ٹائپنگ مکمل اسکول کے کتب خانے

شمشاد

لائبریرین
ذوالقرنین بھائی

3.gif

مانو بلی سب کو ایک ایک صفحہ دیا ہے اور ذوالقرنین بھائی کو صرف یہ چند سطریں۔

تقسیم کا کام ٹھیک سے کرو۔ اور ہاں مقدس کو ابھی تک کوئی کام کیوں نہیں دیا؟
 

ساجد

محفلین
4۔ کتب خانہ کے مواد کے ذریعہ طلباء و طالبات کو ایسے تجربات سے روشناس کرانا جس سے ان کے ذوق و شوق کو تسکین میسر آ سکے اور ان میں خوشگوار عادات و اطوار فروغ پائیں۔
5۔ طلبا ء و طالبات کو کتب خانہ کے مواد کو بہتر طور پر استعمال کرنے کی تربیت مہیا کی جائے تا کہ ان میں تمام مطبوعہ اور سمعی وبصری مواد کو اپنے طور پر منتخب کرنے اور استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔
6۔ طلباء و طالبات کو دیگر عوامی اور خصوصی کتب خانوں کے مواد سے روشناس کرانا اور ان کو استعمال کرنے کی ترغیب دلانا تا کہ وہ اپنے بڑھتے ہوئے ذوق و شوق کو پورا کر سکیں۔
7۔ اساتذہ کے ساتھ کتب خانہ کے مواد کے انتخاب میں تعاون کرنا جو تعلیمی پروگرام کے لئیے مفید اور مؤثر ہو۔
8۔اساتذہ اور سکول کی انتظامیہ کے پیشہ ورانہ ثقافتی پروگراموں میں تعاون کرنا اور اسکول اور کتب خانہ میں ایک خوشگوار ماحول پیدا کرنا۔
9۔دوسرے کتب خانوں اور علاقائی رہنماؤں سے تعاون کرنا اور اپنے علاقے میں کتب خانہ کی خدمات کا ایک مؤثر نظام قائم کرنا۔،، "4"
مندرجہ بالا اغراض و مقاصد کے مطالعہ کے بعد ہم اپنے حالات کے مطابق اسکو کے کتب خانوں کی کارکردگی پر مختصر چند باتیں درج کرتے ہیں۔
1۔ اسکول کا کتب خانہ طلباء و طالبات کو ان کی صلاحیت اور نصاب کے مطابق ہر مضمون میں قدیم اور جدید کتب مہیا کرتا ہے اور طلباء کو کتب سے خاطر خواہ مواد اور علم حاصل کرنے کا سہل اور آسان طریقہ بتاتا ہے۔ کتب خانہ اسکول کے نصاب کی تدوین میں بھی معاون و مدد گار ہوتا ہے۔
2۔ کتب خانہ اساتذہ کی سہولت کے لئے تدریسی مواد مہیا کرتا ہے۔یعنی ایسا مواد جس کی مدد سے تدریس میں سہولت ہوتی ہے اس میں نقشے ، گلوب ،ماڈل ، فلم ، سلائیڈز ، ٹیپ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
مانو بلی سب کو ایک ایک صفحہ دیا ہے اور ذوالقرنین بھائی کو صرف یہ چند سطریں۔

تقسیم کا کام ٹھیک سے کرو۔ اور ہاں مقدس کو ابھی تک کوئی کام کیوں نہیں دیا؟

ایسے صفحات مزید بھی آئیں گے ۔ ایسے صفحات کے صرف دو مستحقین ہیں ایک محب علوی اور دوسرے بھی محب علوی اور تیسرا نام سیدہ شگفتہ کا ہے :happy: :happy:
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
مانو بلی سب کو ایک ایک صفحہ دیا ہے اور ذوالقرنین بھائی کو صرف یہ چند سطریں۔

