اردو کی بات اردو میں

خرم

محفلین
ماشاء اللہ بہت اچھی کوشش ہے اپنی زبان کو فروغ اور رواج دینے کی۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین۔ میرا قیاس یہی ہے کہ جو بات میں کہنا چاہ رہا ہوں اس سے آپ نا صرف پہلے سے ہی آگاہ ہوں‌گے بلکہ اس کے لئے کسی کوشش میں بھی مصروف ہوں گے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو اسے ایک نوآموز کی جہالت سمجھ کر درگزر فرمائیے گا۔ تو اب وہ بات جس کی اتنی تمہید باندھی گئی۔ محفل پر مختلف پیغامات و عنوانات کے تصفحہ کے دوران محسوس کیا کہ کافی سارے الفاظ و تراکیب ابھی انگلش کی استعمال کی جا رہی ہیں۔ یہ نہیں کہ اس میں کوئی خاص برائی ہے مگر زبان کا حسنِ بیان ضرور مجروح ہوتا ہے۔ اب جب ماشاءاللہ اس قدر باذوق اور متحرک ارکان اس محفل کو میسر ہیں تو کیوں نہ ایک کوشش کر ڈالی جائے کہ وہ تمام الفاظ و تراکیبِ انگریزی جو روزمرہ میں مروج ہیں ان کے مترادفات اپنی زبان میں تلاش کرکے یا ایجاد کرکے انہیں رائج کرنے کی کوشش کی جائے؟ ابتداء تو تکنیکی اصطلاحات اور بھلائے ہوئے الفاظ کو دوبارہ استعمال کرنے سے کی جا سکتی ہے۔ بادی النظر میں‌یہ کام مشکل تو ضرور ہے مگر اگر سب مل کر کوشش کریں تو ناممکن قطعی نہیں۔ اگر ایسی کوئی کوشش پہلے سے ہی اس محفل میں جاری ہے تو برائے مہربانی مجھے اس پر مطلع فرمائیے کہ ایسی کوششش میں شرکت میرے لئے باعثِ اطمینان ہو گی۔
 

بدتمیز

محفلین
سلام
جی ہاں ایسی کوشش جاری ہے۔ لنک ابھی قیصرانی ڈھونڈ دیں گے۔ میرا ایک سوال تھا شاید آپ جواب دے سکیں کہ کسی بھی لفظ کا اردو ترجمہ کرنا اتنا ضروری کیوں ہے؟ اردو مختلف زبانوں سے الفاظ لے کر بنی ہے۔ یہ کبھی بھی ایک الگ زبان نہیں رہی۔ اس کا ارتقا انتہائی دلچسپ تھا۔ تو اب نئے الفاظ ایجاد کرنا کیوں ضروری ہے؟ انگلش سے اتنی خار کیوں؟ انگلش کے الفاظ کا آپ اردو ترجمہ کیسے کریں گے؟ اردو کو انگلش سے بچانے کے لئے اس میں فارسی یا عربی شامل کر کے یا دونوں کا تڑکا لگا کر؟ یعنی اردو کو انگلش سے پاک کرنے کے لئے دوسری کسی زبان کو شامل کر لیا جائے۔
 

دوست

محفلین
اصل میں ہم اردو کو بھولتے جارہے ہیں۔ بہت سے الفاظ جو دس سال پہلے عام تھے آج استعمال نہیں کیے جاتے اس کی جگہ انگریزی استعمال کی جاتی ہے۔ میرے خیال سے اس روش کو ترک کرنا ہوگا۔
شاید خرم کا اشارہ بھی اسی طرف تھا۔ زبانیں اسی وقت ترقی کرتی ہیں جب ان کے مزاج کے مطابق تبدیلیاں وقوع پذیر ہوں۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ جملے کی ساخت اردو اور لفظ انگریزی ہوتے ہیں۔
خرم جی خوش آمدید امید ہے آپ بھی ہمارے ساتھ شامل ہونگے اس کام میں۔
وسلام
 

