]::::: اسلام میں موسیقی اور گانے ::::: پہلا حصہ ::: شرعی حیثیت :::::

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
میں تو عرصہ سے خواہش رکھتا ہوں کہ نغمہ کا جواز مل جائے تو عیش ہی عیش ہوں۔ اور اب تک جو کچھ بھی اس موضوع پر پڑھا وہ ویسے ہی ہے کہ جس کا جو موقف ہے وہ خود کو بدلنے کو تیار نہیں بس خود کو صحیح ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ خیر یہ تو ہر مسئلے میں ہوتا ہے۔ جانے کیا عوامل ہیں اس کے پیچھے۔ اس لئے اسے مشکوک معاملات کے زمرے میں رکھتا ہوں۔

اور یوں قرآن کی ایک آیت آڑے آرہی ہے جس کے چلتے میں موسیقی سے دور رہنا ہی پسند کرتا ہوں جس میں یہ کہا گیا ہے کہ مشکوک چیزوں سے پرہیز کرو!
 

دوست

محفلین
آپ کی احتیاط اچھی چیز ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حرمت غنا ہمیشہ ایک متنازع مسئلہ رہا ہے۔ امت کا ایک گروہ خاص طور پر فقہا فتنے کے ڈر سے اسے ہمیشہ حرام قرار دیتے رہے ہیں اور آج بھی ان کا یہی جواب ہوتا ہے۔ بلکہ پروپیگنڈا یہ کیا جاتا ہے جیسے امت کا اس پر ہمیشہ سے اجماع ہو۔ حالانکہ بڑی بڑی جلیل القدر شخصیات نے گانا سنا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ہمارے لیے کون ہوگا ان سے تواتر سے دف کے ساتھ گانا سننا ثابت ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ صاحبان علم اس کو سادہ سا گانا، دف سے کے ساتھ صرف خوشی کے موقعے پر گانا، صرف عورتیں‌ گا سکتی تھیں‌ وغیرہ وغیرہ تاویلات کے ساتھ توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں‌۔
لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ اس کی آڑ میں‌ بے حیائی اور مخلوط محافل کی کبھی بھی اجازت نہیں‌ دی جاسکتی۔ گانے کی اجازت کا مطلب ہے کہ فن موسیقی کی اجازت ہے۔ غالب کی، داغ کی غزلیں‌ ہوں‌ اور مہدی حسن یا جگجیت کی آواز ہو تو ریلیکس موڈ میں‌ کون کافر انھیں نہ سننا چاہے گا۔ لیکن یہی گانا اگر آپ کی نماز میں‌ رکاوٹ بن جائے تو لعنت ہے ایسے فنون لطیفہ پر۔
وسلام
 
جس بات کا تذکرہ اللہ تعالی نے نہیں کیا آپ کی صوابدید پر چھوڑا ہے یہ آپ کی بہتری کے لئے ہی ہے۔ اچھا اور برا استعمال کسی بھی چیز کا آپ کا اپنے عمل ہے۔ جس کی جزا اور سزا ملے گی۔ اسی طرح موسیقی بھی ہے۔ جس کا اچھا یا برا استعمال ممکن ہے۔ اس اچھے یا برے استعمال سے ہی اس کی اچھائی یا برائی کا تعین ہوگا۔
 
فی الحال ایمرجنسی طور پر یہ دو احادیث ٹائپ کی ہیں اس لیے کہ صرف عورتیں ہی نہیں گاتی تھیں مرد بھی گاتے تھے۔ جیسا کہ نیچے کی احادیث سے پتا چلتا ہے اور یہ غالبًا اس وقت کی روایات ہیں جب حضور ﷺ مدینہ میں ہجرت کرکے وارد ہوئے تھے۔
مسند کی ایک روایت
ان الحبشۃ کانو یدفون بین یدی رسول الل ﷺ ویرقصون و یقولون محمدعبد صالح۔ فقال ﷺ مایقولون؟ قال: محمد عبد صالح
حبشی لوگ حضور کے سامنے دف بجا بجا کر رقص کررہے تھے اور محمد عبد صالح گاتے جاتے تھے۔ حضور ﷺ نے پوچھا یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ کہا: محمد عبد صالح کہہ رہے ہیں۔
مسند احمد کی روایت حضرت انس رض سے یوں مروی ہے
کانت الحبشۃ یزفنون بین یدی النبی ﷺ و یرقصون محمد عبد الصالح (جلد 3 صفحہ 152)
حبشی حضور ﷺ کے سامنے پاؤں مار مار کر (تھرک تھرک کر) ناچتے اور الاپتے تھے کہ محمد ﷺ اللہ کے صالح بندے ہیں۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ
دوست ، آپ نے مسند احمد کی ایک حدیث ذکر کی ہے ، اور اُس سے پہلے ایک بات لکھی ہے کہ """ """ ، اپنی اس بات کو یاد رکھیے گا ، ان شاء اللہ اس کا حوالہ ہماری آئیندہ گفتگو میں کام آئے گا ،
دوست ، اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی موجودگی میں اہل حبشہ کا دف بجا کر ، اور رقص کرتے ہوئے یہ کہنا کہ """ محمد عبد صالح ::: محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) نیک بندے ہیں """ ، اس بات میں ایک اور مسئلے کی بھی ایک دلیل ہے لیکن وہ اس وقت ہمارے زیر مطالعہ نہیں ، آپ یہ بتائیے بھائی کہ :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی موجودگی میں دف بجانا کر ایک حق سچ بات کہنا ، جی کہنا ، گانا نہیں ، موسیقی ہے!؟؟؟ گانا ہے ؟؟؟ اور جو موسیقی اور گانے اب سنے جا رہے ہیں ان میں اور حدیث میں بیان کردہ دف بجانے اور """ محمد عبد صالح ::: محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) نیک بندے ہیں """ کہنے میں کوئی فرق نہیں ؟؟؟
چلتے چلتے یہ تو بتایے کہ کیا آپ دو صحیح لیکن متضاد روایات میں اتفاق کرنے کے قوانین کے بارے کچھ جانتے ہیں ، میں ابھی بھائی فاروق صاحب کی باتوں کا جواب ارسال کرنے والا ہوں ، ان شاء اللہ ، آپ ذرا تسلی اور توجہ سے اس کا بھی مطالعہ فرمائیے گا ،
اس روایت کے بارے میں مزید گفتگو بھی ہو سکتی ہے ، لیکن میری گذارش یہ کہ آپ مزید جو روایات بیان کرنا چاہتے ہیں ایک ہی دفعہ کر لیجیے تا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ و بفضلہ سب پر ایک دفعہ بات کی جا سکے ، و السلام علیکم ۔
 
1۔ دوست آپ کا شکریہ کہ آپ نے رسول اکرم کے ایک فعل یعنی سنت رسول کو دوستوں کے سامنے رکھا، یہ روایات میں بھی ایک سے زائید کتاب میں پڑھ چکا ہوں۔ اگر دونوں طرف کی روایات ہوں تو ہم پر فرض‌ہے کہ ہم اپنے مذہب کی بنیادی کتاب سے رجوع کریں اور ان اصولوں کو دیکھیں جو ہماری ہمیشہ رہنمائی کرتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں۔
۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ، فاروق بھائی ، ماشا اللہ کافی لکھ لیتے ہیں آپ ، آئیے بات با بات بات کرتے ہیں ،
دوست بھائی نے جو روایت نقل کی ہے اس کا ایک مختصر جواب ان کو دے چکا ہوں ، فاروق بھائی پہلے تو آپ نے میری نقل کردہ احادیث کو مبہم قرار دیا تھا اور اب بقول آپ کے """ دونوں طرف کی روایات """ میسر ہو گئی ، گویا آپ کے لیے جو ابہام تھا وہ رفع ہو گیا ، شاید اس لیے کہ ایک حدیث جو آپ کے موقف کی حمایت کرتی ہے میسر ہو گئی !!!
فاروق بھائی ، اگر دونوں طرف کی نہیں ، اگر کسی معاملے میں دو متضاد صحیح الاسناد حدیثیں مروی ہوں یعنی روایت کی گئی ہوں تو اُن کا تضاد رفع کر کے ایک بات پر پہنچنے کے لیے ائمہ و علماء امت رحمہم اللہ تعالی جمعیا نے قواعد و قوانین مرتب کیے ہیں ، ماشاء اللہ ، آپ کے بقول """ پھر میرا اپنی عربی پروفیشیئنسی الحمد للہ کافی حد تک بہتر ہے، اس لئے کوئی دشواری نہیں ہوتی ہے""" لہذا میں آپ کے سامنے وہ قواعد رکھتا ہوں ، گو کہ یہاں ہمارا موضوع """ علم الاصول """ نہیں ، لیکن آپ کی بات کے جواب میں اس کا ذکر ضروری ہے ،
(۱) اِذا تعارض القول الفعل یوخذ القول و یترک الفعل ،
(۲) اِذا تعارض النھی المبیح یوخذ النھی و یترک المبیح
یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ قوانین بنانے والوں نے اپنی ذاتی اراء یا فہم کی بنا پر نہیں بلکہ قران و صحیح حدیث سے اخذ کیے گئے ہیں ،
اب ان قوانین کی روشنی میں """ دونوں طرف کی احادیث """ کا جائزہ لیجیے اور اختیار کیجیے ، لیکن اگر آپ اپنے مذہب جس کا ذکر آپ نے ایک جگہ کیا ، ابھی انشاء اللہ اس پر بات ہو گی ، اور جیسا کہ آپ کی مندرجہ بالا بات میں ہے کہ """ کہ ہم اپنے مذہب کی بنیادی کتاب سے رجوع کریں اور ان اصولوں کو دیکھیں جو ہماری ہمیشہ رہنمائی کرتے ہیں """ تو گذارش ہے کہ قران کی آیات میں نے ذکر کی تھیں اور ان کی تفسیر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ کی بیان کردہ تفسیر بھی ذکر کی تھی ، فاروق بھائی اب اگر کوئی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین اور ائمہ امت سے بڑھ کر قران فہمی کا زعم رکھتا ہو تو ہم اس کی درستگی کے لیے دعا ہی کر سکتے ہیں ،

اگر اللہ تعالی نے کسی چیز یا کسی امر کو واضح طور پر حلال یا حرام نہیں فرمایا تو کوئی اس کو حلال یا حرام نہیں کرسکتا۔
جی فاروق بھائی ، بالکل درست ہے ، اور میں بھی اس سے ملتی جلتی بات عرض کر چکا ہوں ، بس اُس میں ایک اضافہ بھی تھا ، کہ ، اللہ اور، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہی حلال و حرام کا حکم دینے والے ہیں اب آپ ابھی ابھی ذکر کردہ دو مندرجہ بالا آیات کو یاد فرمایے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زبان مبارک اللہ کی وحی کے مطابق بات فرماتی تھی ، پس اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی گواہی کے مطابق جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے حلال یا حرام فرمایا ، وہ بھی حلال یا حرام ہے ، پس بہتان باندھنا یوں ہوا کہ جو بات سنداً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ثابت ہوتی ہو ، اسے تاویلات و فلسفیات کی بنا پر رد کر دیا جائے یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو جھٹلانا ، اللہ تعالی نے حکم فرمایا ہے (((( یٰۤاَ اَیّھَا الذَّینَ اَمَنُوا اَطِیعوا اللّٰہَ وَ رَسُولَہُ وَ لاتَوَلَّوا عَنہُ وَ اَنتُم تَسمَعُونَ O وَ لَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ قَالُواسَمِعنَا وَ ھُم لَا یَسمَعُونَ O اِنَّ شَرَّ الدََّّوَآبِّ عِندَ اللّٰہِ الصّمُ البُکمُ الَّذِینَ لَا یَعقِلُونَ)(اے لوگو جو اَِیمان لائے ہو اللہ اور رسول کی اَطاعت کرو اور (ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بات ) سنتے ہوئے رسول سے منہ نہیں پھیرو O اور اُن لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جو کہتے ہیں کہ ہم سن رہے ہیں لیکن وہ سنتے نہیں O بے شک اللہ کے سامنے سب سے بُرے وہ ہیں جو(عقل کے ) بہرے اور گونگے ہیں اور سمجھتے نہیں ))) ( سورت الاَنفال / آیات ٢٠ ، ٢١ ، ٢٢ ) ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بات سن کر تاویلات اور ذاتی اراء و افکار ، کی بنا پر ان سے منہ پھیرنا جھٹلانا نہیں تو اور کیا ہے ؟؟؟ مزید بات آگے ان شاء اللہ ،
1۔ حرام یا حلال کرنے کی نسبت اللہ اپنے رسول کو کیا فرمانے کا حکم دے رہے ہیں؟
سورۃ يون۔س:10 , آیت:59 [arabic] قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا أَنزَلَ اللّهُ لَكُم مِّن رِّزْقٍ فَجَعَلْتُم مِّنْهُ حَرَامًا وَحَلاَلاً قُلْ آللّهُ أَذِنَ لَكُمْ أَمْ عَلَى اللّهِ تَفْتَرُونَ [/arabic]
فرما دیجئے: ذرا بتاؤ تو سہی اللہ نے جو رزق تمہارے لئے اتارا سو تم نے اس میں سے بعض کو حرام اور حلال قرار دے دیا۔ فرما دیں: کیا اللہ نے تمہیں اجازت دی تھی یا تم اللہ پر بہتان باندھ رہے ہو

اب اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ آپ (‌جی آپ ) کو اللہ نے کسی بھی چیز یا امر کو حرام یا حلال کرنے کی اجازت دی ہے؟ جو لوگ زندہ ہیں ان سے یہ سوال کیا جائے گا۔ جو لوگ نہیں ہیں ان کا عمل ان کے سر۔
جزاک عند اللہ ، فاروق بھائی ، مجھے کیا یہ اجازت کسی کو بھی نہیں اور یہ بات سابقا عرض کی جا چکی ہے ، ابھی ابھی پھر اسے دہرا چکا ہوں اور اب پھر کہے دیتا ہوں ، کہ اللہ اور ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے علاوہ اور کسی کو حلال و حرام قرار دینے کا حق نہیں ، جو کچھ قران میں نہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے یا فعل مبارک سے حرام قرار پاتا ہے وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے ، امید ہے آپ وحی متلو اور غیر متلو کا فرق جانتے ہوں گے ، اور عصمت انبیاء کا علم بھی رکھتے ہوں گے ،
اور یہ بھی جانتے ہی ہوں گے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے ((( وَ مَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَ لَا لِمُؤمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسوُلَہُ اَمراً اَن یَکُونَ لَھُم الخِیرَۃُ مَن اَمرِھِم وَ مَن یَعصِ اللّٰٰہَ وَ رَسُولَہُ فَقَد ضَلَّ ضَلٰلاً مُبِیناً)( اور جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کر دیں تو کِسی ایمان والے مرد اور نہ ہی کِسی ایمان والی عورت کے لیئے ان ( اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے فیصلے میں کوئی اختیار باقی رہتا ہے ، اور جِس نے اللہ اور اُسکے رسول کی نا فرمانی کی تو وہ یقینا کھلی گمراہی میں جا پڑا ))) (سورت الاَحزاب/آیت٣٦)
دیکھیے ، یہ قران ہے ، جس میں اللہ سبحانہ و تعالی مسلمانوں کے تمام امور میں فیصلے کا حق اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دے کر تمام مسلمانوں کو بالکل صاف اور واضح حُکم دے رہا ہے کہ اِیمان والوں کے لیے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے کِسی حُکم کے بعد کِسی کی بھی کوئی بات ، خیال ،بہانہ ، فلسفہ ، تاویل ، فتویٰ وغیرہ اپنا کر اُس حُکم سے فراراِختیار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ،
جس چیز کے بارے میں آپ کو تفصیل نہییں بتائی گئی، جیسے موسیقی، اس پر کیا آپ سوال در سوال کرتے رہیں گے یا اصطلاحات میں کھوجتے رہیں گے؟
سورۃ المآئدۃ:5 , آیت:101 [arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَسْأَلُواْ عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُواْ عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللّهُ عَنْهَا وَاللّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ[/arabic]
اے ایمان والو! مت پُوچھو ایسی باتیں کہ اگر ظاہر کردی جائیں تم پر تو بُری لگیں گی تمہیں اور اگر پُوچھو گے تم یہ باتیں ایسے وقت کہ نازل ہورہا ہے قرآن تو ظاہرکردی جائیں گی تم پر۔ درگزر کیا اللہ نے اُن سے اور اللہ بخشنے والا، بردبار ہے۔

