استادوں کی اصلاحیں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

استادوں کی اصلاحیں

(مضمون از کتاب: "ادب کیا ہے")
مصنف: نورالحسن ہاشمی ، صدر شعبۂ اردو و فارسی لکھنؤ یونیورسٹی ۔
ناشر :ادارہ فروغِ اردو لکھنؤ ۔ ۱۹۵۹ ء


٭٭٭٭٭ ٭٭​

کسی خیال کسی جذبے، یا کسی حقیقت کو جب ایسے انداز سے بیان کیا جائے کہ وہ بہت حسین ، بہت خوبصورت معلوم ہو ، دل کو موہ لے اور قلب کو گرما دے تو ایسے کلام کو شاعری کہتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر اندازِ بیان ہی میں شاعری کی جادوگری کا راز پنہاں ہے ۔ جادو گری اور سحر کاری کی یہ صلاحیت شاعر کو فطرت کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔ اکتساب سے حاصل نہیں ہوتی۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ اس صلاحیت پر جلا ہوتی ہے بہت کچھ اُس کے مطالعے اور مشاہدے سے یا پھر کسی باکمال کے سامنے زانوئے شاگردی تہ کرنے سے۔ فطری صلاحیت کو بھی جب تک ٹھیک تربیت نہ دی جائے اسے پختہ اور مستند بننے ہیں بڑی دیر لگتی ہے اور بڑی دقتیں اُٹھا نا پڑتی ہیں۔ حضوصاً فنونِ لطیفہ کے ابتدائی مدارج کی تعلیم میں تو ایک رہبر، ایک خضرِ راہ کی بہت ضرورت ہوتی ہے اسی لئے ہماری پرانی تہذیب نے شعرو شاعری کے فن میں بھی استادی اور شاگردی کا طریقہ جاری کیا تھا جس کے باعث ایک نو آموز لیکن شاعرانہ صلاحیتیں رکھنے والا شخص بہت جلد اور بہ آسانی شاعری کے فن میں طاق ہو سکتا تھا بلکہ کبھی کبھی تو اپنے استاد سے بھی بڑھ جاتا تھا۔ سودا کی مثال سامنے ہے۔ یہ شیخ حاتم کے شاگرد تھے لیکن بعد میں خود اتنے بڑے شاعر ہو گئے کہ حاتم ان کی شاگردی پر فخر کرنے لگے تھے ۔

