اردو کی بات اردو میں

الف نظامی

لائبریرین
دوست نے کہا:
دسویں تک سائنس کو “جدید“ کردیا گیا ہے۔
کیا یہ گیا ہے کہ ساری کی ساری انگریزی اصطلاحات ڈال دی گئی ہیں اور وضاحت اردو کی ہے اب بچہ حرارت مخصوصہ نہیں سپیسیفک ہیٹ پڑھتا ہے۔
اب مجھے بتائیں کہ سپیسیفک کو اردو میں پڑھنے سے آپ کا کیا حال ہوا اور ان معصوموں کا کیا حال ہوگا جو اس کو پڑھتے ہیں اور غلط پڑھتے ہیں۔ یاد کرنے بلکے رٹا لگانے کی کوشش کرتے ہیں، اسے لکھتے وقت اکثر بھول جاتے ہیں یہیں تو املاء کی غلطی ضرور کرتے ہیں۔
کیا یہ ظلم نہیں ہے؟
اسراع کو ایکسلریشن لکھا ہوا ہے کونسا پڑھنے میں آسان ہے آپ کے خیال میں؟
میں استاد ہوں دن رات انھی کتابوں سے واسطہ رہتا ہے 12 سال سائنس پڑھ چکا ہوں 10 سال اردو میں جب کافی ساری اردو میں تھی اور 2 سال انگریزی میں آج بھی اسراع کو اسراع کہنے کو ترجیح دیتا ہوں نہ کہ ایکسلریشن۔ لیکن مجبوری ہے اگر ان بچوں کے سامنے بولوں تو پوچھتے ہیں سر یہ کیا ہے۔ اور ایسی رب کی لعنت ہے ان اذہان پر کہ کئی جگہ یہ اصطلاح اسراع بھی لکھی ہوئی ہے لیکن ترجیح پھر بھی انگریزی کو ہی ہے۔
جانے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ہم سے۔اس طرح کیا خاک سائنس پڑھی جائے گی۔ تیسری کے بچے کو جس کو رنگوں کے نام پھلوں کے نام اور جسم کے حصوں کے نام ٹھیک طرح انگریزی میں نہیں آتے ان کو جڑ کی جگہ روٹ پڑھایا جارہا ہے ۔
انگریزی میڈیم کی بات ہی نہ کیجیے انگریزی میڈیم میں سے پچاس فیصد کا مسئلہ اور کوئی نہیں انگریزی ہے۔ اور باقی کا مسئلہ اور کچھ نہیں اردو ہے۔
زبانیں نہ ہوئیں چکی کے دوپاٹ ہوگئے جس میں بچوں کو بے دریغ پیسا جارہا ہے اور اس کا نتیجہ کالے انگریزوں کی صورت میں نکلتا ہے میرے جیسے لوگ جو نہ اردو کی باریکیوں سے واقف ہیں اور نہ انگریزی کے نرم گرم گوشوں سے۔
دھوبی کا کتا گھر کا نا گھاٹ۔
گلوبل سائنس میں اشتیاق احمد کا ایک مضمون چھپا تھا جس میں تفصیلا یہ بات کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ کیسے نصاب کو جدید کرنے کے نام پر اردو میں موجود سائنسی نصابی کتب میں اردو اصطلاحات اور انگریزی میں لکھ کر کمال کیا گیا ہے۔
 

بدتمیز

محفلین
کیا آپ وہ مضمون مجھے سکین کروا کر بھیج سکتے ہیں؟
گلوبل سائنس کے خط و کتابت کا پتہ لکھ بھیجیں یا پھر اگر کسی صاحب کو علم ہو امریکہ میں اس کی سالانہ سبسکرپشن کہاں سے کروائی جا سکتی ہے؟
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

خرم بھائی، پہلے توآپ کومحفل میں بہت بہت خوش آمدید۔
واقعی خرم بھائی، آپ نے بہت خوبصورت اندازسے اردو کے متعلق اپنے خیالات سمجھائے ہیں اورباقی ساتھیوں نے بھی بہت خوبصورت تبصرے کیئے ہیں۔ لیکن بات ہے عمل کی باتیں توسبھی ہی بہت کرتے ہیں لیکن عمل کی جب بات آتی ہے توبہت سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توہمیں اب عمل کی ابتداء کرنی چاہیے اورسب سے پہلے اپنے آپ سے پھردوستوں کوپھرعزیزواقارب سے توانشاء اللہ اسطرح یہ کام ایک دفعہ جاری ہوگیاتووہ وقت دورنہیں جب ہم اس منزل تک پہنچ جائیں گے جس کاہم اب صرف تصورہی کرسکتے ہیں۔
ہمت مرداں قوت خدا۔

والسلام
جاویداقبال
 

نبیل

تکنیکی معاون
خرم نے کہا:
آج سے کوئی چار برس پہلے جب میں ماسٹرز کر رہا تھا تو اپنے سے ایک سینیئر کورین لڑکے کا کوڈ لکھا ہوا دیکھا جو وہ اپنی تحقیق کے سلسلہ میں لکھ رہا تھا۔ اس کے “کامنٹس“ کسی عجب زبان میں تھے۔ استفسار پر اس نے بتایا کہ کورین زبان ہے‌۔

