امریکانے پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی کی دھمکی دیدی

سویدا

محفلین
واشنگٹن ... امریکی وزیردفاع نے حقانی نیٹ ورک کو کابل حملے کاذمہ دارٹھہراتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان اس کے کیخلاف کارروائی میں ناکام ہوگیاہے،اوراب امریکاحقانی کیخلاف کارروائی کرے گا۔ جبکہ افغانستان میں امریکی سفیر رائن سی کروکر کاکہناہے کہ کابل میں کونشانہ بنانے والے افرادنے پاکستان میں پناہ لی ہوئی ہے۔کابل کے سفارتی کوراٹرمیں20گھنٹے تک جاری جھڑپوں اوران کے نتیجے میں ہلاکتوں نے دنیاکی توجہ پھرپاکستان کی جانب مبذول کردی ہے۔کثیرالمنزلہ عمارت میں 6دہشت گردوں نے مورچے بناکرمنگل کومغربی ممالک کے سفارت خانوں پرحملہ کیاتھاتاہم طویل لڑائی کے بعدآخری دہشت گردکوبھی موت کے گھاٹ اتاردیاگیاتھا۔تاہم امریکی سفیررائن سی کروکرنے دعویٰ کیاہے کہ حملہ آوروں کوپاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی مددحاصل تھی۔کابل ہی کے واقعہ پرردعمل میں امریکی وزیردفاع لیون پینیٹاکاکہناہے کہ پاکستانی حکومت حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی میں ناکام رہی ہے۔اورافغانستان میں حملہ کرنے والے پاکستانی طالبان کے خلاف امریکا جوابی کارروائی کرے گا۔امریکاپاکستان کے قبائلی علاقوں میں مبینہ طورپرروپوش حقانی نیٹ ورک کیخلاف برسوں سے کارروائی کامطالبہ کرتارہاہے تاہم امریکی وزیردفاع نے یہ نہیں بتایاکہ امریکااس نیٹ ورک کیخلاف کس نوعیت کی کارروائی کریگا۔جبکہ نیٹوکے کمانڈرکادعویٰ ہے کہ کابل میں یہ حملہ اقتدارکی منتقلی روکنے کے عمل سبوتاژکرنیکی کوشش ہے۔امریکاپاکستان میں دہشتگردوں اور طالبان کیخلاف یوں توپہ درپے ڈرون حملے کرتاہے تاہم القاعدہ کے نئے لیڈرایمن الظواہری کی بھی پاکستان میں موجودگی کااب دعویٰ کیاگیاہے۔امریکاکاخیال ہے کہ گیارہ ستمبرکے موقع پرالظواہری کاجوپیغام سامنے آیاہے اس میں وہ مواد استعمال کیا گیا ہے جو ایبٹ آباد میں اسامہ کی پناہ گاہ پر چھاپے کے دوران پکڑا گیا تھا،مبصرین کاکہناہے کہ امریکاپاکستان میں اسامہ کیخلاف کیے گئے آپریشن کی طرزپرایک اورکارروائی کاجوازبنارہاہے۔
http://search.jang.com.pk/
 

