انٹرنیٹ کی کرامات !

گوگل اور فیس بک نے جن خواتین کو گھر بیٹھے شاعرہ بنا دیا ہے ان کی پوسٹ پڑھنے لائق ہوتی ہے۔
ایک محترمہ نے شعر لکھا
"کاش میں آسمان بن جاؤں...
اور کاش تم پرندے بن کر میری طرف اڑتے ہوئے فوراً چلے آؤ".
نیچے واہ واہ کی لائن لگ گئی. ایک صاحب نے فرطِ جذبات سے مغلوب ہو کر لکھا "بانو قدسیہ کے بعد آپ ہی عظیم شاعرہ ہیں"۔ ایک اور فین کا تبصرہ تھا "سویٹ آپی! آپ کے اشعار بھی آپ ہی کی طرح خوبصورت ہیں اور اِن میں کہیں کہیں میر تقی میر کا رنگ جھلکتا ہے لڑکیوں کو پتا ہوتا ہے کہ کس بات پہ ٹولیاں بھاگتی ہوئی آئیں گی. لہٰذا یہ کبھی کبھار الجھا ہوا سٹیٹس بھی اپ ڈیٹ کر دیتی ہیں مثلاً "بریک اپ". اب اس لفظ میں ایک ہزار جہان معانی پوشیدہ ہوتے ہیں لہٰذا لگ بھگ ایک ہزار ہی کمنٹس آ جاتے ہیں. جن میں زیادہ تر تسلی دیتے نظر آتے ہیں کہ دُکھ کی ان اتھاہ گہرائیوں میں وہ اپنی آپی کے ساتھ ہیں!!
ایسی لڑکیاں عموماً صرف مردوں میں ہی پاپولر ہوتی ہیں ورنہ حرام ہے جو ان کی فرینڈ لسٹ میں کوئی تصویر والی لڑکی بھی نظر آئے۔ بظاہر یہ بہت دین دار بنتی ہیں، اقوال زریں لگاتی ہیں، اچھی اچھی باتیں کرتی ہیں، انہیں ہر روز اپنی وال پر گڈ مارننگ اور گڈ نائٹ کا ڈیزائن لگانے کا بھی شوق ہوتا ہے، عموماً ایسی لڑکیاں گوگل سے اداس لڑکیوں اور تتلیوں کی تصویریں کاپی کرکے پھیلانا صدقہ جاریہ سمجھتی ہیں۔ یہ اکثر اپنے مہندی لگے، چوڑیوں والے ہاتھ کی تصویر بھی لگاتی ہیں حالانکہ تصویر کی ریزولوشن بتا رہی ہوتی ہے کہ یہ کسی نہایت اچھے کیمرے سے کھینچی گئی ہے جو بہرحال ساڑھے تین ہزار والے موبائل کا نہیں ہو سکتا۔ یہ جو بھی سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتی ہیں اس میں اُردو کی ایسی ایسی شاندار غلطیاں کرتی ہیں کہ فوراً ہی ان کی لیاقت ظاہر ہو جاتی ہے۔
ایک بی بی نے لکھا "یہ شعر آج بھی میری ڈائری میں لکھا ہوا ہے کہ...
"بیچھڑا کچھ اس ادہ سے کے رُتھ ہی بدل گئی
ایک شاخص سارے شہر کو ویرآن کر گیا"
نیچے کسی دل جلے نے لکھ دیا، اچھا ہی ہوا کہ بچھڑ گیا ورنہ اس نے آپکی اردو پڑھ کے خودکشی کر لینی تھی۔ فوراً آپی کے ایک ہمدرد نے غصے سے لکھا "سوئیٹ آپی حکم کریں تو اس گستاخ کو مزا چکھا دوں؟
آپی نے متانت کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً لکھا "نہیں پیارے بھائی! ایسے ان پڑھ اور جاہلوں کے منہ لگنا مناسب نہیں۔۔۔!!!
انٹرنیٹ سے انتخاب
 

