]::::: اسلام میں موسیقی اور گانے ::::: پہلا حصہ ::: شرعی حیثیت :::::

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
مجھے آج ایک کتاب ملی ہے اسلام اور موسیقی کے عنوان سے۔ اس میں بڑی صراحت کے ساتھ ان تمام اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ صاحب کتاب کے مطابق موسیقی کی حرمت میں پیش کی جانے والی ایک بھی حدیث صحیح نہیں۔ انشاءاللہ آئندہ دنوں میں اس میں سے منتخب اقتباسات یہاں پوسٹ کرتا ہوں۔
وسلام
دوست بھائی ، جہاں تک مجھے علم ہے "اسلام اور موسیقی" نامی کتاب کے مصنف جناب جاوید احمد غامدی ہیں۔
اگر آپ اسی کتاب کی بات کر رہے ہیں تو اطلاعاً عرض ہے کہ یہ کتاب دراصل غامدی صاحب کے اپنے رسالے "اشراق" کے مارچ۔2004ء کے شمارے میں شامل ایک طویل مضمون کی کتابی شکل ہے۔ اس کا جواب انہی دنوں میں ہفت روزہ "الاعتصام" میں قسطوار طبع ہوا تھا۔ پھر بعد میں اس کو علیحدہ کتابی شکل میں شائع بھی کیا ہے۔ 137 صفحات کی کتاب ہے ، جس کا عنوان ہے : "اسلام اور موسیقی : شبہات و مغالطات کا ازالہ"۔ اس کتاب کے مصنف جناب ارشاد الحق اثری ہیں۔
میری آپ سے دوستانہ گذارش ہے کہ آپ غامدی صاحب کی کتاب کے اقتباسات کمپوز کرنے سے قبل یہ جوابی کتاب بھی پڑھ لیں تو شائد کچھ خود سے درست فیصلہ کر سکیں گے۔
آپ ذ۔پ سے اپنا ای۔میل پتا دیں تو میں آپ کو یہ کتاب فارورڈ کر دوں گا۔
جزاک اللہ خیرا
 
عادل سہیل صاحب آپ کافی اچھا لکھتے ہیں لیکن موبائل فون پر تلاوت کی ٹونز کا استعمال ٹھیک نہیں کیوں وہ اس فتوٰے میں موجود ہے

كيا موبائل فون ميں موجود ٹونز استعمال كرنے ميں كوئى شبہ ہے، آيا انہيں موسيقى شمار كيا جائيگا يا نہيں ؟
صراحت كے ساتھ ميں كہنا چاہونگا كہ كيا ميں اس شبہ سے بچنے كے ليے موبائل فون ميں ٹونز كى جگہ قرآنى آيت استعمال كر سكتا ہوں ؟
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ، جزاک اللہ خیرا بھائی ، میں آپ کے اس مراسلے کا مقصد نہیں سمجھ سکا اور لمبائی زیادہ وہنے کے سبب نیچے کی عبارات یہاں اقتباس سے حذف کر دی ہیں ، آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ تقریبا میرے مضمون میں شامل ہے ، اور آپ کے اس سوال کا جواب بھی ، کیا اُس میں کوئی کمی یا غلطی ہے جس کی آپ نشاندہی کرنا چاہتے ہیں ؟؟؟ ازراہ کرم وضاحت فرما دیجیے ، جزاک اللہ خیرا ، و السلام علیکم۔
 
بھائی عادل سہیل ، بہت ہی شکریہ کہ یہ تحریر آپ کی ہے۔ آپ نے جو بھی حوالہ دئے ہیں ان کا موسیقی سے کوئی بھی تعلق نہیں‌ہے۔ معذر چاہتا ہوں لیکن آپ نے جن آیات یا روایات کو حوالہ دیا ہے ان کو خیالات کا پھیلانا تو کہہ سکتے ہیں لیکن کسی طور بھی موسیقی کی ممانعت نہیں۔
موسیقی منع ہے یہ آپ کا اپنا خیال تو ہوسکتا ہے لیکن قران و سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی طور بھی ثابت نہیں آپ دوبارا ان آیات کو بغور دیکھئے۔ انصاف کیجئے زبردستی نہ کیجئے۔ اس پر بہت بحث پہلے بھی ہو چکی ہے۔
السلام علیکم ، بھائی فاروق ، میں نے ان آیات و احادیث سے جو کچھ سمجھا وہ بیان کیا ہے ، اور مجھے اس میں کوئی شک نہیں ، آپ اگر ان دلائل کا کوئی اور مصرف یا مفہوم کسی اور دلیل یا دلائل کی روشنی میں رکھتے ہیں تو مجھے بھی بتایے ، ان شا اللہ قواعد و قوانین کے مطابق اور اچھے مسلمان بھائیوں کی طرح ہم گفتگو کریں گے ، اللہ ہمیں حق پہچاننے اور سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سے قبول فرمائے ،
میرے والد صاحب غفر اللہ لہ نے میرا نام عادل سہیل رکھا ، جب سے اس نام کا معنی معلوم ہوا اللہ سے یہ ہی دعا کرتا ہوں کہ اللہ اسم با مسمی بنا دے ،
زبردستی والا معاملہ نہیں ہے فاروق بھائی ((( لا اِکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی )))
یہ جانتے ہوئے کہ قوانین و اصولوں کا مآخذ قرآن حکیم اور (اقوال و اعمال رسول) سنت نبوی ہیں۔
کیا فتوی سازی یعنی قانون سازی ایک منتخب قانون ساز ادارہ کا حق ہے؟‌ یا کہ ہر ٹیچر اور ہر معلم کا؟ کوئی صاحب اس پر روشنی ڈالیں؟
کیا صرف ایک لفظ لہو الحدیث سے یہ ثابت کرنا کہ یہ گانے بجانے کی بابت ہے درست ہے؟ کیا کوئی صاحب ان الفاظ کے الگ الگ معنی فراہم کرسکتے ہیں؟
فاروق بھائی فتوی سازی نہیں جاتی ، بلکہ قران و احادیث کی بنیاد پر فتویٰ دیا جاتا ہے ، اور اسلام کے احکامات اور قوانین اللہ نے بنا کر مکمل کر دیے ، اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اقوال و افعال کے ذریعے اُن شرح و تفسیر بھی کروادی ، پس کسی کے لیے تشریحی قوانین وضع کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ، نئے دور کے نئے مسائل کے حل اور فتاوی کے لیے علماء ہیں ، فتوی دینا حق تو کسی کا بھی نہیں جی ہاں جس کو اللہ نے جتنا علم دیا ہے اُس علم کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے استعمال کر کے کسی معاملے کا حکم دوسروں تک پہنچانا حسب استطاعت فرض یا واجب ہوتا ہے ،
لہو الحدیث ایک لفظ نہیں دو الفاظ کا مرکب ہے ، اور اسے جملہ کہا جاتا ہے ، اور ان دو الفاظ کا لغوی معنی بالترتیب "" بے کار ، فالتو ، کسی کام سے توجہ ہٹانا ، کھیل کود "" اور """ نیا ، بات ، """ ہے ، اب اللہ کے کلام میں استعام شدہ """ لہو الحدیث """ کو یا کسی بھی قول کو صرف لغوی معنی میں لیا جائے ، تو بات کیا کی کیا بنائی جا سکتی ہے ، جیسا کہ ہوتا چلا آیا ہے ، لیکن یہ راہ حق نہیں ، اللہ کے کلام کو سمجھانے کی ذمہ داری اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی ّلہ وسلم ہر رکھی ، اور اُنہیں سے ہمیں سمجھنا ہے ، اور اُن کے بعد اُن کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے ، اور پھر علماء امت سے جن کا فہم پہلی دو کسوٹیوں پر پورا اترتا ہو ،
یہ سب کوئی فلسفہ نہیں فاروق بھائی ، اللہ کے احکامات ہی ہیں ، و السلام علیکم۔
 
