اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں ہم جنس پرستوں کا اجتماع

نبیل

تکنیکی معاون
اوریا مقبول جان نے اپنے کالم میں جس ورکشاپ نائٹس فار آل کا ذکر کیا ہے، کیا اصل میں اس کا نام بائٹس فار آل نہیں تھا؟
 

سویدا

محفلین
جيسا کہ ميں نے اپنی گزشتہ پوسٹ ميں نشاندہی کی تھی کہ مذکورہ تقريب امريکی سفارتی مشن کی قائم کردہ حدود کے اندر منعقد کی گئ تھی۔ يہ ايک مصدقہ اور تسلیم شدہ روايت ہے کہ سفارت خانے بیرونی ممالک میں گفت وشنید اور ميل ملاپ کے ذريعے اپنے ملک کی نمايندگی کرتے ہيں۔

برادرم فواد یہ محض میل ملاپ اور گفت وشنید کی تقریب تو نہ تھی کیا امریکی سفارتی مشن کی قائم کردہ حدود یہی ہے کہ دوسرے ملک کے معصوم انسانوں کو ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگ دن دہاڑے بلا سبب قتل کریں
اور کیا یہی حدود ہیں کہ آپ ایک ملک کی عوام کے دل میں نفرت اور تشدد کو بھڑکائے اور پھر نعرہ لگائے کہ ہم پاکستان سے شدت پسندی کو ختم کرنا چاہتے ہیں

اس ضمن ميں نا تو کوئ قانون توڑا گيا اور نہ ہی سفارت خانے کا مقصد نفرت يا تشدد کی فضا پيدا کرنا تھا۔

پاکستان کے آئین قانون کی خلاف ورزی کی گئی یہاں کی عوام کے جذبات کو مجروح کیا گیا آپ کے خیال میں تشدد اور نفرت کے جذبات ابھارنا اور کسے کہتے ہیں اس کی بھی تعریف کردیں

جيسا کہ ميں نے واضح کيا تھا کہ کئ ممالک میں امريکی سفارت خانوں نے اسی قسم کی تقاريب منعقد کی تھيں۔ حکومت پاکستان سميت کسی بھی ملک کی جانب سے سرکاری سطح پر نہ تو کوئ اعتراض کيا گيا اور نہ ہی سرکاری چينلز سے کو‏ئ احتجاج موصول ہوا۔

سرکاری سطح اور سرکاری چینلز بھلا کیوں احتجاج کریں گے اور پھر ایک طرف آپ جمہوریت کا نام لے کر لیبیا مصر اور عرب ممالک کے حکمرانوں کو مارتے ہیں کہ عوام کے لیے ایسا کررہے ہیں دوسری طرف عوام کے جذبات کے خلاف حرکت کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ سرکاری احتجاج


