امریکی فوج کو کراچی میں آپریشنز کمپاؤنڈ کی تعمیر کی اجازت '' آپ کیا کہتے ہیں ؟

پردیسی

محفلین
سینٹ کی امریکی فوج کو کراچی میں آپریشنز کمپاؤنڈ کی تعمیر کی اجازت دینے پر تشویش
اسلام آباد ‘(اردو ویب نیوز) سینٹ آف پاکستان نے امریکی فوج کو کراچی میں آپریشنز کمپاؤنڈ کی تعمیر کی اجازت دینے کے بارے میں معاہدے سے وزیر خزانہ کی لاعلمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے حکومت کو تفصیلات پیش کرنے کے لئے ایک دن کی مہلت دے دی گئی ہے ۔ چیئرمین پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی سینیٹر میاں رضا ربانی نے معاہدے کو قومی سلامتی پر پارلیمنٹ کی ہدایات سے انحراف قرار دیا ہے ۔ قائد حزب اختلاف سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سابقہ وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو کیوں جانے دیا گیا تھا ان سے ان معاملات پر پوچھ گچھ ضروری تھی ۔ بدھ کو سینٹ میں پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر میاں رضا ربانی نے کراچی میں پاکستان کسٹم ڈرگز انفورسمینٹ سیل سے معلومات کے تبادلے کے لئے پاکستان کی جانب سے امریکی آرمی کی کور آف انجینئر کو ٹیکنیکل کمانڈ اینڈ آپریشنز سنٹر کمپاؤنڈ کی تعمیر کے معاہدے پر عوامی تشویش سے متعلق توجہ مبذول کرانے کا نوٹس پیش کیا تھا سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ پوری قوم اس معاہدے کے خدوخال سے لاعلم ہے ۔ کراچی کے کئی علاقوں میں امریکی فوج کو نقل و حرکت کی اجازت شامل جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔ مزید تفصیل یہاں سے
 

سید ذیشان

محفلین
ان سینٹرز کو تشویش صرف اتنی ہے کہ انہیں اس میں سے اپنا "حصہ" نہیں ملا ہو گا:p

میرے خیال میں رضا ربانی کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ باقی معاشرے کی طرح سینٹ میں بھی کچھ اچھے افراد موجود ہیں، جن میں سے ایک رضا ربانی بھی ہیں۔ :)
 

سید ذیشان

محفلین
شاید:idontknow:
مجھے تو یہ سب ایک جیسے لگتے ہیں:p

خیر یہ بھی ہماری بدقسمتی ہے کہ سیاستدانوں کو اتنا بدنام کر دیا گیا ہے کہ ان سے کسی اچھے کی توقع ہم نہیں رکھتے۔ ظاہری بات ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کے نمائندے ہیں اور اگر پورا معاشرہ فرشتوں سے بھرا ہوا ہوتا تو ان سے بھی ہم یہی توقع رکھتے :p
 

قیصرانی

لائبریرین
شاید اس کا پس منظر یہ ہو کہ پہلے جو کاروائیاں ڈھکے چھپے انداز میں ہوتی تھیں، اب نگرانی میں ہوں گی :)
 
خیر یہ بھی ہماری بدقسمتی ہے کہ سیاستدانوں کو اتنا بدنام کر دیا گیا ہے کہ ان سے کسی اچھے کی توقع ہم نہیں رکھتے۔ ظاہری بات ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کے نمائندے ہیں اور اگر پورا معاشرہ فرشتوں سے بھرا ہوا ہوتا تو ان سے بھی ہم یہی توقع رکھتے :p
ان کا موٹو بھی تو وہی ہے کہ "بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا":rolleyes:
جب ہم "بڑے" لوگوں کو ہر قسم کے برے کام کرکے صاف بچ جاتا دیکھتے ہیں تو ہم یہ جان جاتے ہیں کہ یہاں صرف "طاقت" چاہیے۔اس کے بعد سب کچھ ہمارے قدموں میں ہوگا۔تو پھر ہم بھی اپنی اپنی جگہ،اپنی اپنی "طاقت" کے اندر فرعون بن جاتے ہیں
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

