امريکی قوم سے صدر اوبامہ کا خطاب

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اسامہ بن لادن بھی امریکہ کی سپورٹ سے یہاں سویت یونین سے لڑنے آیا تھا ۔ ۔


امريکہ کو دہشت گرد قرار دينے کے حوالے سے ايک دليل جو ميں نے اکثر فورمز پر ديکھی ہے وہ يہ ہے کہ امريکہ اگر 80 کی دہاہی ميں افغانستان ميں مداخلت نہ کرتا تو يہ دہشت گرد کبھی پيدا نہ ہوتے۔ اس حوالے سے ہم کچھ تاريخی حقائق ہميشہ پس پشت ڈال ديتے ہيں۔ جب روس نے افغانستان پر حملہ کيا تھا تو صرف امريکہ ہی وہ ملک نہيں تھا جس نے افغانستان کی فوجی اور مالی مدد کی تھی۔ اس ميں امريکہ سميت پاکستان، چين، سعودی عرب، شام اور برطانيہ شامل تھے۔

برگيڈير محمد يوسف 1983 سے 1987 تک آئ– ايس - آئ ميں افغان بيرو کے انچارج تھے۔ انھوں نے بھی اپنی کتاب "بير ٹريپ" کے صفحہ 81 پر اس بات کی تصديق کی ہے کہ افغان جہاد کے دوران جتنی مالی امداد امريکہ نے دی تھی اتنی ہی سعودی عرب نے بھی دی تھی۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ساری امداد افغانستان تک منتقل کرنے کی ذمہ داری پاکستان نے لی تھی۔ اس وقت کے زمينی حقاۂق کے حوالے سے افغانستان کی مدد کرنے کا فيصلہ درست تھا۔ کيا افغانستان جيسے چھوٹے سے ملک کو روس جيسی سپر پاور کے رحم وکرم پر چھوڑ دينا صحيح فيصلہ ہوتا ؟

افغانستان ميں جنگ کے دوران بہت سے عرب مختلف ممالک سے آ کر اس جنگ ميں شامل ہو گئے۔ يہی عرب بعد ميں القائدہ کی بنياد بنے۔ امريکی ادارے سی – آئ – اے کی طرف سے جو فوجی اور مالی امداد پاکستان کے ذريعے افغانستان تک پہنچی اس کا محور مقامی افغان باشندے تھے نا کہ باہر سے آئے ہوئے عرب۔ اس بات کا اعتراف القاعدہ کے نمبر دو ليڈر ايمن الزواری نے بھی اپنی کتاب " ناۂٹس انڈر دی پرافٹ بينر" ميں کيا ہے۔ ان کی يہ کتاب کثير الاشعاعت سعودی اخبار" الشرق الاوسط" ميں دسمبر 2001 ميں سلسلہ وار شائع ہوئ تھی۔ اس کتاب سے ايک اقتباس – "افغان جہاد ميں امريکہ نے پاکستان اور مقامی افغان مجاہدين کی مالی اور فوجی مدد کی تھی۔ ليکن عرب سے آئے ہوئے مجاہدين اس ميں شامل نہيں تھے۔ ان عرب مجاہدين کی مالی امداد بہت سی نجی عرب تنظيموں نے کی تھی اور يہ امداد بہت بڑی تعداد ميں تھی"۔

ملٹ بيرڈن 1986 سے 1989 کے درميانی عرصے ميں پاکستان ميں سی – آئ – اے کے اسٹيشن چيف تھے۔ افغانستان تک پہنچائ جانے والی امداد انہی کی زير نگرانی ہوتی تھی۔ وہ اپنی سوانح حيات "مين اينمی" کے صفحہ 219 پر لکھتے ہيں کہ" افغان مجاہدين کو مالی اور فوجی امداد دينے کے ضمن ميں امريکہ، پاکستان، سعودی عرب، چين اور شام اہم کھلاڑی تھے۔ اس ضمن ميں سی – آئ – اے نے کبھی بھی عرب سے آئے ہوئے مجاہدين کو ٹرينيگ دی اور نہ ہی انہيں اسلحہ فراہم کيا"۔

ان حقاۂق کی روشنی ميں افغان جہاد کے دوران دی جانے والی فوجی اور مالی امداد کو موجودہ دور کی دہشت گردی کی وجہ قرار دينا سرار غلط ہے۔ افغان جہاد کے دوران امريکہ اور سعودی عرب سميت ديگر ممالک نے جو فوجی اور مالی امداد کی تھی وہ افغان عوام کو روسی جارحيت سے نجات دلانے کے ليے تھی ۔ اس کا مقصد مستقبل کے ليے دہشت گرد تيار کرنا نہيں تھا۔ القائدہ کی بنياد امريکہ نے نہيں رکھی تھی اس کے ذمہ دار وہ عرب جنگجو تھے جو اس جنگ کا حصہ بنے تھے اور اس بات کا اظہار القائدہ کی ليڈرشپ بارہا کر چکی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team - US State Department

پاکستان مین ہر حکومت امریکہ کی مرضی سے بنتی ہے اور ختم ہوتی ہے ۔ ۔

آپ بغير کسی ثبوت کے ايک عمومی تاثر کی بات کر رہے ہيں۔مجھے 90 کی دہائ ميں پاکستان کے کچھ انتخابات اور سياسی پارٹيوں کے انتخابی عمل کو بہت قريب سے ديکھنے کا تجربہ ہے۔ يہ درست ہے کہ پاکستان ميں انتخابی دھاندليوں اور جاگيداروں اور وڈيروں کے اثر ورسوخ پر مبنی کہانيوں پر کافی بحث کی جا سکتی ہے۔ ليکن مجھے آج تک پاکستان کے دوردراز ديہاتوں، قصبوں اور پہاڑوں ميں امريکی ووٹ ڈالتے نہيں دکھائ ديے اور مجھے يقين ہے کہ آپ نے بھی نہيں ديکھے ہوں گے۔ ميں اپنا نقطہ نظر دہراؤں گا کہ پاکستان ميں سياسی قيادت ميں بہتری لانے کی ذمہ داری يا تو پاکستانی ووٹرز پر عائد ہوتی ہے يا ان لوگوں پر جو اپنے لیے سياسی قيادت منتخب کرنے کی ذمہ داری اور حق کو استعمال کرنا ضروری نہيں سمجھتے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کیے تو انہیں وزارت عظمٰی سے ہاتھ دھونے پڑے ۔ ۔

پاکستانی سياست ميں مخالفين پر "امريکی کٹھ پتلی" کا الزام عائد کرنا ايک روايتی عمل ہے۔ اس ضمن ميں صدر آصف زرداری پر لگائے جانے والے حاليہ الزامات ايک مخصوص سوچ اور تاثر کی غمازی کرتے ہيں۔

