اسکول کے زمانے کی یادیں تازہ کریں

رانا

محفلین
اسکول کا زمانہ کس کو یاد نہیں آتا۔ وہ کلاسز، کلاس فیلوز ٹیچرز اور کلاس ٹیچرز اور بہت سی یادیں۔ ٹیچرز سے مار کھانا، ساتھیوں سے شرارتیں کرنا اور کبھی کبھی لڑائی کرکے پیٹنا اور پٹنا ۔یہاں محفلین سے گذارش ہے کہ اپنے اسکول کی یادیں شئیر کریں۔ سب تو ظاہر ہے ایک ساتھ یاد نہیں آجاتیں اس لئے جیسے جیسے اکا دکا باتیں یاد آتی جائیں وہ شئیر کرتے جائیں۔

خاکسار کے اسکول کا نام The Microage Muslim Standard Secondary School تھا۔ سب سے زیادہ یادیں اسی اسکول سے وابستہ ہیں۔ ابتدا سے لے کر آٹھویں جماعت تک۔ یہ نارتھ ناظم آباد بلاک بی برما شیل سوسائٹی کے ایک بنگلے میں واقع تھا۔ آٹھویں کلاس کے درمیان میں ہی یہ اسکول ایک دوسرے اسکول بابا فرید پبلک اسکول فیڈرل بی ایریا میں ضم ہوگیا۔ کیونکہ ہمارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب امریکہ چلے گئے اور ہمیں اپنی بیٹی کے اسکول میں ضم کرگئے۔ وہاں سے آٹھویں پاس کی اور نویں دسویں کی تعلیم سرکاری اسکول مکمل کی۔

اس اسکول سے ڈھیر ساری یادیں وابستہ ہیں۔ اب بڑی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی پرانا کلاس فیلو مل جائے لیکن فیس بک وغیرہ سب چھان لیا کہیں کچھ پتہ نہیں لگا۔

ایک مرتبہ گلی میں ایک لڑکے سے لڑائی ہوگئی۔ ہم زندگی میں پہلی بار لڑے تھے اور پہلی اور آخری بار ہی جیتے کہ ہم نے اس لڑکے کو نیچے گرالیا۔ پھر تو ہمیں لگنے لگا کہ ہم تو ہر کسی کو لڑائی میں ہرا سکتے ہیں۔ بس پھر اسکول آکر کلاس میں اپنا واقعہ نمک مرچ لگا کر سنایا اور کہا کہ ہم سے کوئی لڑائی میں جیت نہیں سکتا۔ ایک کلاس فیلو جعفر نام تھا اس نے چیلنج کردیا کہ چھٹی کے بعد مقابلہ کرتے ہیں۔ ہم نے بھی ڈنکے کی چوٹ پر چیلنج قبول کرلیا کہ اسے گرانا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ جب چھٹی ہوئی تو سب طلباء ہمارا مقابلہ دیکھنے جمع ہوگئے۔ اسکول کے باہر ایک دوسرے بنگلے کے باہر والے لان میں مقابلہ منعقد ہوا۔ اس نے آن کی آن میں ہمیں گرالیا۔ ہمیں تو یقین نہیں آیا کہ ہم ہار گئے ہیں۔ اس سے دوبارہ اور سہہ بارہ مقابلہ کیا لیکن ہر بار چاروں شانے چت۔ پھر دوبارہ کبھی کسی کو دوبدو لڑائی کا چیلنج نہیں دیا۔:)

اس اسکول میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ پتہ نہیں کیوں ہمیں اپنی ہر کلاس ٹیچر سے عشق ہوجاتا تھا جو ظاہر ہے کہ یکطرفہ ہوتا تھا۔ ہر سال کلاس ٹیچر تبدیل ہوتی اور ہمارا عشق بھی ۔ یہ سلسلہ شائد پانچویں چھٹی کلاس تک چلا ہوگا۔ حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں تھا۔ دل ہی پاگل تھا۔:p

