امریکی صدارتی انتخابات یا مسلم دشمنی کا مقابلہ؟

سید ابرار

محفلین
میرا خیال ہے ”ذاتیات پر حملہ “ کی بجائے اگر ہم زیر نظر مضمون پر بحث کریں تو زیادہ بھتر ہے
جھا ں تک گا لی پر رد عمل کی بات ہے ، تو یہ ایک ”حقیقت “ کا ذکر ہے ، ”سنت “ کا نھیں ، ممکن ہے آپ کے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں سمجھانے کی وجہ سے اگر کوئی مجھے ذاتی طور پر ”گالی “ دے تو میں اس ”ردعمل “ سے اپنے آپ کو بچا ؤں ، لیکن اگر کوئی میرے سامنے نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ”گالی “ دے یا ”مکہ “ اور ” مدینہ “ پر حملہ کی بات کرے تو معاف کیجئے میں آپ کے اس موقف سے اتفاق نھیں کرسکتا کہ مجھے ”صبر وتحمل “ کا مظاھرہ کرنا چاھئے ،
ایک مسلمان نے جب ایک مقدمہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کردیا تو خود حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی گردن اڑائی تھی ، یہ ”محبت “ کی بات ہے ،

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مغربی دنیا تو اپنے مفادات کے لئے پوری طرح متحد ہے ، اور ہم آپس میں اختلاف و انتشار کا شکار ہیں ، احمدی نزاد نے اسرائیل پر حملہ کی صرف بات کی تو نتیجہ یہ نکلا کہ ”پابندی “ لگادی گئی ، اور ”القاعدہ “ نے امریکہ پر حملہ کے صرف ”بیانات “ داغے تو اس کو بنیاد بناکر افغانستان میں خون کی ندیا ں بھادی گئی ، محترم یہ آج ہمارے ”افکار “ کی بزدلی ہے ، جس کے نتیجہ میں ہمیں یہ سب جھیلنا پڑرہا ہیں ،
آپ کا نظریہ فکر کوئی نیا نھیں ہے ، جس وقت ڈنمارک میں گستاخانہ کارٹون شائع کئے گئے تھے ، اس وقت بھی بہت سے حضرات ایسے تھے جو تھذیب ، شائستگی ، اور انسانیت کی تلقین کررہے تھے ، میں نیچے جو اقتباس دے رہا ہوں اسے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کیجئے ، یہ خاور بلال صاحب نے ان لوگوں کے جواب میں تحریر کیا تھا جو گستا خ نبی صلی اللہ علیہ وسل کے واقعہ کے بعد مغرب کی وکالت نیز مسلمانوں کو ”صبر وتحمل “ کی تلقین فرمارہے تھے
میں جو کھنا چاھتا ہوں وہ اس اقتباس میں موجود ہے


