افسانہ ۔۔۔ جنگل میں جن

زیف سید

محفلین
اچانک سارا جنگل کتوں کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ بھانت بھانت کے کتوں کی آوازیں، بھاری بھرکم، غصیلی، گونجیلی آوازیں۔ کچھ پتلی، نوکیلی اور تیز پچ والی اور کچھ بھاری بھرکم اسفندیار کتوں جیسی ثقیل اور بوجھل۔ لیکن ان تمام آوازوں میں جوش اور ولولہ بھرا ہوا محسوس ہوتا تھا جیسے یہ کتے کسی خاص مشن پر بھاگے چلے جا رہے ہوں۔
چاروں طرف درختوں کی گھنی دیواریں تھیں، جن کی وجہ سے حدِ نظر بیس تیس فٹ ہی رہ گئی تھی، اور گھٹن سی محسوس ہو رہی تھی ۔ درختوں کی گنجان چھتریاں سورج کی ایک کرن کو بھی زمین تک پہنچنے کا موقع نہیں دے رہی تھیں اس لیے سہ پہر کے وقت بھی جھٹپٹے کا سماں تھا۔
اس واقعے کے کوئی ہفتہ دس دن بعد میں نے حوالدار (ریٹائرڈ) فیضان شاہ عرف سائیں مستان سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے میری بات بیچ ہی میں کاٹ دی، ’نہیں بھئی نہیں، کتے نہیں، جن تھے وہ۔ ذرا خود سوچو، کتا آبادی کا جانور ہے، بھلا اس دور دراز جنگل میں اس کا کیا کام؟ بعض شریر جن اسی قسم کی حرکتیں کرتے ہی رہتے ہیں اور ویرانوں میں کتوں کا روپ دھارنا تو ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اگلی بار اس طرف جاؤ تو مجھے ساتھ لے جانا۔ مرشد سرکار کی قسم، وہ درگت بناؤں گا کہ قیامت تک یاد رکھیں گے۔‘
سائیں مستان فوج میں ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے حوالدار کے عہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور کچھ بعید نہ تھا کہ اس سے بھی اوپر جاتے، لیکن ان کا مزاج لڑکپن کیا کہ بچپن ہی سے صوفیانہ تھا۔ فوج میں رنگروٹ بھرتی ہونے سے پہلے بھی علاقے بھر کے عاملوں، فقیروں اور مجاوروں سے ان کے گہرے مراسم تھے، لیکن پچھلے چند برسوں سے ان کے ارتکاز میں ایک نئی شدت پیدا ہو گئی تھی اور اس دوران انہوں نے سلوک کی منازل فوج کی ملازمت سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے طے کرنا شروع کر دی تھیں۔ لیکن بدقسمتی سے کسی حاسد پیر بھائی نے اپنے ہمزاد کے ذریعے ان کے چلے میں عین آخری لمحے پر دخل اندازی کروا دی جس کی وجہ سے ایک طرف تو کئی سال کا مجاہدہ اکارت ہو گیا تو دوسری طرف طبیعت میں بھی اس قدر انتشار پیدا ہو گیا کہ نہ صرف فوج کی پکی نوکری پر لات مارنا پڑی بلکہ کچھ عرصہ ڈھوڈیال کے مینٹل ہسپتال کی ہوا بھی کھا آئے۔ ہسپتال سے واپسی پر انہوں نے گاؤں کے لوگوں کو بتایا تھا کہ کس طرح بجلی کے شدید جھٹکوں کے درمیان بھی انہوں نے ’حق ہو‘ کے نعرۂ مستانہ کا دامن تھامے رکھا تھا، بلکہ جاتے جاتے اپنے وارڈ کے کئی ساتھیوں کو مرید بھی کر آئے تھے۔ چناں چہ انہی کرشمات اور خرقِ عادات کی بنا پر عملیات، سفلیات، جنات اور اسی قسم کے دوسرے محیر العقول، مافوق الفطرت اور مابعد الطبیعاتی مسائل پر ہمارے گاؤں میں ان کا کہا حرفِ آخر سمجھا جاتا تھا۔
واقعی، یہ بات تو سوچنے والی تھی کہ جنگل میں اتنے کتے کہاں سے آ گئے، لیکن خوش قسمتی سے اس وقت مجھے یہ نکتہ نہیں سوجھا، اور میں ان کو عام کتے ہی سمجھ کر فکرمند تر ہوتا گیا کیوں کہ میرے ذہن میں جنگلی کتوں کی کہانیاں گھوم گئی تھیں۔کہیں پڑھا تھا کہ افریقہ کا سب سے خطرناک، سفاک اور خوں خوار درندہ ببر شیر، تیندوا یا بھیڑیا نہیں بلکہ جنگلی کتا ہے جو درجنوں کے جتھوں میں شکار کرتا ہے اور اپنے سے کئی گنا بڑے حریف کو دوڑا دوڑا کر دہشت اور تھکاوٹ سے ہلکان کرکے مار گراتا ہے اور مل بانٹ کر کھاتا ہے۔
