اسلام اور جمہوریت

غازی عثمان

محفلین
نعیمہ احمد مہجور
بی بی سی اردو، لندن

اسلامی جمہوریت اور عالمی رائے عامہ
دنیا کے تقریباً سبھی ملکوں میں یہ خیال عام ہے کہ اسلام میں جمہوریت کا کوئی تصور نہیں اور جمہوری عمل اسلام کے منافی ہے۔ تاہم اس حوالے سے بعض مغربی مؤرخین اب یہ کہنے لگے ہیں کہ اصل میں چند ملکوں کی صوابدید پر رائے عامہ قائم کرنے کے ایسے کارخانے بنائےگئے ہیں جو اپنی بات منوانے کے لیے اسی طرح کا تصور یا نظریہ پیش کرتے ہیں جو ان کی پالیسی کے عین مطابق ہو۔

بقول گوبلز کوئی جھوٹی بات بار بار کہنے سے سچ بنائی جاتی ہے جیسا کہ دوسری عالمگیر جنگ میں ان کا یہ حربہ بڑی حد تک کامیاب رہا۔ اسلام کو جمہوریت کے منافی قرار دینے کا یہ نظریہ بار بار دوہرانےسےصحیح مانا جانے لگا حتٰی کہ خود مسلمانوں نے اس نظریے کو من و عن قبول کیا۔

اس ’عقیدے‘ کو پھیلانے میں اہم کردار مغرب نواز اسلامی رہنماؤں نے کیا جو اپنے ملکوں میں جمہوریت کا سرے سے قیام نہیں چاہتے۔ کیا یہ مسئلہ اسلام کا ہے یا یہ کہ مسلمان حکمرانوں میں آزاد معاشرے میں رہنے کی وہ تہذیب ابھی تک نہیں آئی جو جمہوریت کی بنیاد بنتی ہے؟

مشہور مؤرخ لیث کببا کہتے ہیں کہ مسئلہ اسلام کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا ہے۔اس کا تعلق نہ مذہب سے ہے اور نہ جدیدت سے۔ اصل میں مسلمانوں کو جمہوریت سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی اور اس سازش میں سب سے نمایاں کردار مسلمان حکمرانوں نے ادا کیا جو عوام کی آزادی کو اپنے لیے شدید خطرہ سمجھتے ہیں۔

ان حکمرانوں کو ہمیشہ کٹر مذہب پرستوں کی حمایت حاصل ہوئی جنہوں نے اسلام کو سخت ترین مذہب کے طور پر پیش کر کے عوام کو اپنی مٹھی میں قید کر رکھا ہے۔

عرب حکمرانوں نے ظاہری طور پر جمہوریت کے مغربی ماڈل سے ہمیشہ نفرت کی مگر مغرب نے آج تک جتنی ایجادات کی ہیں اسکا ثمر پہلے انہوں نے ہی حاصل کیا۔ مغرب کے ہمسایہ اسلامی ملکوں میں اس بات پر یہ تذبذب چھایا رہا کہ اسلامی طرز حکومت اور جمہوری نظام میں کس کو اپنایا جائے جس کے نتیجے میں نہ وہ مکمل طور پر اسلامی رہے اور نہ مغرب کے سیکولرازم کو پوری طرح سے اپنا سکے۔تذبذب کی اس کیفیت نے پچپن ملکوں میں آباد ایک ارب چالیس کروڑ مسلمانوں میں نہ صرف مذہب کے تئیں کنفیوژن پیدا کیا ہے بلکہ حکمرانوں کے طرز عمل پر ان کے شکوک بھی ہیں۔

مسلمان ملکوں میں ترکی نے تحریکِ خلافت کے خاتمے کے بعد ہی جمہوری نظام تشکیل دینے میں سبقت لی اور بابائے قوم کہلانے والے کمال اتا ترک نے مغربی طرز پر اصلاحاتی پیکیج متعارف کرا کے جمہوری اداروں کی بنیاد ڈالی۔ملک کے اعلی طبقے نے ان کی حمایت کی مگر نچلے سطح پر اس نظام کو کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ اسّی برس گزر جانے کے باوجود ترکی نے صحیح معنوں میں جمہوریت قائم نہیں کی۔

ترکی کے مقابلے میں ملیشیا کے اعلٰی طبقے نے جمہوریت کی کبھی حامی نہیں بھری کیونکہ اسے خدشہ رہا کہ ملک میں کثیر نسلی برادریوں اور مذہب کے مابین توازن قائم کرنے میں شدید دشواری ہو سکتی ہے۔ گو کہ ایران میں منصفانہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کی بدولت جمہوری عمل جاری رہا ہے مگر تمام اختیارات شوری نگہبان کے پاس رہنے سے اس نظام کو غیر جمہوری ہی تصور کیا جاتا رہا ہے۔