موسیقی حلال یا حرام ہونے کا کوئی ثبوت قرآن ا کسی مستند قول و فعل رسول سے نہیں ملتا ہے۔ لہذا یہ ان امور میں‌شامل ہوئی جن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے کیا جاتا ہے۔ اب تک کی تاریخ‌گواہ ہے کہ کسی اجتماعی جماعت نے موسیقی کو حرام کرنے کے لئے کوئی اجتماعی قانون نہیں بنایا۔ انفرادی قانون ساز امام، فقہا یا مولوی یا ٹیچر کی بارے میں بات نہیں ہورہی ہے بلکہ قانون ساز شوری کی بات ہورہی ہے۔
فاروق بھائی ، حلال و حرام مقرر کرنے کے لیے کسی اجتماعی شوریٰ ، کی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ کسی اجتماعی شوریٰ یا کسی بھی اور کا حق ہے ، اور نہ ہی شریعت یعنی اسلام کے قوانین حلال و حرام ، اللہ کی طرف سے حتمی طور پر بنا کر شریعت مکمل کر دی گئی ، اس میں کسی قانون سازی کا حق نہ کبھی کسی کو تھا اور نہ ہو سکتا ہے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ وہ اللہ کی طرف سے کی گئی وحی کی بنیاد پر حکم و فیصلے فرمایا کرتے تھے ، حلال و حرام بتایا کرتے تھے ، اس بات کا ذکر ابتدائے بحث میں کر چکا ہوں ، لیکن وہاں بھی پلٹ کر آپ نے کوئی جواب نہ دیا ،
رہا معاملہ، اجتماعی شوریٰ کا تو بھائی جی ، شوریٰ مشورہ کرنے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ شریعت سازی کے لیے ، اور نہ ہی ایسے قوانین وضع کرنے کے لیے جو قران و سنّت کی موافقت نہ رکھتے ہوں ،
اسلامی معاشرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دور سے لے کر صدیوں تک شوریٰ باہمی مشورے کے ساتھ مسائل دینی ہوں یا دُنیاوی کا حل تلاش کرنے کے کام کرتی رہی ہے ، نہ کہ قنون ساز اسمبلی کا ، کیونکہ مسلمانوں کے لیے ان کے دین دنیا اور آخرت کے قوانین اللہ سبحانہ و تعالی نے بنا دیے اور قولی اور عملی شرح و تفسیر اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ذریعے کروا دی
قانون ساز جماعت کا جو معاملہ آپ کے فہم کے مطابق قران سے آپ نے اخذ کیا ہے وہ بھی آپ کا ہی کمال ہے ، جیسا کہ آپ نے امر بالمعروف کرنے سے قانون سازی کے لیے جماعت یا شوریٰ بنانے کا ترجمہ کیا ہے ،
اور یہ اجتماعی جماعت والی بات بھی عجیب ہے ، بھائی جماعت ہوتی ہی اجتماع سے ہے بھلا کبھی فردی جماعت بھی ہوتی ہے !!!
ایک دفعہ پھر عرض کرتا چلوں فاروق بھائی ، اِمام فقہیہ ہو یا محدث ، مدرس ، معلم ، ٹیچر ، کسی نے بھی کبھی شریعت میں قانون سازی نہیں کی ، جب مجھ جیسا طالب علم یہ حقیقت جانتا ہے کہ شریعت سازی صرف اور صرف اللہ کا حق ہے تو پھر ائمہ کرام رحمہم اللہ کا کیا عالم ہو گا ، جی ہاں شریعت کے احکام جاننے سمجھنے اور کہیں کہیں نظر آنے والے خلاف یا تضاد کو دور کرنے کے لیے قوانین وضع کیے گئے اور ان قوانین کو شرعی قوانین کوئی نالائق ہی کہے گا ، مزید یہ کہ جیسا کہ ابھی ابھی میں نے کہا ہے کہ ان قوانین کے لیے بھی قران و حدیث کی دلیل پائی جاتی ہے ،
دین کے احکامات میں قانون سازی یعنی شریعت سازی کے بارے ان شاء اللہ ابھی کچھ آگے بات کرتا ہوں،
یہ مسئلہ اس طرح‌ کا ہے کہ آپ کار کافروں (برطانویوں اور استراالویوں) کی طرح سڑک کے دائین طرف چلائیں گے ؟ یا پھر کافروں (امریکیوں، کنیڈین ) کی طرح سڑک کے بائیں‌طرف چلائیں گے؟

یا پھر مسلمانوں کی طرح سڑک کے بیچوں‌بیچ چلائیں گے؟
فاروق بھائی ، ((( من تشبھہ بقوم فھو منھم ::: جس نے جس قوم کی نقالی کی وہ اُن میں سے ہی ہے ))) اس حدیث مبارک کا استعمال کہاں اور کیسے کر کے آپ اپنی بات کو درست کرنے کی کیسی سعی فرما رہے ہیں !!! قربان جایے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر ، جس کی زبان مبارک وحی کے بغیر بات نہ فرماتی تھی ، فرمایا ((( ان اللہ لا ینتزع العلم انتزاعا مِن الناس انتزاعا و لکن یقبض العلماء فیرفع العلم معھم فیبقی فی الناس رؤسا جھالا یفتونھم بغیر علم فیضلون و یضلون ))) صحیح مسلم ، کتاب العلم ، ترجمہ تو آپ کر ہی لین گے ، کیونکہ بقول آپ کی عربی کافی اچھی ہے ، اگر نہ کر سکتے ہوں تو آپکا یہ بھائی آپکی خدمت کر سکتا ہے ان شاء اللہ ، انگریزی ترجموں میں سے ترجمہ تلاش نہ کیجیے گا ، ورنہ جہاں تسبیح کا ترجمہ sing ملے وہاں پتہ نہیں اور کیا کیا ہو گا !!!
فاروق بھائی اس کے بعد آپ نے وہ کیا جس کی توقع آپ جیسے سے نہیں کی جا سکتی تھی ، بہر حال """ لا یخرج من الاِناء اِلا ما فیہ ::: برتن سے وہی کچھ باہر آتا ہے جو اُس میں ہوتا ہے """ پس آپ نے خود ہی اپنی بات کا معیار مقرر فرماتے ہوئے لکھا ،

تھوڑی سی بکواس کی اجازت دیجئے:
اگر آپ نے کار چلانے میں‌ کفار کے طور طریقوں پر عمل کیا تو آپ بھی کافر ہوئے۔ اسی طرح‌آپ نے اگر کافروں کا ایجاد کیا ہوا کمپیوٹر استعمال کیا جس پر موسیقی سنی جاسکتی ہے تو یہ بھی حرام ہوا۔ اس لئے جو لوگ موسیقی کو حرام سمجھتے ہیں وہ فوراً اس کمپیوٹر کو استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ کہ یہ کمپیوٹر موسیقی کا ایک حرام باجا ہے۔

کار کس طرف چلانا حرام ہے اور کس طرف چلانا حلال ہے؟ قرآن کی آیات اور مستند روایات سے ثابت کیجئے۔ کیا ٹیلیفون یا کمپیوٹر استعمال کیا جاسکتا ہے؟ ذہن مین رکھئے کہ یہ موسیقی کے لئے استعمال ہوسکتے ہیں؟

بھائی اگر یہ ساری بات لہو الحدیث نہیں تو پھر اور کیا ہے۔ موسیقی کے بارے میں ایسی بحث کرنا ہی لہو الحدیث ہے۔ ایسی بحث ایسی بات جو بے معنی ہو یقیناً حرام ہے۔
فاروق بھائی اس مندرجہ بالا کلام کو آپ خود ہی بکواس قرار دے چکے ہیں تو بکواس کا جواب میں کیا دوں ، جی آپ کے جواب میں سے مندرجہ بالا اقتباس میں آخری بات بکواس نہیں ، لہذا اس کے بارے میں عرض ہے کہ ، آپ نے پوچھا """ بھائی اگر یہ ساری بات لہو الحدیث نہیں تو پھر اور کیا ہے""" جی جس بات کے بعد آپ نے یہ سوال لکھا ، قاوعدے کے مطابق """ یہ """ کی ضمیر اس بات کی طرف اشارہ کناں ہے پس وہ ساری بات واقعتا لہو الحدیث ہی ہے ، و للہ الحمد ، اپنی ہی باتوں کو بکواس بھی مان لیا اور لہو الحدیث بھی ،
موسیقی کے بارے میں بحث کرنا آپ کے لیے لہو الحدیث ہو تو ہو ، ہمارے لیے نہیں ، پس اگر آپ چاہیں تو بحث سے کنارہ کشی فرما لیجیے ، موسیقی کا استعمال ہمارے لیے تو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حکم کے نافرمانی ہے ، حرام ہے ، پس ہم اپنے رب اور رسول رب صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بات کو درست اور بلند رکھنے کے لیے اپنی ہر مکمن کوشش کریں گے ، اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ کسوٹیوں ہر پرکھ پرکھ کے بات کریں گے ، اور اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے بات کریں گے ، ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
یہاں تک آپ کے ایک جواب کا جواب ہوا ، اسے بغور اور بار بار پڑہیے ، ان شاء اللہ ابھی دوسرے کا جواب بھی ارسال کرتا ہوں ، و السلام علیکم۔
 
بھائی عادل آپ نے بہت ساری باتیں ایک ہی سانس میں کردی ہیں۔ قران اور کتب روایات دو مختلف قسم کی کتب ہیں۔ چونکہ الگ الگ کتب ہیں لہذا ان کو الگ الگ ہی پڑھا اور سمجھا جائے گا۔
فاروق بھائی ، حیراں و پریشاں ہوں آپ کی اس بات پر ، بھائی قران اور """ کتب روایات """ اگر اس سے آپ کی مراد """ کتب حدیث """ ہیں تو آپ کی بات اس لحاظ سے درست ہے کہ مادی طور پر یہ سب کتابیں الگ الگ وجود کی حامل ہیں ، لیکن اگر حکمی طور پر قران اور حدیث کو الگ الگ سجھتے ہیں تو پھر اللہ کی گواہی جو آپ نے اپنے سابقہ جواب میں ذکر فرمائی ((( و ما ینطق عن الھویٰ ۔ ان ھو اِلا وحی یوحیٰ ::: اور وہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) اپنی نفسانی خواہش سے بات نہیں کرتے ۔ ان کی بات سواءے کی گئی وحی کے اور کچھ نہیں ))) کو کس کھاتے میں رکھیں گے ؟؟؟
میرے بھائی ، قران اور کتب احادیث وجودی طور پر الگ الگ کتابیں ضرور ہیں اور اس وجہ سے انہیں پڑھا بھی الگ الگ ہی جائے گا بلکہ انہیں کیا کسی بھی دو کتابوں کو الگ الگ ہی پڑھا جائے گا ، لیکن ان دونوں کو سمجھا اکٹھا جائے گا ،
جی ہاں ، غور فرمایے اور یاد رکھیے ، سنّت ، قولی ہو یا فعلی یا تقریری ، کو قران سے الگ نہیں کیا جا سکتا ورنہ کبھی حق تک رسائی نہیں ہو سکتی ، اور ایسا کرنے کا انجام اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا
((( و مَن یُشاقق الرَّسولَ مِن بعد ما تبیَّنَ لھ الھُدیٰ ویتبع سبیل غیر المومنین نولہ ما تولی و نصلہ جہنم و ساءت مصیرا ::: اور ہدایت (یعنی اللہ کی طرف سے ارسال کردہ احکامات و ہدایت ) واضح ہو جانے کے بعد بھی جو کوئی رسول (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) کو الگ کرے گا اور ''' المؤمنین''' ( اہل سنت و الجماعت کے تمام مسلکوں کا اِس پر اتفاق ہے کہ ''' المؤمنین''' صحابہ رضوان اللہ علیہم ہیں تو جو کوئی اُن ) کے راستے کے عِلاوہ کِسی بھی اور کی اتباع (پیروی) کرے گا تو ہم اُسے اُسی طرف چلا دیں گے جِس طرف اُس نے رخ کیا ہے اور ہم اُسے جہنم میں داخل کریں گے ( کیونکہ یہ ہی اُسکے اپنائے ہوئے راستے کی منزل ہے ) اور جہنم کیا ہی بُرا ٹھکانہ ہے ))) سورت النساء /آیت ١١٥ ،
ہمیں قران کو صحیح ٹھیک طور پر سمجھنے کے لیے لازمی طور پر سُنّت کا ذریعہ اپنانا ہی اپنانا ہے ورنہ گمراہ ہو کر رہیں گے ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے ((( وَأَنزَلنَا إِلَيكَ الذِّكرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّرُونَ ::: اور (اے ہمارے رسول ) ہم نے آپ کی طرف ذکر (قران) نازل کیا ہے تا کہ آپ لوگوں پر واضح فرما دیں کہ اُن کی طرف کیا نازل کیا گیا ہے تا کہ وہ ( آپ کے بیان کے مطابق اس میں غور و) فِکر کریں ))) سورت النحل ، آیت 44 ،
اب اگر ہم صحیح ثابت شدہ سُنّت کو چھوڑ کر قران کو اپنی رائے اور صرف لغوی معنوں اور تراجم کے سہارے سمجھیں تو ہر گز وہ نہیں سمجھ سکتے جو اللہ نے فرمایا ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے مزید وضاحت سے فرمایا ((( و ما أنزلنا عَلیکَ الکتابَ اِلا لِتُبیَّنَ لھم الذی اختلفوا فیہ و ھُدًی و رحمۃً لِقومٍ یؤمِنُون ::: اور ہم نے آپ پر کتاب صرف اس لیے اتاری ہے کہ لوگ جس (بات یا کام ) میں اختلاف کرتے ہیں آپ اُس (کا حُکم ) بیان فرمائیں اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ( کے طور پر ) نازل فرمائی ہے ))) سورت النحل ، آیت 64
پس ، جس بات یا کام میں اختلاف ہے اسے صرف کتاب اللہ سے نہیں بلکہ ساتھ ساتھ سُنّت رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے سمجھا جائے گا ،
آپ نے قران فہمی کے زمرے میں اطاعت رسول کی آیات ایک جگہ اکٹھی فرمائیں ، آپ کو یاد ہو گا وہاں یہ آیت بھی ہے کہ (((یٰۤاَ اَیّھَا الذَّینَ اَمَنُوا اَطِیعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیعُوا الرَّسُولَ وَ اُولِی الاَمرِ مِنکُم ، فَاِن تَنَازَعتُم فِی شَیءٍ فَرُدُوہُ اِلَی اللّٰہِ و الرَّسُولِ اِن کُنتُم تُؤمِنُونَ بِاللّٰہِ وَ الیَومِ الاٰخِرِ، ذَلِکَ خَیرٌ وَ اَحسَنُ تَاوِیلاً ::: اے لوگو جو اَِیمان لائے ہو اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو لوگ تم میں حُکمران ہیں اُنکی فرمانبرداری کرو ، اور اگر تم لوگوں میں کِسی چیز میںاختلاف ہو جائے تو اگر تم لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر اِیمان رکھتے ہو تو اُسے ( یعنی اختلاف کو حل کرنے کے لیے وہ اِختلاف ) اللہ کی طرف اور رسول کی طرف لوٹاؤ اور یہ ( یعنی اَختلاف کا حل اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اَحکامات سے تلاش کرنا ) بہت خیر والااور اچھے انجام والا ہے ))) سورت النساء / آیت ٥٩
دیکھے اللہ تعالیٰ نے صرف قران کی طرف رجوع کا حُکم نہیں فرمایا ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دونوں کی طرف رجوع کا حُکم فرمایا ہے ، آپ دونوں کو الگ الگ سمجھنا چاہتے ہیں !!!