آخر معذرتوں کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ایک پٹاخہ پھٹا اور چلے مغرب سے اس کی معذرت کرنے کہ صاحب ہم تو امن پسند لوگ ہیں۔لگتا ہے ١١ستمبر کے بعد اچانک دنیا کے مظلوموں کو امن کا ہیضہ پھوٹ پڑا ہے اور معذرتوں کی الٹیاں ہیں کہ رکنے میں نہیں آرہیں۔امن کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کو نظر بھی آنا چاہیئےغربی دنیا کوئوں کی طرح متحد ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کوے باطل پہ مجتمع ہیں۔ آپ باطل کے بال کو ہاتھ لگا کر دیکھئے، ساری مغربی دنیا کائیں کائیں کرتی ہوئی آپ کی بوٹیاں نوچنے آجائےگی۔ مگر مسلمان جو حق پر جمع ہونے کے دعویدار ہیں، کوئی ان کے نبی کی بھی اہانت کردے تو خود مسلمانوں کا ایک طبقہ کہہ رہا ہے کہ صاحب جو ہو رہا ہے ہونے دیجئے، شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ ڈال کر بیٹھ جایئے، یہودیوں پر امریکا اور یورپ میں ذراسی نکتہ چینی بھی ہوجاتی ہے تو وہ آسمان سر پر اٹھالیتے ہین۔ اگر ہم اپنے دین اور نبی کریم کا دفاع بھی نہیں کرسکے تو پھر ہم کرہی کیا سکتے ہیں۔؟
ساری دنیا کے ایک ارب تیس کروڑ مسلمان ہیں جوکچھ اور کیا ایک نبی کریم کی ناموس کی حفاظت بھی نہیں کرپارہے ۔ ایسا کیوں ہورہاہے؟ اس کی وجہ بھی ظاہر ہے ہم سب کے پاس کرنے کیلئے بہت کام ہیں۔ کوئی صحافت میں مصروف، کوئی سیاست میں، کسی کو عہدہ عزیز، کسی کومنصب سے پیار، کسی کو دانشوری سے عشق، کسی کو اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا کا مسئلہ، کسی کومغرب سے بات کرنی ہے، کسی کو یورپ سے چیت فرمانی ہے
پورا مغرب رسول اکرم کے خاکے شائع کرے اور اسےcelebrateکرے تو مسلمانوں کا کام اس کے سوا کیا ہے کہ وہ صبر کریں اور قانون کی پاسداری کریں۔ آپ کی اس دانشورانہ سوچ کا مقصد صرف یہ نظر آتا ہے کہ کسی طرح اسلام کو بے چہرہ اور مسلمانوں کو پالتو بنا کر پیش کیا جائے۔اور پھر اس کی مارکیٹنگ بھی کی جائے۔
آپ نے سنا ہوگا گستاخی رسول کا مشہور واقعہ جس میں لاہور کے نوجوان غازی علم دین نے اپنی قوم کی لاج رکھ لی تھی، ورنہ اس وقت بھی عقل کے میدان میں دانشوری کے گھوڑے دوڑانے والے گھپ اندھیرے میں فلسفے کی روشنی میں یہی فرما رہے تھے کہ صاحب وفاداری کا مطاہرہ کریں۔ایک طرف منہ کے شہسواروں کی فوج ظفر موج مسلمانوں کو امن کی افیون کی ٹافیاں بانٹ رہی تھی دوسری طرف علامہ اقبال جب لاہور کے نوجوان شہید غازی علم دین کو لحد میں اتارنے لگے تو ایک تاریخ ساز جملہ کہاں تھا، کہ؛
اسیں گلاں کرتے رہ گئے تے ترکھان دا منڈا بازی لے گیا!
لاہور کے اس نوجوان کی سزا ختم کروانے کے سلسلے میں مسلمانوں کے اکابرین کو اندازہ تھا کہ اقبال واحد شخصیت ہیں جن کی سفارش انگریز سرکار نہیں ٹال سکتی لیکن اس معاملے کی اقبال نے معذرت کرلی اور ایک تاریخ ساز شعر کہا؛
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدرو قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
مجھے یقین ہے کہ مغرب کے کنویں کے مینڈک اب بھی مسلمانوں کو تہذیب، شائستگی، انسانیت، امن اور قانون پر لیکچر پلاتے رہیں گے۔ لیکن اقبال کہہ گئے تھےکہ
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے تو جائے
تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی

احترام آدمیت کو ختم کرنے اور تقدیس کی دھجیاں بکھیرنے میں مغرب کا کوئی ثانی نہیں، وہ ہر بار مسلانوں کو ایک نئے طریقے سے زچ کرتے ہیں اور مسلمان ہیں کہ اب کے مارکے دیکھ والی کیفیت ہےاور وہ پھر ایک بار ماردیتا ہے اور پھر یہ کہتے ہیں اب کے مار کے دیکھ۔
باطل پرست خود اعتمادی کی علامت بنے ہوئے ہیں اور جو قیامت تک باقی رہنے والی صداقت کے علمبردار ہیں وہ بغلیں جھانک رہے ہیں۔وہ جن کی میراث غزوہ بدر اور کربلا ہے وہ ذلت کی زندگی پر پوری طرح مطمئن ہیں۔ یاد رکھیں کہ میں اور آپ تو ختم ہوجائیں گے لیکن پائندہ رہنے والی حقیقت اسلام ہی ہے۔ اگر ہم اسلام کی سربلندی کا پرچم نہیں تھامیں گے تو یہ کام اللہ کسی اور سے لے لے گا لیکن اس سورج کو تو اب چڑھنا ہی ہے۔ کسی کے آنکھیں بند کرنے سے اس پر کوئی فرق نہیں آئے گا، آپ اور میں اگر منہ موڑیں گے تو منہ کی کھائیں گے، لیکن یہ چڑھتا سورج ہے آئیے چڑھتے سورج کی پوجا کریں۔
ربط یہ ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک مسلمان نے جب ایک مقدمہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کردیا تو خود حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی گردن اڑائی تھی ، یہ ”محبت “ کی بات ہے ،
براہ کرم اس بات کا کوئی تاریخی حوالہ یا سند فراہم کریں کہ اس کے سیاق و سباق کیا تھے
 