تقسیم کا کام ٹھیک سے کرو۔ اور ہاں مقدس کو ابھی تک کوئی کام کیوں نہیں دیا؟
سوری چاچو میرے ناں سر میں بہت درد ہورہا ہے شام سے ۔لائٹ بھی آف ہونے والی تھی ۔مقدس اپیا کا نام نہیں تھا ٹیم میں اس لیے نہیں کیا تھا آئندہ کردیا کروں گی ۔آپ مجھے اسی طرح بتاتے رہیے گا ناں میں آئندہ ٹھیک کروں گی ۔ ابھی مجھے اپنے پیجز بھی کرنے ہیں ۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 9)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کتابیں ، کتب خانے اور علم

حکیم محمد سعید ، مشیر صدر پاکستان برائے طب

تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمان اللہ اور اس کی کتاب سے ہدایت حاصل کرتے رہے کامیاب و کامران رہے۔ انھوں نے اپنے علم کا سکہ تمام عالم پر بٹھایا۔ تہذیب عالم میں علمی انقلاب برپا کیا۔ تلوار کے زور سے نہیں بلکہ اپنی علمی ، اخلاقی ، معاشرتی اور فنّی برتری کے باعث دنیا کی عظیم سلطنتوں کو زیر کیا۔ یورپ ، افریقہ اور ایشیا کے طلباء اور علماء اسلامی علمی مراکز میں تحصیل علم کے لیے کھنچے چلے آتے تھے۔ کئی صدیوں تک یورپ کی جامعات میں مسلمان سائنس دانوں ، فلسفیوں اور علماء کی کتابیں بطور نصاب کے استعمال کی جاتی رہیں۔ یہ عظمت اور قومیت مسلمانوں کو اس وقت تک حاصل رہی جب تک وہ علم کی قدر کرتے رہے اور کتابوں سے محبت کرتے رہے۔ لیکن جب انھوں نے علم سے روگردانی کی اور کتابوں کی بے قدری شروع کی تو وہ بتدریج مغلوب ہوتے چلے گئے اور دوسری قوموں سے پیچھے رہ گئے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 26)​
پاکستان میں اسکول کے کتب خانے

ہم اگر اپنے اسکولوں کا جائزہ لیں تو بہت ہی مایوس کن صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ ہمارے اسکولوں میں کتب خانہ کا تصوّر ہی ناقابلِ فہم ہے۔ ابتدائی مدارس میں تو کتب خانہ کا قیام قطعی غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ثانوی اسکولوں میں کہیں کہیں کتب خانے قائم کئے گئے ہیں جن کی افادیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ کتب خانے طلباء و طالبات کے لیے یا تو محدود ہیں یا صرف چند ذہین بچوں کو کبھی کبھی ناول پڑھنے کے لیے مستعار دیئے جاتے ہیں۔ اساتذہ میں صرف وہ استفادہ کرتے ہیں جن کو پڑھنے کا شوق ہے۔ کتابیں کسی ایک کمرے میں لوہے یا لکڑی کی مقفل الماریوں میں بند رہتی ہیں۔ ان کو تازہ ہوا اور
سورج کی روشنی سالوں نصیب نہیں ہوتی جس کے باعث اکثر کتابیں دیمک اور دوسرے کیڑوں کی خوراک بن جاتی ہیں۔