اپنی بات کی وضاحت کے ليے ميں ايک رپورٹ کا اقتتباس پيش کر رہا ہوں جو سال 1999 ميں نواز شريف کی حکومت کے خاتمے کے بعد منظر عام پر آئ تھی۔ يہ رپورٹ صحافيوں کی ايک نجی عالمی تنظيم سی – پی – جے نے پاکستان ميں موجود عمومی تاثر کی بنياد پر صحافيوں سميت سول سوسائٹی کی رائے عامہ پر تيار کی تھی۔ يہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ اس وقت نواز شريف کو "امريکی کٹھ پتلی" قرار دے کر ان کے بارے ميں بھی انھی مخصوص منفی خيالات کا اظہار کيا جا رہا تھا۔

"نواز شريف کی جانب سے صحافت پر پابندی، اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے ليے انتہائ کوشش ہے۔ ان کی جانب سے حکومت کے ديگر اداروں کو پس پشت ڈال کر ہر قيمت پر وزير اعظم کے اختيارات ميں اضافے کی کوششوں نے انھيں پاکستان کی تاريخ کا طاقتور ترين ليڈر بنا ديا تھا۔ ليکن ان کی ان کوششوں کے سبب وہ ملکی اور غير ملکی سطح پر تنہا ہو گئے۔ جولائ کے وسط ميں جب (مبينہ طور پر) امريکہ کے ايمہ پر انھوں نے کارگل سے اپنی افواج واپس بلوائيں تو ملکی سطح پر انھيں "امريکہ کی کٹھ پتلی" قرار دے کر شديد تنقيد کا سامنا کرنا پڑا"۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

سویت یونین تحلیل ہوا تو ضیاء الحق کے طیارے کو اڑا دیا گیا ۔ ۔


آپ ايک بہت اہم نقطہ نظرانداز کر رہے ہيں کہ جس حادثے ميں جرنل ضياالحق جاں بحق ہوئے تھے اس ميں امريکی سفير آرنلڈ رافيل اور امريکی ملٹری ايڈوازری گروپ کے صدر ہربٹ واسم بھی شامل تھے۔ يہ مفروضہ ميں بہت سے اردو فورمز پر پڑھ چکا ہوں کہ افغانستان ميں روسی افواج کی شکست کے بعد امريکہ کے ليے جرنل ضيا کی "ضرورت" ختم ہو گی تھی اس ليے انھيں مروا ديا گيا۔ يہ کيسی منطق ہے کہ امريکہ ايک "غير ضروری" اور "استعمال شدہ جرنل" کو راستے سے ہٹانے کے ليے اپنے دو انتہائ اہم افسران کو از خود موت کی گھاٹ اتار دے؟ ايک طرف تو يہ الزام لگايا جاتا ہے کہ سی – آی – اے اتنا بااختيار ادارہ ہے کہ کسی بھی ملک کا نظام تبديل کرسکتا ہے پھر جرنل ضيا کو مروانے کے ليے ايسی پرواز کا انتخاب کيوں کيا گيا جس ميں خود ان کے اپنے سينير افسران شامل تھے؟

اسی طرح آپ نے بھٹو صاحب کی پھانسی بھی امريکہ کے کھاتے ميں ڈال دی۔ اگر امريکہ بھٹو کے اتنا خلاف تھا تو پھر يہ الزام کيوں لگايا جاتا ہے کہ امريکہ نے 1988 ميں بےنظير بھٹو کو اقتدار دلوانے کے ليے باقاعدہ ڈيل کروائ اور پھر بے نظير بھٹو امریکہ کے اشارے پر ہی پاکستان آئ تھيں۔ منطق کے اعتبار سے تو يہ دونوں الزامات ايک دوسرے کی نفی کرتے ہيں۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

میں اب بھی یہی کہوں‌گا۔ کہ یہ یہودو نصارٰ اور ان کے چاہنے والے بظاہر مسلمان نظر آنے والے لوگ کبھی ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔

اس ضمن ميں يہ وضاحت کر دوں کہ جب ميں امريکہ کی بات کرتا ہوں تو ميرا اشارہ عيسائ، يہودی يا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد يا گروہ کی طرف نہيں ہوتا۔ امريکہ ميں لاکھوں کی تعداد ميں مسلمان بھی بستے ہيں جو کسی بھی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرح امريکی معاشرے کا لازم وملزوم حصہ ہيں۔ لاکھوں کی تعداد ميں مسلمان نہ صرف يہ کہ امريکی حکومت کو ٹيکس ادا کرتے ہیں بلکہ امريکی فوج، بحريہ، کانگريس اور اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سميت ہر شعبہ زندگی ميں اپنا کردار ادا کر رہے ہيں۔ امريکی معاشرے ميں مذہبی وابستگی کی بنياد پر مختلف عہدوں کے ليے افراد کا انتخاب نہيں کيا جاتا اور يہی پيمانہ حکومتی عہدوں کے ليے بھی استعمال کيا جاتا ہے۔


مستقبل ميں بھی مختلف عالمی ايشوز کے حوالے سے امريکہ کی پاليسياں جيسی بھی ہوں گی ، ايک بات واضح ہے کہ ان کی بنياد مذہب پر نہيں ہو گی۔ جيسا کہ صدر اوبامہ نے بھی اپنے ابتدائ خطاب ميں اس بات کی وضاحت کی ہے۔ "ہم عيسائ، ہندو، يہود، مسلم اور کسی مذہب پر يقين نہ رکھنے والے افراد پر مشتمل ايک قوم ہیں۔ بحثيت قوم ہم کرہ ارض کے ہر کونے سے آنے والے افراد، زبان اور ثقافت پر مشتمل ہيں"۔ اس حقیقت کے پيش نظر امريکہ اپنی پاليسيوں کی بنياد کسی مذہب کی بنياد پر نہيں بلکہ صدر اوبامہ کے الفاظ کے مطابق "مشترکہ انسانی قدروں" کی بنياد پر استوار کرے گا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

پاکستان ان کو اس لئے بھی کھٹکتا ہے، کہ یہ ان ممالک میں سے ہے جو اسرائیل کو تسلیم نہیں‌کرتے۔ اسی لئے انہوں نے مشرف جیسے گھٹیا غدار کو حکومت میں لانے کی سازش کی



پرويز مشرف کو آرمی چيف مقرر کرنےسےلےکر صدر بنانے تک اور صدرکی حيثيت سےان کےاختيارات کی توثيق تک پاکستان کی تمام سياسی پارٹيوں اور ان کی قيادت نےاپنا بھرپور کردار ادا کيا ہےاسکے باوجود تمام سياسی جماعتوں کا يہ الزام کہ پرويزمشرف امريکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے برسراقتداررہے ، ايک جذباتی بحث کا موجب تو بن سکتا ہے ليکن يہ حقيقت کےمنافی ہے مشرف کو صدر امريکہ نے نہيں بلکہ قومی اسمبلی ميں عوام کےمنتخب نمايندوں نے57 فيصد ووٹوں سے اس منصب پر فائز کيا


