انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

خاک میں لوٹتے تھے کل تجھ بن
آج لوہو میں ہم نہاتے ہیں

اے عدم ہونے والو! تم تو چلو
ہم بھی اب کوئی دم میں آتے ہیں

دیدہ و دل شتاب گم ہوں میر
سر پہ آفت ہمیشہ لاتے ہیں​
 
آتا ہے دل میں حالِ بد اپنا، بھلاکہوں
پھر آ بھی آپ سوچ کے کہتا ہوں، کیا کہوں

پروانہ پھر نہ شمع کی خاطر جلا کرے
گر بزم میں یہ اپنا ترا ماجرا کہوں

دل اور دیدہ باعثِ ایذا و نورِ عین
کس کے تئیں بُرا کہوں، کس کو بھلا کہوں​
 
280

اگرچہ نشہ ہوں سب میں خمِ جہاں میں‌لیک
برنگِ مے عرقِ انفعال اپنا ہوں

مری نمود نے مجھ کو کیابرابر خاک
میں نقشِ پا کی طرح پائمال اپنا ہوں

ترا ہے وہم کہ یہ ناتواں ہے جامے میں
وگرنہ میں نہیں اب اک خیال اپنا ہوں

بِلا ہوئی ہے مری گو کہ طبعِ روشن میر
ہوں آفتاب و لیکن زوال اپنا ہوں​
 
281

کھو دیں ہیں نیند میری مصیبت بیانیاں
تم بھی تو ایک رات سنو یہ کہانیاں

ہم سے تو کینے ہی کی ادائیں چلی گئیں
بے لطفیاں یہی، یہی نامہربانیاں

یہ بے قراریاں نہ کبھو اس نے دیکھیاں
جاں کاہیاں ہماری بہت سہل جانیاں

مارا مجھے بھی سان کے غیروں میں اُن نے میر
کیا خاک میں ملائیں مری جاں فشانیاں​
 
282

تا پھونکیے نہ خرقہء طامات کے تئیں
حسنِ قبول کیا ہو مناجات کے تئیں

کیفیتیں اُٹھی ہیں یہ کب خانقاہ میں
بدنام کر رکھا ہے خرابات کے تئیں

ہم جانتے ہیں یا کہ دلِ آشنا زدہ
کہیے سو کس سے عشق کے حالات کے تئیں

اتنی بھی حرفِ ناشنوی غیر کے لیے
رکھ کان ٹک سنا بھی کرو بات کےتئیں

سید ہو یاچمار ہو، اس جا وفا ہے شرط
کب عاشقی میں پوچھتے ہیں ذات کے تئیں

آخر کے یہ سلوک ہم اب تیرے دیکھ کر
کرتے ہیں یاد پہلی ملاقات کے تئیں

انھوں نے میر صاحب و قبلہ وَرَم کیا
حضرت! بُکا کیا نہ کرو رات کے تئیں​
 
283

نہ اک یعقوب رویا اس الَم میں
کنواں اندھا ہوا یوسف کے غم میں

دیا عاشق نے جی تو عیب کیا ہے
یہی میر اک ہنر ہوتا ہے ہم میں​
 
284

چاہتے ہیں یہ بُتاں ہم پہ کی بیداد کریں
کس کے ہوں، کس سے کہیں، کس کنے فریاد کریں

ایک دم پر ہے بنا تیری، سو آیا کہ نہیں
وہ کچھ اس زندگی میں کر کہ تجھے یاد کریں

کعبہ ہوتا ہے دوانوں کا مری گور سے دشت
مجھ سے دو اور گڑیں یاں تو سب آباد کریں

ریختہ خوب ہی کہتا ہے جو انصاف کریں
چاہیے اہلِ سخن میر کو استاد کریں​
 
285

ہجراں کی کوفت کھینچی بے دم سے ہو چلے ہیں
سر مار مار یعنی اب ہم بھی سو چلے ہیں

لبریزِ اشک آنکھیں ہر بات میں رہا کیں
رو رو کے کام اپنے سب ہم ڈبو چلے ہیں

قطعِ طریق مشکل ہے عشق کا نہایت
وے میر جانتے ہیں، اس راہ جو چلے ہیں​
 
287

ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں

بُوئے گُل اور رنگِ گُل دونوں ہیں دل کش اے نسیم
ایک بقدرِ یک نگاہ دیکھتے تو وفا نہیں

