انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
اسلام ایک ہمہ گیر، فطرت سے ہم آہنگ، احترام و حقوق انسانیت کا علم بردار آفاقی مذہب ہے۔

اسلام میں ہر عام و خاص کو داخلے کی اجازت ہے۔ جس میں علاقے، قومیت اور رنگ و نسل کی کوئی تفریق نہیں۔ اس کی نرم اور لچک دار پالیسیوں کی وجہ سے بنی نوع انسان کے حقوق کو تحفظ ملتا ہے اس کا منشور دہشت گردی، فساد فی الارض اور انسانی طبقات کی ایذا رسانی کی سراسر مخالفت کرتا ہے اور ایسا کرنے والوں کو بہ بانگ دہل مجرم قرار دیتا ہے۔ اس کے ہر شعبے میں نرم خوئی، امن و سلامتی اور انسان دوستی کا ایک طویل ترین باب ملتا ہے۔

اسلام امن کا داعی اور ساری انسانیت کے لیے پیام رحمت ہے۔ حقوق العباد کے عنوان سے اسلام کا ایک شرعی کلیہ اور ضابطہ بھی موجود ہے جس کا توسیعی مظہر امن و سلامتی، رحمت اور احترام انسانیت سے ہی ماخوذ ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر اسے دینِ رحمت کہا جاتا ہے۔

دین رحمت سے جو مفہوم نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ دین سارے عالم کے لیے ایک پُرامن اور انسان دوست مذہب بن جائے جس میں انسانی نسل کے ہر دائرے کے لوگوں میں ہم آہنگی، توازن اور آپس میں معاونت کا نیک جذبہ پیدا ہوسکے۔ جہاں انسان امن و سکون اور طمانیت کے ساتھ زندگی گزار سکیں اور اس طرح کے معاشرے کی بنیاد دین رحمت ہی رکھ سکتا ہے کیوں کہ اسلام ہی میں کلمۂ توحید زبان سے ادا کرنے کے ساتھ ہی انسانی حقوق کی پاس داری کی ہدایات جاری ہوتی ہیں۔

رسول اﷲ ﷺ کا آخر ی خطبہ احترام انسانیت کا عالمی منشور اور ایک مکمل نصاب ہے۔ اس تاریخی خطبے میں آپ ﷺ نے انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے، کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر بزرگی حاصل نہیں۔ آپ ﷺ نے انسانیت کا احترام سکھایا کہ جب بھی کسی سے بات کرو اچھے انداز سے کرو، اچھی گفتگو کرو اور دوسروں کو اپنے شر سے بچاؤ۔

احترام انسانیت کے لیے اسلام نے دو زرّیں اصول بیان کیے ہیں کہ جب کسی سے ملے تو خندہ پیشانی سے ملے۔ انسانوں سے اچھے انداز میں گفتگو کریں۔۔
اسلام کا یہ منشور انسان دوستی کے موقف کی تائید کے لیے کافی ہے، لہذا اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنا ایک غیر معقول بات، غیر منصفانہ عمل ہے اور ایک عالم گیر مذہب اور اس کے ماننے والوں کی صریح حق تلفی ہے۔۔

منقول
 

ام اویس

محفلین
افضل كون والد يا استاذ؟

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ شیخ عبدالاحدازہری جومصرکےبہت اچھےفقیہ ہیں،میرے مہمان ہوئے،ایک مجلس میں آپ نےحاضرین کےسامنے بہت ہی عمدہ انداز میں تلاوت کی۔پھرگفتگو کا دور شروع ہوا۔ بات نکلی،کہ قرآن نازل ہوا عرب میں پڑھا گیا مصر میں اورسمجھا گیا ہند میں.اس پر انہوں نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا۔

کہ ایک مرتبہ میں مسجد نبوی میں حاضر تھا۔ کچھ محبت رکھنے والے علماء نے مجھے مسند پر بٹھا دیا۔ اور کہا ہمیں کچھ نصیحت کریں،بعدنصیحت کےسوال جواب کادورشروع ہوا،کسی نے پوچھا :
"استاذ کا رتبہ بڑا یا والدین کا؟؟
میں نے کہا کہ :
"بعض حضرات نے لکھا ہے کہ استاذ کا درجہ بڑا ہوتا ہے،کیوں کہ والدین بچے کو نیچے(دنيا میں) لانے کو محنت کرتے ہیں اوراستاذبچےکو نیچے( دنیا) سے اوپر لے جانے کے لئے محنت کرتا ہے".
اس جواب پر ایک ادھیڑ عمر کے آدمی نے کہا کہ :
"مجھے آپ کا جواب سمجھ میں نہیں آیا".
میں نے کہا :
"آپ کچھ سمجھا دیں".
اس نے کہاکہ :
" صحابہ کے دور سے یہ ترتیب چلی آ رہی ہے۔(غالبا حضرت معاذ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک گفتگو کی طرف اشارہ فرمایا) کہ پہلے کتاب اللہ پھر سنت رسول اللہ، پھر عمل صحابہ پھر اخیر میں قیاس ہےاور آپ نے پہلے ہی قیاس کو اٹھایا،حالانکہ والدین کا رتبہ منصوص علیہ ہے۔ اورآپ نےجودلیل پیش کی وہ قیاس ہےجب نص کسی چیز کی فضیلت میں وارد ہوجائےوہ ہر حال میں افضل ہی رہتی ہے،تاآنکہ کوئی دوسری نص اس کے خلاف وارد ہو جائے".

