ٹائپنگ مکمل اسکول کے کتب خانے

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
عائشہ عزیز

SKKK%20-%200009.gif



SKKK%20-%200010.gif
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰​
علم پر کسی قوم کا اجارہ نہیں۔ جو اس کو اپناتا ہے وہ بام عروج پر پہنچتا ہے۔ اسلامی مدارس و مراکز میں اساتذہ متعدد علوم کی تعلیم دیتے تھے۔ تقابلی مطالعہ کراتے تھے۔ ہر مضمون پر مختلف ماہرین کی کتب کا مطالعہ کرتے تھے۔ طلبہ کو تحقیق اور تنقید کے اصول سکھاتے تھے۔ نئے افکار اور جدید انکشافات کی ترغیب دلاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان مفکرین اور سائنس دانوں کے افکار اور اختراعات آج تک علوم و فنون کی بنیاد ہیں۔​
پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ملک ہے۔ اس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ یہاں مسلمان بچوں کو ایسا ماحول اور ایسی تربیت مہیا کی جائے جس کی بنا پر وہ اقوامِ عالم میں ممتاز مقام حاصل کر سکیں۔ ایسا تعلیمی نظام قائم کرنا تھا کہ جس کے تحت ابتدائی مدارس سے جامعات تک کو دینی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم میں بھی مہارت حاصل ہو سکے۔ لیکن بدقسمتی سے اب تک ہمارا نظامِ تعلیم اس نہج پر مُرتب نہیں کیا جا سکا۔ کسی علمی درسگاہ میں طریقہ تعلیم کتب خانوں کے بغیر تصوّو نہیں کیا جا سکتا۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی مدارس میں ابتدا ہی سے بچوں کو کتب بینی کی عادت ڈالنے اور اپنے نصابی مضامین پر تقابلی مطالعہ کرنے کے لئے لازمی طور پر کتب خانوں کے استعمال کی ترغیب دلائی جاتی ہے تا کہ وہ نہ صرف اپنے مضامین کو واضح طور پر سمجھ سکیں بلکہ ان میں علمی اعتبار سے خود اعتمادی پیدا ہو سکے۔​
پاکستان میں ابتدا ہی سے لائبریرین اور اس تحریک کی اہمیت سمجھنے والے دیگر حضرات ماہرین تعلیم اور حکام حکومت کو یہ باور کراتے رہے ہیں کہ ہمارے تمام تعلیمی مدارس میں کتب خانوں کو تعلیم کا اہم اور لازمی جزو قرار دیا جائے لیکن آج تک ہمارے تعلیمی اداروں میں کتب خانوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ جناب محترم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب مرحوم​
 

شمشاد

لائبریرین
شمشاد چاچو

1.gif


اسکول کے کتب خانے​
صفحہ ۱۱​
نے کیا خوب کہا ہے کہ "کتب خانہ تعلیمی اداروں میں قلب کی حیثیت رکھتا ہے۔" افسوس ہے کہ ہم اپنے تعلیمی ادارے بغیر قلب ہی کے چلا رہے ہیں۔​
انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات (SPIL) نے بارہا حکومت اور محکمہ تعلیم کے ذمہ دار افراد کی توفہ مختلف اوقات میں سیمنار، کانفرنس اور اسکول لائبریری ورکشاپ منعقد کر کے مبذول کرانے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں ۱۹۶۶ء میں ایک اسکول لائبریری ہینڈ بُک بھی شائع کی جو خاصی مقبول ہوئی۔ اسکولوں میں کتب خانوں کے قیام اور ان کی مناسب تنظیم کے لئے جناب غنی الاکرم سبزواری کو آمادہ کیا گیا کہ وہ ایسی کتاب تیار کریں جس کی مدد سے ہر ابتدائی اور ثانوی اسکول میں کتب خانے آسانی سے قائم کئے جا سکیں۔جناب سبزواری صاحب نے بڑی محنت اور اپنے طویل تجربہ کی روشنی میں ایسی کتاب مرتب کی ہے جس میں کتب خانہ کے تمام شعبوں اور خدمات کا مختصر لیکن واضح طور پر احاطہ کیا ہے۔ کسی اسکول میں پیشہ ور لائبریرین موجود نہ ہوں تب بھی صدر مدرس اور اساتذہ اپنے طور پر کتب خانہ قائم کر سکتے ہیں۔ اس کتاب میں ایسی تمام ہدایات اور رہنما اصول شامل ہیں جن کی مدد سے کتب خانہ بہ آسانی خدمات انجام دے سکتا ہے۔ تاہم ہر اسکول میں پیشہ ورانہ تعلیم یافتہ لائبریرین کا تقرر ضروری ہے اور معیاری خدمات انجام دے سکتا ہے۔​
میں جناب محترم محمد علی خان ہوتی وفاقی وزیر تعلیم کا ممنون ہوں کہ انہوں نے ازراہ کرم اس کتاب کا تعارف لکھنے کی زحمت گوارا فرمائی اور اس طرح کتب خانوں کی تحریک کی ہمت افزائی​
 