شکوہ کروں ہوں بخت کا اتنے غضب نہ ہو بُتاں!
مجھ کو خدانخواستہ تم سے تو کچھ گِلا نہیں

نالے کیا نہ کر سنا نوحے مرے پہ عندلیب
بات میں‌ بات عیب ہے میں‌نے تجھے کہا نہیں

چشمِ سفید و اشکِ سرخ، آہ دلِ حزیں ہے یاں
شیشہ نہیں ہے، مے نہیں، ابر نہیں، ہوا نہیں

ایک فقط ہے سادگی تِس پہ بلائے جاں ہے تُو
عشوہ کرشمہ کچھ نہیں، آن نہیں ادا نہیں

آب و ہوائے ملکِ عشق تجربہ کی ہے میں بہت
کرکے دوائے دردِ دل کوئی بھی پھر جیا نہیں

نازِ بُتاں اُٹھاچکا دَیر کو میر ترک کر!
کعبے میں جاکے رہ میاں تیرے مگر خدا نہیں​
 
تجھ عشق میں تو مرنے کو تیار بہت ہیں
یہ جرم ہے تو ایسے گنہ گار بہت ہیں

کوئی تو زمرمہ کرے میر آسا دل خراش
یوں‌ تو قفس میں اور گرفتار بہت ہیں​
 
خوب رو سب کی جان ہوتے ہیں
آرزوئے جہان ہوتے ہیں

کبھو آتے ہیں آپ میں تجھ بن
گھر میں ہم میہمان ہوتے ہیں

دشت کے پُھوٹے مقبروں پہ نہ جا
روضے سب گلستان ہوتے ہیں

(ق)

کیا رہا ہے مشاعرے میں اب
لوگ کچھ جمع آن ہوتے ہیں

میر و مرزا رفیع و خواجہ میر
کتنے یہ اک جوان ہوتے ہیں​
 
290

جنوں میرے کی باتیں دشت اور گلشن میں جب چلیاں
نہ چوبِ گُل نے دم مارا، نہ چڑھاں بید کی ہَلیاں

گریباں شورِ محشر کا اُڑایا دھجیاں کر کر
فغاں پر ناز کرتا ہوں‌کہ بل بے تیری ہتھ بَلیاں

تفاوت کچھ نہیں شرین و شکر اور یوسف میں
سبھی معشوق ، اگر پوچھے کوئی، مصری کی ہیں‌ ڈَلیاں

ترے غمزے نے جور و ظلم سے آنکھیں غزالوں کی
بیاباں میں دکھا مجنوں کو پاؤں کے تلے مَلیاں

چمن کو آج مارا ہے یہاں تک رشِ گُل رُو نے
کہ بلبل سر پٹکتی ہے، نہیں منھ کھولتیں کلیاں

صنم کی زلف میں کوچہ ہے سربستہ ہر اک مُو پر
نہ دیکھی ہوں گی تُو نے خضر یہ ظلمات میں گلیاں

دوانا ہوگیا تُو میر آخر ریختہ کہہ کہہ
نہ کہتا تھا میں اے ظالم کہ یہ باتیں نہیں بھلیاں!​
 
291

بزم میں جو ترا ظہور نہیں
شمعِ روشن کے منھ پہ نور نہیں

کتنی باتیں بنا کے لاؤں لیک
یاد رہتی ترے حضور نہیں

(ق)