عادل بھائی۔ آپ کے اس اخری جواب کا بہت ہی شکریہ۔ آپ نے دو امور پر اپنی رائے کا اظہار کیا، ایک تو قانون سازی کا حق علماء یعنی عالم یعنی ٹیچر یا مدرس کو دینے کا --- میں اس ضمن میں‌بعد میں‌عرض‌کروں‌گا۔ تاکہ موضوع سے نہ ہٹ جاؤں۔ اس بارے میں مزید بعد میں۔

دوسری بات آپ نے لہو الحدیث کا ترجمہ فراہم کیا۔
آپ کے ممکنہ تراجم سے ہم یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ لہو الحدیث کے دو الفاظ یا ایک اصطلاح کے معانی ہم ---- بے کار بات --- یا --- لغو بات ---- کے لے سکتے ہیں۔ اس سے بے کار بات سے نغمہ گانا، کس طرح بنتا ہے۔ آپ نے کچھ روایتیں‌اس مد میں فراہم کیں۔ جن میں رسول اکرم کا مبہم فرمان ضرور ہے لیکن ، کسی کو گانے سے روکنے ، منع کرنے یا ناراضگی اور برہمی کا اظہار کرنے کی سنت اور عمل نہیں ہے۔

رسول اکرم کے سامنے ایک سے زائید بار گائے جانے کی روایات موجود ہیں ۔ جس میں رسول اکرم نے نغمہ گانے سے روکنے والے کو روکا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ روایات آپ کے علم میں‌ہیں۔ آپ کیا آپ ان روایات کو جن میں رسول اکرم کے سامنے نغمہ گایا گیا، یہاں فراہم کرسکتے ہیں؟

کیا آپ متفق ہیں کہ قران میں نغمہ کو نغمگی سے ادا کرنے سے منع کرنے والی، کوئی واضح‌آیت موجود نہیں‌ہے۔
 

arifkarim

معطل
دوستو بحث و مباحثہ میں کیوں پڑتے ہو۔ فلم خدا کیلئے دیکھ لو۔ موسیقی کی حقیقت جان جاؤ گے۔
اگر موسیقی اسلام میں حرام ہے تو پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کو ساز اور رگوں کا علم کیوں دیا گیا؟
کیا یہ فن و علم اس وقت خدا کی نظر میں جائز تھا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حرام ہو گیا؟
 

دوست

محفلین
دوست بھائی ، جہاں تک مجھے علم ہے "اسلام اور موسیقی" نامی کتاب کے مصنف جناب جاوید احمد غامدی ہیں۔
اگر آپ اسی کتاب کی بات کر رہے ہیں تو اطلاعاً عرض ہے کہ یہ کتاب دراصل غامدی صاحب کے اپنے رسالے "اشراق" کے مارچ۔2004ء کے شمارے میں شامل ایک طویل مضمون کی کتابی شکل ہے۔ اس کا جواب انہی دنوں میں ہفت روزہ "الاعتصام" میں قسطوار طبع ہوا تھا۔ پھر بعد میں اس کو علیحدہ کتابی شکل میں شائع بھی کیا ہے۔ 137 صفحات کی کتاب ہے ، جس کا عنوان ہے : "اسلام اور موسیقی : شبہات و مغالطات کا ازالہ"۔ اس کتاب کے مصنف جناب ارشاد الحق اثری ہیں۔
میری آپ سے دوستانہ گذارش ہے کہ آپ غامدی صاحب کی کتاب کے اقتباسات کمپوز کرنے سے قبل یہ جوابی کتاب بھی پڑھ لیں تو شائد کچھ خود سے درست فیصلہ کر سکیں گے۔
آپ ذ۔پ سے اپنا ای۔میل پتا دیں تو میں آپ کو یہ کتاب فارورڈ کر دوں گا۔
جزاک اللہ خیرا
جناب میرے پاس کتاب مولانا شاہ محمد جعفر پھلواری کی لکھی ہوئی ہے جس کا نام بھی اسلام اور موسیقی ہی ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1950 کے عشرے میں شائع ہوا تھا۔ طبع سوم 1990 کی کاپی میرے پاس ہے۔ میرے خیال سے یہ میرے اور میرے والد کی پیدائش سے پہلے کا ہی واقعہ ہے۔
 

وجی

لائبریرین
عادل سہیل صاحب آپ کافی اچھا لکھتے ہیں لیکن موبائل فون پر تلاوت کی ٹونز کا استعمال ٹھیک نہیں کیوں وہ اس فتوٰے میں موجود ہے

كيا موبائل فون ميں موجود ٹونز استعمال كرنے ميں كوئى شبہ ہے، آيا انہيں موسيقى شمار كيا جائيگا يا نہيں ؟
صراحت كے ساتھ ميں كہنا چاہونگا كہ كيا ميں اس شبہ سے بچنے كے ليے موبائل فون ميں ٹونز كى جگہ قرآنى آيت استعمال كر سكتا ہوں ؟
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ، جزاک اللہ خیرا بھائی ، میں آپ کے اس مراسلے کا مقصد نہیں سمجھ سکا اور لمبائی زیادہ وہنے کے سبب نیچے کی عبارات یہاں اقتباس سے حذف کر دی ہیں ، آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ تقریبا میرے مضمون میں شامل ہے ، اور آپ کے اس سوال کا جواب بھی ، کیا اُس میں کوئی کمی یا غلطی ہے جس کی آپ نشاندہی کرنا چاہتے ہیں ؟؟؟ ازراہ کرم وضاحت فرما دیجیے ، جزاک اللہ خیرا ، و السلام علیکم۔

عادل سہیل صاحب آپکی پہلی پوسٹ میں آپنے موبائل میں آیات کی تلاوت کا ذکر کیا تھا
اس بارے میں میری پوسٹ میں آخری پیرا دیکھ لیں
سائل نے سوال ميں يہ ذكر كيا ہے كہ اس نے اپنے موبائل ميں قرآنى آيت كى ٹون لگا ركھى ہے، اولى اور بہتر تو يہى ہے كہ ايسا نہ كيا جائے، كيونكہ خدشہ ہے كہ ايسا كرنے ميں قرآن مجيد كى توہين ہے، تو يقينا اللہ تعالى نے قرآن مجيد اس ليے نازل فرمائى ہے تا كہ يہ كتاب ہدايت كى كتاب بنے جو اس قوم كو بہتر اور اچھى راہ كى راہنمائى كرے، تو يہ كتاب قرآن مجيد پڑھى جائے، اور ترتيل كے ساتھ اس كى تلاوت ہو، اور اس كے معانى پر غور و فكر كيا جائے، اور اس پر عمل كيا جائے، نہ كہ يہ بطور الارم استعمال كيا جائے، تو سائل كے ليے يہى كافى ہے كہ وہ اپنے موبائل فون كو عام ٹون پر كر لے جس ميں كوئى موسيقى نہ ہو.
 

ابن بطوطہ

محفلین
میں نے ان آیات و احادیث سے جو کچھ سمجھا وہ بیان کیا ہے ، اور مجھے اس میں کوئی شک نہیں ، آپ اگر ان دلائل کا کوئی اور مصرف یا مفہوم کسی اور دلیل یا دلائل کی روشنی میں رکھتے ہیں تو مجھے بھی بتایے

برادر عادل سہیل جو باتیں آپ نے تحریر کی ہیں جو کچھ سمجھا، میں چاہوں گا کہ آپ نے آیت اور حدیث سے جو استدلال پکڑا ہے وہ یقینا آپ کی سمجھ کی ہی مرہون منت ہوگا جسے آپ نے بیان کیا، میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو سمجھے وہی سمجھ آپ من وعن دوسروں میں منتقل کروانا چاہتے ہیں لیکن کیوں؟۔ جب آپ اپنی سمجھ سے اپنے مطلب کا استدال لینے پر بضد ہیں تو دوسروں کو آپ کیوں اُن کی سمجھ استعمال کرنے کا موقع نہیں دیتے اب آپ کی اس بات سے جو میں سمجھا ہوں وہ یہ کہ آپکو دوسروں کی سمجھ پر شک ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اس آیت اور حدیث کا ملطلب ویسا نہیں سمجھ رہے جیسا آپ نے سمجھا تو آپ کی نظر میں وہ ناقص العقل ہیں جس کی وجہ سے اُن کی ناقص سمجھ کو سدھارنے کا بیڑا آپ نے خود ہی اُٹھا لیا اور ساتھ ہی اپنی سمجھ کا سکہ جمانا چاہتے ہیں کیا یہ کھُلا تضاد نہیں ہے؟۔ اور جس قاعدے کی بات آپ نے کی ہم سب کو اُس سے اتفاق کرنا چاہئے اور گفتگو کہ اچھے مسلمان بھائیوں کی طرح شریعت کے بتائے ہوئے ضابطوں کے احداف میں رہ کر کرنی چاہئے۔
 

