امجد اسلام امجد امجد اسلام امجد

فرحت کیانی

لائبریرین
اے زمینِ وطن ہم گنہگار ہیں
ہم نے نظموں میں تیرے چمکتے ہوئے بام و در کے بیتاب قصے لکھے
پھول چہروں پہ شبنم سی غزلیں کہیں، خواب آنکھوں کے خوشبو قصیدے لکھے
تیرے کھیتوں کی فصلوں کو سونا گنا، تیری گلیوں میں دل کے جریدے لکھے
جن کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں، ہم نے تیری جبیں پر وہ لمحے لکھے
جو تصور کے لشکر میں لڑتے رہے
ہم وہ سالار ہیں
ہم گنہگار ہیں

اے زمینِ وطن ہم گنہگار ہیں
ہم تیرے دکھ سمندر سے غافل رہے
تیرے چہرے کی رونق دھواں ہو گئی اور ہم رہینِ غمِ دل رہے
ظلم کے روبرو لب کشائی نہ کی، اس طرح ظالموں میں بھی شامل رہے
حشرآور دنوں میں جو سوئے رہے
ہم گنہگار ہیں

اے زمینِ وطن ہم گنہگار ہیں
جاگتی آنکھ سے خواب دیکھے، ان کو اپنی مرضی کی تعبیر دیتے رہے
ہم تیرے بارآور موسموں کے لئے بادِصرصر میں تاثیر دیتے رہے
ہم اندھیرے مناظر کو روشن دنوں کی امیدوں سے تنویر دیتے رہے
تیرے ساحل کی آزادیوں کے لئے ہم تلاطم کو زنجیر دیتے رہے
جو ہمیشہ تجھے آرزو کے جھروکے سے تکتے رہے
ہم وہ فنکار ہیں
ہم گنہگار ہیں

اے زمینِ وطن ہم گنہگار ہیں
جب تیرے زرد پڑتے ہوئے موسموں کو مہکتی شفق کی ضرورت پڑی
ہم نے اپنا لہو آزمایا نہیں
تیری خوشبو سکُوں کی تمنا لئے آندھیوں کے جلو میں بھٹکتی رہی
ہم نے روکا نہیں
تیری مٹی نگاہوں میں بادل لئے خشک موسم کی راہوں میں بیٹھی رہی
ہم نے دل کو سمندر بنایا نہیں
تیری عزت زمانے کے بازار میں دل جلاتی بولیوں میں بکی
ہم نے کانوں میں سیسہ اتارا نہیں
ہم گنہگار ہیں


اے زمینِ وطن ہم گنہگار ہیں
اے زمینِ وطن! تجھ کو تو علم ہے، لوگ کیوں درِ راہِ ملامت ہوئے
جن محافظ دشمنوں کے علم تیرے روشن لہو کی شہادت ہوئے
ہم بھی ان کی سیاست کے نخچیر ہیں،آستینوں کے جو سانپ ثابت ہوئے
ہم بھی تیری طرح سازشوں کی ہوا کے گرفتار ہیں
ہم گنہگار ہیں


اے زمینِ وطن ہم گنہگار ہیں
ہم گنہگار ہیں اے زمینِ وطن! پر قسم ہے ہمیں اپنے اجداد کی
سرحدوں سے بلاتے ہوئے خون کی، اپنی بہنوں کی حرمت کی، اولاد کی
ہاں قسم ہے ہمیں آنے والے دنوں کی اور آنکھوں میں ٹھہری ہوئی یاد کی

اب محافظ نما دشمنوں کے علم ان کے کالے لہو سے بھگوئیں گے ہم
تیرے دامن کے رسوائیوں کے داغ اپنے آنسوؤں سے دھوئیں گے ہم
آخری مرتبہ اے متاعِ نظر! آج اپنے گناہوں پہ روئیں گے ہم
تیری آنکھوں میں اے نگارِ وطن! شرمساری کے آنسو نہیں آئیں گے
ہم کو تیری قسم اے بہارِوطن اب اندھیرے سفر کو نہ دہرائیں گے
گر کسی نے تیرے ساتھ دھوکا کیا ،وہ کوئی بھی ہو
اس کے رستے کی دیوار بن جائیں گے
جان دے کر تیرا نام کر جائیں گے
اے زمینِ وطن
 

ابوشامل

محفلین
ہم گنہگار ہیں اے زمینِ وطن! پر قسم ہے ہمیں اپنے اجداد کی
سرحدوں سے بلاتے ہوئے خون کی، اپنی بہنوں کی حرمت کی، اولاد کی
ہاں قسم ہے ہمیں آنے والے دنوں کی اور آنکھوں میں ٹھہری ہوئی یاد کی

اب محافظ نما دشمنوں کے علم ان کے کالے لہو سے بھگوئیں گے ہم
تیرے دامن کے رسوائیوں کے داغ اپنے آنسوؤں سے دھوئیں گے ہم
آخری مرتبہ اے متاعِ نظر! آج اپنے گناہوں پہ روئیں گے ہم
تیری آنکھوں میں اے نگارِ وطن! شرمساری کے آنسو نہیں آئیں گے
ہم کو تیری قسم اے بہارِوطن اب اندھیرے سفر کو نہ دہرائیں گے
گر کسی نے تیرے ساتھ دھوکا کیا ،وہ کوئی بھی ہو
اس کے رستے کی دیوار بن جائیں گے
جان دے کر تیرا نام کر جائیں گے
اے زمینِ وطن