کتابوں کی خریداری کے لیے باقاعدہ رقم سالانہ بجٹ میں مہیّا نہیں کی جاتی بلکہ سال کے آخر میں اگر اسکول کے بجٹ میں زائد رقم بچ گئی تو اس سے ہیڈ ماسٹر یا چند اساتذہ اپنی پسند کی چند کتابیں خرید لیتے ہیں۔ یا کبھی کبھی روز مرہ کے اخراجات کی رقم سے چند کتابیں خرید لی جاتی ہیں۔ کتب خانہ کے لیے کوئی کمرہ مخصوص نہیں ہوتا اگر اتفاق سے سے کوئی کمرہ فاضل نکل آیا تو اس میں کتابوں کی الماریاں رکھ دی جاتی ہیں اور چند کرسیاں اور میزیں اساتذہ کے لیے مہیا کر دی جاتی ہیں جہاں وہ خالی وقت میں بیٹھ کر چائے پی سکیں ، ناشتہ کرسکیں اور خوش گپّیاں کرسکیں۔ لیکن مطالعہ کی اجازت نہیں ہوتی اور یہاں طلباء کے لیےے مطالعہ کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ جہاں کمرہ میسر نہیں آتا وہاں کتابوں کی الماریاں برآمدوں میں رکھی جاتی ہیں یا ہیڈ ماسٹر یا ہیڈ مسٹریس کے کمرے کی زینت بن جاتی ہیں۔ اس صورت حال میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اسکول کی انتظامیہ کسی لائبریرین کا تقرر کرنے پر آمادہ ہوگی۔ اور کتب خانہ کے لیے مددگار عملہ ، یعنی کلرک یا چپراسی مہیا کرے گی یا کتب خانہ میں پڑھنے کے لیے میزیں ، کرسیاں ، نقشے ، گلوب ، اخبارات و رسائل وغیرہ کا اہتمام کرے گی۔

اسکول کے کتب خانوں کی زبوں حالی معلوم کرنے کے لیے کئی بار جائزہ (Survey) لیا گیا۔ یہ جائزے سرکاری اداروں کی طرف سے نہیں کئے گئے چند نجی اداروں نے یہ زحمت کی۔ انجمن فروغ و ترقیِ کتب خانہ جات (SPIL) نے پہلی بار دسمبر ۱۹۶۴ء میں ایک لائبریری ورکشاپ کراچی میں منعقد
 

محمد امین

لائبریرین



ابتدائی اور ثانوی اسکولوں اور ان کے کتب خانوں تک محدود رکھیں گے۔
قومی تعلیمی کمیشن (1959ء) نے ثانوہ تعلیم کے سلسلے میں اس حقیقت پر زور دیا کہ:

"تعلیمی مدارج میں ثانوی تعلیم بہت اہم اور منفرد اہمیت کی حامل ہے جو اعلیٰ جامعاتی تعلیم سے جدا اور مختلف ہے۔ ثانوی تعلیم کا مقصد بچہ میں (۱) ایک ذمہ دار فرد (۲) با شعور شہری (۳) اعلیٰ کارکن اور (۴) محب وطن کی خصوصیات پیدا کرنا ہے۔ جن کے باعث وہ ملک کی سائنسی اور معاشی ترقی میں بھرپور حصہ لے سکے اور اس کے نتیجے میں ان تمام ثمرات اور ترقیات سے فیضیاب ہو سکے جو اس کی اپنی اورتمام افراد کی مشترکہ کوششوں سے ظہور میں آئی ہیں۔" ۱؀

ان تمام بنیادی مقاصد میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کہیں بھی اس اہم مقصد کا ذکر نہیں ہے جس کی بناء پر پاکستان ظہور میں ایا۔ یعنی یہ ذکر کہیں نہیں کیا گیا کہ بچہ بنیادی تعلیم حاصل کر کے با شعور شہری، اعلیٰ کارکن اور محب وطن بننے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا مسلمان بھی بن سکے۔ حالانکہ پاکستان جو کہ ایک اسلامی ریاست کہلاتی ہے اس کے تعلیمی مقاصد میں ہر ہر مرحلہ تعلیم میں اسلام اور نظریۂ پاکستان پر خصوصی توجہ لازمی ہے۔

تعلیمی کمیشن نے ثانوی تعلیم کے مقاصد میں مزید یہ بھی بیان کیا کہ:

"بچوں میں مسائل کے حل کرنے کی صلاحیت، اپنے کام کو مؤثر طریقہ سے انجام دینے اور مثبت حقائق پر مبنی صائب افکار کے حامل ہونے کی اہلیت پیدا ہونا چاہیے۔"

