امريکی قوم سے صدر اوبامہ کا خطاب

arifkarim

معطل
جو دوست افغانستان ميں امريکی شکست کا حوالہ ديتے ہيں ميں ان کو ياد دلانا چاہوں گا کہ دہشت گردوں سے شکست اور ان کے مطالبات کے سامنے ہتھيار ڈالنے کا آپشن امريکہ سميت دنيا کے کسی ملک کے پاس نہيں ہے۔ ايسی شکست جس صورت حال کو جنم دے گی اس کا تصور دنيا بھر ميں القائدہ کے سينکڑوں خودکش حملوں اور دہشت گردوں کی کاروائيوں کے تناظر ميں کيا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی کے عفريت کو شکست دينا اور اس کے نتيجے ميں بے گناہ شہریوں کی جانوں کی حفاظت ہماری اولين ترجيح ہے۔

کیا میں آپسے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ اس من گھڑت پراپیگنڈا کیلئے آپکو کتنے ردی ڈالرز ماہانہ ملتے ہیں؟
 

ظفری

لائبریرین
کیا میں آپسے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ اس من گھڑت پراپیگنڈا کیلئے آپکو کتنے ردی ڈالرز ماہانہ ملتے ہیں؟
عارف ۔۔۔ اگر تم سے اس بحث میں ‌کوئی منطقی اور مثبت بات نہیں‌ ہوسکتی تو کم از کم کسی کی شخصیت اور ذاتیات کا تقدس بھی پامال مت کیا کرو ۔ ہر جگہ منہ کھولنے کا مطلب عقلمندی نہیں ہوتا ۔
 

آفت

محفلین
دہشت گردی اور دہشت گردوں کوختم کرنا یقیناً بہت ضروری ہے لیکن کیا ان کے خلاف بزور طاقت جیتنا ممکن ہے ۔ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو پھر ساری قوت لگا دینی چاہیئے اور ان کو ختم کر دینا چاہیئے ۔
میرے خیال مین ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آ رہا ۔ آخری حل مزاکرات ہی ہیں ۔ لیکن مزاکرات سے بھی انتہائی اہم ان مسائل کا خاتمہ ہے کہ جن کی وجہ سے دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں ۔ ایک عرصہ سے کشمیر اور فلسطین کے مسئلے کو حل نہیں کیا جا رہا حالانکہ اقوام متحدہ میں بہت سی قراردادیں موجود ہیں ۔ امریکہ یا دوسری طاقتیں یو این کے پلیٹ فارم پر جب بھی کوئی قرارداد منظور کرواتی ہیں اس پر فوری عمل کیا جاتا ہے لیکن جو اصل مسائل ہیں وہ عرصہ دراز سے پڑے ہوئے ہیں ۔ کیا یہ رویہ دہشت گردوں کے حق مین نہیں جاتا ۔ اس کے علاوہ دہشت گردوں کے خلاف حالیہ کاروائی میں بہت بڑی تعداد مین بے گناہ نشانہ بن رہے ہیں جس کی وجہ سے مغربی اقوام کے خلاف غصہ بڑھ رہا ہے اور یہ غصہ بڑھتے بڑھتے ظالمان کی پشت پر کھڑا ہو سکتا ہے ۔ اس کا سد باب بہت ضروری ہے ۔ یہ جنگ جیتنیں کے لیے لوگوں کے دل جیتنا بہت ضروری ہے
جو دوست افغانستان ميں امريکی شکست کا حوالہ ديتے ہيں ميں ان کو ياد دلانا چاہوں گا کہ دہشت گردوں سے شکست اور ان کے مطالبات کے سامنے ہتھيار ڈالنے کا آپشن امريکہ سميت دنيا کے کسی ملک کے پاس نہيں ہے۔ ايسی شکست جس صورت حال کو جنم دے گی اس کا تصور دنيا بھر ميں القائدہ کے سينکڑوں خودکش حملوں اور دہشت گردوں کی کاروائيوں کے تناظر ميں کيا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی کے عفريت کو شکست دينا اور اس کے نتيجے ميں بے گناہ شہریوں کی جانوں کی حفاظت ہماری اولين ترجيح ہے۔

اس ضمن میں ہمارے پاس شکست کا آپشن نہيں ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