لیکن استادی اور شاگردی کے سلسلہ میں یہ بات نہ بھولنا چاہیے کہ کوئی استاد ، وہ چاہے کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو ، کسی ناشاعر کو شاعر نہیں بنا سکتا اور اسی لئے آج کل کے بہت سے نقاد اس سلسلے کو ختم ہی کر دینا چاہتے ہیں۔ حالی نے بھی اپنے مقدمۂ شعر و شاعری میں لکھا تھا کہ "ہمارے ملک میں جو شاعری کے لئے ایک استاد قرار دینے کا دستور اور اصلاح کے لئے ہمیشہ اس کو اپنا کلام دکھانے کا قاعدہ قدیم سے چلا آتا ہے اس سے شاگردوں کے حق میں کو ئی معتد بہ فائدہ مترتب ہونے کی امید نہیں ہے۔ استاد شاگرد کے کلام میں اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہے کہ کوئی گرامر کی غلطی بتادے یاکسی عروضی لغزش کی اصلاح کر دے لیکن اس سے نفسِ شعر میں کوئی ترقی نہیں ہو سکتی۔" حالی کا یہ ارشاد اپنی جگہ بالعموم درست ہے لیکن ہر شاگرد اور ہر استاد کے بارے میں یہ صحیح نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں کہ "شاعر بننے کے لئے سب سے اول سبق استعداد ، پھر نیچر کا مطالعہ اور اس کے بعد کثرت سے اساتذہ کا کلام دیکھنا اور ان کے برگزیدہ کلام کا اتباع کرنا اور اگر میسر آئے توان لوگوں کی محبت سے مستفید ہونا جو شعر کا صحیح مذاق رکھتے ہوں۔" تو یہاں بھی حالی کی رائے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ اول تو کثرت سے اساتذہ کے کلام دیکھنے کا موقع اور فرصت آجکل کہاں اور دوسرے اساتذہ کی صحبت مشکل ہی سے میسر آتی ہے۔ اور کوئی اس کی کا وش بھی کرے تو وقت زیادہ درکار ہے اور دقیتیں راہ میں بہت ہیں۔ اس لئے کسی ماہر استاد کا میسر آجا نا نسبتاً آسان اور مفید تر ہے۔ جس طرح کوئی طالب علم چاہے جتنا محنتی اور ذہین کیوں نہ ہو اس کے لئے بھی بالخصوص ابتدائی مدارج میں ایک معلم کی ضرورت ہوا کرتی ہے کیو نکہ اس صورت سے وہ بآسانی اور جلد تر ان منزلوں پر پہنچ جاتا ہے جہاں اگر وہ اپنی محنت اور شوق کے بل بوتے پر پہنچتا بھی تو بڑی مشکلوں کے بعد اور بڑی دیر میں۔ اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ کوئی فن ہو جائے استاد خالی ہی رہتی ہے اور شاعری میں تو خاص کر ایک شفیق و ہوشیار استاد کی بڑی ضرورت ہے کیونکہ بقول آتش ۔
بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا​
اس میں شک نہیں کہ شعر میں حسن پیدا کرنا بڑے آرٹ کا کام ہے۔ ایک ایک لفظ اپنے معنی اور آواز دونوں کے لحاظ سے قدر و قیمت رکھتا ہے۔ حسبِ حال صحیح لفظ نبھانا بڑی مشق اور محنت کے بعد آتا ہے۔ بعض اوقات محض لفظوں کے الٹ پھیر سے شعر کے معنی یا اثر میں زمین آسمان کا فرق ہو جاتا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے۔ لفظیکه تازہ است به مضمون برابر است !