گذشتہ دو دہائیوں میں بعض عرب ملکوں میں انتخابی عمل شروع کیا گیا البتہ انہیں صاف و شفاف انتخابات کی سند دینے پر کوئی تیار نہیں ہے۔ اگرچہ کئی ملکوں میں منصفانہ انتخابات عمل میں آئے مگر امریکہ اور اس کے اتحادی کامیاب ہونے والی سیاسی جماعتوں کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہوئے بلکہ ان جماعتوں کو سخت گیرقرار دے کر رد کر دیا گیا۔

امریکہ نے مشرق وسطٰی میں جمہوری نظام قائم کرنے کی جو پالیسی مرتب کی ہے اس پر اکثر مؤرخ شک کر رہے ہیں۔ وہ ابھی تک یہ تعین نہیں کر پا رہے ہیں کہ امریکہ اس خطے میں جمہوریت کا کونسا ماڈل اپنانا چاہتا ہے۔ جب مصر میں اخوان المسلمین، الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ اور فلسطین میں حماس نے انتخابات جیتے تو امریکیوں نے تمام مغربی ملکوں کے ساتھ مل کر ان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور روایتی حکمرانوں کی پیٹھ تھتھپاتے رہے حالانکہ وہ انتخابی عمل بری طرح ہار بھی چکے تھے۔ تاہم یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا صرف انتخابات ہی جمہوریت کی نشانی ہیں یا اس حوالے سے شخصی آزادی کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے۔

مسلمانوں کو مغرب کا طرز عمل دیکھ کر تعجب ہوا اور یہ سوال اٹھا کہ کیا امریکہ نے جمہوریت کا جو نیا ماڈل مسلمانوں کے لیے تیار کیا ہے اس کی عملداری کا ابھی وقت نہیں آیا؟

امریکی مسلمان ملکوں میں دو دھاری تلوارسے کھیل رہے ہیں۔ ایک طرف امریکی انتظامیہ نے سعودی عرب کے حکمرانوں جیسے مسلمان اہلِ اقتدار سے گہرے تعلقات قائم کیے ہیں جنہوں نے اپنی سلطنتوں میں کبھی جمہوری اداروں کو قائم کرنے کا موقع نہیں دیا تو دوسری طرف امریکیوں نے فلسطین میں حماس کی حکومت کے لیے ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔

حقیقت میں مغرب اور مغرب نواز مسلمان رہنماؤں نے اسلام اور جمہوریت کے بیچ ایسی وسیع خلیج پیدا کی ہے کہ خود مسلمانوں میں یہ عقیدہ پختہ ہوگیا ہے کہ جمہوریت اسلام کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔

جمہوریت کی خوبی ہے کہ اس کی بدولت عوام طاقت بن جاتے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے حکمرانوں کو بنا اور بگاڑ سکتے ہیں جس کا مسلمان رہنما ابھی تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایک بڑی وجہ مسلمانوں میں موجود یہ خدشہ بھی ہے کہ جمہوریت سے ان کے معاشرے کا تانا بانا اسی طرح بکھر جائےگا جس طرح مغربی ملکوں میں ہوا ہے۔ گو کہ مسلمان جدیدیت اور ایجادات کے حامی رہے ہیں البتہ جمہوریت کی قیمت اگر گھر بار کی خوشی سے محرومی کی صورت میں ادا کرنا پڑے تو اس کا خیال تک کرنا گناہ ہوگا۔

بعض مؤرخ سمجھتے ہیں کے اسلامی نظام میں شعوریت کا تصور پارلیمان یا اسمبلی سے مختلف نہیں۔ اس کی شہادت میں پیغمبرِ اسلام کے اس معاہدے کو پیش کیا جاتا ہے جب انہوں نے یہودیوں کے ساتھ سمجھوتہ کر کے اسلام کو وقت اور حالات کے مطابق ڈھالنے کی روایت ڈالی۔

مغرب میں بیش بہا شہری آزادیوں، مساوی انسانی حقوق، ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی بیاہ اور مذہب تبدیل کرنے کے اختیارات سے مسلمان خطرہ محسوس کر رہے ہیں مگر جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے معاشرے کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ضروری نہیں اور مسلمان اسلام کی بنیاد پر جمہوریت کا نیا ماڈل بنا سکتے ہیں مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مسلمان حکمران اپنے عوام کو جمہوری نظام دے کر انہیں سوچنے اور سمجھنے کی آزادی دینا چاہتے ہیں؟
 