یوسف سلطان

محفلین
فیس بک کی لڑکیاں
(گل نوخیز اختر)
آج تک یہی طعنہ سنتے آئے ہیں کہ فیس بک پر لڑکے جعلی ناموں سے لڑکیاں بن کر اکائونٹ کھول لیتے ہیں حالانکہ یہ شرح لڑکیوں میں بھی کم نہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ اِن کا طریقہ واردات ذرا مختلف ہوتا ہے۔ اگر آپ لڑکے ہیں اور آپ کو کسی انجان لڑکی کی طرف سے فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ آئی ہے تو یقینا آپ خوشی سے ڈیڑھ گھنٹہ ایک ٹانگ پر رقص فرمانے کے بعد اس کا پروفائل ضرور دیکھنا پسند فرمائیں گے کہ بی بی اصلی ہے یا پیچھے کوئی اسلم چھپا بیٹھا ہے۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ بی بی اصلی ہے۔ لیجئے پروفائل کھل گیا۔ اب آپ نے کرنا یہ ہے کہ جو کچھ لکھا ہوا ہے اس میں سے بغیر کچھ سوچے ہر لائن میں سے چھ نمبر کاٹ لینے ہیں۔ مثلاً اگر نام 'سونیا شیریں ‘ لکھا ہوا ہے تو چھ نمبر کاٹ کر اسے پڑھیں... یہ بنے گا... حمیداں بی بی‘ مختاراں‘ سرداراں‘ اُلفت‘ شکیلہ وغیرہ... اب تعلیم کا جائزہ لیں‘ تعلیم کے خانے میں اگر میڈیکل فائنل ایئر لکھا ہوا ہے تو چھ جماعتیں منفی کر دیں‘ یعنی ذہن میں بٹھا لیں کہ محترمہ نے میٹرک میں امتیازی نمبروں سے سپلی حاصل کی ہے۔ پیشے کے خانے میں اگر ڈاکٹر لکھا ہو تو سمجھ جائیں کہ دردِ شقیقہ کی مریض ہے۔ رہائش کے خانے میں شہر کی کسی ٹاپ کلاس سوسائٹی کا نام تحریر ہے تو آنکھیں بند کرکے یقین کر لیں کہ لاری اڈے کے اردگرد کا علاقہ ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ بی بی آج کل کہاں مقیم ہیں... یقینا اِس خانے میں لندن‘ امریکہ یا کینیڈا لکھا ہوا ملے گا... یہاں بھی آپ پر فرض ہے کہ پڑھیں بے شک امریکہ لیکن تصور میں کوٹ مٹھن وغیرہ ہی رکھیں!!
یہ بیبیاں کبھی فیس بک پر اپنے چہرے کی تصویر نہیں لگاتیں‘ ہرتصویر میں یہ چھپتی چھپاتی دکھائی دیتی ہیں۔ بعض اوقات کئی لڑکیاں اپنی تصویر لگا بھی دیتی ہیں تاہم اس کے بعد اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان کے فرینڈز میں صرف لڑکیاں ہی رہ جاتی ہیں۔ ان میں اکثر لڑکیاں فیس بک پر عجیب و غریب سٹیٹس اپ ڈیٹ کرکے نوجوانانِ ملت کو مصروف رکھتی ہیں۔ مثلاً پچھلے دنوں ایک بی بی نے ایک سوال پوچھا کہ 'ایک لڑکا مجھے اِن باکس میں محبت بھرے میسج بھیجتا ہے‘ کیا میں اسے ان فرینڈ کر دوں؟‘۔ اسی طرح ایک بی بی خاصے غصے میں نظر آئیں‘ انہوں نے لڑکے کے پیغامات کا سکرین شاٹ شیئر کر دیا کہ یہ دیکھیں اس کمینے لڑکے نے مجھ سے اظہار محبت کر دیا ہے۔ بندہ پوچھے‘ اگر آپ کسی سے اظہارِ محبت کر دیں تو کیا اسے بھی یوں سکرین شاٹ شیئر کرنے کا حق ہے یا اس کا توا ہی لگے گا۔ ایک محترمہ ہر کالم نگار کے کمنٹس میں اپنے کالم کا لنک لگا دیتی ہیں اور ساتھ ریکوئسٹ کر دیتی ہیں کہ پلیز اسے پڑھئے‘ لائک کیجئے اور کمنٹس دیجئے... دلچسپ بات ہے کہ یہ لنک وہ جس کالم کے کمنٹس میں پیسٹ کرتی ہیں خود وہ کالم پسند کرنا تو درکنار پڑھنا بھی پسند نہیں کرتیں۔
فیس بک نے جن خواتین کو گھر بیٹھے شاعرہ بنا دیا ہے ان کی پوسٹ پڑھنے لائق ہوتی ہے۔ ایک محترمہ نے شعر لکھا 'کاش میں آسمان بن جائوں... اور کاش تم پرندے بن کر میری طرف اڑتے ہوئے فوراً چلے آئو‘۔ نیچے واہ واہ کی لائن لگ گئی‘ ایک صاحب نے فرطِ جذبات سے مغلوب ہو کر لکھا 'بانو قدسیہ کے بعد آپ ہی عظیم شاعرہ ہیں‘۔ ایک اور فین کا تبصرہ تھا 'سویٹ آپی! آپ کے اشعار بھی آپ ہی کی طرح خوبصورت ہیں اور اِن میں کہیں کہیں میر تقی میر کا رنگ جھلکتا ہے‘۔ خاتون نے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے سب نقادوں کا شکریہ ادا کیا اور یہ ہولناک خوشخبری سنائی کہ اب وہ ہر ہفتے ایک غزل لکھا کریں گی۔ آج کل نہ صرف وہ باقاعدگی سے غزلیں لکھ رہی ہیں بلکہ گزشتہ دنوں موصوفہ نے اپنے متوالوں سے ایک سوال بھی پوچھا کہ شاعری کی کتاب چھپوانے کے لیے کون سا پبلشر بہتر رہے گا؟ جواب میں ڈیڑھ دو سو پروانوں نے مختلف پرنٹنگ پریس کے نام لکھ بھیجے...!!!