خرم

محفلین
ٔپیارے بھائی بات تو آپ کی بالکل درست ہے کہ اردو بہت سی زبانوں سے مِل کر بنی ہے مگر اکثر محققین کے مطابق اس کا خمیر وسط ہند کی بولیوں سے اٹھا ہےاور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ‌‌‌‌‌‌‌سب سے زیادہ اردو نے مقامی زبانوں سے ہی استفادہ کیا ہے۔ اپنے قواعد و ضوابط اور لغت کے لئے بھی اردو کا زیادہ انحصار مقامی زبانوں اور ان کے بعد فارسی اور عربی پر رہا کہ کچھ تراکیب مقامی زبانوں میں ناپید تھیں جیسا کہ خدا اور رسول کا تصور جو کہ بالترتیب فارسی اور عربی الفاظ ہیں۔ ازمنہ وسطہ کے معاشرتی حالات بھی اس تعلق کو پروان چڑھانےکا باعث بنے مگر زبان کا مزاج مقامی ہی رہا۔ ایک مثال لفظ آقا کی ہے جو فارسی میں لکھا تو آقا مگر پڑھا آغا جاتا ہے اور اسی طرح آغا لکھا تو آغا مگر پڑھا آقا جاتا ہے۔ پھر عربی اور فارسی بھی ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی اس مقام سے کافی آگے جا چکی ہیں جہاں اردو نے ان کے الفاظ و تراکیب مستعار لی تھیں۔ اسی طرح بعض الفاظ انگریزی کے بھی اردو میں بھی مستعمل ہیں جیسا کہ ریلوے اسٹیشن۔ یہ سب تماثیل تو زبان کی ارتقاء کی ہیں جیسا کہ آپ نے فرمایا۔ بات اس وقت بگڑتی ہے جب ہم اردو الفاظ کو چھوڑ کر دانستہ انگریزی الفاظ کا استعمال کرنا شروع کرتے ہیں۔ اب اس رحجان کی وجہ کیا ہوتی ہے یہ تو ایک الگ موضوع ہے مگر زبان اور اس پر استوار معاشرہ اور معاشرتی اقدار کے لئے یہ ایک حوصلہ مند رحجان نہیں ہے۔ دوکانوں کے اشتہاروں میں نہاری اینڈ حلیم لکھا تو آپ نے بھی دیکھا ہوگا اور محظوظ بھی ہوئے ہوں گے۔ یہ معاملہ لغت سے آگے بڑھ کر اب قومی مزاج کا بن چکا ہے۔ اسی طرح تکنیکی الفاظ کا بعینیہ انگریزی میں استعمال مزاج کو بھی گراں گزرتا ہے اور بات سمجھنے میں بھی دقت ہوتی ہے۔ یہ تحقیق تو ثابت ہے کہ ہر انسان سوچتا اپنی مادری و مقامی زبان میں ہی ہے۔ جب ہم علم و تحقیق کو ایک اجنبی زبان سے منسوب کر دیتے ہیں تو میرے خیال میں ہم اپنے لوگوں پر علم و تحقیق کے دروازے بند کر رہے ہوتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ اپنی زبان کو فروغ دیئے بغیر ہم علمی و تحقیقی میدان میں ترقی نہیں کر سکتے اور میرے نزدیک اس کا ثبوت وہ درخشاں اذہان ہیں جو میں نے صرف اس لئے ورکشاپوں اور دوکانوں میں ضائع ہوتے دیکھے کہ وہ انگریزی کی لسانی باریکیوں پر حاوی نہ ہو سکے۔ تو اگر ایک کوشش کر دیکھی جائے اپنے لوگوں اور اپنی زبان کو اس بیرونی اثر سے آزاد کرنے کی تو شاید یہ مثبت طرف ایک قدم ہو۔ کیا خیال ہے آپ کا؟
 

