اسلام اور جمہوریت

باسم

محفلین
پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں بن سکتا کے متعلق مفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ اپنی کتاب "نفاذِ شریعت اور اس کے مسائل" کے صفحہ ۳۷ میں لکھتے ہیں کہ
اسلامی نقطۂ نظر سے دستور کی سب سے اہم اور بنیادی دفعہ وہ ہوتی ہےجس میں یہ تصریح کی جائے کہ کوئی قانون قراٰن و سنت کے خلاف نہ بنایا جائے گا، نہ باقی رکھا جائے گا۔ اگر یہ دفعہ اپنے صحیح قانونی تحفظات کے ساتھ دستور میں شامل ہوجائے تو اسلام کے دوسرے تمام تقاضے خود بخود پورے ہوسکتے ہیں، اور اگر اس میں کوئی قانونی نقص رہ جائے تو دوسری اسلامی دفعات بھی بے جان اور غیر مؤثر ہوکر رہ جاتی ہیں۔
ہماری دستور سازی کی تاریخ میں یہی وہ اسلامی دفعہ ہے جس پر ہمیشہ طرح طرح کے قانونی داؤ پیچ آزمائے جاتے رہے ہیں، اور جو عناصر اس ملک میں اسلام کے صحیح صحیح نفاذ کے مخالف ہیں وہ ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہے ہیں کہ یہ دفعہ زیادہ سے زیادہ غیر مؤثر ہوکر دستور کا جز بنے اور اس میں ایسے خفیہ راستے رکھے جائیں جن کے ذریعے اسلام سے راہِ فرار اختیار کی جاسکے، چنانچہ ابھی تک کسی بھی دستور میں یہ دفعہ اپنے ان لوازم اور تحفظات کے ساتھ نہیں آسکی جو اس کے عملی اطلاق کیلیے ناگزیر ہیں۔ اس لیے اسلامی نقطۂ نظر سے یہ دفعہ پورے دستور میں سب سے زیادہ توجہ چاہتی ہے۔
زیرِ بحث آئینی مسودہ میں یہ دفعہ نمبر ۲۲۷ ہے جو حصہ نہم میں "اسلامی احکام" کے زیرِ عنوان لکھی گئی ہے، اور اس کے الفاظ یہ ہیں:
(۱) ۔ ۔ تمام موجودہ قوانین کو ان اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا جو قرٰان و سنت میں مذکور ہیں اور جنہیں مابعد کی عبارتوں میں "اسلامی احکام" کہا گیا ہے، اور کوئی قانون ایسا وضع نہیں کیا جائے گا جو ان احکام کے منافی ہو۔
(۲) ۔ ۔ فقرہ نمبر ۱ میں مذکورہ احکام کی تعمیل صرف اس طریقے سے کی جائے گی جس کی اس حصہ میں صراحت کی گئی ہے۔
جہاں تک اس دفعہ کے فقرہ نمبر ۱ کے الفاظ کا تعلق ہے، وہ سالہا سال سے مسودہ دستور میں لکھے چلے آرہے ہیں، لیکن ان پر عمل ایک دن بھی نہ ہوسکا۔
آج پچیس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود نہ کسی قانون کو غیر اسلامی ہونے کی بناء پر کالعدم قرار دیا گیا، اور نہ ہی کوئی نیا قانون اسلامی ہونے کی بنیاد پر نافذ ہوسکا، اس کی وجہ یہی ہے کہ اس دفعہ کو ہمیشہ ایسا ڈھیلا ڈھالا رکھنے کی کوشش کی گئی کہ وہ عملاً بے اثر ہوکر رہ جائے۔ ہم یہاں پہلے یہ بیان کرتے ہیں کہاس دفعہ کو عملی طور پر مؤثر بنانے کا کیا طریقہ ہے؟ اس کے بعد یہ عرض کریں گے کہ مجوزہ دستور میں اس دفعہ سے متعلق کیا خامی ہے؟ اور اسے کس ترمیم کے بعد دور کیا جاسکتا ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ اس دفعہ کے دو حصے ہیں:۔
پہلا حصہ یہ ہے کہ جتنے قوانین نفاذ دستور سے پہلے بن چکے ہیں ان پر اسلامی حیثیت سے نظر ثانی کرکے ان میں ایسی ترمیم کی جائے جس سے وہ شریعت کے مطابق ہوجائیں، نیز جن مزید اسلامی احکام کو قانونی شکل دینی ہے انہیں مدون کیا جائے۔ دوسرا حصہ یہ ہے کہ دستور کے نفاذ کے بعد جتنے قوانین وضع ہوں ان میں اس بات کی ضمانت موجود ہو کہ وہ قراٰن یا سنت کے کسی حکم کے خلاف نہیں ہیں۔
جہاں تک پہلے حصے یعنی پرانے قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے اور نئے اسلامی قوانین مدون کرنے کا تعلق ہے، اس پر ٹھیک ٹھیک عمل اس وقت ممکن ہے جب دستور میں مندرجہ ذیل امور کی ضمانت موجود ہوکہ:
(الف) ۔ ۔ اس غرض کیلیے ایک موثر اور بااختیار ادارہ قائم کیا جائے گا۔
(ب) ۔ ۔اس ادارے میں ان ہی افراد کو نامزر کیا جائے گا جو اس کام کے واقعی اہل ہوں، یعنی ایک طرف وہ قرآن و سنت کے علوم میں گہری بصیرت کے حامل ہوں اور دوسری طرف پاکستان کے سماجی، معاشی، سیاسی اور انتظامی مسائل کو سمجھتے ہوں۔
(ج) ۔ ۔ اس ادارے کیلیے ضروری قرار دیا جائے گا کہ وہ ایک معنہ مدت میں اسلامی قوانین کو مدون کرکے ہیش کردے۔
(د) ۔ ۔ جو قوانین یہ ادارہ مدون کرکے اسمبلی کے سامنے پیش کرے وہ شرعی مسائل میں کسی نااہل کی ترمیم کے بغیر نافذ کر دیے جائیں گے۔
(جاری ہے) اس دفعہ کے متعلق پوری بحث لکھنے کی کوشش کروں گا
 

