محمد وارث

لائبریرین
انتخاب فارسی کلامِ اقبال مع اردو ترجمہ

یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ اردو کہ اہم ترین شاعر، غالب اور اقبال، دونوں ہی اپنے اردو کلام سے مطمئن نہیں تھے۔ غالب نے اگر اپنے اردو کلام کو بے رنگ کہا تھا تو اقبال اردو کلام اور خصوصاً بانگِ درا، کہ جو آج بھی انکی مقبول ترین کتاب ہے، کو نا پختہ کہتے تھے اور فارسی کلام کو پختہ کلام۔ فارسی میں بھی جاوید نامہ پر علامہ کو بہت فخر تھا اور اسے "حاصلِ حیات" سمجھتے تھے۔

اپنے ایک دوست ڈاکٹر غلام محی الدین صوفی کو 30 مارچ 1933 کے ایک خط میں صوفی صاحب کے ایک دوست کے شکوہ اور جواب شکوہ کا منظوم انگریزی ترجمہ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے علامہ فرماتے ہیں۔ "بانگِ درا کی بیشتر نظمیں میری طالب علمی کے زمانے کی ہیں، زیادہ پختہ کلام افسوس کہ فارسی میں ہوا"۔ اسطرح 25 جون 1935 کو ضرار احمد کاظمی کو، جو شکوہ اور جوابِ شکوہ مصور کر رہے تھے، اپنی رائے دیتے ہیں۔ "میری رائے میں میری کتابوں میں سے صرف جاوید نامہ ایک ایسی کتاب ہے جس پر مصور طبع آزمائی کرے تو دنیا میں نام پیدا کرسکتا ہے"۔

علامہ کے فارسی کلام میں اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، پیامِ مشرق، زبورِ عجم، جاوید نامہ، پس چہ باید کرد، اور ارمغانِ حجاز شامل ہیں۔ ارمغانِ حجاز میں کچھ حصہ اردو کا بھی شامل ہے۔

یہاں پر میں ایک جسارت کر رہا ہوں کہ علامہ کے کلام میں سے انتخاب مع اردو ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔ دیگر احباب سے بھی استدعا ہے کہ علامہ کے فارسی کلام میں سے اپنی پسند کے کلام سے ہمیں نوازیں۔


ابتدا پیامِ مشرق کی ایک غزل سے۔

فریبِ کشمکشِ عقل دیدنی دارد
کہ میرِ قافلہ و ذوقِ رہزنی دارد

عقل کی کشمکش کا فریب دیکھنے کی چیز ہے کہ یہ قافلہ کی امیر ہے لیکن رہزنی کا ذوق رکھتی ہے، یعنی راہنمائی کا دعوٰی کرتی ہے اور غلط راستہ پر ڈالتی ہے۔

نشانِ راہ ز عقلِ ہزار حیلہ مپرس
بیا کہ عشق کمالے ز یک فنی دارد

راستے کا نشان ہزار حیلے بنانے والی عقل سے مت پوچھ۔ آ اور عشق سے پوچھ کہ یہ ایک فن کا کمال رکھتا ہے، یعنی منزل کا نشان اور راستہ عشق ہی بتا سکتا ہے۔

فرنگ گرچہ سخن با ستارہ میگوید
حذر کہ شیوہء او رنگِ جوزنی دارد

فرنگ اگرچہ ستاروں سے گفتگو رکھتا ہے لیکن اس سے بچو کہ اسکا طریقہ جاودگری کا رنگ رکھتا ہے۔

ز مرگ و زیست چہ پرسی دریں رباطِ کہن
کہ زیست کاہشِ جاں، مرگ جانکنی دارد

موت اور حیات کے بارے میں کیا پوچھتے ہو کہ اس پرانی سرائے یعنی دنیا میں زندگی، جان کے آہستہ آہستہ گھلنے کا اور موت جسم سے جان کو نکالنے کا نام ہے۔

سرِ مزارِ شہیداں یکے عناں درکش
کہ بے زبانیء ما حرفِ گفتنی دارد

ہم شہیدوں کے مزار کے پاس ذرا باگ روک کہ ہماری بے زبانی بھی گفتگو کا حرف رکھتی ہے۔

دگر بدشتِ عرب خیمہ زن کہ بزمِ عجم
مے گذشتہ و جام شکستنی دارد

ایک دفعہ پھر عرب کے صحرا میں خیمہ لگا کہ عجم کی بزم وہ شراب ہے جو فرسودہ ہوچکی اور اسکے جام توڑنے کے قابل ہیں۔

نہ شیخِ شہر، نہ شاعر، نہ خرقہ پوش اقبال
فقیر راہ نشین است و دل غنی دارد

اقبال نہ شیخِ شہر ہے، نہ شاعر اور نہ ہی خرقہ پوش صوفی وہ تو راستے میں بیٹھنے والا فقیر ہے لیکن دل غنی رکھتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جاوید نامہ سے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

ما ترا جوئیم و تو از دیدہ دور
نے غلط، ما کور و تو اندر حضور

ہم تجھے ڈھونڈ رہے ہیں اور تو آنکھوں سے دور ہے، نہیں نہیں یہ غلط ہے، ہم اندھے ہیں تو تُو سامنے ہے۔

یا کشا ایں پردہء اسرار را
یا بگیر ایں جانِ بے دیدار را

یا تو ان بھیدوں کے پردے کو ہٹا دے، یا پھر اس جان کو جو تیرے دیدار سے محروم ہے واپس لے لے۔

نخلِ فکرم نا امید از برگ و بر
یا تبر بفرست یا بادِ سحر

میرے فکر کا درخت برگ و بار سے محروم ہے، یا تو اس کیلیے کلھاڑا بھیج دے یا پھر بادِ سحر۔

عقل دادی ہم جنونے دِہ مرا
رہ بجذبِ اندرونے دِہ مرا

تو نے مجھے عقل دی ہے، مجھے جنوں بھی دے۔ مجھے اپنے اندرونی جذب تک کا راستہ عطا کر۔

علم در اندیشہ می گیرد مقام
عشق را کاشانہ قلبِ لا ینام

علم فکر کے اندر مقام رکھتا ہے۔ عشق کا گھر ایسا دل ہے جو سوتا نہیں، جو دلِ بیدار ہے۔

علم تا از عشق برخوردار نیست
جز تماشہ خانہء افکار نیست

علم جب تک عقل سے پھل کھانے والا، فیض اٹھانے والا نہیں ہے، وہ افکار کے تماشہ خانہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ایں تماشہ خانہ سحرِ سامری است
علم بے رُوح القدس افسونگری است

یہ تماشہ خانہ سامری کا جادو ہے۔ علم روح القدس کے بغیر جادو گری ہے۔

بے تجلّی مردِ دانا رہ نبُرد
از لکد کوبِ خیالِ خویش مُرد

دانا مرد نے تجلی کے بغیر راستہ نہ چلا اور نادان خیالوں کی دولتیوں سے مر گیا۔

بے تجلّی زندگی رنجوری است
عقل مہجوری و دیں مجبوری است

تجلی کے بغیر، زندگی غم اور تکلیف، عقل دوری اور دین مجبوری ہے۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اسے آپ کتاب زبورِ عجم کا دیباچہ سمجھ لیں یا کچھ اور، اقبال نے زبورِ عجم کے قارئین سے خطاب کیا ہے، کُل تین شعر ہیں اور کیا لاجواب شعر ہیں۔


بخوانندہء کتابِ زبور

کتاب زبورِ عجم پڑھنے والوں سے

می شَوَد پردہء چشم پرِ کاہے گاہے
دیدہ ام ہر دو جہاں را بنگاہے گاہے

کبھی تو گھاس کا ایک تنکا میری آنکھوں کا پردہ بن جاتا ہے اور کبھی میں ہر دو جہاں کو ایک نگاہ میں دیکھ لیتا ہوں۔


وادیء عشق بسے دور و دراز است ولے
طے شود جادہء صد سالہ بآہے گاہے

عشق کی وادی یا منزل بڑی دور و دراز ہے لیکن کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ سو سال کا راستہ ایک آہ میں طے ہو جاتا ہے۔


در طلب کوش و مدہ دامنِ امید ز دست
دولتے ہست کہ یابی سرِ راہے گاہے

طلب میں لگا رہ اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ، یہ ایک ایسی دولت ہے کہ کبھی سرِ راہ ہاتھ آجاتی ہے۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعیِ اقبال

دلے در سینہ دارم بے سرورے
نہ سوزے در کفِ خاکم، نہ نورے
بگیر از من کہ بر من بارِ دوش است
ثوابِ ایں نمازِ بے حضورے