میں نے اپنا سر پکڑ لیا۔۔۔۔ کہ واقعی اتنی زبردست چوک مجھ سے کیسے ہوگئی جب کہ اصول میں یہ بات ہے کہ کسی چیز کی فضیلت ،یا کسی چیز کے ثواب و عقاب کو ثابت کرنے کے لئے نص قطعی الثبوت چاہئے۔ یا ایسا مضبوط باسندالمتصل قول نبی چاہیےجو اس فضلت یا ثواب وعقاب کےمعاملہ میں صریح ہو،میں نے کہا :
"واقعی میں غلطی پر تھاکچھ اورفرمائیں"۔
کہا کہ :
"ایک باندی تھی ابو لہب کی آزاد کردہ جن کا نام تھا "ثویبہ" جنہوں نے چند روز آپ علیہ السلام کو اپنا دودھ پلایا تھا۔ ایک مرتبہ تشریف لائیں۔ تو آپ نے اپنی دستار مبارک ان کے راستہ میں بچھا دی۔ یہ درجہ دیا اس ذات کو جس نے چند روزدودھ پلایاتو جنم دینے والی کا کیا حق ہوگا؟ اور دوسری طرف حضرت جبرئیل جو من وجہ آپ کے استاذ تھے۔ ان کی آمد پر اس قسم کی تکریم ثابت نہیں".

میں نے کہا :
آپ کے جواب سے اطمینان ہوا،کلام الہی اور عمل نبی کے بعد کسی چیز کی ضرورت نہیں"۔
پھروہ اٹھ کرچل دیئےمیں نے کہا :
"شاید کوئ فقیہ ہیں".
اھل مجلس نے کہا کہ :
"یہ ہندوستان کےادارہ دارالعلوم دیوبندکےاستاذحدیث مفتی سعیداحمدپالنپوری ہیں".
(مجالس عثمانی)

اس تحریر سے نہایت عمدہ بات سمجھ آئی۔
اس وقت سوشل میڈیا پر کام کرنے والوں کو ہر وقت یہ بات دھیان میں رکھنی چاہیے۔ عموما جدیدیت کے اس ریلے میں بہتے ہوئے ہم بحیثیت انسان اخلاقیات سے متاثر ہو کر ایسی باتیں کرنے میں کچھ حرج نہیں سمجھتے حالانکہ دنیا و دین کے ہر معاملے میں ہمارے اکابر ہمارے لیے بہترین رہنما ہیں ۔
جزاکم الله خیرا کثیرا
 

ام اویس

محفلین
تالاب کا کنارہ ہو، خاموشی کا سماں ہو، شام کا سہانا وقت ملگجی اندھیروں سے ہم آہنگ ہو، ایسے میں تالاب کے وسط میں ایک کنکر پھینکا جائے تو دلکش سی آواز سنائی دیتی ہے غڑاپ۔۔۔
اور ساتھ ہی لہریں دائرے کی صورت میں کنکر گرنے کی جگہ سے باہر کی طرف سفر کرنا شروع ہوجاتی ہے؛ پہلے چھوٹا دائرہ، پھر بڑا، پھر اُس سے بڑا، پھر اُس سے بھی بڑا۔۔۔
خاموشی سے، سرعت سے باہر کی طرف نکلتا سفر نہایت دیدہ زیب اور جاذبِ نظر ہوا کرتا ہے۔۔۔۔
ایک سکون لیے، ایک لطف لیے۔۔۔۔۔
انگلش میں بھی ان کے لیے خوبصورت لفظ مستعمل ہے Ripples

اسی طرح جب دل پر اللہ کی محبت کا رسوخ ہوتا ہے تو شعاعیں ہر طرف دائروں میں پھیلتی جاتی ہیں؛ پہلے چھوٹا دائرہ، پھر بڑا، پھر اُس سے بڑا، پھر اُس سے بھی بڑا۔۔۔
جتنا رسوخ زیادہ، اُتنا ہی دائروں کا پھیلاؤ زیادہ۔۔۔۔
سب سے پہلے دائرے سے اپنے دل کی صفائی ہوتی ہے پھر اس سے بڑا دائرہ جسم اور روح کو اپنے احاطے میں سمیٹ لیتا ہے۔۔۔۔۔
پھر اپنی ذات سے نکل کر اپنے گھر والوں کا بھلا، ان سے محبت، ان کے حقوق ادا کرنے کی فکر کا دائرہ آتا ہے خاموشی سے، شفقت سے، نرمی سے، محبت سے۔۔۔۔۔
پھر محلہ دار، ہم جماعت، دوست احباب، عزیز رشتہ دار بھی آنا شروع ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔
پھر اجنبی لوگ بھی، اصحاب الجب بھی، چرند پرند بھی، نباتات بھی یعنی رفتہ رفتہ تمام مخلوقات کی بھلائی حسبِ موقع اس میں جلوہ گر ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔
ایسا انسان معاشرے کے لیے، دنیا کے لیے نہایت نفع بخش فرد بن جاتا ہے انفاعیت کے جذبے سے لبریز۔۔۔۔۔
ایسے انسان کو کرنا نہیں پڑتا، اس سے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔
وہ اس سوچ کی عملی تصویر بن جاتا ہے کہ مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔۔۔۔۔