اس نکتے کو ہمارے پرانے استاد خوب جانتے تھے۔ اپنے شاگردوں کے کلام پر جیسی اصلاحیں انہوں نے دی ہیں اس سے معلوم ہو تا ہے کہ الفاظ کی نبّاضی میں وہ کس قدر ماہر تھے۔ ہر لفظ کے مزاج اور اس کی کیفیت سے وہ پوری طرح با خبر ہوتے تھے۔ میر دوست علی خلیل ، آتش لکھنوی کے مشہور شاگردوں میں سے تھے۔ ایک مشاعرے میں بغیر اصلاح کے غزل پڑھی اور معلوم ہوا کہ غزل بہت کامیاب رہی۔ دوسرے دن استاد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بڑے فخر سے بتایا کہ کل مشاعرے میں میری غزل بہت کامیاب رہی۔ یہ کہہ کر غزل سنانے لگے۔ مطلع تھا۔
مدت کے بعد آج وہ اے مہرباں ملے
دل کی کہوں جو جان کی مجھ کو اماں ملے
سنتے ہی آتشؔ نے منہ بناکر کہا یہ جو جان کس کا نام ہے؟ پھر اصلاح دی:
مدت کے بعد آج وہ اے مہرباں ملے
دل کی کہوں گا، جان کی مجھ کو اماں ملے
جو جان میں تنافر حرفی تھا۔ "کہوں گا" کے فقرہ سے یہ عیب دور ہو گیا۔ اسی طرح روایت ہے کہ لکھنو کے ایک معرکتہ الآرا مشاعرے میں حسنِ اتفاق سے آتشؔ و ناسؔخ مع اپنے شاگردوں کے تشریف لائے۔ آتشؔ کے استاد میاں مصحفی سے بھی وعدہ تھا۔ وہ ابھی مشاعرے میں آئے نہ تھے۔ مشاعرہ شروع ہو گیا ۔ ایک نو مشق کمسن لڑکے نے ایک مطلع پڑھا:
جس کم سخن سے میں کروں تقریر بول اُٹھے
مجھ میں کمال وہ ہے کہ تصویر بول اُٹھے
اس مطلع پر مشاعرے کی چھتیں اڑ گئیں اور ناسؔخ نے کئی بار اس مطلع کو پڑھوایا اور اس لڑکے کو خلافِ معمول بے حد داد دی۔ اس کے پڑھ لینے کے بعد مشاعرے میں میاں مصحفی تشریف لائے۔ اہلِ بزم تنظیم کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور صدر میں ان کو جگہ دی گئی۔ شیخ ناسؔخ نے اپنے دل میں ارادہ کیا کہ جب استاد مصحفی کی باری آئے تو میں ان کو نیچا دکھاؤں۔ چنانچہ سب کے آخر میں جب شمع گردش کرتی ہوئی ان کے سامنے آئی تو ناسؔخ نے کہا استاد آپ کے تشریف لانے کے قبل (لڑکے کی طرف اشارہ کر کے) اس لڑکے نے ایسا بے مثل مطلع پڑھا جس کی تعریف میں زبان قاصر ہے۔ مصحفی نے کہا ہاں پڑھا ہوگا۔ کہا میری خواہش ہے کہ آپ بھی سن لیں۔ یہ کہہ کر اشارہ کیا اور ان کے ایک شاگرد نے مصحفی کے آگے سے شمع اٹھا کر لڑکے کے سامنے رکھ دی اور لڑکے سے مخاطب ہو کر کہا میاں ذرا اپنا مطلع استاد کو بھی سنادو۔ اس نے پھروہی مطلع پڑھا۔ آتؔش اپنے استاد کے آگے سے شمع اٹھوا لینے پر آگ ہو گئے اور ناسؔخ سے مخاطب ہوکر کہا کہ ایک غلط مطلع پر اس قدر ناز کیا جاتا ہے، تصویر کا کم سخن ہونا دور از قیاس ہے۔ اُسی وقت اصلاح دے کر لڑکے سے مخاطب ہو کر کہا کہ میاں اسے یوں پڑھو:
جس بے زباں سے میں کروں تقریر بول اُٹھے
مجھ میں کمال وہ ہے کہ تصویر بول اُٹھے
آتش کی یہ جدتِ طبع دیکھ کر میاں مصحفی خوش ہوگئے اور شیخ ناسؔخ خاموش ہو گئے۔ واقعی فی البدیہہ ایسی اصلاح دیناآتؔش ہی ایسے استاد کا حصہ تھا۔ (از مشاطۂ سخن)۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ فتح الدولہ برقؔ لکھنوی جو ناسؔخ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے اور جن کا کلام اصلاح سے مستغنی ہو چکا تھا ان کی ایک غزل مشاعرے میں بہت مقبول ہوئی لیکن جب ناسخ کو سنانے آئے اور یہ شعر پڑھا:
اُس گل نے ایک رات جو پہنا تو بس گیا
بوئے گلاب آتی ہے موتی کے ہار میں
ناسخ نے فوراً ٹوکا کہ گلاب کے پھولوں کا ہار سوائے ان لوگوں کے جو کسی مندر یا مَٹھ کے پجاری ہوں کوئی اور نہیں پہنتا۔ میں نے تو کسی شریف آدمی کو گلاب کے پھولوں کا ہار پہنے نہیں دیکھا۔ اس کے بعد فرمایا کہ سامنے کی بات ہے دوسرے مصرع کو یوں بنا دو: بُو موتیے کی آتی ہے موتی کے ہار میں

