محمد اجمل خان
محفلین
آج تک!
یہ کوئی نہیں جان سکا!
خوابوں کے کتنے رنگ ہیں!
خواہشوں کے کتنے ترنگ ہیں!
ڈاکٹر نے کینسر میں مبتلا بارہ سالہ بچی سے پوچھا: "بیٹی، تم بڑی ہو کر کیا بننا چاہتی ہو؟"
بچی نے جواب دیا: "بڑی ہونے تک جینا چاہتی ہوں"، اور وہ جی نہ سکی۔
آئی سی یو کے اندر کا آدمی بس ایک بار شیشے کے دروازے سے باہر نکلنا چاہتا ہے!
یہ جینے کی خواہش، یہ جینے کی تمنا کتنا دل دہلا دینے والا ہے!
ٹانگوں سے معذور شخص صرف دو ٹانگوں پر چلنا، پھرنا اور اچھلنا کودنا چاہتا ہے!
ہاتھوں سے معذور شخص کی ایک ہی خواہش کہ کاش میرے ہاتھ صحیح سالم ہوتے!
اندھا شخص صرف ایک بار دنیا کی رنگینی دیکھنے کی خواہش لئے ساری زندگی گزار دیتا ہے!
گونگا آدمی صرف ایک بار لوگوں سے بات کرکے اپنی دل کی باتیں بتانے کی آرزو رکھتا ہے!
سردی کی رات جس کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہ ہو وہ بس سردی سے بچنے کا سوچتا ہے!
اور جب گاؤں کا رہنے والا شہر کے محلات دیکھتا ہے تو اپنے آپ کو بدقسمت گردانتا ہے۔
چھوٹے مکان میں رہنے والا، محلات میں رہنے والوں کو حسرت سے دیکھتا ہے۔
پیدل چلنے والا بائیک اور کاروں پر چلنے والوں کی قسمت پر رشک کرتا ہے۔
یہ دنیا ہے، پیارے، یہاں غم کے مارے تڑپتے رہے۔
یہاں ہر کسی کو اپنی کم مائیگی کا دکھ ہے، ہر کسی کو کچھ نہ ملنے کا احساس ہے اور ہر کسی کی اپنی چاہت و تمنا ہے۔
بقول شاعر:
اک خواب کا خیال ہے دنیا کہیں جسے
ہے اس میں اک طلسم تمنا کہیں جسے
اور ہمارے رب نے فرمایا ہے: ’’جان لو کہ دنیا کی زندگی ایک کھیل اور دل لگی، ظاہری ٹپ ٹاپ ، اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا، اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جا نے کی کوشش کرنا ہے"۔ (20) سورۃ الحدید
آج ہم اور آپ جس کمی کے غم میں گھل رہے ہیں، ذرا سوچئے ہمارے رب نے ہمیں بہت سی ایسی چیزیں دی ہیں جن کا بہت سے لوگ اب بھی خواب دیکھتے ہیں۔
جن آنکھوں سے آپ ابھی میری یہ تحریر پڑھ رہے ہیں، کتنے لوگوں کے پاس یہ آنکھیں ہیں لیکن وہ پڑھ نہیں سکتے اور کتنے ایسے بھی ہیں جنہیں یہ آنکھیں بھی نہیں ملی۔
اگر آپ کے جسم پر کپڑے ہیں، آپ کو تین وقت کا کھانا میسر ہے اور آپ زمین میں آزادی سے چل پھر سکتے ہیں یعنی کہ آپ صحت مند ہیں پھر بھی اگر آپ ڈپریشن میں ہیں اور دوسروں کو ملی ہوئی نعمتوں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں تو آپ اپنے رب کے بہت بڑے ناشکرے ہیں۔
اصل مسئلہ یہی ناشکری ہے!
ہم دوسروں کے پاس کیا ہے صرف وہی دیکھتے ہیں اور ہمارے اپنے پاس جو کچھ ہے اس کا نہیں سوچتے ہیں۔
ہمارے رب نے ہمیں جو کچھ دیا ہے ہم اسے نہیں دیکھتے، ان پر غور نہیں کرتے اور ان پر شکر نہیں کرتے حالانکہ ہمارے رب نے قرآن مجید کے متعدد آیات میں یہ باتیں ہمیں بتایا ہے کہ " انسان بڑا ناشکرا ہے " اور کئی مقامات پر تو اپنی نعمتوں کا یاد دلا کر ہمیں یہ باور کرایاہے، جیسے:
"اسی نے تمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے۔ اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے۔ یقیناً انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے"۔(34) سورة ابراهيم
اللہ تعالٰی ہمیں اپنا شکر گزار بندہ بنا لے۔ آمین
تحریر: محمد اجمل خان
یہ کوئی نہیں جان سکا!