پرانے زمانے کی بڑی بوڑھیاں اس کی عملی تفسیر ہوا کرتی تھیں، اب بھی کچھ بچی کُھچی باقیات نظر آجایا کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔
دعاؤں کا حلقہ بھی وسیع ہوتا تھا، دعا میں ہاتھوں کے ساتھ چادر کی جھولی ایسے پھیلائی ہوتی تھی کہ گویا سب رحمتیں، سب فضل، سب محبتیں سمیٹ لیں گی، صرف اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے۔۔۔۔۔
چہرے پر شفقت، محبت، نرمی، ملائمت۔۔۔۔۔
یہی نرمی اور ملائمت لہجے اور الفاظ کا بھی اہم عنصر ہوا کرتی۔ نہ کوئی طعنہ، نہ کوئی طنز، نہ فحش گوئی، نہ غیبت، نہ چغلی، نہ بغض، نہ کینہ، نہ جھوٹ بس بھلا ہی بھلا، نفع ہی نفع۔۔۔۔۔۔
نہ جانے اُن کے اندر کیسی سرشاری موجزن ہوگی، کیسی سکینت رواں ہوگی، کیسا لطف ہوگا جس کا چہرے اور الفاظ میں ایسا خوبصورت عکس پڑتا ہو۔۔۔۔۔۔
ان حجم کے لحاظ سے چھوٹے بڑے دائروں کی ہمیں بھی ضرورت ہے، معاشروں کو ضرورت ہے، دنیا کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔
نفرت، خود غرضی، نفسا نفسی نے دلوں میں، معاشروں میں، دنیا میں مضبوط ڈیرے ڈال دیے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔
ہم سب کو آفاقی محبت اور بھلائی کے ان دائروں کی ضرورت ہے، Ripples کی ضرورت ہے ورنہ ہم خود اپنے اپنے دائرے ہی میں مقید رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔
کوشش تو کی تھی ڈھونڈنے کی کہ یہ کس کی تحریر ہے مگر کامیابی نہیں ہوئی۔
 

سیما علی

لائبریرین
مجھے افسوس ھوا اپنے آپ پر کہ میں نے اپنے والدین سے زیادہ اپنی ذات کو ترجیح دی ھے میرے والدین جنہوں نے مجھے سب کچھ دیا اور میں نے ان سے سب کچھ لے کر انکو خالی کر دیا لیکن کبھی انہوں نے مجج سے کوئی گلہ یا شکوہ نہی کیا ۔۔۔
میرے والدین کل بھی عظیم تھے اور آج بھی عظیم ھیں اور میں کل بھی ناکام تھا اور آج بھی ناکام ھوں ۔۔۔۔
سب سے افسوس کی بات یہی ہے کہ ہم اُنھیں ایک سیڑھی کی طرح استعمال کرتے ہیں اور پھر اُنکوا سٹور میں باقی سامان کے ساتھ رکھ کر بھول جاتے ہیں ۔لیکن اُنکی عظمت میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور کبھی کمی نہیں اور ہم ناکام۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایک بادشاہ کو ایک لونڈی کی ضرورت تھی
اس نے اعلان کیا کہ مجهے ایک لونڈی درکار ہے
اس کا یہ اعلان سن کر اس کے پاس دو لونڈیاں آئیں، اور کہنے لگیں ہمیں خرید لیجیے! ان دونوں میں ایک کا رنگ کالا تھا اور ایک کا گورا
بادشاہ نے کہا مجھے ایک لونڈی چاہیے دو نہیں
گوری بولی تو پهر مجھے خرید لیجیے حضور! کیونکہ گورا رنگ اچھا ہوتا ہے اور کالی بولی حضور رنگ تو کالا ہی اچھا ہوتا ہے آپ مجھے خریدیے
بادشاہ نے ان کی یہ گفتگو سنی تو کہا. اچھا تم دونوں اس موضوع پر مناظرہ کرو کہ رنگ گورا اچھا ہے یا کالا جو جیت جائے گی میں اسے خرید لوں گا دونوں نے کہا بہت اچھا
چنانچہ دونوں کا مناظرہ شروع ہوا، اور کمال یہ ہوا کہ دونوں نے اپنے رنگ کے فضائل و دلائل عربی زبان میں فی البدیہ شعروں میں بیان کیے
یہ اشعار عربی زبان میں ہیں مگر مصنف نے اردو زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے اور میں نے ان کو پنجابی زبان میں شعروں کی شکل دی ہے
پڑھیے اور غور کیجیے، میرا مقصد صرف یہ ہے کہ پہلے زمانے میں لونڈیاں بھی کس قدر فہم و فراست کی مالک ہوا کرتی تھیں
گوری بولی اور گورے رنگ کے فضائل و دلائل پیش کیے
کولا کم قیمت اچ ڈھیر ملے چٹے موتیاں دا بہوں مل ہوندائے
کالا منہ ہمیش جہنمی دا چٹا مکھ نورانی پهل ہوندائے
چٹے ورق قرآن کریم دے نیں چٹا ویکھ لے دیہہ میلاد دا اے
چٹی چاننڑی چن دی شمس چٹا چٹے تارے دا کم حداد دا اے
چمکے مکھ حضور دا دند چٹے چٹے رنگ دا ایہہ ہا علم میتهے
کہڑا بہتر اے"گل" انصاف کریں رہیا فیصلہ وقت دا شاہ تیتهے
بادشاہ گوری کے یہ اشعار سن کر بڑا خوش ہوا، پھر کالی سے مخاطب ہو کر کہنے لگا، کہ سنا تم نے؟؟؟ اب بتاؤ کیا کہتی ہو؟؟ کالی بولی حضور
کستوری کالی حضور جے پنج دی اے روئی اگر خرید تے ڈھیر دسے
کالی اکھ جناب کائنات ویکهے جداں ہوئے سفید انہیر دسے
چٹے ٹھیک اے ورق قرآن دے نیں اتے لکھے حروف سیاہ دساں
چٹا منیایں دیہہ میلاد دا اے راتیں ہوئی معراج گواہ دساں
نورانی مکھ حضور دا کل منے کالی کملی تے زلف دے وال کالے
خانہ کعبہ دا "گل" غلاف کالا اے ہائے حبشی حضرت بلال کالے