ساجد

محفلین
سویدا ، فواد کے ساتھ مختلف مراسلوں کے جواب میں میں نے بہت بار یہ بات لکھی تھی کہ پاکستان میں امریکہ جو ڈرون حملے کر رہا ہے وہ طالبان پر نہیں بلکہ حقانی گروپ پر کر رہا ہے ۔ اور اب امریکی بیان سے یہ بات عیاں بھی ہو گئی ہے۔ان حملوں کا مقصد ایک تو پاکستان پر دباؤ برقرار رکھنا ہے دوسرے جارح امریکی فوج کی پسپائی کے وقت ہونے والے جانی نقصان میں کمی لانا ہے جو اسے حقانی گروپ کے ہاتھوں اٹھانا پڑے گا۔ کابل کا حملہ اس بات کا ثبوت بھی ہے جس نے امریکیوں کو بوکھلا دیا ہے اور اسی عالم میں وہ دو دن سے عجیب و غریب بیانات دے رہے ہیں۔ امریکی فوجیوں کی گردنیں اب ٹکٹکی کی پھانس میں ہیں کہ ان کو چھڑوانے کے لئیے کھینچ بھی نہیں سکتے۔ یہ امریکی پالیسی سازوں کی عسکری غلطی ہے نہ کہ پاکستان کی اور اس کے جواب میں ایمن الظواہری کی موجودگی کا بہانہ بنا کر پاکستان پر حملہ کرنا امریکہ کو بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔ ان کو روس کی پسپائی کا وقت یاد رکھنا چاہئیے تھا کہ جس نے اپنا فوجی پسپائی کے وقت کم سے کم جانی نقصان کی خاطر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کئیے اور پاکستان نے قبائلیوں پر اپنا رسوخ استعمال کیا اور یوں روس (سوویت یونین) زخم چاٹتا واپس چلا گیا تھا۔
امریکہ بھی یہ بات جانتا ہے کہ اب پاکستان پر ایبٹ آباد جیسا حملہ کیا تو پاکستان اپنے مغربی بارڈر پر عسکری تبدیلیاں کرے گا جس سے امریکہ اور نیٹو کے جانی نقصان میں اضافہ ہو گا اور یہ بھی بتا دوں کہ اس ممکنہ حملے کے لئیے امریکہ کو اتحادیوں کی بھی مخالفت کا سامنا ہے۔ اسی لئیے امریکہ ایک دوسرے منصوبے پر بھی عمل پیرا ہے اور اس کا ذکر بھی میں فواد کے ساتھ مراسلوں میں کر چکا ہوں ۔ وہ منصوبہ کافی خوف ناک ہے جو جنوبی ایشیا میں ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے وہ ہے پاکستان پر جوہری پھیلاؤ (پرولائفریشن) کا الزام لگا کر اس میں فوج داخل کر دی جائے ۔ فرخ بھائی نے ایک دھاگے میں ایک کلپ لگایا تھا بھارتی میڈیا کے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بے سر و پا الزامات کے حوالے سے اور آپ دیکھیں کہ یہ اتفاق ہی نہیں ہے بلکہ ایک منظم پروپیگنڈہ ہےکہ اس پورے کلپ میں جو زبان اور ثبوت پیش کئیے جا رہے ہیں وہ میڈ ان امریکہ ہیں۔ پاکستان پر القاعدہ کے حوالے سے سرحد پار سے افواج داخل کرنے پر امریکہ کو چین کی زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا جو معاشی طور پہ امریکہ کے لئیے برداشت سے باہر ہو گا۔ چین ایک گولی چلائے بغیر بھی امریکہ کے اس پلان کو شکست دے سکتا ہے۔ وہ پہلے بھی کہہ چکا ہے کہ چین اپنے ریزروز کو ڈالر کی بجائے دیگر کرنسی میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اگر چین امریکیوں کی پاکستان میں دخل اندازی سے خود کو فوجی اور اقتصادی لحاظ سے غیر محفوظ تصور کرے گا تو وہ اس قسم کا فیصلہ لے سکتا ہے جو لڑکھڑاتی امریکی معیشت کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔ ان سب حالات کو سامنے دیکھ کر ہی امریکہ پاکستان کےایٹمی پروگرام پر من گھڑت رپورٹیں میڈیا میں پھیلا رہا ہے تا کہ پاکستان کے خلاف ایک کیس تیار کر کے ایک طرف اس پر اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں تو دوسری طرف چین کو اس کی حمایت سے دستبردار یا کم از کم خاموش ضرور کیا جا سکے۔ بھارتی حکومت اس کام میں امریکہ سے پورا پورا تعاون کر رہی ہے اور امریکہ کے لئیے یہ کام یوں آسان کر رہی ہے کہ امریکہ عالمی برادری میں ان کی بنیاد پہ کہہ سکے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے اس کے ہمسائے بھی محفوظ نہیں ہیں۔
