انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین

جنگ آزادی ہند میں مسلم خواتین کا کردار​

برصغیر ہند و پاکستان کی تقسیم پر آج تک جتنا کچھ لکھا گیا، وہ اکثر مَردوں کے ہاتھوں سے لکھا گیا، شاید اسی وجہ سے جنگِ آزادی میں خواتین کا کردار پسِ پردہ ہی رہا، ویسے اس کی دیگر چند وجوہات بھی ہیں، جب کہ کانگریس ہو یا مسلم لیگ، ہر جگہ عورتوں نے مختلف خدمات سر انجام دیں۔ انھوں نے پرچم بنائے، لیڈروں کی خاطر داری کی، جہادِ آزادی میں شریک اپنے باپ، بھائی، بیٹے اور شوہر کی راحت رسانی کا کام کیا، اسی پربس نہیں بلکہ انھوں نے عملی جد و جہد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور عورتیں بطور رضاکار مہم میں شامل ہوئیں۔اسی لیے اس مضمون میں ہم چند ایسی مسلم خواتیں کا ذکر کریں گے، جنھوں نے اپنے رشتے داروں کو جنگِ آزادی میں حوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ خود بھی اس میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ یہ بھی واضح کر دیں کہ مضمون کی طوالت کے مدِّنظر ہم نے چند کے ذکر پر اکتفا کیا ہے۔

بیگم حضرت محل زوجۂ واجد علی
بیگم حضرت محل کا نام زبان پرا ٓتے ہی جنگ آزادی کا تصور ذہن میں ابھر آتا ہے، وہ جنگِ آزادی کی اولین سرگرم عمل خاتون رہنما تھیں۔ ۱۸۵۷-۱۸۵۸ء کی جنگِ آزادی میں صوبۂ اودھ سے حضرت محل کی نا قابلِ فراموش جدو جہد تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ سنہرے الفاظ میں درج رہے گی کہ کس طرح ایک عورت ہوتے ہوئے انھوں نے بر طانوی سامراج و ایسٹ انڈیا کمپنی سے لوہا لیا اور آخر وقت یعنی اپنی موت (۱۸۷۹ء) تک تقریباً بیس سالہ زندگی انگریز حکومت کی مخالفت میں بسر کی۔جب ۱۸۵۶ء میں برطانوی حکومت نے نواب واجد علی شاہ کو جلا وطن کر کے کلکتے بھیج دیا، اس وقت حضرت محل نے زمامِ حکومت سنبھا لی اور وہ ایک نئے اوتار میں سامنے آئیں۔انھوں نے محل میں بیٹھ کر صرف پالیسیاں نہیں بنائیں بلکہ جنگ کے میدان میں اتر کر اپنے جوہر بھی دکھائےاور وہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کے سبب جنگِ آزادی میں ایک عظیم قائد بن کر ابھریں۔ بیگم حضرت محل نے لکھنؤ چھوڑنے کے بعد نیپال میں پناہ لی اور وہیں ۱۸۷۹ء میں ان کی وفات ہوئی اور کاٹھ منڈو کی جامع مسجد کے قبرستان میں گمنام طور پر ان کو دفن کر دیا گیا ۔

بی امّاں والدۂ علی برادران
بی اماں عابدی بیگم زوجۂ عبدالعلی خان، ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں شریک رہیں اور کارہائے نمایاں انجام دیے۔ ان کی ایک بیٹی پانچ بیٹے تھے، جن میں سے دو؛ محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی تحریکِ آزادی کے علم بردار ہوئے۔ ۱۹۱۷ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں بی اماں کی تقریر نے سامعین کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔جس وقت ان کے دونوں بیٹے محمد علی اور شوکت علی جیل میں تھے، اس دوران بی اماں نے تحریک ِخلافت کے لیے پورے ملک کا دورہ کیا اور اس تحریک کو جِلا بخشی۔ان کانعرہ تھا:

بولی محمد علی کی اماں کہ بیٹا خلافت کے لیے جان دے دو

دسمبر ۱۹۲۱ء کو جب علی برادران کو انگریز سپاہیوں کے ذریعے گرفتار کیے جانے کی خبر ان کی والدہ کو ملی تو وہ قطعاً پریشان نہیں ہوئیں بلکہ صبرو استقلال برقرار رکھا۔ اسی لیے گاندھی جی نے کہا تھا کہ گر چہ وہ ایک بزرگ خاتون تھیں لیکن ان کاحوصلہ جواں تھا۔جب خلافت تحریک ختم ہوگئی، اس کے بعد مختصر علالت کے چلتے ۱۳؍نومبر ۱۹۲۴ء کو ان کا انتقال ہو ا۔

امجدی بیگم زوجۂ محمد علی جوہر
مولانا محمد علی جوہر کی بیگم جن کا اصل نام امجدی بانو تھا،۵؍فروری ۱۹۰۲ء کو ان کا نکاح مولانا محمد علی جوہر سے ہوا۔۱۹۱۹ء میںجب مولانا کو خلافت تحریک کے سلسلے میں جیل بھیج دیا گیا، اس وقت امجدی بیگم نے عملی سیاست میں قدم رکھااور پھر اسی برس انھیں خود بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، رہائی کے بعد وہ مزید فعال ہوگئیں اور۱۹۳۱ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات کے بعد سیاسی میدان میں ان کی نیابت کرنے لگیں۔وہ مولانا کی فلسفیانہ اور سیاسی اصولوں کی معتقد تھیں اور ان کے تمام سفروں ،عوامی جلسوں اور سرگرمیوں میں شامل رہتی تھیں، انھوں نے ’ستیہ گرہ ‘ اور ’خلافت فنڈ‘ کے لیے روپیہ بھی جمع کیا ۔ان کا انتقال۲۸؍ مارچ۱۹۴۷ء کو ہوا۔

نشاط النساء بیگم زوجہ موہانی
نشاط النساء بیگم یعنی مولانا حسرت موہانی کی زوجہ محترمہ۔ وہ ایک پُر عزم خاتون اور تحریکِ آزادی کی فعال رُکن تھیں،۱۳؍اپریل۱۹۱۶ء ؁ کو مولانا حسرتؔ موہانی جب دوسری بار قید و بند میں محبوس ہوئے، اس وقت یہ باضابطہ سیاست میںنظر آئیں،انھوں نے انگریزی عدالتوں میں مولانا کے مقدمات کی پیروی بھی کی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ تقریباً ہر جلسے میںشریک ہوتی رہیں۔قدرت نے خودداری اورغیرت ان کے مزاج میں اس قدر ودیعت کی تھی کہ مالی صعوبتوں سے نمٹنے کے لیے انھوں نے یہ کیا کہ شوہر جیل میں چکی چلایا کرتے اور یہ گھر میں لوگوں کا آٹا پیستیں۔انھوں نے کانگریس سبجکٹ کمیٹی کی نمائندگی کی، سودیشی تحریک میں شامل رہیں اور علی گڑھ میں خلافت تحریک کے قیام میں بھی انھوں نے تگ و دوکی۔مولانا حسرت موہانی نے اپنی آپ بیتی ’مشاہداتِ زنداں‘ میں لکھا ہے کہ ۲۳؍جون ۱۹۰۸ء کو اپنے رسالہ ’اردوئے معلی‘ میں ایک مضمون شائع کرنے پر بغاوت کے جرم میں انھیں گرفتار کر لیا گیا اور مقدمہ چلا کر دو سال قید با مشقت اور پچاس روپیے جرمانہ کی سزا سنائی گئی تو اپیل کرنے پر ان کی سزا ایک سال کر دی گئی اور جرمانے کی رقم ان کے بھائی نے ادا کردی۔ گرفتاری کے وقت ان کی شیرخوار بیٹی نعیمہ بے حد علیل تھی اور گھر ان کی زوجہ اور ایک خادمہ کے سوا اور کوئی موجود نہ تھا لیکن اس موقع پر بھی ان کی اہلیہ نشاط النساء نے بے حد حوصلے اورجرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگلے ہی روز سپرنٹنڈنٹ جیل کے ذریعے سے اپنے شوہر کو ایک خط لکھا جس میں یہ کہہ کر اپنے شوہر کا حوصلہ بڑھایا:’’تم پر جو افتاد پڑی ہے ، اسے مردانہ وار برداشت کرو، میرا یا گھر کا مطلق خیال نہ کرنا۔ خبردار! تم سے کسی قسم کی کمزوری کا اظہار نہ ہو۔‘‘

