اسلام اور جمہوریت

ظفری

لائبریرین
عمیر میرزا صاحب ۔۔۔ ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ " نظامِ جہموریت کی تعریف کیا ہے ۔ ؟ "
 

arifkarim

معطل
قادیانیوں کی خلافت کو ہم اسلئے نہیں مانتے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں ۔۔کیونکہ خلافت وہ ہوتی ہے جس میں جس میں عملا کوئی علاقہ بھی ہو اور اس محصوص علاقے پر مسلمانوں کی اتھارٹی اور سیکیورٹی بھی ہو۔ اگر موجودہ دور میں خالی خولی کوئی مسلمان بھی اپنے آپ خلیفہ کہنا شروع کردے یا کچھ لوگ کسی کو خلیفہ کہنا شروع کر دیں تو اس سے وہ خلیفہ نہیں بن جاتا۔
جہاں تک 73 فرقوں کی بات ہے اگرپاکستان میں دو سو سیکولر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے سخت مخالفت رکھنے کے باوجود اگر وزیر اعظم یا صدر منتحب کر لیتیں ہیں تو تب آپ کو اتنی حیرانی کیوں نہیں ہوتی۔ یہاں آپ کو 73 فرقوں کی وجہ سے مشکل نظر آرہی ہے۔کیا آج تک کسی فقہی گروہ کی طرف سے یہ بیان آیا کہ فلاں شخص کو ہم نہیں مانتے یہ ہمارے مسلک کا نہیں۔ یا آآپ نے یہ سنا ہو کہ کسی مسلک نے سول نافرمانی کر دی ہو کہ ہم ملک کے قانون کو اس لئے نہیں مانتے کہ سبربراہ دوسرے مسلک کا ہے۔ ہمارے مسلمان بھائی تو اس شخص کو بھی صدر مانے جارہے ہیں جو عوام کا قاتل اور استعماری کفار کا ایجنٹ ہے ۔تو اگر کل کوئی شخص امیر المومنین بنتا ہے اور امت کی فلاح اور بہبود کے لئے کام کرتا ہے ۔امت کو استعماری کفار کےچنگل سے چھڑاتا ہے تو کسی کو اس پر اعتراض کیونکر کر سکتا ہے۔
جب ہم خلافت کی بات کرتے ہیں تو اس مراد مسلمانوں کی سیاسی وحدت ہے۔مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ٹھیک ہونا چاہیے باقی فقہی احتلاف رکھنا کوئی مسلئہ نہیں۔ آپ بتایئے کہ آخر کیا اہل سنت خضرات (دیوبندیوں ،بریلویوں ،اہلحدیث) یا شیعہ خضرات میں سے کسی کو اختلاف ہے اسلامی نظام کے نفاذ پر یا سود کی حرمت یا حربی کفار ممالک سے جہاد پر ۔ہر گز نہیں

باہمی اختلافات کو دور کئے بغیر تمام مسلمانوں کا ایک خلیفہ بن ہی نہیں سکتا! اگر بنے گا تو وہ بادشاہ ہوگا نہ کہ خلیفہ۔ ذرا تاریخ پر نظر ڈالئے: جب اسلام پہلی بار سنی اور شیوں میں بٹا: یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالی کی شہادت کے بعد، اسکے بعد کی خلافت کیا پہلے چار خلفاء جیسی خلافت تھی یا بادشاہوں کی طرح اسکا بیٹا اور پھر اسکا بیٹا مسلمانوں کا امیر المومنین بنتا تھا؟؟؟ ذرا اس پر بھی سوچئے!
ؤؤ
 

سیفی

محفلین
یہاں اکثر دوست قرآن کی اس آیت کا حوالہ دیتے ہیں [ayah]و امرھم شوری بینھم[/ayah] اور اس سے مغربی جمہوریت کے لئے گنجائش نکالتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی ایک جگہ عرض کیا تھا مگر اسطرف آپ (مغربی جمہوریت کے حامی ) دوستوں نے توجہ نہیں دی۔

قرآن مجید میں ہے [ARABIC]و شاورھم فی امرھم[/ARABIC] یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کاموں میں صحابہ سے مشورہ کر لیا کریں۔

مگر

آگے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ [ARABIC]فاذا عزمت فتوکل علی اللہ[/ARABIC] پس جب تیرا (اپنا )ارادہ پکا ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرلے

عربی زبان سے واقفیت رکھنے والے لوگ جانتے ہوں گے کہ [arabic]عزمت[/arabic] کا کیا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اللہ نے [arabic]عزموا[/arabic] نہیں فرمایا کہ جب ان (مشورہ دینے والوں) کا ارادہ پکا ہوجائے۔۔۔ بلکہ اس میں نکتہ یہ ہے کہ مشورہ تو سب سے لو مگر تیرا اپنا دل جسطرف پکا ہو وہ فیصلہ کر۔ یہ نہیں کہ اکثریت ہی کا فیصلہ اختیار کرنا لازم ہے۔ پس اگر اکثریت کا فیصلہ تیرے فیصلہ کے موافق ہے تو اختیار کرلے۔۔۔ اور اگر اکثریت کا فیصلہ تیرے موافق نہیں تو بھی تو اپنا فیصلہ اختیار کر