میں نے اپنے ہم سفر کو مخاطب کر کے کہا:
’امیر صاحب، اب تو برے پھنسے، کتوں کا یہ غولِ بیابانی، یہ سنسان جنگل، میل ہا میل تک کسی آبادی کے آثار نہیں۔ یہ کتے ہم پر پل پڑے تو ہڈیاں بھی نہیں بچیں گی۔ ‘
امیر صاحب مجھ سے چند قدم آگے تھے۔ میری طرف مڑے بغیر کہنے لگے:
’ارے بھئی فکر مت کرو، میں ابھی کتوں کا دم پڑھ کر پھونکتا ہوں، دم کی برکت سے کتے پاس نہیں پھٹک سکیں گے۔‘
ہم درختوں کے بیچوں بیچ ایک موہوم سی ڈھلوانی پگ ڈنڈی پر چلے جا رہے تھے۔ ٹری لائن یعنی دس ہزار فٹ کی بلندی سے اترے ہوئے ہمیں گھنٹا بھر ہو چلا تھا جس کے بعد پہلے اچھر کے درختوں کا جنگل گزرا تھا اور اس کے بعد رفتہ رفتہ بیاڑ کا جنگل شروع ہو گیا تھا، جس کا مطلب تھا کہ ہم اس وقت تقریباً آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر موجود ہیں۔
ان درختوں پر کسی قسم کے جھینگروں کا بسیرا تھا جو مسلسل ٹرا رہے تھے۔ یہ آوازیں عام جھینگروں جیسی نہیں تھیں، جو تھوڑی دیر بول کر اگلی باری کے انتظار میں خاموش ہو جاتے ہیں، بلکہ سچ پوچھیں تو شہری جھینگروں کی آوازیں کسی قدر سریلی بھی ہوتی ہیں اور ان میں کبھی کبھار سر میں بجائی ہوئی سیٹی کا تاثر بھی ملتا ہے۔ لیکن اس جنگل کے جھینگروں کی آوازیں کرخت، تیز اور مسلسل تھیں۔ جیسے بے شمار چھوٹی چھوٹی والی گراریوں والی مشین لگاتار چل رہی ہو۔ شہروں میں آپ کے آس پاس زیادہ سے زیادہ دس بارہ جھینگر ہوتے ہوں گے، اس لیے بیچ میں وقفہ آ جاتا ہے، لیکن اگر کے سو گز کے دائرے میں پچاس لاکھ جھینگروں میں سے ایک چند لمحوں کے لیے خاموش ہو تو علمِ شماریات کہتا ہے کہ اس خالی جگہ کو پر کرنے کے لیے اس کے ہزاروں ساتھی موجود ہوں گے۔
جھینگروں کی جھنکار کے پسِ منظر میں درختوں کے سوئی دار پتے پراسرار سی سائیں سائیں کر رہے تھے۔ کبھی کبھی دور کہیں تیتر کی پکار بھی سنائی دے جاتی تھی۔ فضا میں گندے بیروزے اور بیاڑ کے پتوں کی چبھتی ہوئی مہک پھیلی ہوئی تھی۔ پیڑوں کے تنے گندے بیروزے سے لتھڑے ہوئے تھے۔ ایک بار میں نے پھسلنے سے بچنے کے لیے ایک درخت کا سہارا لیا تو ہاتھ لت پت ہو گئے۔ بڑی مشکل سے کائی سے ڈھکی ہوئی ایک چٹان کی نم آلود نرماہٹ پر رگڑ رگڑ کر صاف کیے۔
ہم چھپر ہوٹل سے منھ اندھیرے نکلے تھے، راستے میں بسکٹ کے دو ڈبوں اور پہاڑی چشموں کے پانی کے سوا کچھ نہیں کھایا پیا تھا اور اب عصر کا وقت قریب آ رہا تھا۔ بسکٹ میں نے کل صبح الائی کے بنہ بازار سے نکلتے ہوئے اپنے بیگ میں رکھ لیے تھے۔ ڈبوں پر ایک مشہور برانڈ کا نام درج تھا، لیکن بیچ راستے میں چھپائی کی کوالٹی اور املا کی اغلاط پر نظر پڑی تو دل کو کچھ وہم سا ہونے لگا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان بسکٹوں کا ذائقہ اصلی بسکٹوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں تھا۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت بھوک نے کوئی چمتکار دکھلا کر بسکٹوں کے اصل ذائقے کو ملفوف کر دیا ہو۔ خیر اصل بات جو بھی ہو، سچ تو یہ ہے کہ صبح سے دوپہر تک ان بسکٹوں نے خاصا سہارا دیا تھا، مگر اس وقت ان کی تاثیر بھی ختم ہوتی جا رہی تھی۔ سفر کے چار گھنٹے ہم نے چودہ ہزار فٹ بلند موسیٰ کا مصلا پہاڑ کے شمالی پہلو پر چڑھتے ہوئے گزارے تھے، جس کی وجہ سے بند بند تھکاوٹ میں جکڑا ہوا تھا۔ اگرچہ اس وقت ہم پہاڑ کی دوسری جانب اتر رہے تھے جس کی وجہ سے نسبتاً سہولت تھی، لیکن پرپیچ اترائی کے درمیان کبھی کبھار چھوٹی موٹی چڑھائی آ جاتی تھی تو وہ بھی موسیٰ کے مصلے کی طرح کمر توڑ لگتی تھی۔
جگہ جگہ طوفانوں یا آسمانی بجلی گرنے سے زمیں بوس درختوں کے سوکھے اور بوسیدہ تنے پڑے تھے۔ ان تنوں کو ان اطراف کے لوگ ’بَن فال‘ کہتے ہیں۔ بن تو جنگل ہوا، لیکن فال کا مطلب کیا ہے؟ آخر ایک دن عقدہ کھلا کہ یہ دراصل محکمۂ جنگلات کی انگریزوں کے زمانے کی رائج اصطلاح ’وِنڈفال‘ کا مقامی روپ ہے۔ یہاں ونڈ فال کے دونوں معانی کارگر ہیں، ایک وہ چیز جسے ہوا نے گرایا ہو اور دوسرے نعمتِ غیر مترقبہ، یعنی وہ قیمتی چیز جس کا کوئی مالک نہ ہو۔
اس علاقے میں بن فالوں کی کثرت کا مطلب یہ تھا کہ یہاں سے آبادی بہت دور ہے ورنہ جنگل میں سوکھی لکڑی ملنا ایسے ہی ہے جیسے کسی کو پلیٹ میں رکھ کر حلوہ پیش کیا جائے۔ اس طرح آپ درخت منتخب کرنے، عزیزوں یا دوستوں کو ساتھ لا کر کلہاڑوں یا آرے کی مدد سے درخت کاٹنے، پھر اس درخت کے ٹکڑوں کو دھوپ میں کئی دن تک چوکور ڈھیریاں بنا کر سکھانے کی زحمت سے بچ جاتے ہیں۔
لیکن اس وقت ان معاملات پر غور کرنے کا موقع نہیں تھا، کتوں کی آوازیں قریب آتی جا رہی تھیں اور میرے پاس از قسمِ اسلحہ صرف بیاڑ کے درخت کی ایک سوکھی ہوئی ٹہنی تھی جسے میں نے راستے سے بطورِ’واکنگ سٹک‘ اٹھا لیا تھا۔ رہے امیر صاحب تو وہ خیر سے اس تکلف سے بھی بے نیاز، بازو لٹکاتے ہوئے خراماں خراماں رواں دواں تھے۔ امیر صاحب بچپن میں بھی پکے رنگ کے تھے، لیکن امتدادِ زمانہ اور کھلی فضا میں کام کرنے کی وجہ اب رنگ مزید گہرا ہو چلا تھا۔ ہاتھوں پر محنت مشقت، اور ٹخنوں اور ماتھے پر کثرتِ عبادات سے گٹے پڑ گئے تھے۔ اس وقت انہوں نے ایک ڈھیلا ڈھالا کرتا اور شرعی اصولوں سے ہم آہنگ ٹخنوں سے تین انچ اونچا پاجامہ زیبِ تن کیا ہوا تھا جو پرسوں تو ضرور سفید رنگ کا رہا ہو گا لیکن رات چھپر ہوٹل میں زمین پر سونے، آج دن کو آٹھ ہزار فٹ کی چڑھائی چڑھنے اور راستے میں دو تین بار پھسلنے کی وجہ سے ملگجے، ہرے، مٹیالے اور بھورے رنگ کا امتزاج پیش کر رہا تھا۔
یہ واضح کر دوں کہ امیر صاحب کو دولت کی ریل پیل کی وجہ سے امیر نہیں کہا جاتا تھا، بلکہ وہ گذشتہ کئی برس سے تبلیغی جماعت سے وابستہ تھے اور اس دوران پاکستان کے کئی خطوں کے دورے کرنے کے علاوہ لگے ہاتھوں صومالیہ میں بھی تبلیغی فرائض سرانجام دے آئے تھے۔ تبلیغی جماعت کا اصول یہ ہے کہ کسی بھی سفر پر روانگی سے پہلے ٹیم کا سربراہ مقرر کیا جاتا ہے جسے امیر کہا جاتا ہے اور اس کا ہر حکم بجا لانا تمام ارکان کا فرض ہوتا ہے۔ امیر صاحب مڈل سکول میں مجھ سے دو جماعتیں آگے تھے۔ اس زمانے میں وہ خاصے لبرل ہوا کرتے تھے، بلکہ دائیں ہاتھ کی تیز رفتار سپن باؤلنگ اور بائیں ہاتھ کی دھواں دھار بیٹنگ کی وجہ سے علاقے بھر میں خاصی شہرت رکھتے تھے۔