یہاں کی جو شرارتیں ہمیں یاد ہیں ان میں سے ایک تو یہ کہ کاپی سے ایک صفحہ پھاڑنا اس کے بیچ میں سوراخ کرنا اور ہمارے اسکول کے یونیفارم میں پینٹ شرٹ اور شلوار قمیض دونوں فلیور تھے۔ لہذا شلوار قمیض والے لڑکے کی قمیض میں چپکے سے پیچھے جاکر فٹ کردینا۔ اب وہ بے چارہ جہاں جاتا پیچھے دم لٹکی رہتی اور اسے تب پتہ لگتا جب کوئی اسے دیکھ کر ہنستا۔:)

ایک کھیل جو بہت کھیلتے تھے وہ ف کی بولی بولنا ہوتا تھا۔ یعنی ہر لفظ بولتے ہوئے اس کے درمیان میں کہیں ف کو ایویں ہی فٹ کردینا۔:)

فی الحال اتنا ہی تاکہ دیگر محفلین بھی اپنی اسکول کی یادیں شئیر کریں۔ اپنے اسکول کا مختصر تعارف بھی ایک دو سطور کا اگر دے سکیں تو دے دیں۔
 
اس اسکول میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ پتہ نہیں کیوں ہمیں اپنی ہر کلاس ٹیچر سے عشق ہوجاتا تھا جو ظاہر ہے کہ یکطرفہ ہوتا تھا۔ ہر سال کلاس ٹیچر تبدیل ہوتی اور ہمارا عشق بھی ۔ یہ سلسلہ شائد پانچویں چھٹی کلاس تک چلا ہوگا۔ حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں تھا۔ دل ہی پاگل تھا۔:p
اسے پپی لو کہا جاتا ہے۔ یہ عشق کی ایک بچگانہ قسم ہے۔ یہ زیادہ سیریس نہ ہواس سے بچاؤ کیلئے عموماً پاکستان میں پرائمری کے بعد خواتین ٹیچرز کی تعداد کم کر دی جاتی ہے۔
 

ہادیہ

محفلین
ہاہاہاہا۔۔ بہت بہت اچھا لگا۔ مزا آگیا۔ :)
واقعی سکول کا دور سب سے زیادہ مزے کا دور تھا۔ سختی بھی بہت تھی مگر شرارتیں ، کھیلنا،سب سکول کا حصہ تھیں۔ ان شاء اللہ کچھ میموریز شیئر کروں گی۔:)
 

ہادیہ

محفلین
اسے پپی لو کہا جاتا ہے۔ یہ عشق کی ایک بچگانہ قسم ہے۔ یہ زیادہ سیریس نہ ہواس سے بچاؤ کیلئے عموماً پاکستان میں پرائمری کے بعد خواتین ٹیچرز کی تعداد کم کر دی جاتی ہے۔
میں نے آپ کا مراسلہ رپورٹ کردینا ہے ۔ اگر زیادہ تبصرے کیے وہ بھی ایسے۔۔
 
اسکول کے زمانہ میں بہت موج مستی کی ہے۔ پرائمری کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ اسوقت شرارتیں کرنے کا یہ فائدہ تھا کہ ڈانٹ ڈپٹ کم پڑتی تھی کہ بڑے ہمیں "بچے" سمجھ کر چھوڑ کر دیتے ہیں۔ بعد میں وہی شرارتیں کرنے پر مولا بخش نکل آتا تھا۔
ایک دو شرارتیں جو ابھی بھی یاد ہیں ان میں سامنے والے اسٹوڈنٹ کے بیٹھنےسے قبل اسکی کرسی کھینچنا، دوسرے بچوں کی کاپیاں چھپانا، ٹیچر کو جھوٹی شکایتیں لگانا اور کسی چڑنے والے طالبعلم کی کمر پر Kick Me کا اسٹکر لگا کر اسے پورے اسکول میں بھگانا شامل ہے۔
ایک ماہر بچے کا اصل ٹیلنٹ شرارت کرنا نہیں بلکہ شرارت کرکے بچ جانا یا اسکی ذمہ داری کسی اور کے سر ڈال کر بڑوں کو بیوقوف بنانا ہے۔ ہم اس معاملہ میں کافی اناڑی تھے کہ اکثر شرارتیں کرکے پکڑے جاتے تھے۔
 