دور نبوت میں غزوہ خندق میں صحابہ کی اکثریت کی رائے یہ تھی کہ لڑائی شہر سے باہر نکل کر لڑی جائے ۔ اور اکیلے حضرت سلمان فارسی رض نے رائے دی کہ شہر میں ہی رہ کر خندق کھود کر لڑائی لڑی جائے۔ اب مغربی جمہوریت ہوتی تو اکثریت کا فیصلہ ہی اٹل ہوتا ۔۔۔ مگر جی نہیں ۔۔۔ حکم ربی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مشورہ تسلیم کیا جو اگرچہ اکثریتی رائے نہیں تھی مگر آپ کا اپنا دل بھی اسی کے ساتھ تھا

اب دوست کہیں گے کہ جی وہ تو نبی تھے اس لئے وہ اپنے دل کے مطابق فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہیں ۔ لیں دورِ صحابہ سے ایک مثال

جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب ایران کے لئے اسلامی لشکر روانہ ہونے لگا تو اکثریت کبار صحابہ کی رائے تھی کی امیرالمومنین خود اس لشکر کی قیادت کریں ۔ لیکن مردِ دانا حضرت علی رض نے فرمایا کہ جنگ تو ایک ہنڈولا ہے جو کبھی اوپر کو جاتا ہے اور کبھی نیچے کو۔ اگر امیرالمومنین شہید ہوگئے تو پوری امت پر اس کا برا اثر پڑے گا۔ تو پھر حضرت سعد بن ابی وقاص کو اس لشکر کا امیر مقرر کیا گیا

وما علینا الا البلاغ
والسلام مع الاکرام
 

فرخ منظور

لائبریرین
اقبال نے بھی کہا تھا
جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اور
دیواستبداد، جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے کہ یہ آزادی کی ہے نیلم پری؟
مگر ہمارے تمام مذہبی لیڈر جمہوریت اور 1973 کے آئین پر اتنا اصرار کیوں کرتے ہیں؟
 

عمر میرزا

محفلین
جناب آپ کی ہراگلی بات پچھلی بات سے متضاد ہوتی ہے ۔

کس بات میں آپ کو تضاد نظر آیا براہ کرم نشاندہی فرما دیں۔

۔ آپ یہ بتائیں کہ کسی شخص کو امت کے سامنے کس اصول کے تحت منصبِ خلافت کے لیئے پیش کیا جائے گا ۔

اسلام نے خلیفہ کی شرائط بتائی ہیں،مسلمان ہو،عاقل ہو ،بالغ ہو، آزاد ہو،عادل ہو اور اس قابل ہو کہ وہ امور سلطنت کو چلا سکے۔ بس ایسا کوئی بھی شخص جو ان شرائط پر پورا اترتا ہو خلیفہ کے لئے امیدوار بن سکتا ہے۔

شخص کو اُمت کی تائید یا بیعت کیسے حاصل ہوگی

دوباتیں ہو سکتی ہیں ایک اگر تو خلافت موجود ہے اور کسی خلیفہ کو منتحب کرنے کا مرحلہ آتا ہے۔تو کسی ایک یا ایک سے زیادہ اشخاص کو نامزد کیا جاسکتا ہے ان کی تشہیر کی جائے گی امت کو کہا جائے گا کہ ان میں سے کوئی ایک کو چن لیں ،
مگر ایک دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے جو کہ موجودہ ہے کہ خلافت موجود نہیں امت پر ایک کفر نظام کے تحت حکومت کی جارہی ہے اب صورتحال مختلف ہوگی
موجودہ نظام میں آسان نہیں کہ ہم کسی شخص کو کہیں کہ تمیں خلییفہ بناتے ہیں اور پھر معاشرے میں اس کی تشہیر کریں کہ لوگو یہ خلیفہ ہے اسے بیعت دو ۔اس سے صرف جگ ہنسائی ہو سکتی ہے اور کچھ نہیں۔

کسی بھی معاشرے میں تبدیلی لانے کےلئے ضروری ہوتا ہے کہ پہلے والے نظام کو ہٹایا جائے اور نئے نظام کے لئے امت میں رائے عامہ قائم کی جائے۔
کیونکہ کسی بھی معاشرے پر زبردستی کچھ بھی نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وضہ یہ ہے کہ اگر زبردستی کچھ اسی چیز نافذ کر دی جائے جسے لوگ نہ چاہتے ہوں وہ دیرپا نہیں ہوتی۔
اس لئے اس رائے عامہ کو پیدا کرنے کے لئے دو کام کرنے ہونگے ایک امت میں رائے عامہ پیدا کرنا خلافت کے بارے میں ۔سول سوسائٹی( وکیل پروفیسرز ،داینشور ظبقہ وغیرہ وغیرہ) کو حامی بنا۔ دوسرا اہل نصرہ لوگ (وہ لوگ جو کسی بھی معاشرے میں اسٹیبلشمنٹ میں شامل ہوتے ہیں مثلا، فوج ،بیوروکریسی کے باضمیر افسران۔عدلیہ کے ججز ۔ کو اسلام کے نفاذ کےلئے قائل کرنا ۔تاکہ موجودہ حکومتی نظام کو ہٹایا جاسکے اور اس کی جگہ خلافت کا احیاء کیا جاسکے۔
اور حزب التحریر بھی اسی طریقے پر عمل کرتی ہو ئی موجودہ نظام کو بدلنے اور خلافت کو لانے کے لئے جدو جہد کر رہی ہے۔


