انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
مدینے جا کے پتہ چلتا ہے کہ لوگ کیوں دعائیں دیتے ہیں۔
"اللہ تینوں مدینے لے جائے!"
بیشک بیشک وہاں جا کر ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتنی بڑی دعا ہے ۔۔۔ہماری ایک کولیگ دعا کرتیں تھیں کہ مالک مجھے وہاں سے واپس نہیں آنا اور جس دن واپس آنا تھا اُسی دن اُنکا انتقال وہاں ہوا ۔اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی ۔۔کیسی خوش قسمتی ہے ۔جو مانگا مل گیا پروردگار اُنکے درجات بلند فرمائے آمین
 

رباب واسطی

محفلین
ایک دن حضرت موسی ( علیہ السلام ) نے اللہ سے پوچھا . . الہی جب کوئی تیرا فرمابردار بندہ تجھے پکارتا ہے . .
تو
تو جواب کیسے دیتا ہے . .
اللہ نے فرمایا
میں جواب میں کہتا ہوں
لبیک میں موجود ہوں۔
۔۔۔ بولو کیا مانگتے ہو . .
حضرت موسی ( علیہ السلام ) نے پوچھا
اور
اگر کوئی
تیرے گنہگار بندہ تجھے پکارے تو اسے جواب میں کیا فرماتا ہے …
اللہ نے فرمایا
گنہگار کے جواب میں دو مرتبہ فرماتا ہوں
لبیک لبیک یا عبدی. .
موسی ( علیہ السلام ) نے پوچھا
الہی !
گنہگار کے جواب میں دو مرتبہ کیوں فرمایا . .
موسی یہ اِس لیے کہ میرے فرمابردار بندے کو تو اپنے نیک عمل پر بھی بھروسہ ہوتا ہے
اور
گنہگار کو تو صرف میری رحمت پر ہی بھروسہ رہتا ہے . .
پھر
جسے صرف میری رحمت پر ہی بھروسہ ہو اِس کے لیے میری رحمت کیوں جوش میں نہ آئے
۔۔۔۔سبحان اللہ ...۔۔
اللہ اکبر اللہُ اکبر
سبحان اللہ
 

سیما علی

لائبریرین
یہ ہوتا ہے انصاف۔۔
ملزم ایک 15 سالہ لڑکا تھا۔ ایک اسٹور سے چوری کرتا ہوا پکڑا گیا۔ پکڑے جانے پر گارڈ کی گرفت سے بھاگنے کی کوشش کی۔ مزاحمت کے دوران اسٹور کا ایک شیلف بھی ٹوٹا۔

جج نے فرد ِ جرم سنی اور لڑکے سے پوچھا "تم نے واقعی کچھ چرایا تھا؟"

"بریڈ اور پنیر کا پیکٹ" لڑکے نے اعتراف کرلیا۔

"کیوں؟"

"مجھے ضرورت تھی" لڑکے نے مختصر جواب دیا۔

"خرید لیتے"

"پیسے نہیں تھے"

"گھر والوں سے لے لیتے"

"گھر پر صرف ماں ہے۔ بیمار اور بے روزگار۔ بریڈ اور پنیر اسی کے لئے چرائی تھی۔"

"تم کچھ کام نہیں کرتے؟"

"کرتا تھا ایک کار واش میں۔ ماں کی دیکھ بھال کے لئے ایک دن کی چھٹی کی تو نکال دیا گیا۔"

"تم کسی سے مدد مانگ لیتے"

"صبح سے مانگ رہا تھا۔ کسی نے ہیلپ نہیں کی"

جرح ختم ہوئی اور جج نے فیصلہ سنانا شروع کردیا۔

"چوری اور خصوصاً بریڈ کی چوری بہت ہولناک جرم ہے۔ اور اس جرم کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ عدالت میں موجود ہر شخص، مجھ سمیت۔ اس چوری کا مجرم ہے۔ میں یہاں موجود ہر فرد اور خود پر 10 ڈالر جرمانہ عائد کرتا ہوں۔ دس ڈالر ادا کئے بغیر کوئی شخص کورٹ سے باہر نہیں جاسکتا۔" یہ کہہ کر جج نے اپنی جیب سے 10 ڈالر نکال کر میز پر رکھ دیئے۔
"اس کے علاوہ میں اسٹور انتظامیہ پر 1000 ڈالر جرمانہ کرتا ہوں کہ اس نے ایک بھوکے بچے سے غیر انسانی سلوک کرتے ہوئے، اسے پولیس کے حوالے کیا۔ اگر 24 گھنٹے میں جرمانہ جمع نہ کرایا گیا تو کورٹ اسٹور سیل کرنے کا حکم دے گی۔"

فیصلے کے آخری ریمارک یہ تھے: "اسٹور انتظامیہ اور حاضرین پر جرمانے کی رقم لڑکے کو ادا کرتے ہوئے، عدالت اس سے معافی طلب کرتی ہے۔"
فیصلہ سننے کے بعد حاضرین تو اشک بار تھے ہی، اس لڑکے کی تو گویا ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ اور وہ بار بار جج کو دیکھ رہا تھا۔
("کفر" کے معاشرے ایسے ہی نہیں پھل پھول رہے۔ اپنے شہریوں کو انصاف ہی نہیں عدل بھی فراہم کرتے ہیں)
 