عمر میرزا

محفلین
خزب التحریر کا نیا لیف لٹ

خزب التحریر کا نیا لیف لٹ

پہلا صحفہ
دوسرا صحفہ

pk080101americacampaignqo1.gif




pk080101americacampaigncr1.gif
 
دیکھیے پاکستان میں‌ اصولی طور پر کوئی قانون خلاف اسلام نہیں‌بن سکتا لہذا پاکستان کے حوالے سے یہ پمفلٹ غیر متعلق ہے۔
چونکہ اس میں بھی مثالی بات کی گئی ہے اور اس کا تقابل زمینی حقائق سے کیا گیا ہے۔
اگر صرف اصولی تقابل میں دیکھیں‌تو جہموری نظام ہی پاکستان میں اسلامی ہے۔
اب صرف اگر اس بات کو یقینی بنالیں کہ کوئی قانون غیر اسلامی نہ بن پائے تو پھر یہ نظام مکمل اسلامی ہوگا۔
لہذا یا تو بات میری سمجھ میں‌نہیں‌ارہی یا حزب التحریر غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔ وضاحت فرمادیجیے
 

خرم

محفلین
بھائی مجھے تو حزب ہی امریکہ کا ایجنڈا آگے بڑھاتے ہوئے لگتی ہے۔ مقصد صرف یہ کہ مسلمان کبھی بھی یکسو ہو کر اپنے مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ کوشش نہ کر سکیں۔ ان کے نظریہ کے متعلق بھائی عمر میرزا سے ایک سوال کیا تھا کچھ ماہ قبل۔ آج تک جواب موصول نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی ہوگا۔ کیونکہ سیدہ خاتون جنت کی گستاخی کرکے اسلام سے خارج ہوں گے اور اپنے نظریہ کی تکفیر کر کے اپنے مقاصد کا قتل کر ڈالیں گے۔
 

عمر میرزا

محفلین
دیکھیے پاکستان میں‌ اصولی طور پر کوئی قانون خلاف اسلام نہیں‌بن سکتا لہذا پاکستان کے حوالے سے یہ پمفلٹ غیر متعلق ہے۔

آپ پاکستان کے کس کونے میں رہتے ہیں کہ آپ کو پتہ ہی نہیں کہ ہمارے ملک میں کتنے ہی ایسے قواننین ہیں جو صریحا غیر اسلامی ہیں مثال کے طور پر آپ عدلیہ کو لے لیں ۔کونسا قانون اسلامی ہے ۔اسلام نے تو چور کی سزا ہاتھ کاٹنا رکھی ہے کیا آپ نے سنا کے کھبی کسی چور کے ہاتھ کاٹے گئے ہوں۔یا کسی شرابی کو کوڑے لگے ہوں عدالتوں میں بھی وہی گورے کا بنایا ہو ا قانون ہی ہے جس کے مطابق پاکستان میں انصاف کیا جا رہا ہے ۔انہوں نے تو یہ قانون ہی اس لئے بنایا تھا کہ انصاف کا حصول مشکل تر ہو جائے آج آپ دیکھ لیں کے عدالتوں کے 24 لاکھ کیس ایسے ہیں جن کی ابھی باری نہیں آئی برطانیہ کا اسکے مقبوضہ علاقوں کے لئے ساختہ عدالتی نطام آج من وعن کے ساتھ نافذ کیا جا رہا ہے۔

پاکیستان میں شراب کی فیکٹریوں کو کس قانون کے تحت کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
سود تو ایسی چیز ہے جس پر کسی مسلمان کو کوئی شک نہیں کہ حرام ہے ۔تو بتایئے کہ کس قانون کہ تحت روز بروز نئے نئے بنک کھولے جا رہے ہیں۔

کس اسلامی قانون سازی کے تحت پاکستان کی افواج امریکہ کا ساتھ دے رہی ہے جو کہ مسلمانوں کا کھلا دشمن اور قاتل ہے ۔

کس قانون کے تحت پاکستان میں بازاری عورتیں دھندہ کر رہی ہیں جنہیں باقاعدہ لائسنس ملتے ہیں ۔ اور کام کرنے کے اوقات بھی بتائے جاتے ہیں۔

کیا آپ کو نظر نہیں آتا کے تمام کا تمام سرمائیہ دارانہ نظام کو معمولی سی ردوبدل کے بعد پورا کا پورا نافذ العمل کر دیا گیا ہے پاکستان میں تمام مغربی قوانین ، سٹاک ایکسچینج ،انشورس کمپنیاں ،پرائیویٹ کمپنیاں ، فیوچرز تریڈنگ ، انٹلیکچوئل پراپرٹی راےئٹس ، تیل گیس کی نجکاری وغیرہ وغیرہ آخر کن اسلامی اخکامات کے مظابق جائز قرار دئے گئے ہیں۔

اسلام کا قانون تو بنا بنایا ہے پھر قانون سازی کی ضرورت ہی کیا ہے۔ جمہوریت تو حرام ہی اسی وجہ سے ہے کہ اس میں قانون سازی کا اختیار آپ انسانوں کو سونپ دیتے ہیں ۔یاد رکھئے کہ آمریت یا بادشاہت میں اقتدار اعلی اگر ایک شخص کے پاس ہو تا ہے تو جمہوریت میں ایک گروہ کے ہاتھ میں

اگر صرف اصولی تقابل میں دیکھیں‌تو جہموری نظام ہی پاکستان میں اسلامی ہے۔

آپ اسے کس اصول کے تحت اسلامی قرادے رہے ہیں ۔کیا آپ نے یہ اصول اسلام سے لئے ہیں

بھائی مجھے تو حزب ہی امریکہ کا ایجنڈا آگے بڑھاتے ہوئے لگتی ہے۔

اگر بہتان لگا دیا ہے تو پھر ثابت کرو۔۔۔

حزب التحریر تو کہتی ہے ک اسلامی سرزمیں پر قران و سنت کا نظام نافذ ہو۔کیا امریکہ بھی ہی چاہتا ہے کتنی مضحکہ خیز بات کی ہے۔

ان کے نظریہ کے متعلق بھائی عمر میرزا سے ایک سوال کیا تھا کچھ ماہ قبل۔ آج تک جواب موصول نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی ہوگا۔ کیونکہ سیدہ خاتون جنت کی گستاخی کرکے اسلام سے خارج ہوں گے اور اپنے نظریہ کی تکفیر کر کے اپنے مقاصد کا قتل کر ڈالیں گے۔