دوسرے نظام سے آپ کی کیا مراد ہے ۔ ؟

جمہوریت

یہ عمل کس نظام کے تحت انجام دیا جائے گا ۔؟

جمہوریت!
غلط صحیح اپنی جگہ صرف تمثیلا بیان کیا تھااور بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ قیادت کا چناؤ میں ہنگامی حالات کسی بھی نظام میں ایسے ہی ہوتا ہے۔
 

عمر میرزا

محفلین
عمیر میرزا صاحب ۔۔۔ ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ " نظامِ جہموریت کی تعریف کیا ہے ۔ ؟ "

عوام کی حکومت ،عوام پر ، عوام کی مرضی سے۔

لیکن اگر دیکھا جائے تو اس کا حقییقت کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق نہیں عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں جب اقتدار اعلٰی آجاتا ہے تو وہ صرف اپنے مفادات کو ہی تخفظ دیتے ہیں۔ اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔
 
عمیر میرزا صاحب ۔۔۔ ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ " نظامِ جہموریت کی تعریف کیا ہے ۔ ؟ "

یہ چھوٹا سا نہیں ظفری بہت بڑا سوال ہے اور بہتر تو یہ ہوگا کہ تم ہی اس سوال کے جواب سے آغاز کرو تو تمہیں اس چھوٹے سے سوال میں چھپے ایک پہاڑ جیسے جواب کی حقیقت کا اندازہ ہو جائے گا۔

لطف کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کی کوئی ایک تعریف ممکن نہ ہوسکی گی مگر سب زور وشور سے جمہوریت جمہوریت کا شور مچاتے رہیں گے ;)

یاد رہے جمہوریت کا ایک پورا فلسفہ ہے اور اس فلسفہ کا نچوڑ تعریف میں آنا چاہیے ۔
 
عوام کی حکومت ،عوام پر ، عوام کی مرضی سے۔

لیکن اگر دیکھا جائے تو اس کا حقییقت کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق نہیں عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں جب اقتدار اعلٰی آجاتا ہے تو وہ صرف اپنے مفادات کو ہی تخفظ دیتے ہیں۔ اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔

یہ تو صرف ایک تعریف ہے عمر میرزا اور بھی تو بہت سی تعریفیں ہیں۔

ویسے آپ کی ہمت کی داد دیتا ہوں اتنے لوگوں سے اکیلے ہی اتنے مشکل موضوع پر نبرد آزما ہیں۔

چند سوالات میں بھی کروں گا مگر ذرا آپ پر سوالات کی بوچھاڑ کم ہو جائے ۔

ویسے جمہوریت کے خلاف بات سن کر عجیب سا لگتا ہے شاید ہمارے ذہن یہ سن سن کر اتنا پک گئے ہیں کہ یقین نہیں آتا کہ کوئی اور نظام بھی اچھا ہو سکتا ہے ۔ :)
 

عمر میرزا

محفلین
یہ تو صرف ایک تعریف ہے عمر میرزا اور بھی تو بہت سی تعریفیں ہیں۔

ویسے آپ کی ہمت کی داد دیتا ہوں اتنے لوگوں سے اکیلے ہی اتنے مشکل موضوع پر نبرد آزما ہیں۔

کسی فورم پر بیٹھ کر سوالات کا جواب دینا تو بہت آسان ہے ۔پتہ تو اس وقت چلتا ہے جب لوگوں کے روبرو آپ ایسی بات کریں
 

ظفری

لائبریرین
کس بات میں آپ کو تضاد نظر آیا براہ کرم نشاندہی فرما دیں۔
چلیں شروعات آج کی پوسٹ سے ہی کرد یتے ہیں ۔

آپ نے میرے استفار پر کہ دوسرا نظام کونسا ہوگا ۔ ؟
تو آپ نے جواب دیا " جمہوریت " ۔
پھر میں‌نے انتخاب کا عمل کس نظام کے تحت انجام پانے پر سوال کیا ؟
تو آپ نے پھر جمہوریت کہا ۔
جبکہ آپ اسی ٹاپک پر پوسٹ نبمر 2 میں جمہوریت کو نظام ِ کفر قرار دے چکے ہیں‌۔
ویسے میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ آپ نے یہ جوابات ضرور ازراہِ مذاق کے طور پر دیئے ہیں ۔ :cool:
 

