اقبال اور ہم ۔ نئی پیروڈیاں

۱۔اقبال اور میں

اقبال( محراب گُل افغان کے افکار)

نگاہ وہ نہیں جو سرخ و زر کو پہچانے
نگاہ وہ ہے کہ محتاجِ مہر و ماہ نہیں

فرنگ سے بہت آگے ہے منزلِ مومن
قدم اُٹھا یہ مقام انتہائے راہ نہیں

کھُلے ہیں سب کے لیے غربیوں کے میخانے
عُلومِ تازہ کی سرمستیاں گناہ نہیں

اسی سُرور میں پوشیدہ موت ہے تیری
ترے بدن میں اگر سوزِ لاالٰہ نہیں

سنیں گے میری صدا خانزادگانِ کبیر
گِلیم پوش ہوں میں صاحبِ کُلاہ نہیں
(ضربِ کلیم)

میں

نگاہ وہ ہے کہ جو سرخ و زر کو پہچانے
بھلا ہوا کہ میں محتاجِ مہر و ماہ بنا

فرنگ سے بہت آگے مقام سمجھا تھا
مگر یہ کیا کہ یہی انتہائے راہ بنا

کھُلے ہیں میرے لیے غربیوں کے میخانے
یہ نشّہ چڑھتے ہی میں صاحبِ کُلاہ بنا

جو میرے ساتھ چلا ، عزّ و جاہ اس کے ہیں
چلا جو راہ تری خانماں تباہ بنا

سنیں گے میری صدا خانزادگانِ کبیر
کہ جن کے فیض سے میں صاحبِ کُلاہ بنا

جاری ہے​
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
بہت خوب " تصرف " محترم بھائی
زمانہ حال کی حقیقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو میرے ساتھ چلا ، عزّ و جاہ اس کے ہیں
چلا جو راہ تری خانما تباہ بنا
سنیں گے میری صدا خانزادگانِ کبیر
کہ جن کے فیض سے میں صاحبِ کُلاہ بنا
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بہت خوب۔
اسی پڑھ کے فورا ذہن میں یہی آیا کہ

اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں:cry:

:cry:

کیا کیا خواب دیکھے تھے اقبالؒ نے اور کس رنگ میں ہم نے انہیں تعبیر بخشی ہے:cry:
 
بہت خوب " تصرف " محترم بھائی
زمانہ حال کی حقیقت ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
جو میرے ساتھ چلا ، عزّ و جاہ اس کے ہیں
چلا جو راہ تری خانما تباہ بنا​
سنیں گے میری صدا خانزادگانِ کبیر​
کہ جن کے فیض سے میں صاحبِ کُلاہ بنا​
جزاک اللہ محترم
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب خلیل۔ بس علامہ کی نظم میں ایک ٹائپو تھی
کھُلے ہیں سب کے لیے غربیوں کے میخانے
اور تمہاری نظم میں بھی
کھُلے ہیں میرے لیے غربیوں کے میخانے
 

یوسف-2

محفلین
نگاہ وہ ہے کہ جو سرخ و زر کو پہچانے​
بھلا ہوا کہ میں محتاجِ مہر و ماہ بنا​
فرنگ سے بہت آگے مقام سمجھا تھا​
مگر یہ کیا کہ یہی انتہائے راہ بنا​
کھُلے ہیں میرے لیے غربیوں کے میخانے​
یہ نشّہ چڑھتے ہی میں صاحبِ کُلاہ بنا​

زبردست، بہت خوب خلیل بھائی! آپ نے تو کلام اقبال کو ”حسبِ حالِ پاکستان“ کردیا ہے:)
 
2۔ شُعاعِ اُمید از اقبال
اک شوخ کرن، شوخ مثالِ نگہِ حور!
آرام سے فارغ صفتِ جوہرِ سیماب
بولی کہ مجھے رخصتِ تنویر عطا ہو
جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرّہ جہاں تاب
چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو!
جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردانِ گراں خواب
خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز!
اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب
چشمِ مہ و پرویں ہے اسی خاک سے روشن
یہ خاک کہ ہے جس کا خزف ریزہ دُرِ ناب
اس خاک سے اٹھّے ہیں وہ غوّاصِ معانی
جن کے لیے ہر بحرِ پُر آشوب ہے پایاب
جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں
محفل کا وہی ساز ہے بیگانۂ مضراب
بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن!
تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہِ محراب
مشرق سے ہو بیزار، نہ مغرب سے حذر کر
!فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
(ضربِ کلیم)​
ہم
اِک شوخ کزن، شوخ مثالِ نگہِ حور
آرام سے فارغ، صفتِ جوہر سیماب
بولی کہ مجھے سیرِ کلفٹن کی ہے خواہش
جب تک نہ ہو سورج سے ہر اِک ذرّہ جہاں تاب
چھوڑوں گی نہ میں تُم کو، گھسیٹوں گی تمہیں یوں
جب تک نہ اُٹھے خواب سے اے شخصِ گراں خواب
پہلے تو اِرادہ ہے کہ پیدل ہی چلیں گے
الفی کی دُکانوں پہ جو ڈھونڈیں دُرِ نایاب
سنتے ہیں کہ بازار میں لائے ہیں وہ موتی
’’جن کے لیے ہر بحرِ پُر آشوب ہے پایاب‘‘
وہ ہار جو سونے سے لدا اور پھندا ہو
وہ ہار کہ ہو جس کا ھدف یہ دُرِ نایاب
بعد اس کے کہیں جاکے ضیافت بھی اُڑائیں
محفِل ہو وہ ایسی جہاں چھیڑے کوئی مضراب
پھر ٹیکسی پکڑیں گے شتاب اور چلیں گے
ایسا نہ ہو مِل جائے سمندر ہمیں پایاب
ساحِل سے سمندر کو سنائیں گے ترانے
آجائے پولیس گر تو بنائیں گے بہانے
 
ن

نامعلوم اول

مہمان

اِک شوخ کزن، شوخ مثالِ نگہِ حور​
آرام سے فارغ، صفتِ جوہر سیماب​

واہ۔ محمد خلیل الرحمٰن بھائی۔ کیا شاندار تصرف ہے۔ لطف آ گیا۔ "ایک نقطے نے مجھے محرم سے مجرم کر دیا" کی اصل تشریح تو آج سامنے آئی ہے!

خلیل صاحب کی نظم کیا ہے، خزینہءِ بے بہا سمجھیے​
لطیفہءِ بے بدل سمجھیے، مزاح حد سے سِوا سمجھیے​
وہ ایک نقطہ جو لے کر آئے، زرو جواہر سے کم نہیں ہے​
یہی بس اب سوچتا ہے کامل ؔ، اس ایک نقطے کو کیا سمجھیے!​
 
Top