فیس بک کی ایسی لڑکیاں اپنے سٹیٹس کو بھی سٹیٹس سمبل سمجھتی ہیں تاہم اگر ان کے پانچ ہزار فرینڈز ہوں تو سب کو اِن باکس میں ایک یاد دہانی ضرور کراتی ہیں کہ پلیز میرا پیج ضرور لائیک کیجئے۔ اِنہیں اپنی لوکیشن شیئر کرنے کا بھی جنون ہوتا ہے‘ یہ آئے روز فیس بک پر کرنٹ لوکیشن شیئر کرتی ہیں جس سے دیکھنے والے مزید متاثر ہوتے ہیں کہ کوئی کھاتی پیتی لڑکی ہے جو روز کسی نہ کسی فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں پہنچی ہوتی ہے‘ حالانکہ اکثر یہ ریسٹورنٹ کے اندر نہیں بلکہ باہر کھڑی چنگ چی کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں یا ریسٹورنٹ کے ساتھ والی گلی میں پیکو کرانے گئی ہوتی ہیں۔ فیس بک کی یہ لڑکیاں ہوتی تو اصلی ہیں لیکن عموماً ان کا تمام تر بائیوڈیٹا نقلی ہوتا ہے۔ یہ فیس بک کی جنونی ہوتی ہیں‘ دن رات ان کا میسنجر Active ہی رہتا ہے‘ ان میں سے کئی لڑکیوں نے تہیہ کیا ہوتا ہے کہ خاوند لے کے ہی اٹھنا ہے۔ ان کے پاس سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کے لیے اور کچھ نہ ہو تو کسی دور کے رشتہ دار کے بارے میں لکھ دیتی ہیں 'میرے خالو کے ماموں پھر وفات پا گئے ہیں‘ پلیز ان کے لیے ایک دفعہ فاتحہ پڑھ دیجئے‘... اور سٹیٹس کے انتظار میں ہلکان ہونے والے پوری عبارت پر غور کیے بغیر جھٹ سے اناللہ سے شروع ہو کر حوصلے کی تلقین کرنے میں مگن ہو جاتے ہیں۔
اِن لڑکیوں کو پتا ہوتا ہے کہ کس بات پہ ٹولیاں بھاگتی ہوئی آئیں گی‘ لہٰذا یہ کبھی کبھار الجھا ہوا سٹیٹس بھی اپ ڈیٹ کر دیتی ہیں مثلاً 'بریک اپ‘۔ اب اس لفظ میں ایک ہزار جہان معانی پوشیدہ ہوتے ہیں لہٰذا لگ بھگ ایک ہزار ہی کمنٹس آ جاتے ہیں‘ جن میں زیادہ تر تسلی دیتے نظر آتے ہیں کہ دُکھ کی ان اتھاہ گہرائیوں میں وہ اپنی آپی کے ساتھ ہیں!!
ایسی لڑکیاں عموماً صرف مردوں میں ہی پاپولر ہوتی ہیں‘ ورنہ حرام ہے جو ان کی فرینڈ لسٹ میں کوئی تصویر والی لڑکی بھی نظر آئے۔ بظاہر یہ بہت دین دار بنتی ہیں‘ اقوال زریں لگاتی ہیں‘ اچھی اچھی باتیں کرتی ہیں‘ تاہم ان کی پروفائل چیک کی جائے تو ان کی پسندیدہ کتاب 'میں مجبور تھی وہ ظالم تھا‘ نکلتی ہے اور جن فلموں کو انہوں نے لائیک کیا ہوتا ہے ان میں 'بے واچ‘ نمبر ون ہوتی ہے۔ انہیں ہر روز اپنی وال پر گڈ مارننگ اور گڈ نائٹ کا ڈیزائن لگانے کا بھی شوق ہوتا ہے‘ عموماً ایسی لڑکیاں گوگل سے اداس لڑکیوں اور تتلیوں کی تصویریں کاپی کرکے پھیلانا صدقہ جاریہ سمجھتی ہیں۔ یہ اکثر اپنے مہندی لگے‘ چوڑیوں والے ہاتھ کی تصویر بھی لگاتی ہیں حالانکہ تصویر کی ریزولوشن بتا رہی ہوتی ہے کہ یہ کسی نہایت اچھے کیمرے سے کھینچی گئی ہے جو بہرحال ساڑھے تین ہزار والے موبائل کا نہیں ہو سکتا۔ یہ جو بھی سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتی ہیں اس میں اُردو کی ایسی ایسی شاندار غلطیاں کرتی ہیں کہ فوراً ہی ان کی لیاقت ظاہر ہو جاتی ہے۔ ایک بی بی نے لکھا 'یہ شعر آج بھی میری ڈائری میں لکھا ہوا ہے کہ... 'بیچھڑا کچھ اس ادہ سے کے رُتھ ہی بدل گئی... ایک شاخص سارے شہر کو ویرآن کر گیا‘... نیچے کسی دل جلے نے لکھ دیا 'اچھا ہی ہوا کہ بچھڑ گیا ورنہ اس نے آپ کی اردو پڑھ کے خودکشی کر لینی تھی‘۔ فوراً آپی کے ایک ہمدرد نے غصے سے لکھا 'سوئیٹ آپی حکم کریں تو اس گستاخ کو مزا چکھا دوں؟‘... آپی نے متانت کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً لکھا 'نہیں پیارے بھائی! ایسے ان پڑھ اور جاہلوں کے منہ لگنا مناسب نہیں...‘‘۔
 