خرم

محفلین
جمہوریت نطام کفر ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں
عمر بھائی اس کے حق میں‌آپ نے کوئی دلیل نہیں دی ابھی تک۔ ایک سوال آپ سے کیا تھا حزب کے پھیلائے ہوئے لٹریچر کے جواب میں آپ نے آج تک اس کا بھی جواب نہیں دیا۔ جمہوریت کو نظامِ کفر قرار دینے کے لئے آپ کو ٹھوس وجوہات بیان کرنا پڑیں گی۔ بالخصوص اس صورت میں جب کہ حکمرانوں کے انتخاب کے لئے اسلام نے امتِ مسلمہ کو کسی باقاعدہ نظام کا پابند نہیں کیا۔
 

arifkarim

معطل
قائد اعظم محمد علی جناح کے مطابق ہمیں کسی مغربی ’’ism‘‘ کی ضرورت نہیں، بہترین حکومتی نظام وہ ہے جو حضرت عمر فاروق اور حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ کے زمانے میں رائج تھا، اسی کو آجکل کے حالات کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے نہ کہ کوئی مغربی نظام۔
 

خرم

محفلین
بھائی نظام کوئی مغربی یا مشرقی نہیں‌ہوتا۔ جس اندازِ حکومت میں عوام کی فلاح و بہبود، عدل و انصاف، معاشی و معاشرتی مساوات بنیادی اصول ہوں وہی نظام اسلامی ہے اور حق ہے۔ باقی جہاں تک بات ہے نام کی تو ہمیں‌اسلام کسی مخصوص نام والے نظام کو اپنانے کا نہ تو پابند کرتا ہے اور نہ منع کرتا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
جمہوریت نظام کفر ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں
عمر میرزا صاحب ۔۔۔ پتا نہیں ! آپ نے یہ بات کیسے اور کیوں کہہ دی ۔ اللہ تعالی کا قرآن میں ارشاد ہے ۔ " امَرُھم شُوٰری بینَھُم " ۔ اس آیت کے بارے میں تحقیق کریں اور اپنے پھر بیان سے موازنہ کریں ۔ خرم بھائی کا کہنا صحیح ہے کہ ایسے معاملات میں کوئی بھی بات دلیل کے بغیر تسلیم نہیں کی جاسکتی ۔
 

ظفری

لائبریرین
کیا درست رائے رکھنے والے اکثریت میں نہیں‌ ہوسکتے ۔ ؟ یا یوں کہہ لیں کہ کیا اکثریت درست رائے نہیں رکھ سکتی جو باہمی مشاورت پر مبنی ہو ۔ ؟
 

عمر میرزا

محفلین
السلام علیکم

کچھ طبعی سستی تھی اور کچھ غم روزگار کی وجہ سے جواب لکھنے میں دیر ہو گئی اس کے لئے معذرت خواہ ہوں ۔مگر اب بھی جواب لکھنے سے قاصر ہوں کیونکہ عید کرنے کے لئے آبائی گھر جا رہا ہوں انشاءاللہ واپسی پر آپ سے دو دو ہاتھ کریں گے:)

آپ سب بھائیوں کو بھی بہت بہت عید مبارک قبول ہو ۔خاص طور پر ظفری اور خرم اور دوسرے برادران بھی جو اپنے گھر سے دور پردیس میں ہیں ان کو بھی بہت بہت عید مبارک قبو ل ہو ۔اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ آپ سب کی عید بہت بہت اچھی گزرے ۔
فی الوقت آپ انسے دل بھلایئں
جمہوریت نطام کفر ہے
خلافت و جمہوریت : ایک نعمت اور ایک لعنت

آڈیو جمہوریت کے ذریعے اسلام کا نفاذ ناممکن ہے نوید بٹ (ترجمان حزب التحریر ۔ ولایہ پاکستان)
اللہ خافظ
 

arifkarim

معطل
بھائی نظام کوئی مغربی یا مشرقی نہیں‌ہوتا۔ جس اندازِ حکومت میں عوام کی فلاح و بہبود، عدل و انصاف، معاشی و معاشرتی مساوات بنیادی اصول ہوں وہی نظام اسلامی ہے اور حق ہے۔ باقی جہاں تک بات ہے نام کی تو ہمیں‌اسلام کسی مخصوص نام والے نظام کو اپنانے کا نہ تو پابند کرتا ہے اور نہ منع کرتا ہے۔

بھائی جان مغربی پارلیمانی نظام کی پیروی کر کر کے تو ہمارا آج یہ حال ہے۔ مطلب یہ کہ یہ نظام جنہوں نے بنایا ہے انہی کو سجھتا ہے (مغربی یوورپیئنز) اور جب ہم انکی پیروی کرتے ہیں تو ۔ ۔ ۔ تاریخ پڑھ لیں ۔ ۔ ۔

یہاں ناروے میں بھی پارلیمانی نظام ہے مگر ان کے پاس ایک بادشاہ ہے جو کہ الیکشن جیتی ہوئی پارٹی کیساتھ مل کر گورنمنٹ بناتا ہے اور اس طرح کرپشن ناممکن ہو جاتی ہے کیونکہ بادشاہ اپنی قوم کا مخلص ہوتا ہے۔ کسی بھی گڑ بڑ کی صورت میں جب چاہیں گورمنٹ توڑ سکتا ہے۔ مگر آج تک خدا کے فضل سے اسکی ضرورت نہیں پڑی۔
 