خرم، ان صاحب کے لکھے ہوئے کوڈ کو مردہ کوڈ ہی کہا جا سکے گا۔ جس کوڈ کو سمجھانے والے کمنٹس ہی کو نہ سمجھا جا سکے، اس کی مزید ڈیویلپمنٹ اور دیکھ بھال کیسے کی جا سکے گی؟ میں جن سوفٹویر پراجیکٹس پر کام کرتا ہوں ان میں مختلف کمپوننٹ لکھنے والی ٹیمیں مخلتف ممالک سے تعلق رکھتی ہیں اور ہر ایک کو واضح ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ تمام ڈاکومنٹیشن انگریزی میں کرے تاکہ یہ کمپوننٹ نہ صرف قابل استعمال ہو بلکہ ضرورت پڑنے پر اسے کسی اور ٹیم کے حوالے بھی کیا جا سکے۔ یہ میں جرمنی کی ایک بڑی کمپنی کی بات بتا رہا ہوں جہاں کے لوگ اپنی زبان اور کلچر کے حوالے سے متعصب جانے جاتے ہیں۔ یہ بات تو آپ بھی سوفٹویر کنسلٹنٹ ہونے کے حوالے سے بخوبی جانتے ہوں گے۔ انگریزی سیکھنا اور اس پر مہارت حاصل کرنا آج کے دور کی اہم ضرورت ہے اور اسے استعماری طاقتوں کا آلہ کار بننے کے مترادف نہیں قرار دیا جا سکتا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ہم ونڈوز کو تو اردو میں‌ لا سکتے ہیں، کیا ہم کبھی پروگرامنگ لینگوئجز کو بھی اردو میں لا سکیں گے؟

میرے آبائی شہر جو ایک بہت ہی چھوٹا سا شہر ہے، کی ایک خاتون نے ایک بار سی پلس پلس کو اردوانا شروع کیا تھا۔ دو سال قبل تک ان کے ایک کزن کے بقول، 70٪ کام ہو چکا تھا

اس پر کوئی کمنٹس؟ :p
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ

علم حاصل کرو، چاہے تہمیں چین جانا پڑے

لفظی، لغوی دونوں معنوں‌ میں‌ یہ بات زیادہ اہم ہے کہ علم حاصل کرو، جگہ اور زبان کی قید نہیں‌ لگائی گئی۔۔۔ اس پر بھی کوئی تبصرہ؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
میری پر درد درخواست ہے کہ ایسا ظلم نہ کریں۔ کم از کم پروگرامنگ کی زبانوں کو ترجمے سے محفوظ رکھیں۔ اس طرح کے تجربے فرانس اور غالباً دوسرے یورپی ممالک میں ہو چکے ہیں جہاں فورٹران اور دوسری زبانوں کے مقامی ورژن تیار کیے تھے۔ لیکن یہ تجربات محض وقت کا ضیاع ثابت ہوئے۔
 

خرم

محفلین
نبیل بھائی ایک غلط فہمی کا ازالہ کہ جن کمنٹس کی بات ہو رہی تھی وہ ان صاحب کی اپنی تحقیق کا کوڈ تھا اور وہ کمنٹس بھی ان کی اپنی سہولت کے لئے تھے۔ اب بات آتی ہے پروگرامنگ کی زبانوں کی تو آپ اور میں سب ہی جانتے ہیں کہ ان زبانوں کی لغت بہت ہی محدود ہوتی ہے اور انگریزی زبان کے اصول و ضوابط و قواعد سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے ان زبانوں کو سیکھنے کے لئے انگریزی دانی کا علم کوئی خاص نہیں چاہئے۔ ایک بات سے تو آپ، میں، ہم سب واقف ہیں کہ امریکہ میں اعلٰی تعلیم کے لئے داخلہ کی شرط صرف TOEFL چاہئے ہوتا ہے۔ اگر یہ ایک شرط سمجھی جاتی ہے آپکی زباندانی کی تو اس کیلئے بارہ برس اپنے بچوں پر ظلم کیوں؟ جب یہ ثابت ہے کہ ہم سوچیں گے اپنی زبان میں ہی اس بات سے قطع نظر کہ ہم دوسری زبان میں کتنے مشاق ہیں تو پھر ایک اضافی بوجھ کیوں؟ سائنس کی دنیا میں ترقی کی بنیاد خالص سوچ ہے اور کچھ نہیں اور سوچ کا سوتا اپنی زبان میں ہی پھوٹتا ہے۔ ضرورت علمی سوچ کو فروغ دینے کی ہے، اپنے بچوں کے لئے علم کو آسان کرنے کی تاکہ وہ اغیار پر انحصار کی بجائے اپنی سوچ اور فکر کے ذریعے نئے جہاں آباد کریں۔ ویسے کتنی ستم ظریفی ہے کہ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ جو ہماری زندگیوں کا اصل مقصد ہیں ان کو سمجھنے کے لئے تو ہم لازمی سمجھیں کہ ان کا اردو میں ترجمہ کیا جائے اور معمولی سی سائنسی اصطلاحات کے لئے ان کی اپنی زبان کو رائج کرنے پر ہی مصر رہیں۔ ویسے یاد آیا کہ ایسی ہی ایک بحث اس وقت بھی ہوئی تھی جب شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ نے قرآن کا ترجمہ کیا تھا۔ ہم شاید آج بھی اسی مقام پر ہیں۔
 
Top