شمشاد

لائبریرین
فیس بک پر جہاں 90 فیصد فضول مراسلے لکھے ہوتے ہیں، وہاں چند ایک اچھے اور کچھ ایک مزاح سے بھرپور تحریر بھی پڑھنے کو مل جاتی ہے۔

اعجاز احمد ضیا کی مندرجہ ذیل تحریر پڑھی، اچھی لگی، سوچا کہ آپ سے شیئر کروں۔


___________دو حرفی گل سے بات کا بتنگڑ_____________

"زیر بن زبر نہ بن متاں پیش آوی"

"روکو، مت جانے دو۔ روکو مت، جانے دو"

ہم دعا لکھتے رہے،_____ وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا

درج بالا تمہید سے وضاحت مقصود ہےکہ ایک زبر، زیر،پیش، وقف حتیٰ کہ نقطہ سے معانی و مفہوم میں یکسر بدل جاتےہیں۔ پنجابی میں کہتے ہیں " دو حرفی گل"۔ غور کرنے پر واضح ہوا کہ " گل" میں' گ 'اور 'ل' دو حروف ہیں، گ ' پر زبر یعنی 'گ' مفتوح ہے اور 'ل' پر جذم ہے۔ اب دو حروف کی وجہ سے'گل' دو حرفی گل ہے تو پھر اردو میں "بات" کو تین حرفی بات کیوں نہیں کہتے؟ یا پھر انگریزی میں "TALK" کو چار حروف ( Alphabets) کی وجہ سے چار حرفی ' TALK' کیوں نہیں کہتے۔ حالانکہ آج کے "ٹک ٹاک" زدہ معاشرے میں لفظِ ثانی کی مناسبت سے چار حرفی'TALK' کہنے میں کیا قباحت تھی؟اس کی ایک وجہ میری سمجھ میں آتی ہے کہ اردو میں "چار حروف" اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ اسے گالی سمجھا جاتا ہے، ویسے تو" گالی" کے بھی چار حروف ہیں، مگر چار حروف گالی کی طرح دیئے نہیں جاتے بلکہ "بھیجے" جاتے ہیں۔