باذوق

محفلین
دوستو بحث و مباحثہ میں کیوں پڑتے ہو۔ فلم خدا کیلئے دیکھ لو۔ موسیقی کی حقیقت جان جاؤ گے۔
اگر موسیقی اسلام میں حرام ہے تو پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کو ساز اور رگوں کا علم کیوں دیا گیا؟
کیا یہ فن و علم اس وقت خدا کی نظر میں جائز تھا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حرام ہو گیا؟
بھائی arifkarim
پہلی بات تو یہ کہ مطلق بحث نہ تو ممنوع ہے اور نہ ہی اسلامی شریعت میں ناجائز قرار دی گئی ہے ۔ جو بحث ممنوع ہے وہ شک و شبہ کی بنیاد پر کیا جانے والا جھگڑا اور لایعنی بحث ہے ۔
ورنہ احکامی و اختلافی مسائل پر دعوت و تحقیق کے لیے بحث و مباحثہ سے اسلام میں روکا نہیں گیا ہے ۔
قرآن میں فرمان باری تعالیٰ ہے :
[ARABIC]وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ[/ARABIC]
اور اچھے طریقے کے ساتھ ان لوگوں سے مجادلہ (بحث) کرو۔
( سورة النحل : 16 ، آیت : 125 )
اسی طرح ۔۔۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ایک کافر سے مناظرہ قرآن کریم کی آیت ( سورة البقرة : 2 ، آیت : 258 ) میں مذکور ہے ۔

آپ نے لکھا :
حضرت سلیمان علیہ السلام کو ساز اور رگوں کا علم کیوں دیا گیا؟
استغفراللہ !!
بھائی محترم ! آپ سے ادباً گذارش کروں گا کہ : جہاں علم نہ ہو وہاں خاموشی بہتر ہوتی ہے۔
غالباً آپ یہاں داؤد علیہ السلام لکھنا چاہ رہے تھے کیونکہ "مزمار" کے الفاظ حضرت داؤد علیہ السلام سے متعلق ہیں۔
اور یہ تو انبیاء کی توہین ہوگی جو ہم یوں کہیں کہ انہیں ساز اور راگوں کا علم دیا گیا تھا۔
لاحول ولا قوة

دراصل دورِ حاضر کے علامہ جناب غامدی اور دیگر موسیقی پرستوں کو کچھ روایات کے ظاہری معنوں سے دھوکا لگا ہے۔ اگر وہ ذرا مزید تحقیق کر لیتے کہ متقدمین ائمہ و علماء نے ان روایات کی کیا تشریح کی ہے تو شائد وہ ایسے مغالطات پھیلانے سے بچ جاتے۔

عربی لفظ "غنا" سے مراد ، اکثر و بیشتر موسیقی نوازوں کے نزدیک ساز اور راگوں سے مزین گانے/نغمے لئے جاتے رہے ہیں۔
جبکہ دیکھا جانا چاہئے کہ اہل عرب کے یہاں "غنا" کا کیا مفہوم رہا ہے؟

علامہ ابن منظور رحمة اللہ علیہ ، لسان العرب میں لکھتے ہیں :
[ARABIC]كلُّ مَنْ رَفَع صوتَه ووَالاهُ فصَوْتُه عند العرب غِناءٌ.[/ARABIC]
جو بلند آواز کرے اور اسے خوبصورت و مشتاق بنائے ، اہل عرب کے ہاں وہ غنا ہے۔
(بحوالہ : لسان العرب ، جلد:غ)

مزید ۔۔۔۔ علامہ ابن منظور نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متعلق حدیث بیان کر کے لکھا ہے:
[ARABIC]أَي تُنْشِدانِ الأشعارَ التي قيلَتْ يومَ بُعاث، وهو حربٌ كانت بين الأنصار، ولم تُرِدِ الغِناء المعروفَ بين أَهلِ اللَّهْوِ واللَّعِبِ، وقد رَخَّصَ عمر، رضي الله عنه، في غناءِ الأعرابِ وهو صوتٌ كالحُداءِ.[/ARABIC]
وہ دونوں اشعار پڑھتی تھیں جو جنگ بعاث کے دن کہے گئے تھے اور جنگ بعاث انصار (اوس و خزرج) کے مابین ہوئی تھی۔ اس سے وہ غنا مراد نہیں ہے جو اہل لہو و لعب کے نزدیک معروف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے "غنا اعراب" کی رخصت دی ہے اور وہ ، وہ آواز ہے جو اونٹوں کے ہانکتے ہوئے نکالی جاتی ہے۔
(حوالہ : سابقہ)

علامہ ابن اثیر "النہایہ" (ج:3 ، ص:392) میں لکھتے ہیں:
اس غنا (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متعلق حدیث) سے مراد لہو و لعب میں مبتلا لوگوں کا غنا نہیں بلکہ سادہ طریقہ سے اشعار پڑھنا مراد ہے۔
یہی کچھ علامہ عینی نے عمدة القاری (ج:6 ، ص:269-271) میں کہا ہے۔
مزید ۔۔۔۔۔
حافظ ابن حجر العسقلانی ، "فتح الباری" (ج:2 ، ص:442) میں لکھتے ہیں:
[ARABIC]أن الغناء يطلق على رفع الصوت وعلى الترنم الذي تسميه العرب النصب بفتح النون وسكون المهملة وعلى الحداء ولا يسمى فاعله مغنيا وإنما يسمى بذلك من ينشد بتمطيط وتكسير وتهييج وتشويق بما فيه تعريض بالفواحش أو تصريح[/ARABIC]
غنا کا اطلاق بلند آواز پر ہوتا ہے اور اسے وہ (مغنی) گانے والا نہیں سمجھتے بلکہ مغنی اسے کہتے ہیں جو مختلف طریقہ پر آواز نکالتا ہے ، جس میں نشیب و فراز پایا جاتا ہے اور طبیعت اس سے برانگیختہ ہوتی ہے اور شوق پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں فواحش کا تصریحاً یا تعریضاً ذکر ہوتا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متعلق حدیث سے من چاہا مفہوم نکال کر جناب غامدی نے یہ جو فرمایا تھا کہ گانے والیاں "پیشہ ور مغنیہ" تھیں تو اس بات پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ اسی حدیث کے بعد وہ حدیث بھی موجود ہے جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صاف فرماتی ہیں کہ :
[ARABIC]قالت: وليستا بمغنيتين[/ARABIC]
(ترجمہ : انہوں نے فرمایا کہ وہ دونوں مغنیہ نہ تھیں)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اتنی صاف وضاحت کے بعد "غنا" سے متعلق اس حدیث پر بیجا بحث "ضد" کے زمرے میں ہی شمار ہوگی۔

یہ تو ہوئی "غنا" کی بحث۔
اب آئیے حضرت داؤد علیہ السلام سے متعلق لفظ "مزامر" پر کچھ وضاحتیں ہوں۔