ظفری

لائبریرین
یہاں اکثر دوست قرآن کی اس آیت کا حوالہ دیتے ہیں [ayah]و امرھم شوری بینھم[/ayah] اور اس سے مغربی جمہوریت کے لئے گنجائش نکالتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی ایک جگہ عرض کیا تھا مگر اسطرف آپ (مغربی جمہوریت کے حامی ) دوستوں نے توجہ نہیں دی۔
جناب توجہ دی ہے اس لیئے حاضر ہوں ۔۔۔ اور آپ نے بھی اس طرف توجہ تو دی ہے مگر آپ اس آیت کے پس منظر اور اس کے مخاطب پر پر توجہ کرنے بھول گئے ہیں ۔

قرآن مجید میں ہے [ARABIC]و شاورھم فی امرھم[/ARABIC] یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کاموں میں صحابہ سے مشورہ کر لیا کریں۔

مگر

آگے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ [ARABIC]فاذا عزمت فتوکل علی اللہ[/ARABIC] پس جب تیرا (اپنا )ارادہ پکا ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرلے

عربی زبان سے واقفیت رکھنے والے لوگ جانتے ہوں گے کہ [arabic]عزمت[/arabic] کا کیا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اللہ نے [arabic]عزموا[/arabic] نہیں فرمایا کہ جب ان (مشورہ دینے والوں) کا ارادہ پکا ہوجائے۔۔۔ بلکہ اس میں نکتہ یہ ہے کہ مشورہ تو سب سے لو مگر تیرا اپنا دل جسطرف پکا ہو وہ فیصلہ کر۔ یہ نہیں کہ اکثریت ہی کا فیصلہ اختیار کرنا لازم ہے۔ پس اگر اکثریت کا فیصلہ تیرے فیصلہ کے موافق ہے تو اختیار کرلے۔۔۔ اور اگر اکثریت کا فیصلہ تیرے موافق نہیں تو بھی تو اپنا فیصلہ اختیار کر

دور نبوت میں غزوہ خندق میں صحابہ کی اکثریت کی رائے یہ تھی کہ لڑائی شہر سے باہر نکل کر لڑی جائے ۔ اور اکیلے حضرت سلمان فارسی رض نے رائے دی کہ شہر میں ہی رہ کر خندق کھود کر لڑائی لڑی جائے۔ اب مغربی جمہوریت ہوتی تو اکثریت کا فیصلہ ہی اٹل ہوتا ۔۔۔ مگر جی نہیں ۔۔۔ حکم ربی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مشورہ تسلیم کیا جو اگرچہ اکثریتی رائے نہیں تھی مگر آپ کا اپنا دل بھی اسی کے ساتھ تھا

اب دوست کہیں گے کہ جی وہ تو نبی تھے اس لئے وہ اپنے دل کے مطابق فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہیں ۔

میں پہلے اس اقتباس کی آخری سطر پر ( جو کہ ریڈ کلر میں ہے ) آپ کی توجہ دلاؤں کہ جب آپ کو اس موضوع پر بحث ہی مقصود نہیں تھی تو آپ نے یہاں قلم کیوں اٹھایا ۔ ؟
آپ نے اپنا استدلال پیش کر دیا ہے ۔ لہذا اب ضروری نہیں کہ آپ میری اس پوسٹ سے متفق ہوں ۔ مگرمیں دیگر دوستو کے لیئے آپ کے اس اقتباس پر دو بات کہنے کی جسارت کروں گا ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالی اس آیت میں رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہے ۔ یعنی جب پیغمبر موجود ہوتا ہے تو اسے اللہ کی براہ راست رہنمائی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی ہدایت کے مطابق فیصلہ اختیار کرے ۔ جب اللہ کا پیغیبر دنیا میں موجود نہیں ہوگا تو وہ انسان ہی ہیں جو پوری کوشش کریں گے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق کوئی فیصلہ اختیار کریں ۔ جس واقعہ کا آپ نے ذکر کیا ہے اگر یہ واقعہ آج کے دور میں‌ کسی حکمران کیساتھ ہوتا تو اس کا فیصلہ کیا اور کیسے ہوتا ۔ ؟
لہذا جس آیت کو آپ نے یہاں بیان کیا ہے اس کا پس منظر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے ہے جو اللہ کے براہِ راست حکم کے مطابق فیصلہ کرنے کے مجاز تھے ۔

دوسری بات یہ کہ ہم یہاں ایک نظمِ اجتماعی کی بات کررہے ہیں ۔ اور یہ نظم کیسے قائم ہوگا ۔ ؟ بحث دراصل یہ چل رہی ہے ۔ اور اس آیت میں کسی ریاست کے نظم کو قائم کرنے کی کوئی ہدایت جاری نہیں ہوئی ۔ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عارضی موقع پر صحیح فیصلہ کرنے کی رہنمائی ملی تھی ۔ جس پر انہوں نے عمل بھی کیا ۔

