امريکی قوم سے صدر اوبامہ کا خطاب

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

بالکل درست۔ پہلی بار آپنے ایک سچی بات کہی ہے۔ امریکہ ہمیشہ دونوں مخالف پارٹیز کو اسلحہ کی فراہمی نیز ٹریننگ کی موصولی کو یقینی بناتا ہے۔ یوں جنگ میں جس پارٹی کو ہرانا ہو اسکے رازوغیرہ باآسانی دوسرے حریف تک منتقل کر دئے جاتے ہیں۔ ذرا سوچئے اگر امریکہ یہ سب نہ کرے، جنگیں ختم ہو جائیں تو اسکی اسلحہ ساز انڈسٹری کا تو بینڈ باجا بج جائے گا! :)


سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی معيشت ترقی کے ليے دفاع کی صنعت پر انحصار نہيں کرتی۔ يہ بھی ياد رہے کہ صرف اسلحہ سازی ہی وہ واحد صنعت نہيں ہے جس ميں امريکہ عالمی رينکنگ ميں سب سے اوپر ہے۔ چاہے وہ تعليم ،زرعات، آئ – ٹی ،جہاز سازی يا تفريح کی صنعت ہو، امريکی معيشت کسی ايک صنعت پر مخصوص نہيں ہے۔

يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ امريکہ جنگ يا تشدد سے متاثرہ علاقوں کو معاشی اور سازوسامان پر مبنی امداد مہيا کرنے والوں ممالک ميں سر فہرست ہے۔

اس بات کی کيا منطق ہے کہ امريکہ دانستہ فوجی کاروائيوں اور جنگوں کی ترغيب اورحمايت کرے اور پھر متاثرہ علاقوں کی مدد کے ليے اپنے بيش بہا معاشی اور انسانی وسائل بھی فراہم کرے؟

اعداد وشمار اور عملی حقائق اس تھيوری کو غلط ثابت کرتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

فرخ

محفلین
عارف کی اس بات میں‌تو خاصا وزن ہے۔ اور میرا خیال ہے، کہ امریکہ جتنا سرمایہ اس امداد اور فوجی ٹریننگ اور اسلحہ میں‌صرف کرتا ہے، اتنا یا اس سے زیادہ انہی جنگوں کی وجہ سے کماتا بھی ہے، کیونکہ اسکا اسلحہ ایسے ہی حالات کی وجہ سے فروخت ہوتا ہے۔
اس میدان میں‌اسکا سب سے بڑا حریف روس بھی ہے اور اب شائید چین بھی۔ اور اس وقت افغانستان میں امریکی اسلحے کے ساتھ ساتھ روسی اسلحہ بھی خوب بکتا ہے۔اور اس کاروبار میں‌عرب ممالک بھی پیش پیش ہیں۔

امریکہ کی اسرائیل کو جیسی بھی اور جتنی بھی امداد جاتی ہے، مسئلہ اس بات کا نہیں، بلکہ امریکہ اس بات سے آنکھیں بند کر لیتا ہے کہ اسکی دی ہوئی فوجی اور دیگر امداد اسرائیل کیسے دھشت گردی میں‌استعمال کرتا ہے، کتنی تباہی مچاتا ہے اور مسلسل فلطسین کے علاقے قبضے میں کئے جا رہا ہے۔ اسکے علاوہ امریکہ کی مختلف کمپبنیاں بھی گریٹر اسرائیل کے قیام کی خاطر اسے فنڈز فراہم کرتیں‌ہیں۔اور انہی فنڈز کے ذریعے اسرائیل نئی یہودی بستیاں بھی قائم کئے جارہا ہے اور وہاں کے مقامی مسلمانوں کو بے دخل کر کے دنیا بھر سے یہودیوں کو لا لا کر وہاں بسا رہا ہے۔

مگر امریکہ کے انصاف کا رونا رونے والے کبھی اس موضوع پر بات نہیں‌کرتے کہ امریکہ، اسرائیلی دھشت گردی کو روکنے کے لیئے کوئی ایسا قدم نہیں‌اُٹھاتا جیسے اس نے عراق اور افغانستان کے خلاف اُٹھایا ، حالانکہ امریکی اچھی طرح‌جانتے ہیں‌کہ اسرائیل کی اس کھلی جارحیت اور دھشت گردی (جس میں وہ آج بھی روزآنہ بڑی تعداد میں نہتے اور معصوم لوگوں کا خون بہا رہا ہے) کے پیچھے امریکی امداد اور سپورٹ ہی کارفرما ہے اور اب پاکستان کے خلاف، ہندوستانی معشیت اور فوجی قوت کو سپورٹ کر رہا ہے۔

