امریکہ کے ہاتھوں کتا بھی مارا جائے تو وہ شہید ہے۔ مولانا فضل الرحمان

ساقی۔

محفلین
بڑی محنت کی آ پ نے یہ سب لکھنے میں ۔۔۔ ۔ مگر پہلے تو دیکھ تو لیتے کہ بندہ دراصل کہہ کیا رہا ہے ۔ ایک بار پڑھیں ، پھر دوبارہ پڑھیں اور پھر کوشش کریں ۔ پھر بھی سمجھ نہیں آئے تو میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں کہ فاروق صاحب اصل میں کیا کہہ رہے ہیں ۔

بڑا طنز کیا جناب نے اپنی طرف سے۔۔۔۔۔۔ بندہ کم از کم سوچ ہی لے کہ اسلام صرف ایک چیز کے ٹھیک ہونے کا نام نہیں جو بقول آپ کے فاروق صاحب نے کہا ہے اور جسے میں آپ کی سمجھ کے مطابق سمجھ نہیں سکا۔۔۔۔مراسلہ لکھ کر ایک بار پڑھ لیں ، پھر دوبارہ پڑھیں، ایک دفعہ اور کوشش کریں کہ خود کو سمجھ آ جائے کہ میں لکھ کیا رہا ہوں ۔
 
حکیم اللہ محسود شہید تھا یا نہیں اس کے بارے میں اہلسنت کے 30 مفتیوں کا فتوی سامنے آگیا ہے ، جو میری رائے میں بہت مناسب ہے۔
1521.gif
 
’’ کہیں پرچہ لگے، خبر گزرے !‘‘
کالم نگار | اثر چوہان

07 نومبر 2013




قومی اخبارات میں ہر روز اور الیکٹرانک میڈیا پر لمحہ بہ لمحہ۔ خبروں کی اتنی بھرمار ہوتی ہے کہ…ع ’’ خبروں ‘‘ کے انتخاب نے،رسواکیا مجھے ‘‘
کی صورت ہوجاتی ہے۔کبھی کبھی ایک ہی خبر کو موضوع بنا کر کالم لکھتے وقت یو ں محسوس ہوتا ہے کہ گویا ’’ پانی میں مدھانی‘‘ گھما رہا ہوں یا لفظوں کی جُگالی کر رہا ہوں۔اس عمل کو کالم کا پیٹ بھرنا بھی کہاجاسکتا ہے،جیسے سرکاری دفتروں میں ’’ فائل کا پیٹ بھرنا‘‘ کی ترکیب استعمال کی جاتی ہے۔اکثر و بیشتر پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں مختلف قائدین کی تقریروں میں بھی یہی فارمولا استعمال ہوتا ہے تو صاحبو!آج کے کالم میں کئی خبروں کو موضوع کیوں نہ بنایاجائے؟ اُستاد سحرؔ نے کہا تھا…؎
’’ بے محل عاشقی سے،درگُزرے ۔۔۔۔ کوئی پرچہ لگے، خبر گُزرے‘‘
خبر ہے کہ ’’ جمعیت علماء اسلام(ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے ایک صحافی کے اس سوال کے جوا ب میں کہ ’’ کیا حکیم اللہ محسود ہلاک ہوا ہے یا شہید؟ کہا ’’ امریکہ اگر کسی کتے کو بھی ہلاک کردے تو میں اسے بھی شہید ہی کہوں گا‘‘مولانا صاحب کے اس بیان یا فتوے کواُن کا ’’اجتہاد‘‘ ہی کہاجاسکتا ہے۔اب مولانا فضل الرحمن اور دوسرے علماء دین سے پوچھا جاسکتا ہے کہ’’ فرض کیا پاکستان کے کسی گلی محلے میں گھومنے پھرنے والا یا کوئی پالتو کُتا کسی امریکی سیّاح،مہمان یا سفارت کار کو کاٹ لے اور وہ امریکی اُس کتے کے کاٹنے سے مر جائے تو کیا اُس کتے کو ’’ غازی‘‘ کہاجاسکتا ہے ؟۔ہمارے یہاں گھوڑے کو تو پہلے ہی ’’غازی مرد‘‘ کہاجاتا ہے۔
عام طورپر کُتے کو ناپاک جانور سمجھاجاتا ہے،لیکن ’’ اصحابِ کہف‘‘ کے کُتے کو قابلِ عزت سمجھاجاتاہے۔اصحاب کہف( وہ سات اشخاص) جو دقیانوس بادشاہ کے خوف سے غار میں چھپ کر تین سو نو برس تک سوتے رہے۔مولوی نور الحسن نیّر نے اپنی ’’نوراللغات‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ علماء نے اصحاب کہف کے کُتے کو انسان کے زمرے میں داخل کیا ہے‘‘

