میں دیے گئے تھے۔ پھر ہم ہاتھ پہ ہاتھ مار کے خوب ہنسے۔ وہ بنا کسی خوف کے اپنا ٹیپ ریکارڈر چلا لیتی۔ کبھی کبھی ہم بھی کوئی گانا سن لیتے۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ وہاں اذان کی آواز آتی تھی یا نہیں۔ لیکن میری نماز کے وقت وہ ٹیپ ریکارڈر بند کر دیتی اور مغرب کے وقت بھی۔ ایک دن ہم باتیں کر رہے تھے کہ اس نے اپنا واقعہ سنایا۔ اس کی زبانی سنیں۔
میری بہن سنگاپور جا رہی تھی اور بھائی چین جا رہا تھا۔ میں نے دونوں ہی نہیں دیکھے تھے۔ بہن کہتی کہ اس کے ساتھ جاؤں کہ سنگاپور بے حد خوبصورت ہے جبکہ بھائی چین کے حق میں دلائل دیتا۔ میں نے چین کو فوقیت دی اور اس کے ساتھ چین چلی گئی۔ ائیرپورٹ سے شہر جاتے ہوئے کچھ مایوسی ہوئی لیکن پھر مجھے بہت بہت اچھا لگا۔ وہاں لوگ سائیکلوں پہ سوار تھے۔ ہر طرف سائکلیں تھیں۔ چین بہت خوبصورت اور صاف ستھرا تھا۔ وہاں کے سینما میں غلام محی الدین اور بابرہ شریف کی ایک پرانی پاکستانی فلم لگی تھی, "میرا نام ہے محبت"۔ میں وہ فلم دیکھنے چلی گئی۔ وہ چینی زبان میں ڈب تھی۔ اداکار چیاؤنگ پیاؤنگ کر رہے تھے۔ گانے بھی چیاؤؤؤں۔۔۔ شیاؤؤؤں۔۔۔پیانگ لیانگ ۔۔۔ آخر میں وہ مر جاتے ہیں۔ فلم ختم ہوئی تو چینی زاروقطار رو رہے تھے کہ ان کے ہاں اختتام ٹریجک نہیں ہوتا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کرداروں کو نہیں مرنا چاہیے تھا۔
میرے لیے یہ باتیں دوسری دنیاؤں کی باتیں تھیں۔ میں گو سفر ناموں کی شکل میں دنیا گھومتی رہتی تھی لیکن کسی باہر کی سیر کرنے والے سے میری پہلی ملاقات تھی۔ میری چھوٹی سی دنیا میں "چلتے ہو تو چین کو چلیے" کب کی آ چکی تھی۔ پھر بھی یہ باتیں مجھے بہت اچھی لگیں۔
تحریم اینڈ کمپنی کی میں باقاعدہ ممبر بن گئی۔ کچھ بے ضرر شرارتوں میں شریک بھی ہونے لگی۔ ایک بار ہم دوپہر کا کھانا کھانے ہاسٹل کے میس میں گئے تو انڈے آلو بنے تھے۔ ابلے انڈے الگ رکھے تھے اور انڈوں کی تعداد، لڑکیوں کی گنتی کے مطابق تھی۔ ہمارا گروپ ایک الگ میزپہ بیٹھا تھا۔ ہم نے ایک ایک انڈہ فالتو لے لیا۔ ظاہر ہے کہ انڈے کم پڑ گئے اور ڈھونڈیا پڑ گئی۔ ہم نے فالتو انڈہ بغل میں دبا لیا۔ دروازے پہ میس کی ڈیوٹی پہ موجود لڑکیاں تلاشی لے رہی تھیں۔ لیکن ہمارے ہاتھ خالی تھے۔ اپنے کمرے میں جا کے ہم نے انڈے کھائے اور خوب ہنسے۔ یہ میری پہلی اور آخری چوری تھی۔ امتحانات سے پہلے ہی میں نے ہاسٹل چھوڑ دیا تھا۔ امتحانات کے بعد وہ بھی کہیں چلی گئی۔ طویل عرصے بعد چند ہاسٹل فیلوز سے کبھی کبھار ملاقات ہوئی لیکن نہ ہی تحریم سے کبھی ملاقات ہو سکی اور نہ ہی اس کے بارے میں کچھ پتہ چلا۔
جاسمن