بادشاہ نے ان دونوں کے یہ علمی اشعار سن کر کہا. کہ مجھے لونڈی تو ایک درکار تھی، مگر میں تم دونوں کو ہی خرید لیتا ہوں

منقول
 

سید عمران

محفلین
ایک بادشاہ کو ایک لونڈی کی ضرورت تھی
اس نے اعلان کیا کہ مجهے ایک لونڈی درکار ہے
اس کا یہ اعلان سن کر اس کے پاس دو لونڈیاں آئیں، اور کہنے لگیں ہمیں خرید لیجیے! ان دونوں میں ایک کا رنگ کالا تھا اور ایک کا گورا
بادشاہ نے کہا مجھے ایک لونڈی چاہیے دو نہیں
گوری بولی تو پهر مجھے خرید لیجیے حضور! کیونکہ گورا رنگ اچھا ہوتا ہے اور کالی بولی حضور رنگ تو کالا ہی اچھا ہوتا ہے آپ مجھے خریدیے
بادشاہ نے ان کی یہ گفتگو سنی تو کہا. اچھا تم دونوں اس موضوع پر مناظرہ کرو کہ رنگ گورا اچھا ہے یا کالا جو جیت جائے گی میں اسے خرید لوں گا دونوں نے کہا بہت اچھا
چنانچہ دونوں کا مناظرہ شروع ہوا، اور کمال یہ ہوا کہ دونوں نے اپنے رنگ کے فضائل و دلائل عربی زبان میں فی البدیہ شعروں میں بیان کیے
یہ اشعار عربی زبان میں ہیں مگر مصنف نے اردو زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے اور میں نے ان کو پنجابی زبان میں شعروں کی شکل دی ہے
پڑھیے اور غور کیجیے، میرا مقصد صرف یہ ہے کہ پہلے زمانے میں لونڈیاں بھی کس قدر فہم و فراست کی مالک ہوا کرتی تھیں
گوری بولی اور گورے رنگ کے فضائل و دلائل پیش کیے
کولا کم قیمت اچ ڈھیر ملے چٹے موتیاں دا بہوں مل ہوندائے
کالا منہ ہمیش جہنمی دا چٹا مکھ نورانی پهل ہوندائے
چٹے ورق قرآن کریم دے نیں چٹا ویکھ لے دیہہ میلاد دا اے
چٹی چاننڑی چن دی شمس چٹا چٹے تارے دا کم حداد دا اے
چمکے مکھ حضور دا دند چٹے چٹے رنگ دا ایہہ ہا علم میتهے
کہڑا بہتر اے"گل" انصاف کریں رہیا فیصلہ وقت دا شاہ تیتهے
بادشاہ گوری کے یہ اشعار سن کر بڑا خوش ہوا، پھر کالی سے مخاطب ہو کر کہنے لگا، کہ سنا تم نے؟؟؟ اب بتاؤ کیا کہتی ہو؟؟ کالی بولی حضور
کستوری کالی حضور جے پنج دی اے روئی اگر خرید تے ڈھیر دسے
کالی اکھ جناب کائنات ویکهے جداں ہوئے سفید انہیر دسے
چٹے ٹھیک اے ورق قرآن دے نیں اتے لکھے حروف سیاہ دساں
چٹا منیایں دیہہ میلاد دا اے راتیں ہوئی معراج گواہ دساں
نورانی مکھ حضور دا کل منے کالی کملی تے زلف دے وال کالے
خانہ کعبہ دا "گل" غلاف کالا اے ہائے حبشی حضرت بلال کالے

بادشاہ نے ان دونوں کے یہ علمی اشعار سن کر کہا. کہ مجھے لونڈی تو ایک درکار تھی، مگر میں تم دونوں کو ہی خرید لیتا ہوں

منقول
کاش وہ بادشاہ ہم ہی ہوتے!!!
:daydreaming: :daydreaming: :daydreaming:
 