دو ماہ میں افغانستان کی طرف سے پاکستانی مسلح افواج پر تین خون ریز حملے کئیے گئے جن میں سو سے زیادہ پاکستانی سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے ۔ ان مسلحین کو افغانستان کی حمایت اور مدد حاصل تھی اور نیٹو افواج کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی ان کی منصوبہ بندی میں شریک تھا۔ کوئی راکٹ سائینس نہیں ہے کہ یہ کیوں کیا گیا۔ ظاہر ہے امریکی فوج اب واپسی کے لئیے پیک اپ کر رہی ہے اور خود پیچھے ر کر اب وہ ان پالتو شدت پسندوں کو ہی استعمال کرے گی جس کا استعمال وہ دس سالہ جنگ میں کر کے پاکستان میں خود کش حملے کرواتی رہی ہے۔ پاکستان نے ان حملوں پر افغانستان سے احتجاج بھی کیا لیکن الٹا پاکستان پر یہ مضحکہ خیز الزام لگایا گیا کہ یہ پاکستانی طالبان تھے حالانکہ وہ سرحد پار سے وارد ہوئے تھے ۔اب کابل میں جو واردات ہوئی تو اس کا الزام پاکستان پر لگانے اور دھمکی دینے سے قبل یہ بات امریکہ کو ذہن نشین کرنا چاہئیے تھی کہ کابل کا واقعہ پاکستان پر حملے کا جواز بن سکتا ہے تو دس سال سے جو کچھ پاکستان میں امریکہ کرتا آیا ہے کیا اسے جواز نہیں بنایا جا سکتا امریکی افواج پر حملے کا؟۔ میں نے اپنے ایک مراسلہ میں لکھا تھا کہ پاک افواج پر افغان مسلحین کا حملہ پاکستان کے افغانیوں پر حملے کا جواز نہیں بننا چاہئیے لیکن امریکہ کا عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ اسے علاقائی و عالمی امن سے کوئی دلچسپی نہیں وہ صرف اور صرف دہشت و بربریت کی بات کرتا ہے۔
جب دلدل میں پاؤں دھنس جاتے ہیں تو بچاؤ کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے کہ جسم کا جس قدر حصہ ابھی زمین سے باہر ہے اسے جھکتے ہوئے زمین کے ساتھ پھیلا دیا جائے اور بازو بھی کھول کر زمین پر پھیلا دیں اگر ایسا نہیں کریں گےاور اکڑ کر ہی کھڑے رہیں گے تو آپ کا اپنا وزن ہی آپ کو دلدلی زمین میں دفن کر دے گا۔ افغانستان کی جنگ امریکہ کے لئیے ایک ایسی ہی دلدل ہے جس میں اب اکڑ نہیں چل سکتی اور وزن تو امریکہ کا زیادہ ہے ہی۔
طاقت کے حصول کی اس جنگ میں کون کس طرح سے مسلح گروپوں کو ساتھ ملاتا اور انہیں استعمال کرتا ہے اور اس جنگ کے جنوبی ایشیا کے ساتھ ساتھ دنیا بھرپہ کس قدر خوف ناک اثرات مرتب ہونے والے ہیں ،اس پر پھر کبھی لکھیں گے۔ بس چلتے چلتے یہ بتا دوں کہ عالمی بنک نے آج پھر وارننگ جاری کی ہے کہ عالمی معییشت شدید خطرات سے دوچار ہے اور کل ہی ایک امریکی سروے نظر سے گزرا جس میں امریکہ میں بڑھتی غربت کو ہوش ربا کہا گیا تھا لیکن بد قسمتی سے لنک محفوظ نہ کر سکا۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ رييچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ

دانش کا تقاضا يہ ہے کہ ہر بات کا تجزيہ اس کے درست تناظر ميں کيا جانا چاہیے۔

ميں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب بھی امريکی صدر، سينير امريکی فوجی افسر، اہم سفارتی اہلکار يا عہديدار کی جانب سے کوئ بيان سامنے آتا ہے يا ان عناصر کے تعاقب کے ضمن ميں ہمارے مصمم ارادے کا اعادہ کيا جاتا ہے جن کی جانب سے مسلسل دہشت گردی کی کاروائياں کی جا رہی ہيں تو بعض تبصرہ نگار اسے براہراست پاکستان کے عوام کے خلاف دھمکی سے تعبير کیوں کرتے ہيں۔ حيرت کی بات يہ ہے کہ يہ شور وغل ان مجرموں کی خونی کاروائيوں کے ردعمل میں سامنے نہيں آتا جو دہشت گردی کی ہر کاروائ، بم دھماکے، سياسی قتل اور ٹارگٹ کلنگ کی دھڑلے سے ذمہ داری قبول کرتے ہيں۔ اگر ايک امريکی سرکاری اہکار نے کابل ميں امريکی سفارت خانے پر حملے کے بعد ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائ کے ارادے کا اظہار کيا ہے تو اس عزم کو پاکستان کے خلاف دھمکی کيسے قرار ديا جا سکتا ہے، کيونکہ حقيقت تو يہ ہے کہ پاکستانی عوام اور افواج پاکستان بھی روزانہ انھی مجرموں کے مظالم کا شکار ہو رہے ہيں۔

يہ کوئ ڈھکی چپھی بات نہيں ہے کہ امريکہ اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف باہم اتحادی ہيں۔ انکی باہمی تعاون اور وسائل کا اشتراک اس حکمت عملی کا حصہ ہےجس کا مقصد افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں کے دونوں طرف موجود اس مشترکہ دشمن کا خاتمہ ہے جو دنيا بھر ميں بے گناہ افراد کو بے دريخ قتل کرنے کا خواہ ہے۔

امريکی حکومت نے يہ بھی واضح کيا ہے کہ اس خطے کے اندر دہشت گردی کے حوالے سے سب سے زيادہ نقصان پاکستان نے اٹھايا ہے۔ يہ ايک مشترکہ دشمن کی جانب سے ايسا خطرہ ہے جو سب کے ليے يکساں ہے۔

ہم نے امريکی سفارت خانے پر حملے کے ضمن ميں پاکستان کی حکومت اور عوام پر الزام نہيں لگايا ہے۔ ہم نے بارہا اس حقيقت کو اجاگر کيا ہے کہ پاکستان پہلے ہی سوات اور وزيرستان ميں اپنی فوجی کاروائيوں کے ذريعے دہشت گردوں کے خلاف فعال کردار ادا کر رہا ہے۔

امريکی حکومت اور عسکری قيادت اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اس عالمی کوشش ميں ہمارا اہم ترين اتحادی اور شراکت دار ہے جس کا مقصد خطے میں پائيدار امن کے قيام کو يقينی بنانا ہے۔

ہم پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان کی سرحدوں کا احترام اور تقدس برقرار رہے۔ اس ضمن ميں يہ نشاندہی بھی ضروری ہے کہ ان غير ملکی دہشت گردوں کی کاروائيوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہيے جو دانستہ پاکستان کی خود مختاری پر حملے کر رہے ہيں اور ملک بھر میں پاکستان کی افواج اور شہريوں کو قتل کرنے کے منصوبے تيار کر رہے ہيں۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ ان سے ان کاروائيوں کے ضمن ميں کسی پيشمانی يا ندامت کی توقع نہيں رکھ سکتے۔

امريکہ اور پاکستان دونوں کو اس حقيقت کا ادراک ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کے دونوں اطراف ان دہشت گردوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو دونوں ممالک کی خود مختاری پر حملے کر رہے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