قرآن کے لئے میں 23 تراجم پر مشتمل ایک حوالہ اوپن برہان ڈاٹ نیٹ استعمال کرتا ہوں۔ لہذا کوئی مغالطہ نہیں ہوتا۔ پھر میرا اپنی عربی پروفیشیئنسی الحمد للہ کافی حد تک بہتر ہے، اس لئے کوئی دشواری نہیں ہوتی ہے۔
قران کا ترجمہ آپ کہیں سے بھی لیتے ہوں ، اگر اس ترجمے میں صحیح سنت کے خلاف ورزی نہیں تو کوئی حرج نہیں ان شاء اللہ ،
الحمد للہ فاروق بھائی یہ تو بڑی اچھی بات ہے کہ آپ عربی خود سے سمجھ سکتے ہیں آپ سے بات کرتے ہوئے مجھے عربی عبارات کا ترجمہ نہیں کرنا پڑے گا ،

رہی کتب روایات کی بات تو بھائی ان کتب میں‌روایات کی تعداد، متن، تراجم، ترتیب، اور قدامت سے اس قدر فرق پڑتا ہے کہ بہت کم روایات قابل اعتبار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں‌ روایات کا حوالہ دینے سے حتی الامکان احتراز و پرہیز کرتا ہوں۔ کہ آپ ایک روایات پیش کریں اور فوراً اختلافی روایتوں کی غلیل بای شروع ہوجاتی ہے۔
فاروق بھائی ، کتب حدیث میں روایات کی تعداد ، متن ، اور ترتیب ، میں فرق ان کی صحت و درستگی پر کوئی منفی اثرنہیں ڈالتا ، یہ بات سمجھنے کے لیے """ علم مصطلح الحدیث """ اور """ جرح و تعدیل """ اور """ نقد الحدیث """ کا جاننا ضروری ہے ، اگر آپ ان علوم کی کچھ بنیادی معلومات ہی حاصل کریں تو اس غلط فہمی کا ازالہ ہو جائے گا ان شاء اللہ ، رہا معاملہ تراجم کا تو جی ہاں تراجم میں یقینا عمدا یا بغیر عمد ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو اصل متن اور اسکے معنی و مفہوم کو کچھ کا کچھ کر دیتی ہیں ، اور اس کا واحد حل یہی ہے کہ عربی لغت سیکھی جائے ، تا کہ باذن اللہ تراجم میں پائی جانے والی غلطیوں کا شکار ہونے سے بچا جائے باذن اللہ ،
تو برادر من آپ اس حوالہ کو ڈسکاؤنٹ
میرے بھائی ، کس حوالے کو ڈسکاؤنٹ کرنے کا کہہ رہے ہیں ، میں تو کافی احادیث لکھی ہیں ، اور سب کی سب سندا صحیح ہیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ثابت ہوتی ہیں ، پس میں یہ جرات نہیں کر سکتا کہ آپ کے فلسفیانہ شکوک و شبہات کی وجہ سے صحیح احادیث کو حذف کر دوں ، کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی آواز مبارک سے منہ پھیرنا نہیں ؟؟؟ اور اس کا انجام اللہ نے کیا بتایا ہے ابھی ابھی ذکر کر چکا ہوں ،
جو کہنے جارہا ہوں، اس پر پیشگی معذرت۔ معاف کیجئے، میرا مذہب شریعت نہیں، میرا مذہب صرف اور صرف قرآن و سنت پر مبنی اسلام ہے۔ سنت کو پرکھنے کی صرف ایک کسوٹی وہ ہے قران۔
فاروق بھائی آپ کی اس بات کا جواب دو حصوں میں پیش کرتا ہوں ، اس معاملے میں معاف کرنا میرا نہیں اللہ کا کام ہے ، آپ کی اس بات نے مجھے مزید حیرت زدہ کر دیا ہے ، آپ شریعت کو دیگر مذاہب کی طرح ایک مذھب سمجھتے ہیں ، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ """ شریعت """ ، """ دین """ ، """ مذہب """ کے معنی نہیں جانتے ، اور ماشاء اللہ شریعت کے احکام میں بحث کرتے ہیں ، سُبحان اللہ ، مجھے بھی اس جملے پر معاف فرمایے گا ، بھائی جی ،
اور آپ سے یہ گذارش بھی ہے کہ ذرا وہ طریقہ بھی بتایے جس کے مطابق آپ سنّت کو قران کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں ؟؟؟

بھائی جی ، """ شریعت """ کا لغوی معنی ہے """ قوانین کا مجموعہ ، دستور """ اور اسلامی اصطلاحات میں اس کا مفہوم ہے """ اللہ کی طرف سے بنائے گئے قوانین """ جس میں سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے کسی کو کسی کمی ، بیشی ، تبدیلی و ترمیم کی اجازت نہیں ، اور رسول اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بھی اللہ کی طرف سے کی گئی وحی کے ذریعے ہی ایسا کچھ فرماتے ہیں جو قران میں نہیں لیکن اللہ کی وحی ہے اور اسے ہی وحی غیر متلو کہا جاتا ہے ، اور اس کی دلیل وہی دو آیات ہیں جو آپ نے ذکر کی تھیں ،،،
اور شریعت سازی کسی کا حق نہیں ، نہ انفرادی طور پر نہ کسی مجلس یا جماعت کے ذریعے ، سنیے شریعت کیا ہے اور شریعت سازی کیا ہے اور کس کا حق ہے ،

اللہ تعالی نے فرمایا ((( و جعلنا لکل منکم شِرعۃ و منھاجا ::: اور ہم نے تم میں سے ہر ایک ( امت ) کے لیے شریعت (قوانین) اور (دین کے) راستے بنائے ))) سورت المائدۃ ، آیت 48 ،
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ((( ام لھم شرکاء شرعوا لھم من الدین ما لم یاذن بہ اللہ ::: کیا ان کے لیے (اللہ کے ایسے) شریک ہیں جو ان کے لیے دین میں سے قانون بنائیں جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی ))) سورت الشوریٰ ، آیت ۲۱ ،
اور آپ دین میں حلال و حرال اور قانون سازی کے لیے قانون ساز شوریٰ کے خواہاں ہیں !!!
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ((( شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا و ما أوحینا اِلیک ::: اور اللہ نے تم لوگوں کے لیے دِین میں وہ قانون بنائے ہیں جن کی وصیت نوح کو کی تھی اور جو ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے ))) سورت الشوریٰ ، آیت ۱۳
غور فرمایے فاروق بھائی ، یہ روایات نہیں ، حکایات نہیں ، وہی قران ہے جسے آپ سنت کی کسوٹی کہتے ہیں یہاں اللہ تعالی نے شریعت سازی کا حق اپنا بتایا اور پھر سے یہ بتایا کہ جو کچھ وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کرتا ہے شریعت ہے ، اور اللہ کی گواہی سے یہ بات پہلے ہو چکی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک اللہ کی وحی کی بنیاد پر بات فرماتی تھی ، اب اگر تیرہ سو سال سے امت کے تمام محدثین و فقہا کے بنائے ہوئے اصولوں کو رد کر کے آپ کے غیر علمی اعتراضات کو کسوٹی بنایا جائے تو اللہ کی طرف سے کی گئی وحی کا کتنا بڑا حصہ ناقابل اعتبار ہو جاتا ہے اور دین و شریعت کا شاید ایک چوتھائی امت کے پاس نہیں رہتا ، فأعتبروا یا اولی الابصار

آپ دیکھیں گے کہ جہاں‌بھی اضافیات یا اسرئیلیات استعمال ہونگی۔ وہاں اسلام کا نام فوراً‌ تبدیل ہو کر شریعت ہو جاتا ہے۔ سنی ازم ، شیعہ ازم ہو جاتا ہے۔ طریقت ہوجاتا ہے۔ اب میں اپنا سوال دہراؤں گا۔
فاروق بھائی ، یہ اضافیات اور اسرائیلیات کی تعریف بھی ذرا فرما دیتے تو بات آسان ہو جاتی ، میرے بھائی شریعت کا معنی و مفہوم قران میں اللہ نے جو بیان فرمایا اس کا ذکر ابھی ابھی ہو چکا ، پتہ نہیں آپ قران کو کس طرح پڑہتے اور سمجھتے ہیں کہ شریعت کو اسلام سے الگ کچھ اور سمجھتے ہیں ، اللہ کے بندے اسلامی اصطلاحات میں شریعت اسلامی قوانین کا نام ہے ، نہ کہ انسانوں کے بنائے قوانین کا ، اور اسلام میں جو فقہی مذاہب پائے جاتے ہیں ان میں سے کوئی بھی اپنی شریعت بنائے ہوئے نہیں ، میرا خیال ہے میں دین مذہب اور شریعت کی تعریف کے بارے میں بھی کچھ بنیادی معلومات ارسال کروں اللہ تعالی ہم سب کے لیے فائدہ مند بنائے ، ان کنت لا تدری فتلک المصیبۃ ::: و ان کنت تدری فالمصیبۃ اُعظمی
واضح آیات یا سنت سے موسیقی وغیرہ کو ترک کیے جانے ، حرام قرار دیے جانے کے بارے میں میں جاننا، ہمارا اور آپ کا حق ہے یا نہیں ؟ لہذا میرا سوال برقرار ہے کہ ایک عدد ایسی آیت یا مستند روایت کہ اپنے اعمال و اقوال سے رسول اکرم نے موسیقی کو منع فرمادیا۔ پیش کردی جائے تو بہت آسانی رہے گی۔ آپ جانتے ہیں‌ کہ اس پر صاف اور واضح دلائل 1400 سال سے موجود نہیں ہیں۔
میں نے جو احادیث پیش کی تھیں ان میں سے صحیح البخاری کی روایت ہی کافی ہے ، ماشاء اللہ بقول آ پکے آپ کی عربی کافی اچھی ہے اُس روایت کو دوبارہ پڑہیے آپ جانتے ہوں گے """ یستحلون """ کس باب سے ہے اور اس کا کیا معنی و مفہوم بنتا ہے ، اور اگر نہیں جانتے تو وہاں ساتھ دی گئی وضاحت کو بھی پڑہیئے ، بڑی واضح بات ہے ، اور وہیں اس حدیث سے پہلے ذکر کردہ قران کی آیات ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی تفسیر کے مطابق موسیقی کی حرمت کی دلیل ہیں ، کیا آپ اپنی قران فہمی کو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ تعالی سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ؟؟؟
آپ کے دو مراسلات کا جواب تمام ہوا و للہ الحمد ، و السلام علیکم
 
اقتباس :
قران کا ترجمہ آپ کہیں سے بھی لیتے ہوں ، اگر اس ترجمے میں صحیح سنت کے خلاف ورزی نہیں تو کوئی حرج نہیں ان شاء اللہ ،


آپ کا یقین ہے کہ ان کتب روایات میں‌ جو کچھ ہے و من و عن درست ہے۔ ہم یہاں سنت (قول و فعل ) رسول پر کوئی اعتراض نہیں‌کرتے ۔ بلکہ ان روایات کے راویوں کی درستگی پر اعتراض کرتے ہیں۔ یہ شبہ اس وقت بھی تھا جب قرآن پاک رسول اکرم کے بعد جمع کیا جارہا تھا۔ لہذا شرط یہ رکھی گئی تھی کہ قرآن کی آیت لکھی ہوئی ہو اور سننے والے نے خود رسول اکرم سے سنا ہو۔ آپ جانتے ہیں کہ روایات کسی طور بھی اس کسوٹی پر پوری نہیں اترتی ہیں۔ اسناد کس نے جمع کیں آپ جانتے ہیں ، بخاری ، مسلم اور باقی کتب روایت کے لکھنے والے 250 سال بعد تو پیدا ہوئے۔ پھر ان کو کتب پر سو فی صد ایمان کیونکر ؟ یہ درست ہے کہ ان کتب روایات میں سنت ضرور ہے لیکن ہر روایت سنت نہیں، بس تاریخ‌کہہ لیجئے۔ ان کتب میں درج ہر روایت کو آپ قرآن کی روشنی میں پرکھیں‌ گے۔

افسوس کا مقام ہے کہ آپ کی سوچیں معکوس ہیں۔ آپ سنت یعنی ان کتب روایات کی روشنی سے کتاب الہی کو درست ثابت کرنے کے بجائے۔ ضوء القرآن سے ان کتب روایات کو جانچیں۔ آپ نے سورۃ المائیدہ کی آیت نمبر 48 کا حوالہ دیا، بھائی۔ پوری آیت کو دیکھئے، وہ آپ کو سب امتوں‌کی کتابوں‌پر یقین رکھنے کے لیئے نہیں‌ کہہ رہی ہے آپ کو صرف اور صرف قرآن پر یقین رکھنے کے لئے کہہ رہی ہے۔ سنت رسول اگر قرآن سے باہر ہے تو پھر رسول اللہ چلتا پھرتا قرآن کس طور ہوئے؟

میرے بھائی ، قران اور کتب احادیث وجودی طور پر الگ الگ کتابیں ضرور ہیں اور اس وجہ سے انہیں پڑھا بھی الگ الگ ہی جائے گا بلکہ انہیں کیا کسی بھی دو کتابوں کو الگ الگ ہی پڑھا جائے گا ، لیکن ان دونوں کو سمجھا اکٹھا جائے گا ،

کتب روایات میں‌ کافی روایات تو رسول اکرم کے بارے میں‌ہیں‌بھی نہیں۔ قرآن کی 60 فی صد سورتوں کا حوالہ تک نہیں ان کتب میں ۔ یہ مان لیجئے کہ اسرائیلیات کو اسلام میں بھرنے کے لئے ان کتب روایات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ قرآن پڑھتے رہئیے بلکہ ان کتب روایات سے زیادہ قرآن اپنے مطالعے میں رکھئے، آپ کے خیالات خود بخود بہتر ہونے شروع ہو جائیں گے۔ جو کچھ آپ نے لکھا وہ بگڑی ہوئی اسرئیلیات سے بے حد متاثر ہے۔

قرآن فہمی:
بس قرآن فہمی ہی رسول اکرم سے منسوب ہے ، اسی کتاب سے انہوں نے اسلام کی تعلیم دی اور اسی کتاب کو اللہ تعالی نے اتارا، اسی کتاب سے لوگون کو اسلام سکھایا اور یہی کتاب اسلام کی واحد کتاب ہے۔ اگر آپ اپنے سمجھنے اور سمجھانے کے لئے مزید روایات کا سہارا لیتے ہیں تو آپ کی آسانی کے لئے ہے کرتے رہئیے۔ لیکن یہ کتب روایات جو عام آدمیوں نے اپنی آسانی کے لئے کئی سو سال بعد لکھیں، کسی مولوی کو فتوی دینے یعنی قانون سازی کا حق نہیں دیتی ہیں۔

قانون سازی کے بارے میں:
قانون سازی، شرع سازی، اصول سازی اللہ تعالی کا حق ہے ۔ ان الہامی قوانین کے باہر فتوی دینا، مولویوں کا شوق رہا ہے۔ کیا قانون ساز یا فتوی سازی ( یا مولویوں کی فتوی سازی ) کی ضرورت ہے ؟ ان نکات پر انشاء اللہ بعد میں/

کتب روایات کا قابل اعتبار ہونا:
چلئے 1500 عیسوی سے پرانی کوئی روایات کی اصل یا نقل کتاب ہی پیش فرمائیے۔ آج کی صحیح بخاری دیکھ کر تو شاید خود بخاری صاحب بھی حیران رہ جائیں کہ کیا یہ انہوں‌نے لکھی تھی؟ متن ، تعداد، ترتیب کا اتنا بڑا فرق ، رسول اکرم سے منسوب غیر قرآنی باتیں ، سابقہ الہامی اور غیر الہامی امتوں کی روایات اور پھر توہین رسول سے بھرپور روایات۔ ان سب کی موجودگی کیا درست ہے اور کیا صحیح، آپ قرآن کی روشنی میں دیکھئے۔ نبی کریم کی سنت قرآن کی روشنی میں‌جگمگا اٹھتی ہے۔ اور جو کچھ سنت نہیں ہے وہ قران کی روشنی میں ماند پڑجاتی ہے۔

لہو الحدیث کو آپ گانا سمجھتے ہیں ، ایک صحابی سے منسوب کرتے ہوئے ، کمال ہے۔ یعنی قول رسول سے بھی یہ ثابت نہیں اور آپ مصر ہیں۔ کیا وجہ ہے؟ جبکہ لھو الحدیث کا ترجمہ آپ خود ہی بے کار بات، تماشہ کی بات وغیرہ کرچکے ہیں؟