اسی طرح کی بہت سی اصلاحیں مشہور ہیں۔ منشی امیر مینائی کا ایک شعر تھا:
غضب داغ تو نے دیے اے فلک
کلیجہ گلِ نیلوفر ہو گیا!
اُن کے استاد اسیر لکھنوی نے اصلاح دی۔
غضب چٹکیاں ہیں تری اے فلک
کلیجہ گلِ نیلوفر ہو گیا
امیر مینائی کے پہلے مصرع میں کلیجے کے گلِ نیلوفر ہونے کا کوئی ظاہری ثبوت نہ تھا۔ چٹکیوں سے کلیجے کا گلِ نیلو فر ہوجانا بالکل ثابت ہو گیا۔ مومن کے کسی شاگرد کا ایک مطلع تھا:
ہجر میں کیوں کر پھروں ہر سو نہ گھبرایا ہوا
وصل کی شب کا سماں آنکھوں میں ہے چھایا ہوا
انہوں نے اصلاح دی:
اِس طرف کو دیکھتا بھی ہے تو شرمایا ہوا
وصل کی شب کا سماں آنکھوں میں ہے چھایا ہوا
پہلا مصرعہ بدلنے سے واقعیت کے اظہار میں کس قدر اثر پیدا ہو گیا۔ حالؔی کا ایک شعر تھا:
عمر شاید نہ کرے آج وفا
سامنا ہے شبِ تنہائی کا
استاد غالبؔ نے اصلاح دی:
عمر شاید نہ کرے آج وفا
کاٹنا ہے شبِ تنہائی کا
ظاہر ہے کہ اس موقع پر لفظ کاٹنا ہی زیادہ پر لطف و معنی خیز ہے کیونکہ یہ لفظ عمر اور شب دونوں میں مشترک ہے۔ ایک لفظ کے بدل جانے سے خوبی بڑھ گئی۔ ایک مرتبہ حضرت ریاض خیرآبادی سے راجہ صاحب محمود آباد نے کہا کہ آپ کا کلام اصلاح سے مستغنی ہے۔ ریاضؔ نے کہا کہ نہیں ، ابھی ایسا نہیں ہوا۔ پھر اپنا ایک شعر سنایا:
نسیم آئی ہے شمعِ مزار گل کرنے
وہ اس کے آنے سے پہلے ہی بجھ گئی ہوگی
کہا کہ دیکھئے استاد امیر مینائی نے اس پر صرف ایک لفظ بڑھا دیا ، بحر میں کوئی فرق نہیں آیا اور شعر کا اثر بڑھ گیا۔ راجہ صاحب نے پوچھا وہ کیونکر؟ کہا پہلا مصرع یوں کر دیا:
نسیم اب آئی ہے شمعِ مزار گل کرنے
وہ اس کے آنے سے پہلے ہی بجھ گئی ہو گی
ایک دلچسپ واقعہ داغ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب ان کے مشہور شاگرد جناب احسن مارہروی نے اپنا یہ شعر بغرضِ صلاح ان کے پاس بھیجا:
خدا پرسش کرے گا حشر میں ساری خدائی سے
بھلائی کی بھلائی سے ، برائی کی برائی سے
تو داغ ؔمرحوم نے یہ لطیف جملہ لکھ کر واپس کر دیا کہ آپ غزل کہہ رہے ہیں یا وعظ ؟ غرض اس قسم کی اصلاحوں کے سینکڑوں واقعات مشہور ہیں۔

مگر یہاں تک توآپ نے دیکھا کہ استادوں نے ایک ایک شعر کو کیونکر بنایا اور ایک ایک لفظ کے الٹ پھیر سے کیو نکر شعر میں جان ڈال دی لیکن اب ذرا یہ بھی ملاحظہ فرمائیےکہ ایک ہی شعر کو مختلف اسا تذہ کس طرح بناتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کام بہت مشکل تھا کہ مختلف اساتذہ ایک ہی شعر کو بنانے کے لئے اتنی زحمت برداشت کرتے۔ لیکن جناب شوقؔ سندیلوی صاحب نے یہ گتھی سلجھادی اور کوئی بیسں بائیس استادوں کے بیک وقت شاگرد ہو گئے۔ اور ہوشیاری یہ کی کہ کسی استاد پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ کسی اور کے بھی شاگرد ہیں۔ اس طرح انھوں نے اپنی پندرہ سولہ غزلوں پر مختلف الاصول استادوں سے مختلف اصلاحیں بیک وقت حاصل کر لیں اور اصلاحوں کے اس مجموعہ کو اصلاحِ سخن کے نام سے شائع کر دیا۔ ان کے استادوں میں احسن مارہروی، آرزو لکھنوی ، علامہ اقبال ، اکبر الہ آبادی ، بیخود موہانی ، ثاقب کانپوری، جلیل ، ریاض ، سائل دہلوی ، صفی، عزیزمضطر خیرآبادی ، نوح ناروی، نیاز فتحپوری ، وحشت کلکتوی ، غرض یہ کہ شروع بیسویں صدی کے تقریباً جملہ استادانِ فن شامل ہیں۔ یہاں میں صرف ایک شعر پر مختلف اساتذہ کی اصلاحیں سناتا ہوں ۔ جناب شوقؔ سندیلوی کا ایک شعر ہے:
سادگی میں یہ کہاں لطفِ خلش دل کو نصیب
خط بھی وہ خط ہے اگر شوخیِ تحریر نہ ہو
احسن مارہروی نے دوسرا مصرع یوں بنایا:
خط وہ کیا خط ہے اگر شوخیِ تحریر نہ ہو