بہرحال مولانا فضل الرحمن کی طرف سے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کیا امریکی حملے سے ’’ شہید‘‘ ہونے والے کُتے کی نمازِ جنازہ اور باقاعدہ تجہیزو تکفین بھی ہوگی؟۔ 6نومبرکے ’’ سیاست نامہ ‘‘ میں مَیں نے لکھا تھا کہ متحدہ مجلسِ عمل کے اکابرین کے ایک دوسرے کے خلاف کُفر کے فتوے ریکارڈ پر ہیں لیکن متحدہ مجلس عمل کے قائدین ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز پڑھتے رہے ہیں۔اِس پر ڈائریکٹر آپریشن المرکز اسلامی مفتی محمد تصّدق حسین صاحب(والٹن لاہور) نے مجھے وضاحت(بذریعہ ایس۔ایم۔ایس) بھجوائی ہے لکھتے ہیں۔
(’’جناب اثر چوہان صاحب۔آپ کے آج کے کالم میں ایک جملہ نظر سے گزرا کہ ’’ متحدہ مجلس عمل میں شامل تمام دینی جماعتوں کے اکابرین نے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے دئیے ہیں اور سب قائدین ایک دوسرے کے پیچھے نماز بھی پڑھ لیتے تھے ‘‘۔آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ جملہ صحیح نہیں ہے۔اہلِ سنت حنفی( بریلوی) کے ترجمان۔امام شاہ احمد نورانی نے کبھی کسی بد عقیدہ شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھی۔مملکت اسلامیہ کے مفاد کی خاطر وہ اتحاد کے داعی رہے لیکن وہ نماز کی امامت خود کرواتے تھے۔تاریخ درست فرمادیں بے حد شکریہ)مفتی تصدق حسین (فون نمبر اخبار کے صفحہ پر ہے، محفل کی پالیسی کی رعایت کرتے ہوئے حذف کیا۔ عبدالرزاق قادری)
میں مفتی صاحب کا ممنون ہوں کہ انہوں نے وضاحت فرمائی اس بات کی کہ ’’امام شاہ احمد نورانی نے متحدہ مجلسِ عمل میں شامل کسی بھی ’’ بد عقیدہ امام‘‘ کی اقتداء میں نماز کبھی نہیں پڑھی بلکہ وہ وقتِ نماز خود امامت کرواتے تھے‘‘۔

خبر ہے کہ’’ وزارتِ دفاع نے اعتراف کرلیا ہے کہ ڈرون حملوں کے بارے پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے اعدادو شمار غلط اور جعلی ہیں‘‘۔مرزا غالب نے کہا تھا…؎
غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ ۔۔۔۔ لوگ نالہ کو رسا باندھتے ہیں
بھلا غلط گوئی اور غلط بیانی پر مسماۃ وزارتِ دفاع کو کون پکڑے گا کہ محترمہ جناب وزیراعظم کے عقدِ سیاسی میں ہیں۔مسماۃ وزارتِ خارجہ اُن کی سوتن ہیں۔اُن کا بھی یہی چلن ہے۔وہ وقت بہت دور ہے جس کی آس میں حضرتِ آتش چل بسے…؎
’’سکۂ داغِ وفا اِک دن ،مرے کام آئیںگے ۔۔۔۔ عشق کے بازار میں، اُن کا چلن ہوجائے گا‘‘
خبر ہے کہ ’’بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی۔ایم۔ایف) پاکستان کے گردشی قرضے کے دوبارہ 160 ارب تک پہنچنے پر پریشانی کا شکار ہے ‘‘ خبر میں وزیر خزانہ جناب اسحق ڈار کا بھی تذکرہ ہے جو بذریعہ کلاسیکی موسیقی، دم توڑتی ہوئی معیشت کو تندرست کرنے کی نوید دیتے رہتے ہیں اور موصوف نے باقی معاملہ آئی۔ایم۔ایف حکام پر چھوڑ دیا ہے یعنی ’’ یک دو گیر و محکم گیر!‘‘…مرزا داغؔ دہلوی کا بھی یہی مسلک تھا،جب انہوں نے کہا …؎
’’ وہ سمجھے کیا، فلک کینہ خواہ کی گردش ۔۔۔ اُٹھائی جس نے،تمہاری نگاہ کی گردش‘‘
خبر ہے کہ ’’ جمعیت علماء اسلام(ف) نے وزیراعظم نواز شریف سے دوبارہ اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئر مین شپ مانگ لی ہے ‘‘۔ اس پر ایک انگریزی پنجابی ملا جلا ماہیا ہوجائے…؎
’’ حاضر اے دل ماہیا
GIVE AND TAKEکرئیے
اَیویں سُکّے تے نہ مِل ماہیا‘‘
پیپلز پارٹی کے راہنما بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ’’چودھری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں’’مگر مچھ کے آنسو بہائے !‘‘ اگرچہ معاملہ دو چودھریوں کا ہے لیکن میں تو یہی کہوں گا کہ ہمارے ہاں’’مگر مچھ‘‘ تو ہوتا ہی نہیں !