جناب اگر یاد ہو میں نے حدیث کا حوالہ بھی دے دیا تھا اور وضاھت بھی کی تھی

http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=9162&page=4
 

خرم

محفلین
جناب اگر یاد ہو میں نے حدیث کا حوالہ بھی دے دیا تھا اور وضاھت بھی کی تھی
معذرت چاہتا ہوں کہ بات ذہن سے نکل گئی۔ آپ کی بات کا جواب بھی میں نے وہیں پر عرض کر دیا تھا۔ اور میں یہ بات دوبارہ کہوں‌گا کہ اصحابِ اہلِ بیت سے نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کے "کسی"‌بھی حکم کی روگردانی کی توقع اور وہ بھی سیدہ خاتونِ جنت سے رکھنا انتہائی گمراہی ہے۔ اور جو تراجم ان احادیث کے آپ کرتے ہیں ان تراجم سے کیونکہ سیدہ خاتونِ جنت و حیدرِکرار رضی اللہ عنہا و عنہ کی شان کی نفی ہوتی ہے لہٰذا میں پھر اس بات پر اصرار کروں گا کہ ان احادیث کا غلط ترجمہ کرکے انہیں اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔
 
آپ پاکستان کے کس کونے میں رہتے ہیں کہ آپ کو پتہ ہی نہیں کہ ہمارے ملک میں کتنے ہی ایسے قواننین ہیں جو صریحا غیر اسلامی ہیں مثال کے طور پر آپ عدلیہ کو لے لیں ۔کونسا قانون اسلامی ہے ۔اسلام نے تو چور کی سزا ہاتھ کاٹنا رکھی ہے کیا آپ نے سنا کے کھبی کسی چور کے ہاتھ کاٹے گئے ہوں۔یا کسی شرابی کو کوڑے لگے ہوں عدالتوں میں بھی وہی گورے کا بنایا ہو ا قانون ہی ہے جس کے مطابق پاکستان میں انصاف کیا جا رہا ہے ۔انہوں نے تو یہ قانون ہی اس لئے بنایا تھا کہ انصاف کا حصول مشکل تر ہو جائے آج آپ دیکھ لیں کے عدالتوں کے 24 لاکھ کیس ایسے ہیں جن کی ابھی باری نہیں آئی برطانیہ کا اسکے مقبوضہ علاقوں کے لئے ساختہ عدالتی نطام آج من وعن کے ساتھ نافذ کیا جا رہا ہے۔

تمام قوانین کو ائینی طور پر اسلامی قوانین میں بدلاجاسکتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ائین اکثر و بیشتر معطل رہتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ائین میں موجود طریقہ کو درست طور پر اختیار کیا جائے۔

پاکیستان میں شراب کی فیکٹریوں کو کس قانون کے تحت کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
سود تو ایسی چیز ہے جس پر کسی مسلمان کو کوئی شک نہیں کہ حرام ہے ۔تو بتایئے کہ کس قانون کہ تحت روز بروز نئے نئے بنک کھولے جا رہے ہیں۔


شراب کی فیکڑی بند کی جاسکتی ہے اگر اپ متفقہ طور پر طے کردیں کہ یہ معاملہ غیر اسلامی ہے۔ یہ معاملہ پارلیمنٹ کے ذریعے ہی طے ہوگا اور پارلیمنٹ تمام مسلمان اور اقلیتیں مل کر بنائیں‌گی۔ یہی معاملہ سود کا ہے۔ حکومت نے غیر ائینی طور پر سپریم کورٹ سے اسٹے ارڈر لے رکھا ہے وگرنہ پاکستان میں‌ائینی طور پر سود کا کام نہیں‌ہوسکتا۔


کس اسلامی قانون سازی کے تحت پاکستان کی افواج امریکہ کا ساتھ دے رہی ہے جو کہ مسلمانوں کا کھلا دشمن اور قاتل ہے ۔
ڈنڈے کے قانون کے تحت۔ حیرت ہے اسی بات کا تو مسئلہ ہے جو اپ کی سمجھ نہیں‌ارہا۔


کس قانون کے تحت پاکستان میں بازاری عورتیں دھندہ کر رہی ہیں جنہیں باقاعدہ لائسنس ملتے ہیں ۔ اور کام کرنے کے اوقات بھی بتائے جاتے ہیں۔
کیا آپ کو نظر نہیں آتا کے تمام کا تمام سرمائیہ دارانہ نظام کو معمولی سی ردوبدل کے بعد پورا کا پورا نافذ العمل کر دیا گیا ہے پاکستان میں تمام مغربی قوانین ، سٹاک ایکسچینج ،انشورس کمپنیاں ،پرائیویٹ کمپنیاں ، فیوچرز تریڈنگ ، انٹلیکچوئل پراپرٹی راےئٹس ، تیل گیس کی نجکاری وغیرہ وغیرہ آخر کن اسلامی اخکامات کے مظابق جائز قرار دئے گئے ہیں۔

ان سب کی تشریحات پارلیمنٹ اسلامی نظریاتی کونسل کے مشورے سے طے کرسکتی ہے مگر پارلیمنٹ کو تو فوج ربڑ اسٹیمپ بنانا چاہتی ہے۔ اپ خود سوچیں‌اگر عوام یہ طے کرتی ہے کہ تمام قوانین اسلامی ہونگے تو اس کے عمل درامد میں‌کیا مسئلہ ہے سوائے اسکے کہ فوج‌حائل ہے۔
یہی صورت اپ کی تجویز کردہ خلافت میں‌بنتی ہے۔ اگر عوام یہ چاہتی ہی نہیں‌کہ خلافت ہو تو اپ کیسے اس پر مسلط کرسکتے ہیں؟

اسلام کا قانون تو بنا بنایا ہے پھر قانون سازی کی ضرورت ہی کیا ہے۔ جمہوریت تو حرام ہی اسی وجہ سے ہے کہ اس میں قانون سازی کا اختیار آپ انسانوں کو سونپ دیتے ہیں ۔یاد رکھئے کہ آمریت یا بادشاہت میں اقتدار اعلی اگر ایک شخص کے پاس ہو تا ہے تو جمہوریت میں ایک گروہ کے ہاتھ میں
قانون کا ماخذ اسلام میں‌میں‌۔ قانون سازی معاملہ کے تحت ہوسکتی ہے۔ اگر ماخذ اسلامی ہو تو ہر بننے والا قانون اسلامی ہی ہوگا۔ میں‌تو یہی سمجھتا ہوں تصحیح‌ فرمادیجیے۔


آپ اسے کس اصول کے تحت اسلامی قرادے رہے ہیں ۔کیا آپ نے یہ اصول اسلام سے لئے ہیں
آصول یہی کہ پاکستان میں‌ اصولی طور پر کوئی قانون غیر اسلامی نہیں‌بن سکتا۔ اگر ہے تو تبدیل ہوگا۔ یہ جب ہوگا جب تمام عوام یہ چاہیں‌گے کہ قانون اسلامی ہو۔ یہی تو جہموریت ہے۔
 

arifkarim

معطل
بھائی جمہوریت اور اسلام کا جوڑ نہیں۔ اس وقت پاکستان میں اتنی پارٹیاں ہیں کہ جمہوری نظام چلانا ناممکن ہے!
 

