" اشتہاری "

طالوت

محفلین
عصر حاضر کی انسانی ترقی عقل کو حیران اور زبان کو گنگ کر دینے والی ہے ۔ خصوصا صوتی و بصری ذرائع ابلاغ کی ترقی ! اسی کی وجہ سے دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤں سے تشبیح دی جانے لگی ہے ۔ اور ان میں سب سے اہم کردارٹیلیویژن چینلز کا ہے۔ دنیا بھر میں ہزاروں ٹیلیویژن چینلز مختلف زبانوں میں ہر ہر پل نہ صرف خبریں پہنچا رہے ہیں بلکہ انسانوں کی معاشرتی ، معاشی ، مذہبی اور سیاسی زندگی پر بھی اثر انداز ہو رہے ۔ تہذیب و ثقافت سے پہچان اور ان کی در آمد و برآمد کا سہرا بھی انھی ٹیلیویژن چینلز کے سر ہے۔ ذہنوں کی مثبت و منفی تربیت ، نظریات کا پرچار ، افواہ سازی، حق پرستی ، سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنا غرض یہ کہ آپ جس طرف نظر دوڑائیں یہ ٹیلیویژن چینلز تبدیلی کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔ موجودہ دور میں ان کے اثر ات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی ایک حکومتوں کی تبدیلی کو سیاسیات کے ماہرین ٹیلیویژن چینلز کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔ اور کاروباری اداروں کے نفع و نقصان کا انحصار بھی بڑی حد تک انھی ٹیلیویژن چینلز پر ہے ۔ یعنی یہ اپنے آپ میں ایک ایسا مافیا ہے جس کی سرکوبی فی الحال ممکن نظر نہیں آتی ۔
پاکستان میں پچاس سے زائد ٹیلیویژن چینلز کام کر رہے ہیں ۔ ٹیلیویژن چینلز ایک بہت بڑے ٹیم ورک کے نتیجے میں کام کرتے ہیں اور ہزاروں افراد کا سلسلہ روزگار ان سے منسلک ہوتا ہے۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مختلف کاروباری اداروں کا تعاون حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے بدلے میں ان کی "خدمات" کی تشہیر کی جاتی ہے۔ یوں تو پاکستان بھر میں ہزاروں کاروباری ادارے ہیں مگر ٹیلیویژن چینلز پر اشتہارات کی صورت میں ان کی مالی معاونت کرنے والے اداروں میں ، ملٹی نیشنل کمپنیاں ، موبائل فون کمپنیاں اور جائداد یا گھروں کی خرید و فروخت کے ادارے سہرفہرست ہیں۔ اشتہارات کی صورت میں عوام الناس کو ان کاروباری اداروں کی "خدمات" سے متعارف کروانے والے ٹیلیویژن چینلز نا تو کسی اخلاقی قانون کی پابندی کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی تحقیق ۔ اور حد تو یہ ہے کہ انھی ٹیلیویژن چینلز پر زور شور سے پیش کی جانے والی "خدمات" جب نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں تو ان سے متعلق خبر انھی چینلز پر سرخیوں میں جگہ بھی پاتی ہے۔ مگر ان اشتہارات کا سب سے تاریک پہلو وہ ذہنی تربیت ہے جو دانستہ یاغیر دانستہ طور پر کی جا رہی ہے۔ مثلاََ جس جہیز کی لعنت کے خاتمے کے لیے "ٹاک شوز" ، "سیمینارز" اور "واک" وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں شعور اجاگر کیا جا سکے اس کے بالکل الٹ ایک نجی ادارے کی طرف سے "تیار گھر" کے لیے چلنے والے اشتہار کا منظر کچھ یوں ہے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو رخصتی کے وقت اس ادارے کے تیار گھر کی چابی دے رہا ہے۔ اور دولھے میاں بے شرمی سے مسکرا رہے ہیں ۔ اور حد تو یہ کہ جب کوئی لڑکی جہیز نہ ملنے کی وجہ سے جلا دی جاتی ہے تو وہ خبر اس ٹیلیویژن چینل پر نمایاں طور پر نشر کی جاتی ہے۔ اسی طرح بجلی سے چلنے والی گھریلو مصنوعات بنانے والی ایک کمپنی کے اشتہار میں خاتون کی ادائیں تو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہی ہیں مگر اس کے پس منظر میں ادا کیے جانے والے مکالموں کی رومانویت سے کسی لیلٰی مجنوں کے درمیان خلوت میں ہوئے مکالموں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ ایک رنگ گورا کرنے والی کریم کا اشتہار کچھ ایسا تاثر دیتا ہے کہ جیسے کالا یا گندمی رنگ ہی دراصل لڑکیوں کی شادی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اس ایک ٹیوب کے استعمال پر وہ اس "پوزیشن" میں آ جاتی ہیں کہ وہ کسی بھی رشتے کو انکار کر سکیں ہیں۔
اور جناب موبائل کمپنی کی اشتہاروں کی تو کیا ہی بات ! وہ تو "عالیہ" سے بات کروانے کے لیے اس قدر بے چین ہیں کہ انھوں نے سہولت کے طور پر اپنی کال کی قیمت اسقدر کم کر دی ہے کہ عالیہ تو مانے ہی مانے۔ اور یہ موبائل کمپنیاں پاکستان کے نوجوانوں کو عالی اور عالیہ بنانے میں اس قدر کامیاب ہو رہے ہیں کہ ٹیلیویژن پر چلنے والے اشتہارات کا قریباََ ۶۰ فیصد موبائل کمپنیوں سے متعلق ہی ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسا سیلاب ہے جو ہمیں تنکوں کی طرح بہائے لے جا رہا ہے مگر افسوس کہ ہمیں اس کی خبر تک نہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انفرادی طور پر ایسے طریقے اختیار کریں جن سے ان کمپنیوں اور چینلز کو احساس ہو کہ وہ بہت سی اخلاقی و سماجی برائیوں کا سبب بن رہے ہیں اور اپنا قبلہ درست کریں ۔ قریبا دو برس قبل موبائل فون بنانے والی ایک کمپنی کی طرف سے ایک نئے فون کی اشتہاری مہم کے دوران نشر کیے جانے والے اشتہار کے پس منظر میں کچھ بے ہودہ آوازیں نشر کی گئی تھیں ، جس کے لیے راقم نے برقی خط کے ذریعے ان چینلز کو شکایت ارسال کی تھی اور ایک یا دو روز بعد ہی اس آواز کو ختم کر دیا گیا تھا ۔ یقین سے تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا سبب وہی برقی خط تھا مگر وہ مقصد ضرور پورا ہوا جس کے لیے راقم نے کوشش کی تھی ۔ یقینا آپ بھی اپنے بے حد قیمتی وقت میں سے آپ تھوڑا سا وقت نکال کر ان چینلز اور کمپنیوں کو اجتجاجی خطوط ضرور ارسال کریں گے کیونکہ یہ نا صرف ہماری انفرادی و اجتماعی ذمہ داری ہے بلکہ ہماری آنے والی نسل کی بقا کا بھی سوال ہے۔ یاد رکھیے یہ "اشتہاری" آہستگی سے اثر پذیر ہونے والے اس زہر کی مانند ہیں جس کا احساس ہمیں اس وقت ہو گا جب ہم موت کے پنجوں میں پھڑپھڑا رہے ہوں گے !