اور اسی وجہ سے میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ یہ یہود و نصارٰی کبھی مسلمانوں‌کے نہ دوست رہے ہیں اور نہ ہونگے۔ اور یہ اللہ جل شانہ نے قرآن پاک میں‌فرما دیا ہے۔

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی معيشت ترقی کے ليے دفاع کی صنعت پر انحصار نہيں کرتی۔ يہ بھی ياد رہے کہ صرف اسلحہ سازی ہی وہ واحد صنعت نہيں ہے جس ميں امريکہ عالمی رينکنگ ميں سب سے اوپر ہے۔ چاہے وہ تعليم ،زرعات، آئ – ٹی ،جہاز سازی يا تفريح کی صنعت ہو، امريکی معيشت کسی ايک صنعت پر مخصوص نہيں ہے۔

يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ امريکہ جنگ يا تشدد سے متاثرہ علاقوں کو معاشی اور سازوسامان پر مبنی امداد مہيا کرنے والوں ممالک ميں سر فہرست ہے۔

اس بات کی کيا منطق ہے کہ امريکہ دانستہ فوجی کاروائيوں اور جنگوں کی ترغيب اورحمايت کرے اور پھر متاثرہ علاقوں کی مدد کے ليے اپنے بيش بہا معاشی اور انسانی وسائل بھی فراہم کرے؟

اعداد وشمار اور عملی حقائق اس تھيوری کو غلط ثابت کرتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

ساجد

محفلین
اس میدان میں‌اسکا سب سے بڑا حریف روس بھی ہے اور اب شائید چین بھی۔ اور اس وقت افغانستان میں امریکی اسلحے کے ساتھ ساتھ روسی اسلحہ بھی خوب بکتا ہے۔اور اس کاروبار میں‌عرب ممالک بھی پیش پیش ہیں۔


مگر امریکہ کے انصاف کا رونا رونے والے کبھی اس موضوع پر بات نہیں‌کرتے کہ امریکہ، اسرائیلی دھشت گردی کو روکنے کے لیئے کوئی ایسا قدم نہیں‌اُٹھاتا جیسے اس نے عراق اور افغانستان کے خلاف اُٹھایا ، حالانکہ امریکی اچھی طرح‌جانتے ہیں‌کہ اسرائیل کی اس کھلی جارحیت اور دھشت گردی (جس میں وہ آج بھی روزآنہ بڑی تعداد میں نہتے اور معصوم لوگوں کا خون بہا رہا ہے) کے پیچھے امریکی امداد اور سپورٹ ہی کارفرما ہے اور اب پاکستان کے خلاف، ہندوستانی معشیت اور فوجی قوت کو سپورٹ کر رہا ہے۔

اور اسی وجہ سے میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ یہ یہود و نصارٰی کبھی مسلمانوں‌کے نہ دوست رہے ہیں اور نہ ہونگے۔ اور یہ اللہ جل شانہ نے قرآن پاک میں‌فرما دیا ہے۔
اول الذکر بات کچھ تفصیل سے سمجھا دیجئیے۔
ثانی الذکر بات ، ہر غیر جانبدار ذی روح کا امریکہ سے سوال ہے لیکن اس کا جواب کبھی نہیں ملتا۔
 

فرخ

محفلین
ساجد بھائی،
میرا اشارہ اسمیں عرب ممالک کی موجودہ جہادی تنظیموں کو سپورٹ بھی شامل ہے اور اسکے علاوہ اپنی اپنی فوجیں رکھنے میں‌ بھی اسلحہ خریدنے کے لئے امریکہ اور روس سے رجوع کرتے ہیں۔
مجاھدین کی تنظیموں‌کو سپورٹ کرنے کے لئے یہ امریکہ سمیت ان دیگر ممالک جن میں‌پاکستان بھی شامل ہے، سے اسلحہ خریدتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح امریکہ کے مقروض بھی ہیں اور امریکہ کی مسلط کردہ جنگ بھی کسی نہ کسی شکل میں لڑ رہے ہیں، تو گویا پیسہ امریکہ کا ہی گردش میں‌ہے اس سلسلے میں۔

اول الذکر بات کچھ تفصیل سے سمجھا دیجئیے۔
ثانی الذکر بات ، ہر غیر جانبدار ذی روح کا امریکہ سے سوال ہے لیکن اس کا جواب کبھی نہیں ملتا۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

مگر امریکہ کے انصاف کا رونا رونے والے کبھی اس موضوع پر بات نہیں‌کرتے کہ امریکہ، اسرائیلی دھشت گردی کو روکنے کے لیئے کوئی ایسا قدم نہیں‌اُٹھاتا جیسے اس نے عراق اور افغانستان کے خلاف اُٹھایا