خرم

محفلین
تو بھائی خرابی نظام میں نہیں اس کے عمل درآمد میں‌ہوئی نا؟ ویسے پارلیمانی جمہوریت جس میں ایک صدر اور ایک وزیر اعظم ہو اس کی پاکستان میں کوئی تُک نہیں‌بنتی۔ میرے خیال میں تو ہمارے لئے ایک صدارتی نظام جو امریکی نظام سے نسبتاً قریب ہو وہ زیادہ موزوں ہے لیکن بہرحال جمہوریت کے سوا ایسا کوئی نظام فی الحال موجود نہیں ہے جس میں آپ عوام کو براہِ راست حکومت سازی میں شامل کر سکیں اور انہیں اپنے حکمرانوں‌کے احتساب کا حق دے سکیں۔
 

عمر میرزا

محفلین
میرے خیال میں تو ہمارے لئے ایک صدارتی نظام جو امریکی نظام سے نسبتاً قریب ہو وہ زیادہ موزوں ہے

خدا کے لئے اب اس روئیے کو چھوڑ دیجئے کہ جو کچھ امریکہ یا مغرب کرتا ہے وہی بہتر ہے وہی افضل ہے وہی ہمارے لئے قابل ہجت ہے ان کا کیا ہوا ہر فعل ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ کیونکہ خضرت یہی ہوتی ہے غلامی جسے ہم لوگ کسی طور بھی چھوڑنا نہیں چاہتے۔ غلامی کسی جسمانی مشقت نہیں بلکہ فکری معذوری کا نام ہے۔ اور قوموں پر بھی اس وقت زوال آتا ہے جب فکروعمل میں دوری بڑھتی ہے اور دوسروں سے متاثر ہونے کا جزبہ زور پکڑتا ہے خود سے سوچنے سمجھنے کا عمل مفقود ہو جاتا ہے مسمان امت کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا اور ابھی بھی اس کا اعادہ کیا جارہا ہے ۔
سادہ لوح ور معصوم عوام کو چھوڑیں اصل قصور تو ہمارے تعلیم یافتہ طنقے کا ہے کیونکہ معاشرے میں تبدیلی تو انہوں نے ہی لانی ہوتی ہے مگر اس تعلیم یافتہ طبقے کے بھی کیا کہنے ہیں مغرب کی چکا چوند دنیا نے آنکھیں اتنی خیرہ کر رکھی ہیں کہ دین کو احتراما یا کسی ڈر کی وجہ سے فرسودہ تو نہیں کہتے مگر اس سے کم بھی نہیں گردانتے ۔اسلام کی طرف کسی طور بھی رجوع نہیں کیا جاتا اور دور رہنے کے لئے طرح طرح‌کے بہانے گھڑے جاتے ہیں کبی کہا جاتا ہے کہ اس پر تو ملا کی اجاراداری ہے کبی کہا جاتا ہے کہ دین میں تو تفرقہ بازی بہت ہے اور کبھی اس خدشے سے پیچھے ہت جاتے ہیں کہ کہیں رجائیت پسندی یا بنیاد پرستی کی تہمت نہ لگ جائے ۔
اور افسوس کہ اسلام کو چھوڑ کر انگریزی نام والے ہر دانشور کی بات کو اپنی تحریروں اور تقریروں میں دہرایا جاتا ہے ۔مغرب سے چپھنے والی ہر بات کو ہونٹوں سے چوم کر آنکھوں پر لگایا جاتا ہے

نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم کے مطابق " کہ میری امت پر ایک ایسا وقت ضرور آئے گا کہ جب اگر یہ کفار کسی سوراخ میں بھی جاکر بیٹھیں گے تو اس پر بھی میری امت ان کی پیروی کریں گے۔

بالخصوص اس صورت میں جب کہ حکمرانوں کے انتخاب کے لئے اسلام نے امتِ مسلمہ کو کسی باقاعدہ نظام کا پابند نہیں کیا۔

کیا یہ ممکن ہے وہ دین جو کھانا کھانے پانی پینے اور دانت صاف کرنے کا طریقہ تک بتائے مگر حکمرانوں کے چناؤ کے لئے کوئی باقاعدہ نظام نہ بتائے ایسا ہو ہی نہیں سکتا اور نہ ایسا ہے ۔ خلافت راشدہ میں خلیفہ کے چناؤ کے لئے جو چار طریقے اپنائے گئے وہ جائز اور اسلامی ہیں کیونکہ ان پر اجماع صحابہ تھا۔آج حالات و واقعات کے مطابق ان چاروں سے کوئی ایک اختیار کیا جاسکتا ہے ۔
اور خدارا اپنی کم علمی کو چھپانے اسلام کو مشق ستم نہ بنائیے ۔