شمشاد

لائبریرین
خرم بھائی میں آپ کو اردو محفل میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ سب سے پہلے تو آپ “ تعارف “ کے زمرے میں جائیں اور اپنا تعارف تو دیں تا کہ بات چیت میں آسانی رہے۔

آپ کے خیالات جان کر خوشی ہوئی۔ محفل کو آپ جیسے اراکین کی ضرورت ہے۔ کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ اردو لکھتے وقت اردو کے الفاظ ہی استعمال کیئے جائیں لیکن انگریزی ہمارے معاشرے، ہماری روزمرہ کی بول چال میں ایسی رچ بس گئی ہے کہ اس کو دیس نکالا دینا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،

خرم، جو درخشاں اذہان آپ نے ورکشاپوں میں ضائع ہوتے دیکھے ہیں اس کا قصور انگریزی کو دینا مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ اس کی اصل وجہ باصلاحیت لوگوں کے لیے مواقع اور وسائل کی کمی ہے۔ اس صورتحال سے ورکشاپوں میں کام کرنے والے ہی نہیں، انڈسٹری میں کام کرنے والے انجینیر اور سوفٹویر ڈیویلپر بھی دوچار ہیں جہاں نئے آئیڈیا کو آگے نہیں آنے دیا جاتا اور محض روٹین کا کام نپٹانے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بدتمیز نے کہا:
سلام
جی ہاں ایسی کوشش جاری ہے۔ لنک ابھی قیصرانی ڈھونڈ دیں گے۔ میرا ایک سوال تھا شاید آپ جواب دے سکیں کہ کسی بھی لفظ کا اردو ترجمہ کرنا اتنا ضروری کیوں ہے؟ اردو مختلف زبانوں سے الفاظ لے کر بنی ہے۔ یہ کبھی بھی ایک الگ زبان نہیں رہی۔ اس کا ارتقا انتہائی دلچسپ تھا۔ تو اب نئے الفاظ ایجاد کرنا کیوں ضروری ہے؟ انگلش سے اتنی خار کیوں؟ انگلش کے الفاظ کا آپ اردو ترجمہ کیسے کریں گے؟ اردو کو انگلش سے بچانے کے لئے اس میں فارسی یا عربی شامل کر کے یا دونوں کا تڑکا لگا کر؟ یعنی اردو کو انگلش سے پاک کرنے کے لئے دوسری کسی زبان کو شامل کر لیا جائے۔
عجیب بات یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ پہ اردو میں صرف انگریزی کا تڑکا کیوں لگا یا جارہا ہے، اور پنجابی ، سندھی، بلوچی اور پشتو کا تڑکا کیوں نہیں؟
 

شمشاد

لائبریرین
آپ کی بات بالکل بجا ہے لیکن آج تک پاکستان کی سرکاری زبان اردو تو ہو نہ سکی، اس لیے انگریزی ایک common عام زبان بن کے رہ گئی ہے۔ اب ایک بندہ دوسرے تین صوبوں کی زبان سیکھنے کی بجائے صرف انگریزی بول کر اپنا مسئلہ حل کر لیتا ہے۔

چاروں صوبوں میں علاقائی زبانوں میں بھی تعلیم دی جاتی ہے جب کہ چاروں صوبوں میں انگریزی ایک سی پڑھائی جاتی ہے۔

یہی حال ہندوستان کا ہے۔ پاکستان میں تو چار صوبوں کی چار زبانیں ہیں، لیکن ہندوستان میں غالباً 25 یا 26 بڑی زبانیں ہیں، اب کوئی کتنی زبانیں سیکھے گا، اس لیے انہوں نے بھی انگریزی کو ہی عام زبان کا درجہ دیا ہوا ہے۔