(ارمغانِ حجاز)


ترجمہ

میں اپنے سینے میں بے سرور دل رکھتا ہوں، میری مٹی کی مٹھی میں یعنی جسم میں نہ سوز ہے اور نہ ہی نور۔

مجھ سے واپس لے لے کہ میرے کندھوں کا بوجھ بنا ہوا ہے، اس بے حضور نماز کا ثواب۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پیامِ مشرق سے ایک غزل پیشِ خدمت ہے۔


شعرِ اقبال
صد نالہء شب گیرے، صد صبحِ بلا خیزے
صد آہِ شرر ریزے، یک شعرِ دل آویزے

ترجمہ
رات بھر کے سینکڑوں نالے، سینکڑوں آفت لانے والی صبحیں، سینکڑوں شعلے پھینکنے والی آہیں ایک طرف اور ایک دل کو لبھانے والا شعر ایک طرف۔

شعرِ اقبال
در عشق و ہوسناکی دانی کہ تفاوت چیست؟
آں تیشہء فرہادے، ایں حیلہء پرویزے

ترجمہ
عشق اور ہوس کے درمیان جانتا ہے کہ کیا فرق ہے؟ عشق فرہاد کا تیشہ ہے اور ہوس پرویز کا مکر و فریب۔

شعرِ اقبال
با پردگیاں بر گو کایں مشتِ غبارِ من
گردیست نظر بازے، خاکیست بلا خیزے

ترجمہ
فرشتوں سے کہہ دو کہ میری یہ مشتِ غبار، ایک گرد ہے لیکن نظر رکھنے والی، ایک خاک ہے لیکن طوفان اٹھانے والی۔


شعرِ اقبال
ہوشم برد اے مطرب، مستم کند اے ساقی
گلبانگِ دل آویزے از مرغِ سحر خیزے

ترجمہ
اے مطرب میرے ہوش اڑا دیتی ہے، اے ساقی مجھے مست کردیتی ہے، سحر کے وقت پرندے کی دل کو لبھانے والی آواز۔


شعرِ اقبال
از خاکِ سمر قندے ترسم کہ دگر خیزد
آشوبِ ہلاکوے، ہنگامہء چنگیزے

ترجمہ
میں ڈرتا ہوں کہ پھر اٹھے گا سمرقند کی خاک سے، ہلاکو خان کا فتنہ اور چنگیز خان کا ہنگامہ۔

شعرِ اقبال
مطرب غزلے بیتے از مرشدِ روم آور
تا غوطہ زند جانم در آتشِ تبریزے

ترجمہ
اے مطرب مرشدِ روم کی کوئی غزل، کوئی شعر لا، تاکہ میری جان شمس تبریز کی آگ میں غوطہ زن ہو۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پیام مشرق سے ایک نظم پیشِ خدمت ہے۔

حکمت و شعر

بوعلی اندر غبارِ ناقہ گم
دستِ رومی پردۂ محمل گرفت

ایں فرو تر رفت و تا گوہر رسید
آں بگردابے چو خس منزل گرفت

حق اگر سوزے ندارد حکمت است
شعر میگردد چو سوز از دل گرفت


ترجمہ
بوعلی سینا اونٹنی کے غبار میں گم ہوگیا اور رومی نے کجاوہ کا پردہ پکڑ لیا۔

رومی سمندر میں گہرا اتر گیا اور گوہر تک پہچ گیا۔ سینا نے تنکے کی طرح بھنور میں ہی منزل اختیار کر رکھی۔

حق میں اگر سوز نہیں ہے تو وہ حکمت، ہے فلسفہ ہے، لیکن جب وہ دل سے سوز حاصل کرتا ہے تو شعر بن جاتا ہے۔


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پیامِ مشرق سے ایک خوبصورت نظم پیشِ خدمت ہے۔


محاورہ مابین خدا و انسان


خدا


جہاں را ز یک آب و گِل آفریدم
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی

میں نے یہ جہان ایک ہی پانی اور مٹی سے پیدا کیا تھا، تو نے اس میں ایران و توران و حبش بنا لیے۔


من از خاک پولادِ ناب آفریدم
تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی

میں نے خاک سے خالص فولاد پیدا کیا تھا، تو نے اس سے شمشیر و تیر و توپ بنا لیے۔


تبر آفریدی نہالِ چمن را
قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را

تو نے اس سے چمن کے درخت کاٹنے کیلیے کلہاڑا بنا لیا، نغمہ گاتے ہوئے پرندوں کیلیے قفس بنا لیا۔




انسان


تو شب آفریدی، چراغ آفریدم
سفال آفریدی، ایاغ آفریدم

تو نے رات بنائی میں نے چراغ بنا لیا۔ تو نے مٹی بنائی میں نے اس سے پیالہ بنا لیا۔


بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم

تو نے بیابان، پہاڑ اور میدان بنائے۔ میں نے اس میں خیابان، گلزار اور باغ بنا لیے۔


من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم

میں وہ ہوں کہ پتھر سے آئینہ/شیشہ بناتا ہوں، میں وہ ہوں کہ زہر سے شربت/تریاق بناتا ہوں۔

.
 

محمد وارث

لائبریرین
پیامِ مشرق سے علامہ کی ایک خوبصورت غزل پیشِ خدمت ہے۔


می تراشد فکرِ ما ہر دم خداوندے دگر
رَست از یک بند تا افتاد در بندے دگر

ہماری فکر ہر دم ایک نیا خدا تراشتی ہے، جب وہ ایک قید سے نکلتی ہے تو کسی اور قید میں گرفتار ہوجاتی ہے۔

برسرِ بام آ، نقاب از چہرہ بیباکانہ کش
نیست در کوئے تو چوں من آرزو مندے دگر

بام ہر آ اور بے باک ہو کر اپنے چہرے سے نقاب اتار دے، تیرے کوچے میں مجھ جیسا تیرا کوئی اور آرزو مند نہیں ہے۔

بسکہ غیرت می برم از دیدۂ بیناے خویش
از نگہ بافم بہ رخسارِ تو روبندے دگر

تیرا نطارہ کرنے والی اپنی ہی آنکھ سے مجھے غیرت آرہی ہے۔ اسلیے میں نظروں سے تیرے رخسار پر ایک اور نقاب بن رہا ہوں۔

یک نگہ، یک خندۂ دزدیدہ، یک تابندہ اشک
بہرِ پیمانِ محبت نیست سوگندے دگر

ایک نگاہ، ایک زیرِ لب تبسم، ایک چمکتا ہوا آنسو، محبت کے پیمان کیلیے اس سے بڑی قسم کوئی اور نہیں ہے۔

عشق را نازم کہ از بیتابی روزِ فراق
جانِ ما را بست با دردِ تو پیوندے دگر

اپنے عشق پر نازاں ہوں کہ اسنے فراق کے دن کی بیتابی سے میری جان کا تیرے غم کے ساتھ ایک اور پیوند لگا دیا ہے۔

تا شوی بیباک تر در نالہ اے مرغِ بہار
آتشے گیر از حریمِ سینہ ام چندے دگر

اے بہار کے پرندے تا کہ تو اپنے نالے میں زیادہ بیباک ہوجائے، میرے سینے کے حریم سے کچھ اور آگ لے لے۔

چنگِ تیموری شکست، آہنگِ تیموری بجاست
سر بروں می آرد از سازِ سمرقندے دگر

تیمور کا رباب تو ٹوٹ گیا مگر اس سے نکلنے والی آواز اب تک باقی ہے۔ وہی نغمہ اب ایک اور سمرقند کے ساز سے باہر آرہا ہے۔

رہ مدہ در کعبہ اے پیرِ حرم اقبال را
ہر زماں در آستیں دارد خداوندے دگر

اے حرم کے پیر، اقبال کو کعبہ میں جانے کیلیے راہ نہ دے، کہ وہ ہر زمانے میں اپنی آستیں میں ایک نیا خدا رکھتا ہے۔


.
 