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

سویدا

محفلین
چار دیواری کے اندر اخلاقی حدود پار...نشیب و فراز…عباس مہکری

امریکی سفارت خانے کی طرف سے اگلے روز اسلام آباد میں ایک تقریب منعقد کی گئی‘ جس میں ہم جنس پرستوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ تقریب سفارت خانے کی چار دیواری کے اندر تھی لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ امریکیوں نے تمام اخلاقی حد بندیوں کو پھلانگ لیا ہے اور دیواروں کو توڑ دیا ہے۔ اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا کہ پاکستان ایک اسلامی معاشرہ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تقریب انسانی حقوق کے نام پر منعقد کی گئی اور تقریب کے شرکاء کو یقین دہانی کرائی گئی کہ امریکا پاکستان میں ہم جنس پرستوں کے حقوق اور کاز کی حمایت جاری رکھے گا۔ اگر بات تقریب کے انعقاد تک محدود ہوتی تو شاید لوگوں کو پتہ نہ چلتا۔ حد تو یہ کردی گئی کہ 26 جون 2011ء کو اس تقریب کا پریس ریلیز بھی جاری کردیا گیا تاکہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ امریکا بہادر نے ”انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک عظیم کارنامہ“ انجام دیا ہے۔ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ امریکی سفارت خانے کے ناظم الامور رچرڈ ہوگ لینڈ اور خارجہ امور کے اداروں میں ہم جنس پرستوں کی تنظیم کے ارکان کی طرف سے اپنی نوعیت کی پہلی تقریب منعقد کی گئی‘ جس میں مرد و خواتین ہم جنس پرستوں اور تیسری جنس کے لوگوں نے شرکت کی۔ اسے ”قابل فخر تقریب“ کا نام دیا گیا۔ پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ یہ اجتماع اس امر کا اظہار ہے کہ امریکی سفارت خانہ پاکستان میں انسانی حقوق بشمول ہم جنس پرستوں کے حقوق کی مسلسل حمایت کررہا ہے اور یہ حمایت ایسے وقت میں جاری ہے‘ جب پورے پاکستانی معاشرے میں ایسے حقوق کو انتہا پسند عناصر کی طرف سے درپیش خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔ شائع ہونے والی خبروں کے مطابق اس تقریب میں سفارتی مشن کے افسروں‘ امریکی فوج کے نمائندوں‘ غیر ملکی سفارت کاروں اور پاکستان میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں سمیت 75 سے زائد افراد نے شرکت کی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی ناظم الامور نے امریکی صدر بارک اوباما کے 31 مئی 2001ء کے ہم جنس پرستوں کے لیے ”پرانڈ پروکلیمیشن“ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ہم کسی جنسی اور منفی امتیاز کے بغیر تمام لوگوں کے لیے مساوی حقوق کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے جدوجہد قابل ستائش ہے اور ابھی ابتداء ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ ”میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ امریکی سفارت خانہ پاکستان میں ہم جنس پرستوں کی مدد کے لیے موجود ہے اور ہر قدم پر اُن کے ساتھ کھڑا ہے۔“
پاکستان میں اس واقعہ پر جو سخت ردعمل سامنے آیا ہے‘ وہ فطری ہے۔ پاکستان سے باہر بھی امریکی سفارت خانے کے اس اقدام پر زبردست تنقید کی گئی ہے۔ ڈیلی میل نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور لکھا ہے کہ امریکی سفارت خانے کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ پاکستان ایک قدامت پسند معاشرہ ہے‘ جس کی روایات اور اقدار اور مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتے ہیں کہ جنسی تعلقات کی اس طرح تشہیر ہو یا ان پر کھلے عام بحث کی جائے۔ صرف قرآن پاک ہی نہیں بلکہ انجیل (بائبل) اور دیگر آسمانی کتابوں میں ایسی مثالوں کا ذکر ہے‘ جن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن معاشروں کو تباہی اور ہلاکت سے دوچار کیا‘ جہاں ہم جنس پرستی کو بُرا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی بربادی اور ہلاکت کی داستان صرف قرآن پاک میں ہی نہیں بلکہ انجیل میں بھی اس کا ذکر ہے۔ مغرب کے اپنے اخلاقی معیارات ہوں گے لیکن ان معیارات کو پاکستانی معاشرے پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا کرنے سے ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ہم جنس پرست ہوں گے‘ جن میں سے کچھ لوگوں کو امریکی سفارت خانے میں مدعو بھی کیا گیا تھا‘ لیکن ہم جنس پرستی کو سرعام فروغ دینے کو پاکستانی معاشرے میں نہ صرف ناپسندیدہ عمل قرار دیا جائے گا بلکہ اسے اسلام اور پاکستانی اقدار کے خلاف ایک جرم بھی تصور کیا جائے۔ کوئی شخص اپنی نجی زندگی میں جو کچھ کرتا ہے‘ وہ اُس کا ذاتی معاملہ ہے لیکن اُسے کسی بُرائی کو معاشرے میں پھیلانے کا کوئی اختیار نہیں۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ہر کوئی اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اور قیامت کے دن وہ اپنے اعمال کا جوابدہ ہے۔ جس معاشرے میں کسی فعل کو بُرائی سمجھا جاتا ہے‘ اُس فعل کو دُرست قرار دینا لوگوں کے اجتماعی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسانی حقوق کا یہی معاملہ رہ گیا ہے اور دنیا میں انسانی حقوق کو کوئی دوسرا مسئلہ نہیں رہا ہے؟ کیا ڈرون حملوں اور فضائی بمباری میں بے گناہ انسانوں کو مارنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ سامراجی مفادات کی تکمیل کے لیے دنیا کے مختلف خطوں کو جنگ کی آگ میں جھونک دینا‘ عوام کی مقبول جمہوری قیادت کو جان سے مار دینا‘ آمروں کی حمایت کرکے غریب ملکوں کے عوام کے جمہوری حقوق سلب کرنا‘ دنیا کے مخلتف علاقوں کے معدنی اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے شورش اور افراتفری پیدا کرکے لوگوں کا قتل عام کرانا‘ بھوک‘ افلاس اور بیماریوں سے دنیا کی بڑی آبادی کو موت کے منہ میں دھکیل دینا کیا انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑانے کے مترادف نہیں ہے؟ دہشت گردوں کی سرپرستی کرنا اور اُن کے ہاتھوں دنیا کے مختلف بڑے شہروں اور علاقوں میں خونریزی کرانا انسانی حقوق کی پاسداری کا کونسا طریقہ ہے؟ امریکا کو صرف ہم جنس پرستوں کا انسانی حقوق کی فکر ہے۔ لوگ امریکا سے یہ پوچھتے ہیں کہ اُس نے اپنے سامراجی عزائم کی وجہ سے دنیا کو جہنم بنا رکھا ہے‘ کیا اُسے قدم قدم پر سسکتی ہوئی انسانیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر نہیں آرہی ہیں۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ امریکی سفارت خانے کی طرف سے ایسا اقدام کیوں کیا گیا؟ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ جان بوجھ کر یہ تقریب منعقد کی گئی تاکہ لوگ اس بات میں اُلجھ جائیں اور اُن کی توجہ پاکستان کے خلاف امریکی سرگرمیوں کی طرف نہ جائے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جس جنگ میں پھنس چکا ہے‘ امریکا اپنی سرگرمیوں کے ذریعہ اس جنگ کو زیادہ پیچیدہ بناکر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنا چاہتا ہے۔ وہ دُہری پالیسیاں اختیار کررہا ہے اور پاکستان کے مخالف عناصر کو پاکستان کی سرزمین پر منظم کررہا ہے اور اُنہیں مدد فراہم کررہا ہے۔ ایک دوسرے حلقے کا خیال یہ ہے کہ پاکستان میں امریکی سفارت خانہ اس بات سے بے خبر ہے کہ یہاں کے لوگ کن معاملات میں زیادہ حساس ہیں اور وہ اپنی نام نہاد لبرل سوچ پاکستانی معاشرے پر مسلط کرنا چاہتا ہے‘ اُسے احساس ہی نہیں ہے کہ اس کے نتائج کیا برآمد ہوں گے۔ بہرحال اس واقعہ کے پیچھے جو بھی سوچ کارفرما ہو‘ مغربی ذرائع بھی امریکا کے اس اقدام پر ناپسندیدگی کا اظہار کررہے ہیں۔ امریکی سفارت خانے کو ایسے حساس معاملات سے گریز کرنا چاہئے۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=542726
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