وسلام
 

ظفری

لائبریرین
مشورہ کا مطلب درست رائے پر عمل کرنا ہے چاہے اقلیت کی ہو یا اکثریت کی
میرا خیال ہے کہ آپ ایسے ہی بات سے بات نکالتے رہیں گے ۔ لہذاٰ اب اگر اس موضوع پر تھوڑی وضاحت سے بات کرلی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔

اسلام نے مسلمانوں کو ایک اصول دے دیا ہے کہ " اَمرًھُم شُوریٰ بنًیھُم " ۔ یعنی مسلمانوں‌کا نظمِ اجتماعی ان کے مشورے اور رائے پر مبنی ہوگا ۔ اس جملے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ یہ فیصلہ مسلمانوں کو کرنا ہے کہ انہیں کیا اپنانا ہے اور کیا نہیں اپنانا ۔ چناچہ اختلافات ہونگے ، لیکن جس طرح باقی اختلافات کو جہموری نظام ( پارلیمنٹ ) میں ‌حل کرتے ہیں ۔ اسی طرح مذہبی معاملات یا مذہی قانون سازی کو بھی حل کریں گے ۔ پارلیمنٹ میں آخر کوئی حق و باطل کا فیصلہ تو ہونے نہیں جا رہا ؟ ۔ اکثریت کے فیصلے کی بات مذہبی مطالبات کے تحت اٹھائی گئی ہے جس نے نہ صرف قوم کو خراب کیا بلکہ ملک کو بھی برباد کیا ، اور یہ سلسلہ پچاس سال سے چلا آرہا ہے جس کے نتیجے میں ہم منافق ہو کر رہ گئے ہیں ۔ قائدِ اعظم نے جو بات کہی تھی وہ صحیح ترین بات تھی کہ " اس ملک میں مسلمان رہتے ہیں ۔ مسلمان اسلام کیساتھ محبت رکھتے ہیں ۔ وہ جب انفرادی زندگی میں دین کو قبول کرتے ہیں تو اجتماعی طور پر جب وہ کسی قانون سازی کے لیئے بیٹھیں گے تو کیا اجتماعی طور پر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت کر جائیں گے ۔ ؟ پارلیمنٹ میں جب کوئی مسئلہ زیرِ بحث آتا ہے تو آخر آپ کس اُصول پر قانون سازی کرتے ہیں ۔ آپ رسم کو دیکھتے ہیں ، رواج کو دیکھتے ہیں ، دنیا کو دیکھتے ہیں ، معاملات کو دیکھتے ہیں ، قانون کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ ہمارے پروردگار نے ہمیں کیا ہدایت دی ہے ۔ ہمارے پغیمبر نے ہماری کیا رہنمائی فرمائی ہے ۔ آخر مسلمان اجتماعی حیثیت سے کیوں بغاوت کر ڈالیں گے ۔ ؟

میرا احساس یہ ہے کہ ہماری پارلیمنٹ جو قانون سازی کرے گی وہ ٹھیک ٹھیک ہماری اجتماعی زندگی کی نمائندگی کرے گی ۔ ہم جتنے مسلمان انفرادی طور پر ہونگے ۔ اُتنے ہی اجتماعی طور پر بھی ہونگے ۔ ایک مسلمان فرد کا مسلمان ہوتے ہی اللہ تعالی سے معاہدہ ہوجاتا ہے کہ جو اللہ کا حکم ہے اُسے وہ ماننا ہے ۔ بات یہ عرض کرنی ہے کہ آپ مسلمان پر اعتماد کریں ۔ جو فیصلہ ایک فرد کرتا ہے ۔ وہی فیصلہ ملک اور قوم بھی کرتی ہے ۔ آپ باہر سے اس پر کسی قسم کا دباؤ نہیں لاد سکتے ۔ گذشتہ پچاس سالوں میں آپ نے باہر سے کیا کیا ۔ بہت قوانین بنا دیئے ، بہت سی آئینی ترمیمات کروا دیں ، قرادِ مقاصد منوادیا ، کیا ہوگیا ۔ ؟ یہ ایک پارلیمنٹ ہے جہاں ہمارے اجتماعی وجود کی نمائندگی ہونی ہے ۔ جس طرح کا اجتماعی وجود ہوگا ۔ اُسی کے لحاظ سے قوانین رائج ہونگے ۔ اسی کے لحاظ سے ہمارا دین کیساتھ ظہور ہوگا ، اسی کے لحاظ سے ہماری دین کی تشریحات ہونگیں ۔ آخری فیصلہ کس کو کرنا ہے ۔ کسی سوسائٹی میں جب تک آپ چور دروازے رکھتے ہیں ۔ اس دم تک آپ منافق رہتے ہیں ۔ پارلمینٹ میں مسلمان ہونگے ۔ اگر کوئی قانون سازی ہوتی ہے اور آپ یہ کہتے ہیں‌ کہ قرآن و سنت یہ کہتے ہیں‌ ۔ آپ کا کیا خیال ہے اس کے بعد لوگ بغاوت کر جائیں گے ۔ ؟ چلیں کوئی چیز سمجھی نہیں‌ جارہی آپ سمجھائیں لوگوں کو ۔ پارلیمنٹ قانون سازی علم و عقل کی بنیاد پر کرتی ہے اگر کوئی فرد یہ سمجھتا ہے کہ اس مسئلے کی طرف لوگوں ‌کی توجہ کی ضرورت ہے وہ کھڑا ہو کر توجہ دلا دے ۔اصل فیصلہ اس فرد کو کرنا ہے جس نے دین کو انفرادی حیثیت سے قبول کرنا ہے اور اصل فیصلہ پارلیمنٹ کو اجتماعی حیثیت سے کرنا ہے ۔ اللہ تعالی نے ہم کو آزاد نہیں چھوڑا ہوا ۔ اللہ تعالی نے خود کو منوایا ہے ، اپنے پیغمبر کو منوایا ہے ، اپنے دین کو منوایا ہے ۔ ہم کو شریعت بھی دی ہے ۔ اب میں اس کو آزادانہ طور پر انفرادی حیثیت سے اختیار کرتا ہوں کہ نہیں ۔ بلکل ایسے ہی پارلیمنٹ بھی اختیار کرے گی ۔ لہذاٰ ایسی صورتحال میں یہ کہنا کہ" مشورہ کا مطلب درست رائے پر عمل کرنا ہے چاہے اقلیت کی ہو یا اکثریت کی " تو ایک غیر منطقی بات لگتی ہے ۔
 