ساجد

محفلین
چند دوست امریکی پالیسی پہ تنقید کا مطلب طالبان کی حمایت سے جوڑتے ہیں جو کہ صحیح نہیں۔ غلط کو غلط ہی کہا جائے گا۔ خواہ وہ اپنے دعوی میں کی سچائی میں میڈیا کے زور پہ اور طاقت کے استعمال سے کتنا ہی واویلا مچا لے۔
ہم عوام ہیں۔ ہمارا کام ہے اہل بست و کشاد کہ جو ہمارے ووٹ سے ہم پر حکومت کرتے ہیں کو ان کی غلطیوں پہ ٹوکنا ار ان کے اچھے کام کی حمایت کرنا۔ خرابی کو شہہ اس وقت ملتی ہے جب ہم ان سیاسی مداریوں ’قومی ہوں یا بین الاقوامی‘ کے کرتبوں سے مبہوت ہو کر غیر جانبداری کا رویہ ترک کر کے ان کے ہر جائز و ناجائز کام کی حمایت میں کمر کس کر میدان میں اتر آتے ہیں۔ اور ان مداریوں پہ کی جانے والی تنقید کو برداشت کرنے کی بجائے اس کا تعلق مفروضوں پر مبنی خود ساختہ ڈر سے جوڑ کر ان کی غلط پالیسیوں کے نفاذ کے لئیے راہ ہموار کرتے ہیں۔ میں تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ اتنا عرض کروں گا کہ دنیا کے ہر غیر جمہوری و جمہوری ملک اور دنیا کے ہر دھرم اور مذہب میں انسانی جان کی حرمت ، چار دیواری کا تحفظ ، بنیادی انسانی حقوق کا احترام تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن کس قدر ستم ظریفی ہے کہ ان چیزوں کی خلاف ورزی کرنے والوں اور امن کی دھجیاں اڑانے والوں کی ہم نہ صرف حمایت کرنے بیٹھ جاتے ہیں بلکہ ان کے غلط کاموں کو جائز قرار دینے کے لئیے دُور کی کوڑی لانے میں اپنا دماغ فضول میں کھپاتے ہیں۔ جو بھی انسانی بستیاں ملیا میٹ کرتا ہے ، لوگوں کو نا حق قتل کرتا ہے ، مخالفت برداشت کر نے کی بجائے مخالف کو ہی ختم کرتا ہے ،وہ کم از کم میرے دماغ کے کسی خانے میں بھی حمایت کی رمق نہیں پا سکتا۔ اس کہی گئی بات میں "جو کوئی" کے مطلب پہ غور کیجئیے گا نا کہ اسے اپنی مرضی کا رنگ دیجئیے۔
سیاست اور تنقید ہرگز بری چیز نہیں ہے لیکن جب ہم اعتدال و توازن کی پٹٹڑی سے اتر جاتے ہیں اور برداشت کا سگنل توڑ کر اختلاف برائے اختلاف اور الزام تراشی کے پلیٹ فارم پہ چلے جاتے ہیں تو امن کی فاختہ اس بے ہنگم شور سے ڈر کر پہلے سے ہی اڑ جاتی ہے ۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ مشرق تو مشرق اب مغرب میں بھی اختلاف برداشت کرنے کا رواج کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بدعت ،سیاسی مداریوں کے کرشموں ہی کی مرہونِ منت ہے۔ گزارش کروں گا کہ آپ دنیا کے کسی کونے میں ہوں ، آپ کی کوئی بھی قومیت ہو ، کوئی بھی نسل ہو ، کوئی بھی زبان ہو ، کوئی بھی پارٹی ہو یا کوئی بھی رہنما ہو برائے مہربانی ان سب پہ انسان اور انسانیت کو مقدم رکھ کر سوچئیے گا۔ پیدا شدہ الجھنوں کو کم کرنے کی تدبیر کیجئیے گا۔ وہ بات کیجئیے گا کہ جو مخلوق خدا کی آواز ہے نا کہ چند دفتروں میں گھڑی گئی کہانیاں۔
اللہ ہم سب کا حامی ہو۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team - US State Department

بن لادن کو ڈھونڈنے کیلئے کئی لاکھ فوجیوں کی کیا ضرورت تھی۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ افغانستان ميں فوجی کاروائ کا اہم مقصد 911 کے مجرموں کو کيفر کردار تک پہنچانا تھا۔ ليکن اس کے علاوہ يہ بھی ضروری تھا کہ مستقبل ميں دنيا کے کسی بھی حصے ميں دہشت گردی کی روک تھام کو يقينی بنايا جا سکے۔

صدر اوبامہ نے اپنی تقرير ميں يہ واضح کيا تھا کہ

"طالبان کے اسامہ بن لادن کو ہمارے حوالے کرنے سے انکار کے بعد ہی، ہم نے اپنی فوجیں افغانستان میں بھیجیں۔"