زلیخا بیگم زوجۂ مولانا آزاد
زلیخا بیگم یعنی مولانا ابو الکلام آزاد کی زوجۂ محترمہ بھی باحوصلہ خاتون تھیں، تمام مصاعب و مصائب برداشت کرنے کے باوجود اپنے شوہر کا دست و بازو بنی رہیں اور انھیں خانگی مسائل سے ہمیشہ بے فکر رکھا۔ ان حضرات کے نزدیک اپنے مشن میں تکلیفیں برداشت کرنا کتنا سہل تھا، اس کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے، جو ۱۹۴۲ء میں جب مولانا کو ایک سال کی سزا ہوئی تو انھوں نے مہاتما گاندھی کو لکھا تھا، وہ لکھتی ہیں:

’’میرے شوہر کومحض ایک سال کی سزا ہوئی ہے جو ہماری امیدوں سے بہت کم ہے،اگر ملک وقوم سے محبت کے نتیجے میں یہ سزا ہے تو اس کو انصاف نہیں کہا جائے گا، یہ ان کی اہلیت کے لیے بہت کم ہے۔آج سے میں بنگال خلافت کمیٹی کا پورا کام دیکھوں گی۔۔۔‘‘
طاہرہ خاتون
 

سیما علی

لائبریرین
*گھر میں الماعون کی الماری رکھیں...* 🗳️

چند روز قبل ایک انکل جی کے گھر جاناہوا۔ میں انکے باغیچے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس دوران بیل بجی۔ ایک بچہ آیا اس نے بیلچہ مانگا، انکل نے ایک چھوٹا سا الماری نما کمرہ کھولا، جس کے دروازے پر بڑا کرکے *”الماعون“* لکھا ہوا تھا۔

بیلچہ نکالا اور دے دیا۔ ساتھ ہی ایک چھوٹی سے نوٹ بک نکالی اسمیں تاریخ، وقت لکھ کر پھر بچے کا نام اور ولدیت لکھ لی۔ کچھ دیر ہی گزری تھی پھر بیل بجی، ایک محلے دار آئے انہوں نے پانی والا پاٸپ مانگا، انکل نے کمرہ کھولا پاٸپ نکالا، دے دیا اور نوٹ بک پر اس صاحب کا نام لکھ لیا۔

میں یہ سارا منظر دیکھتارہا۔ پھر ہم ظہر کی نماز پڑھنے چلے گٸے۔ جب نماز پڑھ کر واپس آٸے تو ایک لڑکا کلہاڑی اور ”ترینگل“ لیے منتظر تھا۔ انکل نے دونوں چیزیں لیں، نوٹ بک نکالی، اس لڑکے کا نام تلاش کرکے ”وصول“ لکھا اور تاریخ ڈال دی۔
اب مجھ سے رہانہیں گیا۔ میں نے ان سے پوچھا ”آپ یہ چیزیں کرائے پر دیتے ہیں“۔ وہ مسکراٸے اور بولے”یہ سب چیزیں سارے محلے والوں کو ضرورت پڑنے پر دے دیتاہوں۔ انکا کرایہ بالکل ہے لیکن یہ کرایہ اللہ کے کھاتے میں ہے،

کیا تم نے سورہ *سورۃ الماعون* نہیں پڑھی۔ اللہ تعالیٰ کہتاہے:
*فَوَيۡلٞ لِّلۡمُصَلِّينَ*........... کہ افسوس ہے بربادی ہے ان نمازیوں کیلیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں *وَيَمۡنَعُونَ ٱلۡمَاعُونَ* .......... عام استعمال کی چیزیں مانگنے پر دوسروں کو نہیں دیتے۔ تو بیٹا! جب سے مجھے یہ آیت سمجھ آٸی ہے میں نے یہ اسٹور *”الماعون“* بنادیاہے۔
اور ساری عام استعمال کی چیزیں جیسے کلہاڑی، کدال،بیلچہ، کسی، ہتھوڑا، پاٸپ وغیرہ ساری چیزیں جو کہ پہلے سے میرے گھر موجود تھیں میں نے یہاں جمع کردی ہیں۔

اب محلے میں جس کو جو چیز چاہییئے وہ آکر لے جاتاہے، نوٹ بک پر انکا نام اورتاریخ لکھ دیتاہوں۔ جب چیز واپس آجاتی ہےتو وصولی بنا دیتاہوں۔۔“
میں خوشگوار حیرت سے انکی باتیں سن رہاتھا۔ انہوں نے چائے کاگھونٹ بھرا اور بولے” کچھ چیزیں میں نے خریدی ہیں، جبکہ بہت سی چیزیں تو محلے والے خود ہی مجھے دے گٸے کہ آپ انہیں *”الماعون“* میں رکھ لیں۔ جب ضرورت ہوگی لے جاٸیں گے، جب کسی اور کوضرورت ہوگی وہ لے جاٸیں گے“

احباب گرامی!
مجھے انکل کا یہ *”الماعون“* والا آٸیڈیا بہت پسند آیا۔ ہم بھی ہرروز ایک دوسرے سے چیزیں مانگتے ہیں لیکن اکثر ہم نہیں دیتے۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ مالک کریم نے نمازیوں کو تو خاص طور سے مخاطب کرکے لین دین کرنے کا حکم دیا ہے اور نہ کرنے پر *”ویل“ یعنی جہنم کی آگ* سے ڈرایا ہے۔
چنانچہ آپس میں استعمال کی چیزیں ضرور ایک دوسرے کودینی چاہیں۔
البتہ ایک بڑی بیماری *”چیز واپس نہ کرنا“* کا علاج کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اسکا ایک فوری حل تو ”نوٹ بک“ ہے۔ تاکہ یاددہانی رہے۔ اور چیز واپس مانگ لی جائے۔
چیز مانگ کر لے جانے والے کو بھی سوچنا چاہیے۔ وقت پر واپس کردیں، ورنہ وعدہ خلافی اور دوسرے کو تکلیف میں ڈالنے کا گناہ ہوگا۔

آئیے! آج ہی ہم سب اپنے اپنے گھروں میں *"الماعون"* کی کم از کم ایک الماری اور ڈائری بناکر اس آیت کی عملی تفسیر کا آغاز کردیں۔
منقول
 