شمشاد

لائبریرین
شمشاد چاچو

2.gif


اسکول کے کتب خانے​
صفحہ ۱۲​
کی۔​
اگر ہر علاقے کے محکمہ تعلیم کی جانب سے یہ کتاب رہنمائی کے لئے ہر اسکول میں مہیا کی جائے تو یہ توقع کی جاتی ہے کہ کتب خانوں کا نظام بہتر ہو جائے گا اور تمام طلباء کو بہتر خدمات فراہم کی جا سکیں گی۔ اگر ہمارے طلباء میں ابتدائی مدارس سے ہی کتب بینی کا شوق پیدا کرا دیا جائے تو وہ نہ صرف اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں میں کتب خانوں کو استعمال کریں گے بلکہ آئندہ پوری زندگی میں وہ کتابوں، کتب خانوں اور علم کے شیدائی رہیں گے۔​
 

زلفی شاہ

لائبریرین
نصابی کتب کے بغیر منظم تدریس نہیں ہو سکتی۔ لیکن جب ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا معیار تعلیم بلند ہو تو ہمیں ایسے طریقے اختیار کرنا چاہئیں جن کے ذریعے ہمارا معیارتعلیم بلند ہو سکے۔
استاد بچوں کو اپنے مضمون پر دن میں ایک گھنٹہ، ہفتے میں تین یا چار گھنٹے تعلیم دیتا ہے اور جو علم وہ بچوں کو دیتا ہے وہ نصابی کتب تک محدود ہوتا ہے۔ بچے استاد کے پڑھائے ہوئے سبق کو خوب یاد کرتے ہیں یا رٹ لیتے ہیں۔ بچے اپنے مضمون کی دیگر کتابیں نہیں پڑھتے اور نہ ان کو اس کی اجازت ہوتی ہے کہ وہ کتب خانہ سے اپنے مضامین پر دوسری کتابیں پڑھ کر تقابلی مطالعہ کر سکیں۔
نصابی کتب ہمارے اسکولوں میں اعلیٰ تربیت یافتہ اساتذہ سے لکھوائی جاتی ہیں جو مضمون پر بنیادی معلومات فراہم کرتی ہیں۔ عام بچے اس کو یاد کرکے امتحان پاس کرتے ہیں۔ لیکن اگر ان بچوں کو نصابی کتب کے علاوہ دیگر کتابیں پڑھنے کے مواقع فراہم کئے جائیں تو نہ صرف ان کو اپنے درسی مضامین میں کافی معلومات حاصل ہوں گی بلکہ وہ دیگر علوم اور مضامین سے متعلق بھی بہت کچھ جان سکیں گے۔
غرض ہمارے اساتذہ اور طلباء کا علم نصابی کتب تک محدود رہتا ہے۔ جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں اساتذہ اور طلباء نصابی کتب کے علاوہ دیگر مواد بھی دیکھتے اور مطالعہ کرتے ہیں۔
اسکول اور کتب خانہ
ہمارے ماہرین تعلیم جب تقاضوں کے پیش نظر اعلیٰ تعلیم کی بات کرتے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کے معیار تعلیم کے ہم پلہ ہونے کی سفارشات کرتےہیں تو پھر ان ہی ممالک کے ان اچھے طریقوں کو کیوں نہیں اپناتےجن کے باعث وہ اعلیٰ معیار پر پہنچ سکیں۔ہمیں اچھے اعمال کی نقل کرنا چاہیےاور برے اعمال ترک کر دینے چاہئیں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں ابتدائی اور ثانوی اسکولوں میں کتب خانوں کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے۔ اساتذہ اور طلباء کلاس کے بعد بیشتر وقت کتب خانوں میں گذارتے ہیں۔اساتذہ ہمہ وقت اس کھوج میں رہتےہیں کہ ان کے مضمون میں کیا نئی تحقیقات ہوئی ہیں۔کون سی نئی کتابیں چھپی ہیں۔ کون سے نئے مقالات چھائے ہوئے ہیں اور کون سا سمعی و بصری مواد بازار میں آیا ہے جس کی مدد سے وہ طلباء کو اپنے مضمون سے زیادہ سے زیادہ روسناش کرا سکیں اور ان کے علم میں مزید اضافہ کر سکیں۔ اس طرح وہ طلباء میں نصابی کتب کے علاوہ دیگر کتب اور مواد کے مطالعہ اور چھان بین کا ذوق و شوق
 
Top