جب کسی ملک کی حکومت دہشت گردوں کو پناہ دينے اور ان کی حمايت کا فيصلہ کر لے تو پھر سوال محض چند افراد تک رسائ تک محدود نہيں رہ جاتا جيسا کہ آپ نے نشاندہی کی ہے۔

ميں آپ کو ياد دلا دوں کہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد طالبان حکومت سے پاکستان کے ذريعے دو ماہ تک مذاکرات کے ذريعے يہ مطالبہ کيا گيا کہ اسامہ بن لادن کو امريکی حکام کے حوالے کيا جائے تاکہ اس کے خلاف مقدمہ چلايا جا سکے۔ طالبان کے مسلسل انکار اور القائدہ کا ساتھ دينے کے بعد امريکہ نے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر کاروائ کا فيصلہ کيا گيا۔

يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حکومت پاکستان اور فوج نے حال ہی ميں سوات اور وزيرستان ميں مکمل فوجی آپريشنز کا آغاز کيا ہے۔ يہ فوجی کاروائياں سوات اور وزيرستان کے عوام کے خلاف نہيں ہيں۔ پاکستان کے آرمی چيف نے بھی علاقے کے لوگوں کے نام اپنے پيغام ميں يہ واضح کيا تھا۔ ان آپريشنز اور فوجی کاروائيوں کو اسی ليے ضروری سمجھا گيا تا کہ دہشت گردی کی اس لہر پر قابو پايا جا سکے جس نے پورے ملک کو متاثر کيا ہے۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ ان فوجی کاروائيوں کے نتيجے ميں آبادی کا بڑا حصہ متاثر ہوا ہے ليکن اس کے باوجود ملک کی بڑی سياسی جماعتوں، پبلک سروے اور سول سوسائٹی نے عمومی طور پر ان فوجی کاروائيوں کی حمايت کی ہے۔ اس کی وجہ يہی ہے کہ چند افراد کو اس بات کی اجازت نہيں دی جا سکتی کہ وہ بے گناہ افراد کو قتل کريں اور دہشت گردی کا نشانہ بنائيں۔

يہی اصول افغانستان ميں جاری امريکی کاوشوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ صدر اوبامہ اور امريکی انتظاميہ نے بارہا يہ واضح کيا ہے کہ افغان عوام کا تحفظ اہم ترجيح ہے اور ان کی مدد اور حمايت کے بغير دہشت گردی کے خلاف ديرپا کاميابی ممکن نہيں ہے۔

"ہم افغان حکومت کی ان کوششوں کی حمایت کریں گے کہ ان طالبان کے لیئے دروازہ کھول دیا جائے جو تشدد کو ترک کرنے اور اپنے ہم وطن شہریوں کے حقوق کا احترام کرنے پر تیار ہوں۔ اور ہم افغانستان کے ساتھ ایسی شراکت داری قائم کرنا چاہیں گے جس کی بنیاد باہم احترام پر ہو۔۔ان لوگوں کو الگ تھلگ کر دیا جائے جو تباہی پھیلاتے ہیں؛ ان لوگوں کو مضبوط بنایا جائے جو تعمیر کرتے ہیں؛ اس دِن کو قریب لایا جائے جب ہماری فوجیں افغانستان کو چھوڑ دیں گی؛ اور ایسی پائیدار دوستی قائم کی جائے جس میں امریکہ آپ کا شراکت دار ہو، اور کبھی آپ کا سرپرست نہ بنے ۔"

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
کیا میں آپسے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ اس من گھڑت پراپیگنڈا کیلئے آپکو کتنے ردی ڈالرز ماہانہ ملتے ہیں؟

عارف آپ ایک یورپی ملک میں رہائش پذیر ہیں، جہاں یہ بات اخلاق کے منافی سمجھی جاتی ہے کہ کسی سے اسکے مشاہرے کے بارے میں‌پوچھا جائے، ویسے بھی کسی بات کے جواب میں‌اس نوعیت کے سوال کی منطق مجھے بھی سمجھ نہیں‌آئی، بہت سے دوستوں کو غصہ ہے اور نفرت بھی امریکہ سے، شاید اسی لیئے یہ ان الفاظ کی صورت میں‌باہر نکل آتی ہے، جمہوریت میں‌لوگوں‌کے کام سے تو اختلاف ہو سکتا ہے ، مگر انکی ذاتی حیثیت کی اپنی اہمیت ہوتی ہے ، ہو سکتا ہے وہ ہم بہت زیادہ علمی صلاحیت کے مالک ہوں، اسلئے میں‌بھی آپ کی اس بات پر نکتہ ء اعتراض اٹھانے کی جسارت کر رہا ہوں، واضح رہے کہ آپ کی بات سے اختلاف کیا ہے، آپ کی شخصیت سے مجھے محبت ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
کیا میں آپسے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ اس من گھڑت پراپیگنڈا کیلئے آپکو کتنے ردی ڈالرز ماہانہ ملتے ہیں؟