رباب واسطی

محفلین
طوطا رشتے

منقول ۔۔۔۔
میں سات سال کی تھی جب میرے ننھیال میں سب سے چھوٹی ممانی بیاہ کر آئیں. نئی نویلی, کم عمر اور اندرون لاہور سے تعلق رکھنے والی ممانی نہایت معصوم اور ماں باپ کی لاڈلی تھیں. معصوم اس لئے کہ انکی ٹانگ برابر سسرالی بچے ممانی کے خالص اندرونِ لاہوری لہجے سے حظ اُٹھاتے اور اُنکو خبر بھی نہ ہوتی. ممانی میں میری دلچسبی کی واحد وجہ اُنکا ایک شوق تھا. ممانی طوطوں کی عاشق تھیں اور وہ بھی بولنے والے طوطے. بیاہ کے بعد اُنکے ہمراہ دو طوطے بھی جہیز میں آئے جبکہ مجھے پورا یقین ہے کہ باقی کے طوطے بھی وہ ضرور لے آتیں اگر اُنکی ماں نے اُنہیں سسرالی ذمہ داریوں سے ڈرایا نہ ہوتا. اب سارا دن وہ طوطے ٹیں،ٹیں اور بی بی جی کی رٹ لگائے رکھتے اور میری نانی اماں اس بے وقت کی راگنی نے پریشان جھنجھلاہٹ میں مبتلا رہتیں. میں نہیں جانتی میری والدہ، نانی اماں اور ممانی میں کیا مذاکرات طے پائے لیکن ان میں سے لمبی چونچ والا طوطا جو زیادہ زبان چلاتا تھا وہ لاہور سے واپسی کے سفر میں ہمارے ہمراہ تھا. شاید ممانی کو بھی شادی کے بعد باتیں کرنے کے لئے جیتا جاگتا ایک انسان مل گیا تو طوطا اپنی اہمیت کھو بیٹھا.
قصہ مختصر وہ طوطا ہمارے گھر آ گیا. میری بہنیں سیلانی طبیعت کی مالک تھیں اور میری والدہ ہمہ وقت گھر کے کاموں میں مصروف لے دے کر میں بچتی جسے گرمیوں کی لمبی دوپہروں میں جھلساتی گرمی میں خود سے زیادہ طوطے کی فکر رہتی. شاید تب میں نے اُسے کوئی نام بھی دیا ہو جو اب تو یاد نہیں لیکن میں نے طوطے کو فائیو سٹار ہوٹل والی سہولیات دینی شروع کر دیں. میری امی چیختی رہتیں کہ ابھی اسکو کچھ کھلایا ہے اور مت کھلاؤ لیکن میں بے دام ملازم کی مانند اپنی دُھن میں مست اُسکی پیٹ پوجا میں مصروف رہتی.
طوطے کی خاصیت یہ تھی کہ جب اُسے بھوک لگتی تو وہ چِلا چِلا کر آسمان سر پر اُٹھا لیتا بی بی جی چوری کھانی ہے بی بی جی چوری کھانی ہے. اب صورتحال یہ تھی کہ بی بی جی بغیر مانگے ہی ٹھنساتی رہتی اُسکے بولنے کی نوبت ہی نہ آتی. مجھے ہر وقت فکر رہتی کہ طوطے کو کچھ ہو نہ جائے اور کچھ ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے تو میری بینڈ بجا دینی ہے کہ بھئی بتاؤ ایک جان کی ذمہ داری ڈالی وہ بھی نہیں نبھائی گئی. سکول میں دل لگانا عذاب ہو گیا طوطے سے محبت سے زیادہ اُسکے مرنے کا خوف دامن گیر رہتا. خوراک کی زیادتی سے جب وہ آنکھیں بند کرتا تو میری جان پر بن آتی کہ شاید کمزوری کی وجہ سے آنکھیں نہیں کھل رہیں اور میں زبردستی چونچ کھول کھول کر اُسکو کھلاتی.
اب ہوا یہ کہ میں نے نوٹ کرنا شروع کیا کہ وہ بولنا چھوڑ چُکا ہے. اب وہ صرف ٹیں ٹیں کرتا اور انسانی زبان کے جو چند جملے بولتا تھا وہ بھول چکا تھا.
میرے گھر والے میری اس جنونی قسم کی خدمت اور محبت سے تنگ آکر مجھے میرے حال پر چھوڑ چُکے تھے. ایک دوپہر انتہا کی گرمی سے تنگ آکر جب میں دو بار غسل لے چکی تو طوطے پر نظر پڑی جو مجھے مرجھایا سا لگا مجھے اپنی خود غرضی پر انتہا کی شرمندگی ہوئی اور میں نے طوطے کو نہلانے کا سوچا. شیمپو کے بغیر نہانے کا تصور عجیب محسوس کرتے ہوئے میں نے نہایت تسلی سے طوطے میاں کے اوپر شیمپو انڈیلا اور اچھی طرح اشنان کروا دیا. خوشبودار طوطے کو صحن میں پنجرے سمیت رکھ کر میں سونے چلی گئی. شام کو جب آنکھ کھلی تو پتہ چلا کہ مٹھو میاں ادھ مری سی حالت میں پنجرے میں پڑے ہیں. میری شروع سے عادت رہی ہے کہ اپنی بیوقوفی کی سرِعام تشہیر کرتی ہوں سو روتے ہوئے بتا دیا کہ میں نے تو شیمپو سے طوطے کو نہلایا تھا. طوطے کو تو جو ہوتا سو ہوتا میری کمر پر ٹھیک ٹھاک دھموکے پڑِے. طوطے نے شاید شیمپو نگل لیا تھا اور آنکھوں میں بھی چلا گیا تھا. دو دن اسی حالت میں رہنے کے بعد میرے والد نے کسی جاننے والے کے ہاتھ طوطا واپس بھجوا دیا اور اُن دو دنوں میں میں اُس پنجرے کے پاس بھی نہیں پھٹکی....
بچپن کی بات میں بھی بھول بھال گئی. کچھ عرصہ پہلے ممانی سے ملاقات ہوئی تو ایسے ہی اُنکے پرانے شوق کا تذکرہ ہوا تو میں نے ممانی سے پوچھا کہ آخر طوطے نے بولنا کیوں چھوڑ دیا ؟ میری سادہ دل سی ممانی نے ایک نہایت عام لیکن پتے کی بات کہی کہ مانگے بغیر ہر وقت کھلاؤ گی تو طوطے کا دماغ خراب نہیں کہ بول بول کر خود کو تھکائے میں تو اسوقت اسکو کھانا کھلاتی تھی جب وہ مانگتا تھا تاکہ وہ بولنا نہ بھول جائے. اتنی سی بات کہہ کر ممانی تو اُٹھ کر چلی گئیں لیکن مجھ پر میری شخصیت کے بہت سے در کھول گئیں کہ کس طرح میری بچپن کی عادت میری فطرت کا حصہ بن چکی ہے. اور مجھ سمیت بہت سے انسان کس طرح ہر رشتے ہر انسان کو اُسکی ضرورت اور حق سے زیادہ دے کر نقصان اُٹھاتے ہیں
ہماری زندگی میں بہت سے رشتے ایسے ہوتے ہیں جن سے نبھانے کی تگ و دو میں ہم خود کو بھول جاتے ہیں میں نے ان رشتوں کو طوطا رشتوں کا نام دیا ہے. کیونکہ وہ محبت وہ احساس جو ہمارے حصے کا ہوتا ہے ہم وہ بھی ان پر لُٹاتے ہیں. ہم ان رشتوں کو بغیر مانگے توجہ پلاتے اور محبت کھلاتے ہیں...ہمارا دماغ ہر وقت ایک عجب ذمہ داری کے بوجھ تلے دبا رہتا ہے کہ اس رشتے کو زندہ رکھنے کی ساری ذمہ داری ہماری ہے. اور وہ رشتہ جو شروع میں ایک بولتا ہنستا کھیلتا احساس ہوتا ہے آہستہ آہستہ ہماری محبت، توجہ ،وقت کو کھا پی کر فربہ ہوتا جاتا ہے اور بولنا بھول جاتا ہے یا پھر بولنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آپ بغیر مانگے اُسکو سب کچھ دے رہے ہیں.
اپنی زندگی میں کسی بھی رشتے کو طوطا رشتے میں مت بدلنے دیں. توجہ اتنی ہی دیں جتنی مانگی جائے اور جتنی آپ بھی وصول کر پائیں . بن مانگی محبت، وقت ، احساس ، اپنا پن اور توجہ اپنی اہمیت کھو دیتی ہے

فیس بک سے کاپی پیسٹ
 

رباب واسطی

محفلین
بیشک بیشک وہاں جا کر ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتنی بڑی دعا ہے ۔۔۔ہماری ایک کولیگ دعا کرتیں تھیں کہ مالک مجھے وہاں سے واپس نہیں آنا اور جس دن واپس آنا تھا اُسی دن اُنکا انتقال وہاں ہوا ۔اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی ۔۔کیسی خوش قسمتی ہے ۔جو مانگا مل گیا پروردگار اُنکے درجات بلند فرمائے آمین
آمین
 

سیما علی

لائبریرین
👈 *تبدیلی کا سفر* 👉
ایک شخص نے 20 سال عبادت وریاضت میں گزارے، پھر اُس میں منفی تبدیلی آئی اور وہ گناہوں کے راستے پر چل نکلا یہاں تک کہ 20 سال گزر گئے، ایک دن آئینہ دیکھ رہا تھا کہ اُسے اپنی داڑھی میں سفید بال دکھائی دیئے، اُس کے دل پر چوٹ لگی دوبارہ نیکیوں کے راستے پر چلنے کا سوچ کر اللہ پاک سے عرض کی:

یاربِِّ کریم! ميں نے 20 سال تک تيری عبادت کی پھر 20 سال تک تيری نافرمانی کی، اگر اب میں تيری طرف آؤں تو کيا ميری توبہ قبول ہو گی؟

اُس نے ایک آواز سنی: تم نے ہم سے محبت کی ہم نے تم سے محبت کی، پھر تُو نے ہميں چھوڑ ديا اور ہم نے بھی تجھے چھوڑ ديا تُو نے ہماری نافرمانی کی اور ہم نے تجھے مہلت دی اور اگر تُو تَوبہ کرکے ہماری طرف آئے گا تو ہم تيری توبہ قبول کريں گے۔
*(مکاشفۃ القلوب، ص 62 ماخوذاً)*

تبدیلی کا سفر انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک جاری رہتا ہے۔ کچھ تبدیلیاں اُس کے جسم میں آتی ہیں مثلاً پیدا ہونے کے بعد اُس کی خوراک دودھ ہوتی ہے پھر کچھ عرصے بعد نرم غذائیں کھانا شروع کردیتا ہے، پہلے گھٹنوں کے بل پھر اپنے پاؤں پر چلنے لگتا ہے، پہلے مختلف آوازیں نکالتا ہے پھر رفتہ رفتہ بولنا سیکھ جاتا ہے وغیرہ۔

جبکہ کچھ تبدیلیاں اُس کے اوصاف و کردار میں آتی ہیں جو مثبت بھی ہوسکتی ہیں اور منفی بھی جیسے مَن پسند چیز ملنے پر خوش ہونا، ناپسند باتوں پر غصہ آنا، کسی سے نفرت یا محبت رکھنا، کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچانا، کسی کی بات ماننا یا ماننے سے انکار کردینا، کسی کو عزت دینایا اُس کی بے عزتی کردینا، کسی کو اپنے سے بہتر یا حقیر جاننا، کسی کو نعمت ملنے پر خوش ہونا یا جلنا کُڑھنا وغیرہ۔

پھر جیسے جیسے انسان بڑا ہوتا ہے اپنی خوبیوں کو بڑھانا اور خامیوں پر قابو پانا اُس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر اگر وہ اپنا سفر مثبت سمت میں کرتا ہے تو دنیا و آخرت میں کامیابی اُس کا مقدر ہوتی ہے اور جو بدنصیب اپنے کردار پر منفی اوصاف غالب کر لیتا ہے تو ناکامی اُس کے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔

مرد ہو یا عورت! جوان ہو یا بوڑھا! ہم سب کو اپنی منفی عادتوں سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اِس کے لئے اِن مدنی پھولوں پر عمل بہت مفید ہے:

(1) خود کو بدلنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو جایئے، کیونکہ جب تک آپ کا ذہن نہیں بنے گا دوسرا کتنی ہی کوشش کرلے کامیابی نہیں ملے گی اور جس دن آپ نے اپنی اصلاح کی ٹھان لی تو راستے کی ساری رکاوٹیں دور ہوتی چلی جائیں گی، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ۔

(2) اپنے خالق و مالک عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ کیجئے اور اپنے چھوٹے بڑے گناہوں پر یوں شرمسار ہو جایئے کہ میں نے اپنے اللہ پاک کی نافرمانی کی ہے اور آئندہ کے لئے ان گناہوں سے بچنے کا پختہ ارادہ کرلیں، اِس عمل سے آپ کو ایسا لگے گا جیسے دل و دماغ سے بہت بڑا بوجھ اُتر گیا ہو۔

(3) کسی بھی چیز کے اچھے یا بُرے ہونے کا مدار شریعت کی تعلیمات ہیں، اُس کی تفصیل جاننے کے لئے علمِ دین سیکھنا بہت ضروری ہے چنانچہ علمائے اہلِ سنّت کی صحبت، مطالعہ کی عادت اور مفتیانِ کرام سے شرعی مسائل دریافت کرنا اپنا معمول بنا لیجئے۔

