اقبال اور ہم ۔ نئی پیروڈیاں

واہ۔ محمد خلیل الرحمٰن بھائی۔ کیا شاندار تصرف ہے۔ لطف آ گیا۔ "ایک نقطے نے مجھے محرم سے مجرم کر دیا" کی اصل تشریح تو آج سامنے آئی ہے!

خلیل صاحب کی نظم کیا ہے، خزینہءِ بے بہا سمجھیے​
لطیفہءِ بے بدل سمجھیے، مزاح حد سے سِوا سمجھیے​
وہ ایک نقطہ جو لے کر آئے، زرو جواہر سے کم نہیں ہے​
یہی بس اب سوچتا ہے کامل ؔ، اس ایک نقطے کو کیا سمجھیے!​
برا سمجھیے، بھلا سمجھیے، مزاح کا سلسلا سمجھیے​
ہے اُن کے حسنِ نظر کا جلوہ نہ اور اس کے سِوا سمجھیے​
ہم اپنے اشعار خود نہ سمجھے تو پڑھنے والے کا دوش کیا ہے​
جو ایک تعریف کررہے ہیں ، اسے تو اِن کی ادا سمجھیے​
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت اعلیٰ خلیل الرحمٰن بھائی۔۔۔!

بڑی پر لطف رنگ آمیزی کی ہے کلامِ اقبال میں۔ پڑھ کر مزا آگیا۔

بہت سی داد بندہ ء ناچیز کی طرف سے قبول کیجے۔
 
3۔ شکر و شکایت از اقبال
اقبال​
میں بندہ ناداں ہوں مگر شکر ہے تیرا​
رکھتا ہوں نہاں خانہ لاہوت سے پیوند​
اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو​
لاہور سے تا خاک بخارا و سمرقند​
تاثیر ہے یہ میرے نفس کی کہ خزاں میں​
مرغان سحر خواں مری صحبت میں ہیں خورسند​
لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے​
جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضامند​
(ضرب کلیم)​
ہم​
میں بندہ ناچیز ہوں پر شکر خدا کا​
مطلب جو نکلتا ہو وہاں میں ہوں خرد مند​
جب آیا سیاست میں تو لیڈر ہی بنا میں​
نوٹوں کی سیاست کو سمجھتا ہوں میں گلقند​
تاثیر ہے یہ سحر بیانی میں جو میری​
کرتی ہے یہ اکثر مجھے بس جھوٹ کی پابند​
لیکن مری تقدیر کی یہ دیکھیے خوبی​
اس دیس میں سب میری غلامی پہ رضامند​
 
۴۔ غزل​
اقبال​
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں​
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں​
ستم ہو کہ ہو وعدہٗ بے حجابی​
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں​
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو​
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں​
ذرا سا تو دِل ہوں مگر شوخ اتنا​
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں​
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفِل​
چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں​
بھری بزم میں راز کی بات کہدی​
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں​
ہم​
میں محفِل کا شاعر بنا چاہتا ہوں​
مری شاعری دیکھ ، کیا چاہتا ہوں​
غزل ہو کہ ہو نظمِ پابند، کچھ ہو​
میں اشعار پر واہ وا چاہتا ہوں​
یہ دھاگے مبارک رہیں محفلیں کو​
میں دھاگے کا بس اِک سِرا چاہتا ہوں​
میں شاعر بڑا ہوں ، میں شاعِر بڑا ہوں​
یہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں​
الف عین ہوں یا ہوں آسی یا وارث​
میں شاگِرد اِن کا بنا چاہتا ہوں​
میں واہی تباہی بکے جارہا ہوں​
’’بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں‘‘​
محمد خلیل الرحمٰن​
 
کیا کہنے ہیں جناب کے!
چشمِ بد دور۔
آپ حضرات کے کلام پڑھ پڑھ کر ہی گزارہ کر رہا ہوں۔
اس محفل اور یہاں کے لوگوں کی تحریرات نے ایسا جکڑ لیا ہے کہ۔۔۔ ۔
آپ کی محبت ہے اسامہ بھائی۔ شکریہ قبول کیجیے
 