لیں دورِ صحابہ سے ایک مثال

جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب ایران کے لئے اسلامی لشکر روانہ ہونے لگا تو اکثریت کبار صحابہ کی رائے تھی کی امیرالمومنین خود اس لشکر کی قیادت کریں ۔ لیکن مردِ دانا حضرت علی رض نے فرمایا کہ جنگ تو ایک ہنڈولا ہے جو کبھی اوپر کو جاتا ہے اور کبھی نیچے کو۔ اگر امیرالمومنین شہید ہوگئے تو پوری امت پر اس کا برا اثر پڑے گا۔ تو پھر حضرت سعد بن ابی وقاص کو اس لشکر کا امیر مقرر کیا گیا

یہاں بھی پہلے سے ایک نظامِ حکومت قائم ہے جس میں فیصلے کا کلی اختیار حکمران کو حاصل تھا ۔ اور اس فیصلے کا بھی تعلق نظم ِ اجتماعی سے نہیں ہے ۔ اور تفصیل میں جائیں تو کوئی بھی فیصلہ ہونے سے پہلے مختلف آراء سامنے رکھی گئیں تھیں ۔ اور جس رائے کے دلائل اور استدلال قوی ہوں ۔ اس کو پھر سب کو ماننا پڑتا ہے ۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے مضبوط تھی اس میں استدلال بھی تھا ۔چناچہ سب کو اسے ماننا بھی پڑا ۔ ایسا تو نہیں ہوا تھا کہ جس اکثریت نے امیرالمومنین کو لشکر کی قیادت کا مشورہ دیا تھا انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی اس رائے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اپنے گھوڑوں کی باگیں واپسی کے لیے موڑ دی تھیں ۔

دراصل آپ جس آیت کو مغربی جہموریت کے لیئے گنجائش نکالنے کو کہہ رہے ہیں ۔ اس آیت کا پس منظر یا مفہوم آپ ہی کچھ واضع کردیں ۔ کیونکہ میں‌ تو اس آیت کا اصل مفہوم جاننے کے لیئے بے چین ہوں مگر اکثر احباب اس سے اجتناب کرتے ہوئے حسبِ روایت آگے سے کسی اور آیت کا حوالہ دے دیتے ہیں ، جس کا جہموریت کے حقیقی پس منظر سے دور کا بھی واسطہ نہیں ‌ہوتا ۔
 

ظفری

لائبریرین
یہ چھوٹا سا نہیں ظفری بہت بڑا سوال ہے اور بہتر تو یہ ہوگا کہ تم ہی اس سوال کے جواب سے آغاز کرو تو تمہیں اس چھوٹے سے سوال میں چھپے ایک پہاڑ جیسے جواب کی حقیقت کا اندازہ ہو جائے گا۔

لطف کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کی کوئی ایک تعریف ممکن نہ ہوسکی گی مگر سب زور وشور سے جمہوریت جمہوریت کا شور مچاتے رہیں گے ;)

یاد رہے جمہوریت کا ایک پورا فلسفہ ہے اور اس فلسفہ کا نچوڑ تعریف میں آنا چاہیے ۔

دراصل میں ایک موصوف کی " اسلام اور غلامی " کے حوالے سے کئے گئے ایک ٹاپک پر ایک مضمون لکھنے میں مصروف ہوں ۔ اب یہ اسلام اور جہموریت کا بھی دوسرا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ سوچ رہا ہوں کہ پہلے اسے ختم کروں کہ یا اس کو پہلے شروع کروں ۔ ;)

جہموریت اتنا پیچیدہ مسئلہ نہیں جتنا اسے بنایا جا رہا ہے ۔ بلکل اسی طرح جیسے سیکولر کے لفظ پر لوگ بھڑک اٹھتے ہیں ۔ جبکہ سیکولر لفظ ایک اصطلا ح ہے جو مغرب میں ان کے نظامِ اجتماعی کی بنیادوں میں استعمال ہوئی ۔ اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے میں یہاں الجھ گیا تو ایک تیسری بحث کا آغاز ہو جائے گا ۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ دنوں میں اس موضوع پر میں شاید کچھ لکھ سکوں ۔
 

عمر میرزا

محفلین
دراصل آپ جس آیت کو مغربی جہموریت کے لیئے گنجائش نکالنے کو کہہ رہے ہیں ۔ اس آیت کا پس منظر یا مفہوم آپ ہی کچھ واضع کردیں ۔ کیونکہ میں‌ تو اس آیت کا اصل مفہوم جاننے کے لیئے بے چین ہوں مگر اکثر احباب اس سے اجتناب کرتے ہوئے حسبِ روایت آگے سے کسی اور آیت کا حوالہ دے دیتے ہیں ، جس کا جہموریت کے حقیقی پس منظر سے دور کا بھی واسطہ نہیں ‌ہوتا ۔

