انٹرویو اعجاز اختر صاحب

اسلامُ علیکم جناب اعجاز اختر صاحب
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہونگے ۔۔۔ سر محفل کے ایک بہت ہی سینیئر رکن بلکہ موڈریٹر ہونے کی وجہ سے آپکے بارے میں جانکاری کی اشتیاق لازم ہے اور امید کرتا ہوں کہ آپ جلد ہی زیل کے سوالات کے جواب ازراہ شفقت عنائیت فرماویں گے۔ ۔ ۔۔۔۔ امید ہے کہ آپ اس سلسلہ کا حظ اٹھائیں گے۔ شکریہ

١۔ آپکا پورا نام؟
٢- پیار سے کیا پکارا جاتا ہے؟ اور کیوں؟
٣۔ عمر کتنی ہے؟
٤۔جائے پیدائیش ؟
٥- حاضر مقام؟
٦۔مصروفیت کیا ہے؟
٧۔تعلیمی قابلیت؟
٨۔ مشاغل، ویب کے علاوہ؟
٩۔ کونسی زبانیں روانی سے بول سکتے ہیں؟
١٠۔ اور بڑے ہوکر کیا بننے کا ارادہ ہے؟

آپکے جوابات کا اشتیاق رہے گا اور یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہو گیا ہے بلکہ چلتا رہے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
فتخار راجہ کا حکم شاہی ملا ہے )راجہ ٹھہرے(تو اپنا تعارف کرانا ہی پڑے گا جو عرصے سے ٹل رہا تھا۔ اور پھر یہ غلط فہمی بھی تھی کہ اکثر لوگ مجھ سے اردو کمپیونگ ہاہو گروپ کی وجہ سے مجھ سے واقف ہوں گے جہاں میں نے اپنی تفصیل تیکسٹ فائل کی شکل میں محفوظ کر رکھی ہے۔ بہر حال اب اردو میں یہاں بھی سہی۔
مقام پیدائش" جاؤرہ۔ ضلع رتلام۔ مدھیہ پردیش۔ جو ننھیال ہے (ددھیال کے آباء و اجداد نصیر آباد، راجستھان، ننھیال کے آباء و اجداد افغانستان اور ایران۔ نانا ریاست جاؤرہ میں مفتی، عدالت شریعہ کے جج اور نوابین کے اتالیق تھے۔ )، تاریخ ۲۲ جنوری ۱۹۵۰ اور اسپتال میں اکلوتا لڑکا ہونے کی وجہ سے (والدہ کے بیان کے مطابق) ہندوستان کے پہلے یوم جمہوریہ کا جھنڈا میرے ہاتھوں چڑھایا گیا۔ ابتدائی تعلیم اندور مدھیہ پردیش میں، اور پھر علی گڑھ سے بی ایس سی،ایم ایس سی (جیالوجی۔ ۱۹۷۳)، ایک سال ریسرچ اور شعبہ ارضیات کی ملازمت۔ اسی دوران پبلک سروس کمیشن کے مقابلاتی امتحانات میں انتخاب اور ۱۹۷۵ میں کول کاتا (جوتب کلکتہ تھا) میں ارضیاتی سروے ہند میں درجہ اول گزٹیڈ آفیسر کے طور پر پوسٹنگ۔ ان ۳۰ سالوں میں دوسری ترقی کے باعث اگست ۲۰۰۴ سے ناگ پور میں بطور ڈائرکٹر پوسٹنگ ہے۔ اس دوران پوسٹنگ کلکتہ کے بعد حیدر آباد، شیلانگ اور پھر حیدر آباد میں رہی جہاں سیٹل ہو گیا۔ فی الحال ناگپور میں ہوں۔
