امریکہ کا دہشت گردی سے معاشقہ

ساجد

محفلین
نیو یارک کے سابقہ مئیر اور 2008 کے صدارتی امیدوار ، رُوڈی جیُولیانی،نے کھلے عام بیان دیا ہے کہ امریکہ کو ایران کےسویلین انفراسٹرکچر یعنی جوہری توانائی کے مراکز پر فوجی کارروائی کرنے کے لئے ایک دہشت گرد تنظیم کو استعمال کرنا چاہئے۔
مجاہدینِ خلق نامی مذہبی شدت پسند تنظیم جو 'ایم ای کے'کے علاوہ 'ایم کے او ' اور این سی آئی آر' کے ناموں سے بھی اپنی شناخت رکھتی ہے، کی حمایت میں جیولیانی تنہا نہیں ہیں بلکہ بہت سی اہم آوازیں بھی اس دہشت گرد گروہ کی پشت پر ہیں۔
امریکہ کا دہشت گردوں کے ساتھ ایک طویل معاشقہ رہا ہے۔ دہشت گرد گروپوں اور حکومتوں کی حمایت امریکی پالیسی کا اہم عنصر رہا ہے۔ امریکی صدر ریگن کے دور میں نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر ولیم اوڈام کے مطابق'دہشت گردی اور دہشت گردوں کی مدد امریکہ کا ایک ایسا حربہ ہے جس کا طویل ریکارڈ ہے'۔(پی ڈی ایف )،لیکن مجاہدینِ خلق کی حمایت میں جو چیز امتیازی حیثیت کی حامل ہے وہ ہے سیاسی قیادت کا بے شرمی اور ڈھٹائی سے اس کی کھلے عام حمایت کا اعلان اور معاوضے کے بدلے میں اپنی خدمات کی بے حیائی کی حد تک پیشکش۔
امریکی عوام کے لئے یہ ایک دلخراش کن آگاہی ہو گی کہ لاکھوں جانوں کے اتلاف، کئی ٹریلین ڈالرز کے مصارف، دہشت گردی کے خلاف جنگ تا کہ دہشت گرد دوبارہ امریکہ پر حملہ نہ کر سکیں کے بدلے میں جو کچھ حاصل ہوا وہ ہے فوجیوں کی لاشیں اور یہ احساس کہ "وہ"یعنی دہشت گرد یہیں (امریکہ) ہی میں ہیں اور سیاستدان ان کی جیب میں ہیں۔
بہت سے امریکی شہری آج کے امریکہ کو سمجھنے میں ناکام ہیں۔ان کو یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ وہ وہاں (امریکہ سے باہر) لڑتے رہے اور حکومت نے امریکہ کو جنگ کا میدان بنا دیا۔ وہ اپنے تجربہ کار سیاستدانوں کو سمجھنے میں مشکل کا شکار ہیں جو ایک ایسے گروپ سے پیسہ وصول کر رہے ہیں جو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی فہرست میں خارجی دہشتگردتنظیموں کے زمرے میں ہے جبکہ امریکہ کا ڈیفنس آتھورائزیشن بل (منظوری کے مراحل میں ہے)امریکی فوج کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو گرفتار کر سکتے ہیں اور غیر معینہ مدت تک اسے حراست میں رکھ سکتے ہیں حتی کہ اسے قتل بھی کر سکتے ہیں جس پر کسی بھی طور القاعدہ سے تعلق رکھنے کا شک ہو۔القاعدہ وہی دہشت گرد گروپ ہے جو ہیلری کلنٹن کے بقول امریکی اسلحے اور امداد سے مستفید کیا جاتا رہا۔(ویڈیو)
مجاہدین خلق کے حمایتی شاید اس حقیقت میں سکون محسوس کرتے ہوں کہ یہ تنظیم ان کی خدمات (لابنگ) کی قیمت انہیں ادا کر رہی ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ وہ نظر انداز کر رہے ہیں۔ وہ شاید اپنی جیبیں بھرنے میں زیادہ حریص ہوں گے بجائے اس کے کہ وہ اس کا پتہ لگائیں کہ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے۔
کونسل آن فارن ریلیشنز کے مطابق مجاہدین خلق کےدہشت گردوں کی تعداد تین سے چار ہزار تک ہے جو عراق میں کیمپ اشرف میں رہتے ہیں۔جبکہ کیمپ اشرف کے یہ رہائشی زیادہ تر امریکی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے ہیں بشمول اس کے ان کے سفر کا انتظام بھی امریکی فوجی کرتے ہیں۔ لہذا یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے امریکی حمایتیوں کے لئے زیادہ کچھ کر سکیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی سیاسی قیادت کی فنڈنگ کا انتظام کون کرتا ہے؟۔
مجاہدینِ خلق عرصہ دراز سے امریکہ اور اس کے پالیسی سازوں کی حمایت یافتہ رہی ہے اگرچہ ایک ایرانی سائنس دان کی حال ہی میں ہلاکت پر امریکی سرکاری عہدیداروں نےاین بی سی پر انکشاف کیا کہ مجاہدینِ خلق کو سرمایہ ، تربیت اور اسلحہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے دیا تھا۔ امریکی ٹیکس دہندگان کے سالانہ اربوں ڈالر کی اسرائیل کو ترسیل اور اسی سے مجاہدین خلق کا امریکی سیاستدانوں کی خدمات خریدنا منی لانڈرنگ اور بد عنوانی جیسے الفاظ کو نئے معانی سے روشناس کرواتا ہے۔
=========
ملخص من
 

شمشاد

لائبریرین
بڑی تحقیق کر ڈالی ساجد بھائی آپ نے تو۔

اک تھوڑا انتظار کریں، فواد ابھی آتے ہی ہوں گے اپنے دودھ کے دھلے امریکیوں کو بے گناہ ثابت کرنے۔
 

زیک

مسافر
اس میں شک نہیں کہ کئی اہم رپبلکن اور ڈیموکریٹک رہنما مجاہدین خلق کے حامی ہیں جبکہ مجاہدین خلق کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ دہشت گرد قرار دیتا ہے.

حال ہی میں اس پر کچھ تفتیش شروع ہوئ ہے. شام میں لنک ڈھونڈ کر پوسٹ کرتا ہوں
 

Ukashah

محفلین
;)شکریہ ۔
شمشاد بھائی ، فواد کی ضرورت نہیں ، ہمیں ویسے ہی مان لیتے ہیں ۔ باقی سب پر یقین کر لیا ہے تو اس پر یقین کرنے میں کیا حرج ہے !
 
Top