اظفر

محفلین
ميں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب بھی امريکی صدر، سينير امريکی فوجی افسر، اہم سفارتی اہلکار يا عہديدار کی جانب سے کوئ بيان سامنے آتا ہے يا ان عناصر کے تعاقب کے ضمن ميں ہمارے مصمم ارادے کا اعادہ کيا جاتا ہے جن کی جانب سے مسلسل دہشت گردی کی کاروائياں کی جا رہی ہيں تو بعض تبصرہ نگار اسے براہراست پاکستان کے عوام کے خلاف دھمکی سے تعبير کیوں کرتے ہيں۔
۔ اس کا مطلب ہے ناین الیون کے حملوں کو امریکہ پر حملہ بجاے ایک بلڈنگ پر حملہ سمجھا جاے ۔ آپ سمجھنے سے اس لیے قاصر ہیں کہ آپ یہ جوابات اپنی سمجھ سے نہیں کسی اور کی سمجھ سے دیتے ہیں۔
ہم پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان کی سرحدوں کا احترام اور تقدس برقرار رہے۔
اسی کوشش کا نتیجہ ہے جو بنا بتاے ایبٹ آباد والا آپریشن کیا گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بظاہر یوں لگ رہا ہے امریکہ کئی برس کی ناکامی کے بعد اربوں ڈالر کے نقصان اور اپنی گرتی ہوئی معیشیت کا الزام پاکستان پر لگا کر دنیا کے سامنے اپنی فوج کی عزت برقرار رکھنے کی کوشش رہا ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے کچھ ہفتوں میں پاکستان کے اندر کئی بار افغانستان میں سے آئے جنگجووں کی جانب سے حملے کئے گئے ، یہ جنگجو حملے کر کے واپس افغانستان چلے جاتے ہیں ۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا ہے چاہے وہ معاشی نقصان ہو یا جانی۔
امریکہ بذات خود ایک ایسا ملک ہے جس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ لوگ اپنا مفاد حاصل کرنے کی خاطر دوسرے ممالک کے کسی بھی قسم کے نقصانات کی پروا نہیں کرتے۔ اگر امریکن آرمی کو واقعی یہ لگتا ہے کہ حقانی گروپ کے لوگ پاکستان سے جا کر حملہ کر کے واپس آتے ہیں تو امریکن آرمی وہاں سے ان کو واپس کیوں آنے دیتی ہے ۔ یا امریکن آرمی اتنی بزدل اور کمزور ہے کہ چند لوگوں کو مارنے یا پکڑنے میں ناکام ہے۔ امریکن آرمی چیف کا بیان خود امریکہ کیلیے باعث شرم ہونا چاہیے کہ آتا ہے آپ کے فوجی مارتا ہے اور چلا جاتا ہے لیکن آپ کچھ کر نہیں سکتے یا کر نہیں رہے۔ امریکہ بار بار یہ کیوں چاھتا ہے پاکستان کے اندر حقانی گروپ کے خلاف کاروائی کی جائے ۔ اگر امریکہ حقانی گروپ کے خلاف کاروائی کرنا چاھتا ھے تو تب کیوں نہیں کرتا جب یہ لوگ امریکن آرمی پر حملہ کرتے ہیں۔ صاف ظاہر کہ امریکہ پاکستان میں داخل ہونے کیلیے بہانہ بازی کررہا ہے۔ اگر پاکستان کھل کر امریکہ کے خلاف ہو جائے گا یہ سب چپ ہو جائیں گے البتہ اگر پاکستان کے حکمرانوں نے ماضی کی طرح بزدلی دکھائی تو پھر ممکن ہے امریکن آرمی کو وزیرستان میں داخلے سے نہ روکا جا سکے۔
پاکستان کی وزیر خارجہ نے جو بات کی ہے وہ بالکل درست ہے، اگر امریکہ ان اوچھے الزامات سے باز نہیں آتا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو امریکہ سے الگ ہوجانا چاہیے اور ایسا ہونا سے یقینا پاکستان کے حالات بہتر ہو جائیں گے
 

اظفر

محفلین
ہم نے امريکی سفارت خانے پر حملے کے ضمن ميں پاکستان کی حکومت اور عوام پر الزام نہيں لگايا ہے۔ ہم نے بارہا اس حقيقت کو اجاگر کيا ہے کہ پاکستان پہلے ہی سوات اور وزيرستان ميں اپنی فوجی کاروائيوں کے ذريعے دہشت گردوں کے خلاف فعال کردار ادا کر رہا ہے۔


