اصل فاتح اعظم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ یا الکزنڈر ؟

ابن جمال

محفلین
نبیل بھائی نے سکندر کے تعلق سے ذوالقرنین کا ذکرکیاہے اورمولاناابوالکلام آزاد کے ترجمان القرآن کا حوالہ دیاہے۔ راقم الحروف نے بھی جب ترجمان القرآن کا مطالعہ کیاتوپھر اس خیال سے بہت متاثر ہواتھالیکن بعد کو مزید تحقیق کے بعد یہ خیال علمی طورپر کمزور معلوم ہونے لگا۔

مولناابوالکلام آزاد کے سارے خیال کی بنیاد صرف اس قدر ہے کہ سائرس دوریاستوں کا مالک تھا ایک مشرق اورمغرب اورذوالقرنین کے نام میں بھی اس کی مشابہت ملتی ہے۔

مولاناعبدالماجددریابادی نے اپنی انگریزی تفسیر میں ذوالقرنین پر اچھی بحث کی ہے اورثابت کیاہے کہ ذوالقرنین یہی سکندراعظم تھا۔کیونکہ اس کے فتوحات ایک بار مشرق کی جانب اوردوسری بار مغرب کی جانب ہوئی تھی۔اس کے علاوہ بھی سکندر کے ذوالقرنین ہونے کی تائید میں دیگردلیلیں بھی موجود ہیں۔ کسی صاحب کو تفصیل چاہئے توان کی جانب رجوع کرے۔

جہاں تک بات حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ اورسکندر میں سے بڑافاتح ہونے کی ہے توہمیں کئی باتیں سمجھنی پڑیں گی۔

سکندرکے حق میں اگریہ بات جاتی ہے کہ اس کو بادشاہت وراثت میں ملی تھی توفاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ بات جاتی ہے کہ جب انہوں نے خلافت سنبھالی توعمر کا شباب کا دورنہیں تھا بلکہ وہ دور تھا جس میں انسان جذبات پر عقل اوردل پر دماغ کو ترجیح دیتاہے۔

اگرحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے نئے نظام متعارف کرائے اوردنیاکونئی چیزیں دیں تووہیں سکندراعظم کے حق میں یہ بات جاتی ہے کہ وہ اس فتح کے سفر میں بذات خود شریک تھااورہرمعرکہ میں وہ شامل تھا۔

اگرسکندر کے حق میں یہ بات جاتی ہے کہ اس کی تربیت ارسطو نے کی تھی توحضرت عمرفاروق اعظم کے حق میں یہ بات جاتی ہے کہ ان کی تربیت دنیاکے سب سے عظیم انسان نے کی تھی یعنی فداہ ابی وامی ۔

اگرہم فتوحات کا جائزہ لیں تو ہوسکتاہے کہ سکندر کی فتوحات کا دائرہ 17لاکھ مربع میل ہو ۔ اورحضرت عمر کی فتوحات کا دائرہ 22میل لیکن اسی کے ساتھ ہم یہ بھی یاد رکھیں کہ دونوں میں زمانی لحاظ سے بھی بہت فرق تھا اورزمانی فرق بہرحال ایک حقیقت ہے۔ابن بطوطہ نے جس دور میں سفر کیاتھااس سے زیادہ سفر اب ایک عام شخص کرسکتاہے لیکن ابن بطوطہ کے سفر کی عظمت اپنی جگہ رہے گی۔حضرت عمر اورسکندر کے فتوحات میں یہ بھی فرق ہے کہ سکندر اپنے ملک سے کافی دورتھااوراپنے ملک سے اس کو کوئی مدد نہیں مل رہی تھی جب کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ مرکز خلافت میں تھے اورلگاتارفوجی افسران کی مدد کررہے تھے۔