خوابوں کے کتنے رنگ ہیں!
خواہشوں کے کتنے ترنگ ہیں!
ڈاکٹر نے کینسر میں مبتلا بارہ سالہ بچی سے پوچھا: "بیٹی، تم بڑی ہو کر کیا بننا چاہتی ہو؟"
بچی نے جواب دیا: "بڑی ہونے تک جینا چاہتی ہوں"، اور وہ جی نہ سکی۔
آئی سی یو کے اندر کا آدمی بس ایک بار شیشے کے دروازے سے باہر نکلنا چاہتا ہے!
یہ جینے کی خواہش، یہ جینے کی تمنا کتنا دل دہلا دینے والا ہے!
ٹانگوں سے معذور شخص صرف دو ٹانگوں پر چلنا، پھرنا اور اچھلنا کودنا چاہتا ہے!
ہاتھوں سے معذور شخص کی ایک ہی خواہش کہ کاش میرے ہاتھ صحیح سالم ہوتے!
اندھا شخص صرف ایک بار دنیا کی رنگینی دیکھنے کی خواہش لئے ساری زندگی گزار دیتا ہے!
گونگا آدمی صرف ایک بار لوگوں سے بات کرکے اپنی دل کی باتیں بتانے کی آرزو رکھتا ہے!
سردی کی رات جس کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہ ہو وہ بس سردی سے بچنے کا سوچتا ہے!
اور جب گاؤں کا رہنے والا شہر کے محلات دیکھتا ہے تو اپنے آپ کو بدقسمت گردانتا ہے۔
چھوٹے مکان میں رہنے والا، محلات میں رہنے والوں کو حسرت سے دیکھتا ہے۔
پیدل چلنے والا بائیک اور کاروں پر چلنے والوں کی قسمت پر رشک کرتا ہے۔
یہ دنیا ہے، پیارے، یہاں غم کے مارے تڑپتے رہے۔
یہاں ہر کسی کو اپنی کم مائیگی کا دکھ ہے، ہر کسی کو کچھ نہ ملنے کا احساس ہے اور ہر کسی کی اپنی چاہت و تمنا ہے۔
بقول شاعر:
اک خواب کا خیال ہے دنیا کہیں جسے
ہے اس میں اک طلسم تمنا کہیں جسے
اور ہمارے رب نے فرمایا ہے: ’’جان لو کہ دنیا کی زندگی ایک کھیل اور دل لگی، ظاہری ٹپ ٹاپ ، اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا، اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جا نے کی کوشش کرنا ہے"۔ (20) سورۃ الحدید
آج ہم اور آپ جس کمی کے غم میں گھل رہے ہیں، ذرا سوچئے ہمارے رب نے ہمیں بہت سی ایسی چیزیں دی ہیں جن کا بہت سے لوگ اب بھی خواب دیکھتے ہیں۔
جن آنکھوں سے آپ ابھی میری یہ تحریر پڑھ رہے ہیں، کتنے لوگوں کے پاس یہ آنکھیں ہیں لیکن وہ پڑھ نہیں سکتے اور کتنے ایسے بھی ہیں جنہیں یہ آنکھیں بھی نہیں ملی۔
اگر آپ کے جسم پر کپڑے ہیں، آپ کو تین وقت کا کھانا میسر ہے اور آپ زمین میں آزادی سے چل پھر سکتے ہیں یعنی کہ آپ صحت مند ہیں پھر بھی اگر آپ ڈپریشن میں ہیں اور دوسروں کو ملی ہوئی نعمتوں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں تو آپ اپنے رب کے بہت بڑے ناشکرے ہیں۔
اصل مسئلہ یہی ناشکری ہے!
ہم دوسروں کے پاس کیا ہے صرف وہی دیکھتے ہیں اور ہمارے اپنے پاس جو کچھ ہے اس کا نہیں سوچتے ہیں۔
ہمارے رب نے ہمیں جو کچھ دیا ہے ہم اسے نہیں دیکھتے، ان پر غور نہیں کرتے اور ان پر شکر نہیں کرتے حالانکہ ہمارے رب نے قرآن مجید کے متعدد آیات میں یہ باتیں ہمیں بتایا ہے کہ " انسان بڑا ناشکرا ہے " اور کئی مقامات پر تو اپنی نعمتوں کا یاد دلا کر ہمیں یہ باور کرایاہے، جیسے:
"اسی نے تمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے۔ اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے۔ یقیناً انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے"۔(34) سورة ابراهيم
اللہ تعالٰی ہمیں اپنا شکر گزار بندہ بنا لے۔ آمین
تحریر: محمد اجمل خان