سیما علی

لائبریرین
کاش وہ بادشاہ ہم ہی ہوتے!!!
:daydreaming: :daydreaming: :daydreaming:
ہمیں پتہ تھا بادشاہِ وقت سید عمران صاحب
“پاکستان اِس وقت حرفِ ابجد ’’ع‘‘ کے دورِ عروج سے گزر رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے نام میں موجود حرف ع کا سایہ پورے پاکستان پر ہے، صدر پاکستان عارف علوی کے نامِ نامی میں ایک عین نہیں بلکہ دو عین ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے تین قریبی ترین افراد بھی ع ہیں۔

فردوس عاشق اعوان کی اونچی اُڑان کی وجہ بھی اُن کے نام میں دو ’’ع‘‘ ہونا ہے۔
 

سید عمران

محفلین
ہمیں پتہ تھا بادشاہِ وقت سید عمران صاحب
“پاکستان اِس وقت حرفِ ابجد ’’ع‘‘ کے دورِ عروج سے گزر رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے نام میں موجود حرف ع کا سایہ پورے پاکستان پر ہے، صدر پاکستان عارف علوی کے نامِ نامی میں ایک عین نہیں بلکہ دو عین ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے تین قریبی ترین افراد بھی ع ہیں۔

فردوس عاشق اعوان کی اونچی اُڑان کی وجہ بھی اُن کے نام میں دو ’’ع‘‘ ہونا ہے۔
مراد علی شاہ میں عین ہے۔۔۔
اور عثمان بزدار میں بھی۔۔۔
حد تو یہ کہ ہمارے بھیا میں بھی عین ہے۔۔۔
تبھی وہ ہر وقت عین غین کرتے رہتے ہیں!!!
 

سیما علی

لائبریرین

کور چشم


"سنا ہے جس عورت سے آپکی شادی ہوئی تھی وہ بڑی خطرناک عورت تھی، اور آپ نے ڈر کے مارے اسے طلاق دے دی تھی"برگد کے درخت کے نیچے کرسی پر بیٹھے ایک خاموش طبع بوڑھے سے ایک منچلے نے استہزائیہ کہا.ساتھ ہی قریب بیٹھے نوجوانوں کی ٹولی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو ہنس کردیکھا.
"اللہ بخشے اسے،بہت اچھی عورت تھی."بنا ناراض ہوئے،بغیر غصہ کئے بابا جی کی طرف سے ایک مطمئن جواب آیا.
مسکراہٹیں سمٹیں،ایک نوجوان نے ذرا اونچی آواز میں کہا "لیکن بابا جی لوگ کہتے ہیں وہ بڑی خطرناک عورت تھی.کیا نہیں؟"بابا جی کچھ دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے.
"کہتے تو ٹھیک ہی ہیں،وہ عورت واقعی بہت خطرناک تھی.اور حقیقتا میں نے ڈر کے مارے اسے طلاق دی تھی"
"یہ بات تو مردانگی کے خلاف ہے،عورت سے ڈرنا کہاں کی بہادری ہے؟"نوجوان جوشیلے انداز میں بولا
"میں عورت سے نہیں ڈرتا تھا،میں تو "اس" سے ڈرتا تھا جس تک اس کی رسائی تھی"پرسکون جواب
جوانوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا.
"ایسی عورتوں کو تو...جہنم میں ہونا چاہیئے..لا حولا ولا قوہ..کہاں آپ جیسا شریف النفس آدمی کہاں وہ عورت؟اچھا کیا چھوڑ دیا"نوجوان کے لہجے میں غصہ تھا. بوڑھے کی متجسس زندگی کا پٹارا کھل کر سامنے آگیا تھا. تجسس ختم ہوا،اب سب باری باری منتشر ہونے لگے.جانے والوں نے عنوان پڑھ لیا تھا،کہانی خود بنانی تھی.جو رہ گئے تھے،وہ وہی تھے جو اصل کہانی جاننا چاہتے تھے

"میں بھی ایسا ہی سوچتا تھا،کہ اسے جہنم میں ہی ہونا چاہیئے تھا،تب ہی میں نے اسے جہنم جیسی زندگی دی تھی"بوڑھی آنکھوں میں اضطراب اترا.
یہ تب کی بات ہے جب میں سرکار کے ہاں ایک روپیہ ماہوار پر ملازم ہوا،میری ماں چاہتی تھی کہ میری شادی ہوجائے.رشتہ ڈھونڈا گیا،ایک مونگ پھلی فروش کی بیٹی میری ماں کو پسند آئی.سلیقہ مند، خوبصورت اور ایک دم خاموش طبع.مجھے اس رشتے پر اعتراض تھا کہ وہ ایک مونگ پھلی بیچنے والی کی بیٹی تھی.مزدور کی اولاد کو پیٹ کی فکررہتی ہے، تربیت کی نہیں،تربیت بڑے گھرانوں میں کی جاتی ہے جہاں افلاس آنکھوں کے روشنی چھیننے سے قاصر ہوتا ہے.وہ کیا تربیت دے گی میری اولاد کو؟؟"لیکن وہ لڑکی میری ماں کو ایسی پسند تھی کہ اماں اس کے علاوہ کسی کا نام نہیں سننا چاہتی تھیں.
پھر وہ بیاہ کر میرے گھر آگئی،رخصتی کے وقت اس کے باپ نے مجھے کہا "
"میری بیٹی سیدھی سادھی ہے،اسے دنیاداری کا کوئی خاص پتا نہیں،اگر کہیں کوئی چوک ہوجائے تو معاف کردینا،یوں ہے بڑے دل والی،اپنے' سائیں 'کو خوش رکھے گی"وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسی میری ماں نے بتایا تھا.سلیقہ مند،سگھڑ اور تابعدار."بابا جی کی وہی گھسی پٹی بابوں والی داستان ہوگی، یہ سوچ کر دو نوجوان اٹھ کر چلے گئے.