فکر مت کر ہمارے جینے کا
تیرے نزدیک کچھ یہ دور نہیں

پھر جییں گے جو تجھ سا ہے جاں بخش
ایسا جینا ہمیں ضرور نہیں

عام ہے یار کی تجلی میر
خاص موسیٰ و کوہِ طُور نہیں​
 
292

دامن پہ تیرے گرد کا کیوں‌کر اثر نہیں
ہم دل جلوں کی خاک جہاں میں کدھر نہیں

اتنا رقیب خانہ بر انداز سے سلوک
جب آنکلتے ہیں تو سنے ہیں کہ گھر نہیں

دامان و جیب و دیدہ و مثرگاں و آستین
اب کون سا رہا ہے کہ ان میں سے تر نہیں

ہر نقشِ پا ہے شوخ ترا رنگِ یاسمن
کم گوشہء چمن سے ترا رہ گزر نہیں

آتا ہی تیرے کوچے میں ہوتا جو میر یاں
کیا جانیے کدھر کو گیا ، کچھ خبر نہیں​
 
293

ساقی کی باغ پر جو کچھ کم نگاہیاں ہیں
مانندِ جام خالی گُل سب جماہیاں ہیں

تیغِ جفائے خوباں بے آب تھی کہ ہمدم!
زخمِ بدن ہمارے تفسیدہ ماہیاں ہیں

مسجد سے مے کدے پر، کاش ابر روز برسے
واں رُو سفیدیاں ہیں، یا رُوسیاں ہیں

جس کی نظر پڑی ہے اُن نے مجھے بھی دیکھا
جب سے وہ شوخ آنکھیں میں نے سراہیاں ہیں

غالب تو یہ ہے زاہد رحمت سے دور ہووے
درکار واں گنہ ہیں، یاں بے گناہیاں‌ ہیں

شاہد لوں‌میر کس کو اہلِ محلہ سے میں
محضر پہ خون کی میرے سب کی گواہیاں ہیں​
 
294

ایک پرواز کو بھی رخصتِ صیاد نہیں
ورنہ یہ کنجِ قفَس بیضہء فولاد نہیں

شیخ عزلت تو تہِ خاک بھی پہنچے گی بہم
مفت ہے سیر کہ یہ عالمِ ایجاد نہیں

داد لے چھوڑوں میں صیاد سے اپنے لیکن
صعف سے میرے تئیں طاقتِ فریاد نہیں

کیا کہوں میر فراموش کیا اُن نے تجھے
میں تو تقریب بھی کی پرتُو اُسے یاد نہیں​
 
295

آجائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں
مہلت ہمیں بسانِ شرر کم بہت ہے یاں

یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں نہیں
یعنی کہ دل کے جانے کا ماتم بہت ہے یاں

ہم رہ روانِ راہِ فنا دیر رہ چکے
وقفہ بسانِ صبح کوئی دم بہت ہے یاں

اس بت کدے میں معنی کا کس سے کریں سوال
آدم نہیں ہے، صورتِ آدم بہت ہے یاں

عالم میں لوگ ملنے کی گوں اب نہیں رہے
ہر چند ایسا ویسا تو عالم بہت ہے یاں

ویسا چمن سے سادہ نکلتا نہیں کوئی
رنگینی ایک اور خم و چم بہت ہے یاں

اعجازِ عیسوی سے نہیں بحث عشق میں
تیری ہی بات جانِ مجسم بہت ہے یاں

میرے ہلاک کرنے کا غم ہے عبث تمہیں
تم شاد زندگانی کرو، غم بہت ہے یاں

دل مت لگا رُخِ عرق آلودہ یار سے
آئینے کو اُٹھا کہ زمیں نم بہت ہے یاں

شاید کہ کام صبح تک اپنا کھنچے نہ میر
احوال آج شام سے درہم بہت ہے یاں​
 
296

بات میں‌ غیروں کی چپ کردوں ولیکن کیا کروں
وہ سخن نشنو تنک میرا کہا کرتا نہیں

چھوٹنا ممکن نہیں اپنا قفس کی قید سے
مرغِ سیر آہنگ کو کوئی رہا کرتا نہیں

کیا کہوں پہنچا کہاں تک میر اپنا کارِ شوق
یاں سے کس دن اک نیا قاصد چلا کرتا نہیں​
 
Top