الفاظ کی تقطیع کر دیں

ش

شہزاد احمد

مہمان
سعدیہ زندگی اردو محفل کی نئی رکن ہیں۔ انہوں نے مندرجہ ذیل الفاظ کی تقطیع کرنے کے لیے کہا ہے۔
مشہور ۔ باندھو۔۔قلم۔ حرف

مناسب انداز میں تو اساتذہ ہی بتائیں گے تقطیع کا قاعدہ ۔۔۔ لیکن ہمارے خیال میں ۔۔۔
مش ۔۔ ہو ۔۔۔ ر
ق ۔۔۔ لم
حر ۔۔۔ ف
۔۔۔
باندھو میں بھی شاید "ن" نہیں آئے گا تقطیع میں اور یہ بھی با اور دو ہی پڑھا جائے گا ۔۔۔۔ اساتذہ کا انتظار کرتے ہیں ۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا کوئی ایسا فورم بھی ہے جہاں پر شاعر حضرات موجود ہوں ۔۔۔
تاکہ ان سے ہی ہم سوالات کا سلسلہ شروع کرلیں تو وقت کا نقصان نہیں ہوگا۔۔۔

السلام علیکم

آپ کے موضوع کو اصلاح سخن نامی فورم میں منتقل کر دیا ہے، ایسے کئی ایک موضوعات آپ کو یہاں ملیں گے جن مین تقطیع وغیرہ پر سیر حاصل بحث موجود ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اور الفاظ کی تقطیع کچھ یوں ہے

مشہور - مش ہو ر - مفعول
اکثر لوگ اسکا غلط تلفظ یعنی مشور کرتے ہیں اور ہ کو چھوڑ جاتے ہیں۔ صحیح مش ہو ر یعنی مفعول ہے، مثال

نہیں صفات سے ہوتا ہے آدمی مشہور
جو لطفِ عام وہ کرتے تو نام کس کا تھا
داغ دہلوی

شاہد و مَے سے آشنائی ہے
اپنی مشہور پارسائی ہے
جوش ملیح آبادی


باندھو
باندھ، باندھنا، باندھو، ڈھونڈو، ڈھونڈنا، اندھیرا، اندھیر وغیرہ وغیرہ، ان سب الفاظ میں نون مخلوط ہے۔ نون مخلوط نون کی وہ قسم ہے جو ہندی الفاظ میں ہوتا ہے اور اسکی آواز دب کر نکلتی ہے یعنی مکمل نہیں نکلتی۔ اسی طرح عربی فارسی الفاظ میں نون غنہ ہوتا ہے جس کی آواز نون معلنہ سے مختلف ہوتی ہے۔

علم عروض میں یعنی تقطیع کرتے ہوئے نون مخلوط اور نون غنہ دونوں کا کوئی وزن شمار نہیں ہوتا اس لیے وہ تقطیع میں چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ لہذا باندھو اصل میں با دو ہے یعنی اس میں نون مخلوط اور دو چشمی ھ دونوں شمار نہیں ہونگے اور اسکا وزن فعلن، اساتذہ کے کلام سے تو شعر ڈھونڈنا پڑے گا لیکن اسی فورم پر ایک شعر ملا ہے جس میں باندھو باندھا گیا ہے،

میرے کفن کے بند نہ باندھو ابھی مجھے
ملنا ہے ایک شخص سے بانہیں نکال کر
شبیر نازش

اسی طرح کسی استاد کا مصرع ہے، وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے، اس میں نون اور دو چشمی ھ محسوب نہیں ہورہے

اسی طرح امیر مینائی

تم جاؤ تیغ باندھ کے پھر سیر دیکھ لو
میرے گلے پہ ہے کہ تمھاری کمر میں ہے

اسی طرح داٰغ دہلوی

دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا
خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے
-------


قلم یعنی قَ لم یعنی فَعِل یا فعو یا مفا

حرف یعنی حر،ف یعنی فاع
 

الف عین

لائبریرین
وارث
اکثر لوگ اسکا غلط تلفظ یعنی مشور کرتے ہیں اور ہ کو چھوڑ جاتے ہیں۔ صحیح مش ہو ر یعنی مفعول ہے

یہ میرے لئے خبر ہے، میں نے نہیں سنا کہیں ’مشور‘
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث
اکثر لوگ اسکا غلط تلفظ یعنی مشور کرتے ہیں اور ہ کو چھوڑ جاتے ہیں۔ صحیح مش ہو ر یعنی مفعول ہے

