مبارکباد استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب کے دو ہزار احسانات

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ کیا ہوا حضرت؟ ۔۔۔ یہ فقیر اتنا بڑا آدمی کیسے بن سکتا ہے!!۔ اسے خاک نشین ہی رہنے دیجئے کہ خاک نشین گِرتا نہیں ہے۔
آپ لوگوں کا بڑاپن ہے البتہ!
دعا کیجئے کہ اس فقیر کو اللہ کریم انکسار کی توفیق دیے رکھے۔
آسی صاحب۔۔۔ ڈالی کا جھکاؤ ہی اس کی ثمر باری کی دلیل ہے ۔۔۔ اللہ تعالی آپ کی ڈالی کو اور ترقی بلکہ تنزل :-P عطا کرے ۔۔۔ تاکہ ہم جیسے کوتاہ قد خوشہ چینوں کو استفادہ کے مواقع میسر ہوں ۔
 
اس فقیر کو فرش نشین ہی رہنے دیجئے محترمی امجد علی راجا صاحب۔

آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں، تاہم خود کو اس قابل نہیں پاتا کہ میری مدح لکھی جائے۔
تیری محفل میں عجب رنگ دیکھا ہم نے
جو خاموش رہے وہی صاحب اسرار ہوئے
زندگی اپنی اور ہی اطوار سے گزری
ہوئے جب خاک نشیں،صاحب اسرار ہوئے
استاد جی آپ کے سینے میں پتہ نہیں کتنے بھید بھرے ہیں
جیسے کبھی کبھی سمندر موج میں میں آتا ہے
تو ساحل پر سیپییاں اگل دیتاہے
اور ہم جیسے خوشہ چین اسے ایک خزانے کی طرح سمجھ کر اٹھا لیتے ہیں
اللہ آپ کی عمر دراز کرے
 
محترم آسی صاحب کو بہت بہت مبارکباد۔۔
اور محفلین کو بھی مبارکباد کہ محترم آسی صاحب (اور دیگر کئی استاد شعراء اور عظیم شخصیتیں) ہماری رہنمائی کے لئے یہاں موجود ہیں۔
خیر مبارک شوکت بھیا!
عظیم شخصیات میں تو آپ بھی شامل ہیں، آپ بھی کافی کچھ سکھا جاتے ہیں مزاق ہی مزاق میں :)
 
من چراغ آفریدم، تو شبِ آفریدے :nailbiting:

سید شہزاد ناصر صاحب!
آپ نے یاد دلایا تو ہمیں یاد آیا



شاعرِ مشرق کی کتاب اقبال کی ’’پیامِ مشرق‘‘ سے ایک نظم
۔’’محاوہ ما بین خدا و انسان‘‘ (خدا اور انسان کا مکالمہ)۔

خدا​
جہاں را زِ یک آب و گل آفریدم​
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی​
من از خاک پُولادِ ناب آفریدم​
تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی​
تبر آفریدی نہالِ چمن را​
قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را​
انسان​
تو شب آفریدی چراغ آفریدم​
سفال آفریدی ایاغ آفریدم​
بیابان و کہسار و راغ آفریدی​
خیابان و گلزار و باغ آفریدم​
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم​
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم​
۔۔۔۔
 
سید شہزاد ناصر صاحب!
آپ نے یاد دلایا تو ہمیں یاد آیا



شاعرِ مشرق کی کتاب اقبال کی ’’پیامِ مشرق‘‘ سے ایک نظم
۔’’محاوہ ما بین خدا و انسان‘‘ (خدا اور انسان کا مکالمہ)۔

خدا​
جہاں را زِ یک آب و گل آفریدم​
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی​
من از خاک پُولادِ ناب آفریدم​
تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی​
تبر آفریدی نہالِ چمن را​
قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را​
انسان​
تو شب آفریدی چراغ آفریدم​
سفال آفریدی ایاغ آفریدم​
بیابان و کہسار و راغ آفریدی​
خیابان و گلزار و باغ آفریدم​
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم​
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم​
۔۔۔ ۔
اہا اہا کیا کہنے آپ کے استاد جی
"سیر کو سوا سیر" کا کیا مطلب ہی
آج سمجھ میں آیا :notworthy:
 
پیمانے تو کب کے نئے آ چکے سید شہزاد ناصر صاحب! بلکہ پرانے بھی ہو چکے!

آج کے لڑکے بالے اس کو ’’سَیر اور سِوا‘‘ سمجھ بیٹھیں گے۔
شاید ہمیں کل اس کہاوت کو یوں بدلنا پڑے: ’’ہزار کو بارہ سو پچاس‘‘!
;)
کیا نکتہ آفرینی ہے استاد جی لطف آیا سن کر :)
 
Top