http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns/07-Nov-2013/255093
بشکریہ: نوائے وقت
 

صرف علی

محفلین
حکیم اللہ محسود شہید تھا یا نہیں اس کے بارے میں اہلسنت کے 30 مفتیوں کا فتوی سامنے آگیا ہے ، جو میری رائے میں بہت مناسب ہے۔
1521.gif
بھائی جن لوگوں کے یہ مفتی ہیں اس کو وہابی حضرات مانتے ہی نہیں ہے اور جو لوگ اس خبیث النسل کو شہید کا درجہ دے رہے ہیں وہ اسی کے فرقہ کے لوگ ہیں اب اہل سنت واقعی جتنے بھی فتوای جاری کرتے رہے ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا
 

صرف علی

محفلین
مولوی فضل اللہ کی واپسی
طلعت حسین

مولوی فضل اللہ کا تحریک طالبان پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنا حکیم اللہ محسود کے مار ے جانے سے کہیں زیادہ اہم خبر ہے۔ اس تبدیلی کے نتائج صرف فاٹا کی ایک ایجنسی تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ نام نہاد امن مذاکرات، تحریک طالبان کی کارروائیوں کے اہداف، سوات میں امن، پاکستان افغانستان تعلقات کے علاوہ پاکستان اور امریکا کے درمیان فوجی سطح پر مذاکرات اور بات چیت بھی ان سے متاثر ہو سکتی ہے۔

مولوی فضل اللہ ان عسکریت پسندوں میں سے ایک ہے جو پاکستان کی ریاست سے ہر طرح کی ٹکر لینے کے لیے اُس وقت سے کمربستہ ہے جب سے وہ پراسرار طور پر سوات کے گرد پاکستان آرمی کے تنگ گھیر ے میں سے مکھن کے بال کی طرح نکل کر سرحد کے اُس پار کنڑ صوبے میں جا پہنچا۔ اِس معاملے پر اُن دنوں میری پشاور میں موجود عسکری حکام سے طویل بحث ہوا کرتی تھی۔ میں دوسر ے صحافیوں کی طرح یہ جاننے کے لیے بیتاب تھا کہ اتنے کامیاب آپریشن کے باوجود مالا کنڈ ڈویژن اور اردگرد کے اضلاع میں ریاست کے خلاف شورش برپا کرنے کے پلان کا سرغنہ پکڑ ا کیو ں نہ جا سکا؟ مولوی فضل اللہ جو اس وقت بعض خبروں کے مطابق زخمی حالت میں تھا، کبھی بھی ان پھرتیلے لڑاکوں کے طور پر نہیں مانا جاتا تھا جو گھائو کھانے کے باوجود بڑی مہارت سے اپنی جگہ تبدیل کر لیتے تھے۔