"میری باہر دوستوں کے ساتھ صحبت کوئی اچھی نہیں تھی،ملازمت کے اوقات میں کھانا گھر سے باہر کھاتا،دوستوں میں بیٹھتا ،رات گئے تک محفل چلتی پھر گھر جاتا. وہ کیا کھاتی تھی کیا پیتی تھی کس حال میں رہتی تھی مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی.انہی دنوں میری ماں بھی دنیا سے رخصت ہوگئی.
ایک روز میں جوئے میں بھاری رقم ہار کر جب تھکا ہاراگھر آیا تو کہنے لگی" آپ تو کھانا باہر کھالیتے ہیں،مجھے بھوک لگتی ہے،ہوسکے تو ایک ہی بار مہینے کا راشن ڈلوا دیا کیجیئے،روز روز بازار سے خریداری کی صعوبت نہیں اٹھانی پڑے گی."کیا؟؟اس پھونگ پھلی بیچنے والے کی بیٹی کی اتنی اوقات کہ مجھ سے مطالبہ کرسکے؟؟مجھے طیش آیا.
"ہو ناں تم کسی بہت بڑے باپ کی بیٹی کہ تمہیں پورے مہینے کا راشن اور خرچ چاہیئے؟اپنی اوقات دیکھی ہے؟"غصے میں آکر اس پر ہاتھ اٹھایا اور مغلظات بھی بکے. میں یہ نہیں سوچ سکا کہ آخر اسے زندہ رہنے کے لئے روٹی تو ہر حال میں چاہیئے تھی!
وہ جسمانی اعتبار سے کافی کمزور تھی،مار برداشت نہیں کرسکتی تھی.پشیمانی تھی یا کیا وہ دودن تک بستر پر پڑی رہی.مجھے اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں تھی.
پھر اس نے گھر میں ہی سینا پرونا شروع کردیا،ہاتھ کا ہنر اس کے کام آیا،یوں اس کی روٹی کا انتظام ہوگیا،اور میں یہ سوچ کر پہلے سے بھی بےپرواہ ہوگیا.
ایک روز ایک ہمسائے نے مجھے روک کر کہا " دن میں جب آپ گھر نہیں ہوتے تو آپ کے گھر سے باتوں کی آوازیں آتی ہیں"میرے سوا میری غیر موجودگی میں کون آتا تھا.جس سے وہ اتنی آواز میں باتیں کرتی تھی؟؟غصہ حد سے سوا تھا،بس نہ چلتا تھا کہ اسے جان سے ماردوں،لیکن میں بس ایک موقع کی طاق میں تھا.
ایک رات پچھلے پہر کسی کے بولنے کی آواز پر میری آنکھ کھلی،چاندی رات میں صحن میں پڑی ہر شے بالکل واضح طور پر دکھائی دیتی تھی، میں اٹھ کر دروازے تک آیا.اب آواز زیادہ واضح تھی.وہ کہ رہی تھی.
"سائیں! صبح ایک روٹی کے لئے آٹا گھر میں موجود ہے،وہ ایک روٹی کھا کر چلا جائے گا،یہ سوچے بنا کہ میں سارا دن بھوکی رہوں گی.میری روٹی جب تک تیرے ذمے تھی تو عزت سے ملتی تھی،جب تو نے اپنے نائب کے ہاتھ دی تو روٹی کیساتھ بےعزتی اور اذیت بھی ملنے لگی،مجھے اب روٹی تو ہی دے...تیرا بنایا نائب تو خائن نکلا"وہ میری شکایت کررہی تھی؟لیکن کس سے؟؟؟ کون تھا جو اسے روٹی دیتا تھا مجھ سے بھی پہلے؟؟
میں نے باہر آکر دیکھا وہ صحن کے بیچ چارپائی پر ہاتھ میں سوئی دھاگہ اور فریم لئے خود سے باتیں کررہی تھی.وہاں کوئی بھی نہ تھا.میرے پیروں سے زمین نکل گئی.وہ خدا سے میری شکایت کررہی تھی.وہ اس لمحے مجھے کوئی اور ہی مخلوق لگی.وہ بہت کم بولتی تھی لیکن وہ کس کے ساتھ اتنا بولتی تھی؟آج مجھے سمجھ آیا تھا. وہ تو بہت بڑے باپ کی بیٹی تھی.کیسی عورت تھی جو افلاس کے ہوتے بھی خدا شناس تھی.میرا جسم خوف سے کانپ رہا تھا.
دن چڑھتے ہی میں نے سامان باندھا اور اسے اس کے گھر چھوڑ آیا، سسر نے طلاق کی وجہ پوچھی تو میں ڈرتے ہوئے کہنے لگا.
" یہ بڑی خطرناک عورت ہے، بڑے دربار میں میری شکایتیں لگاتی ہے.مجھے ڈر ہے کہ بادشاہ کو کسی دن تاو آگیا تو میرا حشر نہ کردے "حقیقت یہ تھی کہ میں اس کیساتھ انصاف نہیں کرسکا تھا.
اس کا باپ گھر کی دہلیز پر کھڑا تھا.میرے پلٹنے پر کہنے لگا" میں نے تمہیں کہا بھی تھا کہ اسے دنیاداری نہیں آتی،وہ تو بس 'سائیں' کو خوش رکھنا جانتی ہے"اس کی مراد خدا سے تھی اور میں خود کو سمجھا تھا.
جب میں واپس گھر آیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ رات اس نے یہی تو مانگا تھا." تو خود مجھے روٹی دے،تیرا نائب تو خائن نکلا"اور آج نان نفقے کا اختیار مجھ سے چھین لیا گیا.
میں بے تحاشہ رویا،اس کا سائیں بہت بڑا تھا،اس کی رسائی جس تک تھی وہ تو دوجہانوں کا رب تھا.وہ جس کی ایک روٹی مجھ پر بھاری تھی وہ اس کے لئے کیا نہیں کرسکتا تھا.میں واقعی ڈر گیا تھا.میں آج بھی ڈرتا ہوں کہیں میرے حق میں اس نے کوئی بددعا نہ کردی ہو.
ٹھیک کہتے ہیں لوگ!!کہاں میں کہاں وہ؟؟ "بوڑھی آنکھوں میں نمی اتری تھی.
"میں کور چشم اسے پہچان نہیں سکا،میں نہیں ڈرتا تھا،حالانکہ ڈرنا چاہیئے تھا ،اس کے سائیں نے تو پہلے ہی کہ دیا تھا عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو"کہانی کے اختتام تک ایک جوان باباجی کے پاس بیٹھا تھا.
کہانیاں بہت سے لوگ جانتے ہیں لیکن حقیقت تک پہنچنے والا کوئی ایک ہی ہوتا هے ۔۔۔۔۔

