اسلام آباد ڈیکلریشن کا متن

زین

لائبریرین
اگر کل معاہدہ یہی ہے جو اس دھاگے میں پیش کیا گیا ہے تو میری ناقص رائے میں تو یہ مبہم اور نامکمل ہے اور ایسی کوئی چیز نہیں کہ جسے انقلابی حیثیت سے پیش کیا جا سکے۔ آئین کی شق 62 اور 63 پہلے سے ہی موجود ہیں اور کوئی بھی نمائندہ جو ان شرائط پر پورا نہ اترتا ہو ، اس کے ثابت کئے جانے پر وہ نااہل قرار دیا جاتا ہے ، الیکشن کمیشن کی ہٹ دھرمی کی صورت میں عدالتوں سے رجوع کر کے جوتے پڑوائے جا سکتے ہیں۔
تاہم اصل صورتحال تو ٹی وی مذاکروں سے کھل کر سامنے آ جائے گی جب آئینی و قانونی ماہرین اس کا پوسٹ مارٹم کریں گے جو یقینا پیچیدہ اور طویل نہیں ہو گا۔
فی الحال اس تمام نظم و ضبط جس کی مثالیں بار بار دی جا رہی تھیں کی بڑی کمزوری کے مزے لیں۔
آئین کی ان شقوں پر اگر عمل ہو اور صرف امین و صادق امیدوار ہی انتخابات میں حصہ لیں تو ملک کے مسائل کا خاتمہ ہوجائیگا ۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ امین اور صادق کا تعین کیسے کیا جائیگا ؟
جعلی ڈگری پر انتخاب لڑنے والوں کو نااہل قرار دیا گیا لیکن وہ ضمنی انتخاب لڑ کر دوبارہ منتخب ہوکر آگئے۔ سوال یہ ہے کہ جعلی ڈگری پر انتخاب لڑنے والے آئین کی شق 62 اور63 کی خلاف ورزی کے مرتکب بھی تو ہوئے پھر کیونکر عدالت اور الیکشن کمیشن نے انہیں ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی؟؟؟؟
 

الف نظامی

لائبریرین
چند روابط برائے تفہیم شق 1 ، 4 اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن پیش خدمت ہیں براہ کرم پہلے انہیں پڑھ لیجیے
پہلا ربط برائے مطالعہ
یہ دونوں روابط اسلام آباد ڈیکلریشن کو سمجھنے میں مدد دیں گے ، آرٹیکل 62 اور 63 امیدواروں کی اہلیت و نااہلیت سے بحث کرتا ہے ، یقینا یہ آئین پاکستان میں موجود تھا لیکن ملکی تاریخ میں پہلی بارآئندہ الیکشن میں اس معاہدہ کی وجہ سے 30 دن تک امیدواروں کی سکروٹنی ، ویری فیکیشن کی جائے گی اور صرف وہی امیدوار الیکشن میں حصہ لے سکیں گے جو ان پر پورا اتریں گے۔


آرٹیکل 218(3)


hu36dj.png


دوسرا ربط برائے مطالعہ
سپریم کورٹ انتخابی اصلاحات کا فیصلہ 8 جون2012
جس پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا تھا ، حکومت اور الیکشن کمیشن اس معاہدہ کی رو سے اس پر عمل کرنے کی پابند ہے۔ اس کا پس منظر جاننے کے لیے دیکھیے۔

یہ سب جب آپ مطالعہ کر چکیں تو
اس کے بعد اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن کو دیکھیے
مجھے امید ہے کہ اس کے فوائد آپ پر آشکار ہو جائیں گے۔
 

متلاشی

محفلین
ویسے یہ بات پلے نہیں پڑی کیا اس ملک میں اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندہ جماعت صرف PATہی ہے کیا ۔۔۔ ۔؟ جس کو خود مشرف کی کرم نوازی سے ایک ہی سیٹ الیکشن میں مل سکی تھی ۔۔۔ ۔ !

محترم الف نظامی بھائی ۔۔۔۔!میں تیسری دفعہ آپ سے پوچھ رہا ہوں ۔۔۔۔ مگر نامعلوم کس وجہ سے آپ کی نظرِ کرم سے محروم ہوں ۔۔۔ مجھے مندرجہ بالا سوال کا جواب چاہئے ۔۔۔۔۔!
 