محمد وارث

لائبریرین
زبورِ عجم سے انقلاب کے موضوع پر علامہ کی ایک فکر انگیز نظم پیشِ خدمت ہے۔


خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعلِ ناب
از جفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
سرمایہ دار مزدور کی رگوں کے خون سے خالص لعل بنا رہا ہے اور دیہی خدا/جاگیردار کے ظلم سے کسانوں کے کھیت اجڑ گئے ہیں۔
الٹا ڈالو،
بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو۔


شیخِ شہر از رشتۂ تسبیح صد مومن بدام
کافرانِ سادہ دل را برہمن زنّار تاب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
شہر کے عالم نے تسبیح کے دھاگے سے سینکڑوں مومن باندھے ہوئے ہیں۔ سادہ دل کافروں کیلیے برہمن زنار بنا ہے۔
الٹا ڈالو،
بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو



میر و سلطاں نرد باز و کعبتینِ شان دغل
جانِ محکوماں ز تن بردند و محکوماں بخواب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
میر اور سلطان چوسر کھیلنے والے ہیں اور بھی ایسی جسکے پانسے دغل ہیں کہ ہر دفع وہ ہی جیتیں۔ وہ محکوموں کی جان تن سے کھینچ لیتے ہیں اور محکوم خواب میں ہیں۔
الٹا ڈالو،
بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو


واعظ اندر مسجد و فرزندِ او در مدرسہ
آں بہ پیری کودکے، ایں پیر در عہدِ شباب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
واعظ تو مسجد میں ہے اور اسکا بیٹا جدید مدرسے میں۔ وہ بزرگی میں بچہ بنا ہوا ہے اور یہ عین جوانی کے عالم میں بوڑھا ہوگیا ہے۔
الٹا ڈالو،
بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو


اے مسلماناں فغاں از فتنہ ہائے علم و فن
اہرمن اندر جہاں ارزان و یزداں دیر یاب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
اے مسلمانو، علم و فنون کے فتنوں سے فریاد کرو کہ شیطان تو جہان میں عام ہوگیا ہے اور خدا مشکل سے ملنے والا۔
الٹا ڈالو،
بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو



شوخیٔ باطل نگر، اندر کمینِ حق نشست
شپّراز کوری شب خونے زند بر آفتاب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
باطل کی شوخی تو دیکھ کہ حق کی گھات میں لگا ہوا ہے۔ دن کی اندھی چمگادڑ سورج پر شب خون مار رہی ہے۔
الٹا ڈالو،
بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو


در کلیسا ابنِ مریم را بدار آویختند
مصطفٰی از کعبہ ہجرت کردہ با اُمّ الکتاب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
عیسائیوں نے کلیسا میں ابنِ مریم کو سولی پر چڑھا دیا ہے۔ اور محمد (ص) کو کعبہ سے قرآن کے ساتھ ہجرت کرنی پڑی۔
الٹا ڈالو،
بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو


من درونِ شیشہ ہائے عصرِ حاضر دیدہ ام
آنچناں زہرے کہ از وے مارہا در پیچ و تاب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
میں نے موجودہ زمانے کے پیالوں میں دیکھا ہے وہ زہر کہ اس کی وجہ سے زہریلے سانپ بھی تڑپ رہے ہیں۔
الٹا ڈالو،
بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو


با ضعیفاں گاہ نیروے پلنگاں می دہند
شعلہ شاید بروں آید ز فانوسِ حباب
انقلاب
انقلاب، اے انقلاب

ترجمہ
باز دفعہ کمزوروں کو شیروں کا جسم و طاقت مل جاتی ہے۔ شاید پانی کے بلبلوں سے شعلہ برآمد ہو جائے۔
الٹا ڈالو
بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پیامِ مشرق سے علامہ کی ایک غزل پیشِ خدمت ہے۔


فَرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ
ایں جلوتِ جانانہ، آں خلوتِ جانانہ

عاشق کعبہ اور بت خانہ میں کوئی فرق روا نہیں رکھتا، اس کیلیئے یہ (بت خانہ) اگر محبوب کی جلوت ہے تو وہ (کعبہ) محبوب کی خلوت ہے۔



شادم کہ مزارِ من در کوئے حرم بستند
راہے ز مژہ کاوم از کعبہ بہ بتخانہ

میں خوش ہوں کہ میرا مزار کعبہ کے کوچے میں ہے، میں اپنی پلکوں سے کعبہ سے بت خانہ تک کا راستہ بنا رہا ہوں۔


از بزمِ جہاں خوشتر، از حور و جناں خوشتر
یک ہمدمِ فرزانہ و زبادہ دو پیمانہ

دنیا کی محفل اور حور و جنت سے بہتر ہے ایک عقل مند دوست کا ملنا اور اسکے ساتھ بادہ کے دو پیمانے پینا۔



ہر کس نگہے دارد، ہر کس سخنے دارد
در بزمِ تو می خیزد افسانہ ز افسانہ

ہر شخص اپنی نگاہ رکھتا ہے، ہر کوئی اپنی (ہی) بات رکھتا ہے، تیری بزم میں (جب تیرا ذکر چلتا ہے) تو بات سے بات نکلتی ہی چلی جاتی ہے۔



ایں کیست کہ بر دلہا آوردہ شبیخونے؟
صد شہرِ تمنّا را یغما زدہ ترکانہ

یہ کون ہے کہ جس نے دلوں پر شب خون مارا ہے اور تمناؤں کے سینکڑوں شہروں کو ترکوں کی طرح حملہ کر کے لوٹ لیا ہے۔


در دشتِ جنونِ من جبریل زبوں صیدے
یزداں بہ کمند آور اے ہمتِ مردانہ

میرے جنون کے بیابان میں جبریل تو ایک ادنٰی شکار ہے، اے ہمتِ مردانہ خدا پر کمند ڈال۔


اقبال بہ منبر زد رازے کہ نہ باید گفت
نا پختہ بروں آمد از خلوتِ میخانہ


اقبال نے منبر پر (سرِ عام) وہ راز کہہ دیا ہے جو کہ نہیں کہنا چاہیئے تھا، وہ (شاید) میخانہ کی خلوت سے خام نکلا ہے۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
“پیامِ مشرق” سے علامہ اقبال کی یہ نظم مجھے بہت پسند ہے، علامہ نے انسان کی (ابھی تک کی) ازلی تنہائی کو اپنے مخصوص دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے۔

تنہائی

بہ بحر رَفتَم و گُفتَم بہ موجِ بیتابے
ہمیشہ در طَلَب استی چہ مشکلے داری؟
ہزار لُولُوے لالاست در گریبانَت
درونِ سینہ چو من گوھرِ دِلے داری؟

تَپید و از لَبِ ساحِل رَمید و ہیچ نَگُفت

(میں سمندر پر گیا اور بیتاب، بل کھاتی ہوئی لہر سے پوچھا، تُو ہمیشہ کسی طلب میں رہتی ہے تجھے کیا مشکل درپیش ہے؟ تیرے گریبان میں ہزاروں چمکدار اور قیمتی موتی ہیں لیکن کیا تو اپنے سینے میں میرے دل جیسا گوھر بھی رکھتی ہے؟

وہ تڑپی اور ساحل کے کنارے سے دور چلی گئی اور کچھ نہ کہا)۔


بہ کوہ رَفتَم و پُرسیدَم ایں چہ بیدردیست؟
رَسَد بگوشِ تو آہ و فغانِ غم زدئی؟
اگر بہ سنگِ تو لعلے ز قطرۂ خون است
یکے در آ بَسُخن با مَنِ ستم زدئی

بخود خَزید و نَفَس در کَشید و ہیچ نَگُفت

(میں پہاڑ پر گیا اور اس سے پوچھا، یہ کیا بیدردی ہے، (تیری اتنی اونچائی ہے کہ) کیا کبھی تیرے کان تک کسی غم زدہ کی آہ و فخان بھی پہنچی ہے؟ اگر تیرے بے شمار قیمتی پتھروں میں میرے دل جیسا کوئی لعل ہے تو پھر ایک بار مجھ ستم زدہ سے کوئی بات کر۔

وہ اپنے آپ میں چھپا، سانس کھینچی اور کچھ نہ کہا)۔


رَہِ دَراز بَریدَم ز ماہ پُرسیدَم
سَفَر نصیب، نصیبِ تو منزلیست کہ نیست
جہاں ز پرتوِ سیماے تو سَمَن زارے
فروغِ داغِ تو از جلوۂ دلیست کہ نیست

سوئے ستارہ رقیبانہ دید و ہیچ نَگُفت

(میں نے لمبا سفر کیا اور چاند سے پوچھا، تیرے نصیب میں سفر ہی سفر ہے لیکن کوئی منزل بھی ہے کہ نہیں۔ جہان تیری چاندنی سے سمن زار بنا ہوا ہے لیکن تیرے اندر جو داغ ہے اسکی چمک دمک کسی دل کی وجہ سے ہے یا نہیں ہے؟