افغانستان ميں دہشت گردی اور مسلہ فلسطين ميں کوئ مماثلت نہيں ہے۔ امريکہ افغانستان ميں فوجی کاروائ کے ضمن ميں براہراست کردار اس ليے ادا کر رہا ہے کيونکہ افغانستان سے جنم لينے والے دہشت گردی کے عفريت سے امريکہ کو براہراست نشانہ بنايا گيا تھا۔

اس کے برعکس فلسطين کے معاملے ميں امريکہ براہراست فريق نہيں ہے۔ اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعہ کئ دہائيوں پر محيط ہے۔ اس مسلئے کے حل کے ليے عالمی برادری کی جانب سے ايک اجتماعی کوشش کی جا رہی ہے اور امريکہ اس عالمی کوشش کا حصہ ہے۔ ليکن اس مسلئے کے فيصلہ کن اور حتمی تصفيے کا اختيار امريکی حکومت کے ہاتھوں ميں نہيں ہے۔

ميں آپ کو ياد دلانا چاہتا ہوں کہ امريکہ وہ واحد ملک نہيں ہے جس نے اسرائيل کے وجود کو تسليم کيا ہے۔ اقوام متحدہ ميں اسرائيل ايک تسليم شدہ ملک کی حيثيت سے شامل ہے۔

سال 2002 ميں بيروت کے مقام پر عرب ليگ کے اجلاس ميں تمام ممبر ممالک کی جانب سے ايک امن معاہدہ پيش کيا گيا تھا جس ميں 20 عرب ممالک نے اسرائيل کے وجود کو تسليم کرتے ہوئے اس بات کی اہمیت پر زور ديا تھا کہ امن کے تناظر ميں اسرائيل کے ساتھ معمول کے تعلقات کی بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

عرب ليگ ميں شامل ممالک کی لسٹ آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہیں۔

http://img40.imageshack.us/img40/7209/clipimage0021.jpg

اسرائيل اور فلسطين کے مسلئے کے حوالے سے امريکی حکومت کے موقف اور نقطہ نظر کو نہ صرف عالمی برادری ميں حمايت حاصل ہے بلکہ عرب ليگ کی جانب سے کی جانے والی امن کی کوششيں بھی اسی سمت ميں ہيں جس کے مطابق اس مسلئے کا حل دو الگ رياستوں کا قيام ہے جہاں فلسطينی اور اسرائيلی امن اور سکون کے ساتھ رہ سکيں۔

صدر اوبامہ نے قاہرہ ميں تقرير کے دوران اسی نقطہ نظر کا اعادہ کيا تھا۔

" عرب امن کوششوں پر مزيد کام کرتے ہوئے عرب رياستوں پر لازم ہے کہ وہ فلسطينی رياست کی بقا کے لیے اداروں کی تشکيل ميں فلسطينی عوام کی مدد کريں اور اسرائيلی کی قانونی حيثيت تسليم کريں۔ اس کے علاوہ ماضی ميں جھانکنے کی ناکام روش کے مقابلے ميں ترقی پر فوکس کرنا ہوگا۔ "

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

arifkarim

معطل
اس بات کی کيا منطق ہے کہ امريکہ دانستہ فوجی کاروائيوں اور جنگوں کی ترغيب اورحمايت کرے اور پھر متاثرہ علاقوں کی مدد کے ليے اپنے بيش بہا معاشی اور انسانی وسائل بھی فراہم کرے؟
منطق صاف ظاہر ہے۔ پہلے بمباری کرکے پیسا کمایا۔ پھر اپنی باقی ماندہ کمپنیز اور کارپوریشنز کے منافع کی خاطر تباہ شدہ ملک کو دوبارہ(اپنے نام سے) آباد کیا! تیسرا اپنے دجالی بینکنگ نظام سے اسکی عوام کو مفلوج کیا۔:grin:

جس کے مطابق اس مسلئے کا حل دو الگ رياستوں کا قيام ہے جہاں فلسطينی اور اسرائيلی امن اور سکون کے ساتھ رہ سکيں۔
دو الگ ریاستیں‌تو پہلے ہی سے موجود ہیں، مزید کیا بنانے کے چکروں میں ہیں؟ نیز کسی کو اپنے گھر سے بے دخل کرکے اگر کوئی اسکون حاصل کرنے کا فلسفہ پیش کرسکتا ہے تو اسکا نمائندہ حضرت امریکہ سے بڑا اور کون ہو سکتا ہے۔ کئی سو سال قبل یورپ کے باسیوں نے امریکہ کی اولین قوموں کو اپنے علاقوں سے بے گھر کر کے انکی زمین پر ناجائز قبضہ کر لیا جو آجتک قائم ہے۔ اپنا حساب دیا نہیں، چلے دوسروں کی وقالت کرنے!
 
Top