سیما علی

لائبریرین
ﻟﻮﮒ ﺗﺎﺝ ﻣﺤﻞ ﮐﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﮬﯿﮟ

ﻣﮕﺮ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﯾﮟ
ﮐﮧ ﻋﺜﻤﺎﻧﯽ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼصلی الله عليه وسلم ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ
ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﮐﯽ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮬﮯ،ذﺭﺍ ﭘﮍﮬئے ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﻋﺸﻖ
ﻧﺒﯽصلی الله عليه وسلم ﺳﮯ ﻣﻨﻮﺭ ﮐﺮﯾﮟ ۔ ﺗﺮﮐﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ
ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺳﯿﻊ ﻋﺮﯾﺾ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﻧﮭﯿﮟ
ﻋﻤﺎﺭﺕ ﺳﺎﺯﯼ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻓﻨﻮﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮬﯿﮟ، ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ
ﺩﯾﺮ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮬﺮ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﺎﻧﮯ ﮬﻮﮮٔ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﺪﻣﺎﺕ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﻦ،
ﺳﻠﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﻨﺒﻮﻝ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﺷﮩﺮ ﺑﺴﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ
ﺍﻃﺮﺍﻑ ﻋﺎﻟﻢ ﺳﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻥ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﻮ ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ﻣﺤﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ،
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﺎﺏ ﺷﺮﻭﻉ ﮬﻮﺍ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻧﻈﯿﺮ ملنا
ﻣﺸﮑﻞ ﮬﮯ، ﺧﻠﯿﻔہ وﻗﺖ ﺟﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻓﺮﻣﺎﻧﺮﻭﺍ ﺗﮭﺎ ، وہ نئے
ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮬﺮ ﺷﻌﺒﮯ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮ ﮐﻮ ﺗﺎﮐﯿﺪ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺫﮬﯿﻦ ﺗﺮﯾﻦ
ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻓﻦ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺳﮑﮭﺎﮮٔ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﯾﮑﺘﺎ ﻭ ﺑﯿﻤﺜﺎﻝ ﮐﺮ ﺩﮮ، ﺍسی
ﺍﺛﻨﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﮎ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺍﺱ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ حافظ ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺴﻮﺍﺭ ﺑﻨﺎﮮٔ ﮔﯽ،
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﻣﻨﺼﻮﺑﮧ کئی ﺳﺎﻝ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮬﺎ ، 25
ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺗﯿﺎﺭ ﮬﻮئی ﺟﻮ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﭘﻨﮯ
ﺷﻌﺒﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﮑﺘﺎ ﮮٔ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﺗﮭﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﮬﺮ ﺷﺨﺺ حاﻓﻆ ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻭﺭ ﺑﺎ ﻋﻤﻞ
ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ، ﯾﮧ ﻟﮓ ﺑﮭﮓ 500 ﻟﻮﮒ ﺗﮭﮯ، ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺗﺮﮐﻮﮞ ﻧﮯ
ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﻧﯽٔ ﮐﺎﻧﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﮟ، ںئے ﺟﻨﮕﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮑﮍﯾﺎﮞ ﮐﭩﻮﺍئیں،
ﺗﺨﺘﮯ حاﺻﻞ ﮐﯿﮯٔ گئے ، ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺑﮩﻢ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ،
ﯾﮧ ﺳﺎﺭﺍ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢصلی الله عليه وسلم ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺩﺏ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﺎﻟﻢ ﺗﮭﺎ
ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯٔ ﻣﺪیںہ منورہ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﺴﺘﯽ ﺑﺴﺎئی ﮔﯽٔ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺷﻮﺭ
ﺳﮯ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی بارگاہ کی بے ادبی اور ﻣﺪینہ منورہ ﮐﺎ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺧﺮﺍﺏ ﻧﮧ ﮬﻮ، ﻧﺒﯽصلی الله عليه وسلم ﮐﮯ ﺍﺩﺏ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ انہیں حکم تھاﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ
ﮐﭩﮯ ﭘﺘﮭﺮ کو اپنی جگہ بٹھانے کے لئے چوٹ لگانےکی ضرورت پیش آئے تو موٹے کپڑے کو پتھر پرتہ بتہ یعنی کئی بار فولڈ کر کے رکھیں پھر لکڑی کے ہتھوڑے سے آہستہ آہستہ سے چوٹ لگائیں تاکہ آواز پیدا نہ ہو اور اگر ﺗﺮﻣﯿﻢ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ہو ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﺳﯽ ﺑﺴﺘﯽ
ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺟﺎئے وہاں اسے کاٹ کر درست کیا جائے، ﻣﺎﮬﺮﯾﻦ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮬﺮ ﺷﺨﺺ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺑﺎ ﻭﺿﻮ
ﺭﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺩ ﺷﺮﯾﻒ ﺍﻭﺭ ﺗﻼﻭﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﺭﮬﮯ، ﮬﺠﺮﮦ ﻣﺒﺎﺭﮎ
ﮐﯽ ﺟﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﮯ ﻟﭙﯿﭧ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﮔﺮﺩ ﻏﺒﺎﺭ ﺍﻧﺪﺭ ﺭﻭﺿﮧ ﭘﺎﮎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺟﺎﮮٔ، ﺳﺘﻮﻥ ﻟﮕﺎﮮٔ ﮔﯿﮯٔ ﮐﮧ ﺭﯾﺎﺽ ﺍلجنۃ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺿﮧ ﭘﺎﮎ ﭘﺮ
ﻣﭩﯽ ﻧﮧ ﮔﺮﮮ ، ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﭼﻠﺘﺎ ﺭﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻋﺎﻟﻢ ﮔﻮﺍﮦ ﮬﮯ
ﺍﯾﺴﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﯾﺴﯽ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﺳﮯ ﮐﻮئی ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﮩﻠﮯ ھوئیﺍﻭﺭ ﻧﮧ
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﮬﻮﮔﯽ .
______________________________________
 