اس نے ستارے کی طرف رقیبانہ نظروں سے دیکھا اور کچھ نہ کہا)۔


شُدَم بَحَضرَتِ یزداں گُذَشتَم از مہ و مہر
کہ در جہانِ تو یک ذرّہ آشنایَم نیست
جہاں تہی ز دِل و مُشتِ خاکِ من ہمہ دل
چَمَن خوش است ولے درخورِ نوایَم نیست

تَبَسّمے بَلَبِ اُو رَسید و ہیچ نَگُفت

(میں چاند اور سورج سے گزر کر خدا کے حضور پہنچا اور کہا کہ تیرے جہان میں ایک بھی ذرہ میرا آشنا نہیں ہے۔ تیرا جہان دل سے خالی ہے اور میں (مشتِ خاک) تمام کا تمام دل ہوں۔ تیرا دنیا کا چمن تو اچھا ہے لیکن میری نوا کے لائق نہیں کہ میرا کوئی ہمزباں نہیں۔

اسکے لبوں پر ایک مسکراہٹ پھیلی اور اس نے کچھ نہ کہا)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
غلامی

آدم از بے بَصَری بندگیٔ آدَم کرد
گوھرے داشت ولے نذرِ قباد و جَم کرد

آدمی نے اپنی بے بصیرتی اور بے خبری کی وجہ سے آدمی کی ہے غلامی اختیار کی اور جو (آزادی و حریت) کا گوھر وہ رکھتا تھا اسے قیقباد اور جمشید (یعنی مطلق العنان بادشاہوں) کی نذر کر دیا۔

یعنی از خوئے غلامی ز سگاں خوار تر است
من نَدیدَم کہ سگے پیشِ سگے سر خَم کرد


یعنی غلامی کی عادت میں وہ کتوں سے بھی خوار تر ثابت ہوا کہ میں نہیں دیکھا کبھی کسی کتے نے کسی دوسرے کتے کے سامنے اپنی گردن جھکائی ہو۔


(پیامِ مشرق)
 

محمد وارث

لائبریرین
ز سلطاں کُنَم آرزوے نگاہے
مسَلمانم از گِل نہ سازَم الٰہے

میں تو (حقیقی) سلطان ہی سے نگاہ کی آرزو رکھتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں مٹی سے معبود نہیں بناتا۔

دلِ بے نیازے کہ در سینہ دارَم
گدا را دھَد شیوۂ پادشاہے

وہ بے نیاز دل جو میں اپنے سینے میں رکھتا ہوں، گدا کو بھی بادشاہ کا انداز عطا کر دیتا ہے۔

ز گردوں فتَد آنچہ بر لالۂ من
فرَوریزَم او را بہ برگِ گیاہے

آسمان سے جو کچھ بھی میرے پھول (دل) پر نازل ہوتا ہے میں اسے گھاس کے پتوں پر گرا دیتا ہوں (عام کر دیتا ہوں)۔

چو پرویں فرَو ناید اندیشۂ من
بَدریوزۂ پر توِ مہر و ماہے

میرا فکر ستاروں کی طرح نیچے نہیں آتا کہ چاند اور سورج سے روشنی کی بھیک مانگے۔

اگر آفتابے سُوئے من خرَامَد
بشوخی بگردانَم او را ز راہے

اگر سورج میری طرف آتا ہے (مجھے روشنی کی بھیک دینے) تو میں شوخی سے اسے راستہ میں ہی سے واپس کر دیتا ہوں۔

بہ آں آب و تابے کہ فطرت بہ بَخشَد
درَخشَم چو برقے بہ ابرِ سیاہے

اس آب و تاب سے جو مجھے فطرت نے بخشی ہے، میں سیاہ بادلوں پر بجلی کی طرح چمکتا ہوں۔

رہ و رسمِ فرمانروایاں شَناسَم
خراں بر سرِ بام و یوسف بچاہے

میں حکمرانوں (صاحبِ اختیار) کے راہ و رسم کو پہچانتا ہوں کہ (ان کی کج فہمی سے) گدھے چھت (سر) پر ہیں اور یوسف کنویں میں۔

(زبورِ عجم)
 

محمد وارث

لائبریرین
از خوابِ گراں خیز

'زبور عجم' کا علامہ اقبال کے کلام میں ایک اپنا مقام ہے، اس کتاب میں علامہ کی وہ مخصوص شاعری ہے جس کا پرچار وہ ساری زندگی کرتے رہے، عمل کی تلقین سے بھری اس کتاب میں سے انقلاب کے موضوع پر ایک نظم پہلے پوسٹ کر چکا ہوں، یہ نظم بھی اسی موضوع پر ہے اور کیا خوبصورت نظم ہے۔

اس نظم میں جو ٹِیپ کا مصرع (بار بار آنے والا) 'از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گراں خیز' (گہری نیند سے اٹھ) ہے، اسکے متعلق کبھی کسی اخبار کے ایک کالم میں پڑھا تھا کہ لاہور کا ایک کاروباری شخص کسی سلسلے میں وسطی ایشیا کے ایک ملک میں مقیم تھا، یہ وہ دن تھے جب وسطی ایشیائی ملک آزادی حاصل کر رہے تھے، اسکا کہنا ہے کہ ایک دن وہاں ہزاروں مظاہرین صبح سے لیکر شام تک صرف اسی مصرعے کے نعرے لگاتے رہے، وہ واپس آیا تو اس نے اپنے کسی دوست سے ذکر کیا تو اس نے اسے بتایا کہ یہ مصرع تو اقبال کا ہے۔ اور اقبال کی یہی شاعری ہے کہ انقلاب کے دوران ایرانی اس بات پر پچھتاتے رہے کہ اقبال کے اولین مخاطب تو ہم ہیں لیکن عرصۂ دراز تک اس کے کلام کو سمجھا ہی نہیں۔ اپنے ملک میں ماشاءاللہ اقبال کی فارسی شاعری کا جو حال ہے اسکا نوحہ پڑھنے سے بہتر مجھے یہ لگا کہ اقبال کی یہ خوبصورت اور لازوال نظم پڑھی جائے۔

اے غنچۂ خوابیدہ چو نرگس نِگَراں خیز
کاشانۂ ما، رفت بتَاراجِ غماں، خیز
از نالۂ مرغِ چمن، از بانگِ اذاں خیز
از گرمیِ ہنگامۂ آتش نفَساں خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز
از خوابِ گِراں خیز
اے سوئے ہوئے غنچے، نرگس کی طرف دیکھتے ہوئے اٹھ، ہمارا گھر غموں اور مصیبتوں نے برباد کر دیا، اٹھ، چمن کے پرندے کی فریاد سے اٹھ، اذان کی آواز سے اٹھ، آگ بھرے سانس رکھنے والوں کی گرمی کے ہنگامہ سے اٹھ، (غفلت کی) گہری نیند، گہری نیند، (بہت) گہری نیند سے اٹھ۔

خورشید کہ پیرایہ بسیمائے سحر بست
آویزہ بگوشِ سحر از خونِ جگر بست
از دشت و جبَل قافلہ ہا، رختِ سفر بست
اے چشمِ جہاں بیں بہ تماشائے جہاں خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز
از خوابِ گِراں خیز
سورج جس نے صبح کے زیور سے ماتھے کو سجھایا، اس نے صبح کے کانوں میں خونِ جگر سے بندہ لٹکایا، یعنی صبح ہو گئی، بیابانوں اور پہاڑوں سے قافلوں نے سفر کیلیے سامان باندھ لیا ہے، اے جہان کو دیکھنے والے آنکھ، تُو بھی جہان کے تماشا کیلیے اٹھ، یعنی تو بھی اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، بہت گہری نیند سے اٹھ۔

خاور ہمہ مانندِ غبارِ سرِ راہے است
یک نالۂ خاموش و اثر باختہ آہے است
ہر ذرّۂ ایں خاک گرہ خوردہ نگاہے است
از ہند و سمر قند و عراق و ہَمَداں خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز
از خوابِ گِراں خیز
مشرق (خاور) سب کا سب راستے کے غبار کی مانند ہے، وہ ایک ایسی فریاد ہے جو کہ خاموش ہے اور ایک ایسی آہ ہے جو بے اثر ہے، اور اس خاک کا ہر ذرہ ایک ایسی نگاہ ہے جس پر گرہ باندھ دی گئی ہے (نابینا ہے)، (اے مشرقیو) ہندوستان و سمرقند (وسطی ایشیا) و عراق (عرب) اور ہمدان(ایران، عجم) سے اٹھو، گہری نیند، گہری نیند، بہت گہری نیند سے اٹھو۔