اور کیا میں تم سے پوچھ سکتا ہوں کہ تم اپنے حقیقی اسلام کے بارے میں سب کو کب معلومات فراہم کر رہے ہو؟
 

آفت

محفلین
جو دہشت گرد ہیں ان کے خلاف کاروائی ضرور ہونی چاہیئے اس مین دو رائے ہو ہی نہیں سکتی ۔ لیکن کیا ہم نے مستقبل کے لیے بھی کچھ سوچا ہے کہ نہیں ۔ کیا ہم نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہین کہ مستقبل مین کوئی دہشت گرد نہ بنے ۔ ظاہر ہے کوئی بھی پیدائشی دہشت گرد نہیں ہوتا ، حالات و واقعات دہشت گرد پیدا کرنے کا زریعہ ہیں ۔ ہمیں پڑوسی ممالک اور چند دوسرے ممالک کے علاوہ اپنے لوگوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ سیاستدان و اسٹیبلشمنٹ میں موجود کالی بھیڑوں کی کرپشن سامنے آ چکی ہے یہ بھی ایک طرح کی دہشت گردی ہے ۔ عوام کے پیسے پر ڈاکہ ڈالا جائے گا تو حتمی نتیجہ عوام کی محرومی کی صورت نکلے گا ۔ یہ لوگ تو این آر او یا ایس آر او جیسے قوانین بنا کر بچ جاتے ہیں لیکن عوام پس جاتی ہے ۔ جب جینے کے اسباب نہ رہیں تو مرنے والے دوسروں کو مارنے کے درپے ہو جاتے ہیں ۔ ملک مین روز گار میرٹ کی بجائے سیاسی وابستگی پر مل رہا ہے یا بھاری رشوت کے عوض ۔ قانون و انصاف زور آور اور پیسے والے کے سامنے سر نگوں رہتا ہے ۔ جب جی چاہتا ہے اشیائے ضروریہ مہنگی کر دی جاتی ہیں ۔ کیا یہ سب دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کے لیے کافی نہیں ۔ دیہاتوں مین وڈیرہ شاہی اور شہروں مین ڈان مسلسل عوام کا استحصال کر رہے ہیں ۔ سیاسیت اور لسانیت باہم شیر و شکر کر دیئے گئے ہیں ۔ ایک قوم کا خواب تو دور کی بات اب تو ایک گھر کے افراد میں بھی آپس مین برداشت کا مادہ نہین رہا ۔ کسی نئے لیڈر کو سامنے نہیں آنے دیا جا رہا ۔ ان حالات میں عوام اور محب وطن دانشوروں کو بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہو گا ۔ عوام کو سمجھ لینا چاہیئے کہ ہماری پہلی اور آخری منزل پاکستان ہی ہے ۔ ہم سیاست دانوں اور بیوروکریٹ کی طرح مشکل وقت مین دوسرے ممالک میں جا کر آباد نہیں ھو سکتے
 