خرم

محفلین
اور خلافت کونسی لائیں گے آپ اور کس طرح؟ اگر سب لوگ مل کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے قوانین قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کرتے ہیں تو یہ ایک جمہوری عمل ہے۔ اگر آپ ان کے اوپر ایک نظام تھونپنا چاہتے ہیں تو یہ آمریت ہے۔ اس کے سوا تو کچھ ہے ہی نہیں۔ اور قرآن میں تو صرف چند جرائم پر حد کا انعقاد کیا گیا ہے۔ باقی تمام اعمال کے لئے تو امت کو اجتہاد کی آزادی دی گئی ہے۔ ایک مقننہ بنانے کے حق سے اسلام نے تو مسلمانوں کو محروم نہیں کیا، ہاں جو لوگ لوگوں کے دلوں میں جگہ نہیں بنا سکتے وہ اس کی سر توڑ کوشش کرتے رہے ہیں کہ مقننہ کے وجود کو ہی غیر اسلامی قرار دے دیں۔
 

عمر میرزا

محفلین
میں یہ بات دوبارہ کہوں‌گا کہ اصحابِ اہلِ بیت سے نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کے "کسی"‌بھی حکم کی روگردانی کی توقع اور وہ بھی سیدہ خاتونِ جنت سے رکھنا انتہائی گمراہی ہے۔ اور جو تراجم ان احادیث کے آپ کرتے ہیں ان تراجم سے کیونکہ سیدہ خاتونِ جنت و حیدرِکرار رضی اللہ عنہا و عنہ کی شان کی نفی ہوتی ہے لہٰذا میں پھر اس بات پر اصرار کروں گا کہ ان احادیث کا غلط ترجمہ کرکے انہیں اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔

مخترم اگر آپ کا شک رفع نہیں ہو رہا تو کسی عالم سے پوچھ لیں یا خود سے ترجمہ دیکھ لیں۔۔
 