حقیقت یہ ہے یہ سکندر اورحضرت عمر کے تقابل سے زیادہ یہ تقابل سکندر اورحضرت خالد بن ولید کاہوناچاہئے۔لیکن اس میں فرق اتناہے کہ سکندر خودمختار بادشاہ تھااورحضرت خالدبن ولید مرکز خلافت کے فرمانبردار تھے۔

نوٹ:ہوسکتاہے کہ کچھ لوگ فتوی بازی شروع کردیں اس لئے پہلے ہی عرض کردے رہاہوں کہ حضرت عمر کے جوفضایل ومناقب حدیث میں بیان کئے گئے اس پر پوراایمان ہے لیک اگربات محض فتوحات کی ہے توہمیں غیرجانبداری سے سوچناچاہئے۔ بالخصوص اس صورت میں جب کہ مفسرین کی بڑی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ قرآن میں ذوالقرنین سے مراد سکندر ہی ہے۔والسلام
 
اچھا مضمون ہے لیکن اس میں چند باتیں وضاحت طلب ہیں، جیسا کہ

عَنْ أبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ کَان فِيْمَا قَبْلکُمْ مِنَ الأمَمِ مُحَدَّثُوْنَ فَإِنْ يَکُ فِي أمَّتِي أحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ. و زَادَ زَکَرِ يَاءُ بْنُ أبِي زَائِدَةَ عَنْ سَعْدٍ عَنْ أبِي سَلَمَةَ عَنْ أبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ کَانَ فِيمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ مِنْ بَنِيْ إِسْرَائِيْلَ رِجَالٌ يُکَلَّمُوْنَ مِنْ غَيْرِ أنْ يَّکُوْنُوْا أنْبِيَاءَ فَإِنْ يَکُنْ مِنْ أمَّتِي مِنْهُمْ أحَدٌ فَعُمَرُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدَّث ہوا کرتے تھے اگر میری امت میں کوئی محدَّث ہے تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہے۔ زکریا بن ابی زائدہ نے سعد سے اور انہوں نے ابی سلمہ سے انہوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ زیادہ روایت کئے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں یعنی بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوا کرتے تھے جن کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کلام فرماتا تھا حالانکہ وہ نبی نہ تھے۔ اگر ان جیسا میری امت کے اندر کوئی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم 25 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطابص، 3 / 1349، الحديث رقم : 3486، و في کتاب الأنبياء، باب أم حسبت أن أصحاب الکهف و الرقيم، 3 / 1279، الحديث رقم : 2382، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 583، الحديث رقم : 1261.
اس کے علاوہ بیشتر احادیث کامجموعہ آپ کو سیرت عمرفاروق میں مل سکتا ہے۔ موطاامام مالک میں بھی بہت ہی صراحت کے ساتھ اس کاتذکرہ ہے۔
 
بہت ہی عمدہ تحریر ہے دراصل ایک خاص فرقے کو حضرت عمر
رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں کہی ہوئی کوئ بھی بات ہضم نہیں ہوتی خیر دفع کیجئے انہیں آپ ایسے مضمون شائع کرتے رہیے​
بات تعریف ہضم ہونے نہ ہونے کی نہیں۔ تاریخ اسلام کے عظیم فاتح کی ہے۔ اسلام میں اسلامی حدود کے اندر اظہاررائے کی آزادی ہے۔ اگر تنقیدتنقیص یاتوہین کی شکل اختیار کر لے تو ان کے عقیدے پہ ماتم ضرور کیا جاسکتاہے۔
حضرت عمرکی زندگی پہ غوروفکر ہر مسلمان کے ضروری ہے۔ جو بات اپنی عقل سے مطابقت نہیں رکھتی اس کو جاننے والوں کے سامنے ظاہرکرکے علم میں اضافہ ضرور کیا جاسکتاہے۔
حضرت عمر کی فتوحات کے ساتھ ساتھ ان کے طریقہ کار پہ بحث کرنا دین کے منافی نہیں اور اگر ایسا کرنا جرم ہے تو یقینا یہ عقیدت نہیں شخصیت پرستی ہے
 
Top