سید ابرار

محفلین
تو میرا کہنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ آپ پہلے خود کو بہتر کریں ناں ۔۔۔ یا کم از کم اس قابل ہی کر لیں کہ کوئی آپ کے خلاف اس قسم کے بیانات نہ دے سکے ۔ عورتوں کی طرح کوسنے دینے سے تو اچھا ہے کہ آدمی خاموش ہی رہے ۔
یہ ”بھتر “ کرنے کا عمل کب تک جاری رہے گا یہ بھی بتائیں ، ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی کا جائزہ لے کر دیکھے کہ ہم دنیا پر دین کو ترجیح دیتے ہیں ، یا دین پر دنیا کو ؟ مشھور ہے کہ قطروں سے دریا بنتا ہے ، اگر ہم دریا کو میٹھا بنانا چاہیں تو ہر ایک قطرہ کو میٹھا بننا پڑے گا ، عمل سے ، نہ کہ نظریات سے ،
جھا ں تک ”کوسنوں “ کی بات ہے تو جو چیز آدمی کے اختیا رمیں‌ ہو ، کم از کم وہ تو ہر ایک کو کرنا چاہئے ،
مثلا میرے اختیار میں‌ یہ ہے کہ میں‌ رد عمل کے طور پر امریکی اور برطانوی مصنوعات کا حتی الامکان بائیکاٹ کروں‌ ، اور یہ میں‌ کرتا ہوں ، پمفلٹوں اور اشتھارات سے دوسروں کو بھی اس بائیکاٹ کی ترغیب دیتا ہوں ، ھندوستان میں امریکی اور برطانوی کمپنیوں کی جو مصنوعات عام طور دستیاب ہیں ، نہ صرف ان کی نشاندہی بلکہ اس کے متبادل کے طور پر انڈین کمپنیوں کی مصنوعات کی بھی نشاندہی کی جا تی ہے ،
محترم اگر ہم ایک ارب تیس کروڑ مسلمان ”باتیں “ بنانے کی بجائے ، صرف ”امریکہ “ کا معاشی بائیکاٹ ہی کردیں تو شاید امریکہ کو ”بیانات “ داغنا تو دور کی بات ہے ، مسلمانوں کے خلاف ”سوچنے “ تک کی ہمت نہ ہوگی ، مگر کرے کون ،
امریکہ تو آج کی دنیا میں چڑھتے ہوئے سورج کا درجہ رکھتا ہے ، اور ”دنیا “ کا دستور تو یھی ہے کہ وہ چڑھتے ہوئے سورج کی پوجا کرتی ہے
 

سید ابرار

محفلین
براہ کرم اس بات کا کوئی تاریخی حوالہ یا سند فراہم کریں کہ اس کے سیاق و سباق کیا تھے
جھا ں تک مجھے یاد ہے
واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک یھودی اور مسلمان کے درمیان کسی چیز کے لئے جھگڑا ہورہا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ اس یھودی کے حق میں کردیا ، تو وہ مسلمان جو اصل مییں منافق تھا پھراسی مقدمہ کو لےکر حضرت عمر کے پاس آیا ، چونکہ حضرت عمر کا یھودیوں سے بغض مشھور تھا ، اس لئےاس نے سمجھا ہوگا کہ حضرت عمر اس کے حق میں فیصلہ کردیں گے مگر جب حضرت عمر نے یہ سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مقدمہ کا فیصلہ کرچکے ہیں ، مگر یہ اس کو ماننے سے انکار کررہا ہے ، تو حضرت عمر گھر کے اندر گئے اور تلوار لاکر اس کی گردن اڑادی ،
سند اور حوالہ بعد میں دیکھ کر بتاؤنگا
ویسے قیصرانی صاحب کیا کوئی ایسی ویب سا ئٹ آپ کی نظرمیں ہے جس میں احادیث کی مشھور کتابیں اردو ترجمہ کے ساتھ ہوں ، اگر ہوں‌ تو ضرور بتائیں ، ‌
 

