انشاء جی کی مشہور غزل ”ہم رات بہت روئے ، بہت آہ و فغاں کی“ کی پیروڈی

انشاء جی کی مشہور غزل ”ہم رات بہت روئے ، بہت آہ و فغاں کی“ کی پیروڈی:

اک رات بہت روئی ، بہت آہ و فغاں کی
نیند آنکھ سے اوجھل تھی کسی غمزدہ ماں کی

سر زانو پہ رکھے ہوئے کچھ سوچ رہی تھی
حالت یہی ہوتی ہے سدا غمزدگاں کی

وہ ایک طرف دیکھ کے چپ ہو سی گئی تھی
یاد آنے لگی تھی اسے ایامِ جواں کی

وہ دن کہ سمجھتی تھی وہ بیٹے کو ہی سب کچھ
وہ ساعتِ خوش وقت نشاطِ گزراں کی

بدلے میں ملا اس کو فقط اب تھا بڑھاپا
بیٹے کو تو پروا نہ تھی اس نالہ کناں کی

اس گھر کی کھلی چھت پہ چمکتے ہوئے تارو!
کہتے ہو کبھی جاکے وہاں بات یہاں کی

برگشتہ ہوا ماں سے یہ مہتاب سا بیٹا
ماں کی نہ سنی ، راہ چلا ’’کاہکشاں‘‘ کی

ہوتا ہے یہی عشق میں انجام سبھی کا
باتیں یہی دیکھی ہیں محبت زدگاں کی

فرزندو! سنو ، ماں ہے محبت کا سمندر
تم موجِ گریزاں نہ بنو آبِ رواں کی

اے دوستو! ، اے دوستو! ، اے پیارے سپوتو!
”جنت“ میں چلو ، سیر کریں پیاری سی ماں کی


اللہ کرے انشاء کا بھی جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے راہیں بڑی ہموار عیاں کی

انشا کی غزل پڑھ کے اسامہ کے قلم نے
اس عمدہ تغزل میں بھلی بات بیاں کی
 
آخری تدوین:
انشاء جی کی غزل:
ہم رات بہت روئے، بہت آہ و فغاں کی
دل درد سے بوجھل ہو تو پھر نیند کہاں کی

سر زانو پہ رکھے ہوئے کیا سوچ رہی ہو؟
کچھ بات سمجھتی ہو محبت زدگاں کی؟

تم میری طرف دیکھ کے چپ ہو سی گئی تھیں
وہ ساعتِ خوش وقت نشاطِ گزراں کی

اک دن یہ سمجھتے تھے کہ پایانِ تمنا
اک رات ہے مہتاب کے ایامِ جواں کی

اب اور ہی اوقات ہے اے جانِ تمنا!
ہم نالہ کناں، بے گنَہاں، غم زدگاں کی

اس گھر کی کھلی چھت پہ چمکتے ہوئے تارو!
کہتے ہو کبھی جا کے وہاں بات یہاں کی ؟

برگشتہ ہوا ہم سے، یہ مہتاب تو پیارو!
بس بات سنی، راہ چلا، کاہکشاں کی

اللہ کرے میرؔ کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی

ہوتا ہے یہی عشق میں انجام سبھی کا
باتیں یہی دیکھی ہیں محبت زدگاں کی

پڑھتے ہیں شب و روز اسی شخص کی غزلیں
غزلیں یہ حکایات ہیں ہم دل زدگاں کی

تم چرخِ چہارم کے ستارے ہوئے لوگو!
تاراج کرو زندگیاں اہلِ جہاں کی

اچھا ہمیں بنتے ہوئے، مٹتے ہوئے دیکھو
ہم موجِ گریزاں ہی سہی، آبِ رواں کی

انشاؔ سے ملو، اس سے نہ روکیں گے وہ، لیکن
اُس سے یہ ملاقات نکالی ہے کہاں کی

مشہور ہے ہر بزم میں اس شخص کا سودا
باتیں ہیں بہت شہر میں بدنام، میاں کی

اے دوستو! اے دوستو! اے درد نصیبو!
گلیوں میں، چلو سیر کریں، شہرِ بتاں کی

ہم جائیں کسی سَمت، کسی چوک میں ٹھہریں
کہیو نہ کوئی بات کسی سود و زیاں کی

انشاؔ کی غزل سن لو، پہ رنجور نہ ہونا
دیوانا ہے، دیوانے نے اک بات بیاں کی
(ابنِ انشا)​
 

شیرازخان

محفلین
زبردست یا زبردستی۔۔۔ ؟ :)
:shameonyou:
جناب زبردستی تو آپ کا کلام کرتا ہے کہ ہم اسی لفظ کا انتخاب کریں وگرنہ مارکیٹ میں "بہت اچھے،شاندار" جیسے لفظ بھی سستے داموں دستیاب تھے،مگر ہم نے پورا بازار گھوم کر اس کو پسند کیا ہے اسے تلاش کرنے سے کافی آسان تھا کہ ہم فقط زبردست لکھ دیتے۔۔۔۔:)
 
:shameonyou:
جناب زبردستی تو آپ کا کلام کرتا ہے کہ ہم اسی لفظ کا انتخاب کریں وگرنہ مارکیٹ میں "بہت اچھے،شاندار" جیسے لفظ بھی سستے داموں دستیاب تھے،مگر ہم نے پورا بازار گھوم کر اس کو پسند کیا ہے اسے تلاش کرنے سے کافی آسان تھا کہ ہم فقط زبردست لکھ دیتے۔۔۔ ۔:)
اس محبت پر تہ دل سے ممنون ہوں۔
 
پیروڈی بالعموم مزاح پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ آپ نے نہایت سنجیدگی سے ابن انشا کی بحر کو نئے قالب میں ڈھالا ہے
اگر پیروڈی کی تعریف میں یہ شامل ہے کہ اس میں مزاح ہی ہونا چاہیے تب تو یہ نظم پیروڈی کی صنف سے خارج ہی سمجھی جائے گی۔
 

الف عین

لائبریرین
پیروڈی واقعی ہے مگر اس کو کہا کیا جائے کہ شعرا کرام نے اس لفظ کی پیروڈی بنا کر اسے مزاح تک محدود کرنا عام کر دیا ہے
 
Top