dxbgraphics

محفلین
جو دہشت گرد ہیں ان کے خلاف کاروائی ضرور ہونی چاہیئے اس مین دو رائے ہو ہی نہیں سکتی ۔ لیکن کیا ہم نے مستقبل کے لیے بھی کچھ سوچا ہے کہ نہیں ۔ کیا ہم نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہین کہ مستقبل مین کوئی دہشت گرد نہ بنے ۔ ظاہر ہے کوئی بھی پیدائشی دہشت گرد نہیں ہوتا ، حالات و واقعات دہشت گرد پیدا کرنے کا زریعہ ہیں ۔ ہمیں پڑوسی ممالک اور چند دوسرے ممالک کے علاوہ اپنے لوگوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ سیاستدان و اسٹیبلشمنٹ میں موجود کالی بھیڑوں کی کرپشن سامنے آ چکی ہے یہ بھی ایک طرح کی دہشت گردی ہے ۔ عوام کے پیسے پر ڈاکہ ڈالا جائے گا تو حتمی نتیجہ عوام کی محرومی کی صورت نکلے گا ۔ یہ لوگ تو این آر او یا ایس آر او جیسے قوانین بنا کر بچ جاتے ہیں لیکن عوام پس جاتی ہے ۔ جب جینے کے اسباب نہ رہیں تو مرنے والے دوسروں کو مارنے کے درپے ہو جاتے ہیں ۔ ملک مین روز گار میرٹ کی بجائے سیاسی وابستگی پر مل رہا ہے یا بھاری رشوت کے عوض ۔ قانون و انصاف زور آور اور پیسے والے کے سامنے سر نگوں رہتا ہے ۔ جب جی چاہتا ہے اشیائے ضروریہ مہنگی کر دی جاتی ہیں ۔ کیا یہ سب دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کے لیے کافی نہیں ۔ دیہاتوں مین وڈیرہ شاہی اور شہروں مین ڈان مسلسل عوام کا استحصال کر رہے ہیں ۔ سیاسیت اور لسانیت باہم شیر و شکر کر دیئے گئے ہیں ۔ ایک قوم کا خواب تو دور کی بات اب تو ایک گھر کے افراد میں بھی آپس مین برداشت کا مادہ نہین رہا ۔ کسی نئے لیڈر کو سامنے نہیں آنے دیا جا رہا ۔ ان حالات میں عوام اور محب وطن دانشوروں کو بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہو گا ۔ عوام کو سمجھ لینا چاہیئے کہ ہماری پہلی اور آخری منزل پاکستان ہی ہے ۔ ہم سیاست دانوں اور بیوروکریٹ کی طرح مشکل وقت مین دوسرے ممالک میں جا کر آباد نہیں ھو سکتے

سچ بولنے کے جرم میں آپ کو طالبان کی حمایت کرنے کا الزام دیا جاسکتا ہے
 

ساجد

محفلین
عارف آپ ایک یورپی ملک میں رہائش پذیر ہیں، جہاں یہ بات اخلاق کے منافی سمجھی جاتی ہے کہ کسی سے اسکے مشاہرے کے بارے میں‌پوچھا جائے، ویسے بھی کسی بات کے جواب میں‌اس نوعیت کے سوال کی منطق مجھے بھی سمجھ نہیں‌آئی، بہت سے دوستوں کو غصہ ہے اور نفرت بھی امریکہ سے، شاید اسی لیئے یہ ان الفاظ کی صورت میں‌باہر نکل آتی ہے، جمہوریت میں‌لوگوں‌کے کام سے تو اختلاف ہو سکتا ہے ، مگر انکی ذاتی حیثیت کی اپنی اہمیت ہوتی ہے ، ہو سکتا ہے وہ ہم بہت زیادہ علمی صلاحیت کے مالک ہوں، اسلئے میں‌بھی آپ کی اس بات پر نکتہ ء اعتراض اٹھانے کی جسارت کر رہا ہوں، واضح رہے کہ آپ کی بات سے اختلاف کیا ہے، آپ کی شخصیت سے مجھے محبت ہے۔
یہ درست نہیں ہے۔
کسی ملک یا عوام سے نفرت نہیں۔
آپ شاید روانی تحریر میں ایسا لکھ گئے۔
یہ بالکل عارف کریم کے بارے میں آپ کے خیالات کے عین مطابق ہے کہ امریکہ کی سیاسی پالیسیوں سے مجھے اختلاف ہے لیکن اس ملک اور اس کے عوام کا مکمل احترام ملحوظ خاطر ہے۔
دوسروں کا معاملہ وہ خود جانیں میں نے اپنی بات کہہ دی۔
 

arifkarim

معطل
عارف ۔۔۔ اگر تم سے اس بحث میں ‌کوئی منطقی اور مثبت بات نہیں‌ ہوسکتی تو کم از کم کسی کی شخصیت اور ذاتیات کا تقدس بھی پامال مت کیا کرو ۔ ہر جگہ منہ کھولنے کا مطلب عقلمندی نہیں ہوتا ۔

منطقی بات؟ فواد صاحب نے ابتک کونسی منطقی بات کی ہے؟ میں نے جس بات پر وہ سوال اٹھایا تھا وہ یہ تھی:
!۔۔۔دہشت گردی کے عفريت کو شکست دينا اور اس کے نتيجے ميں بے گناہ شہریوں کی جانوں کی حفاظت ہماری اولين ترجيح ہے۔ ۔۔۔۔ !
تمام اعداد شمار اکٹھے کر لیں۔ 2001 سے لیکر ابتک زیادہ شہری / دیہاتی اتحادی افواج نے مارے ہیں یا انکے خود ساختہ "دہشت گردوں" نے!