ہائی سکول سے فارغ ہونے کے بعد امیر صاحب گاؤں کے لائن مین بھرتی ہو گئے۔ ضلعی مرکز میں قائم گرڈ سٹیشن کی طرف سے وادی کی بجلی بغیر کسی واقعے کے دو دو دن تک موقوف رکھنا معمول کی بات تھی، اور اگر کوئی واقعہ پیش آ جاتا، مثال کے طور بارش، جھکڑ وغیرہ، تو پھر سمجھیے کہ ہفتہ دس دن کہیں نہیں گئے۔ قصہ مختصر یہ کہ امیر صاحب کام کے دوران بھی اکثر فارغ رہتے تھے۔
یہاں اگر آپ ایک لمحے کے لیے غور کریں تو معلوم ہو گا کہ لائن مین کا کام ویسے بھی منفی نوعیت کا ہوتا ہے۔ یہاں منفی سے میری مراد تخریب کاری یا منشیات کا دھندا وغیرہ نہیں، بلکہ یہ ہے کہ لائن مین اسی وقت کام کرتا ہے جب کوئی چیز خراب ہو جائے۔ مثال کے طور پر گاؤں کے ٹرانسفارمر کا فیوز اڑ جائے، یا پھر کسی کے گھر کا میٹر جل جائے، علیٰ ہٰذاالقیاس۔ لیکن اگر بجلی ہی نہیں ہے تو بجلی کا کوئی آلہ کیسے خراب ہو گا اور اگر کچھ خراب ہی نہیں ہوا تو پھر لائن مین کس چیز کو ٹھیک کرے گا؟
لیکن امیر صاحب کے جذبۂ ایمانی کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے مہینے میں پچیس دن ہاتھ پر ہاتھ دھر ے بیٹھے رہنے پر تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کو ترجیح دی اور اب وہ ہمارے علاقے کے مانے ہوئے تبلیغی تسلیم کیے جاتے تھے۔ پرسوں جب ہم اس سفر پر نکلے تھے تو انہوں نے اپنے مسلمہ اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے ہماری دو رکنی جماعت کی قیادت کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ پہلے تو انہوں نے رضاکارانہ طور پر مجھے بھی امارت کی پیش کی لیکن میرے لیت و لعل کے پیشِ نظر وہ خود اس بھاری ذمے داری کا بوجھ اٹھانے پر رضامند ہو گئے۔
اسی قیادت کے حفظِ مراتب کی رو سے وہ مجھے سے تین چار قدم آگے چلے جا رہے تھے۔ کتوں کی غصیلی آوازیں درختوں کی قطاروں، اونچے نیچے راستے، کھائیوں اور گھاٹیوں کی چھلنی میں سے گونج در گونج کے عمل سے گزر کر وحدت میں کثرت کا تاثر پیدا کر رہی تھیں اور ایسا لگتا تھا جیسے کتے چاروں طرف سے ہمارے گرد گھیرا تنگ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ میں نے بے چینی سے ادھر ادھر دیکھا، جھاڑیوں اور درختوں کی لامتناہی قطاروں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیا۔ اوپر سے جھینگروں کی مسلسل سمع خراشی سے کتوں کی تعداد کا اندازہ ہو رہا تھا اور نہ ہی ہم سے فاصلے کا۔ کبھی لگتا تھا کہ ابھی وہ اس دہرے درخت کے پہلو سے برآمد ہوں گے، کبھی محسوس ہوتا تھا کہ اگلا موڑ مڑتے ہی یک دم کتوں کا خوں خوار جتھا ہمارے سامنے آ دھمکے گا۔ ظاہر ہے کہ کتوں کو اپنی سونگھنے کی حس کی مدد سے میل دو میل دور ہی سے پتا چل گیا ہو گا کہ ہم اس راستے پر آ رہے ہیں۔
میں نے جب اپنی فریاد دہرائی اور میری آواز میں گھبراہٹ کے آثار پا کر امیر صاحب پیچھے مڑے تو میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے پر بھی تشویش کی علامات مترشح ہو رہی ہیں۔ لیکن شاید میری تسلی کے لیے انہوں نے کہا:
’تبلیغی جماعت کے گشت کے دوران ہمارا واسطہ کتوں سے پڑتا ہی رہتا ہے، اور یہ دعا میری آزمودہ ہے۔ ان شااللہ العزیز کتے ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔‘ یہ کہہ کر امیر صاحب نے منھ ہی منھ میں بدبدا کر ادھر ادھر پھونکا۔ کچھ دیر توقف کیا اور ایک بار پھر اسی دعا کے کلمات پڑھ کر ہوا کے دوش پر چاروں طرف روانہ کر دیے۔