والد صادق اندوری مالوے کے مشہور استاد شاعر تھے (بلکہ بزرگوں کا ہر فرد شاعر تھا، نانا ،دادا، والد کے ماموں وغیرہ)۔ والدہ عبیدہ انجم کی نظمیں بھی آئینہ اور شاعر وغیرہ پرچوں میں کافی چھپیں۔ بچوں کی شاعری شروع کی ۱۹۶۰ میں ہی جب رسالہ نور رام پور میں ابتدائی تخلیقات چھپیں۔ ۱۹۶۴ سے ۱۹۶۹ تک 'پیام تعلیم' دہلی میں۔ ۱۹۶۶ سے ۱۹۶۷ اندور کے روز نامے وفیر مالوہ کے بچوں کے ضمیمے 'کھلتی کلیاں' کی ادارت بھی کی۔ اسی اخبار کے ادبء صفحے رنگ و نور سے ادبی سفر کا آغاز ہوا۔ ۱۹۶۷ میں کتاب۔ لکھنؤ اور ۱۹۶۸ شب خون الہ آباد میں شاعری چھپی۔ ۱۹۶۸ میں علی گڑھ میں بشیر بدر اور صلاح الدین پرویز کا ساتھ رہا، علی گڑھ میگزین کے ادارتی بورڈ میں دو سال شمولیت رہی۔ مرحوم سرور صاحب نے اردو میں ایم اے کرنے کے لئے اکثر رجھایا لیکن بہت سے بزرگوں نے باز رکھنے ک کوشش کی۔ پھر بھی ادبی سرگرمیاں تو جاری رہیں اگر چہ ایم ایس سی میں آنے کے بعد بشیر بھائی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی بند ہو گیا اور چھپنا چھپانا بھی۔ سابق مرکزی وزیر عارف محمد خان نے ہفت روزہ نکالا تو اس کے ادبی حصے کی ادارت بھی کی۔ عزیزی دوست جاوید حبیب ھی اکثر اخبار نکالتے تھے اور ادارت میں شامل رکھتے تھے۔ (جاوید بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے رکن رہے ہیں) ۔دو دہائیوں تک چھپنا چھپانا تقریباً موقوف رہا، بس احباب اپنی کتابوں پر تبصرے لکھواتے جو وہ چھپوا دیتے۔ پھر حیدر آباد میں اپنے ہی شعبے میں مصحف اقبال توصیفی کے ساتھ قریبی تعلقات ہوّئے، (بلکہ موصوف میرے ہی ڈائرکٹر کے طور پر ۲۰۰۰ء میں ریٹائر ہوئے) جنھوں نے پھر کچھ رسالوں میں اشاعت کے مجبور کیا۔۱۹۹۷ میں حج کی سعادت حاصل ہوئی زاور اس کے بعد ۹۸سے قرآن کریم کی ہندی تفسیر کا کام شروع کیا۔ (جو ابھی تک پارہ عم سے آگے نہیں بڑھا ہے، کام بہت ہیں وقت کم)۔ اسی زمانے میں کمپیوٹنگ سے ربط بڑھا۔ ۱۹۹۶ میں گھر میں پہلا کمپیوٹر لیا (۴۸۶۔ ۷۵ میگا ھرٹز، آٹھ ایم بی ریم، ۶۵۰ میگا بائٹ ہارڈ ڈسک، قیمت ۵۰ ہزار)، اور جب قرآن درپن کو کمپیوٹر میں ٹائپ کرنے کا سوچا تو فانٹ وغیرہ کے بارےمیں معلومات حاصل کیں۔ اس لئے کہ یہ احساس ھوا کہ مجھے اپنی فائلوں کے ساتھ فانٹ بھی دینی پڑیں گے تو یہ کاپی رائٹ فانٹس کیسے دوں؟ اس طرح پھر فونیٹک ھندی فانٹس بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اردو کی دل چسپی تو تھی ہی۔ برادرم مصحف اقبال نے جیلانی بانو (جو ان کی عزیزبھی ہوتی ہیں) کے صاحب زادے اشہر فرحان سے 'صفحہ ساز" کا شیر ویر دلوایا۔ لیکن اس نے مجھے مطمٗن نہیں کیا۔ پھر جب گھر میں کیبل انٹر نیٹ آیا تو اردو ۲۰۰۰ء داؤن لوڈ کیا۔ اور بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ان پیج کا ہی پائریٹیڈ رژن ہے تو پھر اس کے خلاف مہم شروع کی۔ نتیجہ یاہو گروپ۔ اور اس سے کچھ پہلے ہی قرآن ان ہندی یاہو گروپ (اور بعد میں انڈک کمپیوٹنگ۔ کمپیوٹنگ والے دونوں گروپ زیادہ فعال رہے ہیں)۔ انٹر نیٹ سے ربط ہونے کے بعد ساری ادبی کارروائیاں بھی انٹر نیٹ پر رہیں۔ ۱۹۹۸ میں حج کا مزاحیہ سفر نامہ مرتب کیا (جو در اصل حج کے دوران لکھی ڈائری پر مشتمل تھا) جو اردستان ڈاٹ کام پر اب بھی قسط وار آ رہا ہے۔ اس کو تقریباً دو سال کے عرصے میں ٹائپ کیا تھا ان پیج کے فارمیٹ میں اس لئے یہ تصویری شکل میں ہی اب بھی آن لائن ہے۔ اس کو بھی تحریر میں تبدیل کرنا ہے۔ اپنی تخلیقات بھی دھیرے دھیرے تحریری اردو میں ٹائپ کر رہا ہوں۔ اپنے ریٹائر منٹ کا انتطار ہے جب مکمل اردو اور دین کی خدمت کے لئے سارا وقت صرف کر سکوں گا۔
دوسری دل چسپیاں۔ ادب کے علاوہ موسیقی۔ کئی ساز بجا سکتا ہوں۔ بانمسری بطور خاص۔ علی گڑھ میں میرے دو مامؤں کے ساتھ ایک فلم بنانے کا پروگرام بھی بنا تھا جس کے گیت اور موسیقی بھی اس ناچیز نے دی۔ علی گڑھ میں ہی "سمت" ادبی ڈائجسٹ کا پروگرام جاوید حبیب کے ساھ بنایا جو ظاہر ہے مکمل نہیں ہوا (اس سے پہلے ایک بچوں کے دائجسٹ کا رجسٹریشن بھی لیا تھا "بازیچہ"کے نام سے۔ )۔
خاندان۔ شادی ۱۹۷۶ میں صابرہ بیگم سے۔ دو بچے ہیں۔ بیٹا کامران صابر ٹکساس میں پٹرولئم انجینیرنگ کرنے کے بعد پہلے سعودی آرام کو میں دو سال ملازم رہا اب ٹکساس میں ہی ہیوسٹن میں ٹکساکو شیوران کمپنی میں انجینیر ہے۔ بیٹی نبیلہ اعجاز نے ۲۰۰۴ میں ہی میکینکل انجینیرنگ کیا اور اگست ۲۰۰۴ میں ہی شادی کے بعد ساں ہوزے۔کیلی فورنیا،امریکہ میں مقیم ہیں، داماد نیاز مشہور کمپنی این ویڈیا میں الکٹرانک انجینیر ہے۔ اہلیہ صابرہ اعجاز بھی سنٹرل گراؤنڈ واٹر بورڈ میں ہیں اور حیدر آباد میں ہی پوسٹیڈ ہیں جب کہ میں ناگ پور میں ہوں پچھلے سال سے۔ ۱۹۸۹ میں یہ حیدر آباد میں ایٹل ہونے کی غرض سے مکان بھی لے لیا ہے۔ علی گڑھ اندور کا مکان بیچ کر ۱۹۶۹ میں بسایا جب کہ میں ۱۹۶۸ سے وہاں تھا۔ والدہ بہن اور بھائی اب بھی علی گڑھ میں ہی ہیں۔
تو یہ ہوگئے غالباً سارے سوالات کے بے ترتیب مگر تفصیلی جوابات۔ تاکہ سند رہیں اور بوقت ضرورت کام آئیں۔ ایک سوار چھوٹ گیا۔ بؑے ہو کر کیا بنوں گا؟؟ اب تو یہی کہنا چاہئے کہ
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے۔
ویسے ریٹائر منٹ کے بعد کافی کچھ کرنے کا ارادہ ہے، بشرطیکہ زندی اور صحت ساتھ دے۔ یوں بھی دائمی دمے اور اب سر وکل سپانڈی لائٹس اور بواسیر کا بھی مریض ہوں۔
دعا کریں کہ خدا مجھے صحت کے ساتھ عمر طویل عطا کرے کہ جس قدر کام ہو سکیں انجام دے سکوں۔
 