اس ميں کوئ شک نہيں کہ افغانستان ميں فوجی کاروائ کا اہم مقصد 911 کے مجرموں کو کيفر کردار تک پہنچانا تھا۔ ليکن اس کے علاوہ يہ بھی ضروری تھا کہ مستقبل ميں دنيا کے کسی بھی حصے ميں دہشت گردی کی روک تھام کو يقينی بنايا جا سکے۔

کیا یہ "دنیا" امریکہ کی ملکیت ہے؟ :eek:

عارف آپ ایک یورپی ملک میں رہائش پذیر ہیں، جہاں یہ بات اخلاق کے منافی سمجھی جاتی ہے کہ کسی سے اسکے مشاہرے کے بارے میں‌پوچھا جائے، ویسے بھی کسی بات کے جواب میں‌اس نوعیت کے سوال کی منطق مجھے بھی سمجھ نہیں‌آئی، بہت سے دوستوں کو غصہ ہے اور نفرت بھی امریکہ سے، شاید اسی لیئے یہ ان الفاظ کی صورت میں‌باہر نکل آتی ہے، جمہوریت میں‌لوگوں‌کے کام سے تو اختلاف ہو سکتا ہے ، مگر انکی ذاتی حیثیت کی اپنی اہمیت ہوتی ہے ، ہو سکتا ہے وہ ہم بہت زیادہ علمی صلاحیت کے مالک ہوں، اسلئے میں‌بھی آپ کی اس بات پر نکتہ ء اعتراض اٹھانے کی جسارت کر رہا ہوں، واضح رہے کہ آپ کی بات سے اختلاف کیا ہے، آپ کی شخصیت سے مجھے محبت ہے۔
میرے اس "سوال" کو تو مغربی نگاہ سے دیکھ کر اخلاقی جرم کہا جا رہا ہے۔ جبکہ فواد صاحب جو اکثر بے منطقی پراپیگنڈا پوسٹس کرتے رہتے ہیں، جسکا دور دور تک بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، کو سب لوگ بہت آرام سے نگل جاتے ہیں۔ جب وہ امریکی ترجمان کی حیثیت سے یہ کہتے ہیں کہ :
دہشت گردی کے عفريت کو شکست دينا اور اس کے نتيجے ميں بے گناہ شہریوں کی جانوں کی حفاظت ہماری اولين ترجيح ہے۔
اس " سفید جھوٹ" پر کیوں‌کوئی مغربی اخلاقی جرم کا لیبل نہیں لگاتا؟ اس پر سوچیں! :)

جو دہشت گرد ہیں ان کے خلاف کاروائی ضرور ہونی چاہیئے اس مین دو رائے ہو ہی نہیں سکتی ۔ لیکن کیا ہم نے مستقبل کے لیے بھی کچھ سوچا ہے کہ نہیں ۔ کیا ہم نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہین کہ مستقبل مین کوئی دہشت گرد نہ بنے ۔ ظاہر ہے کوئی بھی پیدائشی دہشت گرد نہیں ہوتا ، حالات و واقعات دہشت گرد پیدا کرنے کا زریعہ ہیں ۔ ہمیں پڑوسی ممالک اور چند دوسرے ممالک کے علاوہ اپنے لوگوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ سیاستدان و اسٹیبلشمنٹ میں موجود کالی بھیڑوں کی کرپشن سامنے آ چکی ہے یہ بھی ایک طرح کی دہشت گردی ہے ۔ عوام کے پیسے پر ڈاکہ ڈالا جائے گا تو حتمی نتیجہ عوام کی محرومی کی صورت نکلے گا ۔ یہ لوگ تو این آر او یا ایس آر او جیسے قوانین بنا کر بچ جاتے ہیں لیکن عوام پس جاتی ہے ۔ جب جینے کے اسباب نہ رہیں تو مرنے والے دوسروں کو مارنے کے درپے ہو جاتے ہیں ۔ ملک مین روز گار میرٹ کی بجائے سیاسی وابستگی پر مل رہا ہے یا بھاری رشوت کے عوض ۔ قانون و انصاف زور آور اور پیسے والے کے سامنے سر نگوں رہتا ہے ۔ جب جی چاہتا ہے اشیائے ضروریہ مہنگی کر دی جاتی ہیں ۔ کیا یہ سب دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کے لیے کافی نہیں ۔ دیہاتوں مین وڈیرہ شاہی اور شہروں مین ڈان مسلسل عوام کا استحصال کر رہے ہیں ۔ سیاسیت اور لسانیت باہم شیر و شکر کر دیئے گئے ہیں ۔ ایک قوم کا خواب تو دور کی بات اب تو ایک گھر کے افراد میں بھی آپس مین برداشت کا مادہ نہین رہا ۔ کسی نئے لیڈر کو سامنے نہیں آنے دیا جا رہا ۔ ان حالات میں عوام اور محب وطن دانشوروں کو بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہو گا ۔ عوام کو سمجھ لینا چاہیئے کہ ہماری پہلی اور آخری منزل پاکستان ہی ہے ۔ ہم سیاست دانوں اور بیوروکریٹ کی طرح مشکل وقت مین دوسرے ممالک میں جا کر آباد نہیں ھو سکتے
بہت اچھا تجزیہ ہے جناب! کوئی دہشت گرد نہیں‌ہوتا۔ حالات اسے مجبور کرتے ہیں! :rolleyes:
 