آپ اگر روایات کی کتب اور مولویوں کے فتووں سے بھرپور کتب کے بجائے، ایک بار اطمینان سے مکمل قرآن پڑھ لیجئے تو بہت زیادہ فائیدہ ہوگا۔ انسانوں سے ہدایت حاصل کرنے کے بجائے ، اپنے رب سے ہدایت طلب کیجئے، یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب قرآن کا مطالعہ زیادہ کیا جائے، روزانہ کیا جائے اور باقاعدگی سے کیا جائے۔
 
کچھ نصف آیات کو مکمل طور پر فراہم کردیا ہے۔ استدعا ہے کہ مکمل آیت لکھئے۔ کوئی انسان اللہ سے بڑھ کر حکیم نہیں ہوسکتا، اپنی بات کو واضح کرنے کے لئے، رنگ کا یا انڈر لائین کا استعمال کیجئے لیکن آیت کو کم و بیش نہ کیجئے۔
جی ہاں ، غور فرمایے اور یاد رکھیے ، سنّت ، قولی ہو یا فعلی یا تقریری ، کو قران سے الگ نہیں کیا جا سکتا ورنہ کبھی حق تک رسائی نہیں ہو سکتی ، اور ایسا کرنے کا انجام اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا
[AYAH] 4:115[/AYAH] [ARABIC]وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا[/ARABIC]
Tahir ul Qadri اور جو شخص رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے
[/COLOR]
ہمیں قران کو صحیح ٹھیک طور پر سمجھنے کے لیے لازمی طور پر سُنّت کا ذریعہ اپنانا ہی اپنانا ہے ورنہ گمراہ ہو کر رہیں گے
آپ سنت (قول و فعل رسول)‌ اور کتب روایات میں کوئی فرق نہیں سمجھتے؟ کتب روایات پر جھگڑوں کی تاریخ‌1250 سال پرانی ہے۔ لوگوں کا بس نہیں چلتا کہ اپنی تمام رسومات رسول اکرم سے منسوب کردیں۔
بہت خوب فرمایا، اب آپ وہ سنت عطا فرم دیجئے جہاں پر رسول اکرم نے واضح طور پر اپنے قول و فعل سے موسیقی کو رد کیا ہو۔ ہم سب منتظر ہیں۔ جو روایت آپ نے --- زنا و غناء‌کی -- پیش کی اس کی اسناد ٹوٹی ہوئی ہیں۔ آپ اس کو دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے بھائی۔ اس لئے کہ آپ کا مقصد سچ و حق کی تلاش نہیں بلکہ صرف اور صرف ثابت کرنے کے لئے کہ میں سنت نہیں مان رہا۔ ایسا نہیں ہے۔ جو سنت آپ پیش کررہے ہیں وہ قرآن کی روشنی میں ماند پڑجاتی ہے اور اس کی اسناد بھی ٹوٹی ہوئی ہیں صاحب۔


، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے
[AYAH]16:44[/AYAH] [ARABIC]بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [/ARABIC]
(انہیں بھی) واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ (بھیجا تھا)، اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں
اب اگر ہم صحیح ثابت شدہ سُنّت کو چھوڑ کر قران کو اپنی رائے اور صرف لغوی معنوں اور تراجم کے سہارے سمجھیں تو ہر گز وہ نہیں سمجھ سکتے جو اللہ نے فرمایا ہے ،
صاحب ، یہ آیت تو کہہ رہی ہے کہ اے رسول ہم نے آپ پر قرآن اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو اس قرآن کی مدد سے پیغام و احکام واضح کردیں۔ جی؟

آپ پر وہ سنت جو ثابت شدہ ہو، اس قران کی روشنی میں کہ قرآن کی روشنی میں رسول اکرم نے موسیقی سے اس طرح صاف صاف واضح طور پر منع فرمایا۔ جس کی اسناد بھی مکمل ہوں‌ لے آئیے صاحب۔ سنت ( قول و فعل رسول ) سے انکار کوئی نہیں کرتا، بات یہ ہے کہ جو کچھ منسوب کیا گیا ہے وہ دوسری جگہ باطل قرار پایا ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے مزید وضاحت سے فرمایا
[AYAH]16:64[/AYAH] [ARABIC]وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلاَّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ [/ARABIC]
اور ہم نے آپ کی طرف کتاب نہیں اتاری مگر اس لئے کہ آپ ان پر وہ (اُمور) واضح کر دیں جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں اور (اس لئے کہ یہ کتاب) ہدایت اور رحمت ہے اس قوم کے لئے جو ایمان لے آئی ہے

پس ، جس بات یا کام میں اختلاف ہے اسے صرف کتاب اللہ سے نہیں بلکہ ساتھ ساتھ سُنّت رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے سمجھا جائے گا
اس آیت میں واضح‌طور پر یہ لکھا ہے کہ ----- آپ کی طرف کتاب اتارنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ جن معاملات میں یہ لوگ اختلاف کرتے ہیں ان کو اس کتاب کی روشنی میں‌ ان امور کو واضح کریں۔ آپ کا زیادہ درست جملہ یہ ہوگا۔

پس ، جس بات یا کام میں اختلاف ہے اسے کتاب اللہ کی روشنی میں سُنّت رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے سمجھا جائے گا

آپ نے قران فہمی کے زمرے میں اطاعت رسول کی آیات ایک جگہ اکٹھی فرمائیں ، آپ کو یاد ہو گا وہاں یہ آیت بھی ہے کہ
[AYAH]4:59 [/AYAH] یٰۤاَ اَیّھَا الذَّینَ اَمَنُوا اَطِیعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیعُوا الرَّسُولَ وَ اُولِی الاَمرِ مِنکُم ، فَاِن تَنَازَعتُم فِی شَیءٍ فَرُدُوہُ اِلَی اللّٰہِ و الرَّسُولِ اِن کُنتُم تُؤمِنُونَ بِاللّٰہِ وَ الیَومِ الاٰخِرِ، ذَلِکَ خَیرٌ وَ اَحسَنُ تَاوِیلاً
اے لوگو جو اَِیمان لائے ہو اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو لوگ تم میں حُکمران ہیں اُنکی فرمانبرداری کرو ، اور اگر تم لوگوں میں کِسی چیز میںاختلاف ہو جائے تو اگر تم لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر اِیمان رکھتے ہو تو اُسے ( یعنی اختلاف کو حل کرنے کے لیے وہ اِختلاف ) اللہ کی طرف اور رسول کی طرف لوٹاؤ اور یہ ( یعنی اَختلاف کا حل اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اَحکامات سے تلاش کرنا ) بہت خیر والااور اچھے انجام والا ہے

دیکھئے اللہ تعالیٰ نے صرف قران کی طرف رجوع کا حُکم نہیں فرمایا ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دونوں کی طرف رجوع کا حُکم فرمایا ہے ، آپ دونوں کو الگ الگ سمجھنا چاہتے ہیں
میں اس سے بھی بہتر آیت عرض کرتا ہوں‌ اس ضمن میں

[AYAH]24:56[/AYAH] [ARABIC]وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ[/ARABIC]
اور تم نماز (کے نظام) کو قائم رکھو اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کرتے رہو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (مکمل) اطاعت بجا لاؤ تاکہ تم پر رحم فرمایا جائے (یعنی غلبہ و اقتدار، استحکام اور امن و حفاظت کی نعمتوں کو برقرار رکھا جائے)

یہاں تو یہ بھی مسئلہ نہیں کہ قرآن اللہ کا اور سنت رسول کی ہے۔ بھائی ۔ سنت ساری کی ساری قرآن پر مبنی ہے۔ اگر قرآن پر مبنی نہیں تو سنت ہی نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ قرآن سے باہر آزادانہ جاتے رہتے تھے۔ مطلق العنان تھے، قرآن کے اصولوں کی پابندی نہیں کرتے تھے؟ آپ یہ ثابت کرنے کے بجائے کہ ان کتب میں جو کچھ درج ہے قرآن کے مخالف بھی ، اس پر ہم ایمان لے آئیں۔ تھوڑی سے کوشش یہ کیجئے کہ یہ دیکھئے کہ خلاف قرآن کیا رسول اکرم سے ممکن ہے؟ اس قرآن کا نزول ہی تو سارا معجزہ و معرکہ ہے؟ اگر آپ ایک ٹوٹی ہوئی اسناد کی روایت سے باہر یہ سنت ثابت کرسکیں تو صاحب سر تسلیم خم ہے۔ ایک اصطلاح ---- لھو الحدیث ---- ، جس کی روایات بھی رسول اکرم سے منسوب نہیں ، اس کی مدد سے آپ ثابت کرنے پر تلے ہیں کہ خالق کائنات نے موسیقی تخلیق ہی نہیں کی۔

قران کا ترجمہ آپ کہیں سے بھی لیتے ہوں ، اگر اس ترجمے میں صحیح سنت کے خلاف ورزی نہیں تو کوئی حرج نہیں ان شاء اللہ ،
الحمد للہ فاروق بھائی یہ تو بڑی اچھی بات ہے کہ آپ عربی خود سے سمجھ سکتے ہیں آپ سے بات کرتے ہوئے مجھے عربی عبارات کا ترجمہ نہیں کرنا پڑے گا ،
آپ کا مقصد اگر مجھے مسلمان کرنا ہے تو بہت اچھا، لیکن باقی بہت سے ایسے ہیں جو عربی نہیں سمجھتے۔ ان کا خیال کیجئے۔
فاروق بھائی ، کتب حدیث میں روایات کی تعداد ، متن ، اور ترتیب ، میں فرق ان کی صحت و درستگی پر کوئی منفی اثرنہیں ڈالتا ، یہ بات سمجھنے کے لیے """ علم مصطلح الحدیث """ اور """ جرح و تعدیل """ اور """ نقد الحدیث """ کا جاننا ضروری ہے ، اگر آپ ان علوم کی کچھ بنیادی معلومات ہی حاصل کریں تو اس غلط فہمی کا ازالہ ہو جائے گا ان شاء اللہ ، رہا معاملہ تراجم کا تو جی ہاں تراجم میں یقینا عمدا یا بغیر عمد ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو اصل متن اور اسکے معنی و مفہوم کو کچھ کا کچھ کر دیتی ہیں ، اور اس کا واحد حل یہی ہے کہ عربی لغت سیکھی جائے ، تا کہ باذن اللہ تراجم میں پائی جانے والی غلطیوں کا شکار ہونے سے بچا جائے باذن اللہ ،
ایسا کرتے ہیں ، جو اصول آپ نے روایات کی تعداد، متن ، ترتیب اور پر لاگو کیا ہے ۔ قرآن پر بھی نعوذ باللہ کردیتے ہیں۔ ایک 500 آیات کا قرآن بناتے ہیں، ایک 5000 آیات کا۔ آیات کی ترتیب بدل دیتے ہیں ۔ یار کیا ہے بات ہی تو ہے۔ کیا اہمیت ہے؟ کچھ اپنی طرف سے اور کچھ سنا سنایا بھی ڈال دیتے ہیں۔ اور اگر کچھ خلاف قرآن ہو تو پھر تو بات ہی کیا ہے۔

یہی طور طریقے تھے سابقہ امتوں کے کہ اپنی کتب میں تعداد، ترتیب، متن سب کچھ بدل ڈالا۔ جس کا سد باب اللہ تعالی نے خود اس کتاب کی حفاظت فرما کر کیا۔

[AYAH]15:9 [/AYAH] [ARABIC] إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ [/ARABIC]
بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے

متن، تعداد ، ترتیب ، خلاف قرآن روایات ہی وہ ثبوت ہے کہ یہ کتب روایات قابل اعتماد نہیں۔

میرے بھائی ، کس حوالے کو ڈسکاؤنٹ کرنے کا کہہ رہے ہیں ، میں تو کافی احادیث لکھی ہیں ، اور سب کی سب سندا صحیح ہیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ثابت ہوتی ہیں ، پس میں یہ جرات نہیں کر سکتا کہ آپ کے فلسفیانہ شکوک و شبہات کی وجہ سے صحیح احادیث کو حذف کر دوں ، کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی آواز مبارک سے منہ پھیرنا نہیں ؟؟؟ اور اس کا انجام اللہ نے کیا بتایا ہے ابھی ابھی ذکر کر چکا ہوں ،
آپ کے حوالہ کو نہیں‌ ، اپنے دئے ہوئے حوالے کو اس بحث سے الگ کردینے کے لئے کہہ رہا تھا۔
فاروق بھائی آپ کی اس بات کا جواب دو حصوں میں پیش کرتا ہوں ،اس معاملے میں معاف کرنا میرا نہیں اللہ کا کام ہے ، آپ کی اس بات نے مجھے مزید حیرت زدہ کر دیا ہے ، آپ شریعت کو دیگر مذاہب کی طرح ایک مذھب سمجھتے ہیں ، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ """ شریعت """ ، """ دین """ ، """ مذہب """ کے معنی نہیں جانتے ، اور ماشاء اللہ شریعت کے احکام میں بحث کرتے ہیں ، سُبحان اللہ ، مجھے بھی اس جملے پر معاف فرمایے گا ، بھائی جی ،
اور آپ سے یہ گذارش بھی ہے کہ ذرا وہ طریقہ بھی بتایے جس کے مطابق آپ سنّت کو قران کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں ؟؟؟
غیر قرانی یا غیر القرآن کے لئے رسول اکرم کا کیا حکم ہے۔ مع ریفرنس، ترجمہ آپ فرما دیجئے۔
http://hadith.al-islam.com/Display/D...Doc=1&Rec=6851
[ARABIC]‏حدثنا ‏ ‏هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن أسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
‏أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي ‏ ‏قال ‏ ‏همام ‏ ‏أحسبه قال متعمدا ‏ ‏فليتبوأ ‏ ‏مقعده من النار ‏[/ARABIC]

بھائی جی ، """ شریعت """ کا لغوی معنی ہے """ قوانین کا مجموعہ ، دستور """ اور اسلامی اصطلاحات میں اس کا مفہوم ہے """ اللہ کی طرف سے بنائے گئے قوانین """ جس میں سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے کسی کو کسی کمی ، بیشی ، تبدیلی و ترمیم کی اجازت نہیں ، اور رسول اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بھی اللہ کی طرف سے کی گئی وحی کے ذریعے ہی ایسا کچھ فرماتے ہیں جو قران میں نہیں لیکن اللہ کی وحی ہے اور اسے ہی وحی غیر متلو کہا جاتا ہے ، اور اس کی دلیل وہی دو آیات ہیں جو آپ نے ذکر کی تھیں ،،،
اور شریعت سازی کسی کا حق نہیں ، نہ انفرادی طور پر نہ کسی مجلس یا جماعت کے ذریعے ، سنیے شریعت کیا ہے اور شریعت سازی کیا ہے اور کس کا حق ہے ،

اللہ تعالی نے فرمایا ((( و جعلنا لکل منکم شِرعۃ و منھاجا ::: اور ہم نے تم میں سے ہر ایک ( امت ) کے لیے شریعت (قوانین) اور (دین کے) راستے بنائے ))) سورت المائدۃ ، آیت 48 ،
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ((( ام لھم شرکاء شرعوا لھم من الدین ما لم یاذن بہ اللہ ::: کیا ان کے لیے (اللہ کے ایسے) شریک ہیں جو ان کے لیے دین میں سے قانون بنائیں جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی ))) سورت الشوریٰ ، آیت ۲۱ ،
اور آپ دین میں حلال و حرال اور قانون سازی کے لیے قانون ساز شوریٰ کے خواہاں ہیں !!!
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ((( شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا و ما أوحینا اِلیک ::: اور اللہ نے تم لوگوں کے لیے دِین میں وہ قانون بنائے ہیں جن کی وصیت نوح کو کی تھی اور جو ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے ))) سورت الشوریٰ ، آیت ۱۳