خیر گل دو حرفی کی جائے یا "سی حرفی" میں کی جائے (سی حرفی کی باتیں معرفت ، رموز و اسرار کی حامل ہوتی ہیں، ایسی باتیں قارئین و سامعین کے دل ❤️ پر اثر کرتی ہیں) وزن رکھتی ہونی چاہئے۔ جو چیز وزن کے ساتھ ساتھ جگہ بھی گھیرے اسے ہم مادہ کہتے ہیں " جو چیز وزن رکھتی ہے اور جگہ گھیرتی ہے وہ مادہ کہلاتی ہے" تو کیا اس کا مذکر "نر "وزن نہیں رکھتا؟ اور جگہ نہیں گھیرتا؟یا اس کی گل، بات اور ٹاک میں وزن نہیں ہوتا؟، یہ ایک لمبی بحث ہے۔ اور بحث میں پڑنا ایک سعی لا حاصل ہے۔

بقول اکبر الہ آبادی

فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں

آج کی دو حرفی" گل" کا سرا تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔" گل" کو اردو اور پنجابی کے لحاظ سے "گ" پر زبر، زیر اور پیش لگا کر مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں۔ پنجابی لفظ ہونے کی وجہ سے زیادہ "گل" پنجابی کے 'گ' ' ل' کی ہو گی۔ پنجابی میں گ پر زبر سے 'گل" بنتی ہے۔ "لفظ گل" ورنہ تو جس کی گل بن جائے اس کی چاندی تو کیا چاندنی ہو جاتی ہے اور وہ بھی ایسی جو چار دن کی نہیں ہوتی اور نہ ہی اندھیری رات کا ڈر ہوتا ہے۔

"گل وچ کجھ ہور اے" میں اسی گل کا ذکر ہے۔

گ پر زبر سے پنجابی میں ایک اور لفظ" گل"(رخسار) بھی بنتا ہے جی ہاں وہی گل کہ جو مکھڑے میں بنیادی حیثیت کی حامل ہوتی ہے اور اس پر بنا کالا کالا تل!!

تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے
میرا کڈھ کے لئے گیا دل ❤️ وے
منڈیا سیالکوٹیا!

مکھڑے پہ تل کی لوکیشن "پنجابی والی اسی "گل" پر ہے۔

ایک پوسٹ میں دو جان لیوا کھڈوں کا ذکر تھا ایک سڑک کے درمیان اور دوسرا "گل" کے درمیان ۔ گ اور ل پر مشتمل اس لفظ کی پنجابی میں مفتوحہ حالت کی تیسری شکل " گل" (گلنا) گوشت یا دال وغیرہ کا گلنا کہ وہ کھانے کے قابل ہو جائے، کیونکہ صرف گلی ہوئی چیز ہی کھا کر ہضم کی جا سکتی ہے۔ بعض اوقات تو پیٹ کے ہلکے لوگوں سے بات(گل) بھی ہضم نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ تو "کھایا پیا ہضم کیا" کی جیتی جاگتی تصویر ہوتے ہیں۔ اب وہ کیا کھاتے پیتے ہیں یہ آپ لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہیں ۔اور تو اور اکثر تو کھا پی کر ڈکار بھی نہیں لیتے۔ ڈکار تو تب لیں گے ناں جب ڈکار کی باری آنے دیں گے یا ڈکار کے لئے جگہ چھوڑیں گے۔

پنجابی میں'"گل"( Throat) گلے کو بھی کہتے ہیں۔

"گل پئی وجانی پیندی اے" میں اسی" گل" کا ذکر ہے

وہ گل(گلا) جو اکثر خراب رہتا ہے اور اینٹی بائیوٹک سے ہی ٹھیک ہوتاہے۔ کئی ڈاکٹرز کا تو کاروبار ہی اسی کی وجہ سے ہے۔ ستر فیصد لوگوں کو انفیکٹڈ گلے سے بخار ہوتا ہےاور پھر اس مرض کی دوا تو ڈاکٹر کے پاس ہی ہوتی ہے ناں! پنجابی میں اسی لفظ کے نیچے زیر سے یہ "گل"( نمی، گیلا) ہو جاتا ہے۔ اور یہاں ہمارا مطلب پاجامہ گیلا ہونا نہیں ہے۔ پنجابی میں مضموم" گ" کی صورت(گ پر پیش) میں گل سے مراد تباہ کرنا یا ضائع کرنا ہو جاتا ہے۔