لحیم شحیم، فربہ جسم کا مالک مولوی فضل اللہ مشکل راستوں پر چلنے کا عادی نہیں تھا۔ اُس کا کام ریڈیو کے ذریعے واعظ کرنا اور اپنے کمانڈرز کو احکامات جاری کرنا تھا۔ مجھے اپنے سوال کا جواب کبھی نہیں ملا۔ جب بھی مولوی فضل اللہ کا قصہ اٹھایا جاتا تو یا خاموشی اور یا پھر عدم دلچسپی کا اظہار بطور ردعمل سامنے آتا۔ اُس وقت ایک انتہائی قابل اور ابھی بھی حاضر سروس عسکری لیڈر اکثر صحافیوں کے فضل اللہ سے متعلق سوالوں کو ’’غیر ضروری‘‘ یا ’’غیر اہم‘‘ قرار دیتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ مولوی فضل اللہ جیسے لوگوں کے پیچھے جانا وسائل کے غلط استعمال کے زمر ے میں آتا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ مالا کنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندوں کی شکست بھرپور تھی۔ مولوی فضل اللہ بطور خطرہ مکمل طور پر ٹھکانے لگ چکا تھا لہذا اس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں تھی۔

پاکستان کے فیصلہ ساز اداروں میں اس قسم کی سوچ اُس وقت بھی تبدیل نہیں ہوئی جب فضل اللہ نے صحت یاب ہونے کے بعد کنڑ کے گورنر کی سربراہی میں ایک بڑا لشکر تشکیل دیا۔ جس کو نہ پیسے کی کمی تھی نہ سرحد پار جنگ کے سامان کی۔ باجوڑ میں فضل اللہ کی طرف سے بڑھتی ہوئی کارروائیوں اور مسلسل جھڑپوں پر ہماری طرف سے احتجاج تو کیا گیا مگر کبھی بھی تسلسل کے ساتھ یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ ہمار ے ملک میں اس دراندازی کو روکا جائے اور فضل اللہ کو ہمار ے حوالے کیا جائے۔ اس کے برعکس حکومتوں نے یہ جانتے ہوئے کہ صدر حامد کرزئی اور غیر ملکی انٹیلی جنس کے ادارے فضل اللہ کو پاکستان کے خلاف ایک زمینی ڈرون کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ کابل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کو ترک نہیں کیا۔ اب یہی فضل اللہ افغانستان میں سے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے جسے حکیم اللہ محسود اور اس سے پہلے بیت اللہ محسود نے وزیرستان میں رہتے ہوئے ملک اور قوم پر حملوں کے لیے استعمال کیا۔ دوسرے الفاظ میں مولوی فضل اللہ کی صورت میں تحریک طالبان پاکستان اب تحریک طالبان پاکستان افغانستان بن گئی ہے۔

افغانستان، انڈین اور امریکی انٹیلی جنس ایجنسیز کے لیے اس سے اچھی خبر شاید اور کوئی نہ ہو۔ یہ تمام ممالک پچھلے کئی سال سے یہی الزام لگاتے چلے آ رہے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک اور ملا عمر پاکستان میں رہتے ہوئے نیٹو اور آئی سیف کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ پچھلے دنوں امریکا کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان پاکستان جیمز ڈوبن نے پاکستان کی وزرات خارجہ کو چند صفحات پر مبنی ایک دستاویز دی۔ جس میں امریکا کی طرف سے حقانی نیٹ ورک کی بڑی بڑی کارروائیوں کو پاکستان کے کھاتے میں دکھایا گیا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ مولوی فضل اللہ کو اب پاکستان کے ساتھ حقانی نیٹ ورک کے معاملے پر پیشرفت کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

