پیچھے جانے کتنے دکھ، کتنے افسانے چھوڑ آیا ہوں
کل میں اپنے خواب پرانے، ترے سرہانے چھوڑ آیا ہوں
خود خوابوں کا پیچھا کرتے، میں پردیس میں آ پہنچا ہوں
چبھتی ہوئی کچھ یادیں گھر میں، تجھے ستانے چھوڑ آیا ہوں
آنکھ کھلی تو تمہیں مری تنہائی کا احساس رہے گا
آدھی رات کو میزوں پہ خالی پیمانے چھوڑ آیا ہوں
جان چکا ہوں، تیرے ملنے کی کوئی امید نہیں ہے
جانے اتنی درگاہوں پہ کیوں نذرانے چھوڑ آیا ہوں
جس کے سائے میں کھائی تھیں، ہم نے قسمیں سات جنم کی
آج اسی دیوار سے تجھ کو سر ٹکرانے چھوڑ آیا ہوں
میرے پاس تمہیں دینے کو بس اک کڑوا سچ باقی ہے
ساری چکنی چپڑی باتیں، سارے فسانے چھوڑ آیا ہوں
جتنے لوگوں نے دنیا میں، مجھے نظر انداز کیا تھا
ان سارے لوگوں کو اپنا سوگ منانے چھوڑ آیا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
اچھی اور زیادہ تر درست ہے غزل
پیچھے جانے کتنے دکھ، کتنے افسانے چھوڑ آیا ہوں
کل میں اپنے خواب پرانے، ترے سرہانے چھوڑ آیا ہوں
سرہانے کو اگر مفعولن یا فعلن فع باندھا جائے تو ترے بحر سے خارج ہو جاتا ہے، میرا مشورہ. اسے تیرے سرہانے کر دیا جائے۔ میر نے بھی سرہانے کو ستانے، فعولن باندھا ہے
سرہانے میر کے آہستہ بولو
خود خوابوں کا پیچھا کرتے، میں پردیس میں آ پہنچا ہوں
چبھتی ہوئی کچھ یادیں گھر میں، تجھے ستانے چھوڑ آیا ہوں
پہلے مصرع میں 'ہوں' پر اختتام ہونے کے باعث تقابل ردیفین کا سقم ہو جاتا ہے، اس مصرع کی ترتیب بدلیں
آنکھ کھلی تو تمہیں مری تنہائی کا احساس رہے گا
آدھی رات کو میزوں پہ خالی پیمانے چھوڑ آیا ہوں
پہ کی جگہ مکمل 'پر' لائیں
پہلا مصرع بھی درست ہونے کے باوجود کچھ روانی میں کمی لگتی ہے 'تو تمہیں' کے تنافر کی وجہ سے، اس کی بھی ترتیب الٹی کی جا سکتی ہے، تمہیں مری یا تم کو مری سےشروع کر کے
 
Top