میں نے آپ کو وہ آیات جن میں مشورہ کرنے کے بارے حکم آیا ہے ان میں سے ایک بارے میں بتا بھی دیا ہے۔کہ اس میں مشورہ کرنے کا کیا مطلب ہے مشورہ کرنے کی حد کیا ہے ۔اور یہ کہ مشورہ صرف مباح امور میں کیا جا سکتا ہے۔
آپ شاید اپنی مرضی کی تفسیر سننا چاہتے ہیں لیکن اس آیت پاک سے ہر گز یہ مطب نہیں نکلتا ہے اور کہ جمہوریت حلال ہے اور مسلمان اس کو بطور نطام حکومت اپنا سکتے ہیں۔

جہاں تک میں آپ کی بات کو سمجھا ہوں آپ شاید باہمی مشورے کو جمہوریت سمجھتے ہیں باہمی مشاورت کا نام جمہوریت ہر گز نہیں ہے۔باہمی مشورہ بہت اچھی چیز ہے پر جب کوئی بات ایسی ہو جو حکم الہی ہو تو اس پر مشورہ نہیں ہو سکتا ۔اس پر یہ مشورہ کرنا کہ اسے ریاست میں نافذ کیا جائے یا نہیں از خود ایک حرام فعل ہے۔
مثال کے طور پر اسلام نے کسی ایسے عمل سے منع کیا ہے جس سے امت کے معاملات پر کفار حاوی ہو جاہیں۔ جیسے کہ بیرونی قرضہ جات۔ہم جانتے ہیں کہ یہ استعماری ممالک دوسرے ملکوں کو قرضہ دیکر کیسے ان کے معملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیتیں ہیں ۔اسلام کی رو سے ایسے قرضے لینا حرام ہے خواہ یہ سود کے بغیر بھی کیوں نہ ہوں ۔کیونکہ بدلے میں سود کے گناہ کے ساتھ امت کے مفادات کو بھی گروی رکھ دیا جاتا ۔
اب ان جیسے معاملات پر مشورہ ہر گز نہیں ہو سکتا۔نہ ہی اس کے نافذ کرنے یا نہ کرنے پر سینٹ میں کسی قسم کی بحث ہو سکتی ہے۔یہ حکم پہلے سے ہی اسلامی قانون کا حصہ ہیں ان کو من و عن نافذ کرنا ہیں
 

عمر میرزا

محفلین
باہمی اختلافات کو دور کئے بغیر تمام مسلمانوں کا ایک خلیفہ بن ہی نہیں سکتا!

اسلام کے نفاذ پر کسی مکتبہ فکر کو کوئی اختلاف نہیں اگر شک ہے تو کسی بھی عالم سے پوچھ لیں۔
اگر پھر بھی آپ اس کو مسلہ سمجھتے ہیں تو پھر آیئے ہاتھوں میں ہاتھ دیجیئے۔اور اللہ اور اللہ کے رسول (ص) کی اس امت کے مابین اللہ اور اللہ کے رسول (ص) کی خاطر ان کو حتم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کیونکہ السلامی نظام میں میں رہنا اور اس کے لئے ہر قسم کی جائز تگ ودو کرنا فرض ہے
 

عمر میرزا

محفلین
یہ پوسٹ میں نے کچھ عرصہ قبل ایک دھاگے میں لکھی تھی کہ اسلامی ریاست میں امور ریاست کو چلانے کے لئے کیسے کیسے اور کہاں کہا ں مشور ہ کیا جاسکتا ہے

---------------------------------------------------------------------------------

اسلامی ریاست یا خلافت کیا ہے ؟

اسلامی ریاست صرف اسی وقت قائم ہوتی ہے جب اس میں تمام نظام اسلام سے ہی اخذ کردہ ہوں اور اتھارٹی بھی مسلمانوں کو حاصل ہو۔خلافت میں اقتصادی نظام ،حکومتی نظام ،معاشرتی نظام ،نظام عدل ،خارجہ پالیسی اور تعلیمی پالیسی مکمل طور پر شرعی مصادر سے اخذ کردہ ہو ں۔

حکومتی نطام :

* خلیفہ عوام کے بلواسطہ یا بلا واسطہ انتخاب سے منتخب ہوتا ہے ۔منتحب ہونے والا امیدوار امت کی بیعت سے حلافت کے منصب پر فائز ہوتا ہے ۔اس انتحاب میں عوام الناس پر کسی قسم کا دباؤ یا جبر حرام ہے ، نیز بیعت اس شرط پر لی جائے گی کہ منتحب شخص ان پر مکمل اسلام نافذ کرے گا ۔