سیما علی

لائبریرین

ہم اور ہمارا معاشرہ​

ہمارے معاشرے کے اندر بہت سارے نظریات موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ جہاں پر بھی لفظ ”معاشرہ“ آئے گا، وہاں پر مختلف سوچیں، مختلف لوگ، مختلف نظریات ہونگے، ہمارے معاشرے کے اندر بہت ساری کمزوریوں کے ساتھ ہماری محدود اور تنگ نظر سوچ بھی ایک نقص ہے، جو ہر روز بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمیشہ منفی تنقید کے سامنے اب ہم سے اصلاح کی حِس تھم سی گئی ہے اور اسکا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے اندر سوچ کو وسعت دے کر سوچنا ختم ہوگیا ہے۔
بہت دنوں سے ہمارے معاشرے کی موجودہ صورتحال پر کچھ تحریر کرنے کو دل کر رہا تھا، اس لئے سوچا کہ ایک وسیع عنوان کا انتخاب کیا جائے، جس میں معاشرے کے ہر ایک زوایئے پر اجمالی طور پر بحث کی جائے۔ معاشرے کی تعریف مختلف محققین اور دانشور حضرات نے کچھ اس طرح کی ہے: "معاشرے کو عربی زبان میں مُجۡتَمَع اور فارسی میں جامعہ کہتے ہیں، جو کہ لغوی طور پر اسم فاعل ہے۔“ لفظ مجتمع اور جامعہ ہر دو کے اصلی حروف ج-م-ع ہیں۔ جمع کے لغوی معنی جمع کرنا، اکٹھا کرنا، مہیا و فراہم کرنا اور اشیاء کا آپس میں ایک دوسرے میں ضم ہونا اور ملنا کے ہیں۔ انسانی معاشرہ انسانوں سے تشکیل پانے والے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں، جہاں لوگ باہمی طور پر یکساں زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے میں اور زندگی کے مختلف امور کی انجام دہی میں ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ عقائد و نظریات، مشترک آداب و عادات اور یکساں اہداف کے مالک ہوتے ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد الٰہی ہوتا ہے: *
اِنَ اللٰہَ لَا یُغَیِرُ مَا بِقَومٍ حتیٰ یُغَیِرُوا مَا بِاَنفُسِھِم* ”
خدا کسی قوم کی حالت اس وقت تک تبدیل نہیں کرتا، جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو تبدیل نہ کرے۔“ انسان سے گھر بنتا ہے اور گھر سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ انسان کا کردار اس کی فکر پر منحصر ہوتا ہے۔ انسان ایک معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ جب ایک شخص پیدا ہوتا ہے تو نہ وہ پیدائشی طور پر شریف ہوتا ہے اور نہ ہی مجرم بلکہ اس کے ایک اچھے انسان بننے اور مجرم بننے میں یہ معاشرہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچہ اگر ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہو، جس جگہ کے افراد پڑھے لکھے، با شعور اور با اخلاق ہوں تو فطری طور پر وہ بچہ اچھے اخلاق کا مالک ہوگا۔ ایک اچھا انسان بنے گا، لیکن اس کے برعکس اگر ایک بچہ ایسے معاشرے میں آنکھ کھولتا ہے، جس جگہ کے لوگ بے شعور، بد اخلاق اور ان پڑھ ہوں تو یہ باتیں بچے پر منفی اثرات مرتب ضرور کریں گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر وہ معاشرہ مختلف طرح کی برائیوں میں مبتلا ہو تو یہ سب باتیں چھوٹی چھوٹی برائیوں سے برے کاموں کی طرف لے جاتی ہیں اور ایک اچھے بھلے انسان کو مجرم بنا دیتی ہیں۔ اس لئے اکثر اوقات مختلف دانشورون نے معاشرے کو والدین کے بعد انسان کا مربی کہا ہے۔ ہمارے پاکستان کے موجودہ معاشرے کے اندر کچھ ایسی چیزیں ہیں، جو ہمارے معاشرے کے سکون کو برباد کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے ہم ہر لمحہ ایک مہذب قوم کی حیثیت کھو رہے ہیں۔
تنقید مگر راستہ بدلیں
تنقیدی چیزیں بیان کرنا یا اپنے اندر موجودہ چیزوں کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنا کسی بھی معاشرے کی خوبصورتی کی دلیل ہے اور تنقید کو اپنے لئے مشعل راہ بنا کر نقائص کو دور کرنا ایک زندہ معاشرہ کی دلیل ہے، مگر ہمارے معاشرے میں تنقید کرنے والے افراد بھی جو راستہ اختیار کرتے ہیں، وہ راستہ بھی بہت ہی تنگ راستہ ہوتا ہے۔ ہمارا چاہے مذہبی طبقہ ہو یا سماجی، ان سب کا تنقیدی انداز ہمیشہ جارحانہ ہوتا ہے، مثلاً آپ کسی بھی عمل کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو اس عمل میں موجود نقائص کو ختم کرنے اور اس کی جگہ جو بہتر چیز ہو، آپ اس کا تعارف کروائیں، تاکہ لوگ اس پر عمل کرکے پرانی چیزوں سے دور ہوں، مگر ہمارے یہاں بالکل ہی برعکس ہوتا ہے کہ ہم اکثر اوقات ان موجودہ پرانی چیزوں کو آتے ہی بْرا بَھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے اکثر لوگ ہمارے دشمن بن جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ہماری بہت ساری اصلاحی باتیں ہھی لوگ دشمنی کی وجہ سے سننا پسند نہین کرتے اور پھر اصلاح پسند لوگ متضاد بن جاتے ہیں۔ اس لئے ہمیں تنقید کرنی چاہیئے، مگر اصلاح کے لئے راستے کا انتخاب درست کرنا پڑے گا۔
وسیع سوچ کا ختم ہونا
ہمارے معاشرے کے اندر بہت سارے نظریات موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ جہاں پر بھی لفظ ”معاشرہ“ آئے گا، وہاں پر مختلف سوچیں، مختلف لوگ، مختلف نظریات ہونگے، ہمارے معاشرے کے اندر بہت ساری کمزوریوں کے ساتھ ہماری محدود اور تنگ نظر سوچ بھی ایک نقص ہے، جو ہر روز بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمیشہ منفی تنقید کے سامنے اب ہم سے اصلاح کی حِس تھم سی گئی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے اندر سوچ کو وسعت دے کر سوچنا ختم ہوگیا ہے۔ آپ دیکھتے ہونگے کہ جب ہم کسی بھی چیز کے بارے میں منصوبہ بندی کرتے ہیں، اس وقت بھی یہی بات ذہن میں ہوتی ہے کہ دو سے تین سال کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، اس لئے جب ہم اپنی سوچ کو وسیع نہیں کریں گے، تب تک ہم اسی بیماری میں سفر کریں گے، کیونکہ سوچ کی وسعت آپ کے اندر ہر تنقید کو برداشت کرنے کے لئے آمادگی پیدا کرے گی۔
فراخ دل اور اصلاح پسند نہ ہونا
ہمارے معاشرے کے اندر یہ عُنصر بہت پایا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں اصلاح والی باتیں دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں، اس کے اسباب اوپر بیان کی گئی دونوں چیزوں میں ہیں، منفی تنقید کے نتیجے میں انسان کے اندر تنگ سوچ پیدا ہوتی ہے، جس کی وجہ سے انسان چیزوں کہ چھوٹا دیکھنا شروع کرتا ہے اور تنگ نظر ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کے اندر وسعت نظری ختم ہو جاتی ہے اور وہ کبھی بھی اپنے موجودہ نظام میں بہتری کا خواہاں نہیں ہوتا اور نہ ہی اصلاح پسند بنتا ہے، یہ چیزیں آج کل ہمارے معاشرے میں بہت پائی جاتی ہیں۔ آپ دیکھیں اگر کسی بھی نظام میں چاہے وہ ہمارے معاشرے کا سماجی، مذہبی یا پھر سائنسی تعلیمی نظام ہو، اس میں آپ کو برسوں تک اس کا نصاب ہو یا پھر مدیریت کا نظام ہو، آپ کو تبدیلی نظر نہیں آئی گی، کیونکہ ہمارے معاشرے کے اندر تنقید کو اپنے لئے ایک راستہ سمجھ کر ایک اصلاح کے طور پر تسلیم ہی نہیں کرتے۔
منقول
 

سیما علی

لائبریرین
مختار مسعود بیوروکریٹ تھے اور مصنف بھی ، وہ دو ہزار سترہ میں انتقال کر گئے لیکن دو ہزار دو میں انہوں نے اپنی ساری جمع پونجی اکٹھی کی جو کہ دس کروڑ روپیہ بنی اور اُسے آزاد کشمیر کی ایک فاؤنڈیشن کے حوالے کر دیا اور انہیں سکول بنانے کا کہا ، فاؤنڈیشن نے سکول بنا دیا اور مختار مسعود صاحب کو افتتاح کی دعوت دے دی ، مختار مسعود صاحب نے یہ دعوت تین شرائط کے ساتھ قبول کی ۔

ایک کہ افتتاح کی کوئی تقریب نہیں ہو گی ۔
دو کہ افتتاح چھٹی والے دن ہو گا ۔
تین کہ ڈونیشن کی کوئی تشہیر نہیں کی جائے گی ۔


یوں مختار مسعود صاحب ایک اتوار کو سکول کے افتتاح کے لئے چلے گئے ، وہ خالی کلاس روم میں گئے ، بلیک بورڈ پر “ بسم اللہ الرحمن الرحیم “ لکھا اور واپس آ گئے ۔
جب کسی نے مختار مسعود صاحب سے پوچھا کہ آپ نے یہ سکول کھولنے کے لئے چوکی ( گاؤں ) کا انتحاب کیوں کیا تو مختار مسعود صاحب نے جواب دیا “ میرے دادا کشمیر سے چوکی کے راستے پنجاب میں داخل ہوئے تھے ، وہ رات چوکی میں رکے تھے اور چوکی گاؤں کے لوگوں نے اُن کی بہت خدمت کی تھی ، اُن کے دادا ساری عمر چوکی کے لوگوں کی تعریف کرتے رہے اور میں اس گاؤں میں سکول بنا کر یہ احسان اتارنا چاہتا ہوں“