(4) جس بات کی بُرائی کا علم ہوجائے اُسے اپنے اندر تلاش کیجئے اگر موجود ہو تو اُس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش کیجئے کیونکہ اندھیرے سے نجات تبھی ملے گی جب روشنی ہوگی۔

(5) جس طرح پانی اور روشنی کا ذریعہ ہوتا ہے اسی طرح تبدیلی کا بھی ذریعہ ہوتا ہے، اچھی صحبت اِس کے لئے بہترین ذریعہ ہے۔

محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
اچھے اور بُرے مَصاحِب کی مثال مُشک اُٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی طرح ہے، کستوری (مشک) اُٹھانے والا تمہیں تحفہ دے گا یا تم اُس سے خریدو گے یا تمہیں اُس سے عمدہ خوشبو آئے گی، جبکہ بھٹی جھونکنے والا یا تمہارے کپڑے جلائے گا یا تمہیں اُس سے ناگوار بُو آئے گی۔
*(مسلم، ص 1084، حدیث: 6692)*

(6) کامیابی کیلئے اِستقامت بہت ضروری ہے، اپنے سفر کو مثبت جانب جاری رکھئے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزّوَجَلَّ منزل مل ہی جائے گی....
*(ماہنامہ فیضانِ مدینہ، فروری 2018ء
 

رباب واسطی

محفلین
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم کو آخر دنیا سے رخصت ہونا ہی پڑا مگر جاتے جاتے وہ دو قیمتی ہیروں والا تاج چھوڑ کر گئی جو ملکہ کے سر سجا رہتا تھا تاج پر لگے دونوں ہیرے چوری کے تھے ایک ہیرا لعل جو غرناطہ کے مسلم بادشاہ محمد بن سلیمان کی ملکیت تھا اور دوسرا قیمتی ہیرا کوہ نور وہ ہندوستان کے مسلمان بادشاہ بابر سے ہوتا ہوا اورنگزیب عالمگیر تک پہنچا پھر ملکہ برطانیہ الزبتھ کے پاس پہنچا جو اسنے اپنی ملکیت سمجھ لیا
کوہ نور اور لعل ہیرا بھی ادھر ہی رہ گئے شاہی پروٹوکول بھی ادھر ہی رہ گئے اور وہ دستانے بھی جن کو پہنے بغیر برطانیہ بلکہ دنیا کی ملکہ کسی سے سلام نہ لیتی تھیں۔میری معلومات کے مطابق یہ دنیا کی واحد خاتون تھیں جو کسی بھی ملک بغیر ویزا سفر کر سکتی تھیں اور انگلینڈ کے اندر بغیر لائسنس کے کار چلا سکتی تھی لیکن بہرحال اس سب کے باوجود بھی آخری ٹھکانہ وہی ہے جو کسی عام آدمی کا ہوتا ہے ۔

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

رانا جمشید راجپوت فیس بک

یہ ایک تلخ اور خوبصورت حقیقت ہے !
 

سیما علی

لائبریرین
قیمتی ہیروں والا تاج چھوڑ کر گئی جو ملکہ کے سر سجا رہتا تھا تاج پر لگے دونوں ہیرے چوری کے تھے
اور دوسرا قیمتی ہیرا کوہ نور وہ ہندوستان کے مسلمان بادشاہ بابر سے ہوتا ہوا اورنگزیب عالمگیر تک پہنچا پھر ملکہ برطانیہ الزبتھ کے پاس پہنچا جو اسنے اپنی ملکیت سمجھ لیا
کوہ نور اور لعل ہیرا بھی ادھر ہی رہ گئے شاہی پروٹوکول بھی ادھر ہی رہ گئے
بھارتی حکومت کئی سال بعد ملکہ برطانیہ کے تاج میں مرصع کوہ نور ہیرے کی ملکیت سے دستبردار ہوگئی جس کے بعد پاکستان واحد ملک ہے جو ہیرے کی ملکیت کا دعویدار ہے۔
سپریم کورٹ میں ملکہ برطانیہ کے تاج میں مرصع کوہ نور ہیرے کی ملکیت سے متعلق سماعت کے دوران حکومت نے موقف اختیار کیا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کوہ نور ہیرا یہاں سے لے کر نہیں گئی بلکہ سکھ مہاراجا رنجیت سنگھ نے وہ ہیرا برطانیہ کو تحفے میں دیا تھا ۔ حکومت کی جانب سے یہ موقف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکراور جسٹس اودے اومین لالت کے روبرو اختیار کیا گیا۔
بھارتی حکومت کئی سال بعد ملکہ برطانیہ کے تاج میں مرصع کوہ نور ہیرے کی ملکیت سے دستبردار ہوگئی جس کے بعد پاکستان واحد ملک ہے جو ہیرے کی ملکیت کا دعویدار ہے۔

سپریم کورٹ میں ملکہ برطانیہ کے تاج میں مرصع کوہ نور ہیرے کی ملکیت سے متعلق سماعت کے دوران حکومت نے موقف اختیار کیا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کوہ نور ہیرا یہاں سے لے کر نہیں گئی بلکہ سکھ مہاراجا رنجیت سنگھ نے وہ ہیرا برطانیہ کو تحفے میں دیا تھا ۔ حکومت کی جانب سے یہ موقف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکراور جسٹس اودے اومین لالت کے روبرو اختیار کیا گیا۔
عدالت نے حکومتی موقف سننے کے بعد ریمارکس دیئے کہ اگرحکومتی موقف کو تسلیم کرلیا جائے تو اس سے پہلے ہیرے سے متعلق کئے گئے تمام حکومتی دعوے غلط قرار دیئے جائیں گے تاہم عدالت نے کوہ نور ہیرے کی ملکیت پر حکومت کو مزید 6 ہفتوں کی مہلت دے دی۔
واضح رہے کہ 105 کیرٹ کے کوہِ نور ہیرے کو19ویں صدی میں اس وقت برطانیہ لے جایا گیا تھا جب برصغیر پر برطانیہ کا قبضہ تھا جب کہ اس ہیرے کی واپسی کا دعویٰ پاکستان اور بھارت دونوں کی جانب سے کیا جاتارہا ہے اور لاہور ہائیکورٹ میں اس ہیرے کو برطانیہ سے واپسی کے لئے بھی درخواست دائر کی جاچکی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
“ جناح کے زیارت کے قیام کے زمانے کی بات ہے کہ ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش نے فاطمہ جناح سے پوچھا: ’آپ کے بھائی کو کچھ کھانے پر کیسے آمادہ کیا جائے، ان کی خاص پسند کا کوئی کھانا بتائیں۔”
فاطمہ جناح نے بتایا کہ بمبئی میں ان کے ہاں ایک باورچی ہوا کرتا تھا جو چند ایسے کھانے تیار کرتا تھا کہ بھائی ان کو بڑی رغبت سے کھاتے تھے، لیکن پاکستان بننے کے بعد وہ باورچی کہیں چلا گیا۔ انھیں یاد تھا کہ وہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کا رہنے والا تھا اور کہا کہ شاید وہاں سے اس کا کچھ اتا پتا مل سکے۔
یہ سن کر ڈاکٹر صاحب نے حکومت پنجاب سے درخواست کی کہ اس باورچی کو تلاش کر کے فوراً زیارت بھجوایا جائے۔ کسی نہ کسی طرح وہ باورچی مل گیا اور اسے فوراً ہی زیارت بھجوا دیا گیا تاہم جناح کو اس کی آمد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
کھانے کی میز پر انھوں نے اپنے مرغوب کھانے دیکھتے ہوئے تعجب کا اظہار کیا اور خوش ہو کر خاصا کھانا کھا لیا۔ جناح نے استفسار کیا کہ آج یہ کھانے کس نے بنائے ہیں تو ان کی بہن نے بتایا کہ حکومت پنجاب نے ہمارے بمبئی والے باورچی کو تلاش کر کے یہاں بھجوایا ہے اور اس نے آپ کی پسند کا کھانا بنایا ہے۔
جناح نے بہن سے پوچھا کہ اس باورچی کو تلاش کرنے اور یہاں بھجوانے کاخرچ کس نے اٹھایا ہے۔ عرض کیا کہ یہ کارنامہ حکومت پنجاب نے انجام دیا ہے، کسی غیر نے تو خرچ نہیں کیا۔ پھرجناح نے باورچی سے متعلق فائل منگوائی اور اس پر لکھا کہ ’گورنر جنرل کی پسند کا باورچی اور کھانا فراہم کرنا حکومت کے کسی ادارے کا کام نہیں ہے۔ خرچ کی تفصیل تیار کی جائے تا کہ میں اسے اپنی جیب سے ادا کرسکوں‘ اور پھر ایسا ہی ہوا……!!”