* اسلام نے نظام کے بارے اصولی ہی نہیں بلکہ جزوی قانون بھی دیئے۔ مثال کے طور پر معاشی نظام میں اراضی سود ،تجارت ،کرنسی ،بینکنگ ،عوامی ملکیت اور ذاتی ملکیت سے متعلق شرعی احکامات ؛ خارجہ پالیسی میں جہاد ،بین الاقوامی معاہدات ،سفارتی تعلقات سے متعلق احکامات ؛ نظام حکومت میں بیعت ،والیوں کے تقرر اور ان کی تنزلی سے متعلق احکامات وغیرہ میں شریعت کے تفصیلی احکامات موجود ہیں ۔
خلیفہ ان احکامات کو من وعن نافذ کرنے کا پابند ہوتا ہے ،نیز خلیفہ ان احکامات کو نافذ کرنے کے لئےنہ تو عوام کے نمائندوں کی اکثر یت درکار ہوتی ہے نہ ہی وہ ان معاملات میں اپنی ذاتی پسند و ناپسند پر عمل کر سکتا ہے۔چناچہ ان تمام معاملات میں خیلفہ اور عوامی نمائندوں کے پاس اپنی مرضی و منشاء سے قانون سازی کا اختیار نہیں ہوتا ۔لہذا خلافت میں اللہ اور اللہ کے رسول صلٰی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو ملکی قوانین بننے کے لئے اکشریت کی بیساکھی یا توثیق کی ضرورت نہیں ہوتی جو کہ جمہوری طرز حکومت میں قانون سازی کے لئے لازمی شرط ہے۔ آج پاکستان میں اسلام کے نفاذ میں اکثریت کی شرط ہی سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ یوں خلافت میں " اقتدار اعلٰی " یا قانون سازی کا اختیار عملا عوام کی اکثریت کی بجائے اللہ تعالی کو حاصل ہوتا ہے یہ اس سے یکسر مختلف ہے جو پاکستان میں رائج ہے جس میں " اقتدار اعلٰی " پارلیمان میں بیٹھے افراد یا باوردی ڈکٹیٹر کے پاس ہوتا ہے۔

* اسلام انفرادی ڈکٹٹر شپ اور مخصوص گروہ کی ڈکٹیٹر شپ ( جمہوریت ) دونوں کو یکسر مسترد کرتا ہے اور قانون سازی کا اختیار رب کو سونپ کر اللہ کی حاکمیت کو عملا نافذ کرتا ہے۔یوں استعمار کے لئے قانون سازی کا چور دروازہ بند ہو جاتا ہے جس کے ذریعے داخل ہو کر وہ اپنے مفادات کی خفاظت کرتے ہیں ۔ڈکٹیٹر شپ میں ان کو ایک شخص خریدنا پڑتا ہے جب کہ جمہوریت میں ایک اکثریت کے گروہ کو ،جو آئینی ترامیم کے زریعے سیاہ کو سفید بنا سکے ۔
آج سترہویں ترمیم کے ذریعے ایک ڈکٹیٹر کے بنائے ہوئے کفریہ قوانین کو جمہوری طریقہ کار کے زریعے آئینی حیثیت دی گئ۔" جہاد " کو دہشتگردی قرار دیا گیا امریکی اڈوں کو ریاستی اور قانونی حثیت حاصل ہوئی ،افغانستان کی جنگ میں اپنے ہی مسلمان بھایئوں کا قتل ملکی مفاد میں جائز ٹھہرا ۔باوردی صدر کو دوبارہ منتحب کیا گیا اور مفاہمتی آرڈینینس کے ذریعے سیاستدانوں کو پارسا کیا گیا۔

* مباح اور انتظامی سے متعلق حکومتی فیصلے قانون سازی)legislation سے مختلف ہیں کیونکہ یہ managment decision ہوتے ہیں اور ان امور کو اللہ سبحان وتعالٰی نے پہلے ہی حلال قرار دے دیا ہے ،حکومت فقط یہ فیصلہ کرتی ہے کہ آیا ان حلال امور کو اختیار کیا جائے یا نہیں ،اور اللہ سبحان وتعالٰی نے
ہمیں اختیار دیا ہے کہ امت کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے ۔مباح امور کی دو قسمیں ہیں

(ا) وہ امور جن میں عوام خاطر خواہ علم رکھتے ہوں
(ب) وہ امور جن میں صرف اہل علم یا تکنیکی ماہرین ہی صحیح رائے دے سکتے ہوں اور عوام ان کے بارے زیادہ علم نہ رکھتے ہوں

(ا) وہ مباح امور جن میں عوام خاطر علم رکھتے ہوں ان میں‌عوام کی اکثریت کے کی رائے پرخلیفہ چلنے کا پابند ہوتا ہے مثلا اگر خلیفہ ایک شہر کے باسیوں سے یہ استفسار کر لے کہ انہیں ہسپتالوں یاا سکولوں میں سے کون شی شے کی زیادہ ضرورت ہے تو ایسی صورت میں عوام کی اکثریت ( یعنی ان کے نمائندوں کی اکثریت ) کا فیصلہ خلیفہ کے لئے کرنا لازم ہوتا ہے
(ب) دوسری طرف حلیفہ تکنیکی مسائل میں عوام الناس کی بجائے فقط ماہرین سے رجوع کرتا ہے اور ان سے مشورے کے بعد اس کی نظر میں جو بھی رائے زیادہ مناسب ہو گی وہ اسے اختیا ر کرتا ہے اس میں عوام کی یا تکنیکی ماہرین کی اکثریت کو ملخوظ نہیں رکھا جاتا ۔چناچہ اگر پانی کی قلت کا سامنہ ہو تو خلیفہ تکنیکی ماہرین سے مشورہ کرنے کے بعد حتمیٰ فیصلہ کرنے کا مجاز ہوگا کہ ڈیم کہاں اور کتنا بڑا بنایا جائے ۔لیکن ان تمام امور میں امت اور ان کے نمائندے خلیفہ کا محاسبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں تاکہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال عوامی بھلائی میں کرے نہ کہ ذاتی مفاد میں۔

