امید:خستگی کی داد پانے کی-غزل

حمید

محفلین
غزل پیش ہے- امید ہے آپ حضرات درگذر فرمائیں گے-

غزل
اپنا چہرہ چھپا لے نہیں جاتے ہیں اب
میرے گھر سے اجالے نہیں جاتے ہیں اب
علم کی تھیں عمارت میں ویرانیاں وہ
ذہنوں پر چھائے جالے نہیں جاتے ہیں اب
مانگتے ہیں سمجھ کر وہ اب اپنا حصہ
کچھ گھروں سے اُٹھالے نہیں جاتے ہیں اب
ہے سزاآدمی کو طرب دائمی بھی
جنتوں سے نکالے نہیں جاتے ہیں اب
اب تو سچ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہے
کیوں زبانوں سے تالے نہیں جاتے ہیں اب
اس زمانے میں تم دوستی پالتے ہو
لوگوں سے بچے پالے نہیں جاتے ہیں اب
حمید نیازی

 

فاتح

لائبریرین
آپ نے "آپ کی شاعری (پابندِ بحور شاعری)" میں اسے ارسال کیا ہے لیکن ہمیں یہ سمجھ نہیں آیا کہ یہ کس بحر کی پابند ہے؟
 

حمید

محفلین
فاتح کے لیے :D
اب تو سچ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہے
کیوں زبانوں سے تالے نہیں جاتے ہیں اب
 

الف عین

لائبریرین
میں بھی اسے پہلے بے بحری غزل ہی سمجھا تھا، لیکن بعد میں غور کیا تو پتہ چلا۔ البتہ میرا مشورہ یہ ہو گا کہ محض کچھ الفاظ کو زبردستی گھٹانے بڑھانے اور غیر مانوس بحر میں شاعری کی ضرورت نہیں۔ اب اسی میں لیں، ہر دوسرے مصرع میں سے ’اب‘ نکال دیا جائے تو مطلب بھی واضح ہو جاتا ہے، اور بحر بھی رواں دواں ہو جاتی ہے۔
یہ دوسری بات ہے کہ یہ غزل اگر اصلاح سخن میں ہوتی تو یہ بھی کہتا کہ جاتے ہیں اب‘ میں جاتے کی ے کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا۔ ویسے بھی اس غزل میں کئی جگہ حروف کا غیر ضروری اسقاط اور وصال ہے۔
 

حمید

محفلین
اتفاق کرتا ہوں اکثر نکات سے محترم- کم مانوس بحروں سے مانوسیت بڑھانے کا طریقہ کوئی نہیں سوائے اس کے کہ ان بحروں میں لکھا جائے تاکہ عروض کا دامن سمٹتا ہی نہ چلا جائے- آپ کی رہنمائی میں محنت جاری رہے گی-
 
حمید صاحب یہ بحر کوئی نئی نہیں بلکہ ارکان کی غیر مانوس تعداد مہمل ہے.
یہاں اگر کوئی ایسی بحرہوتی جو کم مستعمل ہو تو استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہ ہو.
مثال کے طور پر فعولن فعولن فعولن فعولن انتہائی مستعمل بحر ہے. مگر اسے دس رکنی کر کے اگر میں چار فعولن کے بعد ایک فعلن لگا دوں اور اس میں غزل کہوں تو فاتح بھائی تو کیا خلیل اور اخفش بھی اسکا وزن نہیں سمجھ سکینگے.
سو بہتر ہے کہ کوئی بحر استعمال کریں تو مربع, مثمن یا مثمن مضاعف ہو.
بحر کوئی بھی استعمال کرلیں جو کسی دائرے سے ہو. بنا دائرے بحر کا استعمال بھی احمقانہ حرکت ہے.
 
حضور آپ کی بحر تو دائرے میں ہے.
میں ان کی حرکت کو احمق کہہ رہا ہوں جو ایسی بحور استعمال کرتے ہیں جو کسی آفیشل دائرے میں نہیں آتی. :)
 

حمید

محفلین
میرے خیال میں انسان کا رتبہ اس سے بہت بڑا ہے کہ عروضی مسئلے پر کسی کو احمق کہا جائے-
 

حمید

محفلین
اگر آفیشل سے آپ کی مراد عروض کی کتابوں سے ہے تو سرور راز صاحب کی عروض کی کتاب کے صفحہ ۱۰۹ پر بحرمتدارک کی چھٹی مزاحف شکل یہی ہے-
مجھے اپنی آفیشل بحروں کی لسٹ بھجوا دیں تا کہ آئندہ پھر آ پ کا دل نہ توڑ بیٹھوں-
 
جناب انسان کا رتبہ بیشک بہت بڑا ہے.
مگر جب انسان احمقانہ حرکت کرتا ہے تو اسے اس کی صفت سے یاد کیا جاتا ہے. :)
اگر ایسا نہ ہو تو جس کی جو مرضی ہو کرتا پھرے کہ انسان ہے. اور مرتبہ بھی اونچا ہے :)
معذرت کے ساتھ کہونگا کہ وہ الفاظ آپ کے لئے نہیں تھے. :)
 
اگر آفیشل سے آپ کی مراد عروض کی کتابوں سے ہے تو سرور راز صاحب کی عروض کی کتاب کے صفحہ ۱۰۹ پر بحرمتدارک کی چھٹی مزاحف شکل یہی ہے-
مجھے اپنی آفیشل بحروں کی لسٹ بھجوا دیں تا کہ آئندہ پھر آ پ کا دل نہ توڑ بیٹھوں-

اوہو!!! ارے جناب آپ سمجھ تو لیجئے میں کہہ کیا رہا ہوں؟؟
میں نے آپ کی استعمال شدہ بحر پر کوئی اعتراض ہی نہیں اٹھایا.
 

الف عین

لائبریرین
عزیزو، یہاں بحث ختم کرو، خواہ مخواہ کی بحث کرتے ہیں اصل احمق تو!!!
یہ احمقانہ حرکت نہیں تھی حمید کی، نا سمجھی کی تھی وہ یہ کہ کہ یہاں اس بحر میں شعوری کوشش کی گئی ہے اس کو بوجھل بنا کر ’اب‘ کا اضافہ کرنے کی۔ جس سے روانی بھی نہیں رہی۔
 
Top