الف نظامی

لائبریرین
ویسے یہ بات پلے نہیں پڑی کیا اس ملک میں اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندہ جماعت صرف PATہی ہے کیا ۔۔۔ ۔؟ جس کو خود مشرف کی کرم نوازی سے ایک ہی سیٹ الیکشن میں مل سکی تھی ۔۔۔ ۔ !
بالکل نہیں!
لیکن الیکشن سے قبل امیدواروں کی اہلیت کا جائزہ لے کر انہیں الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے کی اجازت دینا پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے اٹھایا گیا ایک جائز مطالبہ ہے اور قوم کے دل کی آواز ہے۔ اور اس معاہدہ سے اب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئین پاکستان میں درج شقوں پر عمل ہونے جا رہا ہے۔
 

متلاشی

محفلین
بالکل نہیں!
لیکن الیکشن سے قبل امیدواروں کی اہلیت کا جائزہ لے کر انہیں الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے کی اجازت دینا پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے اٹھایا گیا ایک جائز مطالبہ ہے اور قوم کے دل کی آواز ہے۔ اور اس معاہدہ سے اب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئین پاکستان میں درج شقوں پر عمل ہونے جا رہا ہے۔
میرے محترم طاہر القادری صاحب پہلے کہہ چکے ہیں کہ میں اب سیاست میں حصہ نہیں لوں گا۔۔۔۔ ! وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
تو آب پھر سے PAT کی بحالی ۔۔۔۔ ! یہ کیا دو طرفہ تماشا نہیں ۔۔۔!
اور دوسری بات ۔۔۔ !
جناب اوپر آپ خود کہہ چکے ہیں کہ اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندہ جماعت PAT نہیں ۔۔۔بلکہ یقینا نہیں۔۔۔ تو پھر
الیکشن سے قبل امیدواروں کی اہلیت کا جائزہ لے کر انہیں الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے کی اجازت دینا
کا حق صرف انہی کو کیسے حاصل ہو گیا۔۔۔۔!
 

متلاشی

محفلین

الف نظامی

لائبریرین
آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔۔۔ ۔ ! میں نے کب کہا ۔۔۔ کہ لانگ مارچ کرنا جمہوری حق نہیں ہے ۔۔۔ ؟

کیا آپ کا سوال یہ ہے
الیکشن سے قبل امیدواروں کی اہلیت کا جائزہ لے کر انہیں الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے کی اجازت دینا
کا حق صرف انہی کو کیسے حاصل ہو گیا۔۔۔ ۔!


اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن پڑھ لیجیے اس میں یہ کہیں نہیں لکھاجو آپ سمجھ رہے ہیں کہ امیدواروں کی اہلیت کا فیصلہ پاکستان عوامی تحریک کرے گی بلکہ ہم نے تو آئین کے ان آرٹیکلز پر عمل کرنے کے لیے حکومت سے معاہدہ کیا ہے اور اب نگران حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان ان پر عمل درآمد کرے گا۔ براہ کرم اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن پڑھ لیجیے۔

181125_550281991649005_595092028_n.jpg
 

متلاشی

محفلین
اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن پڑھ لیجیے اس میں یہ کہیں نہیں لکھاجو آپ سمجھ رہے ہیں کہ امیدواروں کی اہلیت کا فیصلہ پاکستان عوامی تحریک کرے گی بلکہ ہم نے تو آئین کے ان آرٹیکلز پر عمل کرنے کے لیے حکومت سے معاہدہ کیا ہے اور اب نگران حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان ان پر عمل درآمد کرے گا۔ براہ کرم اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن پڑھ لیجیے۔
نظامی بھائی لانگ مارچ کا ڈیکلریشن انگلش اردو دونوں میں پڑھ چکا ہوں۔۔۔ !
with the concnce of PAT کا مطلب نگران حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کب سے ہوگیا۔۔۔؟
اور اس مسئلہ کے لئے ہر جلسہ منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں ہی کیوں ۔۔۔؟
کیا PAT ہی صرف دیانت دار لوگوں کی جماعت ہے باقی سارے کرپٹ ہیں۔۔۔؟ اگر نہیں تو پھر ان سے مشاورت کیوں نہیں۔۔!
 