مگر اس سلسلے میں اس دبائو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو مولوی فضل اللہ کا تحریک طالبان کی کمانڈ سنبھالنے کے بعد اوباما انتظامیہ پر پڑ سکتا ہے چونکہ حکیم اللہ محسود کو مارنے پر واشنگٹن نے یہ نقطہ نظر اپنایا ہے کہ اس کے قتل سے انھوں نے پاکستان کی تحریک طالبان کے خلاف کارروائیوں میں حصہ ڈالا ہے جو ان کی طرف سے اچھی دوستی کا ثبوت ہے نہ کہ مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوئی سازش۔ لہذا امریکا کو منطقی طور پر یہی فارمولا مولوی فضل اللہ سے متعلق بھی اپنانا ہو گا۔ بالخصوص ان حالات میں کہ جب تحریک طالبان کا یہ قائد افغانستان میں موجود ہے جس کی ہر طرح کی نقل و حرکت امریکا کے جدید ترین ریڈارز پر چوبیس گھنٹے تصویروں کے ساتھ نظر آتی رہتی ہے۔ اگر پاکستان کی طرف سے مولوی ٖفضل اللہ کے خلاف امریکی مدد کا مطالبہ کیا جائے مگر مسترد ہو جائے تو واضح ہو جائے گا کہ اب تحریک طالبان کس کا اثاثہ بن گئی ہے۔ مگر مولوی فضل اللہ کو پکڑنے کا مطالبہ کرے گا کون؟ میاں محمد نواز شریف کی حکومت نے تحریک طالبان کو عملًا اپنا منہ بولا بھائی بنا لیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف پہلے سے ہی اس نظریاتی رشتے میں بندھی ہوئی ہے لہذا اس ماحول میں افغانستان کا تحریک طالبان کا اڈہ بنایا جانا موجودہ حکومت ہضم کرنے کی کو شش کرے گی۔

بہر حال اس کے باجود طالبان کے ساتھ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے کی راہ میں موجود نئے مسائل سے دامن چھڑ انا ممکن نہیں ہو گا۔ ریاست کے عہدیداران کے مطابق مولوی فضل اللہ قانون کے تحت مطلوب اور ایک خطرناک مجرم ہے جو ایک غیر ملک میں بیٹھ کر وہاں کی انٹیلی جنس ایجنسیز کی مدد سے پاکستان کی سرزمین پر قتل و غارت گری کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اگر ریاست پاکستان کا یہ موقف برقرار رہتا ہے تو فضل اللہ کی قیادت میں چلنے والی تنظیم سے ’’بھائی بندی‘‘ والی بات چیت آگے کیسے بڑھے گی؟ اس کا جواب وزیر اعظم نواز شریف اور عمران خان کو دینا ہو گا۔ اس دوران سوات کے اندر اضطراب اور خوف کی جس نئی لہر نے جنم لے لیا ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مولوی فضل اللہ ایک ’’غیر اہم مفر ور‘‘ کے مقا م سے اٹھ کر تحریک طالبان کے قائد کی مسند پر جا بیٹھا ہے۔ وہ اس وقت وہ تمام بدلے چکا سکتا ہے جو اس سرزمین سے نکلتے وقت اس نے اپنے ذہن پر نقش کیے تھے۔

وہ بدلے کیسے ہوں گے، یہ سمجھنے کے لیے آپ کو اسلام آباد کی پرامن فضا اور لاہور کے باغات اور رونقوں سے باہر نکل کر سوات جانا ہو گا۔ یہاں کے باسی اِس سو چ میں پڑ ے ہوئے ہیں کہ اگر میاں نواز شریف، عمران خان اور مولوی فضل اللہ نے ایک ہی تصویر کے تین رخ بن جانا تھا تو ان کو نواز لیگ اور تحریک انصاف کے بجائے، تحریک نفاذ شریعت محمدی کو ہی اپنا سیاسی والی مان کر منتخب کر لینا چاہیے تھا۔ ایک خاتون یہ سوچ کر پریشان ہو رہی تھیں کہ ان کے خاندان نے خواہ مخواہ سواتی طالبان سے جھگڑا مول لیا اور اب حضرت مولانا فضل اللہ کابل، اسلام آباد، لاہور اور پشاور میں حاکم سیاسی قوتوں کے منظور نظر ہو کر مینگورہ کے بیچ اپنا پرانا دفتر دوبارہ کھولے گا تو کیا ہو گا؟ میں نے ان کا غم غلط کرنے کے لیے کوئی تجویز نہیں دی۔ نہ ہی تسلی کہ ایسا نہیں ہو گا۔ نواز لیگ اور تحریک انصاف کے حلقوں میں آجکل طالبان کی محبت عروج پر ہے۔ محبت میں سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔
http://www.express.pk/story/194492/
 

صرف علی

محفلین
جماعت غیر اسلامی کے امیر کا بیان چل رہا ہے فیس بوک میں کہ طالبان سے لڑ کرمرنے والے پاکستانی فوجی شہید نہیں
اس خبر لا لنک مل سکتا ہے ؟
 