منقول
 

سیما علی

لائبریرین
امریکہ میں لوگ ڈالر نہیں بچاتے، وقت بچاتے ہیں۔ پھر جب وقت کا صحیح مصرف ہونے لگتا ہے تو ڈالر خود ہی پس انداز ہونے لگتے ہیں۔ اس طرح ایک خاص قسم کی Frustration جنم لیتی ہے۔ مایاداس پر دولت کا بوجھ خودبخود بڑھتا ہے۔ دولت اپنی مشغولیات خود بڑھاتی ہے۔ محل نما گھر، ان گھروں کے انتظامات، بیرونی ممالک کے سفر، Designer کپڑوں او رجوتوں کی تلاش، دولت کی بناء پر شہرت کی ہوس۔۔۔۔ پارٹیاں، پی آر، پرسنیلٹی پرابلمز، نفسیاتی بیماریوں کا لاینحل سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔ جب ڈالر بچنے لگتے ہیں تو پھر ایک اور قسم کا Stress شروع ہوجاتا ہے۔ دراصل یہاں انسان پوری کوشش کرتا ہے کہ وہ ذہنی دباؤ سے نکلے۔ طمانیت قلب، سکون اور شانتی ملے۔ ۔۔۔ لیکن شاید معیشت اور معاشیات کو یہ کچھ درکار نہیں۔ زندگی کا اصل راز اسی Stress میں ہے ۔۔۔ یہ اور بات ہے کہ فلاح کے راستے پر چلنے والے دباؤ کی گھڑی سر سے اتار کر ملکوتی مسکراہٹ کے ساتھ گردوپیش میں ٹھنڈی چاندنی کی طرح پھرتے ہیں۔ نہ جہاں سوزی کا باعث بنتے ہیں نہ خود سوزی کا۔۔۔ لیکن اس سکون کے نسخے کا Patent وہ ایسی جگہ کراتے ہیں، جہاں سے نبیوں کا نسخہ سکون میسر آتا ہے اور اسے کسی اور زبان میں لکھا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بانو قدسیہ
حاصلِ گھاٹ
سے اقتباس
 

سیما علی

لائبریرین
کچھ لمحے بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس وقت یہ طے ہوتا ہے کہ کون کس شخص کا سہارا بنایا جائے گا۔ جس طرح کسی خاص درجہ حرارت پر پہنچ کر ٹھوس مائع اور گیس میں بدل جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی خاص گھڑی بڑی نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے، اس وقت ایک قلب کی سوئیاں کسی دوسرے قلب کے تابع کر دی جاتی ہیں۔ پھر جو وقت پہلے قلب میں رہتا ہے وہی وقت دوسرے قلب کی گھڑی بتاتی ہے، جو موسم، جو رُت، جو پہلے دن میں طلوع ہوتا ہے وہی دوسرے آئینے منعکس ہو جاتا ہے۔ دوسرے قلب کی اپنی زندگی ساکت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اس میں صرف بازگشت کی آواز آتی ہے۔