باسم

محفلین
سابقہ پوسٹ مزید لکھتے ہیں۔ ۔ ۔
زیرِ بحث دستوری مسودہ میں ان چار امور میں سے (الف) اور (ج) کی پوری ضمانت موجود ہے چنانچہ دفعہ ۲۲۸ فقرہ نمبر ۱ میں کہا گیا ہے کہ دستور کے یوم آغاز سے نوے دن کے اندر صدر ایک اسلامی نظریہ کی کونسل قائم کرے گا اور دفعہ ۲۳۰ میں اس کونسل کے جو وضائف بیان کیے گئے ہیں۔ ا میں یہ بھی داخل ہے کہ یہ کونسل پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی راہنمائی کیلیے ایسے اسلامی احکام مناسب طور پر مدون کرے گی جنہیں بطور قانون نافذ کیا جاسکے اور اس ضمن میں اپنی آخری رپورٹ سات سال کے عرصہ میں مکمل کرکے پیش کردے گی۔ مندرجہ بالا چار امور میں سے (ب) کی ضمانت بھی جزوی طور پر دفعہ ۲۲۸ فقرہ نمبر ۳ میں ایک حد تک ہوگئی ہے یعنی کونسل میں کم از کم چار افراد ایسے ہوں گے جو کم از کم پندرہ سال تک اسلامی تحقیق اور تعلیم میں مشغول رہے ہوں۔ لیکن ہم پہلے یہ عرض کرچکے ہیں کہ یہ چار افراد کی قید قطعاً غیر مناسب ہے، اس کے بجائے یہاں "ارکان کی اکثریت" (THE MAJORITY OF THE MEMBERS( کا لفظ ہونا چاہیے۔
البتہ مذکورہ چار امور میں سے (د) کی دستور میں کوئی ضمانت نہیں ہے۔ کیونکہ کونسل کی رپورٹ کو محض ایک مشوعہ کی حیثیت دی گئی ہے۔ جسے اسمبلی میں قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور مسترد بھی۔ متعلقہ فقرے کے یہ الفاظ ہیں:۔
"کونسل اپنی آخری رپورٹ اپنے ترقق سے سات سال کی مدت میں داخل کرے گی اور ایک سالانہ عبوری رپورٹ بھی پیش کیا کرے گی۔ رپورٹ خواہ عبوری ہو یا آخری، وصولیابی کی تاریخ سے چھ ماہ بعد کی مدت میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور ہر صوبائی اسمبلی کے سامنے بحث کیلیے پیش کی جائے گی، اور اسمبلی اس رپورٹ پر غور کرنے کے بعد اس سے متعلق (IN RESPECT THERE OF) قوانین وضع کرے گی۔" (دفعہ ۲۳۰ فقرہ نمبر ۴)
اب اس دفعہ کے آخری فقرے، بالخصوص خط کشیدہ الفاظ نے اسلامی کونسل کی ساری محنت کو بیک جنبش قلم ڈھیر کردیا ہے، کیونکہ اسمبلی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اس رپورٹ پر بحث کرکے اس سے متعلق (نہ کہ اس کے مطابق) قوانین وضع کرے۔ لہٰذا اگر اسلامی کونسل کے فاضل ارکان سات سال متواتر عرق ریزی کے بعد کوئی رپورٹ پیش کریں اور اسمبلیاں ان کی ایک بھی بات منظور نہ کریں، بلکہ پوری رپورٹ کو ردی کی ٹوکڑی کی نذر کرکے اپنی طرف سے دوسرے قوانین اسلام کے نام پر وضع کرنا چاہیں تو ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ وہ بڑے اطمینان سے ایسا کرسکتی ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جس نے کونسل کو بے دست و پا بنا کر اس کی ساری کاوشوں کو اکارت کریا ہے۔
حالانکہ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر اسمبلیاں بذات خود قرآن و سنت کے مطابق قوانین کی تدوین کرسکتی تھیں تو "اسلامی کونسل" کے کھڑاک کی ضرورت ہی کیا تھی؟ ظاہر ہے کہ "اسلامی کونسل" اسی وجہ سے قائم کی جارہی ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق قوانین کی تدوین ایسے اصحاب سے کرانی منظور ہے جو قرآن و سنت میں بصیرت رکھتے ہوں، لہٰذا ماہرین فن کی رپورٹ ہونے کی حیثیت سے اسمبلی پر یہ لازم ہونا چاہیے کہ وہ قانون سازی اس کے مطابق کرے اور جہاں تک کسی امر کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا تعلق ہے، اس رپورٹ کی مخالفت نہ کرے۔
بناء بریں اس فقرہ کے آخری الفاظ اس طرح ہونے چاہییں:۔
("and The assembly, after considering the report, shell enect laws in pursuance there of"(
" اور اسمبلی اس رپورٹ پر غور کرنے کے بعد اس کی متابعت میں قوانین وضع کرے گی۔"
اس پر عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس طرح اسلامی کونسل کو اسمبلی پر بالا دستی حاصل ہوجائے گی جس سے اسمبلی کا اختیار اعلٰی متاثر ہوگا۔ سابق صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب نے بھی اپنی خود نوشت سوانح عمری میں اس اعتراض کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے (ملاحظہ ہو فرینڈس ناٹ ماسٹرس، ص ۱۹۹، ۲۰۰) لیکن درحقیقت یہ اعتراض شدید مغالطوں پر مبنی ہے، اول تو یہ اعتراض اس مغربی طرز جمہوریت کے تصور پر مبنی ہے جس میں اقتدار اعلٰی عوام یعنی ان کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کو حاصل ہوتا ہے اور اس کے اختیارات قانون سازی پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوسکتی، حالانکہ ہمارا ملک ایک اسلامی ملک ہے اور اس میں مغربی جمہوریت کے اس تصور کو نافذ کرنے کے کوئی معنٰی نہیں، اسلامی شورائیت میں اقتدار اعلٰی جمہور کے منتخب نمائندوں کو نہیں، اللہ تعالٰی کو حاصل ہے، اور یہ نمائندے ان ہی حدود میں رہ کر قانون سازی کرسکتے ہیں، جو اللہ تعالٰی نے قرآن و سنت کے ذریعے مقرر فرمادی ہیں۔ اسی بناء پر ہمارے ہر دستور کا ہر دیباچہ ان الفاظ سے شروع ہورہا ہے کہ:
" چونکہ اللہ تبارک و تعالٰی ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے، اور پاکستان کے جمہور کو جو اقتدار و اختیار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے۔ الخ"
یہ فقرے بالخصوص خط کشیدہ الفاظ، اس حقیقت کو واضح کررہے ہیں کہ ہماری پارلیمنٹ کا اقتدار غیر محدود اور غیر مشروط نہیں ہے بلکہ اس پر قرآن وسنت کی پابندی لازم ہے، اب اگر "اسلامی کونسل" کی رپورٹ کو اسمبلی کیلیے واجب الاتباع کہا جائے تو در حقیقت یہ اسمبلی پر کونسل کی نہیں، قرآن و سنت کی بالا دستی کی بناء پر ہوگا جسے خود دستور کے دیباچے میں تسلیم کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ مغربی طرز جمہوریت میں بھی پارلیمنٹ ہر شعبے کے ماہرین فن (EXPERTS) کی محتاج ہوتی ہے، چونکہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ پارلیمنٹ میں ہر شعبہ زندگی کے ماہرین موجود ہوں، اس لیے قانون سازی کے بے شمار مرحلوں پر اسے فنی ماہروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور انکی رپورٹ کی پیروی اس کیلیے ناگزیر ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص اسے اسمبلی کے اختیاراعلٰی پر قدغن قرار دے کر اس پر معترض ہو تو زندگی کا سارا نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے۔
ہاں اگر اسمبلی کو کونسل کی کسی تجویز میں کوئی عملی دشواری یا اس پر فنی اعتبار سے نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ صرف اس تجویز کا نفاذ مؤخر کرکے اسے دوبارہ کونسل میں بھیج سکتی ہے تاکہ اس پر غور کیا جائے۔ نیز بوقت ضرورت دوسرے اہل علم کو بھی کونسل کے تعاون (COOPERATION) کے لئے وقتی طور پر نامزد کیا جاسکتا ہے۔
(جاری ہے)
 

ظفری

لائبریرین
یہ موضوع اتنا ہی پیچیدہ ہے جتنا کہ پاکستان کا قیام!
مسئلہ پیچیدہ نہیں ہے بلکہ ہمیں پیچیدہ بنانے کا شوق ہے جیسا کہ ہم اکثر دیگر امور میں کرتے ہیں ۔ قرآن مجید کی اس آیت " اَمرَھُم شُوریٰ بَینَھُم " کو کسی کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ بدک جاتا ہے ۔ اس پر بات کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہوتا کہ اس نے جو جہموریت اور اسلام کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اس کی اصل شکل سامنے آجاتی ہے ۔ اور دوسری بات یہ کہ ہم یہاں بھی اسلام اور جہموریت کی اصل بحث سے بھاگ رہے ہیں ۔ یہ بات واضع ہے کہ علماء کی مختلف آراء کی وجہ سے یہ تقسیم ہے ۔ اور ایک عام آدمی اس تقسیم کی وجہ سے ان دو گروہوں میں بٹ چکا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب ہم ان عالموں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ان کی کیا بات ہمیں سمجھ آتی ہے ۔ کس کے دلائل کتنےقوی ہیں ۔ جس کی وجہ سے ہم ان عالموں کی آراء یا فتووں کو قبول کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے یہ فیصلہ ہم اپنی عقلی بصارت کی بناء پر کرتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ یقین کر لیتے ہیں کہ فلاں عالم کی یہ بات صحیح ہے ۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہم نےایک بات پر یقین کر لیا ۔ اور پھر اس بات کو کہیں زیرِ بحث بنانے کے لیئے پیش بھی کردیا ہے ۔ اب اگر اس پر بحث ہوتی ہے تو ہونا یہ چاہیئے کہ اس پر ہمارا استدلال اور دلائل کیا کہتے ہیں ۔ ؟ ہم نے کسی کو بات کو کہاں تک سمجھا ۔ ؟ اگر آپ نے کسی عالم کی کسی علمی کاوش پر یقین کیا ہے تو آپ اپنی عقل و دانش اور دلائل سے اس بات کو واضع کریں کہ آپ صحیح ہیں یا اس عالم کی یہ بات صحیح ہے ۔ مگر ہو یہ ہے کہ کسی کتاب کے کسی خاص اقتباس کو یہاں کاپی کرکے پیسٹ کردیا یا پھر کسی لنک کا حوالہ دیدیا ۔ تو پھر اس طرح کسی موضوع پر علمی بحث کا کیا جواز رہ جائے گا کہ کوئی اور بھی یہاں جواباً کسی اور کی پوری کی پوری کتاب چھاپ دے ۔