الف نظامی

لائبریرین
نظامی بھائی لانگ مارچ کا ڈیکلریشن انگلش اردو دونوں میں پڑھ چکا ہوں۔۔۔ !
with the concnce of PAT کا مطلب نگران حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کب سے ہوگیا۔۔۔ ؟
اور اس مسئلہ کے لئے ہر جلسہ منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں ہی کیوں ۔۔۔ ؟
آپ نے نہیں پڑھا ، اگر پڑھا ہے تو امیدواروں کی اہلیت سے بحث کرنے والی شق 1 اور 4 میں یہ الفاظ with the concnce of PAT دکھا دیں۔
کیا یہ آرٹیکل امیدواروں کی اہلیت سے بحث کرتا ہے؟ بھائی وہ شق 1 اور شق 4 ہے۔
شق دو کا امیدواروں کی اہلیت سے نہیں بلکہ نگران حکومت کئیر ٹیکر پرائم منسٹر کے نام پر اتفاق رائے کا تعلق ہے۔
2) The treasury benches in complete consensus with Pakistan Awami Tehreek (PAT) will propose names of two honest and impartial persons for appointment as Caretaker Prime Minister.
-
1) The National Assembly shall be dissolved at any time before March 16, 2013, (due date), so that the elections may take place within the 90 days. One month will be given for scrutiny of nomination paper for the purpose of pre-clearance of the candidates under article 62 and 63 of the constitution so that the eligibility of the candidates is determined by the Elections Commission of Pakistan. No candidate would be allowed to start the election campaign until pre-clearance on his/her eligibility is given by the Election Commission of Pakistan.
4) Electoral Reforms: It was agreed upon that the focus will be on the enforcement of electoral reforms prior to the polls on:
A. Article 62, 63 and 218 (3) of the constitution
B. Section 77 to 82 of the Representation of Peoples’ Act 1976 and other relevant provisions relating to conducting free, fair, just and honest elections guarded against all corrupt practices.
C. The Supreme Court Judgement of June 8, 2012 on constitutional petition of 2011 must be implemented in Toto and in true letter and spirit.
 

متلاشی

محفلین
آپ نے نہیں پڑھا ، اگر پڑھا ہے تو امیدواروں کی اہلیت سے بحث کرنے والی شق 1 اور 4 میں یہ الفاظ with the concnce of PAT دکھا دیں۔
کیا یہ آرٹیکل امیدواروں کی اہلیت سے بحث کرتا ہے؟ بھائی وہ شق 1 اور شق 4 ہے۔
شق دو کا امیدواروں کی اہلیت سے نہیں بلکہ نگران حکومت کئیر ٹیکر پرائم منسٹر کے نام پر اتفاق رائے کا تعلق ہے۔
میرے محترم میں تو بات ہی نگران حکومت اور کئیر ٹیکر پرائم منسٹر کے حوالے سے کر رہا تھا۔۔۔۔!
اور مجھے اسی بات پر اعتراض تھا کہ نگران حکومت اور کئیر ٹیکر پرائم منسٹر ۔۔۔۔ صرف PAT کی consensus کے ساتھ ہی کیوں ۔۔۔۔؟
جبکہ آپ خود اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ 18 کرورڑ عوام کی واحد نمائندہ جماعت PATنہیں ہے ۔۔۔۔!
 

الف نظامی

لائبریرین
میرے محترم میں تو بات ہی نگران حکومت اور کئیر ٹیکر پرائم منسٹر کے حوالے سے کر رہا تھا۔۔۔ ۔!
اور مجھے اسی بات پر اعتراض تھا کہ نگران حکومت اور کئیر ٹیکر پرائم منسٹر ۔۔۔ ۔ صرف PAT کی consensus کے ساتھ ہی کیوں ۔۔۔ ۔؟
جبکہ آپ خود اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ 18 کرورڑ عوام کی واحد نمائندہ جماعت PATنہیں ہے ۔۔۔ ۔!
باقی نمائندوں کے لیے treasury benches کا لفظ دیکھ لیں اور اس کے معنی سمجھ لیں۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ارے بھئی سیدھی سی بات ہے ۔۔۔ طاہر القادری صاحب کا معائدہ "حکومتی اتحاد" سے ہوا ہے جس کی حتمی منظوری "پارلیمنٹ" دے گی ۔۔۔ طاہر القادری کے "دفتر" میں "حکومتی اتحاد" کے نمائندے جائیں گے ۔۔۔ پارلیمنٹ اور اپوزیشن جماعتوں کا ان امور سے کوئی تعلق نہیں ہو گا ۔۔۔ حکومتی اتحاد پابند ہے کہ وہ طاہر القادری صاحب سے مشاورت کرے ۔۔۔ مشاورت کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ علامہ صاحب جس کے سر پر ہاتھ رکھیں گے، "حکومتی اتحاد" اسے ہی نامزد کرنے کا پابند ہو گا ۔۔۔ اسی طرح اپوزیشن بھی نگران وزیراعظم کے لیے نام دے گی ۔۔۔ طاہر القادری صاحب کے معاملات حکومتی اتحاد کے ساتھ طے ہوئے ہیں، پارلیمنٹ اور اپوزیشن کا اس "معائدے" سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس معائدے کو ماننے کے پابند ہیں ۔۔۔ متلاشی
 