( عقیل عباس جعفری ۔ خصوصی رپورٹ “قائدِ اعظم کی زندگی کے آخری 60 دن” سے اقتباس ۔ بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام )
 

سیما علی

لائبریرین
اپنے بوڑھے ھونے کا احساس اُس وقت ھوتا ھے جب ھم اپنے کسی بوڑھے کلاس فیلو کو دیکھیں، ورنہ تو خود کو بندہ ہمیشہ جوان *کاکا* ھی سمجھتا رھتا ھے۔

کیا کبھی آپ نے اپنے کسی ھم عمر کو اچانک دیکھ کر سوچا ھے کہ یہ کیسا لگ رہا ھے؟ کِتنا بوڑھا ھو گیا ھے یہ تو؟
اگر آپ کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ھُوا تو درج ذیل واقعہ کو ضرور پڑھیئے:

میرا نام ماریہ ھے اور میں حال ھی میں اِس شہر میں منتقل ھوئی ھوں۔ ایک دن میں شہر کے ایک ڈینٹل سرجن کے کلینک میں بیٹھی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔ کلینک کی دیوار پر ڈاکٹر کی تعلیمی اسناد آویزاں تھیں۔ وقت گُزاری کے لیئے انہیں پڑھتے ہوئے میری نظر ڈاکٹر کے مکمل نام پر پڑی تو حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔ یہ تو وُھی اُونچا لمبا، چمک دار سیاہ بالوں والا، خُوش شکل، خُوش لباس اور انتہائی ہینڈسم میرا کلاس فیلو تھا۔
میں اپنی باری پر اندر گئی تو ڈاکٹر کو دیکھتے ھی میرے سارے جذبات بھاپ بن کر بھَک سے اُڑ گئے۔ یہ ڈاکٹر سر سے گنجا، کانوں کے اوپر سلیٹی رنگ کے بالوں کی جھالر، چہرے پر جھُریاں ھی جھُریاں، باہر کو نکلا ھُوا مٹکے جیسا پیٹ اور کمر اُس سے کہیں زیادہ جھُکی ھوئی جتنی میرے کئی دیگر ھم عمر دوستوں کی تھی جنہیں میں جانتی تھی۔
ڈاکٹر نے میرے دانتوں کا معائنہ کر لیا تو میں نے پوچھا: "ڈاکٹر صاحب، کیا آپ فلاں شہر کے فلاں کالج میں بھی پڑھتے رھے ہیں؟"
کالج کا نام سُنتے ھی ڈاکٹر کا لب و لہجہ ھی بدل گیا۔ جذبات کو بمشکل قابو میں رکھتے ھوئے اونچی آواز میں بولا: "جی جی، کیا یاد دلا دیا آپ نے! میں اُسی کالج سے ھی تو پڑھا ھوں۔"
میں نے پوچھا: "آپ نے کِس سال میں وہاں سے گریجوایٹ کیا تھا؟"
ایک بار پھر ڈاکٹر نے چہکتے ھوئے کہا: "میں نے 1975 میں وہاں سے گریجوایشن کی تھی، لیکن آپ کیوں پوچھ رھی ہیں؟"
میں نے اُسے بتایا کہ ان دنوں میں بھی اُسی کلاس میں ھُوا کرتی تھی۔
اُس بُڈھے، بد شکل، گنجے، بھالو جیسی توند والے موٹے، اُجڑی ہوئی منحوس شکل والے بے شرم اور بے حیا ڈاکٹر نے میری شکل کو بغور دیکھتے ھوئے پوچھا: *"کونسا مضمون پڑھایا کرتی تھیں آپ؟"*
🤣🤣🤣🤣🤣🤣
کرلو گلَ 🤩🤩🤩🤩
 

سیما علی

لائبریرین
ایک مرتبہ شیخ الاسلام حضرت فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ درود پا ک کے فضا ئل بیان فرما رہے تھے تو اچا نک
پا نچ درویش حا ضر ہو ئے اور سلام عرض کیا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فر مایا بیٹھ جا ئو وہ بیٹھ گئے اور عرض کی ہم مسافر ہیں خا نہ کعبہ کی زیارت کے لئے جا رہے ہیں لیکن ہمارے پاس خرچہ نہیں ہے آپ رحمتہ اللہ علیہ کچھ
مہر با نی فرمایئے یہ سن کر حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ نے مراقبہ کیا اور سرا ٹھا کر کھجور کی چند گٹھلیاں لیں اور کچھ پڑھ کر ان پر پھو نکا اور ان درویشوں کو دے دیں وہ حیران ہو گئے اور پوچھا بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ ہم ان گٹھلیوں کو کیا کریں گے؟آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فر ما یا حیران کیوں ہو تے ہو ؟ ان کو دیکھو تو سہی جب دیکھا تو وہ سو نے کے دینار تھے آخر شیخ بدر الدین اسحاق سے معلوم ہو ا کہ حضرت خواجہ رحمتہ اللہ علیہ نے درود پا ک پڑھ کر پھو نکا تھا اور وہ گٹھلیاں درودپاک کی برکت سے دینار بن گئے تھے .

حوالہ راحت القلوب ص۶۱ راحت

صَلُّوا عَلَى الْحَبِيْب صَلَّى الله تَعَالٰى عَلٰى مُحَمَّد، صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم

ٱللَّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ
إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .

ٱللَّٰهُمَّ بَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ
كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ
وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .
 

سیما علی

لائبریرین
*پردہ*

بچپن میں جب امی بھائی کو دہی یا نہاری وغیرہ لینے بھیجتی تھیں تو ساتھ اسٹیل کا چھوٹا ڈول دیا کرتی تھیں
کہتی تھیں کہ ایک تو شاپنگ بیگ کے جراثیم نہیں لگتے
دوسرا کھانے پینے کی چیزیں اسطرح نمائش کرکے نہیں لاتے
پردہ رکھتے ہیں ۔
روٹی لینے بھیجتیں تو ساتھ دسترخوان دیا کرتی تھیں
وجہ پھر وہی کہ اخبار یا کاغذ کے جراثیم نہ لگیں اور پردہ بھی رہے
وہ کہتی تھیں یوں شاپر میں روٹی لانے سے روٹی کی بےادبی ہوتی یے اور روٹی کا پردہ بھی نہیں رہتا۔
گھر کا سودا سلف لانے کے لئے کپڑے کے تھیلے سئیے جاتے تھے تاکہ سودا سلف عزت سے گھر لایا جا سکے
محلہ داروں کے گھر حتی کہ ایک ہی گھر کے مختلف حصوں میں رہنے افراد ایک دوسرے کو کھانا بھیجتے تھے تو خوان کو خوان پوش سے ڈھک دیا کرتے تھے۔اب نام لو تو پہلے خوان پوش کا ہی مطلب سمجھانا پڑے گا۔
یہی پردہ آئینے پر بھی ڈالا جاتا تھا ۔
امی کا کہنا یہ تھا کہ آتے جاتے آئینے پر نظر نہیں پڑنی چاہیے.
اس سے خودپسندی پیدا ہوتی ہے
کہیں سے آتے یا جاتے تھے تو پاپا گلی میں شور نہیں مچانے دیتے تھے خاص طور پر رات کو گاڑی سے اترنے سے پہلے ہی تاکید کر دی جاتی تھی کہ گاڑی کا دروازہ بالکل آرام سے بند کرنا.
اس میں دو وجوہات بیان کی جاتی تھیں کہ ایک تو کسی کی نیند خراب نہ ہو دوسرا ہر طرح کی نظر سے محفوظ رہیں ۔کیونکہ فیملی اکھٹا باہر نکلتی یے تو سو طرح کی نظر پڑتی یے ۔آج یہ بات کرو تو سب ہنستے ہیں ہم پر۔

مزید ذکر کروں تو جب نانی کے گھر جاتے تھے تو انکے دروازے پر پردہ ڈلا ہوا ہوتا تھا
میں نانی سے کہتی کہ اس سے اچھے بھلے دروازے کی شو خراب ہوتی یے تو وہ کہتی تھیں اس سے گھر کا پردہ ہو جاتا یے ورنہ دروازہ کھولتے ہی باہر والے کی صحن میں بیٹھے افراد پر نظر پڑ جاتی ہے
حتیٰ کہ نانی کا ٹی وی بھی دروازے والا تھا اور وہ ٹی وی بند کرتے ہی دروازے بند کرنے کا حکم دیتی تھیِں کہ اس کو بھی ڈھک کر رکھو
اب یہ پردہ کیا تھا
یہ وضع داری کا پردہ تھا
مروت کا پردہ تھا
یہ پردہ وہ تھا جو بےحیا ہونے سے بچاتا تھا
رزق کی اہمیت بڑھاتا تھا
رزق کی عزت کرنا سکھاتا تھا
اور اب یہ پردہ کہاں یے
اب یہ ہم سب کی عقلوں پر پڑ گیا یے۔ہمیں برائی، برائی نہیں لگتی
بےحیائی آہستہ آہستہ ہمارے گھروں میں جگہ بنا رہی یے
ہم اپنے باپ سے انتہائی بے تکلف تھے تب بھی ایک پردہ تھا
کیونکہ امی کہتی تھیں
باپ بیٹی میں
بہن بھائی میں بھی پردہ ہوتا ہے
تو قائم رہنا چاہیے
آج کسی کو کہو تو وہ طعنہ ہی مار دیتا ہے کہ جی آپ کے ابو آپ کو پیار ہی نہیں کرتے ہونگے