اسی ٹاپک پر میں نے صفحہ نمبر 2 پر اپنا استدلال بیان کردیا ہے اور اسی طرح خرم بھائی نے بھی کچھ باتوں کے بارے میں استفار کیا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ " اسلام اور جہموریت " کے اس موضوع کو فوکس کر کے اسی حوالوں سے ہماری ان پوسٹوں کا جواب دینا چاہیئے تھا ۔ مگر جواب تو کیا ملتا ۔ بات کا رخ ہی کہیں اور تبدیل کردیا گیا ۔مذید اصرار پر اب مختلف عالموں کی مختلف کتب کی کاپی پیسٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ کسی سے اس کی کسی بات کی وضاحت طلب کی جائے تو وہ آگے سے کئی لنک پیش کردیتا ہے ۔

میری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ اپنی عقل پر کسی بات کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر اپنی اسی عقل سے اس بات کو صحیح ثابت کرنے کی بھی کوشش کریں ۔ بصورتِ دیگر یہ ٹاپک صرف معلومات کے تبادلے کا ذریعہ بن جائے گا ( جس سے ہرکسی کے متفق ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ) ۔ اور اس طرح کسی بھی قسم کی بحث کا امکان باقی نہیں رہے گا ۔ مندرجہ بالا اقتباس کا جواب دے بھی دیا جائے تو اس کا فائدہ اس لیئے نہیں ہے کہ وہ موضوع سے یعنی " اسلام اور جہموریت " کی اصل بحث سے ہٹ کر ہے ۔ کیونکہ اس میں زیادہ تر بحث تیکنکی اعتبار سے ہے ۔ جبکہ ہم پہلے اس بات پر متفق ہونے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسلام میں جہموریت جائز ہے کہ بھی نہیں ۔ ؟
 

عمر میرزا

محفلین
بزریعہ ظفری
اسلام نے مسلمانوں کو ایک اصول دے دیا ہے کہ " اَمرًھُم شُوریٰ بنًیھُم " ۔ یعنی مسلمانوں‌کا نظمِ اجتماعی ان کے مشورے اور رائے پر مبنی ہوگا

۔ قرآن مجید کی اس آیت " اَمرَھُم شُوریٰ بَینَھُم " کو کسی کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ بدک جاتا ہے ۔ اس پر بات کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہوتا کہ اس نے جو جہموریت اور اسلام کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے



اسلامی طرز حکومت "خلافت" اور مغربی طرز حکومت "جمہوریت " میں کچھ مماثلتیں ہونے کی بنا پر ان دونوں کو ایک جیسا ہی سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ کہ یہ ایک فطری امر ہو سکتا ہے کہ دو نظاموں میں کچھ قدریں ملتی جلتی ہوں۔ جیسے مجلس شوری یا انتطامی ادارے وغیرہ ۔ صرف انہیں مشترک قدروں کو بنیاد بنا کر ان دونوں کو ایک جیسا کہنا قطا غلط ہو گا۔حالانکہ بنیاد ان کے مصادر اور ماخذ کو بنانی چاہیے ۔
اگر خلافت کی بنیاد دیکھی جائے تو اس کی بنیاد اور ماخذ اسلامی عقیدہ ہے اور وہ یہ کہ انسان کے تمام افعال انفرادی اور اجتماعی دونوں وحی الہی کے طابع ہونے چاہیں ۔کیونکہ وحی الہی کا مقصد ہی ان دونوں کی ایسی تنظیم کرنا ہے کہ وہ بر رضاء خالق حقیقی ہو جائے ۔ محتصر لفظوں میں یہ کہ انسانوں پر شارع کے مطابق حکومت ۔
جبکہ جمہوریت اس سے بلکل متضاد فکر اور روئیے سے اخذ کردہ ہے وہ یہ کہ انسان کو کسی دوسری ہستی یا خالق کی ضرورت نہیں اور وہ مل جل کر اپنی مرضی کے مطابق حکومت کرے جمہوریت کا تو اصل نعرہ ہی یہی کے " عوام کی حکومت عوام پر عوام کے زریعے " یعنی جس میں حق اور باطل کا میعار انسان ہی کہ وضع کردہ ہونگے غور ظلب پہلو یہ ہے کہ اگر انسانوں کی اجتماعی سوچ اس قابل ہوتی کہ وہ خود سے معروف اور منکر کا فرق سمجھ سکتی تو وحی الہی کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے ۔

دونوں کا بنیادی فرق بتانے کا مقصد یہ تھا کہ میرے فاضل دوست نے شاید جو دلائل جمہوریت کے جائز ہونے پر دئے ہیں ان کا تجزئیہ کرنے میں آسانی ہو ۔

مجلس امت کے حق میں یہ جو آیات پیش کی جاتی ہیں ایک آیت مبارکہ ہے اَمرًھُم شُوریٰ بنًیھُم " اور دوسری " وشاورھم فی الامر " ان آیات سے پہلے اسلامی مجلس امت کو موجودہ جمہوری پارلیمنٹ کے قریب ترین گردانا جاتا اور پھر انتہائی سطحی قسم کے قیاس سے سارے کے سارے جمہوری نطام کو اسلامی سمجھ لیا جاتا ہے ۔

بلاشبہ مجلس شورٰی اسلامی طرز حکومت کا ایک جزو ہے جسکا مقصد امت کی نمائندگی اور خلیفہ کو مباح امور پر مشاورت فراہم کرنا اور حکمرانوں کا محاسبہ شامل ہیں- مگر اسلام نے اس مشورے اور رائے پر ایک حد مقرر کی ہے اور وہ یہ کہ
مشورہ صرف اور صرف مباح اور انتظامی امور managment پر کیا جاسکتا ہے۔ legislative پر نہیں کیونکہ وہ شرع میں پہلے سے طے شدہ ہیں۔
بر عکس " جمہوریت میں ہر ظرح کے امور خواہ ان کا تعلق کسی قسم کے امور کے لئے خود سے قانون سازی کی جاتی ہے اور میعار حق صرف اکثریتی فیصلے کو بنا یا جاتا ہے۔