انسانی فطرت ہے کہ حسن و خوبصورتی جہاں بھی ہو بھلی معلوم ہوتی ہے اور ہر سلیم الفطرت انسان اس کی تحسین کرتا ہے (بشرطیکہ اس میں حرمت کا پہلو نہ ہو)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش الحانی سے قرآن کریم پڑھنے کی تحسین کی ہے اور حکم بھی دیا ہے :
[ARABIC]زيِّنوا القرآن بأصواتكم[/ARABIC] ( اپنی آوازوں سے قرآن کی تزیین کرو)
[ARABIC]ليس منَّا من لم يتغنَّ بالقرآن[/ARABIC] ( جو خوش آوازی سے قرآن نہیں پڑھتا وہ ہم مسلمانوں کے طریق پر نہیں)

اس حدیث میں جو لفظ "[ARABIC]يتغنَّ[/ARABIC]" استعمال ہوا ہے کیا وہ دورِ حاضر کے غنا یا ساز و آواز والے گانے کے معنوں میں ہے؟؟
نہیں ! بلکہ یہاں "حسن صوت" مراد ہے۔
جیسا کہ یہی معنی "حسن صوت" امام احمد نے "المغنی" (ج:10 ، ص:161) میں بیان کئے ہیں۔
امام شافعی ، ابن ابی ملیکہ اور عبداللہ بن مبارک وغیرہ کے حوالے سے فتح الباری (ج:9 ، ص:70) میں بیان ہوا ہے : [ARABIC]انما هوا تحسين الصوت[/ARABIC] (اس سے مراد آواز کی خوبصورتی ہے)
علامہ ابن منظور نے امام ابن الاعرابی سے نقل کیا ہے کہ عرب سفر کے دوران عادتاً سفری گانے گاتے ، اپنی محفلوں اور مجلسوں میں بھی گنگناتے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بجائے قرآن کریم کو خوش الحانی سے پڑھنے کا حکم فرمایا۔ (بحوالہ : لسان العرب ، جلد:غ ، ص:373)
امام ابن الاعرابی کا یہی قول علامہ زبیدی نے تاج العروس (ج:10 ، ص:272) میں نقل کیا ہے۔
اور اسی قول کو حافظ ابن حجر العسقلانی نے فتح الباری (ج:9 ، ص:70) میں "قولِ حسن" قرار دیا ہے۔
حافظ ابن قیم تو فرماتے ہیں:
اس حدیث میں "غنا" کی ترغیب نہیں بلکہ اس طریقہ پر قرآن پڑھنے کا حکم ہے کہ یہ شوق پورا کرنا ہے تو قرآن پاک پڑھ کر پورا کر لو ، کوئی اور طریقہ اختیار نہ کرو۔
(بحوالہ : کشف الغطاء ، ص:203-204)

مگر کیا کیا جائے کہ دورِ حاضر کے فلموں اور گانوں کے دیوانے ، اس روایت سے بھی گانے کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔ اللہ کی پناہ۔

[ARABIC]يا أبا موسى لقد أوتيت مزمارا من مزامير آل داود[/ARABIC]
(اے ابو موسیٰ ، تجھے آل داؤد کے مزامیر میں سے ایک مزمار دیا گیا ہے)
کتاب التوحید میں امام بخاری نے جس باب کے تحت یہ حدیث لائی ہے ، اس کا عنوان ہی انہوں نے یوں رکھا ہے:
[ARABIC]باب حسن الصوت بالقراءة[/ARABIC] (خوش الحانی کے ساتھ تلاوت کرنا)
اس میں شک نہیں کہ "مزمار" کے معنی "ساز" کے ہیں۔
لیکن ۔۔۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا مزمار کے ایسے لغوی معنی کو قبول کر کے ہم کو کہہ دینا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "آلاتِ موسیقی" کے ساتھ اللہ کی حمد و ثنا کو جائز و حلال قرار دیا ہے؟؟
اگر "ہاں" تو پھر ۔۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اور اگر نہیں ۔۔۔۔
تو آئیے ذرا دیکھ لیں کہ شارحین حدیث نے اس کے کیا معنی بیان کئے ہیں۔

[ARABIC]والمراد بالمزمار الصوت الحسن وأصله الالة أطلق اسمه على الصوت للمشابهة[/ARABIC]
مزمار سے مراد "حسن صوت" ہے۔ مزمار آلہ ہے ، اس (آلہ) کا آواز پر اطلاق اس کی خوبصورتی کی مشابہت کی بنا پر ہے۔
(حوالہ : فتح الباری ، ج:9 ، ص:93)

یہی معنی علامہ عینی رحمة اللہ نے "عمدة القاری" (ج:20 ، ص:56) میں بیان کئے ہیں۔ اور دیگر شارحین نے بھی انہی معنوں کا استعمال کیا ہے۔
ایسے معنی کسی شارح نے بیان نہیں کئے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری "مزمار" بجاتے اور قرآن پڑھتے تھے یا حضرت داؤد علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے گیت آلاتِ موسیقی پر گاتے تھے۔

حافظ ابن کثیر رحمة اللہ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی اسی صفت کے بارے میں لکھا ہے :
[ARABIC]وذلك لطيب صوته بتلاوة كتابه الزبور, وكان إذا ترنم به تقف الطير في الهواء[/ARABIC] (تفسیر ابن کثیر ، ج:3 ، ص:79)
حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کر دینا ان کی اچھی آواز کے ساتھ زبور کی تلاوت کرنے کی بنا پر تھا۔ جب وہ ترنم سے پڑھتے تو پرندے ہوا میں رک جاتے۔

مزید ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔
مولانا مودودی رحمة اللہ رقم طراز ہیں :
حضرت داؤد جب اللہ کی حمد و ثنا کے گیت گاتے تھے تو ان کی بلند اور سریلی آواز سے پہاڑ گونج اٹھتے تھے ، پرندے ٹھہر جاتے اور ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ اس معنی کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں ذکر آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ، جو غیر معمولی طور پر خوش آواز بزرگ تھے ، قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے تو ان کی آواز سن کر کھڑے ہو گئے اور دیر تک سنتے رہے۔ جب وہ ختم کر چکے تو آپ نے فرمایا :
[ARABIC]لقد أوتيت مزمارا من مزامير آل داود[/ARABIC]
یعنی اس شخص کو داؤد کی خوش آوازی کا ایک حصہ ملا ہے۔
(بحوالہ تفہیم القرآن ، الانبیاء :79)

اگر اس حدیث میں "مزمار" کے معنی "ساز" لئے جائیں اور آلاتِ موسیقی کے ساتھ حضرت داؤد علیہ السلام کی تسبیح و تحمید کو مانا جائے تو اس کے یہ معنی بھی ہوئے کہ معاذاللہ قرآن مجید کی تلاوت اور تسبیح و تحمید کے وقت آلاتِ موسیقی کا اہمتمام ہونا چاہئے۔
محترمین ! ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے گا ۔۔۔۔ کیا یہ ممکن ہے؟

ملا علی قاری تو "شرح فقہ الاکبر" (ص:167) میں لکھتے ہیں:
الخلاصہ میں ہے کہ جو دَف اور لکڑی بجا کر قرآن پڑھتا ہے وہ کافر ہے۔ میں (ملا علی قاری) کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت پڑھتے ہوئے دَف اور لکڑی بجانا بھی اس کے قریب ہے۔ اسی طرح "ذکر اللہ" پر تالی بجانے کا بھی یہی حکم ہے۔

اختتامیہ :
"مزمار" کے لفظ کا دھوکا ۔۔۔۔ اس وقت پوری طرح زائل ہو جاتا ہے جب یہی حدیث ذیل کے الفاظ سے بھی ہمیں مل جاتی ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
[ARABIC]لقد أوتي أبو موسى من أصوات آل داود[/ARABIC]
ابوموسیٰ کو آل داؤد کی خوش آوازی کا کچھ حصہ ملا ہے۔
صحيح الجامع الصغير ، ص:916 ، ح:5123

یاد رکھا جانا چاہئے کہ خوش الحانی کی تحسین بھی قرآن پڑھنے کے حوالے سے ہے ، جس کا کوئی بھی مسلمان انکار نہیں کرتا۔
مگر ہماری بحث تو دورِ حاضر کے گانوں/گیتوں/نغموں اور پیشہ ور گلوکاروں/گلوکاراؤں کے خوش الحانی سے گانے میں ہے۔ پھر اس فن کا مظاہرہ کرنے والے مرد و زن عموماً اپنے "فن" کا مظاہرہ مخلوط جلسوں میں کرتے ہیں۔
ایک بار پھر روشن خیال مسلمان ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ۔۔۔۔
قرآن پاک کی تلاوت کرنا اور عشق و معاشقہ کی داستانیں مخلوط جلسوں/مجمع میں خوش الحانی سے پڑھنا برابر ہے ؟؟!!