بہرحال اپنی ذات تک تو میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ امی کی دی ہوئی سیکھ کو اپنے گھر میں ہمیشہ لاگو کر سکوں ۔
اسکے باوجود میں کپڑے کے تھیلہ میں سودا نہیں منگوا سکتی کہ یہ میرے بچوں کو منظور نہیں.
اور زمانے کے ساتھ چلنا بھی ضروری یے تو اپنی بہت سے قیمتی روایات ہم لوگ اب کھو چکے ہیں.
افسوس ۔
دعا یہی ہے کہ رشتوں کے جو بھرم اور پردے ہمارے مذہب نے بنائے ہیں ۔
ہم خود بھی ان پر عمل کر سکیں اور اپنی اولادوں کو بھی عمل کرنا سکھا ئیں !!!
منقول
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
*انسان کی حقیقت, انسان کی زبانی*:
🌺🌺🌺
جب کبھی بڑی بڑی گاڑیوں سے تفاخر سے گردن اکڑائے لوگوں کو باہر نکلتے دیکھتا ہوں،
یا مونچھوں کو بل دیتے ، پگڑی کے پیچ ٹھیک سے جماتے کسی وڈیرے یا چوہدری کو دیکھتا ہوں
یا کسی کو اپنے نام کے ساتھ فخر سے الحاج، علامہ، ڈاکٹر ، پروفیسر ، یا دیگر القابات لگائے دیکھتا ہوں ،،،،،،
تو سوچتا ہوں کیوں نہ میں بھی کسی بات پر فخر کروں۔
آخر کچھ تو ہو جس پر میں بھی گردن اکڑا کر چلوں۔
لیکن پتہ نہیں کیا ماجرا ہے میں جب حسب و نسب پہ فخر کرنے کا سوچتا ہوں تو نوح کے بیٹے کا ڈوبنا یاد آجاتا ہے۔
اگر میں مال و اسباب پہ نازاں ہونے کا سوچوں تو قارون کا زمین میں غرق ہونا یاد آجاتا ہے۔
اگر میں علم و فن و عبادات پہ فخر کرنے کا سوچوں تو ابلیس کا دھتکارا جانا یاد آجاتا ہے۔۔۔۔
ایسے میں کانوں میں ایک آواز گونجتی ہے۔
📕
*فَاِنَّا خَلَقنٰکُم مّن تُرَابٍ ثمَّ مِن نُّطفۃ*ٍ۔۔۔۔۔۔…
(الحج، ۵ )
*پس ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے*
اس آواز کے ساتھ ہی میری سب سوچیں سلب ہو جاتی ہیں۔ سب کچھ بےمایا و بے وقعت لگنے لگتا ہے۔ دماغ سے غرور و تکبر کاخیال ہوا ہو جاتا ہے اور شدت سے اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے۔
پھر سوچتا ہوں میرا رب کتنا کریم ہے کہ
جس نے مجھے میری اوقات سے بڑھ کر نوازا،
علم و شعور عطا کیا،
میرے عیبوں کی پردہ پوشی کی،
مجھے وہ بھی عطا کیا جس سے میں واقف بھی نہ تھا۔
یہ خیال آتے ہے میں اپنی پیشانی زمین پر ٹکا کر اس کی عظمت و بڑائی اور اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتا ہوں۔
منقول
 

سیما علی

لائبریرین
دنیاوی غموں سے بچنے کی بہترین ترکیب یہ ہےکہ آپ خود کو سمجھائیں کہ ایک دن ہی تو رہنا ہے…صبح کی تصدیق ہے نہ شام کی گارنٹی…مسافر ٹھہرنے کو نہیں بلکہ چلنےکو آیا کرتے ہیں…کبھی دھوپ کا سامنا ہے کبھی سایہ…کبھی صحرا ہیں کبھی کہسار…کبھی گلستان ہیں کبھی جنگل…نگاہِ بصیرت کھلی رکھے مسافر تو محوِ سفر رہتا ہےاپنی منزل کے تعاقب میں…اُس کی نگاہ آگے ہوتی ہے…پیچھے نہیں…عارضی غموں کو نارمل لیجیے…یہ آخرت کےغم سے ہر گز ہر گز بڑے نہیں ہیں…مومن ہر معاملے میں خیر ہی کو لیتا ہے…کائنات کا ایک پتا بھی خالق کےحکم کے بغیر نہیں گرتا…معصیت بھی بسا اوقات خیر بن جاتی ہے اور انسان ندامت کے آنسوؤں سے وضو کرتا بارگاہ رب میں جھک کر محبوب بن جاتا ہے…سب اچھا چلتا رہنا ہی خوش بختی نہیں بلکہ کبھی کبھی تو ٹھوکریں ہی آنکھیں کھولا کرتی ہیں، رب سے تعلق مضبوط کرنے میں مدد کرتی ہیں.
 

سیما علی

لائبریرین
ایک سچی کہانی
ہماری شادی کے شروع شروع کی بات ہے۔۔میرے شوہر کی MBBS کے بعد ایک چھوٹے شہر میں سرکاری ہسپتال میں نوکری ہو گئی۔ہم نے لاہور جیسا پر رونق اور ہنستی بستی سسرال چھوڑی اور اس شہر میں جا بسے۔۔۔جہاں اللہ کے سوا کوئی ہمارا اپنا نہ تھا۔۔۔اس وقت میاں نے سپیشلائز نہیں کیا تھا۔حالات بڑے تنگ۔خرچ ہزاروں سو پہلی تنخواہ کا مجھے شدت سے انتظار تھا۔سپیشلائزیشن کے خرچے الگ۔۔اس کی مہنگی کتب تو ایک آدھ انگوٹھی بیچ کر خرید لیتے تھے مگر فیسیں توبہ کرا دیتی تھیں۔۔۔۔اور مجھ جیسی پیسے کی ریل پیل میں پلی بڑھی کو پیسے پیسے کی قدر شادی کے چند ماہ میں ہی ہو گئی تھی۔بہرحال پہلی آئی پر تنخواہ نہ آئی۔۔ہر روز پوچھتی تو جواب ملتا ابھی اکاونٹ میں نہیں آئی۔دودھ والے کا بل،گھر کا کرایہ۔دوا علاج۔ چھوٹے سے بچے کی ضروریات۔میرا انتظار طویل ہوتا گیا ۔کہنے لگے شاید دو ماہ کی اکٹھے ملے۔۔اگلا ماہ بھی ایک ایک دن گن کر گزرا۔۔۔یہ سرکاری دفتر پتہ کرنے گئے تو معلوم ہوا کہ گورنمنٹ جاب کی پہلی تنخواہ" مٹھائی" کے بغیر نہیں جاری ہوتی۔میاں صاحب تازہ تازہ جماعت اسلامی میں آئے تھے۔ایمان بڑا مضبوط تھا۔اس سے خوب بحث کی مگر رشوت نہیں دی ۔۔آپ لوگ یقین کریں گے کہ 6 ماہ گزر گئے۔۔ہم اس چھوٹے سے شہر میں اکیلے رل گئے۔۔وہ میری زندگی کے ایسے دن تھے جب ہمارے گھر آٹا نہیں ہوتا تھا۔اور میاں کہتے کوئی بات نہیں یہ سب ان لوگوں کے کھاتے میں لکھا جا رہا ہے تم فکر نہ کرو۔۔اچھا مٹھائی یعنی رشوت کے پیسے یہی کوئی ان کی ایک ماہ کی آدھی تنخواہ کے برابر تھے۔جو شروع دنوں میں بہت لگتے مگر اب کبھی کبھی مجھے شیطان بہکاتا۔۔اتنے تو نہیں ہیں دے دیں مصیبت ٹلے ۔یہی جائز ناجائز کام کے خیالات وغیرہ۔۔۔مگر اللہ نے دل مضبوط رکھا اور ایک بار بھی میاں سے یہ نہیں کہا۔8 ماہ بعد کہنے لگے میں جاب چھوڑنا چاہتا ہوں۔میں بہت پریشان ہوئی کہ اب کہاں جائیں گے ہم ۔۔۔دل بھر آیا۔۔۔بڑی مشکل سے بظاہر مسکرا کر ان کی ہمت بڑھانے کو کہا کہ ٹھیک ہے استخارہ کر لیں۔کہنے لگے کہ کچھ دن سے کر رہا اور مستقل دعا پڑھ رہا ہوں۔۔میں نے کہا بس پھر اللہ ہمارے لئے خود راستے کھولے گا۔۔۔قربان جاوں رب کے کہ اس نے ہمیں اپنے قریب بلا لیا۔۔۔میاں صاحب کی سعودی عرب میں سرکاری نوکری ہو گئی۔کنگ فہد ہاسپٹل میں۔۔رہائش،بہترین تنخواہ فیملی پیکج۔۔۔دنیا اپنی ساری آسانیوں اور آسائشوں کے ساتھ ہمارے قدموں میں جھک آئی۔۔پھر سعودیہ قیام کے 8 سال میں کیا چیز نہ تھی جو اللہ نے عطا نہ کی۔اپنے گھر کی بار بار حاضری۔،پیسہ،اولاد،سکون۔۔۔۔۔آج کسی نے رشوت کی بات پر اپنے بُرے زمانے کی یاد آ گئی تو سوچا لکھ ہی لیتی ہوں شاید کسی کا بھلا ہو جائے۔۔۔رب العزت کی قسم۔۔۔۔ عزت بہت بلند ہے۔۔وہ اپنی راہ میں جدوجہد کرنے والوں، صبر کرنے والوں کا ادھار نہیں رکھتا۔۔۔سود سمیت لوٹاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منقول
 