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

جناب جب افغانستان کی جانب امریکہ بڑھنے لگا تو پوری ورلڈ میڈیا پشاور میں پہنچ گئی تھی ۔ اور الجزیرہ کے رپورٹر عمر العیساوی کی کوریج میں میں نے ان کی معاونت کی تھی۔ جن جن جگہ پر جلوس اور مظاہرے ہونے ہوتے وہاں بی بی سی اور سی این این سے پہلے پہنچ جاتے۔
میڈیا کے داو پیچ سے خوب واقف ہوں۔ اور جب عمر العیساوی نے پھر یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے چند آدمی چاہئیں جو نقاب پہن کر مشینیں ہاتھوں میں لیکر ایک جگہ سے گذر رہے ہوں ۔ جس پرمیں نے انکارکرتے ہوئے ان کو خدا حافظ کہہ دیا۔ اسلام کو بدنام کرنے کے لئے اکثر اوقات ایسی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔


زرمينہ نامی جس خاتون کا حوالہ ميں نے ديا تھا اس واقعہ کی مکمل تفصيل آپ راوا کی ويب سائٹ پر پڑھ سکتے ہيں۔ راوا نامی يہ تنظيم امريکی يا کسی مغربی ملک ميں موجود انسانی حقوق کی تنظیم نہيں ہے۔ يہ افغانستان ميں موجود ايک نجی تنظيم ہے جو سال 1977 سے افغانستان میں فعال ہے۔

http://www.rawa.org/murder-w.htm


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

فرخ

محفلین
پرويز مشرف کو آرمی چيف مقرر کرنےسےلےکر صدر بنانے تک اور صدرکی حيثيت سےان کےاختيارات کی توثيق تک پاکستان کی تمام سياسی پارٹيوں اور ان کی قيادت نےاپنا بھرپور کردار ادا کيا ہےاسکے باوجود تمام سياسی جماعتوں کا يہ الزام کہ پرويزمشرف امريکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے برسراقتداررہے ، ايک جذباتی بحث کا موجب تو بن سکتا ہے ليکن يہ حقيقت کےمنافی ہے مشرف کو صدر امريکہ نے نہيں بلکہ قومی اسمبلی ميں عوام کےمنتخب نمايندوں نے57 فيصد ووٹوں سے اس منصب پر فائز کيا


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

میں نے اس کے ایک منتخب شدہ جمہوری حکومت کے تختہ اُلٹنے کی بات کی تھی اور اسکی سب سے بڑی وجہ بھی نواز شریف کا ایٹمی دھماکے کرنا تھا۔ ان دھماکوں سے پہلے نواز شریف پر امریکہ کا شدید دباؤ بھی تھا کہ پاکستان، بھارت کے جواب میں‌دھماکے نہ کرے۔
اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اسے امریکی سپورٹ بھی حاصل رہی اور اس نے وردی میں رہتے ہوئے دیگر سیاسی جماعتوں کو ایک طرح‌سے زبردستی اپنے لئے استعمال کیا۔ اسی غدار نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حتی الامکان کوشش بھی کی۔
مشرف کی پشت پناہی کا الزام غلط نہیں ہے اور حالات و واقعات اور امریکی سفراء کے پیغامات مشرف کی حمائیت و تعریفات اسکا بہت بڑا ثبوت ہیں۔جو آپ الفاظ کے ہیر پھیر سے کبھی نہیں‌مٹا سکتے۔
 

فرخ

محفلین
میں‌بات امریکی عیسائیوں اور یہودیوں کی کر رہا ہوں، امریکی کے حکومتی نظام کی نہیں۔
یہ تو مسئلہ ہے کہ آپ امریکی کہتے کچھ ہیں‌اور کرتے کچھ اور ہیں۔ ہم کئی سالوں‌سے مسلمانوں‌کے دشمنوں کو امریکہ کی اندھی سپورٹ کے تماشے دیکھتے چلے آرہے ہیں‌اور اس میں سب سے واضح مثال اسرائیل کی اندھی اور کھُلی دھشت گردی سے آنکھیں‌بند کرنا ہی نہیں بلکہ اسے سپورٹ کرنا بھی ہے۔ اور ویسے بھی اسرائیل جیسے ناسور کے قیام میں‌سب سے زیادہ کردار امریکہ اور برطانیہ ہی نے ادا کیا تھا۔
اور عراق پر حملہ اگر دیکھا جائے تو بلاوجہ تھا، مگر حقیقت میں‌یہ وہ علاقہ ہے جو دراصل گریٹر اسرائیلی منصوبے کا حصہ ہے اور امریکہ اس منصوبے کی تکمیل میں‌پیش پیش ہے۔
امریکہ میں‌مسلمانوں‌سے کیا سلوک کیا جارہا ہے، یہ تو خیر خبروں سے اور وہاں‌رہنے والے مسلمانوں کے ذریعے واضح ہوتا رہتا ہے، مگر امریکی میڈیا کی یہود و نصارٰی کو اندھی سپورٹ اور مسلمانوں‌کے خلاف پروپیگنڈے کوئی ڈھکے چھپے نہیں‌ہیں، اور ہم روزآنہ انکی نمک مرچ لگائی ہوئی خبریں اور اپنی مرضی کی بنائی ہوئی فلمیں دیکھتے ہیں کہ ان میں کسطرح مسلمانوں‌ پر کیچڑ اُچھالا جاتا ہے۔

تاریخ بھی گواہ ہے اور میں‌بھی اپنی بات پر قائم ہوں کہ اللہ جل شانہ نے بالکل ٹھیک فرما دیا تھا کہ یہود و نصارٰ کبھی تمہارے دوست نہیں‌ہوسکتے۔

اس ضمن ميں يہ وضاحت کر دوں کہ جب ميں امريکہ کی بات کرتا ہوں تو ميرا اشارہ عيسائ، يہودی يا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد يا گروہ کی طرف نہيں ہوتا۔ امريکہ ميں لاکھوں کی تعداد ميں مسلمان بھی بستے ہيں جو کسی بھی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرح امريکی معاشرے کا لازم وملزوم حصہ ہيں۔ لاکھوں کی تعداد ميں مسلمان نہ صرف يہ کہ امريکی حکومت کو ٹيکس ادا کرتے ہیں بلکہ امريکی فوج، بحريہ، کانگريس اور اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سميت ہر شعبہ زندگی ميں اپنا کردار ادا کر رہے ہيں۔ امريکی معاشرے ميں مذہبی وابستگی کی بنياد پر مختلف عہدوں کے ليے افراد کا انتخاب نہيں کيا جاتا اور يہی پيمانہ حکومتی عہدوں کے ليے بھی استعمال کيا جاتا ہے۔


مستقبل ميں بھی مختلف عالمی ايشوز کے حوالے سے امريکہ کی پاليسياں جيسی بھی ہوں گی ، ايک بات واضح ہے کہ ان کی بنياد مذہب پر نہيں ہو گی۔ جيسا کہ صدر اوبامہ نے بھی اپنے ابتدائ خطاب ميں اس بات کی وضاحت کی ہے۔ "ہم عيسائ، ہندو، يہود، مسلم اور کسی مذہب پر يقين نہ رکھنے والے افراد پر مشتمل ايک قوم ہیں۔ بحثيت قوم ہم کرہ ارض کے ہر کونے سے آنے والے افراد، زبان اور ثقافت پر مشتمل ہيں"۔ اس حقیقت کے پيش نظر امريکہ اپنی پاليسيوں کی بنياد کسی مذہب کی بنياد پر نہيں بلکہ صدر اوبامہ کے الفاظ کے مطابق "مشترکہ انسانی قدروں" کی بنياد پر استوار کرے گا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