آرزوؔ لکھنوی نے لکھا کہ یہ نہیں پایا جاتا کہ خط کس کا ہے اس لئے شعر کو اس طرح درست کیا ہے۔
چبھتے فقروں ہی میں ہے شانِ مزاجِ معشوق
خط کوئی خط ہے اگر شوخیِ تحریر نہ ہو

بیخود دہلوی نے یوں اصلاح دی:
سادگی میں بھی ہوا لطفِ خلش دل کو نصیب
ان کا خط ہے ، نہ سہی شوخیِ تحریر نہ ہو

بیخود موہانی نے اس طرح درستی کی ۔
ایک اک لفظ کلیجے میں چبھا جاتا ہے
خط میں خط ہے کوئی گر شوخیِ تحریر نہ ہو

ریاض خیرآبادی نے دوسرا مصرع یوں بنایا۔
خط کوئی خط ہے اگر شوخیِ تحریر نہ ہو

سائل دہلوی نے اس طرح اصلاح دی۔
سادگی میں یہ کہاں لطفِ خلش ، سمجھو تو
دل نہ بے چین ہو گر شوخیِ تحریر نہ ہو

شاد عظیم آبادی نے اس طرح بنایا ۔
سچ ہے بے لطف وہ فقرے وہ عبارت پھیکی
کچھ بھی نامے میں اگر شوخیِ تحریر نہ ہو

نوح ناروی نے پورا شعر یوں بدل دیا۔
کیا ہے تقریر نہ ہو کچھ بھی اگر حسنِ کلام
کیا ہے تحریر اگر شوخیِ تحریر نہ ہو

ناطقؔ لکھنوی ، وحشؔت کلکتوی نے یہ شعر بالکل قلم زد کر دیا۔ جلیل ، صفی ، عزیز نے اس شعر کو بالکل صحیح قرار دیا ۔ان تمام مثالوں سے ثابت ہو گیا کہ استادانِ فن دلفریبیِ کلام میں کس قدر کاوش کیا کرتے تھے۔ آج استادی اور شاگردی کا طریقہ ختم ہو رہا ہے۔ اس کا بدل تو یہی ہوسکتا ہے کہ اندازِ بیان کو خوب سے خوب تر بنانے کے لئے پھر خود شاعر ہی کد و کاش کرے۔ لیکن یہ کام آسان نہیں ہے اور اس سے ہر شاعر آسانی سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں محنت کی بہت ضرورت ہے۔ اس کے لئے چاہیے کہ اساتذہ کا کلام پیشِ نظر ر کھے ، ان کے اندازِ بیان پر غور کرے ، ایک ایک لفظ کے اثر سے باخبر رہے اور اس کے ساتھ زمانہ ور انسانی فطرت کا بغور مطالعہ کرتا ہے۔ یعنی وہ تمام باتیں جو پہلے ایک شفیق استاد کیا کرتا تھا اب خود کرے اور تحصیلِ فن میں اپنی تعلیم و تربیت کا نگراں خود بنے۔ تب اس کے کلام میں استادانہ رنگ پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن جیسا میں نے عرض کیا کہ یہ کام بہت مشکل ہے اور ہر شاعر اسے بآسانی نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ باعتبار فن آج کل کے بہت سے شاعروں میں ہمیں وہ پختگی نہیں نظر آتی جو گذشتہ زمانہ کے استادوں میں ملتی تھی۔ اور یہی باعث ہے کہ پختہ اور ٹکسالی اندازِ بیان اب ہمارے شاعروں میں رفتہ رفتہ کم ہوتا جا رہا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭​
 