سیما علی

لائبریرین
رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم اور جنگل کے شیروں کا دلچسپ واقعہ ۔ <3
انسان تو حسن کے طالب ہے ہی ہے لیکن اللہ پاک نے حضور ﷺ کے حسنِ مبارکہ میں وہ راہنائی رکھی ہے کہ جنگل کے پرند چرند جانور بھی حسن مصطفٰی ﷺ کے دیدار کے طالب آتے ہیں ۔جو ذکر کرنے جارہا ہوں کتاب کا نام( ذوقِ خطیب)
اس سے پڑھ کر لکھ رہا ہوں توجہ سے پڑھے ۔بڑی پیاری بات بزرگ لکھتے ہیں ۔جب حضرت حلیمہ ؓ کے ہاں رسول اللہ ﷺ پرورش فرما رہے تھے جب آپﷺ کی عمر age 3 سال ہوئی تو آپﷺ نے حضرت حلیمہ سعدیہ سے فرمایا اماں میرے بھائی روزانہ کہاں جاتے ہیں ۔ کہا بیٹا یہ بکریاں چرانے جاتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اماں میرا بھی دل کرتا ہے میں بھی اپنے بھایئوں کے ساتھ بکریاں چرانے جاو ۔حضرت حلیمہ نے کہاں نہیں بیٹا تم بہت نرم و نازک ہو کہی تمہیں دھوپ نا لگ جائے ۔ آپﷺ کی منہ بولی بہن شیما ساتھ کھڑی تھی کہنے لگی اماں تم دھوپ کی بات کرتی ہو ۔جب میں بھائی محمد ﷺ کے ساتھ بکریاں چرانے جاتی ہوں تو آسمان سے بادل آکر ہم پر سایا کرتے ہیں ۔رسول اللہ ﷺ نے بہت اصرار کیا تو حضرت حلیمہ ؓ نے اجازت دے دی۔ایک دن حضور ﷺ گے بکریاں چرانے اس طرح چار پانچ دن حضور ﷺ بکریاں چرانے کےلیے ساتھ جاتے رہے ۔ایک دن حضرت حلیمہ ؓ نے روک دیا کہا بیٹا محمد ﷺ آج کے بعد تم نے بکریاں چرانے نہیں جانا ۔ایک دن بھی گزر گیا دوسرا تیسرا دن بھی گزر گیا تیسرے دن حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ کا بیٹا روتا ہوا آیا ۔ حضرت حلیمہ نے پوچھا بیٹا کیا ہوا کیوں رورہے ہو ۔کہا اماں ہماری بکری کو شیر اٹھا کرلے گیا ہے ۔جب حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ نے یہ بات سنی تو حضرت حلیمہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔جب رسول اللہ ﷺ کی نگاہ کرم حضرت حلیمہ کے رخسار پر پڑھی آپﷺ نے دیکھا حضرت حلیمہ رو رہی ہے فرمایا اماں روتی کیوں ہو ۔حلیمہ سعدیہ نے کہا بیٹا محمد ہماری بکری کو شیر اٹھا کر لےگئے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اماں رو نہیں آ ہم اپنی بکری کو شیروں سے لے کر آتے ہیں آپﷺ کی ابھی تین سال کی عمر مبارک تھی ۔ حضرت حلیمہ نے کہا بیٹا محمد ایسا نہیں ہوتا ۔ آپﷺ نے فرمایا اماں وہ کسی اور کے کہنے پر نہیں ہوتا جب میں محمد کہوں گا تو جنگل کے شیر بکری لے کر آجائے گے ۔چنانچہ جب آپﷺ حضرت حلیمہ کو ساتھ لےکر اپنی۔بستی سے جنگل کی طرف آتے ہیں تو آقا ﷺ نے آواز دی اے جنگل کے شیروں میری ماں کی بکری واپس کردو، ۔بس اتنا فرمانا تھا جنگل کے شیر دوڑتے ہوئے حضرت حلیمہ کی بکری سا۔تھ لیے ، شیر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے ہیں فوراً رسول اللہ کے قدموں میں اپنا سر رکھتے ہیں آپﷺ نے فرمایا اے شیروں تمہیں نہیں پتا تھا کہ بکری ہماری ہے بتاؤ میری اماں کی بکری کو تم نے کیوں اٹھایا ۔پتا ہے جنگل کے شیر کیا کہتے ہیں شیروں نے عرض کی اے اللہ کے حبیب ﷺ آپ جب بکریاں چرانے آتے تھے تو ہم چھپ چھپ کر آپﷺ کا دیدار کرتے تھے آپﷺ کے حسن و جمال کو دیکھتے تھے کائنات بنانے والے نے اپنا محبوب کیسا بنایا ہے۔پر آقا ﷺ جب تین 3 دن گزرگئے آپﷺ تشریف نہیں لائے ہم سے بڑے شیر نے کہا اگر حضور ﷺ کا دیدار دوبارہ کرنا ہے تو حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بکری اٹھا لو محمد ﷺ بکری چھڑانے آئیں گے اسی بہانے دیدار ہوجائے گا ۔ یارسول اللہ ﷺ بہانہ تو بکری کا تھا اصل میں آپ کے دیدار کا بکری بہانہ تھا ۔
سبحان اللہ اے لوگوں غور کرو جس نبی کے جلوے کو دیکھنے کےلیے جنگل کے شیر بھی ترسے پھر مومن کا بھی حق بنتا ہے نا سب محبتوں سے بڑھ کر اپنی آقا ﷺ سے محبت کرے۔ اپنی نگاہوں کو حیا سے پرنور کرو اور اپنی نگاہوں میں ہروقت رسول اللہ ﷺ کے حسن کی تجلی
✍ کتاب کا نام( ذوقِ خطیب)
قاری فیض المصطفی عتیقی
تو شاہِ خوباں، تو جانِ جاناں، ہے چہرہ اُم الکتاب تیراﷺ
نہ بن سکی ہے، نہ بن سکے گا، مثال تیری جواب تیراﷺ
#صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
❤❤
❤️❤️❤️
 

سیما علی

لائبریرین
حبیب بینک ٹریننگ ڈویژن کراچی کے ہر دلعزیز استاد
حسین احمد خان پانی پتی
ہمارے اُستاد (اعجاز علی خان)
فروری کا مہینہ تھا، کراچی میں کڑاکے کی سردی نہیں پڑتی موسم معتدل رہتا ہے۔ ہمارے بینک کی ٹریننگ کا آغاز ہونا تھا۔ کمال کے اساتذہ تھے وہ سارے کے سارے ۔ جن کا حرف و لفظ سے ناطہ بھی تھا اور بینکنگ کے بحر بیکراں سے چن کے موتی بھی لاتے۔ ہم تو طفل مکتب تھے اور ان کی عمر اس دشت کی سیاحی میں بسر ہوئی تھی۔ سو ہمارے لیے بینکنگ عجائبات کی دنیا تھی۔ لیکن آفرین ہے استاد محترم حسین احمد خان پر کہ ان کا انداز دلنوازی، بات کرنے اور سمجھانے کا سٹائیل ایسا سادہ لیکن محبتوں کی دنیا سمیٹے ہوتا، کہ ہم ان کے طرز سخن کے یوں اسیر ہوئے کہ آج بھی وہ مدھر لہجہ ، وہ رس بھری آواز سماعتوں میں رس گھولتی ہے۔
جب ہم اپنی عملی زندگی میں کیریئر کی ٹریننگ حاصل کرتے ہیں تو اس میں زیادہ فوکس ہمارے skills پر ہوتا ہے. ۔ 1980 کی دہائی کے آخری سالوں میں حبیب بینک ٹریننگ ڈویژن کراچی میں ہمارے career کی ٹریننگ کا دورانیہ چھ مہینے کا تھا. کلاس کے اوقات کار صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک، سارے اساتذہ(Directing Staff) اپنے شعبے کے ایکسپرٹ تھے لیکن سب سے ہر دل عزیز, استاد محترم، جناب حسین احمد خان تھے, پانی پتی کا اضافی نام، متحدہ ہندوستان میں ان کے علاقے کی شناخت کے طور پر اب ان کے نام کا جزو لا ینفک تھا۔ وہ ٹریننگ ڈویژن کے روح رواں تھے. ان کی یاد آج بھی خیال کے چمنستان میں تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند خوش کن اور جانفزا احساسات سے دوچار کرتی ہے۔
دبلا پتلا، چھریرا بدن، کشادہ پیشانی، دمکتا شاداب چہرہ، مختصر مونچھیں, کا لی روشن آنکھیں، ہلکی سانولی رنگت، متوسط العمر بلکہ ڈھلتی جوانی، پاجامے اور شیروانی میں ملبوس، رفتار میں سرعت و تمکنت، پان کے مسلسل استعمال سے سرخ لال ہونٹ، چہرے پر وجاہت کی روشنی، خوش مزاج خوش گفتار ، طبیعت میں سادگی لیکن باتوں میں وارفتگی اور اپنائیث، عادات و اطوار میں لکھنؤی تہزیب کی جھلکیاں۔۔ یہ تھے ہمارے حسین احمد خان پانی پتی۔
ان کے پڑھانے کا انداز اس قدر دلکش، دلربا اور دل پذیر تھا کہ ہم ان کی باتوں کی سحر انگیزی میں کھو جاتے۔ ان کی گفتگو میں تجربے اور مشاہدے کا حسین امتزاج تھا۔ بینک کے مختلف شعبوں میں میں کام کرنے کے عملی انداز کو اس سلیقے اور ترتیب سے بیان کرتے کہ ہم اپنے آپ کو تخیلاتی طور پر برانچ میں وہ کام عملی طور پر کرتا محسوس کرتے۔ جیسے اکاؤنٹ اوپننگ، remittances، clearing, Bills department ، interbranch (Pak Account)reconciliation۔ وہ جدھر چاہتے، ہم اسی مضمون اور عنوان پر اپنی توجہ مرکوز کر لیتے، لگتا اک علم کا دریا ہے اور مسلسل بہے جا رہا ہے۔ اس وقت case study کا رواج نہیں تھا لیکن ان کی گفتگو , کسی واقعے کےتذکرے یا event سے اس قدر متعلقہ ہوتی کہ یہی تذکرہ کیس سٹڈی سے بڑھ کر ہوتا اور اس کی جزئیات ذہن میں نقش ہو جاتیں۔۔جب لیکچر دے رہے ہوتے تو برانچوں کی مثالیں دیتے، اکثر نیو چالی برانچ کراچی، سرکلر روڈ فیصل آباد، رام دین برانچ جہلم اور مختلف بینکرز کا ذکر کر کے اپنی بات کو مؤثر اور جاندار بناتے۔ بینکاری کے اصول سمجھاتے غرض ہر چیز اور ہر پوائنٹ دماغ کے نگار خانے میں محفوظ ہو جاتا۔ وہ theory کو فنکارانہ انداز سے پریکٹس میں تبدیل کرتے۔ ہر عنوان کو مثال سے relate کرتے ایسے لگتا کہ وہ انگلی پکڑ کر عملی راہوں پر ہماری رہنمائی کر رہے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ انہوں نے ہم نو واردوں کے ذہن و خیال کے حاشیوں میں بینکنگ کے عملی شوق اور دلچسپی کی جوت جگائی۔ شاید ان کا مشن تھا ~
روشنی جس کی کسی اور کے کام آ جائے
اک دیا ایسا بھی رستے میں جلائے رکھنا
ان کی کلاس کے بعد جب ہم برانچ میں جاتے تو کام کی سمت سے پہلے ہی آگاہ ہوتے اور عملی کام کو بڑی مستعدی اور تکنیکی مہارت سے مکمل کر لیتے۔ قدرت نے ان کو باوقار اظہار کے قرینے اور سخن آرائی کے ہنر کی نعمت ودیعت کر رکھی تھی کہ ان کی نرم گفتاری اور بردباری کے انداز دلربائی سے ہمارے concept واضح ہوتے. ہماری الجھنوں کو سلجھاتے، ہمارے سوالات کے تسلی بخش جوابات یوں دیتے کہ گنجلک اور پیچیدہ scenarios پل بھر میں clear ہو جاتے. ان کی کلاس میں ہماری ارتکاز فکر (concentration) اپنے عروج پر ہوتی کہ ان کی باتیں شیریں دھرنے کی طرح براہ راست دماغ پر اثر انداز ہوتیں۔ ہم بے تابی اور بے قراری سے ان کی کلاس کا انتظار کرتے۔ ہفتے میں چار دن ان کی کلاس ہوتی۔ راستے یا راہداری میں ان سے سامنا ہوتا تو ہم احترام میں سر جھکا کر کھڑے ہو جاتے اور ان کے ہونٹوں پر اک ملائم سی مسکراہٹ پھیل جاتی۔ وہ ٹریننگ میں نکہت باد بہاری کا ایک خوشگوار جھونکا تھے۔ آج بھی بینک کی ٹریننگ کے زمانہ ماضی کی گمشدہ یادوں سے چاہت کے پھول چننا چاہیں تو سب سے پہلے جس شخص کی پرچھائیں اور عکس, خیال کی سکرین پر جھلملائے گا وہ حسین احمد خان پانی پتی ہوں گے۔ خدا ان کی روح کو اپنی رحمتوں اور برکتوں کے سائبان تلے ابدی سکون سے مالامال رکھے۔
اس شہر میں کتنے چہرے تھے، کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
اک شخص کتابوں جیسا تھا، وہ شخص زبانی یاد ہوا
۔،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
*ایک ایسا سچا قصہ جسے پڑھ آنکھیں نم ہو جائیں*