یہ واقعہ دو حصوں پر مشتمل ہے ، پہلا حصہ ڈونیشن ، سادگی اور تشہیر پر مشتمل ہے ، اُس بندے نے اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی ڈونیٹ کر دی اور کسی کے سامنے نام تک لینا گوارا نہیں کیا جبکہ دوسرا حصہ پہلے حصے کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے ، بڑے لوگ ایسے ہی بڑے نہیں ہوتے ، اُن کے دادا نے ایک رات گاؤں میں گزاری اور ساری عمر اُس گاؤں کی مہمان نوازی کی تعریف میں گزار دئیے جبکہ پوتے نے دادا کی وہ بات پلے باندھ لی اور ساری عمر کی جمع پونجی اُس گاؤں پہ لگا دی ۔ اللہ اللہ
آج ہم کسی غریب کو کچھ دیں بھی تو اُس کی تشہیر چاہتے ہیں ، فوٹو لگتی ہے ، بینر لگتے ہیں ، دوسروں کو واقعات سناتے اُس کا ذکر ہوتا ہے اور ایک وہ تھے کسی کو کان و کان خبر نا ہونے دی ۔
بات کردار کی ہوتی ہے جناب
ورنہ قد میں سائے بھی لمبے ہوتے ہیں۔
منقول
 

سیما علی

لائبریرین
معروف ڈراما نگار نورالہدی شاہ کی پر اثر تحریر...

پچھلی رات معافیوں کی رات کے طور پر منائی گئی۔ سب نے سب سے کھڑے کھڑے معافی مانگی اور صبح صبح ہوتے ہلکے پھلکے ہو کر سو گئے۔ سوشل میڈیا نے اسے اور بھی آسان کر دیا ہے۔ خدا کرے روزِ محشر بھی وائی فائی کام کرتا ہو اور ہم سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے سے یوں ہی رابطے میں ہوں۔ اتنی آسانی سے حقوق العباد کی اگر معافیاں روزِ محشر بھی ہو گئیں تو یقیناً حساب مختصر ہو جائے گا اور جلد از جلد ہم بہشت کے ائرکنڈیشنڈ ہال میں پہنچ چکے ہوں گے۔

معافیوں کی اُس گزر چکی رات میں حیدرآباد سے کراچی کا سفر کر رہی تھی۔ اسی سفر کے دوران سوشل میڈیا پر معافیوں کا لین دین پڑھتے ہوئے مجھے ایک ذاتی تجربہ یاد آ گیا۔

تقریباً چھ سال پہلے دبئی کے ہسپتال میں میری نواسی وقت سے بہت پہلے ساتویں مہینے کی ابتدا میں ہی پیدا ہو گئی۔ میرے گھر کا وہ پہلا بچہ تھی۔ شادی کے چار سال بعد میری بیٹی کے ہاں بچہ ہوا تھا مگر وہ بھی ان حالات میں کہ لگتا تھا کہ مکمل بنی بھی نہیں ہے۔ بالوں بھرا ننھا سا بندر کا بچہ جس کا پورا ہاتھ میری انگلی کی ایک پور پر آتا تھا۔

زندہ رہے گی یا نہیں؟ زندہ رہے گی تو نارمل ہوگی یا نہیں؟ ان سوالوں کا جواب ڈاکٹرز کے پاس بھی نہیں تھا سوائے اس جواب کے کہ سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ ہر روز ڈاکٹرز بتاتے کہ بس ختم ہوا چاہتی ہے، فوراً پہنچو۔ بھاگے بھاگے پہنچتے۔ پھر کچھ سانسیں لینا شروع کرتی تو ایک امید کے ساتھ گھر لوٹتے۔ مگر اگلے دن امید پھر دم توڑ دیتی۔

کبھی بلڈپریشر ہائی اور کبھی لو۔ ہائی بھی اتنا کہ ہاتھوں پیروں کی انگلیاں نیلی پڑ جاتیں۔ پوچھنے پر بتایا جاتا کہ اگر بلڈ سرکیولیشن نارمل ہوگئی تو یہ ٹھیک ہو جائیں گی ورنہ جسم کا ناکارہ حصّہ بن جائیں گی۔ اسی طرح کبھی شوگر لیول ہائی اور کبھی لو ہو جاتا۔ وینٹ پر بے دم پڑی بچی نے ہماری سانسیں پھلا دیں۔ کبھی دماغ کا ٹیسٹ بتاتا کہ دماغی طور پر نارمل نہ ہوگی۔ کبھی دل میں سوراخ ملتا۔ کبھی آنکھوں کا معاملہ سامنے آ جاتا۔ اوپر سے خرچہ اتنا کہ تین لاکھ درہم پندرہ دن کا بل بن گیا۔ میرا حال یہ تھا کہ میرے سامنے میری اپنی بیٹی کے بھی آنسو تھے اور اس کے بچے کی ناممکن زندگی بھی۔ تھک کر چوُر ہو گئی۔ ایک بار تو ڈاکٹر کو بھی کہہ دیا کہ اس کو بچانے کی کوشش نہ کریں۔ بچ بھی گئی تو پتہ نہیں کس حال میں ہوگی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کون ہوتی ہیں زندگی چھیننے کا فیصلہ کرنے والی!

انہی حالات میں ایک دن نماز میں کھڑے ہوئے میں رو دی۔ اللہ کو بے بسی سے مخاطب کرکے کہا کہ یااللہ مجھ سے ایسا کیا گناہ ہو گیا ہے کہ جس کی یہ سزا ہے؟

بالکل ہی اگلے لمحے چھپاک سے ایک منظر کی تصویر اور اس میں ایک چہرہ صرف ایک سیکنڈ کے لیے میری نگاہ یا ذہن سے گزر گیا اور حیرت کی بات کہ اگلے سیکنڈ میں مجھے یاد بھی نہ رہا کہ میں نے کیا دیکھا تھا۔

پوری نماز اسی کشمکش میں گزری پر یاد ہی نہ آیا۔ اگلے دو دن، دبئی کی سڑکوں پر ہسپتال اور گھر کے بیچ آتے جاتے، رات کو بستر میں، میں اسی کشمکش سے گزرتی رہی۔ پر یاد ہی نہ آیا کہ دیکھا کیا تھا میں نے۔ اپنے جتنے بھی گناہوں اور خطاؤں کی فہرست میرے ذہن میں تھی، انہیں گنتی رہی مگر کسی سے اس منظر کا نشان نہیں مل رہا تھا۔

دو دن بعد اچانک یاد آ گیا کہ وہ کیا منظر اور چہرہ تھا۔

پندرہ برس پرانا وہ واقعہ مجھے کبھی بھی یاد نہ آیا تھا۔

میری ایک بہت ہی قریبی رشتہ دار لڑکی، شوہر اور حالات کے ہاتھوں ستائی ہوئی، دو بچوں کو ساتھ لیے چھوٹے سے ٹاؤن سے حیدرآباد شفٹ ہوئی تھی کہ اس کا تو مستقبل تاریک تھا ہی پر کسی طرح بچوں کا مستقبل سنور جائے۔ اس کے بیٹے بیٹی کو میں نے حیدرآباد کے بہت ہی اچھے اسکولوں میں داخل کروایا۔ اسے بچوں سمیت تب تک اپنے گھر میں رکھا جب تک ان کی رہائش کا بندوبست نہ ہوا۔ اسی دوران اس کی بیٹی کا نویں کلاس کا بورڈ کا امتحان بھی ہوا اور وہ بچی اے گریڈ مارکس لے کر پاس ہو گئی۔ رزلٹ کے اگلے دن وہ بچی روتی ہوئی اسکول سے لوٹی۔ پتہ چلا کہ کلاس ٹیچر مس حبیب النسا نے اسے پوری کلاس کے سامنے کہا ہے کہ تم تو اتنے نمبر لینے والی نہیں ہو۔ کس سے سفارش کروائی ہے؟ بھری کلاس میں اس بے عزتی پر وہ بچی بری طرح رو رہی تھی۔ بچی کی حالت دیکھ کر ماں بھی رو رہی تھی۔ اوپر سے بچی نے کہہ دیا کہ اب وہ اس اسکول نہیں جائے گی۔