اب تو لگا دیا ہے شاید آپ کو نہیں بتایا:laughing::laughing::laughing:
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کچھ تجزيہ نگاروں کی جانب سے امريکہ کی پاکستان کو مبينہ دھمکيوں کے حوالے سے جذبات سے بھرپور بحث ديکھ کر حيرانگی ہوتی ہے کيونکہ زمينی حقائق، تحقيق شدہ اور تسليم کردہ اعداد وشمار کی روشنی ميں ايک مختلف تصوير پيش کرتے ہيں۔ اس ضمن ميں امريکہ کی جانب سے پاکستان کے حاليہ سيلاب سے آنے والی تباہی سے بحالی کے ضمن ميں اعانت کا جائزہ ليں اور پھر يہ خود فيصلہ کريں کہ کيا امريکہ پاکستان کے عوام کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے؟ واضح شواہد ايک مختلف حقیقت کو آشکار کر رہے ہيں۔

اس میں کوئ شک نہيں کہ ايڈمرل مولن اور کچھ ديگر اہم امريکی حکومت کے عہديداروں نے بعض دہشت گروہوں کی پاکستان کے اندر محفوظ ٹھکانوں کے ذريعے اپنی متشدد کاروائيوں کو جاری رکھنے کی اہليت کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کيا ہے۔ ليکن ايڈمرل مولن سميت انھی عہديداروں نے اس بات پر بھی زور ديا ہے کہ پاکستان کے ساتھ باہم تعلقات اور روابط جاری رکھنے کی ضرورت ہے اور امداد کی ترسيل میں رکاوٹ کی حمايت سے بھی گريز کيا گيا۔

ہمارے تحفظات، اختلافات اور تشويش کے باوجود اہم نقطہ يہ ہے کہ ہم بدستور پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہے ہيں تا کہ دہشت گرد تنظيموں کی محفوظ ٹھکانوں تک رسائ کو روکا جا سکے اور کئ مواقعوں پر حقانی نيٹ ورک سميت مشترکہ خطرات سے نبردآزما ہونے کے ليے مشترکہ کاروائ کے حوالے سے ہماری ترجيحات کو اجاگر کيا گيا۔

وہ تبصرہ نگار جو دو دونوں ممالک کے مابين جنگ کے حوالے سے ايک فرضی اور ناقابل يقين مفروضے کو بنياد بنا کر جذباتی بحث کر رہے ہيں انھيں چاہيے کہ وہ دونوں ممالک کے مابين جاری ترقياتی منصوبوں، لاجسٹک سپورٹ، وسائل ميں شراکت اور امدادی پيکج کے حوالے سے اعداد وشمار کا بغور تجزيہ کريں جو ہمارے اسٹريجک تعلقات اور باہم مفادات کی بنياد پر استوار ہونے والے طويل المدت شراکت کا منہ بولتا ثبوت ہيں۔

جب پاکستان اور امريکہ کے مابين باہم تعلقات کا ذکر آتا ہے تو بعض افراد جو ايک مخصوص سوچ اور سياسی ايجنڈہ پر يقين رکھتے ہيں وہ صرف ان ايشوز اور معاملات پر اپنی تمام توجہ مرکوز کر ليتے ہیں جن پر بحث جاری ہوتی ہے جس سے لامحالہ اختلافات کا شائبہ ہوتا ہے ليکن وہ اس حقيقت کو نظرانداز کر ديتے ہيں کہ کوئ بھی ايسی شراکت جو ارتقائ مراحل سے گزر رہی ہوتی ہے اس میں ان مراحل کا آنا محض ايک فطری عمل ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
فواد:
دانش کا تقاضا يہ ہے کہ ہر بات کا تجزيہ اس کے درست تناظر ميں کيا جانا چاہیے۔
چلیں جی پہلے تناظر ہی بتا دیجئیے اس قضئیے کا ۔ دانش کیا آپ کے تضادات پر مبنی مراسلوں پر تو عقل ، منطق اور دلیل سب حیران و پریشاں ہیں۔ اب کی بار آپ فرمائیے کہ دانش کیا کہتی ہے ۔ میں ہمہ تن گوش ہوں آپ کے ارشادات عالیہ کی سماعت کے لئیے۔
 
Top