" توں پیو دی ساری محنت گل کر چھڈی اے"

پنجابی میں ایک گل سگریٹ کا بھی ہو تا ہے مگر چونکہ وہ اردو کے "گل" (پھول) کے معانی میں ہی استعمال ہوتا ہے اس لئے اس پر "گل" رہنے دیتے ہیں۔ ویسے بھی "تمباکو نوشی صحت کے لئے مضر ہے"
اس میں 'تمباکو' اور 'نوشی" کو اکٹھا پڑھا جائے۔ ورنہ ذومعنی کے جھنجھٹ کا احتمال ہے۔

اب اردو کے" گ،ل" کی گل کرتے ہیں، اردو میں اس کی جو شکل زیادہ بیان کی جاتی ہے وہ ' گ' کی مضموم حالت "گل" (پھول) ہے۔ جی ہاں

میر تقی میر نے اسی گل کے بارے میں کہا

پتا پتا____بوٹا بوٹا _________حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

یا پھر

جب کبھی کسی گل پر اک ذرا نکھار آیا

کم نگاہ یہ سمجھے____ موسم بہار آیا (جذبی)

اردو والا ' گل' شعراء کا پسندیدہ رہا ہے، یہاں تک کہ اس کی " خوشبو،" کو اپنی کتابوں کا نام رکھنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں ۔ جی ہاں

وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے، پھول کدھر جائے گا (پروین شاکر)

"گل"(Gul) نام کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ معنی پھول ہی ہوتا ہے، اس لئے مختلف ناموں کے حوالے ٹائپ کرنے میں زیادہ " انگشتِ شہادت" نہیں تھکائی جائے گی صرف ایک نام کا ذکر ہو گا بلکہ وقت اور جگہ کی کمی کے باعث صرف نام لکھا جائے گا،

"گل خان لوئر دیر سے"

اردو میں مکسور "گ" یعنی گ کے نیچے زیر ہونے پر ایک کاسٹ بھی بنتی ہے' گل '( Gill) ، ذات پات کی بات ہندوستان میں کی جاتی ہے، سب انسان برابر ہیں اس لئے ہم یہ'گل" نہیں کریں گے

ویسے تو گل کو الٹا پڑھنے سے بھی "لگ"(تعلق) اور "لگ"(لگنا) دونوں میں"گ" پر زبر ہے۔ مگر اس سے پہلے کہ میں اپنے "لگ" تعلق والوں کی نظر میں "محرم" سے "مجرم" بن جاؤں. اور پوسٹ کی طوالت سے ان کو غصے سے آگ "لگ" جائے، اس لئے وہ" گل" جو دو حرفی گل سے "بات" اور پھر بات سےبتنگڑ بن گئ، یہیں ختم کرتے ہیں، ویسے بھی مجھے زیادہ باتیں کرنے کی عادت نہیں ہے, باقی گل بات آپ لوگ کمنٹ میں کر لیں!

"میں تے گل دی گل کیتی اے"

"بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے"(تاثیر)
(اعجاز احمد ضیا)
 

شمشاد

لائبریرین
واقعات تو یہ چھتیس سال پرانے ہیں ۔ لیکن آج سے پہلے ان پہ قلم نہیں اٹھایا کہ کسی کی دل شکنی نہ ہو ۔

ہم بارات لے کر لاہور سے راولپنڈی پہنچے۔ میں نے زندگی کا پہلا تھری پیس سوٹ پہنا ہوا تھا ۔ اور ہاتھ میں ایک دوست سے مانگا ہوا ، مہنگا سا کیمرہ تھا ۔