پاکستانی کسٹمز ڈرگ انفورسمنٹ سیل منصوبے کے حوالے سے بیان


اسلام آباد (۲۸ فروری ۲۰۱۳ء)___ حکومت پاکستان، بالخصوص پاکستانی کسٹمز ڈرگ انفورسمنٹ سیل کی درخواست پر امریکی محکمہ دفاع کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر "کسٹمز ٹیکٹیکل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر"کی تعمیر کے لئے اعانت فراہم کررہا ہے۔ ہمارا مشترکہ مقصد منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف جدوجہد ہے۔ یہ منصوبہ حکومت پاکستان کی جانب سے درخواست کردہ تصریحات کے مطابق پاکستانی کسٹمز ڈرگ انفورسمنٹ سیل کے لئے دو نئی عمارتوں کے ڈیزائن اور تعمیر پر مشتمل ہے،جن میں : (۱) ایک انتظامی عمارت جومنشیات کی اسمگلنگ سے متعلق سرگرمیوں کی معلومات کے تبادلے کی غرض سے پاکستان کسٹمز کےاہلکاروں کے آپریشنز سینٹرکا کام کرے گی، اور (۲) چھ حفاظتی چوکیاں جن سے ہوائی اڈے کے ٹارمک پر موجود داخلی دروازوں پر سامان کی جانچ پڑتال میں مدد ملے گی، شامل ہیں۔

امریکی فوج کی کورآف انجنیئرز نے حال ہی میں حکومت امریکہ کی وفاقی بزنس اپارچونیٹیز ویب سائٹ کے ذریعے تجاویز طلب کرنے کے ارادے کا اعلان کیا ۔ اس خطے میں کام کرنے والی نجی تعمیراتی فرمیں یا مشترکہ کاروبار کرنے والے ادارے،جن میں پاکستانی کمپنیاں بھی شامل ہیں، اس سلسلے میں تجاویز جمع کروانے کی اہل ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ اس موسم بہار میں تجاویز کی رسمی طلبی کو مشتہر کر دیا جائے گا۔ اس منصوبے کا ٹھیکہ، جس کی پیشکش اہلیت کی حامل کسی نجی تعمیراتی فرم یا مشترکہ کاروبار کرنے والے ادارے کوکی جائے گی،آئندہ موسم گرما میں دیا جائے گا اور ہمیں امید ہے کہ یہ منصوبہ ۲۰۱۴ء کے موسم گرما میں مکمل ہو جائے گا۔

امریکی فوج کی کورآف انجنیئرز (یوایس اے سی ای) کا اس سلسلے میں کردار صرف اس منصوبے کا ٹھیکہ ایک نجی فرم کو دینے کے عمل اور اس کے اطلاق کی نگرانی کرنا ہے۔امریکی فوج یا حکومت امریکہ کا کوئی اہلکار اس سینٹر کی حقیقی تعمیر، اس کے کام یا عملے میں شریک نہیں ہوگا، جو مکمل طور پر حکومت پاکستان کی ملکیت ہے اور وہی اسے چلائے گی۔

یہ منصوبہ حکومت پاکستان کومنشیات اور ممنوعہ اشیاء کی اسمگلنگ کے خلاف فوری ردعمل کو مربوط بنانے کے قابل بنا ئے گا اور یہ اس اہم مسئلے کے حوالے سے پاک امریکہ مشترکہ عزم کا ایک ٹھوس اظہار ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu


 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

پاکستانی کسٹمز ڈرگ انفورسمنٹ سیل منصوبے کے حوالے سے بیان


اسلام آباد (۲۸ فروری ۲۰۱۳ء)___ حکومت پاکستان، بالخصوص پاکستانی کسٹمز ڈرگ انفورسمنٹ سیل کی درخواست پر امریکی محکمہ دفاع کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر "کسٹمز ٹیکٹیکل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر"کی تعمیر کے لئے اعانت فراہم کررہا ہے۔ ہمارا مشترکہ مقصد منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف جدوجہد ہے۔ یہ منصوبہ حکومت پاکستان کی جانب سے درخواست کردہ تصریحات کے مطابق پاکستانی کسٹمز ڈرگ انفورسمنٹ سیل کے لئے دو نئی عمارتوں کے ڈیزائن اور تعمیر پر مشتمل ہے،جن میں : (۱) ایک انتظامی عمارت جومنشیات کی اسمگلنگ سے متعلق سرگرمیوں کی معلومات کے تبادلے کی غرض سے پاکستان کسٹمز کےاہلکاروں کے آپریشنز سینٹرکا کام کرے گی، اور (۲) چھ حفاظتی چوکیاں جن سے ہوائی اڈے کے ٹارمک پر موجود داخلی دروازوں پر سامان کی جانچ پڑتال میں مدد ملے گی، شامل ہیں۔

امریکی فوج کی کورآف انجنیئرز نے حال ہی میں حکومت امریکہ کی وفاقی بزنس اپارچونیٹیز ویب سائٹ کے ذریعے تجاویز طلب کرنے کے ارادے کا اعلان کیا ۔ اس خطے میں کام کرنے والی نجی تعمیراتی فرمیں یا مشترکہ کاروبار کرنے والے ادارے،جن میں پاکستانی کمپنیاں بھی شامل ہیں، اس سلسلے میں تجاویز جمع کروانے کی اہل ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ اس موسم بہار میں تجاویز کی رسمی طلبی کو مشتہر کر دیا جائے گا۔ اس منصوبے کا ٹھیکہ، جس کی پیشکش اہلیت کی حامل کسی نجی تعمیراتی فرم یا مشترکہ کاروبار کرنے والے ادارے کوکی جائے گی،آئندہ موسم گرما میں دیا جائے گا اور ہمیں امید ہے کہ یہ منصوبہ ۲۰۱۴ء کے موسم گرما میں مکمل ہو جائے گا۔

امریکی فوج کی کورآف انجنیئرز (یوایس اے سی ای) کا اس سلسلے میں کردار صرف اس منصوبے کا ٹھیکہ ایک نجی فرم کو دینے کے عمل اور اس کے اطلاق کی نگرانی کرنا ہے۔امریکی فوج یا حکومت امریکہ کا کوئی اہلکار اس سینٹر کی حقیقی تعمیر، اس کے کام یا عملے میں شریک نہیں ہوگا، جو مکمل طور پر حکومت پاکستان کی ملکیت ہے اور وہی اسے چلائے گی۔

یہ منصوبہ حکومت پاکستان کومنشیات اور ممنوعہ اشیاء کی اسمگلنگ کے خلاف فوری ردعمل کو مربوط بنانے کے قابل بنا ئے گا اور یہ اس اہم مسئلے کے حوالے سے پاک امریکہ مشترکہ عزم کا ایک ٹھوس اظہار ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu


کیا امریکی حکومت نے اس امر کی قطعی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اپنے زیرِ تسلط منشیات کے پیداواری ملک میں کوئی ٹھوس اور مربوط نظام وضع کر سکے تاکہ اُس ملک کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک بھی متاثر ہونے سے بچے رہیں، یا امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ منشیات کی کاشت کو روکنے سے ملوث عناصر کی ناراضگی امریکہ کے لیئے نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہے جبکہ اس نے کبھی عوامی ناراضگی کی کبھی پرواہ نہیں کی یا پھر امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ نہتے عوام پہ تو مسلط ہے اور زور رکھتا ہے اسلحہ کے بل پہ لیکن منشیات کی کاشت اور کاروبار میں ملوث عناصر پہ اس کا بس نہیں چلتا۔اعداد بھی یہی بتاتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی تسلط کے بعد منشیات کی کاشت اور کاروبار میں بڑا اضافہ ہوا ہے جو کہ طالبان کے دورِ حکومت میں انتہائی زوال پہ تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
خود امریکہ میں جتنی منشیات ہوتی ہیں، اتنی تو شاید ساری دنیا میں نہ ہو۔ مزید یہ کہ شراب بھی تو ایک لعنتی نشہ ہی ہے۔ اس کو تو قانونی حیثیت حاصل ہے امریکہ میں۔