شمشاد

لائبریرین
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔

میرا خیال ہے اب اس بحث کو اگلے لانگ مارچ تک ملتوی کر دینا چاہیے۔
 

طالوت

محفلین
اب اگراآئین

آئین کی ان شقوں پر اگر عمل ہو اور صرف امین و صادق امیدوار ہی انتخابات میں حصہ لیں تو ملک کے مسائل کا خاتمہ ہوجائیگا ۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ امین اور صادق کا تعین کیسے کیا جائیگا ؟
جعلی ڈگری پر انتخاب لڑنے والوں کو نااہل قرار دیا گیا لیکن وہ ضمنی انتخاب لڑ کر دوبارہ منتخب ہوکر آگئے۔ سوال یہ ہے کہ جعلی ڈگری پر انتخاب لڑنے والے آئین کی شق 62 اور63 کی خلاف ورزی کے مرتکب بھی تو ہوئے پھر کیونکر عدالت اور الیکشن کمیشن نے انہیں ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی؟؟؟؟
امین اور صادق کا تعین تو بہت آسان ہے مگر پھر یہ ہزار آٹھ سو امیدوار محض نامزدگی کے لئے جمع کرنا مشکل ہو جائے گا۔:)

اصل مسئلہ بالکل وہی ہے جس کی طرف آپ نشاندہی کر رہے ہیں ، قوانین موجود ہیں بس عملدرآمد ہونے کی بات ہے۔ میرا تو خیال تھا کہ جمہوری برادران ، عدالتیں ، سونامی خان اور پھر قادری اس طرف توجہ دیں گے کہ موجود قوانین پر عملدرآمد کروانے کے لئے ایسی اصلاحات پر زور دیا جائے گا جن کے باعث قانونی شکنجے سے اپنی گردن چھڑوانا ممکن نہ رہے ، لیکن یہاں تو اب تک وہی فارمولا ہے کہ مرضی کا پھندہ تیار کئے نگری نگری گھومتے ہیں اور جس خود سے کمزور کی گردن اس میں "فٹ" ہو جائے اس کو لٹکا دیتے ہیں ، باقی سب پھر ویسا ہی رہ جاتا ہے۔ شاید کچھ قصور سیاست نامی شئے کا بھی ہے جس میں اصولوں پر سمجھوتے کو بھی برا خیال نہیں کیا جاتا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ڈاکٹر طاہر القادری جو ایجنڈا اور مقصد لے کر اٹھے تھے گو وہ مکمل نہیں ہوا لیکن اسے مکمل طور پر فلاپ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ان کا لانگ مارچ اور پانچ روزہ دھرنا کامیاب اور اپنی مثال آپ تھا۔ ایسا نظم و ضبط اتنے بڑے اجتماعات میں بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ علامہ طاہر القادری کے دھرنے نے حکمرانوں کو کنٹینر میں آ کر مذاکرات کرنے پر مجبور کر دیا۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنے اختلافات وقتی طور پر پس پشت ڈال کر میاں نوازشریف کا مہمان بننا پڑا۔ طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے پر مرکزی حکومت فعال اور اپوزیشن متحرک ہوئی۔ گو کہ آج کوئی بھی پارٹی اپوزیشن میں نہیں۔ طرفہ تماشا ہے کہ مسلم لیگ ن پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی پر حکمرانی کرتی ہے اور خود کو اپوزیشن کہلاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے ایک آدھ نہیں صوبہ بلوچستان میں درجنوں وزیر ہیں وہ بھی اپنے ہاتھ سے اپوزیشن کا اعزاز کھونے پر آمادہ نہیں۔ بہرحال حکومت اور حکومتی پارٹیوں کو طاہر القادری کے دھرنے سے جمہوریت ڈیل ریل ہونے کا خدشہ لاحق ہوا تو وہ حصہ بقدر جثہ اور اپنی استطاعت کے مطابق ایک جگہ اکٹھا ہوئیں۔ ایک لائحہ عمل طے کیا اور جمہوریت کو نقصان سے بچانے کے لیے عزم ظاہر کیا گیا۔ یہ کام بیک وقت لاہور اور اسلام آباد میں ہوتا رہا ہے۔ خوب، بہت خوب بلکہ بہت ہی خوب! طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے کی نوبت ہی کیوں آئی۔ اس کی مکمل ذمہ دار ہمارے سیاستدان اور مروجہ جمہوری سسٹم ہے۔ طاہر القادری نے عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تو وہ تڑپ اٹھے۔ کل طاہر القادری کے خلاف اکٹھے ہونے والے سیاستدان اگر عوام کو مصائب اور مشکلات سے نکالنے کے لیے اسی طرح اکٹھے ہوتے اور عوام کو بحرانوں سے نجات دلا دیتے تو یقین مانئے لانگ مارچ اور دھرنے کے شرکاءکی تعداد کسی دیہات کے ہائی سکول کے بچوں کے برابر ہوتی اور یہ لانگ مارچ ماڈل ٹاﺅن سے نکلنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتا۔
پاکستان کے بچے بچے کو لانگ مارچ کے جواز کا علم اور وہ اس کی کامیابی کے راز سے واقف ہے۔عالمی سطح پر اس حوالے سے سوالات ضرور اٹھ رہے تھے جن کا جواز ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے چوبیس گھنٹے پورے ہونے سے قبل مل گیا۔ سپریم کورٹ نے رینٹل کرپشن کیس میںملوث ہونے پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کا حکم جاری کیا تو یہ خبر پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ دنیامیں سرِ عام یہ بحث ہونے لگی کہ جس ملک میں اس قسم کا وزیراعظم ہو کہ جسے سپریم کورٹ کرپشن کیس میں گرفتار کرنے کا حکم دے تو ایسی حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنا بلاجواز نہیں ہو سکتا۔سپریم کورٹ نے حکمرانوں کو ایک بارپھر ایکسپوز کر دیا ہے۔ لوگ صدر اور وزیراعظم کو جن الفاظ میں یاد کرتے ہیں وہ سن کر بطور پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکن اور رہنما کے میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کی پوری دنیا میں رسوائی ہوئی ہے۔ وہ گرفتار ہوں یا نہ ہوں۔ چیئرمین نیب نمک خواری کا جس طرح چاہیں حق ادا کرنے کی کوشش کریں وہ وزیراعظم راجہ کی عزت، احترام اور وقار بحال نہیں کر سکیں گے۔ آخر وزیراعظم کس حوصلہ سے بیرون ممالک جا کر اپنے ہم منصبوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کر سکیں گے۔مغربی معاشروں میں ایسی باتوں کو بڑی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ راجہ کی گرفتاری کا حکم تو ان کی تذلیل کر گیا اس حکم کے سامنے ہٹ دھرمی سے ان کی مزید رسوائی ہو رہی ہے۔
پاکستان کے سوشل اور روایتی میڈیا میں طاہر القادری کے ماضی کو کھنگالا جا رہا ہے۔ الزامات کی بھرمار ہے۔ طعن و تشنیع کا سلسلہ جاری کیا،بلکہ عروج پر رہا۔ آخر انہوں نے غلط کیا کیا ہے؟ میں نے اس حوالے سے یورپ میں موجود اپنے دوستوں اور واقف کاروں سے ای میل ،فون اور فیس بک پر رابطہ کیا ان میںسے اکثریت نے طاہر القادری پر تنقید کرنے والوں سے سوال کیا کہ کیا پاکستانی روایتی سیاستدان، اسٹیبلشمنٹ اور اڑھائی اڑھائی تین تین سال کی باریاں لینے والے کیا دودھوں دھلے ہیں، کیا وہ گنگا نہائے ہوئے اور فرشتے ہیں؟طاہرالقادری کے حوالے سے تو معاملہ تنقید سے بڑھ کر دشنام تک جا پہنچا تھا۔ کئی لوگ تو ان پر بہتان باندھتے دکھائی دیئے اور تو اور وزیرداخلہ رحمن ملک کا بس چلتا تو وہ خون کی ندیاں بہا دیتے۔ انہوں نے ایک دوبار ایسا کرنے کی کوشش کی اور یہ دھمکی تو خصوصی طور پر ہولناک تھی کہ ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائےگا۔ رحمن ملک کو صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اپنے تدبراور تحمل سے خونریزی سے باز رکھا لیکن وہ بہتان طرازی سے بازنہ آئے شاید ایسا ان کی خصلت ہے اور فطرت میں شامل ہے۔ طاہر القادری دھرنے کے دوران ہر لمحہ شرکاءکے درمیان رہے لیکن رحمن ملک نے سوال اٹھا دیا کہ قادری صاحب اسلام آباد ایف 7کے ایک گھر میں رات کو 30منٹ کیا کرتے رہے۔ اس پر علامہ نے سیخ پا تو ہونا ہی تھا۔جب حکومت نے طاہر القادری کے ساتھ 10رکنی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی تو انہوں نے برملا کہا شیطان ملک کے سوا جو مرضی آ جائے۔
بیرون ممالک بیٹھے دانشوروں اور دیدہ وروں اور جہاندیدہ افراد کی یہ رائے بھی ہے کہ پہلے پی پی پی اور ن لیگ میں نوراکشتی ہوتی تھی اب وہ کھل کر ایک دوسرے کی حمایت پر کمربستہ ہیں۔ ن لیگ نے پہلے پی پی پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی پھر ن لیگ اس کی فرینڈلی اپوزیشن بن گئی۔ اب اگلے ٹینیﺅر کے لیے دونوں کے مابین انڈرسٹینڈنگ ہو چکی ہے۔ اب مرکز اور پنجاب ن لیگ کے پاس سندھ پی پی پی اور دیگر صوبوں میں پی پی آج کی طرح مخلوط حکومت میں شامل ہو گی۔ خدا خیر کرے۔
گذشتہ روز سے جاری اس نفسیاتی جنگ میں قطعہ نظر اس کے کہ کون جیتا کون ہارا، ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ تحریک انصاف کے عمران خان صاحب نے ایک دفعہ پھر بروقت فیصلہ نہ کرکے پاکستان کے انقلاب پسند طبقے کو بہت مایوس کیا ہے اور جس جگہ پر تحریک انصاف 31اکتوبر2011کوکھڑی تھی وہاں اب منہاج القرآن کی عوامی تحریک کھڑی ہے۔اور دوسری طرف میاں نوازشریف گذشتہ ہونے والے تمام ضمنی الیکشنوں کے نتائج کی وجہ سے جس مقام پر پہنچ چکے تھے وہ اس مقام کو بھی برقرار نہ رکھ سکے۔شاید میاں صاحب یہ بھول گئے تھے کہ انہیں زرداری کی نفرت کی وجہ سے عوامی توجہ ملی ہے اور اب عوام نے دیکھ لیا ہے کہ میاں نوازشریف اور زرداری صاحب میں ایک خفیہ ڈیل یا انڈرسٹینڈنگ چل رہی ہے۔ان تحفظات کی وجہ سے ایک مذہبی رجحان رکھنے والا طبقہ اور موجودہ حکومت سے نالاں عوام نوازشریف صاحب سے یقینا ناراض ہو چکے ہیں۔اس کا فائدہ بہرحال پیپلزپارٹی کو پہنچے گا ۔اگر الیکشن آئندہ چندہفتوں میں ہو گئے تو عوامی تحریک ایک بڑا اپ سیٹ دے سکتی ہے۔لیکن افسوس یہ ہوگا کہ عمران خان اورمیاں نوازشریف دونوں اپنی حالیہ پالیسیوں کی وجہ سے جیت کی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔ڈاکٹر طاہر القادری کے ماضی اور ان کے کردار پر بات ہو سکتی ہے لیکن ان کے مطالبات کو ناجائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حکومت نے بلاشبہ ان کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیکے ہیں۔ میں اسے طاہر القادری کی اخلاقی فتح قرار دیتا ہوں۔ ان کا اجتماع انتہائی منظم رہا۔ بارش اور شدید سردی بھی شرکاءکا عزم متزلزل نہ کر سکی۔ اس اجتماع میں بہت کچھ خوشنما تھا سب سے زیادہ یہ تھا کہ اجتماع کے دوران صرف اور صرف پاکستانی پرچم لہراتے رہے اور وہ بھی بڑی تعداد میں۔
 
Top