arifkarim

معطل
یہ بالکل عارف کریم کے بارے میں آپ کے خیالات کے عین مطابق ہے کہ امریکہ کی سیاسی پالیسیوں سے مجھے اختلاف ہے لیکن اس ملک اور اس کے عوام کا مکمل احترام ملحوظ خاطر ہے۔
کیا عوام یعنی کانگریس ان "سیاسی" پالیسیوں میں برابر کی شریک نہیں‌ہوتی؟
 

ساجد

محفلین
کیا عوام یعنی کانگریس ان "سیاسی" پالیسیوں میں برابر کی شریک نہیں‌ہوتی؟
عارف ایک حد تک آپ کی بات درست بھی ہے لیکن ہر فیصلہ عوامی خواہشات کے مطابق امریکہ جیسے ملک میں بھی نہیں ہوتا۔
آپ دیکھ لیں کہ جمہوریت کا چمپئن یورپ بھی اپنے عوام کی افغان پالیسی پہ ہونے والی تنقید اور مظاہروں پہ کوئی خاص توجہ نہں دیتا۔ ہم سب میڈیا کے ذریعہ تازہ ترین معلومات رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اس معاملہ میں یورپی حکومتوں کو اب عوامی دباؤ کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی افواج بھیج رہے ہیں۔ ایسی باتوں کو میں محفل پہ اس لئیے شامل نہیں کرتا کہ کچھ دوستوں کو یہ بات پسند نہیں آتی اور کچھ دوست اس قسم کی خبروں پہ ہائپر ہو جاتے ہیں۔
فواد صاحب کا حوصلہ ہے کہ اردو محفل سمیت بہت ساری سائٹس پہ ہم جیسوں کی دل آزاری کا ساماں مہیا کرتے کرتے تھکتے نہیں ہیں۔ اور ہم فضول کی بحث میں پڑتے نہیں کہ اس سے حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ اور ویسے بھی ہر کسی کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے تو جناب ہم ان کے سنہری اقوال کو قہرِ درویش بر جانِ درویش کے مصداق ہمہ تن گوش ہو کر سنتے ہیں ۔ اگر وہ کبھی کچھ اچھا لکھ دیں تو سر دھنتے ہیں بہ صورت دیگر سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ اور مؤخر الذکر صورت ’حال" زیادہ تر دیکھنے کو ملتی ہے۔
نہ ہمارے لکھنے سے کچھ بدلنے والا ہے اور نہ فواد صاحب کی حکمت سورج کو مغرب سے طلوع کروانے والی ہے لیکن دیکھتی آنکھیں، سنتے کان ابھی بے حس نہیں ہوئے کہ رات کو دن کہہ دیں۔ قریب سترہ کروڑ پاکستانی ،پانچ کروڑ عراقی اور اس کے علاوہ دنیا کا سب سے آباد خطہ ایشیا کیا سوچ رہا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔
امریکہ کا ایک چہرہ اور بھی ہے وہ ہے علم و فن اور تکنیک کاروں کی قدر و عزت افزائی کا۔ لیکن آج کی سیاست امریکہ کے اس چہرے کو بری طرح مسخ کر رہی ہے۔ شاید اسی بنا پہ انیس صاحب نے قیاس کیا کہ ہم لوگ امریکہ سے نفرت کرتے ہیں۔ نہیں جناب امریکہ سے نفرت ہر گز نہیں۔ امریکہ تو خود ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان کے ہاتھوں ہائی جیک ہو چکا ہے۔ اس ہائی جیکنگ سے امریکہ ایک دن آزاد ہو جائے گا اور پہلے ہی کی طرح سے دنیا میں انسانی حقوق اور آزادی کا علم بردار بنے گا اور تب تک ہمیں بہت کچھ صبر و ہمت سے برداشت کرنا ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