یہ میرے لئے خبر ہے، میں نے نہیں سنا کہیں ’مشور‘

اعجاز صاحب یہ مشہور کا پنجابی تلفظ ہے یعنی مَشُور کئی لوگ اردو بولتے ہوئے بھی یہ پنجابی تلفظ ادا کر جاتے ہیں۔
 
وعلیکم اسلام ۔۔۔وارث صاحب اور الف عین صاحب
آپ لوگوں نے اس طرح وضاحت کر دی ہے کہ اب آئندہ مجھ کو ایسا لگتا ہے کہ میں با آساتی آپ لوگوں سے سوال کر سکتی ہوں ۔۔
بہت شکریہ۔۔
 
لیکن کہیں پر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر شاعر چاہے تو وہ
(ہ ں ا ی ے ء ) کو اپنی سہولت سے تقطیع میں شامل کر سکتا ہے اس کی بھی وضاحت اگر ہو جائے تو اچھا ہے
اور جب ہم ( زیر ) کو استعمال کرتے ہیں اس کا کیا طریقہ کار ہے اس کا کیا مقام ہے تقطیع میں۔۔۔۔؟
غمِ دل ،فرقِ آدمیت۔
 

مغزل

محفلین
سعدیہ زندگی بہن اردو محفل میں صمیمِ قلب سے خوش آمدید ، ہمیں امید ہے کہ آپ کا وقت یہاں اچھا گزرے گا۔
میں لڑی دیکھ کر حاضر ہوا ، وارث صاحب اور بابا جانی ( الف عین) کےمراسلات موجود ہیں۔ سو رسید حاضر ہے ۔ سلامت رہیں۔
 

مغزل

محفلین
لیکن کہیں پر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر شاعر چاہے تو وہ
(ہ ں ا ی ے ء ) کو اپنی سہولت سے تقطیع میں شامل کر سکتا ہے اس کی بھی وضاحت اگر ہو جائے تو اچھا ہے
اور جب ہم ( زیر ) کو استعمال کرتے ہیں اس کا کیا طریقہ کار ہے اس کا کیا مقام ہے تقطیع میں۔۔۔ ۔؟
غمِ دل ،فرقِ آدمیت۔
سرخ کردہ حروف بابت عرض کردوں کہ ۔ہ ں ا ی ے ء
الف کا کئی مواقع پر گرانا یعنی خفیف ادا کرنا اساتذہ سے ثابت ہے ۔ ہائے ہوّزہ یعنی ’’ہ‘‘ کا استعمال بھی ’’ لفظ کے آخر میں ‘‘ الف کے وزن پر باندھا جاتا ہے مگر کچھ اساتذہ مذکورہ ’’ہ‘‘ کا ایسی صورت میں خفیف ادا کرنا جائز سمجھتے ہیں۔۔ وگرنہ مکمل ادا کیا جانا ہی فصیح ہے ۔۔ یوں ں ، یائے فصیح ی ، یائے مجہول ے ، ہمزہ ء کا بھی استعمال خفیف بھی روا ہے ۔۔ کسرِ اضافت یعنی ’’ زیر ‘‘ کا معاملہ فارسی اور عربی الفاظ میں ترکیب بنانے کے لیے ہے یعنی عربی سے عربی ، فارسی سے فارسی اور فارسی سے عربی یا عربی سے فارسی ۔۔۔ تقطیع میں آدھے رکن کے بطور دیکھا جاتا ہے۔۔ باقی تفصیل کے لیے میں محمد وارث صاحب ، بابا جانی ( الف عین ) ، فاتح الدین بشیر بھائی کو زحمت دیتا ہوں ۔۔۔
 
بہت شکریہ مغزل صاحب
زیر زبر کو اور تفصیل سے بتا دیجئے گا زیر کے آدھے رکن سے کیا مراد ہے اس کو کیسے باندھے گے مجھ کو علم نہیں غمِ دل کو (مفاعیلن)
کہہ سکتے ہیں؟
 