-------------
وسلام
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوب ظہیر بھائی بہت اچھا لکھا ہے۔

ٹی وی والے اشتہار نشر ضرور کرتے ہیں لیکن اشہار بنانے والی کمپنیان الگ سے ہیں جو یہ بیہودہ اشتہارات تیار کرتی ہیں اور اشتہار بنوانے والی کمپنیاں ان کو منظور کرتی ہیں۔ ٹی وی والوں نے تو اشتہار ٹی وی پر چلا کر اپنے پیسے کھرے کرنے ہیں۔

اشتہار بنانے والی کمپنیوں سے بھی ہزاروں لوگوں کی روزی لگی ہوئی ہے۔
 

طالوت

محفلین
شکریہ شمشاد ۔۔
یہی ذاتی مفاد (جیسے پیسے کھرے کرنا) ہی تو دراصل ہم انسانوں کی اخلاقی پستی کا مظہر ہے ۔۔ ہمارے کسی عمل سے کس کس کو کس کس قسم کے نقصان کا اندیشہ ہے ہمیں اس کی رتی بھر پروا نہیں ۔۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
شکریہ شمشاد ۔۔
یہی ذاتی مفاد (جیسے پیسے کھرے کرنا) ہی تو دراصل ہم انسانوں کی اخلاقی پستی کا مظہر ہے ۔۔ ہمارے کسی عمل سے کس کس کو کس کس قسم کے نقصان کا اندیشہ ہے ہمیں اس کی رتی بھر پروا نہیں ۔۔
وسلام

طالوت، یہ معاشرتی برائیاں خطوط لکھ لکھ کر ختم نہیں ہو سکتیں۔ یہ کینسر کی طرح ہیں۔ ایک جگہ سے دبائیں گے تو دوسرے کونے سے ظہور ہو جائے گا۔ عوام اچھی طرح با خبر ہے کہ میڈیا کیا حرکتیں کر رہا ہے۔ لیکن چونکہ مغربی چال چلن خون میں سراعیت کر چکی ہے۔ اسلئے آپ لاکھ کوشش کر لیں، اصلاح نہیں ہو سکتی، جبتک یہ مشرکانہ معاشی نظام نہ تبدیل ہو۔ جو تمام معاشرتی برائیوں کی جڑ ہے!
 

طالوت

محفلین
نظام ختم ہو گا ، مگر اس کے لیے پہلے افراد تو تیار ہوں ۔۔ جن بے خبروں کو یہی خبر نہیں اچھا کیا اور برا کیا ۔۔
وہ نظام کیونکر بدل سکتے ہیں ۔۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
نظام ختم ہو گا ، مگر اس کے لیے پہلے افراد تو تیار ہوں ۔۔ جن بے خبروں کو یہی خبر نہیں اچھا کیا اور برا کیا ۔۔
وہ نظام کیونکر بدل سکتے ہیں ۔۔
وسلام

یہی بتانے کیلئے تو محفل پر کافی بحث ہو رہی ہے اُن ’’انقلابی دھاگوں‘‘ میں۔ آپنے نوٹ کیا ہوگا کہ لوگ اصل اخلاقی برائیوں کی طرف نہیں آرہے۔ بلکہ سارا زور مذہبی عقائد پر دے رہے ہیں۔ اور یہی ہماری بچپن کی برین واشنگ کا نتیجہ ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
لیکن فیصلہ کون کرے گا کہ یہ چیز اچھی ہے اور یہ چیز بُری ہے؟ ایک چیز آپ کے نزدیک اچھی ہو سکتی ہے، ہو سکتا ہے وہی میرے لیے اچھی نہ ہو اور ایک چیز میرے لیے اچھی ہے لیکن آپ اسے پسند نہ کریں۔ تو اس کے لیے ہمیں لامحالہ اس کی طرف ہی رجوع کرنا پڑے گا جس نے سب کے لیے ایک ہی نظام بنا دیا ہے چاہے کسی کو اچھا لگے یا بُرا۔
 

arifkarim

معطل
لیکن فیصلہ کون کرے گا کہ یہ چیز اچھی ہے اور یہ چیز بُری ہے؟ ایک چیز آپ کے نزدیک اچھی ہو سکتی ہے، ہو سکتا ہے وہی میرے لیے اچھی نہ ہو اور ایک چیز میرے لیے اچھی ہے لیکن آپ اسے پسند نہ کریں۔ تو اس کے لیے ہمیں لامحالہ اس کی طرف ہی رجوع کرنا پڑے گا جس نے سب کے لیے ایک ہی نظام بنا دیا ہے چاہے کسی کو اچھا لگے یا بُرا۔