اگر چرس، افیون اور ہیروئن بھی امریکہ میں ہوتیں تو انہیں بھی وہاں اب تک قانونی حیثیت حاصل ہو چکی ہوتی اور نت نئے لیبل اور پیکٹوں میں ڈبوں میں بند ایشیا میں ایکسپورٹ ہو رہی ہوتی۔
 

زرقا مفتی

محفلین
امریکہ کی کئی ریستوں میں ماری جوانا نامی نشہ آور مواد پر پابندی نہیں۔نوجوان نسل خراب ہو رہی ہے مگر وہ آ کر کہیں گے صرف طبی استعمال کی اجازت ہے
 

Fawad -

محفلین
افغانستان میں امریکی تسلط کے بعد منشیات کی کاشت اور کاروبار میں بڑا اضافہ ہوا ہے جو کہ طالبان کے دورِ حکومت میں انتہائی زوال پہ تھا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اقوام متحدہ کی ايک رپورٹ کے مطابق 90 کی دہاہی ميں افغانستان اوپيم کی پيداوار میں دنيا ميں دوسرے نمبر پر تھا۔ صرف سال 1998 ميں 41،720 ايکٹر رقبے پر 1350 ميٹرک ٹن اوپيم گم کاشت کی گئ۔

سال 1988 میں افغانستان نے اقوام متحدہ کے ڈرگ کنونشن کے تحت منشيات کی روک تھام کے ايک معاہدے پر دستخط کيے تھے ليکن طالبان سميت کسی بھی سياسی دھڑے نے اس معاہدے پر عمل نہيں کيا۔ سال 1998 کے آخر تک طالبان کا کنٹرول افغانستان کے 80 فيصد علاقے پر تھا۔ جون 1998 ميں جلال آباد ميں 1 ٹن اوپيم کو نذر آتش کرنے کے علاوہ سرکاری سطح پر ايسا کوئ قدم نہيں اٹھايا گيا جس کے تحت مورفين يا ہيروئين بنانے والی کسی ليبارٹری، يا ہيروئين کی ترسيل کی کسی کھيپ يا منشيات کی سمگلنگ ميں ملوث کسی گروہ کو مستقل طور پر اس مذموم کاروبار سے روکا جاتا۔ اقوام متحدہ اور کئ نجی و سرکاری تنظيموں کی بے شمار رپورٹوں سے يہ واضح تھا کہ يورپ ميں سمگل کی جانے والی 80 فيصد منشيات افغانستان ميں تيار کی گئ تھی۔ سال 1998 کے آخر تک افغانستان ميں پيدا کی جانے والی 95 فيصد منشيات طالبان کے زير اثر 80 فيصد علاقوں ميں تيار کيا جاتی تھی۔

افغانستان کی مختلف ليبارٹريوں ميں تيار کی جانے والی ہيروئين اور مورفين کی تياری کے ليے ايسڈيک اينہائيڈرئيڈ نامی عنصر کی بڑی مقدار درکار ہوتی ہے جو کہ عام طور پر يورپ، چين اور بھارت سے حاصل کيا جاتا ہے۔ منشيات کی ترسيل کے ليے افغانستان سے ملحقہ پاکستان، ايران، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کی سرحديں استعمال کی جاتی تھيں۔افغانستان ميں منشيات کے اس کاروبار کے منفی اثرات براہراست ان علاقوں ميں منشيات کی آسان دستيابی اور کھلے عام استعمال کی صورت ميں نمودار ہوئے۔

منشيات کے حوالے سے طالبان کی پاليسی يہ تھی کہ اس کی روک تھام صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب اقوام متحدہ نہ صرف طالبان کی حکومت کو سياسی سطح پر تسليم کرے بلکہ جن علاقوں ميں پوست کی کاشت کی جاتی ہے وہاں کسانوں کو متبادل کاروبار کے ليے مناسب فنڈز مہيا کيے جائيں۔ حالانکہ اس سے قبل طالبان کی جانب سے يہ اعلان کيا جا چکا تھا کہ منشيات کا استعمال اور اس کی پيداوار سے منسلک تمام کاروبار اسلام اور شريعت کے قوانين کے خلاف ہيں۔