کسی کو بھی شہید کہنے سے پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ آیا وہ قرآن و سنت کی روشنی میں شہید ہے بھی کہ نہیں ،
مثلا ایمان والا ، مسلمان ہونا ضروری ہے ،حالات کفر میں نہ ہو ، کسی بڑے جرائم میں تاحال ملوث تو نہیں (شرک و بدعت وغیرہ)۔۔
مقروض تو نہیں ، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔اور سے سے بڑھ کر یہ اس کی جان کس غرض و غایت کی خاطر گئی ، دینی ہے یا کلمہ حق بلند کرنے کی خاطر ، جہاد فی سبیل اللہ کی خاطر
اگر یہ سب نہیں تو بلکہ اسکے برعکس ہے تو "شہید" نہیں ہے
اس پر بھی ہر ایرے غیرے کو "شہید" کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ یہ معاملہ علم غیب سے تعلق رکھتا ہے ، اللہ ہی کے علم میں ہے کہ اسکو شہادت کا مرتبہ ملا کہ نہیں

یہ تو ہم لوگوں نے وطیرہ بنا لیا ہے کہ اپنے اپنے ہلاک ہوجانے والے ہمدردوں کو "شہید" کہتے پھرتے ہیں ،
شہید وہی ہے جسے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے "شہید" کہا ہو ، باقی سب کو ہم اتنا کہینگے کہ اللہ اسکو شہادت نصیب کرے
 
مدیر کی آخری تدوین:

متلاشی

محفلین
حکیم اللہ محسود شہید تھا یا نہیں اس کے بارے میں اہلسنت کے 30 مفتیوں کا فتوی سامنے آگیا ہے ، جو میری رائے میں بہت مناسب ہے۔
1521.gif
یہ وہی سنی اتحاد کونسل ہے نا جس پر مبینہ طور پر ڈالر لے اپنے امریکی آقاؤں کو خوش کرنے کا سارا راز فاش ہو چکا ہے ۔۔۔۔!
 

x boy

محفلین
میں نے سلیم صافی کے سوالات اور ان لوگوں کے جوابات سنے ہیں،
اپنی اپنی رائے ہے کل میں نے مولوی فضل الرحمان کی باتیں سنی، اور مجھے لگا یہ بات کرتے وقت کم ہی سوچتے ہیں
اور منور صاحب کی بھی سنی بڑے سنجیدہ تھے اپنا اپنا موقف ہے اور میری رائے ہے کہ ان لوگوں کا مزید مزاق نہ
بنایا جائے نہیں معلوم کون حق پر ہے اور اللہ پاک اگلی ڈور ان لوگوں کے حوالے کردے اور پاکستان کو اچھائی کی
طرف لے جائیں۔
 

صرف علی

محفلین
مبارک ہو پاک فوج جاگ گئی
منور حسن کا بیان قابل مذمت، ذاتی مفاد کے لیے دہشتگرد کو شہید قرار دیا ، پاک فوج
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

Print Version November 10, 2013 - Updated 2040 PKT
shim.gif

ISPRMunu_11-10-2013_125931_l.jpg

راولپنڈی…پاک فوج کے ترجمان نے دہشتگردوں کوشہیدقراردینے پر امیر جماعت اسلامی منورحسن کے بیان کی مذمت کی ہے ،آئی ایس پی آر کی جانب سے اتوار کی شام جاری ہونے والے ایک بیان میں ترجمان پاک فوج نے کہا کہ منورحسن کے بیان کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔دہشتگردوں کوشہیدقراردینا قابل مذمت ہے۔مسلح افواج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ منورحسن کے بیان سے فوجیوں میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ترجمان نے کہا کہ دہشتگردکوشہید قراردیناہزاروں بے گناہ عوام اورفوجیوں کی شہادت کی توہین ہے۔شہیدفوجیوں کے بارے میں منور حسن کا بیان افسوسناک ہے۔امیر جماعت اسلامی نے سیاسی مفاد کیلیے نئی منطق ایجاد کی ہے۔عوام جانتے ہیں کہ ریاست کے وفا دار کون اور دشمن کون ہیں۔منور حسن کا بیان گمراہ کن ،توہین آمیز اورذاتی فائدے کے لیے ہے۔ترجمان نے کہا کہ مولانامودودی کی جماعت کے امیرکی جانب سے فوجیوں کیخلاف بیان بدقسمتی ہے۔اس قسم کے گمراہ کن اورمفادپرمبنی بیان قابل تبصرہ بھی نہیں ہوتے۔تاہم ترجمان نے کہا کہ جماعت اسلامی منورحسن کے بیان پراپنی پوزیشن کلیئر کرے۔دریں اثناء حالیہ سالوں میں وطن اور قوم کی خاطر اپنی جان نشاور کرنے والے شہداکے اہل خانہنے کہا ہے کہ ہمیں یا ہمارے شہیدوں کو منورحسن کی توثیق کی ضرورت نہیں،منور حسن قوم سے غیر مشروط معافی مانگیں۔
http://beta.jang.com.pk/JangDetail.aspx?ID=125931
 