کوشش یہی ہونی چاہیے کہ حٰتی الوسع اردو ہی کے الفاظ لکھیں۔
 

خرم

محفلین
شمشاد بھائی یہ بات تو ٹھیک ہے کہ اردو ابھی تک سرکاری زبان نہیں بن پائی مگر اس میں قصور تو نہ اردو کا اور نہ اردو بولنے والوں کا بلکہ اس طبقہ کا ہے جس کا مفاد انگریزی سے وابستہ ہے۔ اگر اردو سرکاری زبان بن جائے تو ان کے لاڈلوں کو ایک عام پاکستانی بچے کے ساتھ برابری کی بنیاد پر زندگی کی دوڑ میں شامل ہونا پڑے گا۔ ستم ظریفی تو یہ کہ ہمارے ملک کا آئین بھی انگریزی میں ہے تاکہ جن پر حکومت کرنی ہی انہیں کانوں کان خبر نہ ہو کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا۔ میرے نزدیک تو یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ ہم اپنی زبانیں سیکھنے کی بجائے ایک غیر زبان سیکھنے پر مجبور ہیں اور اس کے نتیجہ میں ہمارا اپنا قیمتی ورثہ جو صدیوں کا اثاثہ ہے ضائع ہو رہا ہے۔ ہندوستان میں بھی ایک بولی کو رائج نہ کرنا اسی طبقاتی کشمکش کا اظہار ہے جو پاکستان میں درپیش ہے۔ ان کی قومی زبان کو شمالی ہند کی استعماری بولی سمجھا جاتا ہے اور اس لئے جنوبی ہند کے لوگ اس کے سیکھنے بولنے سے منکر ہیں وگرنہ ایک مقامی زبان سیکھنا ایک غیر زبان سیکھنے کی بہ نسبت بہت آسان ہے اور اس کے ذریعہ دلوں کی خلیج بھی پاٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔ راجہ جی کی بات بالکل ٹھیک ہے کہ اردو میں اگر تڑکا لگانا بھی ہے تو اپنی ہی کسی زبان کا لگائیں سات سمندر پار جانے کی کیا ضرورت؟
نبیل بھائی انگریزی بھی تو اسی استعماری طبقہ کا ایک آلہ ہے جو ہمارے درخشندہ اذہان کو ضائع کر کے اپنے بالادستی قائم رکھنے کا خواہش مند ہے۔ زندگی کے ہر مرحلہ پر مختلف حیلہ اور حربے استعمال کئے جاتے ہیں تاکہ ان کی بالاستی برقرار رہے۔ میرا اپنا نظریہ اور تجزیہ تو یہی ہے کہ ان کی بالادستی کی عمارت انگریزی کی بنیادوں پر برقرار ہے اور اسی لئے کوئی بھی کوشش جو انگریزی کے تسلط کے خلاف ہوگی، اسے انتہائی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ویسے یوسفی صاحب کے ایک کردار کے الفاظ میں آپ کی یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ “ایتھے اگے کیہڑا کم سائنس دے مطابق ہو ریا ایہہ جیہڑا تینوں طوطے دے رنگ دے اعتراض ایہہ“
 

شمشاد

لائبریرین
خرم بھائی آپ یوسفی صاحب کے اس کردار کا اصل لفظ تو چھوڑ ہی گئے، “ او بد بختا ایتھے اگے کیہڑا کم سائنس دے مطابق ہو ریا ایہہ جیہڑا ۔۔۔۔۔۔۔“ تو اصل بدبخت تو ہم ہیں جو آزادی کے 60 سال گزارنے کے باوجود غلام ہی ہیں۔
 