امریکہ میں‌مسلمانوں‌سے کیا سلوک کیا جارہا ہے، یہ تو خیر خبروں سے اور وہاں‌رہنے والے مسلمانوں کے ذریعے واضح ہوتا رہتا ہے،


امريکہ کے اندر اس وقت 1200 سے زائد مساجد اور سينکڑوں کی تعداد ميں اسلامی سکول ہيں جہاں اسلام اور عربی زبان کی تعليم دی جاتی ہے۔ امريکی معاشرے کی بہتری کے ليے مسلمانوں کو ديگر مذاہب کے لوگوں سے بات چيت اور ڈائيلاگ کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اس کی ترغيب بھی دی جاتی ہے۔ امريکی سپريم کورٹ نے محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوانسانی تاريخ کے ايک اہم قانونی وسيلے کی حيثيت سے تسليم کيا ہے۔ امريکہ کے وہ دانشور اور رہنما جنھوں نے امريکی آئين تشکيل ديا انھوں نے کئ امور پر باقاعدہ قرآن سے راہنمائ لی۔ قرآن پاک کا انگريزی ترجمہ تھامس جيفرسن کی ذاتی لائبريری کا جصہ تھا۔

اس ضمن ميں آپ کی توجہ صدر اوبامہ کے ايک حاليہ انٹرويو کے اس اقتتباس کی جانب کروانا چاہتا ہوں

"ميرا يہ فرض ہے کہ مسلم دنيا پر يہ واضح کروں کہ ان کی بہتری خود امريکہ کے مفاد ميں ہے۔ اور اس ضمن ميں ہمارے باہمی روابط احترام کی زبان ميں ہونے چاہيے۔ ميرے اپنے خاندان ميں کئ افراد مسلمان ہيں اور ميں بذات خود مسلم معاشروں کا حصہ رہ چکا ہوں۔"

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

فرخ

محفلین
فواد صاحب
میں بات امریکہ نظام کی نہیں، بلکہ امریکیوں‌کی ذھنیت کی بات کر رہا ہوں۔
امریکی نظام کی اچھائی میں مجھے کوئی شک نہیں، مگر امریکی ذھنیت جس راستے پر چل نکلی ہے وہ اس نظام کو بھی مسلمانوں‌کے خلاف استعمال کرنا چاہ رہے ہیں اور اسکے پیچھے صیہونی ہاتھ ہے جس نے امریکہ کی معیشت کو بری طرح جکڑ رکھا ہے اور اپنے گریٹر اسرائیل کے ناپاک عزائم کے لئے استعمال کر رہا ہے۔

امريکہ کے اندر اس وقت 1200 سے زائد مساجد اور سينکڑوں کی تعداد ميں اسلامی سکول ہيں جہاں اسلام اور عربی زبان کی تعليم دی جاتی ہے۔ امريکی معاشرے کی بہتری کے ليے مسلمانوں کو ديگر مذاہب کے لوگوں سے بات چيت اور ڈائيلاگ کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اس کی ترغيب بھی دی جاتی ہے۔ امريکی سپريم کورٹ نے محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوانسانی تاريخ کے ايک اہم قانونی وسيلے کی حيثيت سے تسليم کيا ہے۔ امريکہ کے وہ دانشور اور رہنما جنھوں نے امريکی آئين تشکيل ديا انھوں نے کئ امور پر باقاعدہ قرآن سے راہنمائ لی۔ قرآن پاک کا انگريزی ترجمہ تھامس جيفرسن کی ذاتی لائبريری کا جصہ تھا۔

اس ضمن ميں آپ کی توجہ صدر اوبامہ کے ايک حاليہ انٹرويو کے اس اقتتباس کی جانب کروانا چاہتا ہوں

"ميرا يہ فرض ہے کہ مسلم دنيا پر يہ واضح کروں کہ ان کی بہتری خود امريکہ کے مفاد ميں ہے۔ اور اس ضمن ميں ہمارے باہمی روابط احترام کی زبان ميں ہونے چاہيے۔ ميرے اپنے خاندان ميں کئ افراد مسلمان ہيں اور ميں بذات خود مسلم معاشروں کا حصہ رہ چکا ہوں۔"

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

زیک

مسافر
امریکہ میں‌مسلمانوں‌سے کیا سلوک کیا جارہا ہے، یہ تو خیر خبروں سے اور وہاں‌رہنے والے مسلمانوں کے ذریعے واضح ہوتا رہتا ہے

یہاں محفل میں کئ امریکہ میں رہائشی ہیں۔ ان کی بات کو تو آپ اکثر امریکی پراپیگنڈا کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔
 

فرخ

محفلین
یہاں محفل میں کئ امریکہ میں رہائشی ہیں۔ ان کی بات کو تو آپ اکثر امریکی پراپیگنڈا کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔
اگر آپ فواد اور انکی جیسی ذھنیت کے دیگر افراد کی بات کر رہے ہیں،تو میں غلط نہیں‌کہہ رہا، کیونکہ انکی باتوں سے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ امریکہ کے منفی امیج کو ختم کرنا چاہتے ہیں، جو دیکھا جائے تو غلط بات نہیں‌ہے، مگر حقیت بہت کڑوی ہے اور اسے چھپانا بہرحال ایک پروپیگینڈا ہی ہے۔

یہاں محفل پر موجود امریکہ کے رہائشی اردو بولنے اور پڑھنے والے سب ایک جیسے نہیں ہیں اور یہاں‌انکے وہ خیالات بھی پیش ہوتے رہتے ہیں جو امریکہ کے پجاریوں کو پسند نہیں‌آتے۔

البتہ مجھے افسوس اس وقت ہوتا ہے، جب ایسے امریکہ کے رہائیشی مسلمان امریکی پروپیگنڈا زدہ ذھن سے جو باتیں کرتے ہیں وہ ہمارے ہاں کے حقائق کو بالکل پس پردہ ڈال دیتے ہیں اور امریکہ کو یوں‌دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جیسے وہ بہت معصوم اور بڑا بے داغ ہو۔

حالانکہ امریکہ کی بدنامی صرف مسلمانوں‌ہی میں نہیں، بلکہ یورپ، روس اور دیگر گئی غیر مسلم ممالک میں‌بھی ہے۔اور امریکہ کے خلاف نفرت پوری دنیا میں پائی جاتی ہے۔