میں کسی مذہبی بحث ميں ملوث ہونے کا متمنی نہيں ہوں کيونکہ جو موضوع زير بحث ہے وہ اس احاطے ميں نہيں آتا۔ اس کے علاوہ امريکی سفارت خانے کی جانب سے اس تقريب کے انعقاد کا مقصد اور ان کی نيت کسی بھی موقع پر مذہبی عقائد کے حوالے سے کوئ بيان دينا، کسی مذہبی تعليم کو چيلنج کرنا يا کسی تنازعے کو جلا دينے کی ہرگز نہيں تھی۔ يہ محض امريکی حکومت کی عوامی سطح پر جاری سفارتی کوششوں کا حصہ تھی جس کا مقصد معاشرے کے ہر فرقے اور طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے انسانوں پر اثر انداز ہونے والی بنيادی انسانی قدروں اور اصولوں کی پاسداری کے ضمن میں ہمارے مصمم ارادوں کا اعادہ کرنا تھا۔

دنيا بھر ميں ہمارے سفارت خانوں، قونصل خانوں اور سفارتی مشنز کے مقاصد ميں يہ شامل ہوتا ہے کہ وہ ميزبان ممالک کی رضامندی سے طے شدہ فریم ورک اور سفارتی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہماری قدروں کو اجاگر کر کے بہتر شعور کو فروغ ديں۔ امريکی سفارت خانے ميں منعقد کی جانے والی تقريب نا تو اس اصول سے ماروا تھی اور نا ہی يہ کسی خاص ملک يا خطے سے متعلق تھی۔ جيسا کہ میں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ يہ تقريب امريکی سفارتی مشن کی طے شدہ حدود کے اندر کی گئ تھی اور اس ميں کسی کو بھی شرکت کے لیے مجبور نہيں کيا گيا تھا۔