غم دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے
قتیل شفائی صاحب کی غزل
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
بحر بزج مثمن سالم
ویسے اساتذہ کا انتظار میری ہرزہ سرائی سے لاکھ درجے بہتر ہے جی
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ مغزل صاحب
زیر زبر کو اور تفصیل سے بتا دیجئے گا زیر کے آدھے رکن سے کیا مراد ہے اس کو کیسے باندھے گے مجھ کو علم نہیں غمِ دل کو (مفاعیلن)کہہ سکتے ہیں؟

بہ سروچشم ، خیلی بسیار ممنون
سعدیہ بہن میں عرض کرتا ہوں، جیسے کہ بھائی محمد اظہر نذیر نے کہا اور جیسا کہ آپ نے لکھا ، ’’ غمِ دل کو ‘‘ مفاعیلن کے وز ن پر ہے۔۔۔اب دیکھے غم فع کے وزن پر ہے اور غمِ (غمے) فعو کے وزن پر ۔۔ زیر (کسرہ) ، زبر (فتح) اور پیش (ضمہ) کی آوازین خفیف (چھوٹی یا آدھی) ہیں۔۔بہ نسبت کھڑی زبر یا مد کے ۔۔ میری مراد آدھے رکن کی اسی سے تھی ہاں بیانِ عروض میں اگر اس کے لیے کوئی خاص اصطلاح ہے تو میرے علم میں نہیں ہے چوں کہ میں عروض کی محض شدھ بدھ رکھتا ہوں۔ یہاں محمد وارث صاحب ، الف عین صاحب، فاتح الدین بشیر صاحب علمِ العروض میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں سو اس حوالےسے ہر تین صاحبان کی رائے میرے لیے بھی مقدم ہے ۔ میں تو بس واجبی سا شغف رکھتا ہوں۔۔ امید ہے آپ اپنے تفصیلی تعارف سے( اس ربط پر ) آگاہ کیجے گا۔کسی بھی نوع کی مدد درکار ہو تو حکم کیجے گا ہم حاضر ہیں۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
لیکن کہیں پر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر شاعر چاہے تو وہ
(ہ ں ا ی ے ء ) کو اپنی سہولت سے تقطیع میں شامل کر سکتا ہے اس کی بھی وضاحت اگر ہو جائے تو اچھا ہے
اور جب ہم ( زیر ) کو استعمال کرتے ہیں اس کا کیا طریقہ کار ہے اس کا کیا مقام ہے تقطیع میں۔۔۔ ۔؟
غمِ دل ،فرقِ آدمیت۔

الف، واؤ اور یے کو حروفِ علت کہتے ہیں، اور ہندی الفاظ کے آخر میں ان حروف علت کو گرانا یا نہ گرانا شاعر کی صوابدید اور مرضی ہے۔

نون غنہ ں اور دو چشمی ھ، ان کا سرے سے کوئی وزن ہوتا ہی نہیں، لہذا یہ شاعر کی مرضی نہیں ہے کہ ان کے وزن کو شمار کرے یا نہ کرے، یہ ہمیشہ ہی شمار نہیں ہونگے اور یہ اصول ہے۔

ہائے ہوز کا معاملہ تھوڑا ٹیڑھا ہے۔ اسکے دو اصول ہیں، ایک یہ کہ جو ہ بولنے میں مکمل آواز رکھتی ہے اس کو گرایا جانا جائز نہیں ہے، جیسے شاہ اور شہنشاہ، ان الفاظ میں ہ کی آواز مکمل ہے اس کو گرایا نہیں جاتا بلکہ ضرورت شعر کے وقت ان کے متبادل الفاظ یعنی شہ، شہنشہ استعمال ہوتے ہیں۔ دوسری طرف جو ہ بولنے میں نہیں آتی جیسے بچہ، شہزادہ، شگفتہ میں تو ایسے ہ کو بلا تکلف شاعر گرا بھی سکتاہے اور اگر چاہے تو رکھ بھی سکتا ہے یہ شاعر کی مرضی ہے۔

یوں تو اضافتوں کا وزن شمار نہیں ہوتا لیکن بوقت ضرورت کھینچ کر ان کا وزن بنا لیا جاتا ہے، جیسے غمِ دل اگر بحر کا تقاضا ہے کہ وزن فَعِلن ہو تو غمِ دل اس پر پورا اترتا ہے لیکن اگر بحر کا تقاضا فعولن ہو تو غمِ دل کو غمے دل سمجھ کر فعولن کا وزن پورا کیا جائے گا یہ بھی شاعر کی صوابدید یا مرضی ہے۔
 
Top