رانا

محفلین
ہاہاہاہا۔۔ بہت بہت اچھا لگا۔ مزا آگیا۔ :)
واقعی سکول کا دور سب سے زیادہ مزے کا دور تھا۔ سختی بھی بہت تھی مگر شرارتیں ، کھیلنا،سب سکول کا حصہ تھیں۔ ان شاء اللہ کچھ میموریز شیئر کروں گی۔:)
جی بالکل انتظار رہے گا۔ سب محفلین اگر شئیر کریں گے تو یہ بھی پتہ لگے گا کہ کتنی ہی باتیں ہم سب میں اسکول کے زمانے تک مشترک ہوتی تھیں۔ بہت لطف رہے گا اگر سب حصہ لیں۔:)
 

رانا

محفلین
اسکول کے زمانے میں ہم گپیں بھی بڑی بڑی ہانکتے تھے اور دوسروں کی گپوں پر یقین بھی بڑی آسانی سے کرلیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک لڑکا کلاس میں پستے لے کر آیا۔ ایک دو دانے ہمیں بھی دئیے۔ کہنے لگا ہمارے گھر میں پانچھ الماریاں بھری ہوئی ہیں پستوں سے۔ ہم بڑے مرعوب سے ہوگئے کہ اس کے تو مزے ہیں پانچ الماریاں!!!:)
 
ہم تو جناب گورنمنٹ کے اردو میڈیم سکولز میں پڑھے ہیں، جہاں مار پڑھائی کا اہم حصہ سمجھی جاتی تھی۔
اور چونکہ بعض اوقات اصل شرارتی کو ڈھونڈنا مشکل کام ہوتا تھا، پوری کلاس کو کھڑا کر کے ٹھکائی کرنا آسان کام۔ تو پڑھائی میں اچھے ذہین بچے بھی مار سے محفوظ نہیں ہوتے تھے۔ ہمارا شمار تو خیر ذہین طلبہ میں نہیں تھا، البتہ مجھ سے بڑے دو بھائی اپنی کلاس کی پہلی تین پوزیشنز میں رہنے کی وجہ سے اساتذہ کے منظورِ نظر تھے۔ اس وجہ سے مار کھانے کے ساتھ ساتھ بھائیوں کے ذہانت کا ذکر بھی ضروری سمجھا جاتا تھا۔
لیکن ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ ابو کو بلانے کے بجائے ذہین بھائیوں سے ہی شکایت لگ جایا کرتی تھی۔
ہمارے ایک کلاس ٹیچر سکول میں اپنی سختی کی وجہ سے مشہور تھے۔ ہمارے کلاس انچارج ہونے کی وجہ سے ان کا مولا بخش ہماری الماری کی زینت تھا۔ ایک دفعہ کلاس کے ایک شرارتی بچے نے ہمت کر کے اس پر لکھ دیا
آ جا مورے بالما تیرا انتظار ہے
ڈنڈا ان کے کلاس میں آنے سے پہلے ان کی ٹیبل پر رجسٹر، چاک اور ڈسٹر کے ساتھ سجا دیا جاتا تھا۔ وہ آئے، انہوں نے پڑھایا اور کام دے کر سیٹ پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد ڈنڈے پر لکھا یہ جملہ پڑھا۔ مسکرائے۔ کلاس کی جان میں جان آئی کہ خوش ہو گئے ہیں۔ ہنستے ہنستے پوچھا کہ کس نے لکھا ہے۔ لکھنے والے لڑکے نے فخر سے ہاتھ اٹھا دیا کہ سر بڑے خوش ہوئے ہیں۔
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
 

ہادیہ

محفلین
لڑکیاں معصوم ہوتی ہیں:rollingonthefloor:
۔ ٹیچرز سے مار نہیں پڑتی تھی۔ مگر پھر بھی بوائز سے زیادہ ہی ٹیچر کا ڈر ہوتا تھا۔ ہم چار فرینڈز کا گروپ تھا ۔ سب کو املی اور کچے آم بہت پسند تھے اور ٹیچر ایسی چیزیں گھر والوں کی طرح سختی سے منع کرتے تھے۔ اس کے لیے ہم نے ایک طریقہ ڈھونڈا۔ ہم لوگ بیگ میں چھپا کر کھاتے تھے:heehee:

ایک ہاتھ بیگ کی جیب میں ایک ہاتھ بک پر ہوتا تھا۔ اور لڑکوں نے ازلی دشمنی(لڑکیوں کو مارتے کیوں نہیں) کا بدلہ ہم سے یوں لیا کہ ہماری شکایت لگا دی۔ اور یوں سب کو سرسے سزا ملی۔ :noxxx:
اور ہماری املی بھی بیگ سے نکال کر ڈسٹ بن کا حصہ بن گئی۔ :(
 

رانا

محفلین
ہم تو جناب گورنمنٹ کے اردو میڈیم سکولز میں پڑھے ہیں، جہاں مار پڑھائی کا اہم حصہ سمجھی جاتی تھی۔
اور چونکہ بعض اوقات اصل شرارتی کو ڈھونڈنا مشکل کام ہوتا تھا، پوری کلاس کو کھڑا کر کے ٹھکائی کرنا آسان کام۔ تو پڑھائی میں اچھے ذہین بچے بھی مار سے محفوظ نہیں ہوتے تھے۔ ہمارا شمار تو خیر ذہین طلبہ میں نہیں تھا، البتہ مجھ سے بڑے دو بھائی اپنی کلاس کی پہلی تین پوزیشنز میں رہنے کی وجہ سے اساتذہ کے منظورِ نظر تھے۔ اس وجہ سے مار کھانے کے ساتھ ساتھ بھائیوں کے ذہانت کا ذکر بھی ضروری سمجھا جاتا تھا۔
لیکن ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ ابو کو بلانے کے بجائے ذہین بھائیوں سے ہی شکایت لگ جایا کرتی تھی۔
ہمارے ایک کلاس ٹیچر سکول میں اپنی سختی کی وجہ سے مشہور تھے۔ ہمارے کلاس انچارج ہونے کی وجہ سے ان کا مولا بخش ہماری الماری کی زینت تھا۔ ایک دفعہ کلاس کے ایک شرارتی بچے نے ہمت کر کے اس پر لکھ دیا
آ جا مورے بالما تیرا انتظار ہے
ڈنڈا ان کے کلاس میں آنے سے پہلے ان کی ٹیبل پر رجسٹر، چاک اور ڈسٹر کے ساتھ سجا دیا جاتا تھا۔ وہ آئے، انہوں نے پڑھایا اور کام دے کر سیٹ پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد ڈنڈے پر لکھا یہ جملہ پڑھا۔ مسکرائے۔ کلاس کی جان میں جان آئی کہ خوش ہو گئے ہیں۔ ہنستے ہنستے پوچھا کہ کس نے لکھا ہے۔ لکھنے والے لڑکے نے فخر سے ہاتھ اٹھا دیا کہ سر بڑے خوش ہوئے ہیں۔
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
ہمارا اسکول پرائیویٹ تھا لیکن تھا اردو میڈیم۔ لوگ سمجھتے تھے کہ پرائیویٹ اسکول میں پڑھتا ہے تو انگریزی میڈیم ہوگا لیکن جب انہیں بتاتے تھے کہ انگریزی کی وہی ایک کتاب ہے جو سرکاری اسکول میں ہوتی ہے تو حیران ہوتے تھے۔ لیکن بہرحال اسکول اچھا تھا۔ فیس بہت ہی مناسب تھی۔
 
ہمارا اسکول پرائیویٹ تھا لیکن تھا اردو میڈیم۔ لوگ سمجھتے تھے کہ پرائیویٹ اسکول میں پڑھتا ہے تو انگریزی میڈیم ہوگا لیکن جب انہیں بتاتے تھے کہ انگریزی کی وہی ایک کتاب ہے جو سرکاری اسکول میں ہوتی ہے تو حیران ہوتے تھے۔ لیکن بہرحال اسکول اچھا تھا۔ فیس بہت ہی مناسب تھی۔
ہماری تو پرائمری تک 5 روپے، سیکنڈری 8 روپے اور نہم، دہم میں 10 روپے فیس تھی۔ :)
 

رانا

محفلین
لڑکیاں معصوم ہوتی ہیں:rollingonthefloor:
۔ ٹیچرز سے مار نہیں پڑتی تھی۔ مگر پھر بھی بوائز سے زیادہ ہی ٹیچر کا ڈر ہوتا تھا۔ ہم چار فرینڈز کا گروپ تھا ۔ سب کو املی اور کچے آم بہت پسند تھے اور ٹیچر ایسی چیزیں گھر والوں کی طرح سختی سے منع کرتے تھے۔ اس کے لیے ہم نے ایک طریقہ ڈھونڈا۔ ہم لوگ بیگ میں چھپا کر کھاتے تھے:heehee:

ایک ہاتھ بیگ کی جیب میں ایک ہاتھ بک پر ہوتا تھا۔ اور لڑکوں نے ازلی دشمنی(لڑکیوں کو مارتے کیوں نہیں) کا بدلہ ہم سے یوں لیا کہ ہماری شکایت لگا دی۔ اور یوں سب کو سرسے سزا ملی۔ :noxxx:
اور ہماری املی بھی بیگ سے نکال کر ڈسٹ بن کا حصہ بن گئی۔ :(
ہاہاہا۔ یہ تو ہم بھی کیا کرتے تھے۔:p املی سے یاد آیا کہ ہمارے اسکول کے قریب ایک املی کا درخت ہوتا تھا۔ ہمارے جیب خرچ میں املی کی گنجائش اگر نہ ہوتی تو املی کے درخت کے پتے ہی توڑ کر جیبوں میں ٹھونس لیتے کہ ان کو چبانے کا بھی الگ ہی مزہ تھا۔:)
 
ہمارے ایک کلاس ٹیچر سکول میں اپنی سختی کی وجہ سے مشہور تھے۔ ہمارے کلاس انچارج ہونے کی وجہ سے ان کا مولا بخش ہماری الماری کی زینت تھا۔ ایک دفعہ کلاس کے ایک شرارتی بچے نے ہمت کر کے اس پر لکھ دیا
آپ تو بہت خوش قسمت ہیں کہ صرف ایک ہی استاد تھے جو اپنی سختی کی وجہ سے مشہور تھے۔ ہماری پرائمری تو جیسے تیسے خواتین ٹیچرز کے زیر سایہ گزر گئی۔ پرائمری کے بائی جونئیر ہائی اسکول میں جب صنف نازک سے صنف ظالم نے کلاس میں قدم رکھا تو ہوش ٹھکانے آگئے۔ بچپن کی ساری شرارتیں پہلے ہفتے میں ہی نکل گئیں۔ مضحکہ خیز طور پر ایک استاد باقیوں سے قدرے مختلف تھے۔ اور کچھ کمزور بھی۔ وہ لڑکوں کو مارتے مارتے اکثر خود تھک کر بیٹھ جاتے یا کلاس میں کسی اور باڈی بلڈر لڑکے سے باقی کی حجامت کرواتے۔ انکی اس خوبی کے باعث پورے اسکول میں انکا نام ’’سر ڈنڈی‘‘ مشہور گیا تھا۔
 
ہاہاہا۔ یہ تو ہم بھی کیا کرتے تھے۔:p املی سے یاد آیا کہ ہمارے اسکول کے قریب ایک املی کا درخت ہوتا تھا۔ ہمارے جیب خرچ میں املی کی گنجائش اگر نہ ہوتی تو املی کے درخت کے پتے ہی توڑ کر جیبوں میں ٹھونس لیتے کہ ان کو چبانے کا بھی الگ ہی مزہ تھا۔:)
ہمارے پاس املی کا درخت تو نہیں تھا البتہ شہتوت کے کافی کھیت تھے۔ گرمیوں کی بریک میں اکثر ان پر چڑھ کر گرمی اور بھوک کی آگ بجھاتے۔ شروع شروع میں صرف اپنے پیٹ کا خیال تھا مگر کبھی کبھارکلاس میں موجود دیگر دوست وغیرہ بھی تقاضا کر دیتے کہ ہمارے لئے بھی لیتے آنا۔ ایک بار جیب میں شاپر لانا بھول گئے اور کالے شہتوت سفیدیونیفارم کی شرٹ میں ڈال کر نیچے اترے ہی تھے کہ پرنسپل نے دیکھ لیا۔ پھر ہماری قمیض کی وہ درگت بنائی کہ سارے اسکول نے یہ عبرت ناک نظارہ کیا۔ اسکے بعد شہتوت کھانے سے ہی توبہ کرلی۔
 