امريکی حکومت اس بات پر يقين رکھتی ہے کہ انسانی ارتقاء کے ليے تمام انسانوں کو پرامن طريقے سے رہنے کا حق ملنا چاہیے۔ يہ تصور دنيا کے ہر مذہب ميں موجود ہے۔ اسی صورت ميں ہم ايک ايسی دنيا کی جانب بڑھ سکتے ہيں جہاں تمام انسانوں کو وہ احترام، تکريم اور برابری ميسر آئے گی جس کے وہ مستحق ہيں۔ ہم اسی پر يقين رکھتے ہیں اور ہم نے يہ واضح کيا ہے کہ جہاں تک امريکہ، ہماری اقدار اور ہماری خارجہ پالیسی کا تعلق ہے – ہر انسان کو اس کے طرز فکر سے قطع نظر زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

عسکری

معطل
]میں کسی مذہبی بحث ميں ملوث ہونے کا متمنی نہيں ہوں کيونکہ جو موضوع زير بحث ہے وہ اس احاطے ميں نہيں آتا۔

لیکن پاکستان کا نام اسلامی پہلے جمہوریہ بعد میں ہے ۔ یہاں کے 100٪ لوگ مزہبی ہیں۔ میں خود کسی مذھب کو نا مانتے ہوئے بھی دوسروں کے عقیدے کا احترام کرتا ہوں


ا
س کے علاوہ امريکی سفارت خانے کی جانب سے اس تقريب کے انعقاد کا مقصد اور ان کی نيت کسی بھی موقع پر مذہبی عقائد کے حوالے سے کوئ بيان دينا، کسی مذہبی تعليم کو چيلنج کرنا يا کسی تنازعے کو جلا دينے کی ہرگز نہيں تھی۔ يہ محض امريکی حکومت کی عوامی سطح پر جاری سفارتی کوششوں کا حصہ تھی جس کا مقصد معاشرے کے ہر فرقے اور طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے انسانوں پر اثر انداز ہونے والی بنيادی انسانی قدروں اور اصولوں کی پاسداری کے ضمن میں ہمارے مصمم ارادوں کا اعادہ کرنا تھا۔

پچھلی با آپ نے فرمایا تھا یہ سفارتخانے کی طرف سے نہیں تھی اب خود مان رہے ہیں ۔ نمبر 2 آپ کے سفاتخانے اسطرح کی اخلاق سے گری ہوئی سماجیات نظر آتی ہیں پاکستان کے 17 کروڑ عوام میں ہزاروں اور باتیں نظر نہیں آتی؟

دنيا بھر ميں ہمارے سفارت خانوں، قونصل خانوں اور سفارتی مشنز کے مقاصد ميں يہ شامل ہوتا ہے کہ وہ ميزبان ممالک کی رضامندی سے طے شدہ فریم ورک اور سفارتی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہماری قدروں کو اجاگر کر کے بہتر شعور کو فروغ ديں۔ امريکی سفارت خانے ميں منعقد کی جانے والی تقريب نا تو اس اصول سے ماروا تھی اور نا ہی يہ کسی خاص ملک يا خطے سے متعلق تھی۔ جيسا کہ میں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ يہ تقريب امريکی سفارتی مشن کی طے شدہ حدود کے اندر کی گئ تھی اور اس ميں کسی کو بھی شرکت کے لیے مجبور نہيں کيا گيا تھا۔

آپ سے گزارش ہے کہ کونسی قدریں باقی ہیں امریکہ کی ؟ امریکہ ہے ہی کیا؟ ایک وحشیوں کا گروہ جسے سمندر پار زمین مل گئی انہوں نے جا کر مقامیوں کا قتل عام کر کے وہاں اپنے لیے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا کہ جس پر انسانیت کو گھن آتی ہے ۔ کیا تاریخ ہے ان یورپین لوگوں کی جو امریکہ پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں امریکہ کی اپنی کیا تاریخ ہے ؟ امریکہ کا نام و نشان نا تھا جب ہمارے یہاں چندر گپتا اور گریٹ اشوکا کا راج تھا یا بابر اور عالمگیر کی سلطنتیں تھی۔ ہماری اقدار ہزاروں سال پرانی ہیں۔ ہمارے 5000 سال پہلے کے جنگی قانون امریکہ کے آج کے جنگی قانون سے بہتر تھے ۔ہماری اقدار کی جوتی بھی امریکی اقدار سے اچھی ہے ۔ ہمیں سبق پڑھانے کی ضرورت نہیں امریکی اقدار کلچر کی جس میں کروڑں کو اپنے پاپ کا پتہ نہیں جو جون ہوتے شتر بے مہار ہو جاتے ہیں ۔ اپنا یہ گے لزبن کلچر اور اقدارکتے بلی گدھے کو بھی دو گے تو وہ نہیں لے گا ہم تو انسان ہیں