میں ہمیشہ سے مظلوم کے حق کے لیے لڑنے مرنے پر تُل جانے والی رہی ہوں اور اس طرح کے جھگڑوں میں خدائی فوجدار کی طرح کوُد پڑنے کی عادت رہی ہے میری۔

فوراً گاڑی نکالی اور پہنچ گئی اسکول۔ حیدرآباد کے اکثر لوگ مجھے پہچانتے تھے۔ میں سیدھی پرنسپل کے آفس میں گئی اور ہنگامہ مچا دیا کہ ایک بچی اپنی محنت سے پڑھی ہے۔ ایک چھوٹے ٹاؤن سے مستقبل بنانے آئی ہے اور حالات کی وجہ سے پہلے سے ہی سہمی ہوئی ہے۔ اس کی اس طرح ٹیچر حبیب النسا نے پوری کلاس کے سامنے انسلٹ کی ہے!

میرے ہنگامے پر مس حبیب النسا کو حاضر کیا گیا۔ سادہ سی خاتون مگر چہرے پر ٹھہراؤ۔ کہنے لگیں ہاں میں نے کہا ہے، کیونکہ مجھے وہ بچی اتنی ہوشیار نہیں لگتی جتنے نمبر اس نے لیے ہیں۔ یقیناً یا سفارش کی ہے، یا کاپی کی ہے۔

مجھے پتہ تھا کہ وہ بچی بچاری سفارش کروانے کی طاقت نہیں رکھتی۔ نہ ہی اپنی سہمی ہوئی شخصیت کی وجہ سے کاپی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ رٹے مار کر اس نے امتحان دیا تھا اور اتفاق سے وہی سوال آگئے جن کے جواب اسے یاد تھے۔

میں مس حبیب النسا پر برس پڑی کہ یہ کہاں کا انصاف ہے! آپ صرف چھوٹے شہر کی بچی دیکھ کر اسے کمتر قرار دے رہی ہیں اور اس کا مستقبل برباد کر رہی ہیں۔ میری آواز یوں بھی بھاری ہے، اس میں مزید گرج آ گئی۔ مس حبیب النسا اسکول کی باقی ٹیچرز کی بھی ناپسندیدہ تھیں۔ سو ان کی کھنچائی کا تماشہ دیکھنے پرنسپل کے آفس کے باہر ٹیچرز جمع ہوگئیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ بھی خوش تھیں کہ چلو کوئی تو ہے مس حبیب النسا کو سنانے والا۔

قصہ مختصر کہ پرنسپل نے بھی انہیں کچھ سخت الفاظ کہے اور میرے ساتھ میرے گھر آ کر اس بچی کو سوری کہا۔ راستے بھر وہ بھی مس حبیب النسا سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی آئیں۔۔۔۔۔۔ یوں یہ معاملہ تمام ہوا۔

یہ نیتاً میری ایک نیکی تھی۔ ایک مظلوم ماں اور اس کی بچی کی مدد۔

اس کے بعد کے برسوں میں اُس فیملی کے اور بھی کئی مسائل حل کرتے ہوئے اور دکھ سکھ بانٹتے ہوئے یہ واقعہ میرے ذہن سے بالکل ہی اتر گیا۔ یہاں تک کہ بعد میں جب میں خود زندگی کی ایک بہت بڑی آزمائش سے گزری اور اسی فیملی نے میرے ساتھ بُرا رویّہ رکھا تو بھی وہ بات ماضی میں اُن پر اپنے احسان کے طور پر بھی یاد نہ آئی۔ جس طرح انسان اپنے ساتھ برا کرنے والوں پر کیے گئے احسانات فطری طور پر یاد کرتا ہے۔

دبئی میں جب سسک کر نماز میں میں نے اللہ کو کہا کہ مجھ سے ایسی کیا غلطی ہوگئی ہے جس کی سزا میں مجھ پر اولاد کی تکلیف آ گئی ہے۔۔۔ جواب میں وہ حیات اسکول کی پرنسپل مس بِلو کے آفس کے اس منظر کی ایک سیکنڈ کی تصویری جھلک اور مس حبیب النسا کا چہرہ تھا۔

میں کراچی آئی۔

میری ایک کزن مس حبیب النسا کے ساتھ اسی اسکول میں پڑھاتی رہی تھیں اور وہ بھی مس حبیب النسا سے ناراض رہا کرتی تھیں، اور ان کی بیٹی سلویٰ مس حبیب النسا سے ان کے گھر پر جا کر قرآن بھی پڑھی تھی اور اسکول میں بھی پڑھی تھی۔ میں نے سلویٰ سے مس حبیب النسا کا نمبر مانگا اور اسے پوری بات بتائی۔
جواب میں اس نے کہا کہ آپ کو صحیح جواب ملا ہے۔ میں نے بچپن مس حبیب النسا کے پاس قرآن پڑھتے ہوئے گزارا ہے۔ وہ حافظِ قران ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ اور حدیث سنَد کے ساتھ پڑھی ہوئی ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے اپنے ضعیف والدین کی خدمت میں جوانی گزار دی مگر شادی نہ کی کہ والدین کو ان کی ضرورت تھی۔ اپنے آخری دنوں میں ان کے والد بہت ہی ضعیف اور مشکل ہو گئے تھے مگر وہ کبھی اس مشکل ڈیوٹی میں اُف تک نہ کہتی تھیں بلکہ والد کے پیچھے پیچھے دوڑی دوڑی پھرتی تھیں۔ ان کے غسل خانے کے کام بھی وہ اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں۔ مگر وہ لوگوں کو اس لیے پسند نہیں کہ منہ پر صاف صاف اور سچ بولتی ہیں۔
سلویٰ سے نمبر لے کر میں نے مس حبیب النسا کو فون کیا۔ میرا نام سن کر وہ خوش ہو گئیں۔ میں نے کہا کہ میں ایک ضروری کام کے سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں۔ فوراً کہا کہ آ جائیے۔

اگلے دن صبح ہوتے ہی میں کراچی سے حیدرآباد سیدھی ان کے گھر ان کے آگے ایک ہی صوفہ پر بیٹھی تھی۔ وہ کچھ بوڑھی اور کمزور ہو چکی تھیں۔ اس بات پر خوش تھیں کہ ایک مشہور رائٹر خاص طور پر ان سے ملنے آئی ہے۔

خوش ہو کر کہنے لگیں کہ میں ریٹائر ہو چکی ہوں اور حیات اسکول چھوڑ چکی ہوں اور ایک پرائیویٹ اسکول میں پرنسپل ہوں۔ آپ کا فون آیا تو میں نے اپنی ٹیچرز کو بتایا کہ نورالہدیٰ شاہ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔ میری ٹیچرز نے کہا کہ ان کا بیوہ عورت کے حقوق سے متعلق ایک ڈرامہ چل رہا ہے۔ وہ اس موضوع پر آپ سے شرعی مشورہ کرنا چاہتی ہوں گی۔