الف نظامی

لائبریرین
استاد کو زبان و بیان کی اصلاح کے ساتھ ساتھ مفہوم و مجموعی تاثر کی درستی بھی کرنی ہے۔ مایوس کن اشعار کو نکال کر امید افزا اشعار کو فروغ دینا ہے۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نورالحسن ہاشمی کی کتاب"ادب کیا ہے" دلچسپ تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے ۔ آج کل میں اس کتاب کے چند منتخب مضامین کی ٹائپنگ اور پروف ریڈنگ کی کوشش کررہا ہوں ۔ ارادہ ہے کہ جیسے ہی کوئی مضمون مکمل ہوا اسے یہاں پوسٹ کرتا جاؤں گا ، ان شاء اللہ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت شکریہ ظہیر بھائی کہ آپ نے اپنے مطالعے میں ہمیں شریک کیا۔

آج استادی اور شاگردی کا طریقہ ختم ہو رہا ہے۔ اس کا بدل تو یہی ہوسکتا ہے کہ اندازِ بیان کو خوب سے خوب تر بنانے کے لئے پھر خود شاعر ہی کد و کاش کرے۔ لیکن یہ کام آسان نہیں ہے اور اس سے ہر شاعر آسانی سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں محنت کی بہت ضرورت ہے۔ اس کے لئے چاہیے کہ اساتذہ کا کلام پیشِ نظر ر کھے ، ان کے اندازِ بیان پر غور کرے ، ایک ایک لفظ کے اثر سے باخبر رہے اور اس کے ساتھ زمانہ ور انسانی فطرت کا بغور مطالعہ کرتا ہے۔ یعنی وہ تمام باتیں جو پہلے ایک شفیق استاد کیا کرتا تھا اب خود کرے اور تحصیلِ فن میں اپنی تعلیم و تربیت کا نگراں خود بنے۔ تب اس کے کلام میں استادانہ رنگ پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن جیسا میں نے عرض کیا کہ یہ کام بہت مشکل ہے اور ہر شاعر اسے بآسانی نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ باعتبار فن آج کل کے بہت سے شاعروں میں ہمیں وہ پختگی نہیں نظر آتی جو گذشتہ زمانہ کے استادوں میں ملتی تھی۔ اور یہی باعث ہے کہ پختہ اور ٹکسالی اندازِ بیان اب ہمارے شاعروں میں رفتہ رفتہ کم ہوتا جا رہا ہے۔

خود اپنا اُستاد بننا بہت مشکل بلکہ نا ممکن کام ہے۔ خاص طور پر ایک مبتدی کے لئے۔ باقاعدہ نہ سہی، بے قاعدہ ہی سہی اُسے اپنے کلام کو نکھارنے کے لئے مناسب اور بجا تنقید کی ضرورت بہرطور پیش آئے گی۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا​
واہ واہ! بہت خوب! ایک سانس میں دو مرتبہ تو مضمون پڑھ لیا۔ بہت شکریہ اتنی اچھی شراکت کا۔ بحیثیت استاد میں بھی اس بات کی قائل ہوں کہ کسی بھی نئے کام کو جلد سیکھنے کے لیے ایک اچھے استاد کی موجودگی نہایت ضروری ہے۔ اس مضمون کو ایک مرتبہ مزید توجہ سے پڑھ کر کچھ سوالات کرنا چاہوں گی۔ امید ہے کہ آپ اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت عنایت فرمائیں گے۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
بہت شکریہ ظہیر بھائی کہ آپ نے اپنے مطالعے میں ہمیں شریک کیا۔