غور فرمایے فاروق بھائی ، یہ روایات نہیں ، حکایات نہیں ، وہی قران ہے جسے آپ سنت کی کسوٹی کہتے ہیں یہاں اللہ تعالی نے شریعت سازی کا حق اپنا بتایا اور پھر سے یہ بتایا کہ جو کچھ وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کرتا ہے شریعت ہے ، اور اللہ کی گواہی سے یہ بات پہلے ہو چکی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک اللہ کی وحی کی بنیاد پر بات فرماتی تھی ، اب اگر تیرہ سو سال سے امت کے تمام محدثین و فقہا کے بنائے ہوئے اصولوں کو رد کر کے آپ کے غیر علمی اعتراضات کو کسوٹی بنایا جائے تو اللہ کی طرف سے کی گئی وحی کا کتنا بڑا حصہ ناقابل اعتبار ہو جاتا ہے اور دین و شریعت کا شاید ایک چوتھائی امت کے پاس نہیں رہتا ، فأعتبروا یا اولی الابصار [/size]
فتاوی کے معنی عنایت فرمائیے تو آگے بڑھتے ہیں۔ یہ مفتی کیوں بنائے جاتے ہیں؟ مفتی فتوی کیوں دیتے ہیں ذرا روشنی ڈالئے۔ پھر اس پر بات کرتے ہیں۔

فاروق بھائی ، یہ اضافیات اور اسرائیلیات کی تعریف بھی ذرا فرما دیتے تو بات آسان ہو جاتی ، میرے بھائی شریعت کا معنی و مفہوم قران میں اللہ نے جو بیان فرمایا اس کا ذکر ابھی ابھی ہو چکا ، پتہ نہیں آپ قران کو کس طرح پڑہتے اور سمجھتے ہیں کہ شریعت کو اسلام سے الگ کچھ اور سمجھتے ہیں ، اللہ کے بندے اسلامی اصطلاحات میں شریعت اسلامی قوانین کا نام ہے ، نہ کہ انسانوں کے بنائے قوانین کا ، اور اسلام میں جو فقہی مذاہب پائے جاتے ہیں ان میں سے کوئی بھی اپنی شریعت بنائے ہوئے نہیں ، میرا خیال ہے میں دین مذہب اور شریعت کی تعریف کے بارے میں بھی کچھ بنیادی معلومات ارسال کروں اللہ تعالی ہم سب کے لیے فائدہ مند بنائے ،

اللہ کے بندے اسلامی اصطلاحات میں شریعت اسلامی قوانین کا نام ہے ، نہ کہ انسانوں کے بنائے قوانین کا ، اور اسلام میں جو فقہی مذاہب پائے جاتے ہیں ان میں سے کوئی بھی اپنی شریعت بنائے ہوئے نہیں



دوبارہ ---- فتاوی یا افتاء کے معنی عنایت فرمائیے تو آگے بڑھتے ہیں۔ یہ مفتی کیوں بنائے جاتے ہیں؟ مفتی فتوی کیوں دیتے ہیں ذرا روشنی ڈالئے۔ پھر اس پر بات کرتے ہیں۔
 

دوست

محفلین
آپ کا یہ استدلال کہ صحابہ سے زیادہ قرآن فہم کون ہوسکتا ہے احتیاط کے لحاظ سے اچھی چیز ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن عقل سلیم اللہ کریم نے سب کو عطاء کی ہے۔ اگر عبداللہ بن مسعود لھو الحدیث سے گانا نکالتے ہیں تو یہ ان کا ذاتی استدلال ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں۔ یہ یاد رہے اور چونکہ ہمیں صرف قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی لینے کا حکم ہے اس لیے ہم تو اس آیت کی تفسیر میں قول یا فعل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ کریں گے۔ اگر یہ پیش نہیں کیا جاسکتا اور انشاءاللہ قیامت تک پیش نہیں کرسکیں گے تو یہ مان لیں کہ اس آیت سے ہر کسی نے اپنی سمجھ کے مطابق مطلب نکالا ہے۔
 
آپ کا یہ استدلال کہ صحابہ سے زیادہ قرآن فہم کون ہوسکتا ہے احتیاط کے لحاظ سے اچھی چیز ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن عقل سلیم اللہ کریم نے سب کو عطاء کی ہے۔ اگر عبداللہ بن مسعود لھو الحدیث سے گانا نکالتے ہیں تو یہ ان کا ذاتی استدلال ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں۔ یہ یاد رہے اور چونکہ ہمیں صرف قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی لینے کا حکم ہے اس لیے ہم تو اس آیت کی تفسیر میں قول یا فعل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ کریں گے۔ اگر یہ پیش نہیں کیا جاسکتا اور انشاءاللہ قیامت تک پیش نہیں کرسکیں گے تو یہ مان لیں کہ اس آیت سے ہر کسی نے اپنی سمجھ کے مطابق مطلب نکالا ہے۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ،
بھائی و دوست ، عقل سلیم سب کی ہوتی تو سب اپنے خالق و مالک کو پہچانتے ، اور اس کی تابع فرمانی اختیار کرتے ، وہ عقل عقل سلیم نہیں جو یہ کام نہ کر سکے خواہ وہ اور کچھ بھی کرتی رہے ،
اور اسی طرح جو عقل اپنے رب کی مقرر کردہ حدود سے خارج ہو کر اپنی سلامتی و سلیمی کے زعم میں کچھ کا کچھ خیال کرے وہ بھی سلیم نہیں ہوتی،
عقل سلیم وہ ہوتی ہے جو خود کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں پابند رکھتے ہوئے کام کرے ،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے ان کے استدلال کی حیثیت امت میں کسی بھی اور کے استدلال سے کہیں مضبوط ہے ،
اور کسی صریح نص کی مخالفت نہ ہونے کی صورت میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا قول یا فعل حجت ہوتا ہے ،
دوست بھائی ، یہ تو بتایے آپ نے اس سے پہلے جو جوابات ارسال کیے ہیں وہ آپ کے ذاتی مطالعہ کا نتیجہ ہیں ، یا ، جعفر پھلواری صاحب کی کتاب جس کا آپ نے ذکر کیا تھا سے یا کسی اور کتاب سے منقول ہیں ؟؟؟
آپ کے مطالبے کے جواب میں کچھ وضاحت ابھی بھائی فاروق کو دیے جانے والے جواب میں ارسال کر رہا ہوں ان شاء اللہ ، اسے بھی دیکھیے ،
بھائی ، برا نہ منایے گا ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں تا کہ آپ کے جواب کے مطابق ہی میں آپ سے گتفگو کروں ، کیا آپ کا منہج بھی بھائی فاروق والا ہے ؟
والسلام علیکم ۔
 
آپ کا یقین ہے کہ ان کتب روایات میں‌ جو کچھ ہے و من و عن درست ہے۔ ہم یہاں سنت (قول و فعل ) رسول پر کوئی اعتراض نہیں‌کرتے ۔ بلکہ ان روایات کے راویوں کی درستگی پر اعتراض کرتے ہیں۔ یہ شبہ اس وقت بھی تھا جب قرآن پاک رسول اکرم کے بعد جمع کیا جارہا تھا۔ لہذا شرط یہ رکھی گئی تھی کہ قرآن کی آیت لکھی ہوئی ہو اور سننے والے نے خود رسول اکرم سے سنا ہو۔ آپ جانتے ہیں کہ روایات کسی طور بھی اس کسوٹی پر پوری نہیں اترتی ہیں۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ، ارے فاروق بھائی ، ایسی بھی کیا ناراضگی ہوئی سلام تک نہیں کیا ، اور یہ کیسے فرما رہے ہیں کہ """ یہ اسناد کسی طور بھی اس کسوٹی پر پورا نہیں اترتی ہیں """ کیا آپ نے کبھی اسناد کو پڑھا ہے ؟؟؟
دیکھیے بخاری کی ایک سند ہے ، حدثنا عبید اللہ بن موسی قال اخبرنا حنظلہ بن ابی سفیان عن عکرمۃ بن خالد عن بن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ،،،،،
سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تک وضاحت سے پہنچ رہی ہے ، آپ کس طرح یہ کہہ رہے ہیں کہ """ آپ جانتے ہیں کہ روایات کسی طور بھی اس کسوٹی پر پوری نہیں اترتی ہیں """ سبحان اللہ ھذا بہتان عظیم ۔

اسناد کس نے جمع کیں آپ جانتے ہیں ، بخاری ، مسلم اور باقی کتب روایت کے لکھنے والے 250 سال بعد تو پیدا ہوئے۔ پھر ان کو کتب پر سو فی صد ایمان کیونکر ؟
بھائی ، ہمیں یقین ہے کہ روایات احادیث میں سے جو روایات صحت کی مقرر کردہ کسوٹیوں پر پورا اترتی ہیں وہ صحیح ہیں ، اور کسی صحیح روایت میں قران کی مخالفت نہیں ،
بھائی جی ذرا اپنی تصحیح فرما لیجیے ، امام بخاری علیہ رحمۃ اللہ 196 ہجری اور امام مسلم رحمۃُ اللہ علیہ 204 ہجری میں پیدا ہوئے ، ۲۵۰ سال بعد نہیں ،
رہا معاملہ اسناد کا تو بھائی انہوں نے اسناد نہیں احادیث جمع ہیں ، اور اپنی اپنی اسناد سے جمع کی ہیں اور راویوں کی پرکھ کے لیے بڑی ہی کڑی شرائط رکھی ہیں اسی لیے صحیح البخاری اور صحیح مسلم روایات احادیث میں سب سے زیادہ معتبر کتابیں ہیں ، اگر آپ کے پاس ان کے راویوں کی درستگی پر کوئی قابل حجت اعتراض ہے جس کی بنا پر اس روای کی روایت رد کی جا سکتی ہو تو بیان فرمایے ، یہ تو امت پر بڑا احسان ہو گا کہ بارہ سو سال سے سب کے سب بیوقوف بنے ہوئے ہیں ،
امت کی بہت ہی بڑی اکثریت کو ان کتب کی درستگی کا یقین ان میں مذکور روایات کی صحت و درستگی کی بنا پر ہے ، ایمان کا اس سے کیا تعلق ؟؟؟

یہ درست ہے کہ ان کتب روایات میں سنت ضرور ہے لیکن ہر روایت سنت نہیں، بس تاریخ‌کہہ لیجئے۔
ہر روایت سنت نہیں !!! ذرا وضاحت تو فرمایے ،
ان کتب میں درج ہر روایت کو آپ قرآن کی روشنی میں پرکھیں‌ گے۔
فاروق بھائی ، ذرا اس پرکھ کا طریقہ بمع مثال عنایت فرمایے ،
افسوس کا مقام ہے کہ آپ کی سوچیں معکوس ہیں۔ آپ سنت کی روشنی سے کتاب الہی کو درست ثابت کرنے کے بجائے۔ ضوء القرآن سے ان کتب روایات کو جانچیں
فاروق بھائی میں نے ترجموں کو سنّت کے مطابق جانچنے کی بات کی تھی نہ کہ قران کو ،
بھائی شاید آپ نے بات کو پورا یا توجہ کے ساتھ نہیں پڑھا میں نے لکھا تھا ::: """ قران کا ترجمہ آپ کہیں سے بھی لیتے ہوں ، اگر اس ترجمے میں صحیح سنت کے خلاف ورزی نہیں تو کوئی حرج نہیں ان شاء اللہ """
اور دوسری جگہ عرض کیا تھا ::: """ رہا معاملہ تراجم کا تو جی ہاں تراجم میں یقینا عمدا یا بغیر عمد ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو اصل متن اور اسکے معنی و مفہوم کو کچھ کا کچھ کر دیتی ہیں ، اور اس کا واحد حل یہی ہے کہ عربی لغت سیکھی جائے ، تا کہ باذن اللہ تراجم میں پائی جانے والی غلطیوں کا شکار ہونے سے بچا جائے باذن اللہ """
اور آپ نے ترجمے کے بارے میں کہی گئی بات کو قران کے بارے میں سمجھ لیا ، اب میں نہیں کہوں گا کہ کس کی سوچ معکوس ہوئی ،
جی صحیح فرمایا آپ نے قران کی روشنی میں روایات کو جانچا جانا چاہیے ، میں آپ سے متفق ہوں اور شاید کوئی بھی اس سے اختلاف نہیں کرے گا ،
فرق صرف یہ ہے فاروق بھائی کہ آپ ہر ایک روایت حدیث کو صحیح ہو یا غیر صحیح اپنی قران فہمی کے مطابق جو کہ ترجموں کی محتاج ہے پرکھنا چاہتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی قولاً و فعلاً بیان کردہ تفسیر ، جو کہ روایات حدیث میں ہی ملتی ہے آپ کے لیے قابل قبول نہیں ، اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی ، کیونکہ وہ روایات میں ہے ،

آپ نے سورۃ المائیدہ کی آیت نمبر 48 کا حوالہ دیا، بھائی۔ پوری آیت کو دیکھئے، وہ آپ کو سب امتوں‌کی کتابوں‌پر یقین رکھنے کے لیئے نہیں‌ کہہ رہی ہے آپ کو صرف اور صرف قرآن پر یقین رکھنے کے لئے کہہ رہی ہے
واہ فاروق بھائی ، سب امتوں کی کتابوں پر یقین رکھنا یا نہ رکھنا تو ہماری سابقہ گفتگو میں کہیں نہیں تھا ، اور نہ ہی میں نے کوئی بات اس موضوع کے متعلق کی ، اور سورت المائدہ ، """ المائیدہ """ نہیں (شاید یہ کتابت کی غلطی ہو گی ، بہر حال) سوت المائدہ کی آیت 48 کا حوالہ شریعت سازی اور شریعت کا معنی و مفہوم بیان کرنے کے لیے دیا گیا تھا پس میں نے لکھا تھا ::: """ اور شریعت سازی کسی کا حق نہیں ، نہ انفرادی طور پر نہ کسی مجلس یا جماعت کے ذریعے ، سنیے شریعت کیا ہے اور شریعت سازی کیا ہے اور کس کا حق ہے ،
اللہ تعالی نے فرمایا ((( و جعلنا لکل منکم شِرعۃ و منھاجا ::: اور ہم نے تم میں سے ہر ایک ( امت ) کے لیے شریعت (قوانین) اور (دین کے) راستے بنائے ))) سورت المائدۃ ، آیت 48 ، """

جی فاروق بھائی ، پوری آیت پڑہیے بلکہ سیاق و سباق کی آیات بھی پڑہیے ، سابقہ امتوں کی کتابوں پر یقین رکھنے نہ رکھنے کی بات ہی ہی نہیں بلکہ ان کتابوں کی شریعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف نازل کی جانے والی وحی میں دی گئی شریعت کے ذریعے منسوخ ہونے کا بتایا گیا یے ،اور اللہ تعالی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو ان کی طرف کی گئی وحی کے مطابق فیصلے کرنے کا حکم دے رہا ہے ، اب کیا کیا جائے !!! جو وحی روایات احادیث میں ہے وہ تو آپ کے لیے ناقابل اعتبار ہے !!!