ہم 1988 میں جب نویں کلاس میں پڑھتے تھے ، اس وقت اسکول یونیفارم میں کیمل کے شلوار قمیض اور سفید جوتے ہوتے تھے ۔
ہیڈ ماسٹر صاحب یونیفارم کے معاملے میں بہت سختی سے پیش آتے تھے اس لئے تمام طلباء یونیفارم پہن کر آتے تھے سوائے دو ایک کے جو غریب ہوتے تھے۔

ایک دن صبح کی اسمبلی کے دوران میٹرک کے طالب علم بیکھو مل بغیر یونیفارم کے اسمبلی کی قطار میں کھڑا تھا ، جیسے ہی ہیڈ ماسٹر کی نظر اس پر پڑی بہت ہی غصے میں بیکھو مل کو کالر سے پکڑ کر باہر لیکر آیا، ہیڈ ماسٹر کا غصہ دیکھتے ہوئے بیکھو مل نے زور زور سے کہنے لگا
سائیں میری بات سنیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بات سنیں
میرا باپ باسو مل غریب آدمی ہے وہ مجھے کہاں سے یونیفارم اور جوتے لیکر دے سکتا ہے ؟
مجھے آپ ماریں نہیں میں کل سے اسکول نہیں آؤں گا ۔
ہیڈ ماسٹر استاد غلام حیدر کھوکھر نے اسے چھوڑ دیا اور اسٹیج پر چڑھ کر تمام طلباء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کے بعد بیکھو مل ایک ایک کلاس میں آئے گا ، آج اس آپ کو جو خرچی ملی ہے وہ آپ بیکھو مل کو دے دینا تاکہ وہ یونیفارم خرید کر سکے۔
میرے پاس حسب معمول آٹھ آنے جیب خرچ ملتا تھا سوچا آج کے دن سموسہ نہیں کھاؤں گا وہ میں بیکھو مل کو دے دوں گا ۔
کلاس میں ابھی بیٹھے ہی تھے کہ کلاس کے ٹیچر استاد فقیر محمد حیات ہسبانی کلاس میں آ گئے ، تھوڑی دیر بعد بیکھو مل بھی استاد سے اجازت لیکر ہماری کلاس میں داخل ہوا ۔
اس کے ہاتھ میں ایک ایک روپے چند نوٹ اورن کچھ سکے تھے جو شاید اس نے اپنی کلاس سے جمع کئے تھے ۔
استاد فقیر محمد حیات ہسبانی بہت غصے میں ہم سب کو منع کیا کہ کوئی بھی اس کو پیسے نہیں دے گا اور بیکھو مل کی جانب دیکھتے ہوئے غصے میں کہا کہ ڈوب نہیں مرتے جو بھیک مانگتے پھرتے ہو
کیا ابھی غربت کی آڑ میں ساری زندگی بھیک مانگتے پھرو گے ؟
واپس اپنے کلاس میں جاؤ اور جن جن سے پیسے لئے ہیں ان کو واپس کر کے آؤ میں تمہیں یونیفارم لیکر دوں گا
بیکھو مل استاد کے کہنے پر واپس اپنی کلاس میں گیا اور سب کو ان کے پیسے واپس کر کے آ گیا ۔
استاد فقیر محمد حیات ہسبانی نے پوچھا کہ شام کے وقت کون سا کام کر سکتے ہو ؟
بیکھو مل نے جواب دیا کہ میرا باپ موچی ہے ، میں بوٹ پالش کرنا اور جوتوں کی مرمت کا کام کر سکتا ہوں مگر میرے پاس سامان خرید کرنے کیلئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے
استاد نے پوچھا کتنے پیسے لگتے ہیں ؟
اس نے کہا ایک لکڑی کی پیٹی اور چند برش ، پالش سب ملا کر کوئی ڈیڑھ سو روپے میں سب سامان آ جائے گا

استاد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ڈیڑھ سو روپے گن کر دیئے اور کہا کہ یہ ادھار ہے ، تم مجھے روز کے حساب سے ہر ہفتے سات روپے واپس کرنا۔
اس کے بعد مجھ سے کاپی مانگی اور اس کے تین کورے صفحات پھاڑ کر نکال لئے اور ان پر کچھ لکھنے لگے تینوں چٹھیاں بیکھو مل کو دیتے ہوئے کہا ایک چٹھی رشید پنجابی کو دینا وہ تمہیں کپڑا دے گا اور تمہیں ایک روپے روزانہ کے حساب سے اس کا قرض واپس کرنا ہے ، دوسری چٹھی خالق دینا منگی کو دینا وہ تجھے بوٹ دے گا اسے بھی ایک روپیہ روز کے حساب سے قرضہ واپس کرنا ہے ، یہ تیسری چٹھی یوسف درزی کو دینا وہ تمہیں یونیفارم سی کر دے گا اسے بھی ایک روپے روزانہ دینے ہیں، چار روپے قرضہ اتارنے کیلئے تمہیں ہر صورت میں اتنا کمانا ہیں تاکہ تم قرضہ چکا سکو اور اسے کے بعد تمہیں اپنی محنت کے ذریعے آگے بڑھنا ہے
ایک بار بھیک مانگنے کی عادت پڑ گئی تو ساری زندگی بھیک مانگتے ہی گزرے گی
بیکھو مل وعدہ کر کے چلا گیا بعد میں استاد نے ہمیں کہا کہ آپ لوگ اپنے جوتوں کی مرمت اور بوٹ پالش ہمیشہ بیکھو مل سے کروایا کریں

وقت تیزی سے گزر گیا 12 سال پلک جھپکتے گزر گئے

1999 میں ہائے اسکول کرونڈی میں دسویں کلاس کے طلباء کی الوداعی پارٹی ہو رہی تھی ، استادوں کے ساتھ شہر کی معززین کو بھی دعوت تھی۔
تقریر کرنے کیلئے شہر کی ایک بڑی فلور مل کے معزز جنرل مینیجر بیکھو مل کو دعوت دی گئی ، کاٹن کے سوٹ میں ملبوس ، ماتھے پر ری بین کا چشمہ رکھے اپنی تقریر میں اسی اسکول میں پیش آئے 1988 کا قصہ سناتے ہوئے زار و قطار روتے ہوئے اسٹیج پر بیٹھے اپنے استاد فقیر محمد حیات ہسبانی کے پیروں کو چھوتے ہوئے بتایا کہ کس طرح ایک کامل استاد نے مجھے بھیک مانگنے سے بچایا اور محنت کا سبق دیا ۔