دریائے تو دریاست کہ آسودہ چو صحرا ست
دریائے تو دریاست کہ افزوں نہ شُد و کاست
بیگانۂ آشوب و نہنگ است، چہ دریاست؟
از سینۂ چاکش صِفَتِ موجِ رواں خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز
از خوابِ گِراں خیز
تیرا دریا ایک ایسا دریا ہے کہ جو صحرا کی طرح پرسکون (بے آب) ہے، تیرا دریا ایک ایسا دریا ہے کہ جو بڑھا تو نہیں البتہ کم ضرور ہو گیا ہے، یہ تیرا دریا کیسا دریا ہے کہ وہ طوفانوں اور مگر مچھوں (کشمکشِ زندگی) سے بیگانہ ہے، اس دریا کے پھٹے ہوئے سینے سے تند اور رواں موجوں کی طرح اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، بہت گہری نیند سے اٹھ کھڑا ہو۔

ایں نکتہ کشائندۂ اسرارِ نہاں است
ملک است تنِ خاکی و دیں روحِ رواں است
تن زندہ و جاں زندہ ز ربطِ تن و جاں است
با خرقہ و سجّادہ و شمشیر و سناں خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز
از خوابِ گِراں خیز
یہ بات چھپے ہوئے بھیدوں کو کھولنے والی ہے (غور سے سن)، تیرا خاکی جسم اگر ملک ہے تو دین اسکی جان اور روحِ رواں اور اس پر حکمراں ہے، جسم اور جان اگر زندہ ہیں تو وہ جسم اور جان کے ربط ہی سے زندہ ہیں، لہذا خرقہ و سجادہ و شمشیر و تلوار کے ساتھ (یعنی صوفی، زاہد اور سپاہی) اٹھ، گہری نیند، گہری نیند، بہت گہری نیند میں ڈوبے ہوئے اٹھ۔

ناموسِ ازَل را تو امینی، تو امینی
دارائے جہاں را تو یَساری تو یَمینی
اے بندۂ خاکی تو زمانی تو زمینی
صہبائے یقیں در کش و از دیرِ گماں خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز
از خوابِ گِراں خیز
ازل کی ناموس کا تو ہی امانت دار ہے، جہان کے رکھوالے کا تو ہی دایاں اور بایاں (خلیفہ) ہے، اے مٹی کے انسان تو ہی زمان ہے اور تو ہی مکان ہے (یعنی انکا حکمران ہے) تو یقین کے پیمانے سے شراب پی اور وہم و گمان و بے یقینی کے بتکدے سے اٹھ کھڑا ہو، گہری نیند سے اٹھ کھڑا ہو، بہت گہری نیند سے اٹھ کھڑا ہو۔

فریاد ز افرنگ و دل آویزیِ افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزیِ افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیِ افرنگ
معمارِ حرم، باز بہ تعمیرِ جہاں خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز
از خوابِ گِراں خیز
فریاد ہے افرنگ سے اور اسکی دل آویزی سے، اسکی شیریں (حسن) اور پرویزی (مکاری) سے، کہ تمام عالم افرنگ کی چنگیزیت سے ویران اور تباہ و برباد ہو گیا ہے۔ اے حرم کو تعمیر کرنے والے (مسلمان) تو ایک بار پھراس (تباہ و برباد) جہان کو تعمیر کرنے کیلیے اٹھ کھڑا ہو، (لیکن تُو تو خوابِ غفلت میں پڑا ہوا ہے) اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، بہت گہری نیند سے اٹھ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
'زبورِ عجم' علامہ اقبال کا وہ شاہکار ہے جسکی 'انقلابی' نظمیں علامہ کی شدید ترین خواہش کا اظہار واشگاف الفاظ میں کرتی ہیں، 'زبورِ عجم' سے انقلاب کے موضوع پر دو نظمیں پہلے یہاں لکھ چکا ہوں، ایک اور نظم لکھ رہا ہوں، دیکھیئے علامہ کیا 'خواہش' کر رہے ہیں۔

یا مُسلماں را مَدہ فرماں کہ جاں بر کف بنہ
یا دریں فرسودہ پیکر تازہ جانے آفریں
یا چُناں کُن یا چُنیں
(اے خدا) یا تو مسلمانوں کو یہ فرمان مت دے کہ وہ اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ لیں یا پھر ان کے کمزور اور فرسودہ جسموں میں نئی جان ڈال دلے (کہ موجودہ حالت میں تو وہ تیرا فرمان بجا لانے سے رہے)۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔

یا بَرَہمن را بَفَرما، نو خداوندے تراش
یا خود اندر سینۂ زنّاریاں خَلوت گزیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا برہمن کو یہ حکم دے کہ وہ اپنے لیے نئے خدا تراش لیں (کہ پرانے خداؤں کی محبت انکے دل سے بھی اٹھ چکی اور خلوص باقی نہیں ہے) یا خود ان زنار باندھنے والوں برہمنوں کے سینوں میں خلوت اختیار کر (کہ یا ان کو بت پرستی میں راسخ کر یا مسلماں کر دے)۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔

یا، دگر آدم کہ از ابلیس باشد کمتَرک
یا، دگر ابلیس بہرِ امتحانِ عقل و دیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا کوئی اور آدم بنا جو ابلیس سے کم ہو (کہ موجودہ آدم ابلیس سے بھی بڑھ چکا ہے) یا عقل اور دین کے امتحان کے لیے کوئی اور ابلیس بنا (کہ تیرا یہ ابلیس تو انسان کی شیطنت کے آگے ہیچ ہو گیا) ۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔

یا جہانے تازۂ یا امتحانے تازۂ
می کنی تا چند با ما آنچہ کردی پیش ازیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا کوئی نیا جہان بنا یا کوئی نیا امتحان بنا، تو ہمارے ساتھ کب تک وہی کچھ کرے گا جو اس سے پہلے بھی کر چکا ہے یعنی ازلوں سے ایک ہی کشمکش ہے، لہذا یا کوئی نیا جہان بنا یا اس آزمائش اور کشمکش کو ہی بدل دے۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔

فقر بخشی؟ با شَکوہِ خسروِ پرویز بخش
یا عطا فرما خرَد با فطرتِ روح الامیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
تُو نے (مسلمانوں کو) فقر بخشا ہے، لیکن انہیں خسرو پرویز جیسی شان و شوکت بھی بخش یعنی طاقت بھی دے، یا انہیں ایسی عقل فرما جسکی فطرت روح الامین (جبریل) جیسی ہو یعنی وہ قرآن سے راہنمائی حاصل کرے۔یا ویسا کر یا ایسا کر۔

یا بکُش در سینۂ ما آرزوئے انقلاب
یا دگرگوں کُن نہادِ ایں زمان و ایں زمیں
یا چُناں کُن یا چُنیں
یا تو میرے سینے میں انقلاب کی آرزو ہی (ہمیشہ کیلیے) ختم کر دے یا اس زمان و مکان (زمانے) کی بنیاد ہی دگرگوں کر دے، الٹ پلٹ دے، تہ و بالا کر دے، یعنی اس میں انقلاب برپا کر دے۔ ویسا کر یا ایسا کر۔
 

محمد وارث

لائبریرین
حکیم آئن سٹائن از اقبال

آئن سٹائن کے نام سے کون ناواقف ہے، لیکن کم از کم میں کلیاتِ اقبال فارسی ہاتھ لگنے تک اس بات سے ناواقف تھا کہ علامہ نے آئن سٹائن پر بھی کوئی کلام لکھا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے اردو اور فارسی کلام میں مشاہیرِ عالم پر کافی کلام نظم بند کیا ہے، اور انکے افکار و نظریات کو زیرِ بحث لائے ہیں۔ پیامِ مشرق میں علامہ کی نظم "حکیم آئن سٹائن" دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی تھی کہ آئن سٹائن کا قتیل میں بھی مدتوں سے ہوں۔ اس نظم میں علامہ نے آئن سٹائن کے روشنی (نور) کے متعلق نظریے پر زیادہ تر بات کی ہے، دونوں حواشی بھی علامہ کے اپنے لکھے ہوئے ہیں۔

Einstein.jpg


حکیم آئن سٹائن (1)۔

جلوۂ می خواست مانندِ کلیمِ ناصبُور
تا ضمیرِ مستنیرِ اُو کشود اسرارِ نُور
وہ (آئن سٹائن) بے صبر کلیم (حضرت مُوسیٰ) کی مانند جلوہ چاہتا تھا یعنی حقیقت کو دیکھنے کیلیے بے قرار تھا، تاآنکہ نور سے استفادہ کیے ہوئے اسکے ضمیر (حقیقت کو دیکھے ہوئے ضمیر) نے نور کے اسرار و رموز سب پر کھول دیئے۔