سنت رسول اگر قرآن سے باہر ہے تو پھر رسول اللہ چلتا پھرتا قرآن کس طور ہوئے؟
فاروق بھائی یہ بات آپ نے کہاں سے لی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم چلتا پھتا قران تھے ، کیا قران میں ہے ؟؟؟ یا ایمان والوں کی والدہ محترمہ کی بات """ کان خلقہ قران """ سے اخذ کیا ہے ؟؟؟ اگر """ کان خلقہ قران """ سے اخذ کیا ہے تو بھائی اس روایت کی درستگی کی جانچ کے لیے کونسی کسوٹی اپنائی ، جس پر پورا اترنے کی وجہ سے آپ کو یہ روایت قبول ہوئی ، ضرور آگاہ فرمائیے ،
کتب روایات میں‌ کافی روایات تو رسول اکرم کے بارے میں‌ ہیں بھی نہیں ۔
فاروق بھائی ، """ کتب روایات """ سے کیا آپ کی مراد """ کتب احادیث """ ہے ؟؟؟ یا تاریخ و سیر کی کتابیں بھی آپ اس میں شامل کرتے ہیں ،
جہاں تک معاملہ ہے """ کتب احادیث """ کا تو بھائی کہیں بھی کوئی کسی ساری کی ساری کتاب کو حجت نہیں بناتا بلکہ فردا فردا روایت کو حجت بنایا جاتا ہے ، پس جو روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بارے میں ہیں ان کا اپنا درجہ ہے اور جو روایات صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین یا تابعین کے بارے می ہیں ان کا اپنا اپنا درجہ ہے ، میں نے پچھلے مراسلے میں بھی مشورہ پیش کیا تھا ، اور یہاں پھر دہرا رہا ہوں کہ ::: """ فاروق بھائی ، کتب حدیث میں روایات کی تعداد ، متن ، اور ترتیب ، میں فرق ان کی صحت و درستگی پر کوئی منفی اثرنہیں ڈالتا ، یہ بات سمجھنے کے لیے """ علم مصطلح الحدیث """ اور """ جرح و تعدیل """ اور """ نقد الحدیث """ کا جاننا ضروری ہے ، اگر آپ ان علوم کی کچھ بنیادی معلومات ہی حاصل کریں تو اس غلط فہمی کا ازالہ ہو جائے گا ان شاء اللہ ،"""

یہ مان لیجئے کہ آپ اسرائیلیات کو اسلام میں بھرنے کے لئے ان کتب روایات کا سہارا لیتے ہیں
فاروق بھائی ، جب کسی موضوع پر بحث کی جائے تو مقابل کے سوالات سے پہلو تہی کرنا کمزوری کی علامت ہوتی ہے ، میں نے پہلے بھی پوچھا ، اب پھر پوچھ رہا ہوں اور خصوصی گذارش ہے کہ جواب دیجیے تا کہ یہ تو پتہ چلے کہ آپ کس لفظ سے کیا مراد لیے ہوئے ہیں ،
آپ """ کتب روایات """ کسے کہتے ہیں ؟؟؟
آپ کے ہاں """ اسرائیلیات """ کسے سمجھا جاتا ہے ؟؟؟

قرآن پڑھتے رہئیے بلکہ ان کتب روایات سے زیادہ اپنے مطالعے میں رکھئے، آپ کے خیالات خود بخود بہتر ہونے شروع ہو جائیں گے۔
الحمد للہ تعالی ، کتنا اور کیسے قران پڑھتا ہوں اللہ بہتر جانتا ہے ، اور الحمد للہ کہ اللہ نے اپنا کلام سمجھنے کے لیے ترجموں کی محتاجی سے آزاد فرما دیا ہوا ہے ، اور یہ بھی سمجھا دیا ہوا ہے کہ اس کے کلام کا بیان اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے سیکھنا ہے ، و للہ الحمد و المِنّۃ ،
جو کچھ آپ نے لکھا وہ بگڑی ہوئی اسرئیلیات سے بے حد متاثر ہے۔
فاروق بھائی ، چوتھی دفعہ عرض ہے کہ """ اسرائیلیات """ کی کچھ تعریف تو بتایے ؟؟؟ لیکن آپ کی طرف سے کوئی جواب نہیں ، اب میں تو کیا ہماری یہ گفتگو پڑہنے والا ہر قاری یہ ہی سمجھے گا کہ بہت سے دیگر معاملات کا علم نہ رکھنے کی طرح آپ اس لفظ """ اسرائیلیات """ کی بھی کوئی علمی تعریف نہیں جانتے ،بس کسی فلسفے کے زیر اثر ہو کر یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں‌
آپ کے نکات پر انشاء اللہ مفصل جوابات عرض کروں‌گا۔
ان شاء اللہ میں منتظر رہوں گا ، اور امید کرتا ہوں کہ بات قران و سنت کے دلائل کی بنا پر ہو گی
بس قرآن فہمی ہی رسول اکرم سے منسوب ہے ، اسی کتاب سے انہوں نے اسلام کی تعلیم دی اور اسی کتاب کو اللہ تعالی نے اتارا۔
فاروق بھائی ، اس جملے کا پہلا حصہ ناقابل فہم ہے ، ذرا وضاحت فرمایے ، اور دوسرے حصے میں کہی گئی بات درست ہے ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیمات تو سب کی سب """ روایات """ ہیں کس کو لینا ہے اور کس کو چھوڑنا ہے اور کیوں ؟؟؟ وضاحت فرمایے اور کچھ مثالیں بھی عنایت فرمایے ، اللہ آپ کا بھلا کرے ۔
چلئے 1500 عیسوی سے پرانی کوئی روایات کی اصل یا نقل کتاب ہی پیش فرمائیے۔
ارے فاروق بھائی ، کونسی """ روایات""" کی کتاب ، روایات حدیث ، یا روایات تاریخ ، یا روایات قیس و لیلی ، یا روایات الف لیلۃ و لیلۃ ؟؟؟ بھائی ، پہلے بھی عرض کر چکا ہوں """ روایات """ میں تو ہر قسم کی روایت شامل ہوتی ہے ، آپ بار بار الفاظ """ روایات ، کتب رویات """ کا مبہم استعمال کیوں کرتے ہیں ؟؟؟ کیا آپ کو روایات کا فرق اور درجہ بندی کا علم نہیں یا آپ اپنے متاثرین کو غلط فہمی کا شکار کرنا چاہتے ہیں ؟؟؟ اور میرے بھائی ، ذرا اپنے اس مندرجہ بالا سوال کا مقصد واضح الفاظ میں لکھیے ، مکمل طور پر کہ آپ کیا کہنا یا پوچھنا چاہ رہے ہیں ؟؟؟ فاروق بھائی اگر میرے الفاظ میں کچھ تلخی محسوس ہوئی ہو تو اس کے لیے معذرت خواہ ہوں ،
آج کی صحیح بخاری دیکھ کر تو شاید خود بخاری صاحب بھی حیران رہ جائیں کہ کیا یہ انہوں‌نے لکھی تھی؟
ذرا اس عبارت کی بھی وضاحت فرمایے تو بندہ کچھ عرض کرے ،
متن ، تعداد، ترتیب کا اتنا بڑا فرق ، رسول اکرم سے منسوب غیر قرآنی باتیں ، سابقہ الہامی اور غیر الہامی امتوں کی روایات اور پھر توہین رسول سے بھرپور روایات۔ ان سب کی موجودگی کیا درست ہے اور کیا صحیح، آپ قرآن کی روشنی میں دیکھئے۔ نبی کریم کی سنت قرآن کی روشنی میں‌جگمگا اٹھتی ہے۔ اور جو کچھ سنت نہیں ہے وہ قران کی روشنی میں ماند پڑجاتی ہے۔
فاروق بھائی ، متن ، تعداد ، ترتیب کے فرق سے صحت احادیث پر کوئی فرق نہیں پڑتا ، یہ میں پچھلے مراسلے میں بھی عرض کر چکا ہوں ، اس جواب میں بھی وہی الفاظ نقل کر دیے ہیں ، اور یہاں تیسری دفعہ کر رہا ہوں ::: """ فاروق بھائی ، کتب حدیث میں روایات کی تعداد ، متن ، اور ترتیب ، میں فرق ان کی صحت و درستگی پر کوئی منفی اثرنہیں ڈالتا ، یہ بات سمجھنے کے لیے """ علم مصطلح الحدیث """ اور """ جرح و تعدیل """ اور """ نقد الحدیث """ کا جاننا ضروری ہے ، اگر آپ ان علوم کی کچھ بنیادی معلومات ہی حاصل کریں تو اس غلط فہمی کا ازالہ ہو جائے گا ان شاء اللہ """
فاروق بھائی اپنے اس بھائی کے مندرجہ بالا مشورے پر وسعت قلب کے ساتھ غور فرمایے ، کچھ علوم الحدیث سیکھیے اور پھر احادیث کے قبول و رد کی بات کیجیے چودہ سو سال امت کے ائمہ اور علماء غچ مارتے چلے آ رہے انہیں یہ پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ بے چارے ''"" اسرائیلیات ، مخالف قران ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسوب غیر قرانی باتوں ، اور توہین رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم """ والی روایات کی بنا پر اپنا عقیدہ و عبادات اپنائے ہوئے ہیں !!! بلکہ ان کے جو متبعین ہیں لاکھوں کی تعداد میں چلے آرہے ، سب کے سب ان روایات کی بنا پر غلطی پر ہیں ،
فاروق بھائی کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ یہ کونسے امام و مجدد آئے ہیں جنہوں نے آپ کو یہ منہج دیا ہے ، ہم بھی اُن کے علم سے بہرہ ور ہوں ،
ایک دفعہ پھر معذرت فاروق بھائی ، یہ الہامی اور غیر الہامی امت کون سی ہوتی ہے ، مجھے تو یہی پتہ ہے کہ الہامی اور غیر الہامی کتابیں ہوتی ہیں جو انبیا و رسل پر نازل کی جاتی ہیں ، وحی یا الہام کے ذریعے ، امت کو الہام ہونا ، نہ ہونا ، کیا یہ بھی کسی خاص قران فہمی کا شاخسانہ ہے ؟؟؟

لہو الحدیث کو آپ گانا سمجھتے ہیں ، ایک صحابی سے منسوب کرتے ہوئے ، کمال ہے۔ یعنی قول رسول سے بھی یہ ثابت نہیں اور آپ مصر ہیں۔ کیا وجہ ہے؟ جبکہ لھو الحدیث کا ترجمہ آپ خود ہی بے کار بات، تماشہ کی بات وغیرہ کرچکے ہیں؟
جی ہاں فاروق بھائی ، ایک نہیں کئی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف سے ، اور واقعی ہی کمال ہے ، میرے بھائی ، اگر ہمیں قران کی کسی آیت یا کسی کلمے کی تفسیر براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قول و فعل میں نہیں ملتی تو ہمیں اپنی عقل یا لغوی تراجم کے بنا پر اس بات کو نہیں سمجھنا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے شاگردوں ، جن کے تقوے اور ایمان کی سچائی اور پاکیزگی کی گواہی اللہ نے دی ہے ، ان سے سمجھنا ہے ،
""" شریعت کے احکام جاننے کی کسوٹیاں """ کا ذرا بغور مطالعہ کیجیے ، اللہ آسانی فرمائے ،
رہا لہو الحدیث کا ترجمہ کرنا تو وہ آپ کے کہنے پر میں نے لغوی معنی بتایا تھا اور وہاں بھی اپنی اس مندرجہ بالا بات کی تاکید کی تھی اور لکھا تھا ::: """ لہو الحدیث ایک لفظ نہیں دو الفاظ کا مرکب ہے ، اور اسے جملہ کہا جاتا ہے ، اور ان دو الفاظ کا لغوی معنی بالترتیب "" بے کار ، فالتو ، کسی کام سے توجہ ہٹانا ، کھیل کود "" اور """ نیا ، بات ، """ ہے ، اب اللہ کے کلام میں استعمال شدہ """ لہو الحدیث """ کو یا کسی بھی قول کو صرف لغوی معنی میں لیا جائے ، تو بات کیا کی کیا بنائی جا سکتی ہے ، جیسا کہ ہوتا چلا آیا ہے ، لیکن یہ راہ حق نہیں ، اللہ کے کلام کو سمجھانے کی ذمہ داری اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی ّلہ وسلم ہر رکھی ، اور اُنہیں سے ہمیں سمجھنا ہے ، اور اُن کے بعد اُن کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے ، اور پھر علماء امت سے جن کا فہم پہلی دو کسوٹیوں پر پورا اترتا ہو ،
یہ سب کوئی فلسفہ نہیں فاروق بھائی ، اللہ کے احکامات ہی ہیں """

دیکھیے فاروق بھائی میں نے کیا لکھا تھا ، اللہ جانے آپ باتوں میں سے بات کو دائیں بائیں کیوں کر دیتے ہیں ، یا آپ پوری طرح سے پڑہتے نہیں یا آپ کو یاد نہیں رہتا ، اللہ ہی بہتر جانتا ہے ،

قرآن کی آیات کے بارے میں آپ کو جواب آئیندہ۔
فاروق بھائی ، مستقبل میں کرنے کے کسی کام کے ساتھ ان شاء اللہ کہا کیجیے ، یہ کسی """ روایت """ میں نہیں بلکہ اللہ کا حکم ہے ((( و لا تقولن لِشیءٍ اِنی فاعلٌ ذلک غداً اِلّا ان یشاء اللہ ))) ، میں منتظر رہوں گا ان شاء اللہ ، اور جسیا کہ پہلے عرض کیا ہے ، امید کرتا ہوں کہ بات قران و سنت کے دلائل کی بنا پر ہو گئی ، و السلام علیکم ۔
 

دوست

محفلین
لو بھئی اللہ والیو وہی پرانی بحث پھر سے شروع ہوگئی ہے کہ کتب روایات ہیں یا کتب حدیث۔ وغیرہ وغیرہ۔ میرا خیال ہے کہ میں اب اس کتاب کو سکین کرکے پی ڈی ایف یہاں مہیا کردوں تاکہ خلق خدا جان سکے کہ موسیقی صرف "حرام" ہی نہیں حلال بھی ہوتی ہے۔ اور توقع رکھوں کہ آئندہ چند ماہ میں اس ساٹھ سال پرانی کتاب کا رد بھی لکھا جاچکا ہوگا جیسا کہ غامدی صاحب کی کتاب کا لکھا گیا ہے (حیرت ہے دین کے ٹھیکیداروں کی نظروں سے یہ کتاب کیسے بچ گئی).
انشاءاللہ آئندہ دو ایک دن میں پی ڈی ایف مہیا ہوجائے گا۔ اس کے بعد آپ چاہیں‌ تو اس کتاب کے رد سے اس دھاگے کو بھر دیں۔ مجھے الحمد اللہ اس بات کی تسلی ہوگئی ہے کہ موسیقی حرام ہی نہیں حلال بھی ہوتی ہے اور انشاءاللہ اب دل پر کوئی بوجھ نہ رہے گا۔
وسلام
 

باذوق

محفلین
انشاءاللہ آئندہ دو ایک دن میں پی ڈی ایف مہیا ہوجائے گا۔ اس کے بعد آپ چاہیں‌ تو اس کتاب کے رد سے اس دھاگے کو بھر دیں۔ مجھے الحمد اللہ اس بات کی تسلی ہوگئی ہے کہ موسیقی حرام ہی نہیں حلال بھی ہوتی ہے اور انشاءاللہ اب دل پر کوئی بوجھ نہ رہے گا۔
وسلام
السلام علیکم۔ دوست ! معذرت چاہتا ہوں کہ کچھ دن غیر حاضر رہا۔
آپ کی طرف سے پ۔ڈ۔ف کا انتظار رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
اقتباس:
اصل پيغام ارسال کردہ از: فاروق سرور خان
آپ کا یقین ہے کہ ان کتب روایات میں‌ جو کچھ ہے و من و عن درست ہے۔ ہم یہاں سنت (قول و فعل ) رسول پر کوئی اعتراض نہیں‌کرتے ۔ بلکہ ان روایات کے راویوں کی درستگی پر اعتراض کرتے ہیں۔ یہ شبہ اس وقت بھی تھا جب قرآن پاک رسول اکرم کے بعد جمع کیا جارہا تھا۔ لہذا شرط یہ رکھی گئی تھی کہ قرآن کی آیت لکھی ہوئی ہو اور سننے والے نے خود رسول اکرم سے سنا ہو۔ آپ جانتے ہیں کہ روایات کسی طور بھی اس کسوٹی پر پوری نہیں اترتی ہیں۔


اقتباس:
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ، ارے فاروق بھائی ، ایسی بھی کیا ناراضگی ہوئی سلام تک نہیں کیا ، اور یہ کیسے فرما رہے ہیں کہ """ یہ اسناد کسی طور بھی اس کسوٹی پر پورا نہیں اترتی ہیں """ کیا آپ نے کبھی اسناد کو پڑھا ہے ؟؟؟
دیکھیے بخاری کی ایک سند ہے ، حدثنا عبید اللہ بن موسی قال اخبرنا حنظلہ بن ابی سفیان عن عکرمۃ بن خالد عن بن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ،،،،،
سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تک وضاحت سے پہنچ رہی ہے ، آپ کس طرح یہ کہہ رہے ہیں کہ """ آپ جانتے ہیں کہ روایات کسی طور بھی اس کسوٹی پر پوری نہیں اترتی ہیں """ سبحان اللہ ھذا بہتان عظیم ۔