بانو قدسیہ
(راجہ گدھ سے اقتباس)
 

سیما علی

لائبریرین
بحث کرنا جاہلوں کا کام ہے۔ بال کی کھال نکالنے سے کیا حاصل؟ میری بلا سے آپ چاہے کچھ سمجھتے ہوں مجھے اپنے نظریوں پر شکوک نہیں ہونے چاہئے۔ آپ اگر دنیا کو چپٹا سمجھتے ہیں تو آپ کی مرضی۔ (شہرِ بے مثال سے اقتباس)
بھلا زوال کیا ہوا تھا؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ابلیس کا گناہ فقط تکبر ہے لیکن میرا خیال ہے کہ تکبر کا حاصل مایوسی ہے۔ جب ابلیس اس بات پر مصر ہوا کہ وہ مٹی کے پتلے کو سجدہ نہیں کر سکتا تو وہ تکبر کی چوٹی پر تھا لیکن جب تکبر ناکامی سے دو چار ہوا تو ابلیس اللہ کی رحمت سے نا اُمید ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام بھی ناکام ہوئے۔ وہ بھی جنت سے نکالے گئے۔ لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے۔ یہی تو ساری بات ہے۔ ابلیس نے دعویٰ کر رکھا ہے، میں تیری مخلوق کو تیری رحمت سے مایوس کروں گا۔ نااُمید، مایوس لوگ میرے گروہ میں داخل ہوں گے۔ اللہ جانتا ہے کہ اس کے چاہنے والوں کا اغواء ممکن نہیں۔ وہ کنویں میں لٹکائے جائیں، صلیب پر لٹکیں، وہ مایوس نہیں ہوں گے۔
بانو قدسیہ
(سامان وجود سے اقتباس)
 
بہت خوبصورت لڑی ہے
علمی تحریروں سے لبریز اور شعور بیدار کرنے کے لئے بہت ہی عمدہ مراسلات اراکین نے ارسال کئے ہے اس لڑی کو ترتیب دینے کے لئے سید عمران صاحب کا بہت شکریہ
 

سید عمران

محفلین
نفاذ اردو کا

کون کھولے گا راز اردو کا
ہوگا کب تک نفاذ اردو کا
اس میں شامل کئی زبانیں ہیں
سلسلہ ہے دراز اردو کا
اردو جیسی نہیں ہے کوئی زباں
کیا یہ کم ہے جواز اردو کا
نغمگی ایسی کس زبان میں ہے
سوز اردو کا ساز اردو کا
آج تک کوئی بند کر نہ سکا
در ہوا جب سے باز اردو کا
حکمرانی فضاؤں پر اس کی
اڑ رہا ہے جہاز اردو کا
کوئی شاعر ہو یا ادیب اعجازؔ
سب اٹھاتے ہیں ناز اردو کا
 

سیما علی

لائبریرین
بہت خوبصورت لڑی ہے
علمی تحریروں سے لبریز اور شعور بیدار کرنے کے لئے بہت ہی عمدہ مراسلات اراکین نے ارسال کئے ہے اس لڑی کو ترتیب دینے کے لئے سید عمران صاحب کا بہت شکریہ
بالکل درست فرمایا آپ نے سید عمران صاحب کی بڑی نوازش کہ ہم جیسوں کہ لکھنے کو کوئی پلیٹ فارم فراہم کیا ویسے ہی پورا پاکستان ع کے زیرِ سایہ ہے ۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
زندگی میں جن چیزوں کو ایک عورت کبھی سمجھ نہیں پاتی اس میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مرد جو آپ کو جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہو، آپ سے چاند ستارے توڑ لانے کے وعدے کرتا ہو، وہ اچانک کسی اور کی محبت میں گرفتار کیسے ہو جاتا ہے....... کیسے ہو سکتا ہے؟ اخلاقیات نام کے ڈھیر میں سے کوئی ایک بھی اس کے لیے رکاوٹ کیوں نہیں بنتی۔

(اقتباس: عمیرہ احمد کے ناول "عکس" سے)
 

سیما علی

لائبریرین
ایک روز میں اور میرا ساتھی بہت بے چین ہوئے-

اور ہمارے ساتھہ ایک ایسا واقعہ گزرا تھا، جو ھمارے ساتھہ نہیں گزرنا چاہیے تھا -

کیوں کہ ہم اپنے "بھانویں" بہت اچھے آدمی تھے -

لیکن ہم نے بابا جی سے پوچھا کہ سر یہ راز کھول کر ہمیں بتائیں ، ایسا کیوں ہوتا ہے ؟

تو انہوں نے کہا ، دیکھو آپ لوگ جو ہیں ، الله کے حکم کے پابند ہیں - -

احکام الہی کے پابند ہیں-

آپ لوگوں نے ایک عجیب صورت حال اختیار کر لی ہے کہ آپ فعل الله پر تنقید کرنے لگ گئے ہیں-

فعل الله کے ساتھہ آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے -

الله بادشاہوں کا بادشاہ ہے -

شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے ، جو چاہے اس کی مرضی کرے -

لیکن آپ صرف اس کے احکام تک رہیں اور فعل الله کے ساتھہ آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے

زاویہ ١ احکام الہی ١٢٣ اشفاق احمد
 
Top