الف عین

لائبریرین
اتنی تفصیل دے کر یاران محفل کو بور کرنے کے باوجود ایک سوال کا جواب چھوٹ گیا تو مزءد

عرض ہے زبانوں کے علم کے بارے میں:
اردو، ہندی، انگریزی اور بنگالی
شد بد: فارسی، تیلگو، کنڑ، فرنچ، گجراتی اور اب پنجابی بھی
 

اجنبی

محفلین
انکل بہت خوشی ہوئی آپ کے بارے میں جان کر ۔ مگر اپنی تحریر میں تاریخوں کو عربی ہندسوں میں لکھ دیجیے
 
اعجاز اختر نے کہا:
فتخار راجہ کا حکم شاہی ملا ہے )راجہ ٹھہرے(تو اپنا تعارف کرانا ہی پڑے گا جو عرصے سے ٹل رہا تھا۔ اور پھر یہ غلط فہمی بھی تھی کہ اکثر لوگ مجھ سے اردو کمپیونگ ہاہو گروپ کی وجہ سے مجھ سے واقف ہوں گے

سر بھلا ایسے ہوسکتا کہ میں اور آپ کو حکم دوں، استغفراللہ، آپ محترم ہیں اور میں بڑوں کی دل کی گہرائیوں سے عزت کرتا ہوں اور پھر جو علم میں بھی بڑا ہو تو بات دو گنا بڑائی کی نہیں بلکہ سو گنا بزرگی کی ہوجاتی ہے۔

سر یہ بات نہیں کہ میں آپکو جانتا نہیں ہوں وللہ اردو ویب کمپوٹنگ پر آپکو کون نہیں جانتا بس یہ کہ کچھ دوستوں کی دلچسپی بڑھانے کو اور کچھ مذید معلومات کے حصول کےلیئے یہ سلسلہ میں نے شروع کیاہے۔ اور اسکا نتیجہ آپ خود دیکھ رہے ہیں۔

حقیقتاُ آپ جیسی ادبی اور علمی شخصیت کے بارے میں جانکر دلی مسرت ہوئی ہے اور خوشی بھی کہ آپ ہمارے نگران بھی ہیں اور ہمراہ بھی۔
 

الف عین

لائبریرین
دو دن سے گڑبڑ کی وکہ سے کچھ پوسٹ نہیں کر سکا۔ خیر، دیر آید، درست آید۔
افتخار، شکریہ کہ تم ہم بزرگوں کو اتنی عزت دیتے ہو۔ بہر حال۔ اور قدیر! معلوم نہیں آپ حضرات کو اعداد میں کیا مشکلات پیش آ رہی ہں۔ میرے پاس تو ہر براؤزر صحیح ہندسے دکھاتا ہے۔ بہر حال تاریخیں دوبارہ پیش ہیں۔
پیدائش 22جنوری 1950
ایم ایس سی (جیالوجی۔ 1973
1975جی ایس آئی میںملازمت
1960 میں ہی جب رسالہ نور رام پور میں ابتدائی تخلیقات چھپیں۔ 1964سے 1969 تک 'پیام تعلیم' دہلی میں۔ 1966سے 1967 اندور کے روز نامے سفیر مالوہ کے بچوں کے ضمیمے 'کھلتی کلیاں' کی ادارت بھی کی۔ اسی اخبار کے ادبی صفحے رنگ و نور سے ادبی سفر کا آغاز ہوا۔ 1967میں کتاب۔ لکھنؤ اور 1968شب خون الہ آباد میں شاعری چھپی۔ 1968-1970میں علی گڑھ میں بشیر بدر اور صلاح الدین پرویز کا ساتھ رہا،
1997 میں حج کی سعادت حاصل ہوئی
1998میں حج کا مزاحیہ سفر نامہ اللہ میاں کے مہمان مکمل کیا۔
مزید ایک سوال کا جواب۔ بچپن میں وطن جاؤرہ میں کچھ لوگ 'اجوّ میاں' کہتے تھے۔ اسے عرفیت کہہ سکتے ہیں۔
 