بدتمیز

محفلین
میں انگلش کو شامل کرنے پر مصر نہیں ہوں۔ میں صرف وہ مشکل الفاظ جن کو ادا کرنے سے پہلے کھانا کھانا پڑتا ہے اور پھر ہمت کرنی پڑتی ہے کی ایجاد کے خلاف ہوں۔
ویسے بھی یہ تو بددیانتی ہے کہ سائنس یا کمپیوٹر غیروں کی ایجاد اب ان کے رکھے ناموں کو آپ تبدیل کرے۔
میں اس ہزار سالہ تاریخ میں جب مسلمان سائنس پر چھائے ہوئے تھے نازاں ہوں لیکن ساتھ ساتھ مغرب کو لتاڑتا ہوں کہ تم نے ہمارے سائنس دانوں کے نام اور کام کو اپنی زبان میں ٹرانسلیٹ کیا جس کے نتیجے میں تمام دنیا ان کو مغربی سائنس دان سمجھنے کی غلطی کرتی ہے۔
آپ دوسری زبانوں‌ کا تڑکا لگا لیں کوئی مضائقہ نہیں لیکن بہت مہربانی ہو گی کہ اگر آپ سائنس کو اس سے آزاد رکھیں۔ جوش میں آ کر یہ جو حرکت کی جا رہی ہے اس پر سنجیدہ طبقے کی طرف سے داد و تحسین کی بجائے افسوس ہی کیا جائے گا۔
 

دوست

محفلین
دسویں تک سائنس کو “جدید“ کردیا گیا ہے۔
کیا یہ گیا ہے کہ ساری کی ساری انگریزی اصطلاحات ڈال دی گئی ہیں اور وضاحت اردو کی ہے اب بچہ حرارت مخصوصہ نہیں سپیسیفک ہیٹ پڑھتا ہے۔
اب مجھے بتائیں کہ سپیسیفک کو اردو میں پڑھنے سے آپ کا کیا حال ہوا اور ان معصوموں کا کیا حال ہوگا جو اس کو پڑھتے ہیں اور غلط پڑھتے ہیں۔ یاد کرنے بلکے رٹا لگانے کی کوشش کرتے ہیں، اسے لکھتے وقت اکثر بھول جاتے ہیں یہیں تو املاء کی غلطی ضرور کرتے ہیں۔
کیا یہ ظلم نہیں ہے؟
اسراع کو ایکسلریشن لکھا ہوا ہے کونسا پڑھنے میں آسان ہے آپ کے خیال میں؟
میں استاد ہوں دن رات انھی کتابوں سے واسطہ رہتا ہے 12 سال سائنس پڑھ چکا ہوں 10 سال اردو میں جب کافی ساری اردو میں تھی اور 2 سال انگریزی میں آج بھی اسراع کو اسراع کہنے کو ترجیح دیتا ہوں نہ کہ ایکسلریشن۔ لیکن مجبوری ہے اگر ان بچوں کے سامنے بولوں تو پوچھتے ہیں سر یہ کیا ہے۔ اور ایسی رب کی لعنت ہے ان اذہان پر کہ کئی جگہ یہ اصطلاح اسراع بھی لکھی ہوئی ہے لیکن ترجیح پھر بھی انگریزی کو ہی ہے۔
جانے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ہم سے۔اس طرح کیا خاک سائنس پڑھی جائے گی۔ تیسری کے بچے کو جس کو رنگوں کے نام پھلوں کے نام اور جسم کے حصوں کے نام ٹھیک طرح انگریزی میں نہیں آتے ان کو جڑ کی جگہ روٹ پڑھایا جارہا ہے ۔
انگریزی میڈیم کی بات ہی نہ کیجیے انگریزی میڈیم میں سے پچاس فیصد کا مسئلہ اور کوئی نہیں انگریزی ہے۔ اور باقی کا مسئلہ اور کچھ نہیں اردو ہے۔
زبانیں نہ ہوئیں چکی کے دوپاٹ ہوگئے جس میں بچوں کو بے دریغ پیسا جارہا ہے اور اس کا نتیجہ کالے انگریزوں کی صورت میں نکلتا ہے میرے جیسے لوگ جو نہ اردو کی باریکیوں سے واقف ہیں اور نہ انگریزی کے نرم گرم گوشوں سے۔
دھوبی کا کتا گھر کا نا گھاٹ۔
 