خود اپنا اُستاد بننا بہت مشکل بلکہ نا ممکن کام ہے۔ خاص طور پر ایک مبتدی کے لئے۔ باقاعدہ نہ سہی، بے قاعدہ ہی سہی اُسے اپنے کلام کو نکھارنے کے لئے مناسب اور بجا تنقید کی ضرورت بہرطور پیش آئے گی۔
سیلف لرننگ بھی سیکھنے کا ایک طویل سہی پر طریقہ تو ہے۔ ایک مخصوص حد تک مہارت حاصل کر کے یہ کافی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے کہ فی زمانہ کسی کے پاس بھی وقت آسانی سے میسر نہیں تو ہر کوئی اپنی سہولت کے مطابق وقت نکال کر سیکھ لیتا ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت شکریہ ظہیر بھائی کہ آپ نے اپنے مطالعے میں ہمیں شریک کیا۔



خود اپنا اُستاد بننا بہت مشکل بلکہ نا ممکن کام ہے۔ خاص طور پر ایک مبتدی کے لئے۔ باقاعدہ نہ سہی، بے قاعدہ ہی سہی اُسے اپنے کلام کو نکھارنے کے لئے مناسب اور بجا تنقید کی ضرورت بہرطور پیش آئے گی۔
محمداحمد بھائی ، غور طلب اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہاشمی صاحب نے اس مضمون میں جو صورتحال بیان کی وہ ۷۰ سال پہلے کی بات ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ستر سال بعد زمانے کی رفتار ، اقدار اور طور اطوار مزید کس حد تک بدل گئے ہیں۔اردو شاعری میں اب استادی شاگردی کی روایت تقریباً مرچکی ہےیا آخری سانسیں لے رہی ہے۔( اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ سب سے بڑی وجہ جو میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ اردو زبان کے بارے میں ہمارا رویہ تبدیل ہوچکاہے ۔ عوام کی بات تو چھوڑ دیجیے ، شاعر ، ادیب اور صحافی کہ جن کا کام معیاری زبان کی ترویج و ترقی اور اس کو نکھارنے سنوانے کا ہوتا ہے وہی لوگ اس کی طرف سے لاپرواہی برتنے لگے ہیں ۔ فصاحت کیا بلا ہے ، الفاظ کا درست استعمال کیا چیز ہے ، گرامر کیا کہتی ہے، یہ سب امور اب ان صاحبان کے لیے ثانوی بلکہ غیر اہم بن چکے ہیں۔ لکھتے وقت بھی کچھ سوچنا سمجھنا ہوتا ہے کیا؟! میاں جس طرح چاہو لکھو ، پڑھو اور بولو ۔ اردو زبان ہی تو ہے ، کوئی آسمانی صحیفہ تو نہیں ہے۔ اس مسلسل رویے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پہلےجو بات سمجھ میں آتی تھی اب وہ سب کو "سمجھ آتی ہے"۔ ڈر یہ ہے کہ یہ باتیں اسی طرح اگر سب کو "سمجھ آتی رہیں" تو ایک دن کچھ بھی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ :))
اس طویل جملۂ معترضہ کے لیے معذرت! کہنا یہ تھا کہ ہاشمی صاحب کا یہ شکوہ کہ پختہ اور ٹکسالی اندازِ بیان اب ہمارے شاعروں میں رفتہ رفتہ کم ہوتا جا رہا ہے بہت حد تک درست نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے جب شاعر اور ادیب حضرات ہی زبان کی صحت سے لا تعلق اور لاپرواہ ہوجائیں تو پھر کیسے استاد اور کہاں کے شاگرد۔ اس صورتحال میں ہاشمی صاحب کی یہ تجویز کہ اپنے فن کو نکھارنے کے لئے شاعر خود ہی کد و کاش کرے،محنت سے کام لے ، اساتذہ کےکلام کا بغور جائزہ لے ، ان کے اندازِ بیان پر غور کرے ، ایک ایک لفظ کے اثر سے باخبر رہے نہایت صائب نظر آتی ہے ۔