اسلامُ علیکم، تعارف کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے ان سولات کے جوبات دیں، اگر کوئی سوال آپ کے مزاج کے خلاف ہوتو اسکا گول مول جواب دیا جاتا۔
مقصد: ان سوالات کا مقصدآپ کا وقت ضائع کرنا ہے، اگر آپ سے پڑھنے والے کے چہرہ پر ایک مسکراہٹ آجائے تو اسے آپکا مشکور ہونا چاہئے۔ تحریری طور پر۔ :mogambo:

سوالات:
11-آپ کیوں زندہ ہیں؟
12-اور کب تک؟
13-آپ کا خیال میں بھاگتے چور کی لنگوٹی کیا کام آ سکتی ہے؟
14-طوطا چشم اور یک چشمِ گُل میں کیا فرق ہے؟
13-لاہور اگرپنجاب میں نہ ہوتا تو کہاں ہوتا؟
14 -فال نکالنے کو طوطے کا ہونا کیوں ضروری ہے؟
15- آپ نے کبھی آبیل میجھے مار پر عمل کیا ہے؟ کیا نتیجہ نکلا؟
16- آخری کتاب کب کونسی پڑھی تھی اور کیوں؟
17۔ “لا علمی ہزار نعمت ہے“ 3 وجوہات بیان کرو؟
18۔ اگر آپ کو ملک کا صدر بنا دیا جائے تو پہلا کام کیا کریں گے؟
19۔ نا پسندیدہ کتاب کا نام بتائیں اور وجہ بھی بیان کریں؟
20۔ آپ کی 1 کروڑ ڈالر کی لاٹری نکل آئی ہے؟ مجھے کتنے پیسے دیں گے اور کیوں؟

جوابات پڑھنے والے پر دو مزید سوالات کرنا لازم ہے۔ لگ پتا جائے گا
 

الف عین

لائبریرین
سوالات:
11-آپ کیوں زندہ ہیں؟
کیوں کہ ابھی تک ہمارا وقت نہیں آیا کہ ہم دنیا کے سینے پر مونگ دلنے سے باز آئیں۔
12-اور کب تک؟
جب وقت آ جائے گا۔
باقی جوابات کے لئے قسط۔۲ کا انتظار کیجئے۔
 
سلام سر
یہ آپ نے مونگ دلنےکاخوب استعمال کیا۔
میں نے آپ کا سفر نامہ پڑھا وللہ بہت مزا آیا، آپ کے مخصوص انداز کا خوب حظ اٹھایا۔
آپ کے ماندہ جوابات کا شدت سے انتظار رہےگا۔
 
بڑے عرصے سے انتظار تھا کہ اعجاز صاحب کے بارے میں کچھ جان سکوں آج یہ خواہش پوری ہو گئی۔ میں نے پہلی دفعہ کسی کو بزرگ کو انٹرنیٹ پر اتنا فعال دیکھا ہے اور یقینا ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم آپ کے فیض سے مستفید ہو رہے ہیں۔

خدا آپ کو ہمارے سر پر سلامت رکھے اور اردو کی خدمت کا موقع عطا کرے۔ آمین
 

الف عین

لائبریرین
[quote="ممیں نے پہلی دفعہ کسی کو بزرگ کو انٹرنیٹ پر اتنا فعال دیکھا ہے اور یقینا ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم آپ کے فیض سے مستفید ہو رہے ہیں۔

[/quote]
شکریہ محب۔ کچھ لوگ مجھے ہائی ٹیک مولیٰنا کہتے ہیں (لیکن میں اردو میں مولیٰنا لفظ بھی استعمال کرنے سے بچتا ہوں۔ عربی کا مولیٰنا اللہ کے ناموں میں سے ہے۔ عرب میں یہاں تک کہ امریکہ میں علماء کو شیخ کہتے ہیں۔)۔ میں تو ریٹائر مینٹ کا انتظار کر رہا ہوں کہ کل وقتی اردو اوراسلام کی خدمت کی جاسکے۔
اور بھئی جب میرا بایو ڈاٹا پڑھ رہے تھے تو کم از کم سال گرہ کی مبارکباد ہی دے دیتے!!!
 