از فرازِ آسماں تا چشمِ آدم یک نفَس
زود پروازے کہ پروازَش نیایَد در شعُور
آسمانوں کی بلندی سے لیکر آدمی کی آنکھ تک (کا فاصلہ روشنی صرف) ایک لمحے میں طے کرتی ہے، اور وہ اتنی تیزی سے پرواز کرنے والی (تیز رفتار) ہے کہ اسکی پرواز شعور کہ اندر ہی نہیں آتی۔

خلوَتِ اُو در زغالِ تیرہ فام اندر مغاک
جلوَتَش سوزَد درختے را چو خس بالائے طُور
اسکی خلوت میں یہ تاثیر ہے کہ وہ گڑھوں اور کانوں کے اندر سیاہ فام کوئلہ پیدا کر دیتی ہے، اور اسکا جلوہ کسی درخت کو کوہِ طور کی بلندی پر خس و خاشاک کی طرح جلا دیتا ہے۔ روشنی کی رفتار نظم کرنے کے بعد علامہ اسی روشنی یا نور کو اپنے مطلب کے طور پر بیان کر رہے ہیں کہ انکی نور سے کیا مراد ہے۔

بے تغیّر در طلسمِ چون و چند و بیش و کم
برتر از پست و بلند و دیر و زُود و نزد و دُور
یہ (نور) کیا اور کیسے اور زیادہ اور کم کے طلسم میں (زمان و مکاں میں جاری و ساری) ہونے کے باوجود بے تغیر ہے، یہ پست اور بلند، دیر اور جلدی اور نزدیک اور دور سے برتر ہے۔

در نہادَش تار و شید و سوز و ساز و مرگ و زیست
اہرَمَن از سوزِ اُو وَز سازِ اُو جبریل و حُور
یہ (نور) اپنے اندر، تاریکی اور روشنی، سوز اور ساز اور زندگی اور موت رکھتا ہے، شیطان اسکے سوز سے اور جبریل اور حوریں اسکے ساز سے وجود میں آئے، یعنی سب کچھ اسی سے ہے۔

من چہ گویَم از مقامِ آں حکیمِ نکتہ سنج
کردہ زردشتے ز نسلِ مُوسیٰ و ہاروں ظہُور (2)
میں اس رمز آشنا حکیم کی کیا تعریف بیان کروں، بس یہ کہ وہ ایک ایسا زردشت ہے جس نے موسیٰ اور ہارون کی نسل میں ظہور کیا ہے۔ آئن سٹائن کو علامہ کا یہ ایک زبردست خراجِ تحسین ہے کہ قادر الکلام شاعر و فلسفی و عالم ایک دوسرے عالم کے بارے میں فرما رہا ہے کہ میں اس کی اور اسکی عظمت کی تعریف کرنے سے قاصر ہوں اور دوسرے مصرعے میں اپنی شاعری اور اوجِ خیال کا ایک منہ بولتا اور اچھوتا ثبوت بھی پیش کر دیا ہے، آئن سٹائن یہودی تھا لیکن علامہ فرماتے ہیں کہ وہ ایک ایسا یہودی ہے جو کہ نور کے متعلق اپنے نظریات کی وجہ سے زردشت ہے، جس نے نور کے متعلق ہزاروں سال پہلے اپنے نقطۂ نظر بیان کیا تھا۔

یہ بات بھی سوچنے کے لائق ہے کہ مصرعے میں تو علامہ نے آئن سٹائن کو یہ لکھا کہ وہ موسیٰ اور ہارون کی نسل میں سے ہے لیکن حواشی میں پھر بھی نہیں لکھا کہ وہ یہودی تھا بلکہ لکھا کہ وہ بنی اسرائیل میں سے ہے، مطلب ایک ہی ہے لیکن کیا علامہ نے جان بوجھ کر 'یہودی' کا لفظ استعمال نہیں کیا؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے اقبال کے شارحین تو آئن سٹائن کو بھی نہیں بخشتے۔

----------
حواشی از علامہ اقبال
(1)۔ آئن سٹائن: جرمنی کا مشہور ماہرِ ریاضیات و طبیعات جس نے نظریۂ اضافیت کا حیرت انگیز انکشاف کیا ہے۔
(2)۔ حکیم آئن سٹائن بنی اسرائیل سے ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
حرمِ کعبہ میں ابوجہل کی روح کا نوحہ

جاوید نامہ اقبال کا ایک ایسا شاہکار ہے جس کو وہ اپنا حاصلِ زندگی سمجھتے تھے اور وہ ہے بھی۔ دراصل یہ اقبال کا افلاک کا ایک سفر نامہ ہے جس پر مولانا رومی انہیں ساتھ لے جاتے ہیں۔ اس سفر میں وہ مختلف سیاروں اور آسمانوں کی سیر کرتے ہیں اور کئی مشاہیر سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ جاوید نامہ کا تفصیلی تعارف انشاءاللہ پھر کسی وقت لکھوں گا، یہاں پر نیچے جو تین بند ہیں انکا سیاق و سباق لکھ دیتا ہوں تا کہ ان کو صحیح طور پر سمجھا جا سکے۔

اقبال اور رومی جب آسمانوں کے سفر پر نکلتے ہیں تو سب سے پہلے "فلکِ قمر" پر پہنچتے ہیں۔ فلک قمر پر انکی ملاقات ایک "جہاں دوست" سے ہوتی ہے، جہاں دوست دراصل ایک قدیم ہندو رشی "وشوامتر" ہے۔ وشوامتر سے باتیں کر کے وہ چاند کی ایک وادی یرغمید کی طرف جاتے ہیں جسے فرشتوں نے وادیِ طواسین کا نام دے رکھا ہے (یہ دونوں نام ظاہر ہے اقبال نے ہی دیے ہیں)۔

طواسین، دراصل طاسین کی جمع ہے، اور منصور حلاج کی کتاب کا نام ہے، منصور نے طواسین سے مراد تجلیات لیا ہے جبکہ علامہ نے یہاں اس سے مراد تعلیمات لیا ہے۔ وادیِ طواسین میں علامہ نے گوتم بدھ، زرتشت، حضرت عیسٰی (ع) اور حضرت مُحمّد (ص) کی تعلیمات بیان کی ہیں۔

اس مقام پر میں پچھلے کئی برسوں سے اٹکا ہوا ہوں اور جب بھی جاوید نامہ کا یہ حصہ نظر سے گزرتا ہے دل بے اختیار اقبال کی عظمت کو سلام کر اٹھتا ہے۔ اقبال کی فکر کا عروج ہے کہ یہ تعلیمات چار مختلف انداز سے بیان کی ہیں۔ گوتم کی تعلیمات کا عنوان ہے "طاسینِ گوتم، توبہ آوردن زنِ رقاصہ عشوہ فروش" یعنی ایک عشوہ فروش رقاصہ کا توبہ کرنا۔ اس میں گوتم بدھ اور رقاصہ کا مکالمہ لکھا ہے۔ زرتشت کی تعلیمات کا عنوان "آزمایش کردن اہرمن زرتشت را" یعنی اہرمن (شیطان) کا زرتشت کی آزمایش کرنا اور ان دونوں کا مکالمہ ہے۔ حضرت مسیح (ع) کی تعلیمات "رویائے حکیم طالسطائی" یعنی مشہور روسی ناول نگار، مفکر اور مصلح ٹالسٹائی کے خواب کی صورت میں بیان کی ہیں۔

حضرت مُحمّد (ص) کی تعلیمات "نوحہ رُوحِ ابو جہل در حرمِ کعبہ" یعنی ابوجہل کی روح کا حرم کعبہ میں نوحے کی صورت میں بیان کی ہیں۔ ایک بار پھر یہاں اقبال کی عظمت اور اوجِ خیال اور انفرادیت کو سلام کرتے ہی بن پڑتی ہے۔ اقبال نے یہاں اس انسانی اور نفسیاتی نکتے سے کام لیا ہے کہ آپ کا دشمن آپ پر جو جو الزام لگائے گا اور جو جو آپ کے نقائص بیان کرے گا وہ دراصل آپ کی خوبیاں ہیں۔

اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ علامہ کیا فرماتے ہیں۔

طاسینِ مُحمّد
نوحہ رُوحِ ابوجہل در حرمِ کعبہ

(حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات)
(ابوجہل کی روح کا حرمِ کعبہ میں نوحہ)