السلام علیکم

کچھ طبعی سستی تھی اور کچھ غم روزگار کی وجہ سے جواب لکھنے میں دیر ہو گئی اس کے لئے معذرت خواہ ہوں ۔مگر اب بھی جواب لکھنے سے قاصر ہوں کیونکہ عید کرنے کے لئے آبائی گھر جا رہا ہوں انشاءاللہ واپسی پر آپ سے دو دو ہاتھ کریں گے:)

آپ سب بھائیوں کو بھی بہت بہت عید مبارک قبول ہو ۔خاص طور پر ظفری اور خرم اور دوسرے برادران بھی جو اپنے گھر سے دور پردیس میں ہیں ان کو بھی بہت بہت عید مبارک قبو ل ہو ۔اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ آپ سب کی عید بہت بہت اچھی گزرے ۔
فی الوقت آپ انسے دل بھلایئں
جمہوریت نطام کفر ہے
خلافت و جمہوریت : ایک نعمت اور ایک لعنت

آڈیو جمہوریت کے ذریعے اسلام کا نفاذ ناممکن ہے نوید بٹ (ترجمان حزب التحریر ۔ ولایہ پاکستان)
اللہ خافظ
بھائی ۔ ایسے فلائنگ ریمارکس دیتے ہی کیوں ہو جن کے بارے میں تفصیل سے بات کرنے کا وقت تک نہ۔ ایسی باتیں اس وقت کے لئے اتھا رکھا کیجئے جب وقت ہو۔
 

خرم

محفلین
بھائی اب یہ بھی خوب رہی کہ آپ نے کہا کہ پہلے چار خلفائے راشدین جن طریق پر منتخب ہوئے انہی میں سے کوئی اختیار کر لیں۔ آپ صرف یہ بیان فرما دیں کہ اگر اسلام نے کوئی باقاعدہ طریقہ دیا تھا حکمرانوں‌کے انتخاب کا تو چاروں‌خلفائے راشدین کا انتخاب مختلف طریقوں سے کیوں‌ہوا؟ اور پھر یہ بھی کہ کیا کسی بھی خلیفہ نے یہ کہا کہ آئندہ حکمرانوں‌کا انتخاب اسی طریقہ پر ہوا کرے گا؟ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو قید اللہ نے، رسول صل اللہ علیہ وسلم نے اور صحابہ کرام نے امت پر نہیں‌لگائی، آج آپ لوگ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد کیوں‌امت کو اس کا مکلف کرنا چاہتے ہیں اور مکلف بھی اس طرح کہ جو اسے نہ مانے اس کی موت ہی جاہلیت کی قرار دیتے ہیں۔ ویسے آپ نے میرے سوال کا جواب ابھی تک نہیں‌دیا۔
 