سید ابرار

محفلین

شکریہ سارا
ویب سائٹ تو بہت اچھی ہے ، مگر اس ویب سائٹ پر موجود بخاری شریف اور مسلم شریف میں مسئلہ یہ ہے کہ عنوان کے اعتبار سے ، باب کے اعتبارسے یا فھرست کے اعتبار سے حدیث تلاش کرنا انتھائی مشکل ہے ، اگر احادیث کی کتابوں پر کوئی ایسی ویب سائٹ ہو جس میں ان باتوں کا خیال رکھا گیا ہو، تو اس کے بارے میں بتائیں ، اس سے نہ صرف احادیث تلاش کرنے میں آسانی ہوتی ہے ، بلکہ ربط دینے میں بھی ،
 

رضوان

محفلین
ساتھیو کیا ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب ہوچکی ہیں ہم وہی کچھ کیوں کر رہے ہیں جو ہمارے دشمن ؟؟؟ ہم سے کروانا اور کہلوانا چاہتے ہیں ؟
اگر میڈیا میں موجود مخصوص لابی اس کا نوٹس نہیں لیتی تو یہ بیان کسی کے لیے پر کاہ سے زیادہ اہمیت ہی نہیں رکھتا تھا۔ اس سے زیادہ سخت بیانات اور نعرے اور گالیاں ہمارے اہلِ سیاست و خطابت دن رات دیتے رہتے ہیں اور دے رہے ہیں مگر وہاں کی لابی اسی وقت حرکت کرتی ہے جب انہیں وقت اجازت دے۔ ہم لوگ گلی کے دیوانوں کی طرح رد عمل دکھاتے ہیں جنہیں کبھی کوئی بینگن کہہ کر چھیڑ جاتا ہے تو کسی نے طاؤ کہہ دیا تو پتھر اٹھا کر دوڑنے لگ گئے اپنی توانائیاں کن نان ایشوز پر خرچ کر رہے ہو۔ اصل میں یہ کسی مزہب یا تہذیب کی کوئی جنگ نہیں اپنی اپنی انا کا مسئلہ ہے۔ مسلمان لیڈر اگر سڑک سے ہٹ گیا تو اسے ڈر ہے کہ لوگ اسے بھول جائیں گے کیونکہ سوائے نعرہ بازی کے کوئی اور ٹھوس کام کرنے کی اسمیں صلاحیت ہی نہیں ہے۔
 

سید ابرار

محفلین
گالی کے جواب میں جس ردعمل کی آپ نے بات کی ہے ۔۔۔ اس کے بارے میں مجھے پورا یقین ہے کہ آپ ایسا ہی کریں‌گے ۔ مگر مجھے اس پر پورا یقین ہے کہ دوسرے شاید یہ طرزِ عمل اپنانے سے گریز کریں گے ۔

میرا خیال ہے آپ انتہائی ذہنی خلفشار کا شکار ہیں ۔ ورنہ جس ردعمل کی آپ بات کر رہے ہیں ۔ وہ اسلام کی تعلیمات سے کوسوں دور ہے ۔ اور آپ کی سابقہ پوسٹیں جن میں مثبت پہلو نامکے نہیں وہ اس بات کی آئینہ دار ہیں کہ آپ کو صرف اپنی اور اپنی ہانکنے کی عادت ہے ۔ اور دوسروں کی باتیں آپ سر سے گذار دیتے ہیں ۔

محترم ظفری صاحب ، گالی کے جواب میں جس ”رد عمل “ کی بات میں نے کی ہے ، اس سے میں نے ایک ”حقیقت “کی طرف اشارہ کیا ہے ، اور ہمارے ”طرز عمل “کی جانب بھی کہ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یا مقامات مقدسہ کو گالی دے ، تو نہ صرف ہم بآسانی اسے ”برداشت “ کرلیتے ہیں ، بلکہ دوسروں کو بھی ”برداشت “ کی تلقین کرتے ہیں ، اس کے بر خلاف اگر کوئی ہمیں ”گالی “ دے ، تو ”برداشت “ اور ”صبر و تحمل “ کے تمام سبق بھول کر عموما اسی ”ردعمل “کا مظاھرہ کیا جاتا ہے ، جس کی جانب میں نے اشارہ کیا ہے ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمیں کس سے زیادہ محبت ہے ؟ ”حقیقت “ چاہے کڑوی ہو اسے تسلیم کرلینا چاہئے ، ویسے جن الفاظ سے آپ کی دلآزاری کا پھلو نکلتا ہے اسے میں حذف کررہا ہوں ،
والسلام
 