ہمارا 2600 بی سی کا شہر جہاں تہزیب تمدن اور مرد کو مرد عورت کو عورت اور جانور کو جانور سمجھا جاتا تھا جو کہ آج بھی امریکہ میں نہیں ہو رہا
mohenjo-daro-ruins-285685-sw.jpg


The%20Indus%20Valley%20Civilization77.gif


امريکی حکومت اس بات پر يقين رکھتی ہے کہ انسانی ارتقاء کے ليے تمام انسانوں کو پرامن طريقے سے رہنے کا حق ملنا چاہیے۔ يہ تصور دنيا کے ہر مذہب ميں موجود ہے۔ اسی صورت ميں ہم ايک ايسی دنيا کی جانب بڑھ سکتے ہيں جہاں تمام انسانوں کو وہ احترام، تکريم اور برابری ميسر آئے گی جس کے وہ مستحق ہيں۔ ہم اسی پر يقين رکھتے ہیں اور ہم نے يہ واضح کيا ہے کہ جہاں تک امريکہ، ہماری اقدار اور ہماری خارجہ پالیسی کا تعلق ہے – ہر انسان کو اس کے طرز فکر سے قطع نظر زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔

امریکی حکومت کی پر امن پالیسی ہے نا ہی امریکی حکومت کا کوئی پر امن کام آجتک نظر آیا ہے امریکہ نے کبھی امن پر یقین رکھا ہی نہیں دنیا کی سب سے وحشی حکومت امریکی ہے جو نیوکلئیر حملے تک کر چکی ہے معصوم انسانوں پر ۔ جس نے ہزاروں کی جان بچائی اپنے فائدے لیے تو کروڑوں کی جان لی ہے ۔ امریکہ ایک ڈوبتی کشتی ہے جس کا انجام ہم دیکھیں گے۔ یہ عیاشی کا اڈا اپنی موت مرے گا جلد ہی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
[/QUOTE]
عمران
پاکستان کا آزاد شہری :grin:
 
یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ امریکہ جیسی ریاست تباہی کے راستے پر گامزن ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ یونی پولر طاقت دنیا کی رہنمائی کرتی تاکہ ایک مثبت اور صحت مند دنیا کی تشکیل دی جاسکے مگر یہ طاقت بیمار اور خودکشانہ اقدار کی پرورش کررہی ہے۔ اللہ امریکہ پر رحم کرے اور ان کو عقل سلیم دے۔
 

سویدا

محفلین
میں کسی مذہبی بحث ميں ملوث ہونے کا متمنی نہيں ہوں کيونکہ جو موضوع زير بحث ہے وہ اس احاطے ميں نہيں آتا۔ اس کے علاوہ امريکی سفارت خانے کی جانب سے اس تقريب کے انعقاد کا مقصد اور ان کی نيت کسی بھی موقع پر مذہبی عقائد کے حوالے سے کوئ بيان دينا، کسی مذہبی تعليم کو چيلنج کرنا يا کسی تنازعے کو جلا دينے کی ہرگز نہيں تھی۔ يہ محض امريکی حکومت کی عوامی سطح پر جاری سفارتی کوششوں کا حصہ تھی جس کا مقصد معاشرے کے ہر فرقے اور طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے انسانوں پر اثر انداز ہونے والی بنيادی انسانی قدروں اور اصولوں کی پاسداری کے ضمن میں ہمارے مصمم ارادوں کا اعادہ کرنا تھا۔