*محترم محمد ایوب قمبرانی کی سندھی تحریر کا اردو ترجمہ*
 

یاسر شاہ

محفلین
*ایک ایسا سچا قصہ جسے پڑھ آنکھیں نم ہو جائیں*

ہم 1988 میں جب نویں کلاس میں پڑھتے تھے ، اس وقت اسکول یونیفارم میں کیمل کے شلوار قمیض اور سفید جوتے ہوتے تھے ۔
ہیڈ ماسٹر صاحب یونیفارم کے معاملے میں بہت سختی سے پیش آتے تھے اس لئے تمام طلباء یونیفارم پہن کر آتے تھے سوائے دو ایک کے جو غریب ہوتے تھے۔

ایک دن صبح کی اسمبلی کے دوران میٹرک کے طالب علم بیکھو مل بغیر یونیفارم کے اسمبلی کی قطار میں کھڑا تھا ، جیسے ہی ہیڈ ماسٹر کی نظر اس پر پڑی بہت ہی غصے میں بیکھو مل کو کالر سے پکڑ کر باہر لیکر آیا، ہیڈ ماسٹر کا غصہ دیکھتے ہوئے بیکھو مل نے زور زور سے کہنے لگا
سائیں میری بات سنیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بات سنیں
میرا باپ باسو مل غریب آدمی ہے وہ مجھے کہاں سے یونیفارم اور جوتے لیکر دے سکتا ہے ؟
مجھے آپ ماریں نہیں میں کل سے اسکول نہیں آؤں گا ۔
ہیڈ ماسٹر استاد غلام حیدر کھوکھر نے اسے چھوڑ دیا اور اسٹیج پر چڑھ کر تمام طلباء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کے بعد بیکھو مل ایک ایک کلاس میں آئے گا ، آج اس آپ کو جو خرچی ملی ہے وہ آپ بیکھو مل کو دے دینا تاکہ وہ یونیفارم خرید کر سکے۔
میرے پاس حسب معمول آٹھ آنے جیب خرچ ملتا تھا سوچا آج کے دن سموسہ نہیں کھاؤں گا وہ میں بیکھو مل کو دے دوں گا ۔
کلاس میں ابھی بیٹھے ہی تھے کہ کلاس کے ٹیچر استاد فقیر محمد حیات ہسبانی کلاس میں آ گئے ، تھوڑی دیر بعد بیکھو مل بھی استاد سے اجازت لیکر ہماری کلاس میں داخل ہوا ۔
اس کے ہاتھ میں ایک ایک روپے چند نوٹ اورن کچھ سکے تھے جو شاید اس نے اپنی کلاس سے جمع کئے تھے ۔
استاد فقیر محمد حیات ہسبانی بہت غصے میں ہم سب کو منع کیا کہ کوئی بھی اس کو پیسے نہیں دے گا اور بیکھو مل کی جانب دیکھتے ہوئے غصے میں کہا کہ ڈوب نہیں مرتے جو بھیک مانگتے پھرتے ہو
کیا ابھی غربت کی آڑ میں ساری زندگی بھیک مانگتے پھرو گے ؟
واپس اپنے کلاس میں جاؤ اور جن جن سے پیسے لئے ہیں ان کو واپس کر کے آؤ میں تمہیں یونیفارم لیکر دوں گا
بیکھو مل استاد کے کہنے پر واپس اپنی کلاس میں گیا اور سب کو ان کے پیسے واپس کر کے آ گیا ۔
استاد فقیر محمد حیات ہسبانی نے پوچھا کہ شام کے وقت کون سا کام کر سکتے ہو ؟
بیکھو مل نے جواب دیا کہ میرا باپ موچی ہے ، میں بوٹ پالش کرنا اور جوتوں کی مرمت کا کام کر سکتا ہوں مگر میرے پاس سامان خرید کرنے کیلئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے
استاد نے پوچھا کتنے پیسے لگتے ہیں ؟
اس نے کہا ایک لکڑی کی پیٹی اور چند برش ، پالش سب ملا کر کوئی ڈیڑھ سو روپے میں سب سامان آ جائے گا

استاد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ڈیڑھ سو روپے گن کر دیئے اور کہا کہ یہ ادھار ہے ، تم مجھے روز کے حساب سے ہر ہفتے سات روپے واپس کرنا۔
اس کے بعد مجھ سے کاپی مانگی اور اس کے تین کورے صفحات پھاڑ کر نکال لئے اور ان پر کچھ لکھنے لگے تینوں چٹھیاں بیکھو مل کو دیتے ہوئے کہا ایک چٹھی رشید پنجابی کو دینا وہ تمہیں کپڑا دے گا اور تمہیں ایک روپے روزانہ کے حساب سے اس کا قرض واپس کرنا ہے ، دوسری چٹھی خالق دینا منگی کو دینا وہ تجھے بوٹ دے گا اسے بھی ایک روپیہ روز کے حساب سے قرضہ واپس کرنا ہے ، یہ تیسری چٹھی یوسف درزی کو دینا وہ تمہیں یونیفارم سی کر دے گا اسے بھی ایک روپے روزانہ دینے ہیں، چار روپے قرضہ اتارنے کیلئے تمہیں ہر صورت میں اتنا کمانا ہیں تاکہ تم قرضہ چکا سکو اور اسے کے بعد تمہیں اپنی محنت کے ذریعے آگے بڑھنا ہے
ایک بار بھیک مانگنے کی عادت پڑ گئی تو ساری زندگی بھیک مانگتے ہی گزرے گی
بیکھو مل وعدہ کر کے چلا گیا بعد میں استاد نے ہمیں کہا کہ آپ لوگ اپنے جوتوں کی مرمت اور بوٹ پالش ہمیشہ بیکھو مل سے کروایا کریں

وقت تیزی سے گزر گیا 12 سال پلک جھپکتے گزر گئے

1999 میں ہائے اسکول کرونڈی میں دسویں کلاس کے طلباء کی الوداعی پارٹی ہو رہی تھی ، استادوں کے ساتھ شہر کی معززین کو بھی دعوت تھی۔
تقریر کرنے کیلئے شہر کی ایک بڑی فلور مل کے معزز جنرل مینیجر بیکھو مل کو دعوت دی گئی ، کاٹن کے سوٹ میں ملبوس ، ماتھے پر ری بین کا چشمہ رکھے اپنی تقریر میں اسی اسکول میں پیش آئے 1988 کا قصہ سناتے ہوئے زار و قطار روتے ہوئے اسٹیج پر بیٹھے اپنے استاد فقیر محمد حیات ہسبانی کے پیروں کو چھوتے ہوئے بتایا کہ کس طرح ایک کامل استاد نے مجھے بھیک مانگنے سے بچایا اور محنت کا سبق دیا ۔

*محترم محمد ایوب قمبرانی کی سندھی تحریر کا اردو ترجمہ*
واہ بہت خوب ۔سلام ہے ایسے استادوں کو۔
 

سیما علی

لائبریرین
خراجِ عقیدت"

رکشوں، ٹرکوں اور ہوٹلوں میں اقوالِ زریں اور اشعار آپ نے اکثر پڑھے ہوں گے۔ خوش نویس نیم خواندہ ہونے کی وجہ سے املا کی غلطیاں کرتے ہیں۔
فخرے چکوال
نسیب اپنا اپنا
مہنت کر حسد نہ کر
تیری نظریں ہیں طلوار ۔۔۔ تو میں نے بھی بارہا پڑھا۔ لیکن وہ تو نیم خواندہ تھے، اور اب اسی قسم کی کھیپ یونیورسٹیوں سے یوٹیوب پر شاعری کے چینلز اور فیس بک پیج بنا کر سامنے آرہی ہے۔ جس میں گیتوں اور غزلوں کی ویڈیوز اردو ٹائیٹل کے ساتھ اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ تصویروں پر غلط شعر لکھے جاتے ہیں۔ ارتغرل کی تصویر پر یہ شعر بھی دیکھا۔

یہ گازی یہ تیرے پور اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق کھدائی

شاعری کی ویڈیوز میں آتشی گلابی رنگ میں لکھے سب ٹائٹل میں "ہجر و فراک" اور "جانے جاناں" پڑھ کر تو رقت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک دن فیض کی غزل نظر سے گزری، لکھا تھا:
"دلے ریزہ ریزہ گنوا دیا، تنے داغ داغ لٹا دیا"
اور ویڈیو کے نیچے سینکڑوں واہ، واہ کے کومنٹس تھے۔ کچھ لوگ تو وجد میں آکر غش کھا رہے تھے۔ کسی کو بھی دلے اور تنے پر اعتراض نہ تھا سو میں نے بھی شدید امپریس ہوکر کومنٹ میں فرمائش کی کہ
"رنجش ہی صحیح دل ہی دکھانے کے لیے آ"
اور
"یہ عالم شاک کا دیکھا نہ جائے"
پر بھی ویڈیو بناکر فراز کو خراجے عقیدت پیش کریں.
بولے اگلی گھزل ان کی ہی پیش کی جائے گی۔
آخر میں بس ان سے اتنا ہی کہنا چاہوں گی۔۔۔

میں تو اس واسطے چوپ ہوں کے تماشا نا بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گیلا کچھ بھی نہیں
 
Top