معذرت سر دیر کےلئے
میرے طرف سے سالگرہ کی بہت سی مبارک باد قبول فرمائیے، اللہ آپ کو ہمارے سروں پر ایک ٹھنڈے سایہ کے طور پر ہمیشہ سلامت رہے، صحت و تندرستی کے ساتھ۔
تو آپ مجھے ہندی کب سکھلا رہے ہیں؟
 
میں زیادہ کچھ نہیں کہوں گا بس یہ بتا دوں کہ میں بھی یہاں تک پہونچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اور سطح پر آ جانے سے ممکن ہے کچھ لوگ اور بھی مستفید ہو لیں۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
بہت اچھا کیا سعود بھائی، کیا گہرائی میں جا کر گوہر ڈھونڈ کر لائے ہیں۔
اب اس سلسلے کو آگے بھی بڑھائیں۔
 
مجھے ہلکان ہونے کی کیا ضررت! :grin:
آگے بڑھانے کے لئے اتنی ساری آپائیں جو پال رکھی ہیں بال کی کھال نکالنے والی۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
وہ تو ٹھیک ہے لیکن ان میں زینب کو شامل نہ کیجیئے گا کیونکہ وہ بال کی کھال اتارنے کی بجائے بال سے چمٹا رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
میں نے تو پہلے ہی کہیں وظیفے کا ورد کیا تھا ۔۔ جلِ تو جلال تو۔۔۔۔
سعود اس موضوع کو سامنے لے ہی آئے۔خیر، گپیں ہی ہوتی رہیں یہاں تو اچھا ہے۔ تعبیر سے چھپا سکو گے سعود اس کو؟
 
یہ وظیفہ میں بھی لکھ لیتا ہوں کسی ٹیکسٹ فائل میں، بس ایک بات اور بتا دیں کہ اسے استعمال کیسے کرنا ہے؟ ٹھنڈے پانی سے یا گرم پانی سے؟ ;)

رہی بات تعبیر اپیا سے چھپانے کی تو میں بھلا ایسا کیوں چاہوں گا۔ :) اب تو یہاں ہر اس ہستی کی آمد متوقع ہے جو میری "آپاؤں" کی فہرست میں شامل ہیں۔ باقی سارے بھائیوں کا نام لینے کی تو ضرورت ہی نہیں ہے وہ سوال شاید کم کریں پر جواب دیکھنے تو نازل ہونگے ہی۔

ادھر شمشاد بھائی زینب اپیا کو الگ ہوا دے کر مشتعل کر رہے ہیں۔

ان سب کے علاوہ ایک اور ہستی جن کی آمد و رفت کے قوی امکان ہیں وہ ہیں ہمارے چاچو (یعنی آپ) :)
 

تعبیر

محفلین
سعود میرا ارادہ بہت بہلے الف عین جی کے انٹرویو کا تھا پر مجھے یہ معلوم ہی نہین تھا کہ اعجاز اختر صاحب بھی یہی ہیں۔
پر کیسے کہ الف سے تو اختر/اعجاز ہو گیا پر این سے کیا ہو گا۔

سعود ایک اور انٹرویو کا لنک ظفری نے بھی دیا ہے ایک تھریڈ میں جو کہ امن ایمان نے لیا تھا۔

الف عین جی گو کہ آپ کی عمر میرے بابا جتنی ہے ہر مین پھر بھی آپ کو الف عین ہی کہوں گی کہ باقی کے سب رشتے میرے پاس ہیں جو رشتہ نہیں ہے وہ دوستی کا ہے۔ اسے پلیز بدتمیزی مت سمجھیے گا کہ کسی کو احترام یا عزت دینے کے لیے کسی رشتے سے پکارنا ضروری نہیں کہ احترام لفظون۔ جذبوں میں ہوتا ہے رشتوں میں نہیں۔ دوستی کوئی گوورنمنٹ جاب نہین ہوتی جس مین عمر کی قید ہو
 
الف عین: اعجاز عبید کا مخفف ہے۔

آپ نے شاید شمارہ سمت کو نہیں دیکھا ورنہ یہ نام آپ سے مخفی نہ رہتا۔
باقی کی باتیں اپیا جانیں چاچو جانیں۔ :)
 
Top