خلاصتہ یہ کہ مجلس شورٰی کا کام صرف مشورٰی دینا اور حکمرانوں کا احتساب کرنا ہوتا ہے قانون سازی کرنا ہر گز نہیں۔

شورٰی کے شرعی ہونے کی بنیاد وہ حکم ہے جس میں اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ عیلہ والہ وسلم کو مومنین سے مشورہ کرنے کا حکم دیا ۔اللہ تعا لی نے ارشاد فرمایا:-
وشاورھم فی الامر
اور معاملے میں ان سے مشورہ کرو (آل عمران :159)
اس آیت میں " فی الامر " کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہر معاملے میں مشورہ کرنا خواہ وہ کسی نوعیت کے ہوں تاہم چونکہ فرائض ،محرمات اور دوسرے شرعی احکامات شریعت نے خود بیان کر دیئے ہیں اور خود ہی ان کا تعین کردیا ہے ۔جس میں انسانی رائے کی کوئی گنجائش نہیں لہزا ان معاملات میں مشورہ کی کوئی حثیت نہیں کیونکہ ایک اور فرمان کے مطابق جس میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں کہ
" اتبعو مانزل الیکم من ربکم "
آپ صلی اللہ عیلہ والہ وسلم کے رب کی طرف سے آپ صلی اللہ عیلہ والہ وسلم پر جو نازل کیا گیا ہے اس کی اتباع کرو۔ ( الاعراف :3

اس کے علاوہ بھی بہت سی دیگر آیات سے ثابت ہے کہ شرعی احکامات کے متعلق مشورے کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی شرعی اخکامات میں اس کی گنجائش ہے ۔اور یہ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ یہ احکمات مشورے والی آیت میں وارد ہونے والے لفظ "" الامر "" کے عمومیت میں کمی کرتے ہیں اور اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مشورہ صرف مباح امور پر ہو سکتا ہے۔

واسلام
 
اسلام و علیکم،
آیئے خلفہ راشدین کے زمانہ پر نظر ڈالتے ہیں۔

۱۔ حضرت ابو بکر بن ابی قحافہ انصار و مہاجرین کے بحث و مباحثہ کے بعد خلیفہ چنے گیے
۲۔ حضرت عمر بن خطاب خلیفہ اول نے نامزد کیا۔ اور کوی راءے شماری نہیں ہوءی
۳۔ حضرت عثمان بن عفان 6 رکنی شوریٰ نے چننا تھا۔ عوام کی رائے شماری نہیں ہوی
4۔ حضرت علی ابن ابی طالب خلیفہ سوم کے قتل کے بعد لوگوں نے گھر کا گھیراو کیا اور خلیفہ چنے گیے

مجھے یہ بتایں اسلام کا اصل طریقہ کیا تھا خلیفہ چننے کا ؟؟؟؟

والسلام
 

عمر میرزا

محفلین
ذیل میں دی گئی تصویر میں بڑے جامع انداز سے بتیا گیا ہے کہ مجلس شورٰی کیسے کام کرتی ہے۔ مجلس شورٰی کا کام امت کی نمائندگی یعنی ان کے مسائل کو خلیفہ تک پہنچانا اور حکومت بددیانتی یا بد عنوانی پر حکومت کا احتساب کرنا ہوتا ہے۔

orgchartmajliskj0.gif
 

عمر میرزا

محفلین
اسلام و علیکم،
آیئے خلفہ راشدین کے زمانہ پر نظر ڈالتے ہیں۔

۱۔ حضرت ابو بکر بن ابی قحافہ انصار و مہاجرین کے بحث و مباحثہ کے بعد خلیفہ چنے گیے
۲۔ حضرت عمر بن خطاب خلیفہ اول نے نامزد کیا۔ اور کوی راءے شماری نہیں ہوءی
۳۔ حضرت عثمان بن عفان 6 رکنی شوریٰ نے چننا تھا۔ عوام کی رائے شماری نہیں ہوی
4۔ حضرت علی ابن ابی طالب خلیفہ سوم کے قتل کے بعد لوگوں نے گھر کا گھیراو کیا اور خلیفہ چنے گیے

مجھے یہ بتایں اسلام کا اصل طریقہ کیا تھا خلیفہ چننے کا ؟؟؟؟

دو چیزوں کو اکثر مکس اپ کر دیا جاتا ہے کہ ایک خلیفہ کا چناؤ یا نامزدگی اور دوسرا اس کا انعقاد۔۔
نامزدگی سے مراد ہے کہ کسی شحص کو امت کے سامنے منصب خلافت کےلئیے پیش کرنا ۔اور انعقاد سے مراد ہے کہ اگر اسے امت کی بعیت کے ذریعے منصب خلیفہ پر فائز کرنا۔

اب آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں ۔کسی شخص کو ان چاروں میں سے کسی بھی طریقے سے چنا جا سکتا ہے کیونکہ یہ جائز ہے اس کی وجہ یہ کہ ان پر اجماع صحابہ تھا ہنگامی حالات میں ایسا ہی ہو تا ہے۔ مگر خلیفہ وہ اسی صورت میں بن سکتا ہے جب اسے امت بیعت دے۔ اگر امت اسے بعیت نہیں دیتی تو وہ امت کا خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ اس بیعت کو بیعت انعقاد کہتے ہیں ۔
ضمنا عر ض کرتا چلوں کے بعیت جبرا بھی نہیں ہو سکتی اگر کوئی ایساکرے گا وہ بھی ایک خلیفہ نہیں بلکہ غا صب اور ظالم حکمران کہلائے گا ۔جیسے کہ یزید تھا۔