جواب:
وعلیکم السلام۔
قرآن کو لکھوانے کی شرائط میں اور روایات لکھانے میں‌ بہت بڑا فرق ہے۔ ان روایات کو کتاب میں لکھنے یا لکھانے والا وہ نہیں‌جس نے رسول صلعم سے سنا تھا۔ کوئی روایت کب لکھی گئی کوئی تاریخ‌ نہیں۔ کسی اصل کتاب کا سراغ نہیں ملتا لیکن آپ کا دعوی ہے کہ ہر روایت درست ہے اور سنت ہے۔ چاہے خلاف قرآن ہی کیوں نہ ہو۔ صاحب کیا استدلال ہے۔

آپ پوچھتے ہیں
ارے فاروق بھائی ، کونسی """ روایات""" کی کتاب ، روایات حدیث ، یا روایات تاریخ ، یا روایات قیس و لیلی ، یا روایات الف لیلۃ و لیلۃ ؟؟؟ بھائی ، پہلے بھی عرض کر چکا ہوں """ روایات """ میں تو ہر قسم کی روایت شامل ہوتی ہے ، آپ بار بار الفاظ """ روایات ، کتب روایات """ کا مبہم استعمال کیوں کرتے ہیں ؟؟؟ کیا آپ کو روایات کا فرق اور درجہ بندی کا علم نہیں یا آپ اپنے متاثرین کو غلط فہمی کا شکار کرنا چاہتے ہیں


جواب:
بھائی آپ کسی بھی روایت کو اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ شروع ہوتی ---- لفظ روی سے --- لہذا روایت کہلتی ہے۔ ان روایات میں‌سنت بھی موجود ہے اور محض‌ تاریخ‌ بھی ۔ اگر آپ کو لفظ روایت کے معنوں کا علم نہیں‌تو پھر آپ پہلے روایت کے معنی دیکھ لیجئے پھر بات کرتے ہیں آپ کی معلومات کچھ کمزور لگتی ہیں روایت کے معانی کے بارے میں۔ بہت سی روایات صرف اور صرف اصحابہ کرام کے بارے میں ہیں جن کو آپ مانیں یا نا مانیں۔ وہ ایمان کا حصہ قطعاً‌ نہیں ۔


مثال کے طور پر
ان روایات کو دیکھئے جو ابوبکر ، عمر فاروق یا کسی بھی دوسرے صحابی سے منسوب ہیں ۔ ان روایات میں سنت رسول کہیں‌بھی موجود نہیں ‌ہے ؟ سنت رسول نہ ہونے کے باوجود یہ کتب روایات کا حصہ ہیں۔ آپ کو اپنے محدب عدسے سے ان 50 سے زائید کتب روایات میں یہ روایات نظر نہیں آتی ہیں یا پھر دنیا کو بے وقوف بنانا چاہتے ہیں، ان روایات کو بھی سنت قرار دے کر؟ یا محض‌ سنی سنائی تقلید ہے؟۔ پھر انہی کتب روایات میں اللہ تعالی کا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ وہ تو وحی نازل کرکے بھول گیا تھا ، یہ تو ہمارے امام بخاری نے جمع کیں۔ اللہ تعالی کو یاد نہیں‌تھا نعوذ‌باللہ کہ کچھ وحی ادھر ادھر بھی پڑی ہے۔ ایسے ہی کہہ دیا کہ تمہارا دین مکمل ہوگیا۔ پھر توہین رسول کہ ایک بڑا مہدی ، ہادی، رہنما آئے گا۔ کہیں توراۃ‌ سے لیا ہوا قانون رجم۔ نعوذ باللہ کیا اللہ تعالی بھول گیا تھا؟ کہ قانون رجم بھی لکھ دیتا۔

بھائی اگر کچھ سنت ہے تو قرآن کی روشنی میں‌ درست ہے۔ ورنہ ایک مسلمان کے لئے من گھڑت روایت کو جانچنے کی کسوٹی قرآن ہے۔


اقتباس:
فاروق بھائی ، متن ، تعداد ، ترتیب کے فرق سے صحت احادیث پر کوئی فرق نہیں پڑتا ، یہ میں پچھلے مراسلے میں بھی عرض کر چکا ہوں ، اس جواب میں بھی وہی الفاظ نقل کر دیے ہیں ، اور یہاں تیسری دفعہ کر رہا ہوں ::: """ فاروق بھائی ، کتب حدیث میں روایات کی تعداد ، متن ، اور ترتیب ، میں فرق ان کی صحت و درستگی پر کوئی منفی اثرنہیں ڈالتا ، یہ بات سمجھنے کے لیے """ علم مصطلح الحدیث """ اور """ جرح و تعدیل """ اور """ نقد الحدیث """ کا جاننا ضروری ہے ، اگر آپ ان علوم کی کچھ بنیادی معلومات ہی حاصل کریں ۔۔۔۔۔


آپ ایسا کیجئے کہ آپ اپنے مشورے پر عمل کرے ہوئے علم مصطلح الحدیث """ اور """ جرح و تعدیل """ اور """ نقد الحدیث """ استعمال کیجئے اور متن ، تعداد ، ترتیب بدل کر ایک قرآن ترتیب دیجئے اور پھر دیکھئے کتنے لوگ آپ کے ان علوم کی مدد سے بنے ہوئے قرآن کو قرآن مانتے ہیں۔ آپ اپنے آپ کو صریح دھوکہ دے رہے ہیں ان روایات پر عمل کرکے اور ایمان لاکر جو خلاف قرآن ہیں۔ اور آپ مصر ہیں کہ یہ درست سنتیں‌ ہیں۔ بھائی ہر روایت کی کسوٹی قرآن ہے کہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ وہ سنت ہے کہ نہیں ۔ رسول اکرم کا فرمان آپ کی نذر کیا لیکن آپ نے اسے نظر انداز کردیا ۔ ترجمہ فرمادیجئے۔

‏[ARABIC]حدثنا ‏ ‏هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن أسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
‏أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي ‏ ‏قال ‏ ‏همام ‏ ‏أحسبه قال متعمدا ‏ ‏فليتبوأ ‏ ‏مقعده من النار ‏[/ARABIC]

اقتباس:
میرے بھائی ، اگر ہمیں قران کی کسی آیت یا کسی کلمے کی تفسیر براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قول و فعل میں نہیں ملتی تو ہمیں اپنی عقل یا لغوی تراجم کے بنا پر اس بات کو نہیں سمجھنا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے شاگردوں ، جن کے تقوے اور ایمان کی سچائی اور پاکیزگی کی گواہی اللہ نے دی ہے ، ان سے سمجھنا ہے ،

یہ آپ کا نظریہ ہے۔ اس کا قرآنی حوالہ فراہم کیجئے کہ جو رسول اللہ کی سنت نہیں ہے ، اسے پھر اصحابہ سے سمجھا جائے گا۔ اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ آپ اندھے ہو کر نہ گریں، بلکہ غور کریں ۔ دیکھئے ۔

[AYAH]25:71[/AYAH] اور جس نے توبہ کی اور کیے نیک عمل تو بے شک وہ پلٹ آیا اللہ کی طرف جیسا کہ پلٹنے کا حق ۔
[AYAH]25:72[/AYAH] اور وہ لوگ جو نہیں گواہ بنتے جھوٹ کے اور جب گزرتے ہیں بیہودہ کاموں کے پاس سے تو گزر جاتے ہیں سنجیدگی کے ساتھ۔
[AYAH]25:73[/AYAH] اور وہ لوگ جنہیں اگر نصیحت کی جاتی ہے اپنے رب کی آیات سنا کر تو نہیں گرتے اس پر بہرے اور اندھے بن کر (بلکہ غور سے سُنتے ہیں)۔
[AYAH]25:74[/AYAH] اور وہ لوگ جو دعائیں مانگے ہیں: اے ہمارے مالک! عطا فرما تو ہمیں ایسی بیویاں اور ایسی اولاد جو آنکھوں کی ٹھنڈک ہو اور بنا دے تو ہمیں متقیوں میں مثالی کردار والا۔
[AYAH]25:75[/AYAH] یہی ہیں وہ لوگ جو پائیں گے اُونچے محل بدلہ میں اپنے صبر کے اور استقبال ہوگا ان کا وہاں آداب و تسلیمات سے۔

آپ حوالہ فراہم کیجئے، کہ رسول کی سنت سے نہیں‌ملے تو پھر اصحابہ کی سنت دیکھی جائے۔
۔


اقتباس:
ایک دفعہ پھر معذرت فاروق بھائی ، یہ الہامی اور غیر الہامی امت کون سی ہوتی ہے ، مجھے تو یہی پتہ ہے کہ الہامی اور غیر الہامی کتابیں ہوتی ہیں جو انبیا و رسل پر نازل کی جاتی ہیں ، وحی یا الہام کے ذریعے ، امت کو الہام ہونا ، نہ ہونا ، کیا یہ بھی کسی خاص قران فہمی کا شاخسانہ ہے ؟؟؟

مراد یہاں‌عام زبان تھی کہ وہ امتیں جو الہامی کتب پر قائم ہوئیں جیسے یہودیت یا عیسائیت اور وہ امتیں جو کسی الہامی کتاب کے بغیر قائم ہوئیں جیسے آتش پرست یا ہندو مت یا بدھ مت۔ برادر من آپ کا مقصد کچھ سیکھنا یا سکھانا نہیں ، مقصد میں‌خلوص‌نہیں‌ بلکہ آپ اپنی انا پرستی میں‌کردار کشی میں‌مصروف ہیں۔ سوال آپ سے یہ ہے کہ آپ کے پاس کوئی بھی کتب روایت اپنی اصل حالت میں‌موجود ہے؟ جو آپ کا ان کتب پر اتنا یقین ہے؟

قانون سازی:
ہمارے مولویوں کو فتوی بازی کی عادت قبیح ہے۔ جس کے لئے انہوں‌ نے فتوی بازی اورقانون سازی کرنے کے لیے ان کتب روایات کا سہارا لیا۔ قران کسی بھی ایک شخص‌کو فتوی بازی کی اجازت نہیں دیتا۔ اللہ کا کلام یعنی قرآن ، بنیادی اصولوں‌اور قوانین کا تعین کرنے کے بعد، رسول اللہ کی سنت جو کہ قرآن کریم کے احکامات کی روشنی میں ہے اور ثابت ہے، بنیادی اصول و قوانین مظبوط کرتا ہے اور پھر فیصلے کرنے کے لئے واضح‌کرتا ہے کہ

[AYAH]3:104[/AYAH]اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں

آپ کا خیال کیا ہے کہ یہ جماعت کونسی ہے؟ مسجد کے باہر ---- لوگو نیک کام کی صدا لگانے والی جماعت -- ؟؟؟؟؟‌ یا پھر ایک قوم --- یا ایھا الذین امنو ---- کی باقاعدہ قانون ساز جماعت جو برے کاموں سے روکنے اور اچھے کاموں کو فروغ دینے کے لئے قانون سازی یعنی فتوی سازی کرے۔ اللہ کی کتاب اور رسول صلعم کی سنت کی روشنی میں ؟؟؟؟؟
اگر آپ تقلیدی ہیں تو کسی مولوی کے کندھے پر رکھ کر بندوق داغ ‌دیں کہ اس نے ایسا کہا ، اور اس نے ایسا کہا اور میں‌ ٹھیرا طوطے کا بچہ، اپنی سوچ نہیں بس جو رٹا لگا دیا وہ دہرا رہا ہوں یا دوسروں نے لکھ دیا اب سوچنا کیا اور غور کرنا کیا؟ عقل استعمال کرنے کے لئے تھوڑی دی ہے اللہ نے ۔ بس تقلید کرنے کے لئے دی ہے۔

مزید دیکھئے کہ مومنوں کے فیصلے کرنے کا معیار کیا ہے۔ ایک مولوی، ایک ٹیچر یا معلم کا بیان یا ایک جماعت کا آپس میں مشورہ ؟؟؟؟؟
[AYAH]42:38[/AYAH] اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں

جی؟؟؟؟ یہ لوگ کون ہوں گے؟؟؟‌ قانون ساز ، باہمی مشورہ کرنے والے؟ یہ ٹھیک ہے کہ بنیادی شریعت اللہ تعالی نے عطا فرمائی ہے ۔ لیکن آگے کے فیصلے ایک مولوی نہیں کرے گا۔ ایک قانون ساز ادارہ کرے گا۔

یہ لوگ کہاں‌سے آئیں‌گے۔ آپ اپنا قرآن کھول کر دیکھئے۔۔۔۔ یہ ووٹ ( امانت) لے کر آئیں گے ، بیعت کرکے آئیں گے ، لوگوں‌کے امانات ان کے سپرد ہوں گے تو یہ منتخب شدہ لوگ، اس قانون ساز ادارہ میں‌پہنچیں گے۔ ابھی لگتا ہے کہ آپ کے طائر خیالی کی پرواز یہاں تک پہنچی ہی نہیں۔ پرانے شریعت لکھنے والوں پر اٹکی ہوئی ہے ۔

[AYAH]4:58[/AYAH] بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں (الامانات Your trust or your vote of trust) انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان (امانات) کے اہل ہیں، اور جب تم ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے

طریقہ کار اکراہ یعنی جبر کا نہیں بلکہ نرم خوئی کا ہوگا۔ دیکھئے رسول اکرم کو ہدایت۔
[AYAH] 3:159[/AYAH] (اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لئے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں، بیشک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہے

اس قانون ساز ادارہ میں جو لوگ جائیں گے ان کی قابلیت کا معیار ؟ صرف اور صرف پرہیز گاری اور تقوی
اللہ کے نزدیک عزت کا معیار پرہیزگاری ہے،
[AYAH]49:13[/AYAH] اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے

قرآن کریم ہم کو اللہ اور رسول کے ساتھ ان صاحب اختیار تمائندوں کے حکم کی تعمیل کا حکم دیتا ہے۔
[AYAH]4:59[/AYAH] اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے


آپ دیکھ لیجئے کہ قران سے دور کرنا ، کتب روایات کے کھلاڑیوں کا خاصہ ہے۔ تاکہ وہ فرد واحد کی حکومت قائم کرسکیں۔ اور ان سنی سنائی کتب کی مدد سے لوگوں‌ میں اپنی پسند کی اور اپنی خواہشوں کی پیروی کرنے والے قوانین کو فتاوی کے نام پر جاری کرسکیں۔ یہی طریقہ کار تھا یہودی ملاؤں کہ ، اسلام کا نام لے کر انہوں نے کتب روایات کی شکل میں اپنے قوانین اور اپنے اصول رسول صلعم سے منسوب کئے۔ وہ اصول جو قرآن پر نہیں‌ بلکہ انجیل اور تورات پر پورے اترتے ہیں۔ یہی اسرائیلیات ہے کہ اسلامی کتاب قرآن سے دور اور انجیل اور توریت کے قوانین سے قریب۔

اگر آپ کو انجیل اور توریت کے قوانین اتنے پسند ہیں تو آپ اپنے آپ یہودی اور عیسائی کیوں‌نہیں‌کہتے؟ ان قوانین اور اصولوں اور کہانیوں کی قرآن میں‌عدم موجودگی کیوں‌آپ خلاف قرآن کتب روایات سے ثابت کرنے پر تلے ہیں؟

مسلمان کا ایمان قرآن پر ہے اور یہی ہمارے نبی کی سنت کا معیار ہے۔ اسی کتاب سے رسول اکرم نے تعلیم دی ، یہی کتاب اسلام کی کتاب ہے۔ وہ سنت جو قرآن کریم کے اصول و آیات کے خلاف ہو اور کتب اسرائیلیات سے قریب ہو ۔ آپ اس کو کس طور اسلام کہتے ہو؟

الحمد لللہ وعدے کے مطابق قوانین اور شریعت سازی یعنی قانون سازی پر قران کی آیات کے حوالہ فراہم کرنے کی اللہ نے توفیق دی، یہ حوالہ 23 عدد تراجم سے ثابت ہیں۔ جو کسی بھی تعلیم یافتہ شخص‌کی سمجھ میں‌بآسانی آسکتے ہیں۔