اچھے اور برے کا فیصلہ فطرت انسانی کرتی ہے۔ اگر آپکو خدا نہ بھی منع کرتا ، اسکے باوجود آپ مشاہدات سے بتا سکتے ہیں کہ شراب پینا کتنا نقصان دہ ہے۔ نیز خدا تعالیٰ نے جو ہمیں اسلام عطا کیا ہے۔ اسکی اب تک اتنی تشریحیں ہو چکی ہیں کہ اصلی پیغام ہی رستے میں کہیں گم ہو چکا ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ یہ آپکے اپنے دل کی آواز ہے۔ رٹے پٹے کتابی اصولوں پر آج کون عمل کر رہا ہے۔
 

طالوت

محفلین
بنیادی چیزوں سے دین براہ راست منع کرتا ہے ، اور اسی بنیاد کی روشنی میں ہی ہم یہ تمیز کر سکتے ہیں کہ مزید کیا کچھ ہمارے لیے ضرر رساں ہے ۔۔ اسلیے اللہ رب العزت نے ہمیں بار بار غور فکر کا حکم دیا ہے ۔۔ میں جہاں تک سمجھ پایا ہوں، غور و فکر کا بار بار حکم اور دنیاوی معاملات میں رسول اللہ کا یہ فرمانا کہ تم مجھ سے بہتر طور پر اپنے معاملات جانتے ہو ، ہمارے لیے یہ آسانی پیدا کرتا ہے کہ ہم اپنے موجودہ عام مسائل کو اپنی عقل و دانش سے اس بنیادی روشنی میں حل کریں ۔۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
بنیادی چیزوں سے دین براہ راست منع کرتا ہے ، اور اسی بنیاد کی روشنی میں ہی ہم یہ تمیز کر سکتے ہیں کہ مزید کیا کچھ ہمارے لیے ضرر رساں ہے ۔۔ اسلیے اللہ رب العزت نے ہمیں بار بار غور فکر کا حکم دیا ہے ۔۔ میں جہاں تک سمجھ پایا ہوں، غور و فکر کا بار بار حکم اور دنیاوی معاملات میں رسول اللہ کا یہ فرمانا کہ تم مجھ سے بہتر طور پر اپنے معاملات جانتے ہو ، ہمارے لیے یہ آسانی پیدا کرتا ہے کہ ہم اپنے موجودہ عام مسائل کو اپنی عقل و دانش سے اس بنیادی روشنی میں حل کریں ۔۔
وسلام

یہ بات ہم باقی لوگوں کو کیسے سمجھائیں، جو اسلام سے ٹس سے مس نہیں‌ہوتے:(
ہم نے تو بس ٹائم مشین کا انتظار کرنا ہے کہ اللہ اللہ کرکے بنے اور ہم سب مسلمان کسی طرح اسمیں بیٹھ کر واپس 1400 سال پہلے چلے جائیں:)
وہاں نہ میڈیا کی بھرمار ہوگی نا ٹیکنالوجی۔ یوں ہم اہل عرب کیساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار سکتے ہیں۔
 

زین

لائبریرین
طہیر بھائی بہت ہی اچھا لکھا ہے ۔ آپ کو پہلے بھی کہا تھا کہ بلاگ لکھنا شروع کردیں ۔ آپ بہت اچھا لکھتے ہیں ۔ اور خاص کر یہ تحریر تو بہت ہی عمدہ ہے ۔
-

ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ پرنٹ‌میڈیا کا کردار بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔
چونکہ اکثر اشتہارات موبائل فون کمپنیوں‌ کی طرف سے ہی ملتے ہیں‌۔ اس لیے ان سے متعلق عوامی شکایات پر مبنی خبروں‌کو اخبارات اور ٹی وی چینلز میں‌جگہ نہیں‌ملتی ۔
 

