شاعری جس کو آتی ہے، اُسے رونا نہیں آتا
درد لکھنا تو آتا ہے، زخم دینا نہیں آتا

مزاج اپنا اگرچہ مختلف ہو گا سبھی سے پر
ہمیں موقع کی نسبت سے بدل جانا نہیں آتا

ہم ہی تو ہیں جو ہر اک زخم سہتے ہیں اور ہنستے ہیں
سر محفل ہمیں تو اشک بہانا نہیں آتا

چلو اب سن بھی لو کہنا، نہیں ناراضگی اچھی
ہمیں تعلق بنا کر چھوڑ کے جانا نہیں آتا

یہاں ہر غم پے ہوتا ہے گلا لیکن یہاں پر ہی
خوشی میں سب کو شکراللہ بجا لانا نہیں آتا

یہاں جذبے نہیں ہوتے مگر لفظوں میں پریمی سب
محبت کہہ تو دیتے ہیں مگر کرنا نہیں آتا

ارے ہم بھول جاتے ہیں کہ تم تو غیر ہو میرے
کسی کی موت پے تو فخر بیگانا نہیں آتا
 
Top