میں کمزور عقیدے کا حامل انسان ہوں اور ہمیشہ سے راسخ الایمان لوگوں کو کبھی رشک اور کبھی شک کی نگاہ سے دیکھتا چلا آیا ہوں۔ اس لیے دم پھونکے جانے سے میری خاطر خواہ تسلی نہیں ہو سکی۔ میں نے اپنی خمیدہ واکنگ سٹک دونوں ہاتھوں سے تھام لی کہ کچھ تو مزاحمت پیش کی جائے۔ لیکن ناقابلِ یقین طور پر تھوڑی ہی دیر بعد کتوں کی آوازیں مدھم پڑتی چلی گئیں، اور چند ہی لمحوں کے اندر اندر درختوں کی سائیں سائیں اور پہاڑی جھینگروں کی مسلسل تکرار میں یوں تحلیل ہو گئیں جیسے نمک کا ڈھیلا گرم پانی میں دیکھتے ہی دیکھتے گھل جاتا ہے۔
آج اس واقعے کے سات سال بعد بھی یہ عقدہ حل طلب ہے کہ آخر یہ کتے کیا تھے، کہاں سے آئے تھے اور کہاں چلے گئے۔ یا پھر بقول سائیں مستان شاہ، جن بھوت تھے اور امیر صاحب کی شخصیت، یا پھر ان کے دم کی تاثیر کے باعث ہمارے قریب آنے سے باز رہے۔
اس موقعے پر میں نے مڑ کر اپنی زندگی کی وادی پر ایک طائرانہ نظر دوڑائی تو اسے بدگمانیوں اور بے یقینیوں کے بادلوں سے ڈھکا پایا۔ امیر صاحب اور تبلیغی جماعت کے دوسرے کئی سرگرم ارکان غریب خانے پر سینکڑوں بار جوتے چٹخا چکے تھے، لیکن اس پتھر میں جونک لگنا تھی نہ لگی۔ اور اب سوچا تو دل پر چوٹ سی لگی کہ وائے رے نادانی، جب میں اپنی بے وقعت زندگی کے بے وقعت تر جھمیلوں میں گم تھا، اسی دوران ایسے صاحبانِ کرامت بھی میرے آس پاس موجود تھے جو ایک پھونک سے کتوں کے غول کے غول کو غتربود کر دیں۔ یہی نہیں بلکہ بے نیازی کا عالم دیکھیے کہ اس طوفانِ بدتمیزی سے نمٹنے کے کرشمے کی داد وصول کرنے کی بجائے امیر صاحب اپنی جھونک میں بے نیازی سے یوں جا رہے تھے جیسے کوئی کسی گستاخ مچھر کو کالر پر رینگتا دیکھ کر انگشتِ شہادت کے اشارے سے فرش کی سیر کرا کر دوبارہ اپنے کام میں مگن ہو جاتا ہے۔ جی میں آیا کہ امیر صاحب کو روک کر فی الفور اپنی سابقہ گناہ آلود زندگی کا اعتراف کر لوں۔ لیکن پھر سوچا تو خیال آیا کہ اس واقعے کے پانچ منٹ اندر اندر ہونے والی اس کایاکلپ کو کہیں خاکسار کی جذباتی کمزوری پر محمول نہ کر لیا جائے، اس لیے فیصلہ کیا کہ گاؤں پہنچ کر دو چار روز تک مسجد میں امیر صاحب کے بعدِ نمازِ عصر دیے جانے والے وعظ میں شرکت کی جائے گی اور اس کے بعد مناسب موقع پا کر تبلیغی جماعت میں شمولیت کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد اگر بیرونِ ملک تبلیغی دورے پر جانے کی نوبت آتی ہے تو اس سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا۔
میں یہی سوچتا ہوا امیر صاحب کے جلو میں چلتا گیا کہ یک لخت جنگل یوں ختم ہو گیا جیسے کوئی اچانک کھڑکی سے پردہ کھینچ لے۔ ہم کئی ایکڑ پر پھیلے ہوئے ایک سبزہ زار میں پہنچ گئے تھے۔ پہاڑ کے پہلو میں اچھر، دیودار اور بیاڑ کے درختوں کے سیاہی مائل سبز سمندر کے درمیان ایک شاداب لاجوردی جزیرہ۔ یہ دراصل ایک چراگاہ تھی جس کے کنارے تو ڈھلوانی تھے لیکن اس کے بیچوں بیچ کرکٹ گراؤنڈ کے برابر زمین کسی قدر ہموار تھی۔ اسی ہموار قطعے کے وسط میں ایک چھوٹا سا گدلا تالاب تھا، جس میں آسمان پر منڈلاتی ہوئی چند بدلیوں اور سامنے والی پہاڑی کے عکس جھلملا رہے تھے۔ تالاب کے اردگرد دس بارہ بھینسیں کھڑی، بیٹھی، یا لیٹی تھیں۔ قرائن سے معلوم ہوتا تھا کہ کسانوں نے یہ تالاب بھینسوں کے پینے کے لیے کھودا ہو گا۔ اس علاقے کے کسانوں کا وتیرہ تھا کہ وہ گرمیوں کے چند مہینوں کے لیے حاملہ، کم عمر یا کسی اور وجہ سے دودھ دینے سے قاصر بھینسوں کو پہاڑوں پر واقع چراگاہوں میں چھوڑ آتے تھے، جہاں وہ سیزن بھر اپنی مدد آپ کے تحت رہتی تھیں۔