زینب

محفلین
yeah hum muslmaon ki naehli islami talemaat sy dorri hae humari hee appni kamzori hae jis ski wajha sy unhein essy beynata deny ki himat hui issi liye sheyad issi din k liye ALLAH NY appny ghar ki hifazat ka zima appny sir liya

waisy bhi abhi yeah ek barak thi ek nakaam insan ki jo kabhi asli mein socha bhi to in ka nam leny walla koi nahi ho ga inshallah
 
اب تک یار لوگ عوام کو یہ تسلی دے رہے تھے کہ ایسے بکواس بیانات وہ دے رہے ہیں جن کو عوامی حمایت حاصل نہیں اور صدر نہیں ہیں، صرف صدارتی امیدوار ہیں، عقل سے پیدل ہیں، وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اب اس بیان پر کیا کہیں گے جو آج ایکسپریس اخبار میں پہلے صفحہ پر موجود ہے:
1100238975-1.jpg

1100238975-2.gif
 

زیک

مسافر
راہبر: یہی پریس کانفرنس یہاں پڑھیں:

Q Mr. President, if you had actionable intelligence about the whereabouts of top al Qaeda leaders in Pakistan, would you wait for Musharraf's permission to send in U.S. forces, even if it meant missing an opportunity to take them out? Or have you and Musharraf worked out some deal about this already?

And President Karzai, what will be your top concern when you meet with Musharraf later this week?

PRESIDENT BUSH: I am confident that with actionable intelligence, we will be able to bring top al Qaeda to justice. We're in constant communications with the Pakistan government. It's in their interest that foreign fighters be brought to justice. After all, these are the same ones who were plotting to kill President Musharraf. We share a concern. And I'm confident, with real actionable intelligence, we will get the job done.​

اور اسی صفحے پر پریس کانفرنس کی ویڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں۔

اب آپ خود ہی بتائیں کہ ایکسپریس کی سرخی صحیح ہے یا غلط؟
 

رضوان

محفلین
اب صاف ظاہر ہے کہ جلتی پر تیل ڈالا جارہا ہے اور اس آگ کو بھڑکانے سے کس کا سینہ ٹھنڈا ہوگا؟؟؟؟
ہر چھَپی ہوئی چیز مستند نہیں ہوتی اور ہر چھپائی کے پیچھے کوئی نہ کوئی مفاد ہوتا ہے۔ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ "بچے کو کھیلنے کے لیے چھری پکڑا دی گئی ہے"
 

ابوشامل

محفلین
بہت دنوں بعد سیاست کے موضوع پر کچھ پوسٹ کر رہا ہوں، دل تو نہیں چاہ رہا لیکن اُسی کے ہاتھوں مجبور بھی ہوں، کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ سیاست کے موضوع پر گفتگو کے بعد ہمارے دل ایک دوسرے کے لیے صاف نہیں رہتے اور اس کا تجربہ مجھے گذشتہ چند ماہ میں اس تھریڈ پر "متحرک" رہنے کے بعد ہو چکا ہے۔ سیاست کا موضوع محفل کا وہ واحد موضوع ہے جس پر متحرک افراد بیک وقت "پسندیدہ" و "ناپسندیدہ" ترین سمجھے جاتے ہیں۔ خیر! ذیل میں میں اپنی رائے دے رہا ہوں، فی الحال تو کوشش ہے کہ اس پر کوئی بحث نہ کروں۔

