افتخار عارف امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں

فرقان احمد

محفلین
امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دُنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں

بکھر چکے ہیں بہت باغ و دشت و دریا میں
اب اپنے حجرہ جاں میں سمٹ کے دیکھتے ہیں

تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں

پھر اس کے بعد جو ہونا ہے ہو رہے سر ِدست
بساطِ عافیت ِجاں اُلٹ کے دیکھتے ہیں ۔۔۔!

وہی ہے خواب جسے مل کے سب نے دیکھا تھا
اب اپنے اپنے قبیلوں میں بٹ کے دیکھتے ہیں

سنا یہ ہے کہ سبک ہو چلی ہے قیمت ِحرف ۔۔۔!
سو ہم بھی اب قد و قامت سے گھٹ کے دیکھتے ہیں​
 
Top