مختلف فورمز، اردو اخبارات کے کالمز اور ٹی وی ٹاک شوز پر تجزيوں سے يہ تاثر ملتا ہے کہ امريکہ 30،000 فوجی افغانستان ميں نہيں بلکہ پاکستان ميں بيجھ رہا ہے۔ کچھ فورمز نے تو دانستہ صدر اوبامہ کی تقرير اسی غلط شہ سرخی کے ساتھ پوسٹ کی ہے۔

ميں يہ واضح کر دينا چاہتا ہوں کہ امريکی افواج ميں اضافے کا فيصلہ افغانستان ميں امريکی کاوشوں کی تقويت اور زمينی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے افغان حکومت کی اجازت سے کيا گيا ہے۔

جہاں تک پاکستان سے متعلق مختلف تجزيہ نگاروں کی جانب سے بيان کردہ خدشات، بے چينی اور سازشی کہانيوں کا تعلق ہے جو کہ آزاد امريکی ميڈيا پر مختلف رپورٹس اور تجزيوں کا ريفرنس ديتے ہيں، ان کی توجہ امريکی وزير دفاع رابرٹ گيٹس کے حاليہ بيان کی جانب دلوانا چاہتا ہوں۔

"امريکہ پاکستان کے اندر طالبان کے ليڈروں کا تعاقب نہيں کرے گا۔ يہ اسلام آباد پر منحصر ہے کہ وہ اپنے علاقے کے اندر عسکريت پسندوں کی جانب سے درپيش خطرے کا مقابلہ کرے۔ پاکستان ميں ايک خود مختار حکومت ہے۔ ہم ان کے ساتھ باہم اشتراک کے ساتھ کام کر رہے ہيں۔ ميرے خيال ميں اس موقع پر پاکستانی فوج پر منحصر ہے کہ اس مسلئے سے نبرد آزما ہوں۔"

يہ امريکہ کی سينير قيادت کی جانب سے واضح اور آن دا ريکارڈ پاليسی بيان ہے جو يقينی طور کسی آزاد صحافی يا کسی ميڈيا گروپ سے منسلک تجزيہ نگار کی رائے سے زيادہ وزنی اور مستند ہے۔

جہاں تک مقبول عام "امريکہ پاکستان کے ايٹمی ہتھياروں پر قبضہ کرنے کے درپے ہے" جيسے الزامات کا سوال ہے تو اس معاملے ميں بھی وزير دفاع رابرٹ گيٹس نے يہ واضح کر ديا ہے کہ امريکہ کو مکمل اعتماد ہے کہ پاکستان کے ايٹمی ہتھيار عسکريت پسندوں کی جانب سے درپيش خطرات کے باوجود محفوظ ہيں۔

"ہم ملک کے ايٹمی ہتھياروں کی سيکورٹی کے حوالے سے مکمل طور پر مطمن ہيں"۔

جب امريکی حکومت کا کوئ اعلی عہديدار کسی ايشو پر کوئ بيان جاری کرتا ہے تو وہ اس معاملے پر براہراست امريکی حکومت کے موقف اور پاليسی کی ترجمانی کرتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

dxbgraphics

محفلین
ہاں امریکہ نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے دنیا کو ٹھیک کرنے کا ۔۔۔ اپنے غلط انداز سے۔ ۔۔۔۔۔ اپنی بدمعاشی سے ۔۔۔۔۔۔ اور سب سے بڑی بات اپنی مکاری اور سوسالہ منصوبہ بندی کی سازشوں سے
 

dxbgraphics

محفلین
اس وقت وہ محاورہ صحیح بیٹھتا ہے امریکہ کی پوزیشن پر ۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔

جن لوگوں کو خود پیدا کیا انہی کو استعمال کیا اور مہلک ہتھیاروں کے بہانے عراق کو تباہ و برباد کر دیا ۔ پھر افغانستان کو






لیکن پاکستان میں دہشت گردی اور نجی سیکیورٹی ایجنسیوں کے ذریعے دھماکے اور حالات خراب کر کے پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔اور ذلیل و خوار ہوگا۔
 

arifkarim

معطل
اسوقت دنیا میں تین قسم کے لوگ ہیں؛
1) پراپیگنڈا کرنے والے
2) حقیقت کو پرکھنے والے
3) حقیقت جان کر آنکھیں بند کرنے والے
یہ تیسری قسم اسوقت دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور ظالمین کا ساتھ دینے والے جہنم کے نچلے ترین درجوں میں‌ہوں‌گے۔ آپ سمجھے میں طالبان کی بات کر رہا ہوں؟ نہیں میں‌عام شہریوں کی بات کر رہا تھا!
 
Top