ہم چراگاہ میں داخل ہوئے تو کئی بھینسوں نے جگالی موقوف کر کے اورگردنیں موڑ موڑ کر ہماری طرف توجہ اور اشتیاق سے دیکھا۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی اجنبی محلے میں غلطی سے چلے جانے پر گلی میں آمنے سامنے دہلیزوں پر بیٹھی بڑی بوڑھیاں سلسلۂ تکلم روک کر آنے والوں کو غور سے تکتی ہیں کہ چلو اس عالمِ بوریت میں کچھ تو دل چسپی کا سامان نظر آیا۔
کچھ بھینسوں کی موٹی موٹی سیاہ آنکھوں میں تو اس قدر اپنائیت بلکہ شفقت نظر آئی کہ لگتا تھا ابھی بول پڑیں گی، ’ارے میاں کہاں بھاگے چلے جا رہے ہو، تھوڑی دیر بیٹھو، پسینہ سکھاؤ، پھر چلے جانا، یا یہ بھی نہیں کر سکتے تو کم از کم نام ہی بتاتے جاؤ۔‘
ایک بھینس اس سارے تماشے سے بے خبر سر جھکائے دل جمعی سے گھاس چرنے میں مصروف تھی، شاید اسے اب تک اس بات کی اطلاع نہیں ہو سکی تھی کہ اس کے کوچے میں دو نوواردان کا گزر ہے۔ جب ہم اس کے پاس سے گزرے اور ہماری باتوں کی آواز اس کے کانوں میں پڑی تب کہیں جا کر اس نے گھاس سے سر اٹھایا۔ میں نے دیکھا کہ اس بھینس کی آنکھوں میں اُس مروت اور خیر سگالی کا عنصر مفقود ہے جس کا مشاہدہ ہم نے پہلے والی بھینسوں میں کیا تھا، بلکہ اس کی آنکھوں میں کسی قدر کدورت کا پہلو نظر آیا۔
یہ بھینس باقی بھینسوں کے مقابلے پر زیادہ ہٹی کٹی اور پھرتیلی دکھائی دیتی تھی۔ اس کے کندھوں اور بالائی سینے کے پٹھے تازہ کیچڑ کی تہہ کے تلے تھرکتے ہوئے معلوم ہو رہے تھے۔ سینگ بھی زیادہ لمبے اور نوکیلے تھے اور ہلال کی طرح گھوم کر دوبارہ ماتھے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ سینگوں پر جھریاں بنی ہوئی تھیں اور ان کی جڑیں دائیں بائیں سے آ کر ماتھے اور سر کے ابتدائی حصے پر ایسے مل گئی تھیں جیسے درمیان سے مانگ نکالی گئی ہو۔
ہم تالاب کے گرد گھوم کر چراگاہ کی دوسری طرف چلتے گئے۔ لیکن اسی دوران میرے دماغ میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا۔ میں نے تیزی سے مڑ کر خشمگیں نظروں سے گھورنے والی بھینس کو دیکھا تو میرے خیال کی تصدیق ہو گئی۔ یہ بھینس نہیں بلکہ بھینسا تھا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں ماہرِ مویشیات ہر گز نہیں ہوں اور بھینسوں، گائیوں، بکریوں، بھیڑوں وغیرہ کی قبیل کے جانوروں کی عادات، اطوار و خصائل اور دوسری ضروری معلومات سے مطلقاً ناواقف ہوں۔ نہ ہی مجھے آج تک یہ بات معلوم ہو سکی ہے کہ آیا بھینسے بھی شیر ہاتھی وغیرہ کی طرح ’الفا مَیل‘جیسے کسی قدیم حیاتیاتی کلیے پر کاربند رہتے ہوئے بڑے شد و مد، بلکہ تشدد سے اپنے حرم کی پاسبانی کرتے ہیں اور اپنے خاندان کی حدود میں مداخلتِ بے جا کو کسی صورت برداشت نہیں کرتے۔ لیکن اس تمام تر جاہلیت کے باوجود یہ خیال کہ یہ بھینس نہیں بھینسا ہے، اس طرح کھٹاک سے دل میں جاگزیں ہوا جیسے چابی تالے میں فٹ ہو جاتی ہے۔