سال 1997 ميں يو – اين – ڈی – سی – پی کے ڈائريکٹر آرلاچی نے طالبان کے ليڈر ملا عمر کے نام ايک خط لکھا تھا جس ميں ان سے يہ مطالبہ کيا گيا تھا کہ جن علاقوں ميں کسانوں کو متبادل کاروبار کی سہوليات فراہم کی گئ ہيں وہاں منشيات کی پيداوار کی روک تھام کو يقينی بنايا جائے۔ اس کے علاوہ ان سے يہ اجازت بھی مانگی گئ کہ يو – اين – ڈی – سی – پی کو ان علاقوں تک رسائ دی جائے جہاں طالبان کے بقول منشيات کے کاروبار پر بين لگا ديا گيا ہے۔ طالبان سے يہ مطالبہ بھی کيا گيا کہ منشيات کے کاروبار کو جڑ سے ختم کرنے کے ليے ضروری ہے نہ صرف ہيروئين کی تياری کی ليبارٹريوں کو ختم کيا جائے بلکہ ان گروہوں کا بھی خاتمہ کيا جائے جو منشيات کی تقسيم کے کاروبار ميں ملوث ہيں۔ طالبان کی جانب سے ان مطالبات کو اسی شرط پر تسليم کيا گيا کہ کسانوں کو متبادل کاروبار کے ليے فنڈز کی فراہمی کو يقينی بنايا جائے۔

http://www.dpf.org/library/taliban.cfm

http://query.nytimes.com/gst/fullpage.html?res=9507E1D9133CF932A25754C0A96F958260

http://www.un.org/ga/20special/featur/crop.htm


ليکن تمام تر يقين دہانيوں کے باوجود سال 2000 تک منشيات کی کاشت نہ صرف جاری رہی بلکہ کچھ نئے علاقے بھی اس کاروبار ميں شامل ہوگئے۔ 1998 ميں مئ کے مہينے ميں پوست کی کاشت کے موقع پر يو – اين – ڈی – سی – پی کی جانب سے طالبان کو مطلع کيا گيا کہ لغمان، لوگار اور ننگرہار کے صوبوں کے کچھ نئےعلاقوں ميں پوست کی کاشت کا کام شروع ہو گيا ہے۔ يہی وہ موقع تھا جب 1 جون 1998 کو جلال آباد کے شہر ميں طالبان نے سرعام ايک ٹن منشيات کو سرعام آگ لگا کر يہ دعوی کيا تھا اس سال منشيات کی تمام پيداوار کو تلف کر ديا گيا ہے۔ ليکن اعداد وشمار کچھ اور حقيققت بيان کر رہے تھے۔ سال 2000 کے آخر تک منشيات کو کنٹرول کرنے کے کسی ايک بھی پروگرام پر عمل درآمد نہيں کيا گيا۔

http://www.nytimes.com/2000/09/18/world/18AFGH.html?ex=1215748800&en=f470637e39d1c243&ei=5070


منشيات کی روک تھام کی کئ نجی تنظيموں کی رپورٹوں سے يہ واضح تھا کہ طالبان اور شمالی اتحاد کے بہت سے سينير اہلکار براہراست منشيات کی ترسيل سے مالی فوائد حاصل کر رہے تھے۔ سال 1997 میں طالبان کے ايک اعلی افسر نے يہ تسليم کيا تھا کہ پوست کی کاشت ميں ملوث کسانوں سے طالبان حکومت 10 فيصد "مذہبی ٹيکس" وصول کرتی تھی۔

افغانستان ميں منشيات کی پيداوار کے حوالے سے 90 کی دہاہی کے کچھ اعداد وشمار پيش ہيں۔


http://img354.imageshack.us/my.php?image=clipimage002af5.jpg

http://img55.imageshack.us/my.php?image=clipimage00213sk4.jpg




فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu


 

زرقا مفتی

محفلین
When the history of U.S. involvement in Afghanistan is written, Washington's sordid involvement in the heroin trade and its alliance with drug lords and war criminals of the Afghan Communist Party will be one of the most shameful chapters

The huffington post
, October 15, 2008
 
Top