arifkarim

معطل
خدا کے لئے اب اس روئیے کو چھوڑ دیجئے کہ جو کچھ امریکہ یا مغرب کرتا ہے وہی بہتر ہے وہی افضل ہے وہی ہمارے لئے قابل ہجت ہے ان کا کیا ہوا ہر فعل ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ کیونکہ خضرت یہی ہوتی ہے غلامی جسے ہم لوگ کسی طور بھی چھوڑنا نہیں چاہتے۔ غلامی کسی جسمانی مشقت نہیں بلکہ فکری معذوری کا نام ہے۔ اور قوموں پر بھی اس وقت زوال آتا ہے جب فکروعمل میں دوری بڑھتی ہے اور دوسروں سے متاثر ہونے کا جزبہ زور پکڑتا ہے خود سے سوچنے سمجھنے کا عمل مفقود ہو جاتا ہے مسمان امت کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا اور ابھی بھی اس کا اعادہ کیا جارہا ہے ۔
سادہ لوح ور معصوم عوام کو چھوڑیں اصل قصور تو ہمارے تعلیم یافتہ طنقے کا ہے کیونکہ معاشرے میں تبدیلی تو انہوں نے ہی لانی ہوتی ہے مگر اس تعلیم یافتہ طبقے کے بھی کیا کہنے ہیں مغرب کی چکا چوند دنیا نے آنکھیں اتنی خیرہ کر رکھی ہیں کہ دین کو احتراما یا کسی ڈر کی وجہ سے فرسودہ تو نہیں کہتے مگر اس سے کم بھی نہیں گردانتے ۔اسلام کی طرف کسی طور بھی رجوع نہیں کیا جاتا اور دور رہنے کے لئے طرح طرح‌کے بہانے گھڑے جاتے ہیں کبی کہا جاتا ہے کہ اس پر تو ملا کی اجاراداری ہے کبی کہا جاتا ہے کہ دین میں تو تفرقہ بازی بہت ہے اور کبھی اس خدشے سے پیچھے ہت جاتے ہیں کہ کہیں رجائیت پسندی یا بنیاد پرستی کی تہمت نہ لگ جائے ۔
اور افسوس کہ اسلام کو چھوڑ کر انگریزی نام والے ہر دانشور کی بات کو اپنی تحریروں اور تقریروں میں دہرایا جاتا ہے ۔مغرب سے چپھنے والی ہر بات کو ہونٹوں سے چوم کر آنکھوں پر لگایا جاتا ہے

نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم کے مطابق " کہ میری امت پر ایک ایسا وقت ضرور آئے گا کہ جب اگر یہ کفار کسی سوراخ میں بھی جاکر بیٹھیں گے تو اس پر بھی میری امت ان کی پیروی کریں گے۔



کیا یہ ممکن ہے وہ دین جو کھانا کھانے پانی پینے اور دانت صاف کرنے کا طریقہ تک بتائے مگر حکمرانوں کے چناؤ کے لئے کوئی باقاعدہ نظام نہ بتائے ایسا ہو ہی نہیں سکتا اور نہ ایسا ہے ۔ خلافت راشدہ میں خلیفہ کے چناؤ کے لئے جو چار طریقے اپنائے گئے وہ جائز اور اسلامی ہیں کیونکہ ان پر اجماع صحابہ تھا۔آج حالات و واقعات کے مطابق ان چاروں سے کوئی ایک اختیار کیا جاسکتا ہے ۔
اور خدارا اپنی کم علمی کو چھپانے اسلام کو مشق ستم نہ بنائیے ۔


وسلام

میرے خیال میں قادیانی خلافت راشدہ کے مطابق ہی اپنے خلیفہ چنتے ہیں، مگر ہم انہیں نہیں مانتے! بات وہی آجاتی ہے کہ 73 فرقوں میں بٹے ہوئے مسلمان ایک خلیفہ کیسے چن سکتے ہیں! :grin:
 
جہموریت نظام کفر ہے؟

ابھی میں‌نے یہ کتاب جو کسی تھریڈ میں‌کسی صاحب نے لنک دیا تھا کا کچھ مطالعہ کیا ہے- میرا اپنا خیال ہے کہ پاکستان میں‌اصولی طور پر ائین کے مطابق کوئی قانون خلافِ اسلام نہیں‌بن سکتا۔ اس صورت میں‌یہ تمام بحث جو اس کتاب میں‌ کی گئی ہے پاکستان کے معاملے میں‌غیر متعلق ہے۔ ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ عربی سے ترجمہ ہوکر ائی ہے اور عرب میں‌یہ ان بادشاہوں‌ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے جو دین کے نام پر اپنی حکمرانی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
کیا اگر پاکستان کے طرز پر کوئی اسلامی ملک مثلا سعودی عرب ایسا ائین بنا لے جس میں‌کوئی بھی قانون سازی خلافِ اسلام نہ ہو تو نمائندے چننے کے لیے جہموری نظام میں کیا برائی ہے؟
یہ درست ہے کہ پاکستان میں‌ائین کی فرمانبرداری کوئی نہیں‌کرتا مگر یہ ایک دوسرا مسئلہ ہے اور اسکی بڑی وجہ شخصی حکمرانی ہے۔
کیا اسلام میں‌شخصی حکمرانی روا ہے۔ کیا سعودی عرب کے حکمرانوں‌کی حکمرانی حلال ہے؟
یہ سعودی عرب "سعودی" کیوں‌ہے؟ کیا یہ وہ عرب ہے جو سعود کے اولاد کے لیے وقف ہے؟
کیا شاہ سعود نے اسلامی خلافت کے خلاف جنگ نہیں‌کی تھی۔ کیا وہ انگریزوں‌ کے ساتھ ملکر عثمانی خلافت کے ساتھ "جہاد" کررہے تھے؟
میرا اپنا خیال ہے کہ یہ شخصی حکمرانی کا چنگل ہے جس کی وجہ سے ہم امریکہ کے غلام بن چکے ہیں‌نہ کہ جہموریت کی وجہ سے۔
پھر اسلامی ممالک میں‌جہموریت ہے کس ملک میں‌پھر مسلمان کیوں‌ خوار ہورہے ہیں؟
 