امریکہ، برطانیہ کے حکومتی نظام پر میں‌زیادہ بات نہیں‌کرتا کیونکہ یہ ایک کھُلی حقیقت ہے کہ انکا نظام بہت اچھا اور بڑا بہترین ثابت ہوا ہے اور اسکا ثبوت اس نظام کا ان ممالک کے اندر اچھی طرح چلنا اور امن اور انصاف کے اداروں کا قائم رہنا ہے۔ اور گو کہ یہ سرمایہ دارانہ جمہوری نظام ہے، مگر اس میں تمام شہریوں‌کے حقوق کا خیا ل رکھا جاتاہے

میں بات کرتا ہوں امریکیوں اور خاص طور پر صیہونیت زدہ امریکی ذھنیت کی اور یہ ذھنیت جو اب امریکی حکومت کے نمائیدوں میں بھی رچ بس گئی ہے اور امریکی اب پوری طرح گریٹر اسرائیل کو قائم کرنے کی کوشش میں نظر آرہا ہے۔ اور اسکی سب سے بڑی وجہ امریکی معشیت کے نظام پر صیہونیت کا قبضہ ہے۔

اور امریکہ میں رہنے والے خود اس صیہونیت کے فتنوں‌سے پریشان نظر آتے ہیں۔ امریکیوں‌کے اس سوال کا آج تک کسی حکومت نے جواب نہیں دیا، کہ جو ٹیکس وہ حکومت کو دیتے ہیں اسکا بڑا حصہ اسرائیل کو سپورٹ کرنے میں‌خرچ ہوتا ہے اور اسرائیلی درندگی اب بہت عیا ں‌ہو چُکی ہے۔

بلکہ امریکی اب اپنی حکومتوں کی جنگوں‌کی پالیسی سے بھی تنگ آچُکے ہیں۔ جسکے نتیجے میں لاکھوں بے گناہ لوگوں‌کا خون بھی ہو رہا ہےاور عراق، افغانستان میں انہیں جس قسم کی شکست کا سامنا ہے اور انکے اور اتحادی فوجیوں کا جو حشر وہاں ہو رہا ہے اس سے انکی آنکھیں کھُل گئی ہے۔ مگر انکا میڈیا انہیں‌کوئی اور ہی خواب دکھانے کے چکروں میں رہتا ہے۔
 

فرخ

محفلین
پہلی بات تو یہ کہ افغان جنگ سے پہلے ہی امریکہ کی روس کے ساتھ ایک سرد جنگ جاری تھی اور دونوں اطرف سے اسلحہ کی دوڑ لگی ہوئی تھی جس میں ایٹمی دھماکے کرنا اور میزائلوں کی ٹیسٹ فائر بھی شامل تھے۔
افٍغانستان بظاہر ایک چھوٹا ملک لگتا ہے، مگر یہ بات اب پوری دنیا کو پتا ہے کہ اس خطہء زمیں کی اہمیت کیا ہے اور اسکے ہمسائے میں‌کونسے ممالک ہیں اور انکی اہمیت کیا ہے؟ اور امریکہ کو یہ بات قطعا گوارا نہیں تھی کہ روس ایک ایسے خطے پر اپنا قبضہ جما لے جہاں سے وہ دیگر ممالک پر اثر انداز ہو سکے اور ظاہر ہے اس طرح امریکہ کی اجارہ داری کو خطرہ تھا۔ روس خلاف افغانستان میں امریکہ کی سپورٹ کوئی انسانی ہمدردی نہیں ، بلکہ اپنی سرد جنگ کی وجہ سے تھی،

ورنہ امریکہ کی انسانی ہمدردی کے سب سے وحشت ناک تماشےہمیں مشرق وسطٰی میں ہونے والی امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل کے ہاتھوں‌نظر آتی رہتی ہے جس پر امریکہ نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔

سی آئی اے کی باقی کہانیاں‌تو آپ کھا ہی گئے۔ خود سی آئی اے متعدد بار یہ اعتراف کرچُکی ہے کہ اسامہ بن لادن اور دیگر کئی عرب مجاھدین کو نہ صرف پاکستان کے ذریعے سپورٹ فراہم کی گئی بلکہ ٹریننگ وغیرہ بھی دی گئی اور اس میں پاکستانی ایجنسیوں کے تعاون سے بہت اہم کردار کھیلے گئے تھے۔

آپ اپنی مرضی کی کتابوں میں سے اپنی مرضی کی ایک ایک لائن اُٹھا اُٹھا کر ریفرینس دے کر جو ثابت کرنا چاہ رہے ہیں، اسکے برخلاف خود آپکا میڈیا اور دیگر کئی کتب میں‌بھی اس چیز کا اعتراف کیا جا چُکا ہے کہ سی آئی اے نے کس طرح مجاھدین کو سپورٹ کیا، انہیں‌ٹرینینگ اور اسلحہ فراہم کیا گیا۔ اس پر تو شائید کچھ فلمیں‌بھی بن چُکی ہیں۔

اور اب جبکہ امریکہ خود افغانستان پر قبضے کی کوششیں کرتا رہا ہے اور منہ کی کھانا پڑی ہے تو وہی عرب مجاھدین اب غیر ملکی دھشت گرد کہلانے لگے اور وہی تنظیمیں‌جو پہلے روس کے خلاف مجاھدین کو سپورٹ کرتی تھیں اب دھشت گرد تنظیمیں بن گئیں!!!!!!

القاعدہ کی بنیاد امریکہ نے نہیں‌رکھی ہوگی، مگر اس میں وہ سب مجاھدین شامل تھے جنہیں‌سی آئی اے نے سپورٹ کیا تھا۔

امريکہ کو دہشت گرد قرار دينے کے حوالے سے ايک دليل جو ميں نے اکثر فورمز پر ديکھی ہے وہ يہ ہے کہ امريکہ اگر 80 کی دہاہی ميں افغانستان ميں مداخلت نہ کرتا تو يہ دہشت گرد کبھی پيدا نہ ہوتے۔ اس حوالے سے ہم کچھ تاريخی حقائق ہميشہ پس پشت ڈال ديتے ہيں۔ جب روس نے افغانستان پر حملہ کيا تھا تو صرف امريکہ ہی وہ ملک نہيں تھا جس نے افغانستان کی فوجی اور مالی مدد کی تھی۔ اس ميں امريکہ سميت پاکستان، چين، سعودی عرب، شام اور برطانيہ شامل تھے۔