دنيا بھر ميں ہمارے سفارت خانوں، قونصل خانوں اور سفارتی مشنز کے مقاصد ميں يہ شامل ہوتا ہے کہ وہ ميزبان ممالک کی رضامندی سے طے شدہ فریم ورک اور سفارتی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہماری قدروں کو اجاگر کر کے بہتر شعور کو فروغ ديں۔ امريکی سفارت خانے ميں منعقد کی جانے والی تقريب نا تو اس اصول سے ماروا تھی اور نا ہی يہ کسی خاص ملک يا خطے سے متعلق تھی۔ جيسا کہ میں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ يہ تقريب امريکی سفارتی مشن کی طے شدہ حدود کے اندر کی گئ تھی اور اس ميں کسی کو بھی شرکت کے لیے مجبور نہيں کيا گيا تھا۔

امريکی حکومت اس بات پر يقين رکھتی ہے کہ انسانی ارتقاء کے ليے تمام انسانوں کو پرامن طريقے سے رہنے کا حق ملنا چاہیے۔ يہ تصور دنيا کے ہر مذہب ميں موجود ہے۔ اسی صورت ميں ہم ايک ايسی دنيا کی جانب بڑھ سکتے ہيں جہاں تمام انسانوں کو وہ احترام، تکريم اور برابری ميسر آئے گی جس کے وہ مستحق ہيں۔ ہم اسی پر يقين رکھتے ہیں اور ہم نے يہ واضح کيا ہے کہ جہاں تک امريکہ، ہماری اقدار اور ہماری خارجہ پالیسی کا تعلق ہے – ہر انسان کو اس کے طرز فکر سے قطع نظر زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall

برادرم فواد !
آپ کی تمام وضاحتیں اور بیانات تضادات کا ایک حسین شاہ کار ہوتے ہیں
میرا دل چاہتا ہے کہ یہاں محفل پر موجود امریکہ کی نمائندگی کرتے ہوئے جو آپ نے بیانات جاری کیے ہیں ان سب کا مجموعہ تاریخ وار تیار کرکے شائع کرنا چاہیے
یقینا یہ امریکہ اور پاکستان دونوں کی عوام کے لیے خاصی دلچسپی کی چیز ہوگی
 