میں نے کہا، آپ کو یاد ہے میں حیات اسکول میں آپ کی شکایت لے کر آئی تھی؟

انہوں نے لمحہ بھر سوچا، پھر انکار میں سر ہلا دیا کہ مجھے یاد نہیں۔

میں نے یاد دلانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ پرنسپل کے آفس میں میں بہت اونچی آواز میں سخت الفاظ کے ساتھ آپ سے لڑی تھی۔۔۔ آپ کو یاد ہے؟
ذرا سوچا، پھر انکار میں سر ہلا دیا۔

میں نے کہا کہ میں نے تقریباً آپ کی انسلٹ کی تھی، آپ کو یاد نہیں؟

کہنے لگیں کہ مجھے ایسا کچھ بھی یاد نہیں پڑتا۔

قریب ہی بیٹھے ہوئے میں نے جھک کر ان کے پیر چھو لیے اور ان کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا کہ میں نے ایسا کیا تھا اور میں آپ سے اپنے اس عمل کی معافی مانگنے آئی ہوں۔

مس حبیب النسا نے ایک دم سے معافی کے لیے جڑے میرے ہاتھوں کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ یہ نہیں پوچھا کہ آج اتنے برسوں بعد کیسے یہ خیال آیا اور کس مجبوری نے تمہیں جھکایا ہے۔ انتہائی سنجیدگی سے کہا کہ میں نے آپ کو دل سے معاف کیا۔ اللہ میری معافی آپ کے لیے قبول فرمائے اور آپ جس بھی مشکل میں ہیں اسے آسان کرے اور آپ پر آئی ہوئی آزمائش کو معاف کرے۔۔۔

اس کے بعد انہوں نے بات بدل دی۔ بڑی دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہیں۔ بڑے شوق سے مجھے کھلاتی پلاتی رہیں۔ دعاؤں کے ساتھ مجھے خدا حافظ کہا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات میں انہوں نے بات کا رُخ اس طرف آنے ہی نہیں دیا کہ میں اپنی مجبوری کی اصل کہانی انہیں سناتی۔

چند دنوں بعد میں واپس دبئی لوٹ گئی جہاں اینکیوبیٹر میں ایک ننھی سی جان میں ہماری جان پھنسی ہوئی تھی۔

میری وہ نواسی اس سال ستمبر میں چھ سال کی ہو جائے گی۔ ماشالله بہت ہی شرارتی ہے۔ بہت ہی ذہین اور باتونی۔ گھنگریالے بالوں اور بڑی بڑی آنکھوں کے ساتھ بالکل ہی گڑیا سی لگتی ہے۔ اللہ نے اسے ہر عیب سے بچا لیا۔ بس ایک ہاتھ کی چھوٹی انگلی کی اوپر کی پور نیلی پڑنے کے بعد دوبارہ نارمل حالت میں نہیں آئی اور انگلی سے جھڑ گئی۔ اس ایک پور کی کمی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسان کی تخلیق کا معاملہ کیا ہے اور کس کے ہاتھ میں ہے۔

مس حبیب النسا آج بھی حیات ہیں۔

مگر یہ تجربہ مجھے سکھا گیا کہ معافی دراصل کیا چیز ہوتی ہے اور نیکی کرنے کا تکبر انسان کو کس طرح سزا کا مستحق بناتا ہے اور یہ کہ نیکی خود ایک سوالیہ نشان ہے کہ وہ نیکی ہے بھی کہ نہیں۔۔۔ اسی لیے یہ دریا میں ڈالنے والی چیز ہے۔ اور یہ جانا کہ ہم محض اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم رسمی معافی تلافی کرتے ہوئے پچھلی گلی سے بہشت کی طرف نکل جائیں گے۔

معافی آپ کی انا کے ٹکڑے ٹکڑے مانگتی ہے جو رب کو نہیں چاہیں، بلکہ اس انسان کے پیروں میں جا کر رکھنے ہوتے ہیں، جس کے ساتھ آپ نے زیادتی کی ہوتی ہے۔۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
شادی ہال ، نکاح اور ولیمہ کی تقریب کے لیے رینٹ پہ لیے جاتے ہیں اور نکاح ایک شرعی حکم ہے مگر شادی ہال کا مالک پھر بھی پیسے مانگتا ہے

حج اور عمرہ ایک عبادت اور شرعی حکم ہے مگر ایئر لائن کمپنیز اور ٹریول ایجنٹس پھر بھی پیسے مانگتے ہیں

ختنے کروانے ایک فطری و شرعی حکم ہے مگر ڈاکٹرز پھر بھی پیسے مانگتے ہیں

قربانی ایک شرعی فریضہ ہے مگر قصائی پھر بھی پیسے مانگتا ہے

تعلیم ایک شرعی حکم ہے مگر ٹیچرز پھر بھی پیسے مانگتے ہیں

مسجد بنانا نیکی کا کام ہے مگر مستری و مزدور پھر بھی پیسے مانگتے ہیں

قرآن و حدیث کی اشاعت ایک اہم فریضہ ہے مگر پبلشرز پھر بھی قیمت مانگتے ہیں

تو نہ کسی کو ان کے تقوے پر شک ہوتا ہے نہ کوئی انہیں دنیا دار لالچی کہتا ہے نہ وہ دین فروش بنتے ہیں نہ ہی ریٹ فکس کرنے کو حرام کہا جاتا ہے

اور نماز پڑھنا
خطبہ جمعہ
عیدین
تراویح
درس و تقریر
یہ سب بھی شرعی احکام ہیں
مگر مگر مگر
جب امام، خطیب، مدرس، یا مقرر ہر طرف سےمجبور ہو کر، اپنے دل و ضمیر پر پتھر رکھتے ہوئے اپنی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کردے یا تنخواہ طے کر لے یا تنخواہ لیٹ ہونے پہ اظہارِ ناراضگی کردے
تو بس پھر

وہ دنیا دار بن جاتا ہے
دین فروش کہلواتا ہے
لالچی ہوتا ہے
تقوی سے خالی ہوتا ہے

اسلام کے شہزادو!
صرف علماء کرام اور ائمہ مساجد کے ساتھ ہی ہمارا دوہرا معیار کیوں ہے؟
حالانکہ مسجد خوبصورت ہو، مزین ہو، ہر سہولت اس میں ہو، مگر امام و خطیب نہ ہو
تو جانتے ہیں آپ!

وہ مسجد اصلاح کا مرکز نہیں بن سکتی
وہ تربیت گاہ نہیں کہلا سکتی
لوگ اس سے دین نہیں سیکھ سکتے
امام کے بغیر مسجد میں بھی پڑھی ہوئی نماز ایک ہی شمار کی جائے گی
مگر مسجد کچی ہو یا کجھور کے پتوں سے بنی ہو مگر امام وخطیب موجود ہو تو
*`امام کے ساتھ پڑھی ہوئی ایک نماز، 27 نمازوں کے برابر اجر دلواتی ہے`*
*وہ تربیت گاہ بھی بن جاتی ہے*
*دین کا مرکز بھی کہلواتی ہے*
*اور اسلامی تعلیمات کا سر چشمہ ہوتی ہے*
لیکن پھر بھی کچھ لوگوں کا نظریہ ہے مسجد میں ٹائل لگوانا اے سی لگوانا ایسا صدقہ جاریہ ہے جو مسجد کے امام و خطیب پر خرچ کرنے سے افضل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
تو جناب عالی یہی سوچ ہے جس نے آج اسلام کا نام بدنام کر رکھا ہے
👈اس لیے اپنے علماء کرام اور ائمہ مساجد کی قدر کریں
انکی ضروریات کا پورا پورا خیال رکھیں...
*زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تا کہ لوگوں کی اصلاح ہو جائے، جزاك اللہُ خیراً*
بشکریہ
سید سعید الرحمن
 