مگر افسوس کہ ۔۔۔۔ ہم نے قرآن و حدیث کا درس فنون اسلامیہ کے ماہرین سے نہ لے کر اپنے ذہن سے گھڑا ہے اور قرآن پاک کی خوش الحانی سے دورِ حاضر کے فنکاروں کے فن کو ( "خدا کے لئے" جیسی فلموں کے حوالے سے) سندِ جواز پیش کر رہے ہیں۔

آخر میں معذرت ۔۔۔ اگر احباب کو کچھ جملے تلخ محسوس ہوں۔

مضمون کا مآخذ بشکریہ : اسلام اور موسیقی : شبہات و مغالطات کا ازالہ (ارشاد الحق اثری)
 

باذوق

محفلین
کیا آپ متفق ہیں کہ قران میں نغمہ کو نغمگی سے ادا کرنے سے منع کرنے والی، کوئی واضح‌آیت موجود نہیں‌ہے۔
محترم فاروق صاحب ! اگر بار خاطر نہ گزرے تو یہ ضرور بتائیں کہ ۔۔۔
"واضح آیت" سے آپ کی کیا مراد ہے؟
میں اس ("واضح آیت") کا مفہوم یہ لیتا ہوں کہ وہ آیت جس کی وضاحت ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یا پھر آیت کی کوئی ایک ایسی "وضاحت" جس پر تقریباَ تمام ہی اہل سنت مفسرین کرام کا اجماع ہو۔

اب مجھے نہیں معلوم کہ آپ میری بات سے اتفاق کرتے ہیں یا اختلاف؟ دونوں صورتوں میں میرے سوال کا جواب اگر دینا چاہیں تو بڑی مہربانی ہوگی ، شکریہ۔
 

باذوق

محفلین
اس سلسلے میں‌ قرآن میں تو کوئی واضح حکم موجود نہیں۔ تاہم ان تمام صحیح‌ احادیث پر تحقیق کی جانی چاہیے جن میں‌ موسیقی کے بارے میں حکم دیا گیا ہے۔ قیاسات اور استدلال سے بہتر ہے کہ وہ احادیث یہاں پیش کی جائیں۔
آپ کے درج بالا اقتباس کے جواب میں ، میں جو لکھنا چاہ رہا تھا وہ ابھی اوپر کی اپنی پوسٹ (برائے فاروق سرور خان صاحب) میں لکھ چکا ہوں۔
دوست بھائی ، دراصل آپ کے اس جملے پر حیرانی ہوئی ہے :
قرآن میں تو کوئی واضح حکم موجود نہیں
کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ سیدھا سیدھا کوئی انگریزی یا اردو ترجمۂ قرآن دیکھ لیا جائے اور موسیقی کی حرمت والی بات نظر نہ آئے تو ہم جھٹ سے یہ فیصلہ کر لیں کہ :
قرآن میں تو (حرمتِ موسیقی کا) کوئی واضح حکم موجود نہیں !!؟؟

اگر واقعتاً ایسی ہی بات ہے تو پھر کیا ہمیں تفاسیر کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے؟؟
حالانکہ خود عربی زبان میں سو سے زیادہ تفسیریں موجود ہیں جن میں سے بیشتر آپ یہاں سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔
تقریباً چار آیاتِ قرآنی ایسی ہیں جن کی تفسیر میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ موسیقی کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں۔

ہاں اگر آپ ان متقدمین مفسرین کرام کی تفسیر (جو درحقیقت صحابہ کرام کی بھی تشریح ہیں) کو چھوڑ کر دورِ جدید کے دانشوران مثلاً پرویز ، غامدی ، عمادی وغیرہ کے اقوال پر اعتبار کرتے ہیں تو پھر میں خاموش ہی رہوں گا ، معذرت !
 

دوست

محفلین
جناب میں نے یہ بات کسی بنیاد پر ہی کہی تھی۔ اور اب بھی کہتا ہوں کہ قرآن میں گانے کی حرمت پر کوئی واضح آیت موجود ہی نہیں۔ اور جن چار آیات کی آپ بات کررہے ہیں ان کی بھی تفاسیر سے یہ بات نکالی جاتی ہے کہ یہاں اس لفظ سے مراد گانا ہے۔ میں انشاءاللہ آئندہ دنوں میں اس پر ایک مفصل تحریر پوسٹ کرتا ہوں جو کتاب اسلام اور موسیقی از مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی سے ماخوذ ہوگی۔ اس میں صحابہ، تابعین، تبع تابعین، صلحائے امت اور صوفیاء سے متعدد ایسے واقعات درج ہیں کہ وہ گانا سنتے بھی تھے اور اس کا شوق بھی رکھتے تھے۔ مزید اس میں تواتر کے ساتھ کئی احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف گانا سنا بلکہ اس سے منع بھی نہیں کیا۔ اور اسی میں قرآن کی ان آیات کی تفسیر بھی آجائے گی جن سے گانے کی حرمت ثابت کی جاتی ہے۔ تفسیر حجت نہیں حجت قرآن اور حدیث ہے۔ اگر ایک بزرگ نے ایک خیال پیش کیا ہے تو اس کے مقابلے میں اسی آیت کی تفسیر کسی اور نے بالکل مختلف انداز میں کی ہے۔ تفسیر مفسر کی ذاتی آراء اور سمجھ بوجھ پر مشتمل ہے چناچہ آپ کو اختیار ہے کہ کس تفسیر کو قبول کرتے ہیں۔ بہرحال مجھے دلیل اور حجت اور تفسیر کی حیثیت پر کوئی بات کرنے کا حق نہیں لیکن مذکورہ بالا کتاب سے انشاءاللہ کمپوز کرکے یہاں پوسٹ کرتا ہوں جس سے بہت ساری غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجائے گا۔ انشاءاللہ۔
وسلام
 
دنیا بھر کے سارے معاشرہ اور سارے انسانوں کے لئے کسی امر کی ممانعت ایک بہت ہی اہم امر ہے۔ یہ ایسی بات نہیں کہ معمولی شائبہ سے کسی امر کو کامل ممنوع یا حرام قرار دے دیا جائے۔ اس ضمن میں وہ کام جو اللہ تعالی کی طرف سے منع ہوئے یا حرام ہوئے یا پھر ان سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ ان کی نوعیت آپ بخوبی جانتے ہیں اور اتفاق کریں گے کہ ایسی ممنوعات میں کوئی شبہ نہیں ہے۔

ایک واضح آیت کی مثال، جس میں ایک سابقہ حکم کی توثیق کی گئی ہے:
[ayah]2:85[/ayah] پھر تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنوں کو قتل کر رہے ہو اور اپنے ہی ایک گروہ کو ان کے وطن سے باہر نکال رہے ہو اور (مستزاد یہ کہ) ان کے خلاف گناہ اور زیادتی کے ساتھ (ان کے دشمنوں کی) مدد بھی کرتے ہو، اور اگر وہ قیدی ہو کر تمہارے پا س آجائیں تو ان کا فدیہ دے کر چھڑا لیتے ہو (تاکہ وہ تمہارے احسان مند رہیں) حالانکہ ان کا وطن سے نکالا جانا بھی تم پر حرام کر دیا گیا تھا، کیا تم کتاب کے بعض حصوں پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو؟ پس تم میں سے جو شخص ایسا کرے اس کی کیا سزا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ دنیا کی زندگی میں ذلّت (اور رُسوائی) ہو، اور قیامت کے دن (بھی ایسے لوگ) سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے، اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں

حرام کرنے کی ایک واضح مثال
[ayah]2:173[/ayah] اس نے تم پر صرف مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے

منع کرنے کی مثال:
اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کیے جانے سے روک دے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے! انہیں ایسا کرنا مناسب نہ تھا کہ مسجدوں میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لئے دنیا میں (بھی) ذلّت ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے


ناپسند یعنی مکروہات کی مثال
اگر انہوں نے (واقعی جہاد کے لئے) نکلنے کا ارادہ کیا ہوتا تو وہ اس کے لئے (کچھ نہ کچھ) سامان تو ضرور مہیا کر لیتے لیکن (حقیقت یہ ہے کہ ان کے کذب و منافقت کے باعث) اللہ نے ان کا (جہاد کے لئے) کھڑے ہونا (ہی) ناپسند فرمایا سو اس نے انہیں (وہیں) روک دیا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ تم (جہاد سے جی چرا کر) بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو

ناپسندیدگی اور گناہ کی ایک اور مثال
[ayah]2:219[/ayah] آپ سے شراب اور جوئے کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ (دنیوی) فائدے بھی ہیں مگر ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے، اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں: جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)، اسی طرح اﷲ تمہارے لئے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو


یا پھر مستند روایات ، جن میں رسول اکرم کے اقوال و اعمال یعنی سنت (پریکٹس) سے یہ بات ثابت کی گئی ہو کہ رسول صلعم نے لوگوں کو باقاعدگی سے موسیقی یا نغمہ گانے سے روکا اور اس کی باقاعدہ پریکٹس (باقاعدہ سنت) کی روایت ہو۔ لہو الحدیث کو گانے پر پھیلانے سے یہ مقصد نہیں حاصل ہوتا۔

جب کہ جتنی "غناء" کی روایات ہیں وہ کچھ لوگوں کو کمزور لگتی ہیں ، یہ ذاتی خواہشات پر مبنی اقدام ہیں کہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے لہو الحدیث کو کو تمام نغمہ، غناء، موسیقی ، شاعری اور اس کی ادائیگی پر پھیلا دیا جائے۔ جبکی لہو الحدیث کے معانی صرف بے کار بے معانی بات کے ہیں۔ جیسے کہ یہ بحث۔ موسیقی، غناء اور نغمہ کے حرام ہونے کی کوئی باقاعدہ سنت نہیں ملتی اور کوئی آیت نہیں ملتی۔

والسلام
 
بہت شکریہ دوست ، آپ سب مسلمانوں کی یقیناً مدد کریں گے۔

میرے نزدیک اسلام قران پر مبنی ہے۔ قرآن کا نزول تاریخ انسانی کا وہ واقعہ ہے جس کے انتظار ابتدا سے کیا جارہا تھا۔ ہم یہ بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ لوگ اپنی اپنی رسموں اور خیالات کی توثیق قرآن سے کرنے کے لئے بہت کوششیں کرتے ہیں۔ جبکہ قرآن ہی اسلام کے اصولوں کی بنیاد ہے ، یہی کتاب رسول اکرم کی سنت کی بنیاد ہے اور یہی کتاب رسول اکرم کو رسول اللہ کے منصب پر فائز کرتی ہے۔ اسی کتاب سے رسول اکرم نے رہنمائی کی۔

یہ کتاب موسیقی کو ترک کرنے جیسے معاملات کے لئے نہیں نازل ہوئی بلکہ انسانی حقوق کو قائم کرنے، انصاف کو قائم کرنے، منصفانہ تجارت، منصفانہ مرد و عورت کے حقوق ، منتخب مجلس شوری، عام آدمی کی حکومت میں نمائندگی اور ایک باقاعدہ معاشرہ کے اصولوں کے لئے نازل ہوئی۔ تاکہ دنیا میں امن و امان ، شرافت اور آشتی، قول و فعل کا اعلی کردار، وعدے کی پابندی جیسے بہترین اصول قائم ہوں۔ یہی امن و آشتی، ذمہ دارانہ کردار و گفتار کا ایک باقاعدہ نظام ہی ----- اسلام ----- ہے۔

وقت کی ضرورت ہے کہ ہم ان عالمی اصولوں کو اپنی کتاب میں‌ بغور دیکھیں۔ جن اصحاب کو اس ضمن میں مزید کھوج ہے وہ یہاں پر حوالہ دیکھ سکتے ہیں۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=13747

کہ کیا قرآن صرف اور صرف عبادات کے بارے میں ہے؟ کیا ہمارا ارتکاز ( فوکس ) صرف حلال و حرام پر ہے؟ کی ہم کو صرف اور صرف انفرادی مسائل پر ہی نظر رکھنی چاہئیے؟ کیا اجتماعی اسلامی قوم پر بھی کچھ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان سوالوں کے جواب آپ کو ان آیات کے حوالوں میں ملیں گے۔۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کے سامنے اتنے بڑے مسائیل ہیں جو سامنے سامنے تو معمولی لگتے ہیں لیکن مساوات انسانی، انصاف انسانی، اور دنیا کا امن و امان اتنے بڑے مسئلے ہیں جن کے سامنے موسیقی جیسے مسائیل چھوتے ہوتے ہوتے غائب ہوجاتے ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ "علماء " کبھی صرف عبادات اور حرام و حلال کے حصار سے باہر نہیں‌ نکل سکے۔ انسانی مساوات، غلامی سے آزادی، انصاف کا حصول، مرد و عورت کی مساوات جیسے مسائیل کی طرف ہمارے "علماء" کی توجہ کس قدر رہی؟ آپ خود جانتے ہیں ؟ افسوس کہ یہ اتنی بڑی تصویریں ہیں کہ ان "علماء" کی سوچ کے محدود دائروں سے باہر ہیں۔
 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے امت کو بتا دیا تھا:
[arabic] لَیَکُونَنَّ مِن اُمَّتِی اَقوامٌ یَستَحَلُّونَ الحِرَ و الحَرِیرَ و الخَمرَو المَعازِفَ [/arabic]
( ضرور میری اُمت میں ایسے لوگ ہوں گے جو زِنا، ریشم اور شراب اور باجوں کوحلال کرنے کی کوشش کریں گے ) صحیح البُخاری / حدیث٥٥٩٠/ کتاب الأشربہ /باب ٦ (
باجے گانے تو آج حلال کیے جا رہے ہیں، دیکھیے باقی چیزوں کی حلت کب کس پر الہام ہوتی ہے۔
[arabic]هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَاناً وَتَسْلِيماً [الأحزاب : 22][/arabic]
"ہ یہ ہے جس کا اﷲ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا اور اﷲ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا ہے، سو اس (منظر) سے ان کے ایمان اور اطاعت گزاری میں اضافہ ہی ہوا"
دوست، آپ نے بہت بڑی بات کہہ دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم گانا سنتے تھے، لا حول و لا قوۃ الا باللہ ۔ و ھو المستعان
 

شمشاد

لائبریرین
شاکر بھائی گانا سننے سے آپ کی واقعی مراد یہی گانا ہے جیسے کے آج کل سنے جاتے ہیں یا پھر اس سے آپ کی مراد شعر و شاعری ہے؟
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
بھائی با ذوق ، جزاک اللہ خیر ، آپ نے کچھ وہ باتیں ذکر کردیں جو میں اگلے حصوں میں لانے والا تھا ، پھر جزاک اللہ خیر ، بھائی صاحبان کے لیے آسانی ہو جائے گی ،
اب ، بھائی فاروق سرور ، اور بھائی دوست اور بھائی جنہوں نے اپنا نام ابن بطوطہ ظاہر کیا ہوا ہے ، اور دیگر بھائی جو میری کہی ہوئی باتوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور اعتراضات وارد فرما رہے ہیں اُن سب کے لیے مندرجہ ذیل گذارشات ہیں جو کہ بھائی فاروق سرور صاحب سے مخاطب ہو کر کر رہا ہوں ،