ان خصوصیات کے حصول کے لیے کثیر مطالعہ، حوالہ جاتی مواد سے متعارف ہونا اور ذرائعِ ابلاغ کے تعسط سے تحقیق و تنقید کرنا، ضروری قرار دیا۔ کتب خانوں کے مؤثر استعمال کے سلسلے میں اس حقیقت کا ضمناً اعتراف بھی کیا کہ کتب، رسائل و جرائد، کتابچے، نقشہ جات، سمعی و بصری مواد کا استعمال اعلیٰ تعلیمی معیار کے لیے ضروری ہے۔ تربیت یافتہ لائریرین حضرات کی خدمات کا بھی ذکر کیا۔ نیز یہ بھی تجویز کیا کہ "جدید مؤثر تعلیمی پروگرام کتب خانوں کی خدمات کے بغیر ممکن نہیں۔"
ہمارے نظامِ تعلیم میں استاد اور نصابی کتب کو کافی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ذرائعِ تعلیم کو غیر ضروری گردانا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ علم استاد کے بغیر نا ممکن ہے اور
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
پیدا کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے مضامین میں جدید معلومات زیادہ سے زیادہ حاصل کرسکیں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرویں۔ اس ذوق و شوق میں تیزی پیدا کرنے کے لئے اساتذہ ایسے واجبات Assignment دیتے ہیں کہ طلباء کلاس کے بعد کتب خانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اپنے واجبات میں زیادہ سے زیادہ معلومات اور رحوالے مہیاکرتے ہیں تاکہ ان کو کلاس میں سب سے بہتر گریڈمل سکے۔​
جو اساتذہ و طلباء نصابی کتب کے علاوہ بے شمار کتب ، رسائل اور دیگر مواد کا مطالعہ کرتے ہیں ان کا معیارِ تعلیم اور ان کا علم دوسرے اساتذہ اور طلباء سے کہیں زیادہ بلند اور بہتر ہوتا ہے ایک طالب علم جو سال بھر صرف ایک کتاب پڑھتا ہے اور استاد بھی اسی ایک کتاب سے درس دیتا ہے تو استاد کی علمیت و صلاحیت شاگرد سے کس طرح برترہوگی۔ ہمارے اکثراساتذہ اور طلباء ترقی یافتہ ممالک کے اساتذہ اور طلباء کی طرح آپس میں بحث کرنے سے اکثر گریز کرتے ہیں کیونکہ مباحثہ کے لئے مطالعہ بڑے اعتماد کے ساتھ بحث و مباحثہ کرتےہ یں۔ ہمارے یہاں جامعات کے طلباء کلاس میںخاموش بیٹھے رہتے ہیں۔​
پروفیسر فرانس ہانا۔ Franccs Henne. اپنے مقالہ میں لکھتے ہیں:۔​
"اسکول میں کتب خانہ کے قیام کا مقصد ہر طالب علم کو مطالعہ کی وہ حقیقی مسرت، فہم وادراک کی وہ بلندی اور تجربات کی وہ روشنی عطا کرنا ہے جو کہ بنی نوع انسان نے آنے والی نسلوں کے لئے تحریری شکل میں محفوظ چھوڑی ہے۔ اور یہ ہر طالب علم کا حق ہے کہ اس کو اپنے اسلاف کے علمی ورثے سے روشناس کرایا جائے۔ غرض اسکول کا کتب خانہ ایک ایسا سماجی ادارہ ہے جس کے توسط سے اہم ترین خیالات معلومات، تخلیقی محرکات، مسرت و انبساط میسر آتے ہیں اوریہی درحقیقت تعلیم کا مقصد ہے۔ ہر جمہوری نظام کا تقاضہ یہ ہے کہ اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے لئے اسکول کے کتب خانے تمام واجبی ذرائع اور حذمات سے لیس ہوں۔ جمہوریت کا بنیادی فلسفہ ہی یہ ہے کہ ہر لڑکے اور لڑکی کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ تمام علمی ذرائع اور خدمات​
23​
سے بلا کسی روک ٹوک فیض حاصل کر سکیں۔​
ترقی یافتہ ممالک میں کتب خانہ اسکول میں قلب کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس طرح دل متحرک ہونے کے باعث انسان کو زندہ و جاوید رکھتا ہے اور اس کے تمام اعضاء متحرک رہتے ہیں۔ اسی طرح کتب خانہ تمام طلباء اور اساتذہ کو ہمہ وقت نئی نئی کتب، مضامین اور جدید تعلیمی مواد سے روشناس کراتا ہے اور علمی صحت میں مذرت اور قوت مہیا کرتا ہے۔ اسکول کے کتب خانوں کو اگر ترتیب یافتہ لائبریرین اور وافر رقوم مہیا کی جائیں توانذروں و بیرون ملک مطبوعہ مواد کو اسکول کے نصاب کے مطابق کتب خانوں میں مسلسل مہیا کیا جاسکتا ہے۔​
پاکستان منصوبہ بندی کمیشن نے چوتھے پانچ سالہ منصوبہ میں اعتراف کیا کہ:۔​
" کتب خانے ہر تعلیمی سطح پر اہم کردار کے حامل ہیں،، اسی مضمون میں محض کتب خانوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے وضاحت کی کہ" تعلیمی اور غیر تعلیمی ادارے لازمی طور پر کتب خانوں سے مزین کئے جائیں تاکہ طلباء کی علمی صلاحیتوں کو فروغ دیا جاسکے اوران میں مطالعہ کے ذوق کو دوبالا کیا جاسکے،، نمبر3​
ہمارے یہاں اکثر اوقات برطانیہ یا امریکہ کی تقلید کو باعثِ فخر تصور کیا جاتا ہے۔ دان کا لباس ، زبان ، کھانا رہنے سہنے کے طریقے ، بولنے کے انداز وغیرہ کوبڑے فخر سے اپنا یا جاتا ہے اور اسی طرز زندگی کو مہذب سمجھاجاتا ہے۔ اس لئے اگر ہم اپنے ماہرین تعلیم کی توجہ ان ممالک کے اسکول کے کتب خانوں کی طرف مبذول کرائیں تو کوئی حرج نہیں۔ امریکہ کی ایسوسی ایشن آف اسکول لائبریریز نے اسکول کے کتب خانوں کے مقاصدیوں بیان کئے ہیں:۔​
"1۔ اس کا مقصد اسکول کے تعلیمی پروگرام میں موئثر طریقہ سے حصہ لینا اور طلباء،​
اساتذہ، والدین اور دیگر حضرات کی علمی ضروریات کو پورا کرناہے۔​
1۔ طلباء و طالبات کی تمام تعلیمی حاجات کو پرا کرنا اور ان کو ایسا مواد مہیا کرنا جو ان کی شخصیت کے ارتقاء اور تکمیل میں مدد گارہوں۔​
3۔ طلباء و طالبات میں مطالعہ کے ذوق و شوق کو پروان چڑھانا اور ان میں علمی مواد کو تنقیدی نظر سے جانچنے کی صلاحیت پیدا کرنا۔​
 