اسی دوران میں ایک بار پھر پیچھے مڑا تو دیکھا کہ صورتِ حال مخدوش ہو چکی ہے، بھینسے نے عین بل فائٹنگ والے بیل کی طرح گردن جھکا لی ہے، اور اگلے کھر جارحانہ انداز میں زمین پر رگڑ رہا ہے۔ میں نے فوراً امیر صاحب کو بھینسے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا ’امیر صاحب، دم پڑھیں دم!!!‘ لیکن اسی اثنا میں بھینسے نے نتھنے پھلا، سر جھکا، سینگ تان، یلغار کر دی۔
کہتے ہیں کہ انتہائی ہنگامی لمحات میں وقت کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ میرے ذہن میں ٹی وی پر دیکھے ہوئے وہ مناظر گھوم گئے جن میں سپین کی گلیوں میں بدمست سانڈوں کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر ان کی زد پر اگر کوئی آ جائے تو سانڈ اس کا قیمہ بنا دیتے ہیں۔ ایک بار کسی چینل پر دیکھا تھا کہ بیل کو عام ٹکر کے علاوہ ایک اور کام بھی بہت پسند ہے۔ وہ اپنے سینگوں کو چاپ سٹکس کی طرح استعمال کر کے انسان کو اٹھاتا ہے، اور پھر جیسے کوئی مشاق مچھیرا پانی میں جال پھینکتا ہے، بیل اپنے سر کو گھما کر شکار کو یوں پرے اچھالتا ہے جیسے وہ بالغ انسان نہیں بلکہ کپڑے کا بنا ہوا پتلا ہو۔
اور یہ تو پھر بھینسا تھا، بیل سے کہیں جسیم، قد آور اور طاقت ور۔ انسانی معاشرت میں کمرتوڑ مشقت سے کوسوں دور اس شنگریلا میں اپنے حرم کے درمیان بے فکری کی زندگی گزارنے سے اس کے ایک ٹن کے جسم میں بجلیاں سی بھری ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔
لیکن ظاہر ہے کہ ہر جاندار کو اپنی زندگی پیاری ہوتی ہے، اور میں فی الحال جانداروں ہی کی صف میں رہنا چاہتا تھا۔ اس لیے میں بھی بھاگا۔ کس طرف کو بھاگا، کیسے بھاگا، کس رفتار سے بھاگا، اس کا فیصلہ دماغ نے نہیں، ٹانگوں نے کیا۔ راستا بھٹکنے کی جھلاہٹ، طویل سفر کی تھکاوٹ اور بھوکے پیٹ کی کلبلاہٹ طوطوں کی طرح اڑ گئیں۔ بیس پچیس گز دور گھاس کے قطعے کی سرحد تھی، جس کے بعد ایک تیکھا نشیب شروع ہوتا تھا۔ ادھر بھینسے کے کھروں کی دھمک میری ایڑیوں پر محسوس ہو ئی تو میں نے نشیب تک پہنچنے کا انتظار کرنے کی بجائے تین چار قدم پہلے ہی چھلانگ لگا دی۔ تین چار پٹخنیاں کھائیں، پھسلا، لڑھکا اور پھر رک گیا۔ ہر طرف سکوت کا عالم تھا، جیسے سمندر میں جہاز ڈوبنے کے بعد گہری خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ تھوڑی دیر تک مجھے پتا نہیں چلا کہ میں کون ہوں، کہاں ہوں اور ستر پچھتر درجے کی ڈھلوان پر جھاڑیوں کے درمیان اٹکا ہوا کیا کر رہا ہوں۔
کچھ حواس بحال ہوئے تو میں نے مڑ کر اوپر دیکھا۔ بھینسا میرے پیچھے گھاٹی میں کودنے کا ارادہ منسوخ کر کے گہرے اودے رنگ کے آسمان کے پس منظر میں ڈھلوان کے کنارے پر کھڑا مجھے گھور رہا تھا۔
میرا بیگ ایک طرف اوندھا پڑا تھا، اس میں سے ریڈیو نکل کر دور جا پڑا تھا، پانی کی بوتل اس ہنگامے کی تاب نہ لاتے ہوئے پچک گئی تھی، جب کہ واکنگ سٹک کا کہیں اتا پتا نہیں تھا، اور امیر صاحب ڈھلوان کے دامن میں کھڑے باآوازِ بلند میری خیریت دریافت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
میں دھک دھک کرتے دل کو سنبھالتا، کہنیاں، ٹخنے اور گھٹنے سہلاتا، جھاڑیاں پکڑ پکڑ کر نیچے اترا۔ کچھ دیر تو سانسیں درست کرنے میں لگ گئیں۔