سبحان اللہ فرحت! نجانے کیوں میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، شاید ہم اب اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ رونے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔
 

Dilkash

محفلین
واہ جی سبحان اللہ

وطن کے حوالے سے 5 مصرعوں کا نظم

خپلے خاورے تہ کچہ یم
نہ مے خکل کڑلہ پہ می نہ
نہ مٰے سترگو تہ رانجہ کڑہ
نہ مے مشکو پہ شان بوئی کڑہ
شرمندہ یم شرمندہ یم
خپلے خاورے تہ کچہ یم
 

سارہ خان

محفلین
اُداسی میں گِھرا تھا دِل چراغِ شام سے پہلے

اُداسی میں گِھرا تھا دِل چراغِ شام سے پہلے
نہیں تھا کُچھ سرِ محفل چراغِ شام سے پہلے

حُدی خوانو، بڑھاؤ لَے، اندھیرا ہونے والا ہے
پہنچا ہے سرِ منزل چراغِ شام سے پہلے

دِلوں میں اور ستاروں میں اچانک جاگ اُٹھتی ہے
عجب ہلچل، عجب جِھل مِل چراغِ شام سے پہلے

وہ ویسے ہی وہاں رکھی ہے ، عصرِ آخرِ شب میں
جو سینے پر دھری تھی سِل، چراغِ شام سے پہلے

ہم اپنی عُمر کی ڈھلتی ہُوئی اِک سہ پہر میں ہیں
جو مِلنا ہے ہمیں تو مِل، چراغِ شام سے پہلے

ہمیں اے دوستو اب کشتیوں میں رات کرنی ہے
کہ چُھپ جاتے ہیں سب ساحل، چراغِ شام سے پہلے

سَحر کا اوّلیں تارا ہے جیسے رات کا ماضی
ہے دن کا بھی تو مُستَقبِل، چراغِ شام سے پہلے


نجانے زندگی اور رات میں کیسا تعلق ہے !
اُلجھتی کیوں ہے اِتنی گلِ چراغِ شام سے پہلے

محبت نے رگوں میں کِس طرح کی روشنی بھردی !
کہ جل اُٹھتا ہے امجد دِل، چراغِ شام سے پہلے
 

فرحت کیانی

لائبریرین

بہت شکریہ :)


سبحان اللہ فرحت! نجانے کیوں میری آنکھوں میں آنسو آ گئے، شاید ہم اب اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ رونے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔
بالکل ۔۔ویسے بے بسی کی انتہا نئے عزم کی بنیاد بھی بن جاتی ہے کبھی کبھی۔۔دعا ہے کہ ہم رونا چھوڑ کر عمل کی طرف قدم بڑھائیں :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
واہ جی سبحان اللہ

وطن کے حوالے سے 5 مصرعوں کا نظم

خپلے خاورے تہ کچہ یم
نہ مے خکل کڑلہ پہ می نہ
نہ مٰے سترگو تہ رانجہ کڑہ
نہ مے مشکو پہ شان بوئی کڑہ
شرمندہ یم شرمندہ یم
خپلے خاورے تہ کچہ یم
مننہ دلکش۔۔
اگر آپ اس کا اردو ترجمہ بھی لکھ دیں تو پوری سمجھ آ جائے گی :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اُداسی میں گِھرا تھا دِل چراغِ شام سے پہلے

اُداسی میں گِھرا تھا دِل چراغِ شام سے پہلے
نہیں تھا کُچھ سرِ محفل چراغِ شام سے پہلے

حُدی خوانو، بڑھاؤ لَے، اندھیرا ہونے والا ہے
پہنچا ہے سرِ منزل چراغِ شام سے پہلے

دِلوں میں اور ستاروں میں اچانک جاگ اُٹھتی ہے
عجب ہلچل، عجب جِھل مِل چراغِ شام سے پہلے

وہ ویسے ہی وہاں رکھی ہے ، عصرِ آخرِ شب میں
جو سینے پر دھری تھی سِل، چراغِ شام سے پہلے

ہم اپنی عُمر کی ڈھلتی ہُوئی اِک سہ پہر میں ہیں
جو مِلنا ہے ہمیں تو مِل، چراغِ شام سے پہلے

ہمیں اے دوستو اب کشتیوں میں رات کرنی ہے
کہ چُھپ جاتے ہیں سب ساحل، چراغِ شام سے پہلے

سَحر کا اوّلیں تارا ہے جیسے رات کا ماضی
ہے دن کا بھی تو مُستَقبِل، چراغِ شام سے پہلے


نجانے زندگی اور رات میں کیسا تعلق ہے !
اُلجھتی کیوں ہے اِتنی گلِ چراغِ شام سے پہلے

محبت نے رگوں میں کِس طرح کی روشنی بھردی !
کہ جل اُٹھتا ہے امجد دِل، چراغِ شام سے پہلے
بہت ہی خوب سارہ :)۔۔۔بہت بہت شکریہ :)
 
Top