جاتے ہی چائے اور مٹھائی سے ہماری بہت اچھی تواضح کی گئی ۔ میری سیٹ کے سامنے ادھ کھلے دروازے میں وہ بھی اپنی سکھیوں کے ساتھ بیٹھی تھی ، اور وقت فوقتاً نظروں کا حسین ٹکراؤ بھی ہو جاتا تھا ۔ پھر کبھی اس کی سہیلیوں کی طرف سے کوئی قہقہہ بلند ہو جاتا اور کبھی میرے بھائیوں اور دوستوں کی طرف سے ۔ اور میں کبھی زمین پہ ہوتا اور۔ کبھی تیسرے اور چوتھے آسمان کے درمیان ۔

اتنے میں شور مچ گیا کہ نکاح خواں صاحب تشریف لے آئے ہیں ۔ انہوں نے میرے سامنے پڑاؤ ڈال دیا ۔ اپنے چھوٹے کے ہاتھ سے پکڑ کر نکاح کے کاغذات میرے سامنے رکھ دیے ۔ ساتھ ہی اپنی جیب سے ایک قلم نکالا اور مجھے حکم دیا کہ میں ان چاروں خالی کاغذوں پہ دستخط کر دوں ۔

میں نے عرض کیا حضور ، خالی کاغذوں پہ تو شاید میں دستخط نہ کر سکوں ۔ آپ پہلے میرے اور لڑکی کے گھر والوں سے مل کر ان میں سارے کوایف درج کر دیں ۔ میرا کام ان شا اللہ اس کے بعد شروع ہوگا ۔

انہوں نے ہماری بے اعتباری کا سخت برا منایا ۔ اور ہماری طرف اشارہ کر کے ، ہمارے سسر صاحب سے پوچھنے لگےکہ وہ اس قسم کی چیز کہاں سے پکڑ لائے ہیں۔

خدا خدا کرکے ، دستاویزات کو پر کیا گیا ۔ اب قاری صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کردیا۔ دیکھو دولہا میاں میں جو جو بولتا جاؤں ، تم نے اسے دہراتے جانا ہے ۔

"میں نے مسماۃ رضیہ بانو ، بنت میاں محمد شریف کا نکاح ۔ بعوض موجل پانچ تولے طلائی زیورات کے ، ان گواہان کے رو رو برو قبول کیا۔"

اب میں قاری صاحب سے یہ پوچھے بنا نہ رہ سکا کی جناب آپ یہ اپنا نکاح پڑھا رہے ہیں یا میرا ۔

قاری صاحب نے ہمیں یوں دیکھا ، جیسے قیامت کے دن ، دوزخ میں جانے والے سب سے پہلے انسان ہم ہی ہوں گے ۔ ہماری اس بات پہ خاصی لے دے ہوئی ، قاری صاحب نے اپنا بستہ سمیٹا اور آٹھ کر جانے لگے۔ اس پر بہت سے بندوں نے قاری صاحب کو ٹھنڈا کیا کہ یہ دولہا دل کا برا نہیں ہے ، بس ذرا نیا نیا انجینیئر بنا ہے ۔ ہمارا یہ جرم قابل معافی ٹھہرا اور نکاح کی سلسلہ پھر وہاں سے شروع ہوا جہاں سے منقطع ہوا تھا۔

پھر ہم دونوں نے ان نکاح کے دستاویزات پہ دستخط کیے ۔ اور ہماری زندگی کا ایک خوبصورت مرحلہ طے ہو گیا۔ اب جو مبارک مبارک کا سلسلہ شروع ہوا تو سب سے پہلے قاری صاحب نے کوئی پندرہ سولہ چھوہارے اٹھا کر زور سے ہمارے سر میں دے مارے اور ساتھ ایک عظیم نعرہ مبارک بھی بلند کر دیا ۔ جس کے جواب میں ہم کلمہ شہادت کے سوا کوئی دوسرا نعرہ مستانہ نہ بلند کر سکے ۔

اب قاری صاحب نے ہم سے مطالبہ کیا کہ ہم مبلغ پانچ ہزار روپیہ سکہ رائج الوقت قاری صاحب کی نذر کریں ، اور دو ہزار اس بچونگڑے کو بھی دیں جو نکاح کے کاغذات اٹھا کر لایا تھا ۔

ہم نے قاری صاحب کی منشا تو پوری کر دی لیکن ساتھ ہی ریکوسٹ کی کہ اگر یہ چار چھ کاغذ بھی آپ ہی اٹھا لیتے تو ہماری ایک مکمل تنخواہ کسی اور مصرف میں آ سکتی تھی ۔