ہاشمی صاحب کی اس تجویز کا خلاصہ یہ ہے کہ شاعر کو مطالعے ، مطالعے اورمسلسل مطالعےکی ضرورت ہے۔ ویسے اردو کے کئی بڑے شعرا "بے اُستادے" گزرے ہیں ۔ غالب کی مثال مشہور ہے۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگرطبیعت میں شعر گوئی کی فطری صلاحیت موجود ہو تو کسی استاد کی مدد کے بغیر بھی محض بغور مطالعے ، تجزیے اور مسلسل ریاضت کی مدد سے کمالِ فن حاصل کیا جاسکتا ہے۔
فنِ شاعری کو سیکھنے کے سلسلے میں میرا بھی یہی طریقۂ کار رہا ہے (اور ابھی تک ہے کہ میں ایک دائمی طالب علم ہوں)۔شاعری کے لیے استاد کبھی میسر نہیں آیا ۔ یقیناً استاد کہیں نہ کہیں تو ہوتے ہوں گے لیکن زندگی کی ہمہ جہت دوڑ میں ان کے کوچے تک میرا گزر نہیں ہوسکا ۔ تیز رفتار زندگی کے گوناگوں تقاضوں اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے بیچ مجھے یہی راستہ آسان نظر آیا کہ اپنا استاد خود بنا جائے ، کتابوں کو رہنما بنایا جائے۔اس میں محنت تو لگتی ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں ۔ لغات اور حوالہ جات دیکھنے کی عادت بہت پختہ ہوچکی ہے اور اب بالکل گراں نہیں گزرتی۔ مطالعے اور تجزیےسے نہیں گھبراتا ۔ یہ الگ بات کہ اب اس کا موقع کم ہی آتا ہے ۔
اس مضمون کو یہاں پوسٹ کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ استادی شاگری کی ختم ہوتی ہوئی روایت کے اہم موضوع پر گفتگو ہوجائے اور متبادلات کو بھی زیرِ بحث لایا جائے ۔ اب میڈیا کا دور ہے۔ یقیناً بہت ساری ویبگاہیں اور چینلز وغیرہ شاعری کی اصلاح اور نکھارنے سنوارنے کا کام کررہے ہیں ۔ان کی افادیت اور معتبری کا مسئلہ اپنی جگہ لیکن ظاہر ہے کہ بدلتے وقت کے ساتھ سیکھنے سکھانے کے ذرائع بھی بدلیں گے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ! بہت خوب! ایک سانس میں دو مرتبہ تو مضمون پڑھ لیا۔ بہت شکریہ اتنی اچھی شراکت کا۔ بحیثیت استاد میں بھی اس بات کی قائل ہوں کہ کسی بھی نئے کام کو جلد سیکھنے کے لیے ایک اچھے استاد کی موجودگی نہایت ضروری ہے۔ اس مضمون کو ایک مرتبہ مزید توجہ سے پڑھ کر کچھ سوالات کرنا چاہوں گی۔ امید ہے کہ آپ اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت عنایت فرمائیں گے۔
ضرور ، ضرور ! آپ سوالات بالکل کیجیے۔میں اپنی بساط اور اوقات کے مطابق جوابات دینے کی کوشش کروں گا۔ مجھے کسی قسم کا کوئی دعویٰ کبھی نہیں رہا اور میں اپنی تہی دامنی سے بھی بخوبی واقف ہوں لیکن اردو محفل پر جب بھی مجھ سے کسی قسم کا سوال کیا گیا ہے تو میں نے اپنے علم اور دانش کے مطابق اس کا جواب ضرور دیا ہے۔ علم و فن کو امانت سمجھتا ہوں اور اسے اہل لوگوں تک منتقل کرنے کو ایک ذمہ داری!
اس مضمون کو پوسٹ کرنے کا مقصد یہی ہے کہ شاید اس سے کچھ تعمیری مباحث اور سود مند نکات جنم لیں۔
 
Top