۵۔ غزل

اقبال
(کابل میں لکھے گئے)
مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دِل نوازی کا
مروت حسنِ عالم گیر ہے مردان ِ غازی کا
شکایت ہے مجھے یارب! خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
بہت مدت کے نخچیروں کا اندازِ نگہ بدلا
کہ میں نے فاش کرڈالا طریقہ شاہبازی کا
قلندر جُز دوحرفِ لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہہِ شہر قاروں ہے لُغت ہائے حجازی کا
حدیثِ بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو
نہ کر خارا شگافوں سے تقاضہ شیشہ سازی کا
کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
(بالِ جبریل)
ہم
ہمارے تو لہو میں ہے سلیقہ نے نوازی کا
غزل منّی کی ہو، گانا عطا اللہ نیازی کا
وہ کیا مکتب تھا جس کا تذکرہ کرتے تھے حضرت جی
کہ اب تو اصطبل ہے اِک یہاں ترکی و تازی کا
ہوئے آزاد تو نخچیر کا انداز یوں بدلا
نیا ہم نے بنا ڈالاطریقہ شاہبازی کا
لُغت افرنگ کی اب تو ہمارے پاس ہے گرچہ
’’فقیہہِ شہر قاروں ہے لُغت ھائے حجازی کا‘‘
خدا کو اور خودی کو بھول کر دِل کا یہ عالم ہے
نیا سودا سمایا ہے خداوندِ مجازی کا
یہ جو اقبال نے سیکھی ، عجب ہی تھی یہ درویشی
مگر اب تو زمانہ لد گیا ہے بے نیازی کا
 

محمداحمد

لائبریرین
۴۔ غزل​
ہم​
میں محفِل کا شاعر بنا چاہتا ہوں​
مری شاعری دیکھ ، کیا چاہتا ہوں​
غزل ہو کہ ہو نظمِ پابند، کچھ ہو​
میں اشعار پر واہ وا چاہتا ہوں​
یہ دھاگے مبارک رہیں محفلیں کو​
میں دھاگے کا بس اِک سِرا چاہتا ہوں​
میں شاعر بڑا ہوں ، میں شاعِر بڑا ہوں​
یہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں​
الف عین ہوں یا ہوں آسی یا وارث​
میں شاگِرد اِن کا بنا چاہتا ہوں​
میں واہی تباہی بکے جارہا ہوں​
’’بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں‘‘​
محمد خلیل الرحمٰن​

:):D:)

واہ واہ بہت خوب خلیل بھائی۔۔۔!

بہت لطف آیا۔
بہت ہی شگفتہ شرارت سے پُر ہے​
میں ایسی غزل بارہا چاہتا ہوں​
:D:):p
 
جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔
کل بڑی عجیب صورت پیش آئی۔
یہاں پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ’’مزاحیہ غزل‘‘ بذاتِ خود ایک درست اصطلاح ہے؟ غزل کا بنیادی عنصر متانت ہے جو مزاح میں اکثر غائب ہو جاتا ہے۔ تو کیوں نہ ہم ’’مزاحیہ غزل‘‘ کو کچھ اور کہہ کر پکاریں۔ ایک لفظ ’’ہزل‘‘ پہلے سے موجود ہے، یا تو ایسی کاوشوں کو ’’ہزل‘‘ کہا جائے یا پھر ؟؟ ’’غزل نما‘‘ یا ؟؟؟ ۔۔۔ احباب کی رائے لیجئے گا۔
۔۔۔۔۔۔ جاری ہے​
 
ایک تو یہ ہے کہ آپ نے اقبال کی زمین میں ایک غزل کہہ دی۔ اس سے قطع نظر کہ آپ نے غزل کہی یا ہزل یا غزل نما، آپ نے اس میں اقبال کی صرف زمین سے استفادہ کیا ہے، اس کے مضامین سے کوئی تعلق لازم نہیں رکھا۔ یہ تو ایک انداز سے طرحی شاعری ہو گئی۔

دوسری چیز یہ ہے کہ آپ نے اقبال کا ایک شعر یا قطعہ لیا (اس کو پوری غزل نظم تک پھیلا لیجئے)، اور مضامین بھی اس کی رعایت سے باندھے۔ اس کو ہم تضمین کے نام سے جانتے ہیں؛ مضمون پر مضمون لانا۔ پابندی یہاں صرف بحر کی ہوتی ہے اور یہ کہ جس شعر پر تضمین کی گئی ہے وہ شامل بھی کیا جائے۔

یہاں ایک تیسری صورت بھی مجھے دکھائی دی کہ اقبال کا ایک فن پارہ لے کر اس کے ہر شعر کی مناسبت (بشمول: مطابقت، مخالفت، متابعت، موافقت، مفاکرت) سے ایک ایک شعر کہا۔ یہ یقیناً بہت مشکل کام ہے اور جو ایسا مشکل کام کر گزرتا ہے، (فکری اتفاق یا اختلاف اپنی جگہ) اس کی استادی میں کلام نہیں۔

یہ عناصر رہے ہیں جس پر میں وہ ’’کا کہہ را بھائی‘‘ کا سہارا لیا تھا۔
۔۔۔۔۔ جاری ہے​
 
Top