یوسفی اقوالِ یوسفی

شمشاد

لائبریرین
سادہ و پرکار طنز ہے بڑی جان جوکھوں کا کام۔ بڑے بڑوں کے جی چھوٹ جاتے ہیں۔ اچھے طنز نگار تنے ہوئے رسے پر اترا اترا کر کرتب نہیں دکھاتے، بلکہ رقص یہ لوگ کیا کرتے ہیں تلواروں پر۔ (چراغ تلے)
 

شمشاد

لائبریرین
عمل مزاح اپنے لہو کی آگ میں تپ کر نکھرنے کا نام ہے۔ لکڑی جل کر کوئلہ بن جاتی ہے اور کوئلہ راکھ۔ لیکن اگر کوئلے کے اندر کی آگ باہر کی آگ سے تیز ہو تو پھر وہ راکھ نہیں بنتا، ہیرا بن جاتا ہے۔ (چراغ تلے)
 

شمشاد

لائبریرین
ہنسنے کی آزادی فی نفسیہ تقریر کی آزادی سے کہیں زیادہ مقدم و مقدس ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ جو قوم اپنے آپ پر جی کھول کر ہنس سکتی ہے وہ کبھی غلام نہیں ہو سکی۔ (چراغ تلے)
 

سیما علی

لائبریرین
میرے پیر و مرشد مرحوم مشتاق احمد یوسفی (میں سلسلہ یوسفیہ کا مرید ہوں) نے اپنے زندگی میں صرف چار کتابیں لکھی تھیں۔ دو کتابیں "خاکم بدہن" اور "چراغ تلے" بہت چھوٹی ہیں، جبکہ ضحامت کے لحاظ سے "آب گُم" اور "زرگزشت" تھوڑی فربہ ہیں۔ اس چار کتابوں میں سے ان کے چند ایک چنیدہ اقوال پیش خدمت ہیں۔ امید ہے آپ کو پسند آئیں گے۔
بہت بہت شکریہ شراکت کا
جیتے رہیے شمشاد بھیا ڈھیر ساری دعائیں ۔
 

شمشاد

لائبریرین
مزاح نگار کے لیے نصیحت، فضیحت اور فہمائش حرام ہیں۔ وہ اپنے اور تلخ حقائق کے درمیان ایک قدِ آدم دیوار قہقہہ کھڑی کر لیتا ہے۔ وہ اپنا روئے خنداں سورج مکھی پھول کی مانند، ہمیشہ سر چشمۂ نور کی جانب رکھتا ہے اور جب اس کا سورج ڈوب جاتا ہے تو اپنا رخ اس سمت کر لیتا ہے، جدھر سے وہ پھر طلوع ہو گا۔ (خاکم بدہن)
 

شمشاد

لائبریرین
حس مزاح ہی دراصل انسان کی چھٹی حس ہے۔ یہ ہو تو انسان ہر مقام سے بہ آسانی گزر جاتا ہے۔

بے نشہ کس کو طاقتِ آشوب آگہی

(خاکم بدہن)
 

شمشاد

لائبریرین
مزاح نگار اس وقت تک تبسم زیر لب کا سزا وار نہیں، جب تک اس نے دنیا اور اہل دنیا سے رج کے پیار نہ کیا ہو۔ (خاکم بدہن)
 

شمشاد

لائبریرین
طعن و تشنیع سے اگر دوسروں کی اصلاح ہو جاتی تو بارود ایجاد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ (خاکم بدہن)
 

شمشاد

لائبریرین
مزاح نگار کو جو کچھ کہنا ہوتا ہے وہ ہنسی ہنسی میں اس طرح کہہ جاتا ہے کہ سننے والے کو بھی بہت بعد میں خبر ہوتی ہے۔ میں نے کبھی کسی پختہ کار مولوی یا مزاح نگار کر محض تقریر و تحریر کی پاداش میں جیل جاتے نہیں دیکھا۔ (زرگزشت)
 

شمشاد

لائبریرین
مزاح کی میٹھی مار بھی شوخ آنکھ، پرکار عورت اور دلیر کے وار کی طرح کبھی خانہ نہیں جاتی۔ (زرگزشت)
 

شمشاد

لائبریرین
قہقہوں سے قلعوں کی دیواریں شق نہیں ہوا کرتیں، چٹنی اور اچار لاکھ چٹخارے دار سہی، لیکن ان سے بھوکے کا پیٹ نہیں بھرا جا سکتا۔ نہ سراب سے مسافر کی پیاس بجھتی ہے۔ ہاں ریگستان کے شدائس کم ہو جاتے ہیں۔ (زرگزشت)
 

شمشاد

لائبریرین
اپنے سارے رنگ بکھیر کے کسی نئے افق کسی اور شفق کی تلاش میں گم ہو جاتا ہے۔ (زر گزشت)
 

شمشاد

لائبریرین
قدیم زمانے میں چین میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کا مذاق اُڑانا مقصود ہوتا، اس کی ناک پر سفیدی پوت دیتے تھے۔ پھر وہ دکھیا کتنی بھی گمبیھر بات کہتا، کلاؤن ہی لگتا تھا۔ کم و بیش یہی حشر مزاح نگار کا ہوتا ہے۔ (آب گُم)
 
Top