برگيڈير محمد يوسف 1983 سے 1987 تک آئ– ايس - آئ ميں افغان بيرو کے انچارج تھے۔ انھوں نے بھی اپنی کتاب "بير ٹريپ" کے صفحہ 81 پر اس بات کی تصديق کی ہے کہ افغان جہاد کے دوران جتنی مالی امداد امريکہ نے دی تھی اتنی ہی سعودی عرب نے بھی دی تھی۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ساری امداد افغانستان تک منتقل کرنے کی ذمہ داری پاکستان نے لی تھی۔ اس وقت کے زمينی حقاۂق کے حوالے سے افغانستان کی مدد کرنے کا فيصلہ درست تھا۔ کيا افغانستان جيسے چھوٹے سے ملک کو روس جيسی سپر پاور کے رحم وکرم پر چھوڑ دينا صحيح فيصلہ ہوتا ؟
افغانستان ميں جنگ کے دوران بہت سے عرب مختلف ممالک سے آ کر اس جنگ ميں شامل ہو گئے۔ يہی عرب بعد ميں القائدہ کی بنياد بنے۔ امريکی ادارے سی – آئ – اے کی طرف سے جو فوجی اور مالی امداد پاکستان کے ذريعے افغانستان تک پہنچی اس کا محور مقامی افغان باشندے تھے نا کہ باہر سے آئے ہوئے عرب۔ اس بات کا اعتراف القاعدہ کے نمبر دو ليڈر ايمن الزواری نے بھی اپنی کتاب " ناۂٹس انڈر دی پرافٹ بينر" ميں کيا ہے۔ ان کی يہ کتاب کثير الاشعاعت سعودی اخبار" الشرق الاوسط" ميں دسمبر 2001 ميں سلسلہ وار شائع ہوئ تھی۔ اس کتاب سے ايک اقتباس – "افغان جہاد ميں امريکہ نے پاکستان اور مقامی افغان مجاہدين کی مالی اور فوجی مدد کی تھی۔ ليکن عرب سے آئے ہوئے مجاہدين اس ميں شامل نہيں تھے۔ ان عرب مجاہدين کی مالی امداد بہت سی نجی عرب تنظيموں نے کی تھی اور يہ امداد بہت بڑی تعداد ميں تھی"۔

ملٹ بيرڈن 1986 سے 1989 کے درميانی عرصے ميں پاکستان ميں سی – آئ – اے کے اسٹيشن چيف تھے۔ افغانستان تک پہنچائ جانے والی امداد انہی کی زير نگرانی ہوتی تھی۔ وہ اپنی سوانح حيات "مين اينمی" کے صفحہ 219 پر لکھتے ہيں کہ" افغان مجاہدين کو مالی اور فوجی امداد دينے کے ضمن ميں امريکہ، پاکستان، سعودی عرب، چين اور شام اہم کھلاڑی تھے۔ اس ضمن ميں سی – آئ – اے نے کبھی بھی عرب سے آئے ہوئے مجاہدين کو ٹرينيگ دی اور نہ ہی انہيں اسلحہ فراہم کيا"۔

ان حقاۂق کی روشنی ميں افغان جہاد کے دوران دی جانے والی فوجی اور مالی امداد کو موجودہ دور کی دہشت گردی کی وجہ قرار دينا سرار غلط ہے۔ افغان جہاد کے دوران امريکہ اور سعودی عرب سميت ديگر ممالک نے جو فوجی اور مالی امداد کی تھی وہ افغان عوام کو روسی جارحيت سے نجات دلانے کے ليے تھی ۔ اس کا مقصد مستقبل کے ليے دہشت گرد تيار کرنا نہيں تھا۔ القائدہ کی بنياد امريکہ نے نہيں رکھی تھی اس کے ذمہ دار وہ عرب جنگجو تھے جو اس جنگ کا حصہ بنے تھے اور اس بات کا اظہار القائدہ کی ليڈرشپ بارہا کر چکی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

آفت

محفلین
مطلب یہ کہ جس کا پلڑا بھاری نہ ہو اسے اسلحہ دیتے جاؤ تا کہ جنگ کا اختتام کبھی نہ ہو سکے _ اب تو یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ ایران اور عراق کو اسلحہ امریکہ سے ملتا رہا ہے _ ہاں اسی بہتی گنگا میں روس نے بھی مال بنایا تھا _ روس کیوں پیچھے رہتا؟؟؟؟؟؟
صدام حسین باتھسٹ پارٹی کی بغاوت کے زریعے اقتدار کے ایوانوں میں آئے کیا آپ کو پتا نہیں کہ باتھسٹ پارٹی کی بغاوت کے پیچھے بھی امریکہ اور کچھ مغربی ممالک کا ھاتھ تھا _ پھر "سینٹو " کا بھی کردار عراق کی پالیسی میں کس جانب اشارہ کرتا ھے ؟؟


عراق کی تاريخ کے حوالے سے آپ کی معلومات بالکل غلط ہيں۔ صدام حسين 1968 ميں باتھسٹ پارٹی کی بغاوت کے ذريعے اقتدار کے ايوانوں ميں آئے تھے۔ اس کے بعد 1979 ميں انھوں نے اپنی پارٹی کے اندر بغاوت کے ذريعے ليڈرشپ حاصل کر لی۔ 1980 ميں صدام نے ايران پر اس وقت حملہ کيا جب ايران اندرونی طور پر بہت سے مسائل کا شکار تھا۔

جہاں تک ايران سے جنگ کا سوال ہے تو عراق کو اسلحہ امريکہ نے نہيں بلکہ روس نے فراہم کيا تھا۔ آپ يہ کيسے دعوی کر سکتے ہيں کہ صدام کو امريکہ کنٹرول کر رہا تھا جبکہ صدام حکومت کی جانب سے امريکہ کو متعدد چيلجنجز کا سامنا تھا اور صدام حکومت کے دوران عراق ميں امريکہ مخالف پراپيگنڈا اپنے عروج پر تھا۔ اگر صدام امريکہ کے کنٹرول ميں ہوتا تو يہ صورت حال کبھی نہ ہوتی۔

ماضی ميں امريکہ کا جھکاؤعراق کی طرف رہا ہے اورامريکہ ايرانی فوجوں کی نقل وحرکت کے حوالے سےانٹيلی ايجنس اسپورٹ بھی مہيا کرتا رہا ہے ليکن ايسا اس وقت ہوا جب ايران کا پلڑا جنگ ميں بھاری تھا۔ ياد رہے کہ يہ وہی دور تھا جب ايران ميں امريکی سفارت کار اور شہری 444 دنوں تک زير حراست رہے جس کی وجہ سے امريکہ ميں ايران کے خلاف جذبات پائے جاتے تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

آفت

محفلین
غاصبوں کی مدد کرنے والے ممالک کو بطور مثال پیش کرنا بذات خود ایک نامعقول مثال ہے _ اس طرح دیکھا جائے تو سویت یونین کو افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے مشرقی جرمنی،پولینڈ اور چند دوسرے ملکوں کی سپورٹ حاصل رہی ہے _ سعودی عرب ہو یا پاکستان ہر ملک نے امریکہ کی مدد صرف افغانستان کے لیے نہیں کی _ نہ ان ممالک کو افغانی قوم سے کوئی ہمدردی ہے _
کیا ان سب ممالک نے کشمیر اور فلسطین کے لیے کچھ کیا کیا کشمیر اور فلسطین کے لیے یو این او نے قرار دادیں منظور نہیں کر رکھیں ؟؟؟
انڈونیشیا کا ایک حصہ مشرقی تیمور چند سال میں آزاد کروا لیا جاتا ہے کیونکہ وہاں کی اکثریت عسائی تھی
صرف انصاف سے کام لیا ہوتا تو آج فلسطین و کشمیر آزاد ہوتے _
پلیز اب بوسنیا کی مثال نہ دیجئے گا کہ اسے آزاد کروانے میں بھی امریکہ پیش پیش تھا _ کیونکہ سب کو پتا ہے کہ بوسنیا ہرزوگوینا اور فلسطین،کشمیر کے مسائل الگ الگ ہیں _