مقدس

لائبریرین
35

اخلاقی اور اصلاحی ناول اور افسانے بھی مہیا کرنے چاہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ بچوں میں کہانی سننے اور پڑھنے کا بےحد شوق ہوتا ہے اس طرح بڑی عمر کے بچوں میں بھی کہانی، ناول اور افسانے پڑھنے کا کافی شوق ہوتا ہے۔ بچوں کے اس ذوق کی تسکین کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ اسکول کے کتب خانوں سے ان کو معیاری، اصالحی ، اخلاقی اور معاشرتی ناول و افسانے جاری کیے جائیں۔ اس سے نہ صرف وہ انسانی زندگی کے تلخ و شریں حقائق سے واقف ہوتے ہیں بلکہ ان میں صحیح اور غلط، نیک وبد، تقوی اور گناہ کے مابین امتیاز کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ اور وہ ادبی اعتبار سے بےشمار نئے الفاظ، محاورے، ضرب الامثال استعما کرنے لگتے ہیں جس سے ان میں نفیس ذوق اور اعلی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔

اسکول کے کتب خانوں کے مواد کے انتخاب کے لیے ضروری ہے کہ نصاب کے علاوہ جو بھی کتب، رسائل اور دیگر مواد حاصل کیا جائے اس کو پہلے اساتذہ اور لائبریرین سرسری طور پر ضرور دیکھ لیں تاکہ مضر کتاب کتب خانے میںشامل نہ ہو جائے۔ اسکول کے کتب خانوں کا مقصد طلباء کی علمی صلاحیت کو اجاگر کرنا اور بلند سے بلند تر سطح پر لے جانا ہے۔ اگر طلباء کی دلچسپی کتب خانوں میں پیدا کر دی جائے تو وہ اپنے اساتذہ اور لائبریرین کی رہنمائی اور نگہداشت میں صاف ستھرا مواد پڑگیں گے ورنہ بصورت دیگر وہ اپنے ذوق کی تسکین کے لیے محلہ کے کرائے پر چلنے والے کتب خانوں سے سستا اور ایسا مواد حاصل کر کے پڑھیں گے جس سے ان کے اخٌاق خراب ہونے کا اندیشہ ہے لہذا ہمارے ماہرین تعلیم ، اساتذہ اور لائبریرین حضرات کا یہ دینی، اخلاقی اور قومی فریضہ ہے کہ وہ اسکول کے کتب خانوں کو احسن طریقہ پر فروغ دیں اور طلباء کی تمام تر علمی توجہ اسکول اور اس کے کتب خانوں پر مرکوز کر دیں۔

ثانوی مدارس کر پر ملک کے تعلیمی نظام میں بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ان ہی مدارس میں بچوں کی دینی، اخلاقی ، معاشرتی اور سماجی عادات و اطوار نشو و نما پاتی ہیں۔ اگر اساتذہ اور لائبریرین طلباء میں اچھی عادات و اطوار تخلیق کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ملک و قوم کا مستل شاندار اور تابناک ہو گا ورنہ تخریب و زوال ان کا مقدر بن جائے گا۔ ثانوی مدارس سے فارغ ہونے کے بعد طلباء کالجوں اور جامعات میں تعلیم پاتے ہیں۔ اگر ان کی عملی اور دیگر صلاحیتیں فعال ہوئیں تو وہ ملک میں حیرت انگیز ترقی کا

36

کا موجب بنیں گے لہذا ہمارے ثانوی مدارس میں بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
پاکستان میں مڈل اور ثانوی اسکولوں کی تعداد 1979ء میں 8376 تھی اور ان میں طلباء کی مجموعی تعداد 1860،000 تھی۔ ان میں سے بیشتر اسکولوں میں کتب خانے ناپید ہیں ۔ دیہاتوں میں تو کتب خانہ کا یکسر وجود نہیں، شہروں میں بھی کسی کسی اسکول میں کتب خانہ برائے نام پایا جاتا ہے۔ اگر ان تمام اسکولوں میں کتب خانے قائم کر دئیے جائیں اور ان میں پیشہ ور لائبریرین اور معیار کے مطابق کتب اور خدمات فراہم کی جائیں تو چند سالوں میں ملک کی علمی فضا میں ایک عظیم نکھار اور وقار پیدا ہو سکتا ہے۔
ہمارے ماہرین تعلیم، اساتذہ اور والدین کوئی بات ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ اعلی تعلیمی معیار اخلاقی اور دینی اقدار محض کلاس میں دی جانے والی تعلیم سے حاصل نہیں کی جا سکتیں۔ بچوں کو کلاس سے باہر اساتذہ اور لائبریرین کی رہنمائی اور نگہداشت میں ملک میں چھپنے والے صاف و ستھرے مواد سے روشناس کرانے ہی سے یہ خوبیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ کتب خانے اسکول کے تعلیمی پروگرام کو نہ صرف کامیاب بنانے میں مددگار ہوتے ہیں بلکہ یہ طلباء کے علمی، اخلاقی۔ دینی اور معاشرتی معیار کو بلند سے بلند تر کرنے میں بھی معاون ہوتے ہیں
 