یہ دھاگہ انشاء اللہ آپ کی تسلی کے لئے کافی و شافی ہو گا۔۔۔ ۔!
ربط
میں نے آپ کے دئیے ہوئے ربط کا تفصیلی مطالعہ کر لیا ہے، اس میں تو کہیں سے ثابت نہیں ہوتا کہ سنی اتحاد کونسل والے امریکہ یا کسی اور مغربی طاقت یا ملک کو اپنا آقا سمجھتے ہیں! صرف ایک جلسے کا ذکر ہے کہ امریکہ نے کرنے کے لئے امداد دی۔ جس کی بھی اس اتحاد نے تردید کر دی۔
 

متلاشی

محفلین
میں نے آپ کے دئیے ہوئے ربط کا تفصیلی مطالعہ کر لیا ہے، اس میں تو کہیں سے ثابت نہیں ہوتا کہ سنی اتحاد کونسل والے امریکہ یا کسی اور مغربی طاقت یا ملک کو اپنا آقا سمجھتے ہیں! صرف ایک جلسے کا ذکر ہے کہ امریکہ نے کرنے کے لئے امداد دی۔ جس کی بھی اس اتحاد نے تردید کر دی۔
وہ خبر شاید آپ کی نظر سے نہیں گذری جس میں اس الزام کے ثابت ہونے سنی اتحاد کونسل نے اپنے چار اہم رہنماؤں کا بر طرف کر دیا تھا۔۔۔
 
او بھائی ! کن باتوں میں لگ گئے ۔
ٹاپک پر رہیں پلیز۔:angry2:

کتے کی بات ہورہی تھی۔
تواور کیا کہا فضل الرحمن نے
 
آخری تدوین:
وہ خبر شاید آپ کی نظر سے نہیں گذری جس میں اس الزام کے ثابت ہونے سنی اتحاد کونسل نے اپنے چار اہم رہنماؤں کا بر طرف کر دیا تھا۔۔۔
یہ تو اور اچھی بات ہے جس سے میرے مؤقف کو تقویت ملتی ہے کہ سنی اتحاد کونسل والے مغربی طاقتوں کو اپنا آقا نہیں سمجھتے اور ان کی امداد لینا اچھا نہیں سمجھتے
 

کاشفی

محفلین
میرا ایک سوال ہے مولانا ڈیزل سے۔۔۔
اگر امریکہ خود کو مار ڈالے تو وہ کیا کہلائے گا؟؟؟
مولانا کے ہمدرد زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں ۔وہ کیا کہلائے گا۔۔
لیکن امریکہ ایک عظیم ریاست ہے۔۔اور اس کو اللہ رب العزت قائم و دائم رکھے۔۔آمین
لیکن مولانا کے بیان کو میں سمجھ نہیں پایا کہ وہ طالبان اور طالبان کے لیڈر کو طنز میں کتا کہہ رہے ہیں ؟یا کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔۔۔
؟
 
مولانا کے ہمدرد زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں ۔وہ کیا کہلائے گا۔۔
لیکن امریکہ ایک عظیم ریاست ہے۔۔اور اس کو اللہ رب العزت قائم و دائم رکھے۔۔آمین
لیکن مولانا کے بیان کو میں سمجھ نہیں پایا کہ وہ طالبان اور طالبان کے لیڈر کو طنز میں کتا کہہ رہے ہیں ؟یا کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔۔۔
؟
امریکی حکومت کو اللہ تعالی ہدایت دے کہ دوسری اقوام پر ظلم نا کرے
 
Top