عمر میرزا

محفلین
میرا اپنا خیال ہے کہ پاکستان میں‌اصولی طور پر ائین کے مطابق کوئی قانون خلافِ اسلام نہیں‌بن سکتا۔

ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور۔۔یہ صرف آیئن میں لکھا ہوا ہے ،اس ملک کے جتنے قوانین ہیں سب کے سب غیر اسلامی ہیںآپ عدالتوں کو دیکھ لو ،معاشیات کو دیکھ لو ،پاکستان کی فارن پالیسی دیکھ لو کہاں اسلام کا نفاز ہو رہا ہے۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ کچھ عرصہ قبل قومی مفاہمتی آرڈیننینس پاس کیا گیا کیا وہ اسلامی تھا یا امریکہ کو اڈے دئے گئے کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے۔


ابھی میں‌نے یہ کتاب جو کسی تھریڈ میں‌کسی صاحب نے لنک دیا تھا کا کچھ مطالعہ کیا ہے-
صاحب " کچھ مطالعہ " پر اکتفا کر کے آپ نے اتنا بڑا تجزیہ کر دیا بہتر تھا کہ آپ پورا پڑھتے اور پھر کوئی بیان داغتے ۔۔ہم یہ نہیں کہتے کہ جمہوریت کو چھوڑ کو عرب بادشاہوں کے سامنے سرنگوں ہو جایئں جتنے ہمارے حکمران امت کے غدار اتنے ہی سعودی بھی ہیں۔ مسلمانوں کا نظام حکومت خلافت ہے اور صرف اسی کے زریعے اسلام کا نفاز ہو سکتا ہے

کیا اگر پاکستان کے طرز پر کوئی اسلامی ملک مثلا سعودی عرب ایسا ائین بنا لے جس میں‌کوئی بھی قانون سازی خلافِ اسلام نہ ہو تو نمائندے چننے کے لیے جہموری نظام میں کیا برائی ہے؟

میں نے ایک آڈیو تقریر کا لنک بھی دیا ہے جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ جمہورےت کے ذریعے اسلام کا نفاز نہیں کیا جا سکتا۔
 
ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور۔۔یہ صرف آیئن میں لکھا ہوا ہے ،اس ملک کے جتنے قوانین ہیں سب کے سب غیر اسلامی ہیںآپ عدالتوں کو دیکھ لو ،معاشیات کو دیکھ لو ،پاکستان کی فارن پالیسی دیکھ لو کہاں اسلام کا نفاز ہو رہا ہے۔ آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ کچھ عرصہ قبل قومی مفاہمتی آرڈیننینس پاس کیا گیا کیا وہ اسلامی تھا یا امریکہ کو اڈے دئے گئے کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے۔
صرف اس لیے کہ جہموریت موجود نہیں‌اور فوجی ٹولہ مسلط ہے یعنی شخصی حکومت یا گروہی
صاحب " کچھ مطالعہ " پر اکتفا کر کے آپ نے اتنا بڑا تجزیہ کر دیا بہتر تھا کہ آپ پورا پڑھتے اور پھر کوئی بیان داغتے ۔۔ہم یہ نہیں کہتے کہ جمہوریت کو چھوڑ کو عرب بادشاہوں کے سامنے سرنگوں ہو جایئں جتنے ہمارے حکمران امت کے غدار اتنے ہی سعودی بھی ہیں۔ مسلمانوں کا نظام حکومت خلافت ہے اور صرف اسی کے زریعے اسلام کا نفاز ہو سکتا ہے
بھائی محاورتا لکھا تھا اگرچہ تقریبا پوری کتاب ہی پڑھی تھی مگر ذرا تیز رفتاری سے۔ ایک تو ترجمہ اچھا نہیں‌۔ دوسرے پاکستان سے غیر متعلق ہے۔


میں نے ایک آڈیو تقریر کا لنک بھی دیا ہے جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ جمہورےت کے ذریعے اسلام کا نفاز نہیں کیا جا سکتا۔
ذرا تفصیل سے لکھیں‌کہ جہموریت میں کیا برائی ہے خاص طور پر پاکستان کے معاملے میں۔
 
Top