ساجد

محفلین
امريکی حکومت اس بات پر يقين رکھتی ہے کہ انسانی ارتقاء کے ليے تمام انسانوں کو پرامن طريقے سے رہنے کا حق ملنا چاہیے۔ يہ تصور دنيا کے ہر مذہب ميں موجود ہے۔ اسی صورت ميں ہم ايک ايسی دنيا کی جانب بڑھ سکتے ہيں جہاں تمام انسانوں کو وہ احترام، تکريم اور برابری ميسر آئے گی جس کے وہ مستحق ہيں۔ ہم اسی پر يقين رکھتے ہیں اور ہم نے يہ واضح کيا ہے کہ جہاں تک امريکہ، ہماری اقدار اور ہماری خارجہ پالیسی کا تعلق ہے – ہر انسان کو اس کے طرز فکر سے قطع نظر زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔
قربان جاؤں آپ کی منطق اور استدلال کے۔ ہم جنس پرست اگر انسانی معاشرے کا حصہ ہیں اور آپ جس طریقے سے ان کی وکالت یہاں کرنے چلے آئے ہیں اور اس گندے فعل کو ارتقاء کا عمل قرار دے رہے ہیں تو چور ، ڈاکو ، رسہ گیر ، قاتل اور اسی قماش کے دیگر رذیل بھی تو اسی انسانی معاشرے کا حصہ ہیں تو پھر آئیے ان کے لئیے بھی تنظیمیں بنائیے کیوں کہ یہ بھی تو ارتقاء کے عمل میں معاشرے کے دیگر طبقوں کے ساتھ شامل رہے ہیں۔ ان کے پاس بھی اپنے جرائم کی وکالت کرنے کے لئیے کوئی نہ کوئی دلیل تو ہوتی ہے۔ جن کے خلاف آپ نے جنگ چھیڑ رکھی ہے وہ بھی تو معصوم لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کے پاس بھی اس کی ایک سے زیادہ دلیلیں ہیں۔ شاید ان کا ارتقاء انہیں قاتل بنا گیا ہو اس لئیے یہ مناسب نہیں ہو گا کہ ان سے لڑائی کرنے کی بجائے ان کی سرپرستی کی جائے تا کہ معاشرے سے تشدد ختم کیا جا سکے؟۔اور کیا معلوم یہ ارتقاء آنے والے وقتوں میں کس کو کیا بنا دے۔
مذہب کو الگ کر کے بھی دیکھیں تو بھی ہم جنس پرستی انسانی جبلت کے خلاف ہے۔ حیوانات میں سے بھی آپ کو ایسی مثالیں کم ہی دیکھنے کو ملیں گی چہ جائیکہ انسان اس کے رسیا بنیں اور بزعم خود وقت کے دانش ور ان کی حمایت میں پارٹیاں منعقد کر کے اسے تشدد کے مارے ہوئے معاشرے کے لئیے اکسیر قرار دے ڈالیں۔ ہم جنس پرستی عائلی زندگی کی تباہی اور انسانی معاشرے میں لا علاج بیماریوں کے پھیلانے کا سبب بنتی ہے۔یہ صرف ساجد نہیں کہہ رہا بلکہ آپ کے ماہرین عمرانیات و طب سمیت دیگر دنیا کے اہل علم اس پہ متفق ہیں۔ آپ اپنی عقل سلیم سے فیصلہ کریں کہ گھر کی تباہی اور بیماری کے غلبے سے تشدد بڑھتا ہے یا کم ہوتا ہے؟۔
آفرین ہے آپ کے خیالات پہ کہ مذہب کو کس طریقے سے اپنے خیالات کا ترجمان بنانے کی کوشش کی آپ نے۔ دنیا کا ہر مذہب اس کی مخالفت کرتا ہے اور آپ اسے انہی مذاہب کی انسان دوست تعلیمات میں سے اٹھا کر ہم جنس پرستی سے جوڑنا چاہ رہے ہیں۔ کیا دنیا ہم جنس پرستی سے امن کا گہوارہ بنے گی؟
ہم جنس پرست نفسیاتی و دماغی عوارض کی وجہ سے اس قباحت کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک امریکی تحقیق ہی کے مطابق جو بچے خاندانی نظام کی ٹو ٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں ان میں شراب نوشی اور اس گندے فعل کی طرف رغبت بڑھ جاتی ہے۔ گویا کہ ایک بچہ جب دماغی و نفسیاتی طور پہ خاندانی ٹارچر کا شکار ہوا تو وہ اس کی طرف زیادہ راغب ہوا ۔انصاف تو یہ ہے کہ ایسے بچوں اور نوجوانوں کا مناسب طریقے سے علاج کیا جائے نہ کہ ان کی سرپرستی کر کے اپنی اور انسانی اقدار کی تباہی کو دعوت دی جائے۔
آج تک کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی ہم جنس پرست کو اس فعل کی وجہ سے پاکستان میں قتل کا خطرہ لاحق ہو گیا ہو اس لئیے آپ کے نقل کردہ مراسلے کی ابتدائی سطر نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ استدلال میں وزن ڈالنے کی ناکام کوشش بھی ہے۔
 

سویدا

محفلین
حسن عسکری نے اپنی کتاب جدیدیت میں صحیح لکھا ہے کہ اس وقت مغرب اور امریکہ مذہب بے زار ہے کسی مذہب پر اس کا ایمان نہیں ہے
 

ساجد

محفلین
برادرم فواد !
آپ کی تمام وضاحتیں اور بیانات تضادات کا ایک حسین شاہ کار ہوتے ہیں
میرا دل چاہتا ہے کہ یہاں محفل پر موجود امریکہ کی نمائندگی کرتے ہوئے جو آپ نے بیانات جاری کیے ہیں ان سب کا مجموعہ تاریخ وار تیار کرکے شائع کرنا چاہیے
یقینا یہ امریکہ اور پاکستان دونوں کی عوام کے لیے خاصی دلچسپی کی چیز ہوگی
کسی جہاں دیدہ انسان نے کہا تھا کہ جب دلیل نہ ہو تو انسان تشدد کا سہارا لیتے ہیں۔اپنی جارحیت کے حوالے سے افغانستان کے ویرانوں سے لے کر عراق کے نخلستانوں یا پھر اقوام متحدہ کے ایوانوں تک امریکہ کبھی بھی دلیل سے کسی کو قائل نہیں کر سکا۔ اندھی طاقت کے استعمال سے تشدد کو فروغ دیتا جا رہا ہے۔ اور اب محفل پہ بھی ہم یہی تماشہ دیکھ رہے ہیں کہ دلیل ندارد تضدید وافر۔
 
Top