رانا

محفلین
ایک مرتبہ معاشرتی علوم کے ٹیچر نے ہماری کاپی دیکھی تو صرف چند صفحات پر ہی کام کیا ہوا تھا باقی پوری کاپی خالی۔ سر نے پوچھا اس کے گھر کے قریب کون رہتا ہے۔ ہمارے گھر کے قریب ایک ہی لڑکی رہتی تھی اس نے ہاتھ کھڑا کردیا۔ سر نے کہا اس کے ابو کو جاکر بتانا کہ یہ ہوم ورک بالکل بھی نہیں کرتا۔ اس لڑکی سے ہماری کافی اچھی دوستی تھی کہ اکٹھے اسکول جانا ہوتا تھا اس لئے خیال نہیں تھا کہ وہ شکایت لگائے گی۔ لیکن شام کو کھیل کر گھر واپس آئے تو دیکھا امی کے پاس بیٹھی بڑی سنجیدہ شکل بنائے ہماری شکایت لگارہی ہے۔ ہمیں دیکھ کر بھی اس کی سنجیدہ شکل میں کوئی تبدیلی نہ آئی اور اسی انہماک سے ایک ایک بات امی کو بتاتی رہی۔ ہم بڑے حیران ہوئے کہ بندہ کچھ روز ساتھ آنے جانے کا ہی تھوڑا خیال کرلیتا ہے۔:)
 
ٹیچرز سے مار نہیں پڑتی تھی۔ مگر پھر بھی بوائز سے زیادہ ہی ٹیچر کا ڈر ہوتا تھا۔
پرائمری تک ہماری کلاسز اکٹھی ہوتی تھیں۔ آخری سال غالباً پانچویں جماعت میں اسکول کے اختتام پر عید بھی اتفاقا آگئی تو ٹیچر نے ہم لڑکوں کیلئے عید ملن اور فیئر ویل پارٹی کا اہتمام کیا۔ انکا خیال تھا کہ لڑکیاں ہمیں بہت دکھ کیساتھ رُخصت کریں گی۔ مگر بدقسمتی سے اس زمانہ میں ایڈز کے اشتہارات پی ٹی وی پر دھڑا دھڑ چل رہے تھے۔ کھانے کے وقت جب لڑکےاور لڑکیاں ایک ٹیبل پر آئیں ان میں سے بعض نے بیماری کے خوف سے ساتھ بیٹھنے سے صاف انکار کر دیا۔ مجبورا باقی لڑکوں کو بھی اکیلے کھانا پڑا۔ ٹیچر بیچاری ہمارا منہ دیکھتی رہ گئی۔ بعد میں گھر جا کر سر پیٹا یا خودکشی کر لی ، وہ ہمیں معلوم نہیں کہ ہم پرائمری پاس کر چکے تھے اور اسکول کا آخری دن تھا۔
 

زیک

مسافر
پرائمری تک ہماری کلاسز اکٹھی ہوتی تھیں۔ آخری سال غالباً پانچویں جماعت میں اسکول کے اختتام پر عید بھی اتفاقا آگئی تو ٹیچر نے ہم لڑکوں کیلئے عید ملن اور فیئر ویل پارٹی کا اہتمام کیا۔ انکا خیال تھا کہ لڑکیاں ہمیں بہت دکھ کیساتھ رُخصت کریں گی۔ مگر بدقسمتی سے اس زمانہ میں ایڈز کے اشتہارات پی ٹی وی پر دھڑا دھڑ چل رہے تھے۔ کھانے کے وقت جب لڑکےاور لڑکیاں ایک ٹیبل پر آئیں ان میں سے بعض نے بیماری کے خوف سے ساتھ بیٹھنے سے صاف انکار کر دیا۔ مجبورا باقی لڑکوں کو بھی اکیلے کھانا پڑا۔ ٹیچر بیچاری ہمارا منہ دیکھتی رہ گئی۔ بعد میں گھر جا کر سر پیٹا یا خودکشی کر لی ، وہ ہمیں معلوم نہیں کہ ہم پرائمری پاس کر چکے تھے اور اسکول کا آخری دن تھا۔
آپ کی عمر 47 سال ہے۔ شاید پانچویں جماعت 1981 یا 1982 میں پاس کی ہو گی۔ اس وقت کونسے ایڈز کے اشتہار آتے تھے؟ ایڈز کا یہ نام بھی 1982 کے آخر میں رکھا گیا۔
 
Top