’امیر صاحب، تم بھی عجیب انسان ہو، میں نے تمہیں کتنا کہا کہ دم پڑھو، دم پڑھو، لیکن تم مجھے بھینسے کے حوالے کر کے خود رفو چکر ہو گئے؟‘
امیر صاحب کچھ کھسیانے سے نظر آئے۔ ’ارے بھئی کتنی بار تم سے کہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مت گھبرایا کرو۔ اب دیکھو کہ تمہارے چہرے کا رنگ بالکل سفید پڑ گیا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے خون کھینچ لیا ہو۔‘
’رنگ سفید نہ پڑے تو کیا کرے؟ اور یہ ایک ٹن کا بھینسا تمہیں چھوٹی سی بات لگ رہا ہے؟ جانتے ہو، میرے اور موت کے درمیان سینگ بھر کا فاصلہ رہ گیا تھا؟‘
ایک لمحے کو امیر صاحب کے ترشواں لبین پر خجالت آلود مسکراہٹ کی لہر دوڑی اور وہ کسی قدر کسمساتے ہوئے بولے، ’یار اصل میں بات یہ ہے کہ مجھے کتوں کا دم تو آتا ہے، بھینسے کا دم نہیں آتا۔‘
اگلے دن گھر پہنچنے کے بعد مکروہاتِ دنیوی اور مصروفیاتِ زندگی میں کچھ ایسے گِھرا کہ ابھی تک صومالیہ یا نائجیریا کے سفرِ تبلیغ کے لیے خود کو وقف کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اور ہاں، یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ میں نے سائیں مستان سے اس بھینسے کا ذکر نہیں کیا، ورنہ شاید وہ اسے بھی کوئی شرارتی جن ہی قرار دیتا۔
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ زیف۔۔۔ کیا یہ وائس آف امریکہ میں آ چکا ہے؟ ورنہ ’سمت‘ میں شامل کر دیا جائے۔ اگلے شمارے میں۔۔ م م مغل متوجہ ہوں۔
 

زیف سید

محفلین
جناب اعجاز صاحب، نہیں یہ افسانہ اس محفل کے علاوہ کہیں اور شائع نہیں ہوا۔ پاکستان کے کسی ادبی پرچے میں اشاعت کے لیے بھیجنے کا ارادہ ہے۔آپ چاہیں تو سمت میں شامل کر سکتے ہیں۔

زیف
 

مغزل

محفلین
زیف صاحب ماشا اللہ ، کمال افسانہ ، پورے افسانوی لوازم اور زبان و بیان پر مکمل وعبور ، سب سے کمال بات کہ وحدتِ تاثر کا کمال حدتک غلبہ گرچہ ہیئت کے اعتبار سے ایسا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔باوصف اس کے کہ افسانے کی زبان عام ڈگر سے ہٹ کر خالصتاَ ادبی ہے ، جابجا محاور ے کے چٹخارے،بالخصوص لفظوں میں نونک جھونک نے سنجیدہ موضوع کو بوریت کے دائرے میں داخل نہیں ہونے دیا، بندہ ناچیز کی طرف سے مبارکباد ، اللہ کرےحرمتِ قرطاس وقلم اور۔۔ سمت کے لیے محفوظ کرنا ہی چاہ رہا تھا کہ باباجانی کا مراسلہ بھی نظر آگیا، انشااللہ شامل کردیا جائے گا۔
مزید افسانے بھی محفل میں پیش کیجے یا اگر پہلے سے پیش کرچکے ہیں تو ربط عطا کیجے گا۔
 

زیف سید

محفلین
افسانے کی پسندیدگی کا بہت شکریہ مغل صاحب۔ خاک سار نے اسی سفر کے دوران پیش آنے والے چند اور واقعات کو بھی قلم بند کیا ہے۔ چند دنوں میں انہیں بھی پیش کر دوں گا۔

زیف
 

مغزل

محفلین
ضرور ضرور۔ اب تو میں آپ سے مکمل تعارف بھی چاہوں گا مناسب خیال کیجے تو ، ربط کے ساتھ دیگر معلومات ذپ کردیجے ۔ جزاک اللہ
 
السلام علیکم زیف صاحب آپ کی تحریر میں ایک بہت سنگین قسم کی غلط فہمی ہے جس کو ہم نے آپ کو ذاتی پیغام میں لکھ کر بھیج دیا ہے چونکہ اس غلط فہمی کا تعلق فورم سے نہیں تھا اسی لیئے مناسب سمجھا کہ آپ کو ذاتی پیغام میں نشان دہی کردی جائے۔گر قبول افتد زہے عزوشرف
واسلام rohaani_babaa
 
Top