سیما علی

لائبریرین
قلمی دوستی:

ایک زمانہ تھا جب سوشل میڈیا کا بےلگام گھوڑا ابھی سرپٹ دوڑنا شروع نہیں ھوا تھا۔ افراد کے پاس وقت کے ضیاع کیلیے یو ٹیوب، ٹک ٹاک، لائیکی جیسی چیزیں نہیں پہنچی تھیں، انجان لوگوں سے دوستی اور گپ شپیوں کیلیے انٹرنیٹ، آئی ایم او، وٹس ایپ، میسنجر، اسکائیپ وغیرہ کی ایجاد نہیں ھوئی تھی۔۔۔

تب انسان اپنی شخصیت کے خول سے باہر آنے اور معاشرے کے دوسرے افراد کے ساتھ زہنی ھم آہنگی، رابطہ کاری، معلومات کے حصول اور اظہار خیال کیلیے قلم کا سہارا لیتا تھا۔ عزیز و اقارب کے ساتھ ان کی خیریت جاننے کیلیے خط و کتابت اپنی جگہ وقت کی اھم ترین حیثیت رکھتی تھی۔۔۔

لیکن ایک اور بہت ہی دلچسپ عنصر تھا ڈائجسٹس اور رسالے وغیرہ کے زریعے ھم خیال لوگوں سے دوستی کیلیے خود کو (کبھی کبھار بمع ایک عدد پاسپورڑ سائز تصویر) پیش کرتے، ڈائجسٹ یا رسالے کا مطالعہ کرنے والے لوگ جن کو پیش کردہ افراد کی شخصیت سے کوئی دلچسپی معلوم ھوتی وہ پھر اس انسان سے خط کے ذریعے رابطہ کرتے۔۔۔

یوں یہ سلسلہِ خطوط بڑھتے بڑھتے ایک ان دیکھی دوستی کی شکل اختیار کر لیتا. کسی انجان مگر ھم خیال فرد سے یہ دوستی جو ملاقات کیلیے کاغذ اور قلم کی محتاج ھوتی اس کو قلمی دوستی کہا جاتا ھے۔ قلمی دوست ایک دوسرے کے ساتھ دینی، اخلاقی، ادبی، مزاحیہ، شعر و شاعری وغیرہ جیسے تمام باھمی دلچسپی کے موضوعات پر گپ شپ کرتے۔۔۔

یہاں تک کہ اس زمانے میں لوگ ہر وہ موضوع زیر بحث لاتے جو وہ عموماً کسی انسان کے روبرو نہیں بھی کر سکتے تھے۔ یوں ان کے دل و دماغ کا ایک غبار سا ہلکا ھو جاتا. کئی قلمی دوست تو خط و کتابت کے دوران اس حد تک ایک دوسرے کی شخصیت سے مانوس اور عادی ھو جاتے کہ دیوانگی کی حد تک ایک دوسرے کے خط کا انتظار کرتے۔۔۔

اگر یہ قلمی دوستی دو الگ جنسوں کے درمیان ھوتی تو بسا اوقات یہ قلمی دوستی ایک نہ ختم ھونے والی ایسی دلی کیفیت کی شکل بھی اختیار کر لیتی کہ جس کو محبت یا عشق بھی کہا جاتا ھے۔ اور اس بےلوث اور بے انتہا محبت کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا کہ کب تک کسی ایک فرد کی روح قفس عنصری سے پرواز نہ کر جاتی۔۔۔

یا دوسری صورت میں قلمی دوستی کے زریعے جنم لینے والی محبت کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا جب تک کہ کسی ایک فرد کا خط اس کے بڑے نہ پڑھ لیتے. اگر خط گھر کے کسی بڑے کے ہاتھ لگ جاتا تب پھر محبت کا وہ بھوت بھی کسی حد تک اتر جاتا۔ اور فرد مارے شرم کے پانی پانی ھو جاتا۔ اور اپنی اس غلطی کی پشیمانی زندگی بھر اپنی زات پر طاری رکھتا۔۔۔

وہ زمانے شرم و حیا کے زمانے تھے، کچھ انسانی اخلاقی اقدار کا پاس بھی تھا. کوئی ڈاکیا کسی کے خط غائب نہیں کرتا تھا، نہ کوئی کسی کا خط کھول کر پڑھتا تھا۔ افراد ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی اپنے من چوھے قلمی دوست سے کاغذ قلم کے زریرے ملاقات کر لیتا تھا۔ کبھی جب ایک دوسرے کو دیکھنے کی کسک بڑھ جاتی تو تصاویر کا تبادلہ بھی ھو جاتا۔ لیکن کبھی کوئی فرد کسی حوا کی بیٹی کو ان تصاویر کے بل پر بلیک میل نہ کرتا بلکہ سچے اور سادے زمانے تھے بس جذبات کے الفاظ کی حد تک رابطے تھے۔۔۔

بہت سے اخبارات و رسائل میں دیے گئے اشتہارات کے زریعے جو لوگ کسی قلمی دوست کی تلاش میں ھوتے وہ اپنی تصویر اپنے ضروری تعارف اور اپنا ایڈریس بھی لکھتے، کبھی کبھار تو کسی جیل کا ایڈریس بھی لکھا ھوا نظر سے گزرتا۔ تو جناب جان لیجیے کہ اس زمانے میں جیل کے قیدی بھی اس قلمی دوستی کے زریعے باہر کی دنیا سے رابطے میں ھوتے اور اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کرتے تھے۔۔۔

یقین کیجیے بالی ووڈ کی فلم "صرف تم" تو شاید 1996 میں ریلیز ھوئی لیکن عملی طور پر بغیر دیکھے اور بغیر ملاقات کیے ہزاروں لوگ قلمی دوستی کے اس انداز کو اختیار کرتے اور ان دیکھی محبت کے میٹھے جذبات کی دھن میں اپنے دن رات گزارتے تھے۔ اس کے علاوہ اپنی زندگی کے تلخ و شیریں تجربات شیئر کیے جاتے اور ایک دوسرے کو مسائل کے حل کیلیے مفید مشورے دیے جاتے۔ اسکے علاوہ اور بہت کچھ جو آج کے زمانے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔

دیکھتے ہی دیکھتے دنیا ترقی کر گئی، اور ترقی کے نام پر تمام سچے جذبات ، سچی دوستیاں، محبت و الفت سب کچھ یہ ترقی یافتہ دنیا کھا گئی۔ دنیا میں قدم قدم پر دھوکہ دہی، مکّاری، ایک ایک فرد کے کئی کئی چہرے اور چلتے پھرتے جھوٹ، فراڈ، نفرت، بغض، بلیک میلنگ، اخلاق و کردار کی گندگی ہر طرف پھیل گئی۔ اسی لیے آج لفظ دوستی، محبت اور دیانتداری کا مشورہ سب کچھ ناپید ھو چکا ھے۔۔۔

تو جناب یہ تھی "قلمی دوستی" جو کسی زمانے میں مروّج تھی، غالباً اسّی اور نوّے کی دہائی میں قلمی دوستی کا رجحان عروج پر تھا۔ جذبات سچے، محبتیں سچی، رابطے سچے سب کچھ سچا تھا۔ ظاہری آنکھوں سے نہ دیکھ کر بھی دل سے محبت و خلوص کسی کیلیے دل میں پیدا ھوتا تھا۔ آج سامنے دیکھ کر بھی اگر کوئی چیز ھمارے دلوں میں جاگتی ھے تو وہ ھے نفرت، بغض اور حسد۔ افسوس صد افسوس۔۔۔
منقول
 
Top