چند لوگ یہاں یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ حکمران جماعت کے صدارتی امیدوار ٹام ٹین کروڈیو کی ذاتی رائے ہے اور اسے "امریکی موقف" نہ سمجھا جائے اور نہ ہی اس امیدوار کا کوئی سیاسی قد کاٹھ ہے اور نہ اسے ایک فیصد سے زیادہ ووٹ ملیں گے۔ بالکل درست جناب! اس امر سے کسی کو کیا اختلاف ہوگا لیکن یہ بات اپنے ذہنوں میں واضح رکھیے کہ سیاست انہی معاملات پر ہوتی ہے جو عوام میں مقبول ہوں۔ اور سیاست دانوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوتی ہے کہ عوام میں کیا مقبول ہے اور کیا نہیں۔ اور امریکہ نے ریاستی سطح پر نائن الیون کے بعد منصوبے کے تحت ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بات پسندیدہ سمجھی جانے لگی ہے۔ دوسری بات یہ کہ امریکی حکومت پہلے ہی یہ اعلان کر چکی ہے کہ وہ دنیا میں کسی بھی جگہ پیشگی ایٹمی حملوں کا حق محفوظ رکھتی ہے چنانچہ امریکی صدارتی امیدوار نے جو کچھ کہا ہے وہ پس منظر کے بغیر نہیں اور امریکہ ایک ریاست کی حیثيت سے خود کو اس بیان سے الگ نہیں کر سکتا۔ اس صدارتی امیدوار کی جانب سے مکہ و مدینہ پر جوہری حملے کی دھمکی سے اس موقف کی خطرناکی ظاہر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کے خلاف امریکہ میں "کوئی بھی" سازش کرے حملہ بہرحال مسلمانوں کے مراکز پر ہونا چاہیے۔ کیا مغربی تہذیب میں "ذمہ داری کا تعین" نامی کوئی چیز پائی جاتی ہے؟
 

سید ابرار

محفلین
ٹام ٹینکریڈو کے بیان کو ایک طرف رکھیں ،
ممتاز امریکی صدارتی امیدواروں‌ کی ”امن پسندی “ کا حال سنئے ،
آج کل امریکن ٹاک شوز پر ایک ”دلچسپ بحث “ چل رہی ہے ،
اوھامہ کا بیان تو آپ حضرات نے سناہے ، کہ موصوف فرمارہے تھے کہ اگر وہ صدارت کے تختہ پر چڑھ گئے ، تو پاکستان کی اجازت کے بغیر ، القاعدہ کے ممکنہ ٹھکانوں ‌ پر حملہ کردیں گے ، لیکن ان کا کھنا تھا کہ وہ ان حملوں میں نیوکلیر ہتھیاروں کا استعمال نھیں کریں گے ،
اب سب سے ”دلچسپ “ بات سنئے ، امریکہ کے عھدۃ صدارت کی دوڑ میں سب سے آگے رھنے والی ”خاتون “ ھیلری کلنٹن نے اس بیان پر جو سب سے بڑا ”اعتراض “ کیا ہے وہ یہ ہے کہ اوہامہ نے یہ کیسے کھ دیا کہ نیوکلیر ہتھاروں‌ کا
استعمال نھیں کیا جائے گا ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ صدارت کا اھل نھیں‌ ہے ، بلکہ امریکی صدر کو وقت ضرورت نیوکلائی حملہ بھی کرنا چاہئے ،

یہ ہے امریکی صدارتی امیدواروں‌ کا اصل چھرہ ، جو امریکی عوام کے ”امن پسند “ جذبات کی نمائندگی بھی کرتا ہے ،
 

سارا

محفلین
شکریہ سارا
ویب سائٹ تو بہت اچھی ہے ، مگر اس ویب سائٹ پر موجود بخاری شریف اور مسلم شریف میں مسئلہ یہ ہے کہ عنوان کے اعتبار سے ، باب کے اعتبارسے یا فھرست کے اعتبار سے حدیث تلاش کرنا انتھائی مشکل ہے ، اگر احادیث کی کتابوں پر کوئی ایسی ویب سائٹ ہو جس میں ان باتوں کا خیال رکھا گیا ہو، تو اس کے بارے میں بتائیں ، اس سے نہ صرف احادیث تلاش کرنے میں آسانی ہوتی ہے ، بلکہ ربط دینے میں بھی ،

بھائی مجھے ایک یہی پتہ تھی میں کسی سے پوچھوں گی اگر مل گئی تو انشا اللہ جلد ہی آپ کو دے دوں گی۔۔۔
 
Top