سینۂ ما از مُحمّد داغ داغ
از دمِ اُو کعبہ را گل شُد چراغ
ہمارا سینہ محمد (ص) کی وجہ سے داغ داغ ہے، اسکے دم (پھونک) سے کعبہ کا چراغ بجھ گیا۔

از ہلاکِ قیصر و کسریٰ سرُود
نوجواناں را ز دستِ ما ربُود
اُس نے قیصر و کسریٰ (بادشاہوں) کی بربادی کی باتیں کیں، وہ نوجوانوں کو ہمارے ہاتھوں میں سے اچک کر لے گیا۔

ساحر و اندر کلامَش ساحری است
ایں دو حرفِ لااِلٰہ خود کافری است
وہ جادوگر ہے اور اس کے کلام کے اندر جادوگری ہے، یہ دو حرف لاالہ (کوئی معبود نہیں) تو خود کافری ہے کہ ہر کسی کا انکار کیا جا رہا ہے۔

JavaidNama-AllamaIqba_4.jpg


تا بساطِ دینِ آبا دَر نَوَرد
با خداوندانِ ما کرد، آنچہ کرد
جب اس نے ہمارے آبا و اجداد کے دین کی بساط الٹ دی تو ہمارے خداؤں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ناقابل بیان ہے۔

پاش پاش از ضَربتَش لات و منات
انتقام از وے بگیر اے کائنات
اس کی ضرب سے لات و منات پاش پاش ہو گئے، اے کائنات (اسکے اس فعل و جرأت پر) اس سے انتقام لے۔

دل بہ غایب بست و از حاضر گَسَست
نقشِ حاضر را فسونِ او شکست
اس نے غائب سے دل لگایا ہے اور جو حاضر ہیں (بُت) ان سے ناطہ توڑا، اسکے جادو نے حاضر کے نقش کو توڑ دیا۔

دیدہ بر غایب فرو بَستَن خطاست
آنچہ اندر دیدہ می نایَد کجاست
غایب پر نگاہ مرکوز رکھنا (دل لگانا) خطا ہے، جو نظر ہی نہیں آتا وہ کہاں ہے (اس کا کیا وجود جو نظر ہی نہ آئے)۔

پیشِ غایب سجدہ بردَن کُوری است
دینِ نو کُور است و کوری دُوری است
غایب کے سامنے سجدہ کرنا تو اندھا پن ہے، یہ نیا دین اندھا پن ہے اور اندھا پن (حاضر کو نہ دیکھ پانا) تو دوری ہے، فراق ہے۔

خُم شُدَن پیشِ خدائے بے جہات
بندہ را ذوقے نَبَخَشد ایں صلٰوت
بے جہات خدا کے سامنے جھکنا، بندے کو یہ (ایسی) نماز کوئی ذوق عطا نہیں کرتی، اس شعر میں اقبال نے یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے اسی نماز میں ذوق ہے جس میں بندہ خدا کو سامنے دیکھے یعنی مشہور حدیث کی طرف اشارہ ہے۔

مذہَبِ اُو قاطعِ مُلک و نسَب
از قریش و منکر از فضلِ عرَب
اس کا مذہب ملک و نسب کو کاٹتا ہے، یعنی مساوات کا درس دیتا ہے، وہ قریش اور عرب کی فضیلت کا منکر ہے۔

در نگاہِ اُو یکے بالا و پست
با غُلامِ خویش بر یک خواں نشست
اسکی نگاہ میں اعلٰی اور ادنٰی ایک برابر ہیں، وہ اپنے غلام کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھا۔

قدرِ احرارِ عرب نشناختہ
با کَلِفتانِ حبَش در ساختہ
اس نے عرب کے آزاد بندوں کی قدر نہیں جانی، اس نے افریقہ کے بد صورتوں (اور غلاموں) سے موافقت پیدا کر لی۔

احمَراں با اسوَداں آمیختَند
آبروئے دُودمانے ریختَند
اس نے سرخ رنگ والوں (عربوں) کو سیاہ رنگ والوں (حبشیوں) کے ساتھ ملا دیا، اس نے خاندان کی عزت مٹی میں ملا دی۔

ایں مساوات ایں مواخات اعجمی است
خوب می دانَم کہ سلماں مزدکی است
یہ مساوات اور بھائی چارے کی باتیں عجمی ہیں، میں خوب جانتا ہوں کہ سلمان (فارسی رض) مزدکی ہے۔ مزدک پانچویں صدی عیسوی کے آخر اور چھٹی صدی کے قبل کا ایک ایرانی مصلح تھا جس نے مساوات کی بات کی، ایرانی بادشاہ صباد نے اسکے نظریات قبول بھی کر لیے لیکن بعد میں اس نے اپنے بیٹے اور ولی عہد خسرو نوشیرواں کے ہاتھوں مزدک اور اسکے لاکھوں معتقدین کا قتلِ عام کروا دیا۔ ابو جہل یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ سلمان فارسی (رض) بھی مزدکی ہیں اور انہوں ہی نے ہی حضرت محمد (ص) کو مساوات کی باتیں سکھائی ہیں وگرنہ عرب میں ان باتوں کا کیا کام۔

ابنِ عبداﷲ فریبَش خوردہ است
رستخیزی بر عرب آوردہ است
عبداللہ کے بیٹے (حضرت محمد ص) نے اسی (سلمان) کا فریب کھایا ہے اور عرب پر (مساوات) کی جنگ مسلط کر دی ہے۔

عترتِ ہاشم ز خود مہجور گشت
از دو رکعت چشمِ شاں بے نور گشت
ہاشم کا خاندان اپنے آپ (اپنی فضیلت) سے ہی دور ہو گیا ہے، دو رکعت کی نماز نے انکی آنکھوں کو بے نور کر دیا ہے۔

اعجمی را اصلِ عدنانی کجاست
گنگ را گفتارِ سحبانی کجاست
عجمیوں کو عدنانیوں (قریش کے جدِ امجد عدنان) سے کیا نسبت ہو سکتی ہے، گونگا کہاں اور سبحانی کی گفتار کہاں۔ (سبحاں زمانۂ اسلام کا ایک نامور اور شعلہ بیاں خطیب و مقرر تھا، فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا اور بعد میں امیر معاویہ کے مصاحبین مین شامل ہو کر خطیب العرب کا خطاب پایا)۔

چشمِ خاصانِ عرب گردیدہ کور
بر نیائے اے زہَیر از خاک گور
عرب کے خاص لوگوں کی آنکھ اندھی ہو گئی ہے، اے زُہیر اپنی قبر سے اٹھ کھڑا ہو۔ (زہیر عرب کا نامور شاعر جو اسلام کے خلاف شعر کہہ کر عربیوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارتا تھا)۔

اے تو ما را اندریں صحرا دلیل
بشکن افسونِ نوائے جبرئیل
اے (زہیر) تو صحرا (عرب) میں ہمارا رہبر ہے، تو جبرائیل کی نوا یعنی قرآن کا جادو (اپنی شاعری سے) توڑ دے۔

باز گو اے سنگِ اسوَد باز گوے
آں چہ دیدیم از مُحمّد باز گوے
پھر بیان کر اے کالے پتھر (حجر اسود در کعبہ) پھر بیان کر، محمد (ص) کے ہاتھوں جو کچھ ہم نے دیکھا (ہم ہر جو گزری وہ اتنی دردناک کہانی ہے کہ) پھر بیان کر۔

اے ہبَل، اے بندہ را پوزش پذیر
خانۂ خود را ز بے کیشاں بگیر
اے ہبل (قریش کا مشہور بت و معبود) اے بندوں کے عذر قبول کرنے والے، اپنے گھر (کعبہ) کو ان بے دینوں سے واپس لے لے۔

گلّۂ شاں را بہ گُرگاں کن سبیل
تلخ کن خرمائے شاں را بر نخیل
ان کے بھیڑوں کے گلے کو بھیڑیوں کے حوالے کر، انکی کھجوروں کو درختوں پر ہی تلخ کر دے۔

صرصرے دہ با ہوائے بادیہ
"أَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَۃ"
ان پر صحرا کی ہوا کو صرصر (تند و تیز و گرم طوفانی ہوا) بنا کر بھیج، تا کہ وہ اس طرح گر جائیں جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے۔ دوسرا مصرع سورۃ الحاقہ کی ایک آیت کا ٹکڑا ہے۔

اے منات اے لات ازیں منزل مَرَو
گر ز منزل می روی از دل مَرَو
اے لات و منات اس منزل (کعبہ) سے مت جاؤ، اگر اس منزل سے چلے بھی جاؤ تو ہمارے (عرب و قریش) کے دلوں سے مت جاؤ۔