امريکہ کو دہشت گرد قرار دينے کے حوالے سے ايک دليل جو ميں نے اکثر فورمز پر ديکھی ہے وہ يہ ہے کہ امريکہ اگر 80 کی دہاہی ميں افغانستان ميں مداخلت نہ کرتا تو يہ دہشت گرد کبھی پيدا نہ ہوتے۔ اس حوالے سے ہم کچھ تاريخی حقائق ہميشہ پس پشت ڈال ديتے ہيں۔ جب روس نے افغانستان پر حملہ کيا تھا تو صرف امريکہ ہی وہ ملک نہيں تھا جس نے افغانستان کی فوجی اور مالی مدد کی تھی۔ اس ميں امريکہ سميت پاکستان، چين، سعودی عرب، شام اور برطانيہ شامل تھے۔

برگيڈير محمد يوسف 1983 سے 1987 تک آئ– ايس - آئ ميں افغان بيرو کے انچارج تھے۔ انھوں نے بھی اپنی کتاب "بير ٹريپ" کے صفحہ 81 پر اس بات کی تصديق کی ہے کہ افغان جہاد کے دوران جتنی مالی امداد امريکہ نے دی تھی اتنی ہی سعودی عرب نے بھی دی تھی۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ساری امداد افغانستان تک منتقل کرنے کی ذمہ داری پاکستان نے لی تھی۔ اس وقت کے زمينی حقاۂق کے حوالے سے افغانستان کی مدد کرنے کا فيصلہ درست تھا۔ کيا افغانستان جيسے چھوٹے سے ملک کو روس جيسی سپر پاور کے رحم وکرم پر چھوڑ دينا صحيح فيصلہ ہوتا ؟

افغانستان ميں جنگ کے دوران بہت سے عرب مختلف ممالک سے آ کر اس جنگ ميں شامل ہو گئے۔ يہی عرب بعد ميں القائدہ کی بنياد بنے۔ امريکی ادارے سی – آئ – اے کی طرف سے جو فوجی اور مالی امداد پاکستان کے ذريعے افغانستان تک پہنچی اس کا محور مقامی افغان باشندے تھے نا کہ باہر سے آئے ہوئے عرب۔ اس بات کا اعتراف القاعدہ کے نمبر دو ليڈر ايمن الزواری نے بھی اپنی کتاب " ناۂٹس انڈر دی پرافٹ بينر" ميں کيا ہے۔ ان کی يہ کتاب کثير الاشعاعت سعودی اخبار" الشرق الاوسط" ميں دسمبر 2001 ميں سلسلہ وار شائع ہوئ تھی۔ اس کتاب سے ايک اقتباس – "افغان جہاد ميں امريکہ نے پاکستان اور مقامی افغان مجاہدين کی مالی اور فوجی مدد کی تھی۔ ليکن عرب سے آئے ہوئے مجاہدين اس ميں شامل نہيں تھے۔ ان عرب مجاہدين کی مالی امداد بہت سی نجی عرب تنظيموں نے کی تھی اور يہ امداد بہت بڑی تعداد ميں تھی"۔

ملٹ بيرڈن 1986 سے 1989 کے درميانی عرصے ميں پاکستان ميں سی – آئ – اے کے اسٹيشن چيف تھے۔ افغانستان تک پہنچائ جانے والی امداد انہی کی زير نگرانی ہوتی تھی۔ وہ اپنی سوانح حيات "مين اينمی" کے صفحہ 219 پر لکھتے ہيں کہ" افغان مجاہدين کو مالی اور فوجی امداد دينے کے ضمن ميں امريکہ، پاکستان، سعودی عرب، چين اور شام اہم کھلاڑی تھے۔ اس ضمن ميں سی – آئ – اے نے کبھی بھی عرب سے آئے ہوئے مجاہدين کو ٹرينيگ دی اور نہ ہی انہيں اسلحہ فراہم کيا"۔

ان حقاۂق کی روشنی ميں افغان جہاد کے دوران دی جانے والی فوجی اور مالی امداد کو موجودہ دور کی دہشت گردی کی وجہ قرار دينا سرار غلط ہے۔ افغان جہاد کے دوران امريکہ اور سعودی عرب سميت ديگر ممالک نے جو فوجی اور مالی امداد کی تھی وہ افغان عوام کو روسی جارحيت سے نجات دلانے کے ليے تھی ۔ اس کا مقصد مستقبل کے ليے دہشت گرد تيار کرنا نہيں تھا۔ القائدہ کی بنياد امريکہ نے نہيں رکھی تھی اس کے ذمہ دار وہ عرب جنگجو تھے جو اس جنگ کا حصہ بنے تھے اور اس بات کا اظہار القائدہ کی ليڈرشپ بارہا کر چکی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

آفت

محفلین
عمومی تاثر ایسے ہی نہیں بن جایا کرتے _ امریکی اسٹیبلشمنٹ (عوام نہیں) کی ایک مخصوص تاریخ رہی ہے جو ممالک امریکہ مخالف ہیں یا جہاں امریکہ کی مرضی کی حکومت نہیں ہے ان کے بارے میں امریکہ کے خیالات سب کو پتا ہیں _
کیوبا ایران کے حکمرا ہوں یا امریکہ کے پڑوس میں رہنے والے ہوگوشاویز سب امریکہ کی ہٹ لسٹ میں ہیں _
پاکستان میں الیکشن تو خیر جیسے بھی ہوتے ہیں اس پر بحث مقصود نہیں _ لیکن راتوں رات نتائج تبدیل کرنے کے عمل کو کیا کہیں گے؟؟
اس وقت جو پارٹی امریکہ کی ہمنوا ہے وہ کچھ بھی کرے اس پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں خاموش رہتی ہیں لیکن امریکہ کی مخلاف جماعتیں اگر اچھا کام بھی کریں تو پورا مغربی میڈیا چیخ پرتا ہے _ آپ صرف "بارہ مئی " کو ہونے والے کراچی کے واقعات کو دیکھ لیں _

آپ بغير کسی ثبوت کے ايک عمومی تاثر کی بات کر رہے ہيں۔مجھے 90 کی دہائ ميں پاکستان کے کچھ انتخابات اور سياسی پارٹيوں کے انتخابی عمل کو بہت قريب سے ديکھنے کا تجربہ ہے۔ يہ درست ہے کہ پاکستان ميں انتخابی دھاندليوں اور جاگيداروں اور وڈيروں کے اثر ورسوخ پر مبنی کہانيوں پر کافی بحث کی جا سکتی ہے۔ ليکن مجھے آج تک پاکستان کے دوردراز ديہاتوں، قصبوں اور پہاڑوں ميں امريکی ووٹ ڈالتے نہيں دکھائ ديے اور مجھے يقين ہے کہ آپ نے بھی نہيں ديکھے ہوں گے۔ ميں اپنا نقطہ نظر دہراؤں گا کہ پاکستان ميں سياسی قيادت ميں بہتری لانے کی ذمہ داری يا تو پاکستانی ووٹرز پر عائد ہوتی ہے يا ان لوگوں پر جو اپنے لیے سياسی قيادت منتخب کرنے کی ذمہ داری اور حق کو استعمال کرنا ضروری نہيں سمجھتے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