طالوت

محفلین
یہ بات ہم باقی لوگوں کو کیسے سمجھائیں، جو اسلام سے ٹس سے مس نہیں‌ہوتے:(ہم نے تو بس ٹائم مشین کا انتظار کرنا ہے کہ اللہ اللہ کرکے بنے اور ہم سب مسلمان کسی طرح اسمیں بیٹھ کر واپس 1400 سال پہلے چلے جائیں:)وہاں نہ میڈیا کی بھرمار ہوگی نا ٹیکنالوجی۔ یوں ہم اہل عرب کیساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار سکتے ہیں۔
ٹائم مشین ;) یہ بھی خوب کہا ۔۔۔ اگر مجھے مل جائے تو کچھ ضروری چیزیں لے کر مزید آگے جانا چاہوں گا۔۔
طہیر بھائی بہت ہی اچھا لکھا ہے ۔ آپ کو پہلے بھی کہا تھا کہ بلاگ لکھنا شروع کردیں ۔ آپ بہت اچھا لکھتے ہیں ۔ اور خاص کر یہ تحریر تو بہت ہی عمدہ ہے ۔ ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ پرنٹ‌میڈیا کا کردار بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ چونکہ اکثر اشتہارات موبائل فون کمپنیوں‌ کی طرف سے ہی ملتے ہیں‌۔ اس لیے ان سے متعلق عوامی شکایات پر مبنی خبروں‌کو اخبارات اور ٹی وی چینلز میں‌جگہ نہیں‌ملتی ۔
اچھا بھائی کرتے ہیں کچھ ۔۔ مگر اگر کوئی پڑھنے نے آیا تو جناب کی خیر نہیں ۔۔
درست کہا ! ۔۔ وہی انفرادی سوچ ذاتی مفاد ۔۔۔
وسلام
 

زین

لائبریرین
بھائی آجائیں گے ، بے فکر رہیئے ۔ اب تو ماشاء اللہ بلاگرز کی تعداد بہت بڑھ گئی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
کیا ایسا ممکن ہے کہ یہاں مذہب سے ہٹ کر دنیاداری کے حوالے سے بحث کی جائے اور دلائل دیئے جائیں۔
 

زین

لائبریرین
اتفاقآ آج ہی میرے ساتھ ہی کوئی واقعہ پیش آیا۔ ہائوسنگ سکیم میں غبن سے متعلق کوئی خبر تھی ۔ جو اخبار والوں نے صرف اشتہارات کی وجہ سے شائع نہیں‌کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
اتفاقآ آج ہی میرے ساتھ ہی کوئی واقعہ پیش آیا۔ ہائوسنگ سکیم میں غبن سے متعلق کوئی خبر تھی ۔ جو اخبار والوں نے صرف اشتہارات کی وجہ سے شائع نہیں‌کی۔

زین اخبار والوں نے چونکہ پیسہ کمانا ہے لٰہذا انہوں نے خبر روک کر اشتہار شائع کر دیا ہو گا۔ حالانکہ یہ صحافت کے پیشہ کے خلاف ہے۔ بات ہو رہی ہے فحش قسم کی اشتہار بازی کی۔ جو پیسے کے لالچ میں اخلاق سے گری ہوئی اشتہار بازی کرتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔
 

طالوت

محفلین
شمشاد اس میں محض فحش ہی نہیں بلکہ اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالنے والی ہر قسم کی اشتہاری بازی و سازی پر بات کرتے ہیں ۔۔
وسلام
 

طالوت

محفلین
کیسے دلائل شمشاد بھائی؟ جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہو تو ان چھوٹی موٹی روحانی بیماریوں کی پرواہ نہیں کر نی چاہیے!
عارف چھوٹی چھوٹی روحانی بیماریاں مل کر ایک بڑی بیماری کو جنم دیتیں ہیں ۔ آپ کسی معمولی سے معمولی برائی سے بھی صرف نظر نہیں کر سکتے ۔۔ اور یہ جس آوے کی آپ بات کر رہے ہیں اس کا ہم بھی حصہ ہیں ۔۔ کچھ سال قبل میں بھی کچھ ایسے ہی خیالات رکھتا تھا کہ راتوں رات ہر چیز بدل جائے سب اچھا ہو جائے اور ایسا نہ ہوتے دیکھ کر آوے کے آوے بگڑے ہونے پر ہر چیز پر لعنت بھیج دیتا ۔۔
یہ چھوٹی چھوٹی بیماریاں ایسی ہیں کہ جن کا اثر بڑا مہلک اور دیرپا ہوتا ہے اسلیے ان پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔۔
وسلام
 
Top