اے ترا اندر دو چشمِ ما وثاق
مہلتے، "اِن کُنتِ اَزمَعتِ الِفراق"
اے وہ کہ تمھارا ہماری آنکھوں کے اندر گھر ہے، اگر تم نے جدا ہونے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو مہلت تو دو، کچھ دیر تو ٹھہرو۔ عربی ٹکڑا مشہور عربی شاعر امراء القیس کے ایک شعر کا پارہ ہے۔

انہی اشعار کے ساتھ اقبال فلکِ قمر سے رومی کی معیت میں فلکِ عطارد کی طرف سفر کر جاتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
از دیرِ مغاں آیم بے گردشِ صہبا مست

علامہ اقبال، سر راس مسعود اور سید سلیمان ندوی نے 1933ء میں اس وقت کے افغان بادشاہ، نادر شاہ کی دعوت پر افغانستان کا سفر کیا، جس کا بنیادی مقصد افغانستان کے نظامِ تعلیم کا مطالعہ اور اسکے متعلق سفارشات مرتب کرنا تھیں۔ علامہ نے اس سفر کی رُوداد ایک فارسی مثنوی "مسافر" کی صورت میں لکھی جو 1934ء میں پہلی بار الگ حیثیت سے شائع ہوئی اور پھر 1936ء میں انکی ایک اور مثنوی "پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق" کے ساتھ شائع ہوئی اور تب سے ایسے ہی چھپ رہی ہے۔

اس مثنوی "مسافر" میں زیادہ تر زیارات کا احوال قلمبند ہے، مثلاً کابل میں شہنشاہ بابر کے مزار پر حاضری، غزنی میں مشہور فارسی شاعر حکیم سنائی اور سلطان محمود غزنوی کے مزارات پر حاضری اور قندھار میں احمد شاہ ابدالی کے مزار پر علامہ کی حاضری۔

قندھار میں ایک خانقاہ میں رسولِ پاک (ص) کا ایک خرقۂ مبارک محفوظ ہے، علامہ نے اس خانقاہ پر بھی حاضری دی اور خرقۂ مبارک کی زیارت کی اور اپنے تاثرات کو قلمبند کیا اور اس کیلیے انہوں نے مثنوی کی بجائے غزل کا سہارا لیا کہ اس طرح کے تاثرات و کیفیات و احساسات غزل میں ہی صحیح طور پر قلمبند ہو سکتے تھے۔

اور یہی غزل درج کر رہا ہوں۔

از دیرِ مغاں آیم بے گردشِ صہبا مست
در منزلِ لا بودم از بادۂ الّا مست

میں دیرِ مغاں (لفظی معنی شراب کشید کرنے والے کے مندر، مجازی معنی مرشد کی خانقاہ) سے شراب کو گردش میں لائے بغیر یعنی شراب پیے بغیر ہی مست ہو کر آیا ہوں۔ میں ابھی لا (نفی) کی ہی منزل میں تھا لیکن الّا (اثبات) کی شراب سے مست تھا۔ نفی اور اثبات صوفیا کا خاص شغل ہے اور علامہ نے اسی رنگ میں یہ شعر کہا ہے۔

دانم کہ نگاہِ اُو ظرفِ ھمہ کس بیند
کرد است مرا ساقی از عشوہ و ایما مست

میں جانتا ہوں کہ اُس (ساقی) کی نگاہ ہر بادہ خور کا ظرف پہچانتی ہے (اور اسکے ظرف کے مطابق ہی ساقی اسے شراب دیتا ہے) لیکن میرے ساقی نے مجھے صرف اپنے ناز و انداز سے ہی (بغیر شراب پلائے) ہی مست کر دیا ہے یعنی ہمیں ہمارے محبوب کی نگاہ ہی نے مست کر دیا ہے اور کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں پڑی اور یہ بات ہماری اعلیٰ ظرفی پر دلیل ہے۔

وقت است کہ بکشائم میخانۂ رُومی باز
پیرانِ حرم دیدم در صحنِ کلیسا مست

یہ وقت ہے کہ مرشدِ رومی کا میخانہ دوبارہ کھولوں کیونکہ میں نے حرم کے پیروں کو کلیسا کے صحن میں مست دیکھا ہے۔ یعنی متاثرینِ فرنگ کا علاج رومی کی شراب میں ہے۔

ایں کارِ حکیمے نیست، دامانِ کلیمے گیر
صد بندۂ ساحل مست، یک بندۂ دریا مست

یہ کام(یعنی مسلمانوں میں دینِ اسلام کا صحیح فہم پیدا کرنا) عقل و دانش و حکمت کا کام نہیں ہے بلکہ اس کیلیے کسی کلیم اللہ (موسیٰ) کا دامن تھامنا چاہیے کیونکہ ساحل پر سرمستی اور باتیں کرنے والے سو آدمی بھی اس ایک کے برابر نہیں ہو سکتے جو سمندر کے اندر اتر کر مست ہے۔ حکیموں (فلسفیوں) کو "سبکسارانِ ساحل" سے تشبیہ دی ہے کہ فقط ساحل پر کھڑے ہو کر سمندر کی باتیں کرتے ہیں جب کہ موسیٰ سمندر کے اندر اتر کر اس کو پار کر جاتے ہیں سو ایسے ہی کسی "ایک" آدمی ضرورت ہے نہ کہ سو سو آدمیوں کی جو سو سو باتیں کرتے ہیں۔

دل را بہ چمن بردم از بادِ چمن افسرد
میرد بہ خیاباں ہا ایں لالۂ صحرا مست

میں اپنے دل کو چمن یعنی محفلوں میں لے گیا لیکن وہ بادِ چمن (محفل کی رونقوں) سے اور افسردہ ہو گیا، (اور ایسا ہی ہونا تھا کیونکہ) صحرا میں مست رہنے والا لالہ جب شہر کے چمن کی کیاریوں میں جاتا ہے تو مرجھا جاتا ہے۔

از حرفِ دل آویزش اسرارِ حرم پیدا
دی کافرَکے دیدم در وادیٔ بطحا مست

اسکی دل آویز باتوں سے حرم کے اسرار پیدا ہو رہے تھے، وہ چھوٹا سا (عشق کا) کافر جسے کل میں نے وادیٔ بطحا میں مست دیکھا۔

سینا است کہ فاران است؟ یا رب چہ مقام است ایں؟
ہر ذرّۂ خاکِ من، چشمے است تماشا مست

یا رب یہ مقام (جہاں خرقۂ مبارک رکھا ہے) سینا ہے یا فاران ہے کیا مقام ہے کیونکہ میرے جسم کا ذرّہ ذرّہ اور بال بال نظارے میں مست رہنے والی آنکھ بن گئی ہے، یعنی سینا میں موسیٰ پر تجلیات وارد ہوئیں اور فاران سے حضور پاک (ص) کا نورِ نبوت چمکا سو علامہ یہ فرما رہے ہیں کہ یا رب یہاں اس مقام پر بھی تیری تجلیات نازل ہو رہی ہیں۔

اس غزل کو منشی رضی الدین قوّال نے گایا بھی ہے (سوائے پانچویں شعر کے) اور کیا خوبصورت گایا ہے، ملاحظہ فرمائیے۔

 

سیما علی

لائبریرین
صورت نہ پرستم من بت خانہ شکستم من
آں سیل سبک سیرم ہر بند گسستم من
(میں صورت کی پوجا نہیں کرتا، میں نے بت خانہ توڑ دیا ہے۔ میں وہ تندوتیز سیلاب ہوں جس کے سامنے ہر بند ٹوٹ چکا ہے)
فرزانہ بگفتارم دیوانہ بکردارم / ازبادۂ شوق تو ہشیارم و مستم من
( گفتار کو دیکھو تو میں خردمند ہوں، کردار کو دیکھو تو دیوانہ ہوں۔ یہ تیری بادۂ شوق ہے جس کی بدولت میں ہشیار بھی ہوں اور مست بھی۔ مجھے دونوں کیفیات حاصل ہیں)
فرزانہ بگفتارم دیوانہ بکردارم / ازبادۂ شوق تو ہشیارم و مستم من
( گفتار کو دیکھو تو میں خردمند ہوں، کردار کو دیکھو تو دیوانہ ہوں۔ یہ تیری بادۂ شوق ہے جس کی بدولت میں ہشیار بھی ہوں اور مست بھی۔ مجھے دونوں کیفیات حاصل ہیں)
 
Top