ایک اور بات کہ ہمارے مسلمانوں کے ذہن میں اکثر اسلام کے حوالے سے شکوک و شبہات ڈالے جاتے ہیں ۔ جیسے آپ کا سوال ۔اس سوال کے پس منظر میں یہ سوچ کار فرما ہوتی ہے کہ شاید اسلام نے خلیفہ کو چننے کا کوئی طریقہ نہیں بتایا اور اسلام اس بارے خاموش ہے ۔جس کے نتیجے میں موجودہ دور میں ہم کچھ بھی اختیار کرسکتے ہیں ۔حتٰی کے دوسرا نطام تک بھی۔ حالانکہ بات بہت سادہ ہے اگر نامزدگی اور انعقاد والی بات سمجھ آجائے ۔
یہ مسلہ اور زیادہ آسان فہم ہو سکتا ہے اگر کچھ حالات خاضرہ کے سامنے رکھ کر دیکھا جائے ۔حالیہ مثال ہی لیں ۔بے نظیر کی ہلاکت کے بعد پیپیلزپارٹی میں اگلی قیادت کے لئے مسلئہ اٹھ کھڑا ہوا ۔پارٹی نے اس سلسلے میں ایک ہنگامی اجلاس بلایا اور بے نظیر کی وصیت کے مطابق اس کے بیٹے بلاول زرداری کو جماعت کا سربراہ بنا دیا گیا۔ یعنی اسے پارٹی نے بحثیت وزیراعظم پاکستان چن لیا ۔ مگر پاکستان کا وزیراعظم وہ تب کہلائے گا جب مستقبل میں اگر وہ سیاست میں عملا حصہ لے اور عوام اسے ووٹ دئے۔
 

عمر میرزا

محفلین
میرے خیال میں قادیانی خلافت راشدہ کے مطابق ہی اپنے خلیفہ چنتے ہیں، مگر ہم انہیں نہیں مانتے! بات وہی آجاتی ہے کہ 73 فرقوں میں بٹے ہوئے مسلمان ایک خلیفہ کیسے چن سکتے ہیں!

قادیانیوں کی خلافت کو ہم اسلئے نہیں مانتے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں ۔۔کیونکہ خلافت وہ ہوتی ہے جس میں جس میں عملا کوئی علاقہ بھی ہو اور اس محصوص علاقے پر مسلمانوں کی اتھارٹی اور سیکیورٹی بھی ہو۔ اگر موجودہ دور میں خالی خولی کوئی مسلمان بھی اپنے آپ خلیفہ کہنا شروع کردے یا کچھ لوگ کسی کو خلیفہ کہنا شروع کر دیں تو اس سے وہ خلیفہ نہیں بن جاتا۔
جہاں تک 73 فرقوں کی بات ہے اگرپاکستان میں دو سو سیکولر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے سخت مخالفت رکھنے کے باوجود اگر وزیر اعظم یا صدر منتحب کر لیتیں ہیں تو تب آپ کو اتنی حیرانی کیوں نہیں ہوتی۔ یہاں آپ کو 73 فرقوں کی وجہ سے مشکل نظر آرہی ہے۔کیا آج تک کسی فقہی گروہ کی طرف سے یہ بیان آیا کہ فلاں شخص کو ہم نہیں مانتے یہ ہمارے مسلک کا نہیں۔ یا آآپ نے یہ سنا ہو کہ کسی مسلک نے سول نافرمانی کر دی ہو کہ ہم ملک کے قانون کو اس لئے نہیں مانتے کہ سبربراہ دوسرے مسلک کا ہے۔ ہمارے مسلمان بھائی تو اس شخص کو بھی صدر مانے جارہے ہیں جو عوام کا قاتل اور استعماری کفار کا ایجنٹ ہے ۔تو اگر کل کوئی شخص امیر المومنین بنتا ہے اور امت کی فلاح اور بہبود کے لئے کام کرتا ہے ۔امت کو استعماری کفار کےچنگل سے چھڑاتا ہے تو کسی کو اس پر اعتراض کیونکر کر سکتا ہے۔
جب ہم خلافت کی بات کرتے ہیں تو اس مراد مسلمانوں کی سیاسی وحدت ہے۔مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ٹھیک ہونا چاہیے باقی فقہی احتلاف رکھنا کوئی مسلئہ نہیں۔ آپ بتایئے کہ آخر کیا اہل سنت خضرات (دیوبندیوں ،بریلویوں ،اہلحدیث) یا شیعہ خضرات میں سے کسی کو اختلاف ہے اسلامی نظام کے نفاذ پر یا سود کی حرمت یا حربی کفار ممالک سے جہاد پر ۔ہر گز نہیں
 

ظفری

لائبریرین
دو چیزوں کو اکثر مکس اپ کر دیا جاتا ہے کہ ایک خلیفہ کا چناؤ یا نامزدگی اور دوسرا اس کا انعقاد۔۔
نامزدگی سے مراد ہے کہ کسی شحص کو امت کے سامنے منصب خلافت کےلئیے پیش کرنا ۔اور انعقاد سے مراد ہے کہ اگر اسے امت کی بعیت کے ذریعے منصب خلیفہ پر فائز کرنا۔

جناب آپ کی ہراگلی بات پچھلی بات سے متضاد ہوتی ہے ۔ خیر اس بحث کو چھوڑیں ۔ آپ یہ بتائیں کہ کسی شخص کو امت کے سامنے کس اصول کے تحت منصبِ خلافت کے لیئے پیش کیا جائے گا ۔ اور پھر اس شخص کو اُمت کی تائید یا بیعت کیسے حاصل ہوگی ۔

ایک اور بات کہ ہمارے مسلمانوں کے ذہن میں اکثر اسلام کے حوالے سے شکوک و شبہات ڈالے جاتے ہیں ۔ جیسے آپ کا سوال ۔اس سوال کے پس منظر میں یہ سوچ کار فرما ہوتی ہے کہ شاید اسلام نے خلیفہ کو چننے کا کوئی طریقہ نہیں بتایا اور اسلام اس بارے خاموش ہے ۔جس کے نتیجے میں موجودہ دور میں ہم کچھ بھی اختیار کرسکتے ہیں ۔حتٰی کے دوسرا نطام تک بھی۔ حالانکہ بات بہت سادہ ہے اگر نامزدگی اور انعقاد والی بات سمجھ آجائے ۔

دوسرے نظام سے آپ کی کیا مراد ہے ۔ ؟

یعنی اسے پارٹی نے بحثیت وزیراعظم پاکستان چن لیا ۔ مگر پاکستان کا وزیراعظم وہ تب کہلائے گا جب مستقبل میں اگر وہ سیاست میں عملا حصہ لے اور عوام اسے ووٹ دئے۔

یہ عمل کس نظام کے تحت انجام دیا جائے گا ۔؟
 
Top