خرم

محفلین
میرے پیارے بھائی آپ نے اپنے پیغام میں ہی اپنی بات کا جواب دے دیا۔ سائنس کی اصل ابتداء تو مسلمان سائنسدانوں نے کی اور تمام اصطلاحات بھی لامحالہ عربی میں تھیں۔ تو ہمارے مغربی بھائیوں نے نا صرف ان اصطلاحات کو بلکہ سائنسدانوں کو بھی اپنی زبانوں میں بدل ڈالا۔ اب کوئی وجہ تو ہوگی نا ان اصطلاحات کو عربی سے بدلنے میں۔ تو ہم بھی تو وہی دلیل لاتے ہیں۔ سائنس کا تعلق logic یعنی دلائل سے ہے نا کہ زباندانی سے۔ یہ بات بھی ثابت ہے کہ ہم جو بھی بات سوچتے ہیں اپنی مادری زبان میں سوچتے ہیں اور پھر اس کو کسی اور زبان کا لباس پہناتے ہیں۔ یہی بات کسی بات کو سمجھنے کی بابت بھی ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ سائنسی الفاظ کے مترادفات اپنی زبان میں رائج کئیے جائیں تو ہم اس درمیانی پرت کے درمیان میں سے نکال دینے کی بات کرتے ہیں تاکہ تحقیق و تفتیش کا عمل اپنے فطری انداز میں پروان چڑھے اور بات کہنے اور سننے والے کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ ہو۔ اب ذاتی طور پرمیرے لئے لفظ Acceleration کی بجائے اسراع زیادہ آسان ہے سمجھنے اور سمجھانے کے لئے۔ سائنسی اصطلاحات تو ویسے بھی اپنی وجہ تسمیہ کے لئے کسی قاعدہ کی نہیں بلکہ لمحہ موجود کی محتاج ہوتی ہیں۔ اس کی مثال کے طور پر الفاظ Bug اور Java کو لے لیجئے۔ پہلے کی وجہ تسمیہ یہ کہ کمپیوٹر کی خرابی کی وجہ ایک کیڑا تھا جو اس میں مرا پڑا تھا (پرانے وقتوں کی بات ہے) اور دوسرے کی وجہ یہ کہ جو نام اس زبان کے لئے سوچا گیا تھا وہ پہلے سے ہی مستعمل تھا اور جنہوں نے نیا نام سوچنا تھا وہ اس وقت غالباً ایک کافی کی دوکان میں بیٹھے کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ویسے بھی بھائی اگر چینی، جاپانی اور فرانسیسی تکنیکی اصطلاحات کو اپنی زبان میں رائج کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ آخر کوئی تو وجہ ہوگی نا کہ شکست خوردہ شاہِ جاپان نے امریکیوں سے صرف ایک مطالبہ کیا تھا کہ ہمارا ذریعہ تعلیم جاپانی زبان ہی رہے گی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بدتمیز نے کہا:
میں اس ہزار سالہ تاریخ میں جب مسلمان سائنس پر چھائے ہوئے تھے نازاں ہوں لیکن ساتھ ساتھ مغرب کو لتاڑتا ہوں کہ تم نے ہمارے سائنس دانوں کے نام اور کام کو اپنی زبان میں ٹرانسلیٹ کیا جس کے نتیجے میں تمام دنیا ان کو مغربی سائنس دان سمجھنے کی غلطی کرتی ہے۔
بالکل درست کہا پیارے بھائی، میں اسی نکتے کے انتظار میں کب سے منتظر تھا
 

بدتمیز

محفلین
خرم آپ نے چند اچھے پوائنٹس اٹھائے۔ بات کر کے مزہ آیا۔ میں اس پر رات کو لکھونگا۔

قیصرانی آپ بھی اپنا نقطہ نظر بیان کریں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
شکریہ بدتمیز بھائی

میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ اگر مسلمانوں نے ارشمیدس، اقلیدس، سقراط بقراط اور دیگر فلسفیوں اور سائنسدانوں‌کو “مشرف بہ اردو و عربی و فارسی“ کیا ہے تو انگریزوں کا کیا قصور۔ انہوں‌نے بھی اپنی طرف سے ترجمے کا کام یہی سوچ کر کیا ہوگا کہ بھئی کون ہر لفظ کے ساتھ ال کے دم چھلے لگاتا پھرے۔ سب کو انگریزی میں تبدیل کر دو۔ مسلمان تو ویسے بھی اپنے نام کے عادی ہیں۔ ہم کیوں تنگ ہوں؟

دوسرا ایک اہم نکتہ، میٹرک تک ہم لوگ اردو میں پڑھ کر آتے ہیں کہ یہ مثلث ہے اور یہ مستطیل ہے اور یہ فلاں ہے اور یہ فلاں۔ ایف ایس سی میں ہم لوگ ہی ہوتے ہیں جو ہر ایک ٹرم کا نئے سرے سے رٹا لگا رہے ہوتے ہیں کہ ان کی انگریزی کیا ہوگی۔ کیا یہ ہمارے بچوں‌کے ساتھ ظلم نہیں‌ ہے کہ دس سال ایک چیز اور پھر اس کے بعد ساری زندگی دوسری چیز پڑھو اور لکھو

کیا اس سے بہتر نہیں کہ وہی چیز پڑھائی جائے جو ساری زندگی کام آتی رہے گی۔ کیونکہ ہم ابھی تک اردو کو سو فیصد تو لاگو کرنے کے بارے سوچ ہی نہیں سکے
 

خرم

محفلین
قیصرانی بھائی بات تو یہی ہے کہ آخر کیوں اب تک ہم اپنے ملک میں ہی اپنی زبان کو رائج نہیں‌کر سکے؟ کیوں ہم لوگوں کو میٹرک کے بعد انگریزی میں سب کچھ پڑھنا پڑتا ہے؟ انجنیئرنگ یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں بھی لیکچر اردو میں ہوتے ہیں اور کتب انگریزی میں۔ آخر یہ دو عملی کیوں؟ کیوں ہم اپنے بچوں پر یہ ظلم کرتے ہیں اور کیوں اپنے ہی پاؤں پر کلھاڑی مارنے کے اس قدر خوگر ہو چکے ہیں؟ ہم ایک صدی سے زیادہ عرصہ سے انگریزی پڑھ رہے ہیں اور آج تک کوئی ایجاد تو کیا، کسی ایجاد کردہ چیز کو بھی اپنا نہیں بنا سکے۔ بس انگریزی کی زلفِ گرہ کے ہی اسیر ہیں۔ ہمارے اردگرد چینی، روسی اپنی زبان میں‌پڑھ کر آج ایک ترقی یافتہ قوم بن چکے ہیں۔ ایک واقعہ یاد آیا، آج سے کوئی چار برس پہلے جب میں ماسٹرز کر رہا تھا تو اپنے سے ایک سینیئر کورین لڑکے کا کوڈ لکھا ہوا دیکھا جو وہ اپنی تحقیق کے سلسلہ میں لکھ رہا تھا۔ اس کے “کامنٹس“ کسی عجب زبان میں تھے۔ استفسار پر اس نے بتایا کہ کورین زبان ہے‌۔
 
میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اردو زبان میں عربی کے خوبصورت الفاظ کی بھر مار ہے جو بالکل متروک ہو چکے ہیں میرا خیال ہے وہ اردو زبان کی زینت ہیں انہیں ضرور لوٹانا چاہئے

ہماری اردو کا معیار بہت گرا ہوا ہے۔ انگریزی نے اردو کی شکل پر اتنے پنجے مارے ہیں کہ پہچانی نہیں جاسکتی

عربی اردو کا امتزاج بڑا حسین ہے
میرا ارادہ ہے کہ میں عربی الفاظ کو جمع کروں اور ساتھ ساتھ معنی بھی
دیکھو کب کرپاؤنگا
 
Top