فلک شیر

محفلین
کیا ستم ہے کہ لگاتا ہوں ترے نام وہ شعر
جو کسی اور کے ہجراں میں کہا ہوتاہے

وحی ء بے لفظ سمجھ میں نہیں آنے والی
ورنہ طوفان کا چڑیوں کو پتہ ہوتا ہے
 

فلک شیر

محفلین
میں آپ اپنا دیا بجھانے پہ تل گیا ہوں
یہاں سے میرے فرار کا وقت ہو گیا ہے

بگل کی آواز سن کے آنسو نکل پڑے ہیں
کہ پھر کسی شہریار کا وقت ہو گیا ہے​
 

فلک شیر

محفلین
ٹوٹی پڑی ہے موج بھی پتوار کی طرح
اُس پار کے بھی رنگ ہیں اِس پار کی طرح

سادہ بہت مگر کئی پرتیں لیے ہوئے
اس کا بدن ہے میر کےاشعار کی طرح​
 

فلک شیر

محفلین
اس قیامت میں گھنے اظہار کی توفیق دے
ربِ سایہ حرفِ سایہ دار کی توفیق دے

دیکھ اب کتنے خدا میرے مقابل آ گئے
میں نہ کہتا تھا مجھے انکار کی توفیق دے

تیرے دل میں جو سخن ہے وہ مرے دل میں بھی تھا
اس کی مرضی ہے جسے اظہار کی توفیق دے​
 

فلک شیر

محفلین
آدمی اب بھاگ کر جائے کہاں
شہر کے چاروں طرف بھی شہر ہے

مر گیا ہے چاند بھی چڑیوں کے ساتھ
جھیل کے پانی میں کتنا زہر ہے​
 

فلک شیر

محفلین
سانس چڑھتے ہیں چٹخنی کی طرح
کیا بلا شہر میں اتر آئی

پہلے کچھ دن لگاکہ وہ میں ہوں
پھر نہ اس کی کوئی خبر آئی

 

فلک شیر

محفلین
جب کہا دل نے کہ باہر کی طرف
کھنچ گیا میں اور اندر کی طرف

صبح دم اٹھا تھکن سے چور چور
خواب میں چلتا رہا گھر کی طرف

اس مکاں کا ایک دروازہ کتاب
اور اک کھڑکی سمندر کی طرف​
 

فلک شیر

محفلین
ہوائیں پیغام دے گئی ہیں کہ مجھے دریا بلا رہا ہے
میں بات ساری سمجھ گیا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

مجھے عزیزانِ من! محبت کا کوئی تجربہ نہیں ہے
میں اس سفر میں نیا نیا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

مجھے کسی سے بھلائی کی اب کوئی توقع نہیں ہے تابش
میں عادتاََ سب سے کہہ رہا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
 

فلک شیر

محفلین
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مرجاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں

کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں

یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابش
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں​
 

فلک شیر

محفلین
یہ بھی ممکن ہے کوئی روکنے والا ہی نہ ہو
یہ بھی ممکن ہے یہاں مجھ کو زمانے لگ جائیں
دیکھ اے حسنِ فراواں یہ بہت ممکن ہے
میرا دل تک نہ لگے تیرے خزانے لگ جائیں​
 

فلک شیر

محفلین
اے اپنے عشق کی باتیں سنانے والے شخص
اسی طرح کی کہانی ہمارے پاس بھی ہے

خفا ہوا بھی تو رسوا نہیں کرے گا تجھے
کہ زود رنج ترا مصلحت شناس بھی ہے

تجھے پسند بہت ہے گلاب کا کھلنا
اور اتفاق سے تو آئینے کے پاس بھی ہے
 
Top