++++ جمہوری نظام حکومت میں مزکورہ بالا تینوں جہتوں میں ( یعنی قانون سازی اور دونوں مباح امور میں ) آخری فیصلے کے لئے عوام کی اکثریت سے ہی رجوع کیا جاتا ہے

++++آمریت میں تینوں جہتوں کے بارے میں فرد واحد کا فیصلہ خرف آخر ہوتا ہے۔

+++ خلافت میں قانون سازی شریعت کے مطابق کی جاتی ہے ۔جبکہ ایک مباح امور میں عوام کی رائے فیصلہ کرتی ہے اور دوسرے تکنیکل امور کے بارے میں حلیفہ فیصلہ لیتا ہے۔

یوں خلافت نہ ہی آمریت ہے نہ ہی جمہوریت۔۔قوانین بنانے اور اہم امور کا پر فیصلہ کرنے کا یہ بنیادی فرق ایک ایسے نظام اور معاشرے کو جنم دیتا ہے جو اپنی اساس اور جزئیات آمریت اور جمہوریت سے جنم لینے والے نظام سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔
 

عمر میرزا

محفلین
گزشتہ سے پیوستہ

++ خلیفہ مندرجہ بالا تینوں جہتوں میں مشاورت کا خیر مقدم کے گا اور ملک میں مثبت مشاورت کی فضا کو یقینی بنائے گا ۔

++ خلیفہ مطلق العنان نہیں ہوتا بلکہ اس کا محاسبہ کرنا عوام کا انفرادی اور اجتماعی اسلامی فریضہ ہوتا ہے۔ریاست کی کسی بھی عدالت سے حکومت کے کسی بھی عمل پر مقدمہ دائر کیا جاسکتا ہے نیز قاضی مظالم (چیف جسٹس) بد عنوانی کی صورت میں ایک دستحط کے زریعے حلیفہ کو معزول کر سکتا ہے۔

++ امت " کفرا بواحا " یعنی واضح کفر کے نفاز پر خلیفہ کو طاقت کے ساتھ اتارنے کی قانونا مجاز ہوتی ہے۔

++ " مجلس امت " عوام کے نمائندوں پر مشتعمل ایک ایسا ادارہ ہوتا ہے جس کی زمہ داریوں میں حکومتی معاملات میں مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی ذمہ داری خلیفہ کا محاسبہ کرنا ہوتا ہے۔ لیکن قانون سازی نہیں۔

++ایک سے زائد سیاسی جماعتیں قائم کرنے کی کھلی اجازت ہوتی ہے لیکن ان تمام سیاسی جماعتوں کی اساس اسلام پر ہونا لازمی ہے ۔سیکولر ،سوشلسٹ ۔نیشلسٹ۔کیپٹلسٹ یا کسی بھی اور نظریے پر پارٹی قائم کرنے کی اجازت نہ ہوگی ۔

++ پوری مسلم امت کی ایک ہی ریاست اور ایک ہی خلیفہ ہوتا ہے ۔ایک سے زائد ریاست بنانا یا ایک سے زائد ریاست بنانا یا ایک خلیفہ کی موجودگی میں کوئی دوسرا خلیفہ مقرر کرنا حرام ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کی وحدت اور طاقت ایک ریاست اور ایک امیر میں مضمر ہے جس کی اسلام بڑی سختی سے تلقین کرتا ہے۔ امت صرف اسی صورت میں استعماری تسلط اور صلیبی یلغار سے باہر نکل سکتی ہے جب وہ دنیا کے چالیس فیصد وسائل اور دیڑھ ارب سے زائد افرادی قوت کو ایک ریاست تلے متحد کرے۔( یہ وحدت ہی کافروں کی صفوں میں کھلبلی مچانے کے لئے کافی ہو گی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
اسلام کے نفاذ پر کسی مکتبہ فکر کو کوئی اختلاف نہیں اگر شک ہے تو کسی بھی عالم سے پوچھ لیں۔

مگر پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کونسے فرقے کے اسلام کا نفاذ ہوگا؟
اور اسلام کے نفاذ کی خواہش پر مجھے فیض کا ایک شعر یاد آگیا-
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں
 

زیک

مسافر
عمر جب آپ "جمہوریت" کہتے ہیں تو اس سے آپ کی کیا مراد ہوتی ہے؟ direct democracy یا representative democracy یا constitutional republic؟
 
Top