والسلام
 

قسیم حیدر

محفلین
پ کا نظریہ ہے۔ اس کا قرآنی حوالہ فراہم کیجئے کہ جو رسول اللہ کی سنت نہیں ہے ، اسے پھر اصحابہ سے سمجھا جائے گا۔ اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ آپ اندھے ہو کر نہ گریں، بلکہ غور کریں ۔ دیکھئے ۔
میں اس گفتگو میں مخل نہیں ہونا چاہتا تھا، لیکن فاروق صاحب کے بعض جملے ایسے ہوتے ہیں جن پر رہا نہیں جاتا۔ قرآن اور حدیث کو اگر صحابہ کے فہم پر نہیں سمجھا جائے گا تو کس کے فہم پر سمجھا جائے؟ جنہیں خود رسول نے قرآن سکھایا اور سمجھایا وہ ابھی اگر اس قابل نہیں تو کیا غلام احمد پرویز کے فہم پر قرآن سمجھا جائے جو ساری عمر انگریز کی چاکری کرتا رہا اور جاتے ہوئے امت کو انکار حدیث کا فتنہ دے گیا۔
 

باذوق

محفلین
آپ کا یہ استدلال کہ صحابہ سے زیادہ قرآن فہم کون ہوسکتا ہے احتیاط کے لحاظ سے اچھی چیز ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن عقل سلیم اللہ کریم نے سب کو عطاء کی ہے۔ اگر عبداللہ بن مسعود لھو الحدیث سے گانا نکالتے ہیں تو یہ ان کا ذاتی استدلال ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں۔ یہ یاد رہے اور چونکہ ہمیں صرف قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی لینے کا حکم ہے اس لیے ہم تو اس آیت کی تفسیر میں قول یا فعل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ کریں گے۔ اگر یہ پیش نہیں کیا جاسکتا اور انشاءاللہ قیامت تک پیش نہیں کرسکیں گے تو یہ مان لیں کہ اس آیت سے ہر کسی نے اپنی سمجھ کے مطابق مطلب نکالا ہے۔
دوست !
کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ جذباتی ہو رہے ہوں ؟؟
آپ کے اس جملے ۔۔۔۔
اگر عبداللہ بن مسعود لھو الحدیث سے گانا نکالتے ہیں تو یہ ان کا ذاتی استدلال ہے۔
سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، قرآن کی آیات کی تفسیر " اپنی ذاتی رائے" سے کیا کرتے تھے !!
استغفراللہ۔
حالانکہ نبی کریم کی یہ حدیثِ بخاری بڑی مشہور ہے :
[ARABIC]فَيَبْقَى نَاسٌ جُهَّالٌ يُسْتَفْتَوْنَ فَيُفْتُونَ بِرَاْيِهِمْ، فَيُضِلُّونَ وَيَضِلُّونَ[/ARABIC]
اس حدیث کا مفہوم بتاتا ہے کہ : جو اپنی رائے سے فتویٰ دے گا وہ خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا۔

کیا کوئی مسلمان ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تفسیر کو گمراہ کہنے کی ہمت رکھتا ہے؟؟ (جبکہ یہ صحابی محترم ایک ہی بات کو تین بار دہرا رہے ہیں اور اللہ کی قسم بھی کھا رہے ہیں )۔
ایک بار پھر استغفراللہ !!

دوست !!
آپ نے کہا تھا کہ اس آیت کی تفسیر میں لھو الحدیث‌ کے ، مختلف صحابہ نے مختلف معانی مراد لئے ہیں۔
کیا آپ کسی ایک ایسے صحابی کا نام گنا سکتے ہیں جنہوں نے واضح‌ طور پر کہا ہو کہ لھو الحدیث کے معنی " غنا " نہیں لئے جا سکتے ؟؟

کم سے کم میری نظر سے کسی صحابی کا ایسا قول نظر سے نہیں گزرا جنہوں نے صاف صاف کہا ہو کہ لھو الحدیث کے معنی "غنا" نہیں ہو سکتے !!
اگر سچ مچ کوئی قول ہم کو ایسا کہیں بھی نہ ملے کہ کوئی ایک بھی صحابی ، عبداللہ بن مسعود کی ایسی تفسیر کا انکار کرتا ہو ۔۔۔ تب ۔۔۔۔
ہم کو یقین رکھنا چاہئے کہ : تمام صحابہ کا اس معنی " غنا " پر اجماع رہا تھا !!

اور یہ جو آپ نے فرمایا ہے :
ہمیں صرف قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی لینے کا حکم ہے
تو براہ مہربانی اس آیت کا مطلب بھی سمجھا دیں :
[ARABIC]فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ[/ARABIC]
اور یہ ضرور بتائیے کہ اہل الذکر میں رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات گرامی کے بعد کون آتے ہیں؟؟
کیا جاوید غامدی صاحب یا مولانا پھلواری صاحب ؟؟
اپنے جواب کی روشنی میں اگر آپ کو اپنے اس جملے (اگر عبداللہ بن مسعود لھو الحدیث سے گانا نکالتے ہیں تو یہ ان کا ذاتی استدلال ہے۔) کی تصحیح کر لینے کی توفیق نصیب ہو جائے تو جزاک اللہ خیر !!
 
پ کا نظریہ ہے۔ اس کا قرآنی حوالہ فراہم کیجئے کہ جو رسول اللہ کی سنت نہیں ہے ، اسے پھر اصحابہ سے سمجھا جائے گا۔ اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ آپ اندھے ہو کر نہ گریں، بلکہ غور کریں ۔ دیکھئے ۔
میں اس گفتگو میں مخل نہیں ہونا چاہتا تھا، لیکن فاروق صاحب کے بعض جملے ایسے ہوتے ہیں جن پر رہا نہیں جاتا۔ قرآن اور حدیث کو اگر صحابہ کے فہم پر نہیں سمجھا جائے گا تو کس کے فہم پر سمجھا جائے؟ جنہیں خود رسول نے قرآن سکھایا اور سمجھایا وہ ابھی اگر اس قابل نہیں تو کیا غلام احمد پرویز کے فہم پر قرآن سمجھا جائے جو ساری عمر انگریز کی چاکری کرتا رہا اور جاتے ہوئے امت کو انکار حدیث کا فتنہ دے گیا۔
بھیا میرے ایک استاد ہیں اور ہمیں بزنس مینجمنٹ اور ریسرچ پڑھاتا تھا وہ کسی دور میں ریڈیو پاکستان میں بھی کام کرتا تھا میں نے غلام احمد پرویز کے بارے پوچھا تو کہنے لگا وہ ہمارے ریڈیو پاکستان میں طبلہ بھی بجاتا تھا، کیا مجھے کوئی اس کی تصدیق کرے گا آیا وہ واقعی بھی طبلہ نواز تھے یا یہ صرف پروپیگنڈہ ہے وہ کس سن میں فوت ہوا۔ میرے استاد محترم خود بھی نمل سے قرآن میں پی ایچ ڈی کررہے تھے ان دنوں، میں پرویزی فکر کے بارے میں نہیں پوچھ رہا کیونکہ جانتا ہوں ٹیڑھافکر۔
 

دوست

محفلین
اگر عبداللہ بن مسعود اپنی ذاتی رائے سے فرما نہیں رہے تو کیا ان پر وحی اتر رہی ہے نعوذ باللہ؟
رسول کا کہا تو گارنٹی ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہے کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے؟
جواب میں صحابہ کے درجے کے بارے میں بتائیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بارے میں بھی بتائیں گے جس میں انھوں نے اپنے اور اپنے اصحاب کی جماعت پر کاربند رہنے کی تلقین کی ہے۔ لیکن میرا سوال وہیں ہے کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا استدلال درست ہے۔ رسول تو معصوم ہے کیا صحابی بھی معصوم ہےاور اسے اللہ کی طرف سے ٹوک دیا جاتا ہے؟
میرے سمجھنے کا اصول سادہ سا اصول ہے کہ اللہ کی طرف دیکھو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھو اور اگر ان سے کسی چیز کی حرمت ثابت نہیں‌ تو پھر کسی اور کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔
 
سلام مسنون
قسیم حیدر صاحب فرماتے ہیں کہ یہ میں نے کہا ہے کہ قران پر غور کرو اندھے ہو کر مت گرو۔ واضح رہے کہ کہ‌ایک معمولی طالب علم قرآن آیات کے حوالے ساتھیوں سے شئیر کرتا ہے۔ قرآن پر غور کرنے کی جو آیت پیش کی وہ من و عن اللہ تعالی کے الفاظ کا ترجمہ ہے۔ میرے اپنے الفاظ نہیں۔ آیت اوپر بھی موجود ہے۔

[ayah]25:73[/ayah] اور وہ لوگ جنہیں اگر نصیحت کی جاتی ہے اپنے رب کی آیات سنا کر تو نہیں گرتے اس پر بہرے اور اندھے بن کر

غور کرنے کا حکم

[ayah]59:21[/ayah] اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل فرماتے تو (اے مخاطب!) تو اسے دیکھتا کہ وہ اﷲ کے خوف سے جھک جاتا، پھٹ کر پاش پاش ہوجاتا، اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کر رہے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں

38:29 یہ کتاب جسے نازل کیا ہے ہم نے تمہاری طرف بڑی برکت والی ہے اور (نازل کی ہے) اس غرض سے کہ غور و فکر کریں اس کی آیات پر اور نصیحت حاصل کریں (اُس سے) عقل و شعور رکھنے والے۔

47:24 سو کیا نہیں غور کرتے یہ قرآن پر کیا ان کے دلوں پر قفل چڑھے ہوئے ہیں؟

[ayah]7:176[/ayah] اور اگر ہم چاہتے تو اسے ان (آیتوں کے علم و عمل) کے ذریعے بلند فرما دیتے لیکن وہ (خود) زمینی دنیا کی (پستی کی) طرف راغب ہوگیا اور اپنی خواہش کا پیرو بن گیا، تو (اب) اس کی مثال اس کتے کی مثال جیسی ہے کہ اگر تو اس پر سختی کرے تو وہ زبان نکال دے یا تو اسے چھوڑ دے (تب بھی) زبان نکالے رہے۔ یہ ایسے لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، سو آپ یہ واقعات (لوگوں سے) بیان کریں تاکہ وہ غور و فکر کریں

باذوق صاحب پوچھتے ہیں کہ :
اور یہ ضرور بتائیے کہ اہل الذکر میں رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات گرامی کے بعد کون آتے ہیں؟؟
پوچھنے کا مقصد ہے کہ یہ اہل الذکر کون لوگ ہیں۔
[ayah]21:7[/ayah] [arabic]وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ [/arabic]
اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ سے پہلے (بھی) مَردوں کو ہی (رسول بنا کر) بھیجا تھا ہم ان کی طرف وحی بھیجا کرتے تھے (لوگو!) تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تم (خود) نہ جانتے ہو

اہل ذکر کون ہیں۔ قرآن کیا کہتا ہے؟ وہ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور اللہ کی کتاب کا ذکر کرتے ہیں اور اس کو سمجھتے ہیں؟
[ayah]2:152[/ayah] [arabic]فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ [/arabic]
سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو

یہ اہل ذکر کون ہیں، قرآن کیا کہتا ہے ؟ جو صاحب عقل و دانش ہیں۔ ، مزید دیکھئے، یقیناً وہ لوگ جو اصحابہ کرام تھے اور اس وقت کے صاحب عقل و دانش تھے، ان سے پوچھا جاتا تھا اور وہ اپنی عقل بھر جواب دیتے تھے۔ رسول اکرم کے بعد کسی شخص کا جواب حتمی نہیں بلکہ عقل و دنش کا محتاج ہے۔ کیا اللہ تعالی نے صاحب عقل ودانش پیدا کرنا بند کردیے ہیں؟
[ayah]2:269[/ayah] [arabic] يُؤتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الْأَلْبَابِ[/arabic]
جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے، اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں

یہ الذین یذکرون ، ذکر کرنے والے لوگ، صاحب ذکر لوگ ہیں کون؟ قرآن کیا کہتا ہے؟
[ayah]3:191[/ayah] [arabic]الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [/arabic]
یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اس کی عظمت اور حُسن کے جلووں) میں فکر کرتے رہتے ہیں، (پھر اس کی معرفت سے لذت آشنا ہو کر پکار اٹھتے ہیں:) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے

تو بھائی باذوق ، اگر آپ کو پتہ نہیں تھا تو آپ کو اب پتہ چل گیا کہ یہ اہل الذکر اور صاحب ذکر کون ہیں، یہ آپ کے دینی ٹیچرز ہیں ، صاحب علم افراد ہیں ۔ آپ کوئی اچھے صاحب ذکر، عالم یا ٹیچر ڈھونڈیے اور ان سے پوچھا کیجئے۔ ان روایتوں نے آپ کو کہیں کا نہیں رکھا ہے صاحب۔ اگر آپ تھوڑا تھوڑا کرکے قران بامعنی پڑھ لیجئے تو یہ صورتحال تبدیل ہو جائے گی اور اندھی تقلید چھوٹ جائے گی۔

آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ - نعوذ‌باللہ - رسول اکرم ایک مطلق العنان ، مرضی کے مالک ، اللہ کی آیات کو اٹھا کر ایک طرف رکھنے والے اور خواہشات کی پیروی کرنے والے اللہ کے رسول تھے؟ کہ ان کا جب دل چاہا قران چھوڑ دیا اور جب چاہا قران تھام لیا۔ یہ سنہری اصول و قوانین جو اللہ تعالی نے قرآن کی کتاب کی شکل میں اور رسول اکرم کے قول و فعل سے پیش کئے وہ نبی اکرم قرآن کے خلاف کیوں کر جاسکتے ہیں؟

بھائی ظہور احمد سولنگی لکھتے ہیں ہیں کہ قران پر غور فکر کرنا، اللہ کا حکم نہیں ہے، جو بھی اللہ کی کتاب پر غور و فکر کرتا ہے ، تو یہ پرویزیت ہے۔ اوپر کی آیات آپ سے شئیر کی ہیں دیکھ لیجئے۔ یہ آیات اندھی تقلید کے لئے کہہ رہی ہیں یا غور فکر کے لئے۔ قرآن تمام وقتوں کے لئے ہے، جوں جوں ہمارا علم بڑھتا جائے گا، ہم قران پر غور کرتے رہیں گے اور ہم قرآن کو بہتر سمجھنے کے قابل ہوتے جاتے ہیں۔
 
لو بھئی اللہ والیو وہی پرانی بحث پھر سے شروع ہوگئی ہے کہ کتب روایات ہیں یا کتب حدیث۔ وغیرہ وغیرہ۔ میرا خیال ہے کہ میں اب اس کتاب کو سکین کرکے پی ڈی ایف یہاں مہیا کردوں تاکہ خلق خدا جان سکے کہ موسیقی صرف "حرام" ہی نہیں حلال بھی ہوتی ہے۔ اور توقع رکھوں کہ آئندہ چند ماہ میں اس ساٹھ سال پرانی کتاب کا رد بھی لکھا جاچکا ہوگا جیسا کہ غامدی صاحب کی کتاب کا لکھا گیا ہے (حیرت ہے دین کے ٹھیکیداروں کی نظروں سے یہ کتاب کیسے بچ گئی).
انشاءاللہ آئندہ دو ایک دن میں پی ڈی ایف مہیا ہوجائے گا۔ اس کے بعد آپ چاہیں‌ تو اس کتاب کے رد سے اس دھاگے کو بھر دیں۔ مجھے الحمد اللہ اس بات کی تسلی ہوگئی ہے کہ موسیقی حرام ہی نہیں حلال بھی ہوتی ہے اور انشاءاللہ اب دل پر کوئی بوجھ نہ رہے گا۔
وسلام
السلام علیکم و رحمۃ اللہ ، بھائی و دوست ، آپ کی اس پی ڈی ایف کا انتظار رہے گا ، دین کے ٹھیکیدار کون ہیں ؟؟؟
موسیقی کے آلات میں سے صرف دف کے خاص مواقع پر استعمال کا جواز ہے ، باقی ان شا اللہ آپ کے مزید معلومات فراہم کرنے پر ، میں نے اپنے سابقہ جواب میں آپ سے کچھ پوچھا تھا ، برا نہ منایا ہو تو جواب عنایت فرما دیجیے اور اس کا بھی کہ دین کے ٹھیکیدار کون ہیں ؟ و السلام علیکم۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top