زیک

مسافر
اگر آپ فواد اور انکی جیسی ذھنیت کے دیگر افراد کی بات کر رہے ہیں،تو میں غلط نہیں‌کہہ رہا، کیونکہ انکی باتوں سے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ امریکہ کے منفی امیج کو ختم کرنا چاہتے ہیں، جو دیکھا جائے تو غلط بات نہیں‌ہے، مگر حقیت بہت کڑوی ہے اور اسے چھپانا بہرحال ایک پروپیگینڈا ہی ہے۔

ذرا فواد جیسی ذہنیت کے دیگر افراد کی نشاندہی کریں‌گے؟

یاد رہے کہ فواد اپنی سرکاری حیثیت سے محفل پر آتا ہے جبکہ دیگر امریکی ارکان اپنی ذاتی حیثیت میں۔

ویسے یہاں آپ کے الفاظ کے چناؤ‌ پر صرف افسوس ہی کر سکتا ہوں۔

یہاں محفل پر موجود امریکہ کے رہائشی اردو بولنے اور پڑھنے والے سب ایک جیسے نہیں ہیں اور یہاں‌انکے وہ خیالات بھی پیش ہوتے رہتے ہیں جو امریکہ کے پجاریوں کو پسند نہیں‌آتے۔

یہ امریکہ کے پجاری کون ہیں؟ امریکی محفلین امریکہ کی تعریف بھی کرتے ہیں اور اس پر تنقید بھی۔

اور امریکہ میں رہنے والے خود اس صیہونیت کے فتنوں‌سے پریشان نظر آتے ہیں۔ امریکیوں‌کے اس سوال کا آج تک کسی حکومت نے جواب نہیں دیا، کہ جو ٹیکس وہ حکومت کو دیتے ہیں اسکا بڑا حصہ اسرائیل کو سپورٹ کرنے میں‌خرچ ہوتا ہے اور اسرائیلی درندگی اب بہت عیا ں‌ہو چُکی ہے۔

ٹیکس کا بڑا حصہ اسرائیل کو جاتا ہے؟ کم از کم اعداد و شمار پر تو کچھ عبور حاصل کر لیں۔ یہاں (http://www.fas.org/sgp/crs/mideast/RL33222.pdf) آپ پڑھ سکتے ہیں کہ امریکہ اسرائیل کو سالانہ اڑھائ ارب ڈالر امداد دیتا ہے اور کل فیڈرل ٹیکس 2674 ارب اکٹھا ہوتا ہے۔ یعنی اسرائیل کی امداد فیڈرل ٹیکس کے گوشوراوں کے ہزارویں حصے سے بھی کم ہے۔ اگر امریکہ کی کل امداد دیکھی جائے تو وہ 42 ارب ڈالر ہے۔ اس میں سے 2.5 ارب اسرائیل کو جاتے ہیں۔ یعنی تمام بین الاقوامی امداد کا 6 فیصد اسرائیل کو ملتا ہے۔
 

زیک

مسافر
صدام حسین باتھسٹ پارٹی کی بغاوت کے زریعے اقتدار کے ایوانوں میں آئے کیا آپ کو پتا نہیں کہ باتھسٹ پارٹی کی بغاوت کے پیچھے بھی امریکہ اور کچھ مغربی ممالک کا ھاتھ تھا _

باتھسٹ نہیں بلکہ بعث پارٹی۔

پھر "سینٹو " کا بھی کردار عراق کی پالیسی میں کس جانب اشارہ کرتا ھے ؟؟

سینٹو تو بعث پارٹی کے اقتدار میں آنے سے پہلے کی بات ہے۔
 

آفت

محفلین
نواز شریف نے یہ سب کام کیے ہونگے اور ہو سکتا ہے آپ کی نظر میں غلط بھی ہیں لیکن کیا پاکستان کی عوام نے اس پر احتجاج کیا کیا عوام نواش شریف کے خلاف سڑکوں پر نکل کھڑے ہوئے
جب کہ اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے حوالے سے تو مشرف سب پر بازی لے گئے ۔ ایک موقع پر ان کے پاس چیف آف آرمی اسٹاف،چیف ایگزیکٹیو اور صدر کا عہدہ بھی رہا ہے ۔ کیا مغرب نے ان پر کوئیسچن کیا ۔
تنگ آمد بجنگ آمد کے مترادف عوام نے اٹھ کر مشرف کو نکالا ورنہ شاید وہ آج بھی پاکستان کا حکمران بن کر امریکہ کی تابعداری کر رہا ہوتا ۔
پاکستانی سياست ميں مخالفين پر "امريکی کٹھ پتلی" کا الزام عائد کرنا ايک روايتی عمل ہے۔ اس ضمن ميں صدر آصف زرداری پر لگائے جانے والے حاليہ الزامات ايک مخصوص سوچ اور تاثر کی غمازی کرتے ہيں۔

اپنی بات کی وضاحت کے ليے ميں ايک رپورٹ کا اقتتباس پيش کر رہا ہوں جو سال 1999 ميں نواز شريف کی حکومت کے خاتمے کے بعد منظر عام پر آئ تھی۔ يہ رپورٹ صحافيوں کی ايک نجی عالمی تنظيم سی – پی – جے نے پاکستان ميں موجود عمومی تاثر کی بنياد پر صحافيوں سميت سول سوسائٹی کی رائے عامہ پر تيار کی تھی۔ يہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ اس وقت نواز شريف کو "امريکی کٹھ پتلی" قرار دے کر ان کے بارے ميں بھی انھی مخصوص منفی خيالات کا اظہار کيا جا رہا تھا۔

"نواز شريف کی جانب سے صحافت پر پابندی، اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے ليے انتہائ کوشش ہے۔ ان کی جانب سے حکومت کے ديگر اداروں کو پس پشت ڈال کر ہر قيمت پر وزير اعظم کے اختيارات ميں اضافے کی کوششوں نے انھيں پاکستان کی تاريخ کا طاقتور ترين ليڈر بنا ديا تھا۔ ليکن ان کی ان کوششوں کے سبب وہ ملکی اور غير ملکی سطح پر تنہا ہو گئے۔ جولائ کے وسط ميں جب (مبينہ طور پر) امريکہ کے ايمہ پر انھوں نے کارگل سے اپنی افواج واپس بلوائيں تو ملکی سطح پر انھيں "امريکہ کی کٹھ پتلی" قرار دے کر شديد تنقيد کا سامنا کرنا پڑا"۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
Top