عائشہ عزیز

لائبریرین

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 25 )

تصاویر وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔

3 ۔ کتب خانہ میں نصاب سے متعلق مواد کے علاوہ بے شمار موضوعات پر مواد جمع کیا جاتا ہے جو طلباء طالبات اور اساتذہ کے ذاتی ذوق و شوق کی تسکین میں مددگار اور معاون ہوتا ہے اس میں مختلف قسم کے کھیل، سیر و سیاحت، سوانخ مشاہیر، تاریخ و تمدن، کہانیاں و قصے، عام معلوماتی مواد وغیرہ شامل ہے۔

4 ۔ کتب خانے اساتذہ کی سہولت کے لیے جدید تدریسی تکنیک پر کتب اور مواد بھی مہیا کرتے ہیں تاکہ وہ جدید سائنسی و تکنیکی طریقوں سے طلباء کو جدید علوم پڑھا اور سکھا سکیں۔

5 ۔ کتب خانے طلباء اور اساتذہ کو روز مرہ دنیا میں ہونے والی ایجادات، تحقیقات اور واقعات سے باخبر رکھتے ہیں اور وہ تمام اخبارات، رسائل اور دیگر سلسلہ وار مواد کو حاصل کرتے ہیں جن کی مدد سے اندرون و بیرون ملک ہونے والے اہم واقعات سے آگاہی ہوسکے۔

6 ۔ کتب خانے طلباء و طالبات کے ذوق مطالعہ میں جِلا پیدا کرتے ہیں اور ان کو ایسی تربیت دیتے ہیں کہ وہ اعلیٰ معیاری مواد کا انتخاب خود کرسکتے ہیں اور اپنے ذہن کو اصلاحی و تعمیری طرز فکر سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ تخریبی عنصر سے گریز کرتے ہیں۔

7 ۔ اسکول کے کتب خانے نہ صرف طلباء و طالبات اور اساتذہ کی علمی ضروریات کو پورا کرتے ہیں بلکہ والدین اور اپنے علاقے کے تعلیم یافتہ افراد کی احتیاجات کو بھی پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

سطور بالا کی روشنی میں یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ طلباء کی تعلیم و تربیت کلاس کے علاوہ کتب خانوں کے ذریعہ بھی ضروری ہے۔ طلباء کلاس میں اپنے اساتذہ اور نصابی کتب سے جو کچھ حاصل کرتے ہیں وہ اس مضمون کی بنیادی تعلیم ہوتی ہے۔ لیکن جب یہی طلبا اپنے مضمون سے متعلق مزید کتابیں، مضامین کا مطالعہ کرتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ بنیادی علم میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ ان کو اس مضمون پر اتنی زیادہ معلومات ہوجاتی ہیں کہ وہ اس پر پورے اعتماد کے ساتھ کلاس میں اور کلاس سے باہر بحث و مباحثہ میں حصہ لے سکتے ہیں۔ بلکہ اس پر مضامین لکھ کر یا مباحثوں میں حصہ لے کر اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں اور تنقیدی جائزہ پیش کرسکتے ہیں۔


اگلا ٹیگ سیدہ شگفتہ اپیا
 
Top