برادر عادل سہیل جو باتیں آپ نے تحریر کی ہیں جو کچھ سمجھا، میں چاہوں گا کہ آپ نے آیت اور حدیث سے جو استدلال پکڑا ہے وہ یقینا آپ کی سمجھ کی ہی مرہون منت ہوگا جسے آپ نے بیان کیا، میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو سمجھے وہی سمجھ آپ من وعن دوسروں میں منتقل کروانا چاہتے ہیں لیکن کیوں؟۔ جب آپ اپنی سمجھ سے اپنے مطلب کا استدال لینے پر بضد ہیں تو دوسروں کو آپ کیوں اُن کی سمجھ استعمال کرنے کا موقع نہیں دیتے اب آپ کی اس بات سے جو میں سمجھا ہوں وہ یہ کہ آپکو دوسروں کی سمجھ پر شک ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اس آیت اور حدیث کا ملطلب ویسا نہیں سمجھ رہے جیسا آپ نے سمجھا تو آپ کی نظر میں وہ ناقص العقل ہیں جس کی وجہ سے اُن کی ناقص سمجھ کو سدھارنے کا بیڑا آپ نے خود ہی اُٹھا لیا اور ساتھ ہی اپنی سمجھ کا سکہ جمانا چاہتے ہیں کیا یہ کھُلا تضاد نہیں ہے؟۔ اور جس قاعدے کی بات آپ نے کی ہم سب کو اُس سے اتفاق کرنا چاہئے اور گفتگو کہ اچھے مسلمان بھائیوں کی طرح شریعت کے بتائے ہوئے ضابطوں کے احداف میں رہ کر کرنی چاہئے۔

عادل بھائی۔ آپ کے اس اخری جواب کا بہت ہی شکریہ۔ آپ نے دو امور پر اپنی رائے کا اظہار کیا، ایک تو قانون سازی کا حق علماء یعنی عالم یعنی ٹیچر یا مدرس کو دینے کا --- میں اس ضمن میں‌بعد میں‌عرض‌کروں‌گا۔ تاکہ موضوع سے نہ ہٹ جاؤں۔ اس بارے میں مزید بعد میں۔

دوسری بات آپ نے لہو الحدیث کا ترجمہ فراہم کیا۔
آپ کے ممکنہ تراجم سے ہم یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ لہو الحدیث کے دو الفاظ یا ایک اصطلاح کے معانی ہم ---- بے کار بات --- یا --- لغو بات ---- کے لے سکتے ہیں۔ اس سے بے کار بات سے نغمہ گانا، کس طرح بنتا ہے۔ آپ نے کچھ روایتیں‌اس مد میں فراہم کیں۔ جن میں رسول اکرم کا مبہم فرمان ضرور ہے لیکن ، کسی کو گانے سے روکنے ، منع کرنے یا ناراضگی اور برہمی کا اظہار کرنے کی سنت اور عمل نہیں ہے۔

رسول اکرم کے سامنے ایک سے زائید بار گائے جانے کی روایات موجود ہیں ۔ جس میں رسول اکرم نے نغمہ گانے سے روکنے والے کو روکا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ روایات آپ کے علم میں‌ہیں۔ آپ کیا آپ ان روایات کو جن میں رسول اکرم کے سامنے نغمہ گایا گیا، یہاں فراہم کرسکتے ہیں؟

کیا آپ متفق ہیں کہ قران میں نغمہ کو نغمگی سے ادا کرنے سے منع کرنے والی، کوئی واضح‌آیت موجود نہیں‌ہے۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ،
بھائی فاروق سرور صاحب ،
سب سے پہلے تو یہ گذارش ہے کہ میں نے """ قانون سازی کا حق علماء یعنی عالم ٹیچر یا مدرس کو یا کسی کو بھی نہیں دیا """ فاروق بھائی ، ہماری بات اسلام کے قوانین اور اسلام میں قوانین کے بارے میں تھی اور ہے ، اور اسی کے بارے میں جواب دیتے ہوئے میں نے لکھا تھا """ اور اسلام کے احکامات اور قوانین اللہ نے بنا کر مکمل کر دیاہے ، اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اقوال و افعال کے ذریعے اُن شرح و تفسیر بھی کروادی ، پس کسی کے لیے تشریعی قوانین وضع کرنے کی کوئی گنجائش نہیں """ یہ بہت واضح الفاظ ہیں کہ اسلام کے احکامات اور تشریعی قانون سازی کسی کا حق نہیں ، پس اپنی اس بات کی درستگی فرما لیجیے کہ میں نے کسی کو قانون سازی کا حق دیا ہے !!!
دوسری بات فاروق بھائی ، """ لہو الحدیث """ دو الفاظ کا ترجمہ آپ نے دریافت فرمایا اور میں نے جواباً وضاحت کے ساتھ لکھا """ لہو الحدیث ایک لفظ نہیں دو الفاظ کا مرکب ہے ، اور اسے جملہ کہا جاتا ہے ، اور ان دو الفاظ کا لغوی معنی بالترتیب "" بے کار ، فالتو ، کسی کام سے توجہ ہٹانا ، کھیل کود "" اور """ نیا ، بات ، """ ہے ، اب اللہ کے کلام میں استعمال شدہ """ لہو الحدیث """ کو یا کسی بھی قول کو صرف لغوی معنی میں لیا جائے ، تو بات کیا کی کیا بنائی جا سکتی ہے ، جیسا کہ ہوتا چلا آیا ہے ، لیکن یہ راہ حق نہیں ، اللہ کے کلام کو سمجھانے کی ذمہ داری اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر رکھی ، اور اُنہیں سے ہمیں سمجھنا ہے ، اور اُن کے بعد اُن کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے ، اور پھر علماء امت سے جن کا فہم پہلی دو کسوٹیوں پر پورا اترتا ہو """
یہ بھی کافی واضح الفاظ ہیں کہ ہم نے قران میں استعمال شدہ الفاظ کا معنی و مفہوم و مقصود و مطلوب کہاں سے اور کیسے لینا ہے ، لیکن آپ بات کو صرف لغوی معنی کے مطابق ڈھالنے کی طرف لے چلے ہیں ،
فاروق بھائی ، """ لہو الحدیث """ کے مفہوم میں ، میں نے دو صحابیوں رضی اللہ عنہما کے اقوال پیش کیے ہیں ، اور مجھے بلکہ ہر صاحب ایمان کو اس میں کوئی شک نہیں ہو سکتا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کسی بھی اور اُمتی سے بڑھ کر مکمل ایمان اور دین کا صحیح ترین فہم رکھنے والے تھے ،
گانے کے بارے میں نے اس مضمون میں تو کوئی حدیث نقل نہیں کی ، بلکہ قران کی آیات ہیں ، اور اُن کی تفسیر صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کی بیان کردہ ہے ،
احادیث موسیقی اور آلات موسیقی کے بارے میں ہیں ، گانے کی ممانعت والی احادیث اس موضوع کے دوسرے مضامین میں ہیں جنہیں ان شاء اللہ بعد میں ارسال کروں گا ، اس لیے یہاں ارسال کردہ مضمون کو میں نے ( پہلا حصہ ) لکھا ،
پس گانے کی ممانعت اللہ کے کلام میں سے صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کی بیان کردہ تفسیر کے مطابق ہے ، نہ کہ میری اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق اور نہ ہی محض لغوی معانی کے مطابق ، اور نہ ہی کسی مفسر کی ذاتی رائے پر مبنی تفسیر کے مطابق ،
فاروق بھائی ہماری گفتگو ، نغمہ یعنی کسی بات کو گنگنا کر کرنے متعلق نہیں ، غناء یعنی گانے کے متعلق ہے ، """ نغمہ کو نغمگی سے ادا کیا جانا """ یہ بات بڑی عجیب ہے ، کسی بھی کلام کو نغمگی سے ادا کیا جائے تو وہ نغمہ ہو گا ، نہ کہ کسی نغمہ کو نغمگی سے ادا کرنے سے وہ نغمہ ہوگا ، بہرحال یہ ہمارا موضوع نہیں ، یہ بات کرنے کا مقصد یہ ہے بھائی جی کہ ہماری گفتگو نغمہ کے بارے میں ہے نہ نغمگی کے ، بلکہ غناء یعنی گانے کے بارے میں ہے ، اور ، اس مضمون میں ذکر کردہ آیات گانے سے ممانعت کے لیے بہت واضح ہیں ، اور اگر وضاحت سے آپ کی مراد """ گانا منع ہے """ قسم کے الفاظ کو ہونا ہے ، تو میرے بھائی قران میں اس طرح مذکور حلال و حرام کے احکامات تو بہت ہی کم ہیں ، تو کیا جن کا نام لے کر حرام نہیں کہا گیا وہ سب کچھ حلال ہو گا ؟؟؟ اور جن کا نام لے کر حلال نہیں کہا گیا وہ سب کچھ حرام ہو گا ؟؟؟
فاروق بھائی اللہ تعالی نے ہمارے لیے شریعت کے احکام سمجھنے اور اخذ کرنے کے لیے راستہ اور حدود مقرر فرمائی ہیں اور ہمیں اُن کا پابند فرمایا ہے ، وہ کسوٹیاں کیا ہیں یہ میں ایک الگ موضوع کے طور پر بیان کر چکا ہوں و للہ الحمد ، آپ موضوع سے خارج ہونا مناسب نہیں سمجھتے اور میں بھی نہیں تو ان کسوٹیوں کی بات کر لیتے ۔ والسلام علیکم۔
 
بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے موسیقی کی اقسام کو بیان کیا جائے مثلا کونسی قسم حرام ہے اور کونسی جائز۔ مگر خدارا کبھی بھی غلطی سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام کو موسیقی نہ سنوائیں۔ کہیں یہ توہین رسالت تو نہیں؟؟؟
 
بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے موسیقی کی اقسام کو بیان کیا جائے مثلا کونسی قسم حرام ہے اور کونسی جائز۔ مگر خدارا کبھی بھی غلطی سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام کو موسیقی نہ سنوائیں۔ کہیں یہ توہین رسالت تو نہیں؟؟؟
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ،جزاک اللہ خیرا، اللہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علہ آلہ وسلم اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت اور عزت میں بڑھاوا دے اور اس کا بہترین اجر عطا فرمائے ، ظہور بھائی ، کسی بھی عام مطلق حکم میں سے تخصیص یا تقید کے لیے کسی اور نص یا نصوص کی ضرورت ہوتی ہے اور موسیقی کے بارے میں یہ امر مفقود ہے ، کیا خیال ہے پہلے جو ایک بنیادی بحث چل رہی ہے اللہ کے حکم سے اس میں کسی مثبت نتیجے پر پہنچا جائے اور پھر اگر اللہ کو منظور ہوا تو اقسام کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے ، اور ایسا اس لیے کہ اصل موضوع سے دوری نہ ہو ، جیسا کہ بھائی فاروق سرور کی بھی خواہش ہے ، ایک دفعہ پھر جزاک اللہ خیرا ، و السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ۔
 
عبداللہ حیدر آپ نے کہاں‌کی روایت کو کس آیت سے ملایا ہے جس کی کوئی تک ہی نہیں۔ رسول اکرم جو فرمائیں وہ سب کو قبول ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ روایت درست بھی ہے یا نہیں؟ آپ نے غناء‌کے جائز ہونے کے بارے میں اوپر روایات شاید دیکھی نہیں‌ ہیں۔

جب اتنی ہی روایات موسیقی و نغمہ کے حق میں‌ہوں‌جتنی اس کی مخالفت میں تو پھر لے دے کر اللہ کی کتاب رہ جاتی ہے ۔

اللہ کی کتاب قرآن جن کتب پر ایمان لانے کے لئے کہتی ہے ، ان میں سے ایک ہے زبور۔
آپ دنیا بھر سے زبور کا ایک بھی نسخہ ایسا دکھا دیجئے جو نثر میں‌ہو اشعار میں نہ ہو۔
آپ دنیا بھر میں زبور کے نغمے مع موسیقی کے اللہ کی حمد میں گانے والوں کی عبادت کا کوئی ایسا طریقہ دکھا دیجئے جہاں‌موسیقی نہ ہو اور یہ اشعار نہ ہوں۔ ان کا مذہب بہت پہلے سے چلا آرہا ہے۔ جو کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے سے ہیں۔ جو جب عبادت کرتے تھے تو پہاڑ‌اور پرندے ان کے ساتھ ان ہی نغموں کی تسبیح کرتے تھے۔ آپ اتنی بڑی شہادت کیسے رد کرسکتے ہیں؟

دیکھئے، اللہ کی حمد ثناء کے گیت گانے کے بارے میں۔ اگر موسیق یا گیت گانا حرام ہوا تو ایسی روایت ممکن ہی نہیں تھی کہ فرشتے اللہ کے تعریفی گیت گاتے ہیں۔ اگر گیت گانا گناہ ہوتا تو فرشتے جو معصوم ہیں کیسے اللہ کے تعریفی گیت گاتے؟

http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/muslim/026.smt.html#026.5538


اب یہ دیکھئے ، یہ روایت لڑکیوں‌کو گانے سے منع نہیں کررہی ہے بلکہ گانے کی اجازت دے رہی ہے
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/muslim/004.smt.html#004.1942

باجوں‌کے ضمن میں‌عرض یہ ہے کہ رسول اکرم نے ایک صحابی عبداللہ بن قیس الاشعری کی خوش الحانی سے متاثر ہو کر یہ فرمایا کہ تمہارے گلے میں‌داؤد علیہ السلام جیسی نغمگی ہے؟
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/muslim/004.smt.html#004.1734


ان روایات کی موجودگی میں‌یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ گانا، موسیقی یا اس سے ملتے جلتے طریقہ سے اپنے احساسات کا اظہار کسی طور منع نہیں‌بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس نغمگی کو استعمال کس مقصد کے لئے کیا جائے؟

باذوق صاحب نے اوپر ایک بھائی کو خوب لتاڑا کہ --- حضرت سلیمان علیہ السلام نہیں - بلکہ -- حضرت داؤد علیہ السلام خوش الحانی سے اپنے رب کی حمد و ثناء کرتے تھے۔ وہ شاید یہ بھول گئے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت داؤدعلیہ السلام کے صاحبزادے تھے اور حضرت سلیمان علیہ السلام بھی زبور کے گیت ہی گایا کرتے تھے۔ بھائی باذوق کچھ احتیاط کر لیں اپنی علمیت کا "رعاب" جھاڑنے اور کسی کو لتاڑنے سے پہلے۔ وہ بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں، زبور اور سلیمان علیہ السلام کے بارے میں۔

اتنی ساری برعکس روایات کی موجودگی میں، ضروری ہے کہ کوئی بہت ہی واضح آیت ہو جو موسیقی کو حرام قرار دیتی ہو۔ بناء اللہ تعالی کے حکم کے کسی بھی شے کو حرام یا حلال قرآر دینا ایک صریح‌ گناہ ہے۔ ۔ موسیقی اور نغمے پر رسول اکرم کی واضح‌سنت عطا فرمائیے کہ فلاں ابن فلاں گا رہا تھا اور رسول اکرم نے اس کو روک دیا ہو؟ اس کے برعکس ہم کو یہ روایت ملتی ہے کہ کچھ لڑکیاں گاتی رہیں اور جب ان کو منع کیا گیا تو رسول اکرم نے منع کرنے والے کو روک دیا - حوالہ اوپر دے چکا ہوں۔

کیا مزے کی بات ہے کہ قرآن نغمہ یا موسیقی کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہتا پھر بھی لوگ، مبہم باتوں سے اپنی خواہشات کے مطابق اپنا رنگ پیش کرتے ہیں۔ اور کہیں کی آیت کہیں لگاتے ہیں
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top