اس دن ہم نے کسی انسانی آنکھ سے پہلی دفعہ لیزر شعائیں نکلتے ہوئے صاف دیکھیں ۔

پھر کھانا سرو ہوا ، اور اس کے بعد رخصتی کی تیاری شروع ہو گیی ۔ جس گھر میں کچھ دیر پہلے ، خوب چہلیں ہو رہی تھیں ، وہاں ، رونا دھونا اور چیخ و پکار شروع ہو گیی ۔ میری سالیوں نے چیخیں مار مار کر ، ایک دوسرے سے گلے ملنا شروع کر دیا۔ ساس صاحبہ تو روتے روتے یوں دھڑام سے زمین پر گر گئیں ، کہ ان کے دانت بھنچ گیے ۔ انکی تین چار بھتیجییوں نے کچن سے کچھ چمچ ، کانٹے اور ڈونگے کے چمچ لا کر ، ان کے بتیسی کو علیحدہ کر کے ، منہ میں پانی ڈالنے کی کوشش کی ۔ مگرمجال ہے ان کے منہ میں پانی کا ایک مالیکیول بھی گیا ہو

اب نہ کسی کو دلہن یاد رہی، نہ میں مسکین دولہا۔ ہر طرف اک ہا ہا کار تھی ۔ اور شادی والا گھر تھا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی ۔ ہر آواز رندھی ہوئی تھی ۔ اور میں خود کو اس ساری مصیبت کا واحد ذمہ دار محسوس کر رہا تھا ۔ ایک بار تو یہ بھی جی چاہا ، کہ یہاں سے فوراً بھاگ کر لاہور کی بس پکڑوں اور سب کو اس ازیت سے نجات دے دوں ۔ لیکن میں ایسا نہ کر سکا ۔

کبھی کبھی یوں لگتا جیسے یہ اپنی بیٹی ، ایک دولہا کو نہیں ،بلکہ کسی وڈے قصائی کے سپرد کر رہے ہیں ، کہ آئیندہ کبھی اس سے ملاقات نہیں ہو پائے گی ۔
خدا خدا کر کے ، رخصتی کا عمل شروع ہوا تو میرے اور دولہن کی مٹھی میں ، کچھ کچے چاول پکڑا دیئے گئے ۔ میں نے اس میں سے کچھ تو کھا لیے ۔ لیکن مجھے کہا گیا کہ انہیں کھانا نہیں ، بلکہ اپنے سر کے اوپر سے وار کر پیچھے زمین پہ پھینک دینا ہے ۔ اس سے آئیندہ کے لیےاس گھر میں رزق کی تنگی نہیں ہوگی ۔ اب ایک بار میرے اندر کا اڑیل ٹٹو پھر سے بیدار ہوگیا ، اور میں نے اللہ کے رزق کو لوگوں کے پاؤں میں پامال کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔ اور اسے اپنے کوٹ کی جیب میں ڈال دیا۔ جو راستے میں لاہور آتے آتے میں نے کھا کر ختم کر دیئے۔
( انجینیئر ریاض احمد اپل )
 

سیما علی

لائبریرین
اور کاش تم پرندے بن کر میری طرف اڑتے ہوئے فوراً چلے آؤ".
نیچے واہ واہ کی لائن لگ گئی. ایک صاحب نے فرطِ جذبات سے مغلوب ہو کر لکھا "بانو قدسیہ کے بعد آپ ہی عظیم شاعرہ ہیں"۔
بھیا پروین شاکر کا نام نہیں سنا ہوگا ورنہ اُن کا نام لیتے ۔۔۔۔:):):):):):)
 

سیما علی

لائبریرین
لہٰذا یہ کبھی کبھار الجھا ہوا سٹیٹس بھی اپ ڈیٹ کر دیتی ہیں مثلاً "بریک اپ". اب اس لفظ میں ایک ہزار جہان معانی پوشیدہ ہوتے ہیں لہٰذا لگ بھگ ایک ہزار ہی کمنٹس آ جاتے ہیں.
الجھا سلجھا سٹیٹس بھی خود نہیں اپ ڈیٹ کرتیں بلکہ بریک اپ کے معنی پہلے پوچھتیں ہیں پھر ۔۔۔۔۔یا انڈین گانوں سے جو اُلٹا سیدھا سمجھتی ہیں وہ لکھ دیتیں ہیں۔۔۔۔
 
Top