اردو میں مستعمل فارسی محاورات اور ضرب الامثال مع اردو ترجمہ

بریں عقل و دانش بباید گریست
ایسی عقل و دانش پر تو رونا چاہئے۔
اس محاورہ کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے، جب کوئی شخص بے سر پیر َکی باتیں کرے جس کا جواب دینا خود کو اس شخص کی سطح پر لے جانے کے مترادف ہو، ایسے شخص کی عقل و دانش پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کے لئے تو فارسی کا ایک دوسرا مقولہ درست ثابت ہوتا ہے کہ ’’جواب جاہلاں خاموشی باشد‘‘ یعنی جاہلوں کے سوال کا جواب دینے سے بہتر خاموشی اختیار کرنا ہوتا ہے۔
 
ایں سعادت بزورِ بازو نیست

یہ سعادت بازو کی قوت کی وجہ سے نہیں ہے۔

یہ مصرع اس شعر کا پہلا مصرع ہے۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

جب تک عطا کرنے والا خدا کسی کو کوئی مرتبہ، صلاحیت اور عزت نہ عطا کرے کسی شخص کے بازو کی طاقت سے وہ رتبہ یا وہ صلاحیت و عزت حاصل نہیں ہوتی ہے، اکثر و بیشتر لوگ اس شعر کا استعمال خدا کی بزرگی اور اپنی خاکساری کا اظہار کرنے کے لئے لکھتے ہیں کہ میں نے جو کچھ بھی پیش کیا ہے اس میں اللہ کی مدد اور اس کی ودیعت کردہ صلاحیت کا ہی عمل دخل ہے، اس میں میرا کچھ بھی حصہ نہیں ہے۔
 
دشمن دانا بہتر از دوست نادان
عقل مند دشمن بیوقوف دوست سے بہتر ہوتا ہے۔

بیوقوف دوست دشمن سے بڑھ کر نقصان پہنچاتا ہے۔
 
کنُد ہم جنس باہم جنس پرواز
ایک ہم جنس پرندہ اپنے ہم جنس کے ساتھ پرواز کرتا ہے۔
دراصل یہ ایک شعر کا پہلا مصرعہ ہے جو ضرب المثل کی شکل اختیار کرگیا ہے، وہ شعر یوں ہے۔

کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر، باز با باز

یہ شعر انسان کی فطرت کی جانب اشارہ کرتا ہے، کیونکہ معاشرے کا ہر شخص اپنے ہم مسلک، ہم خیال، ہم مزاج اور ہم زبان لوگوں کو تلاش کرتا ہے اور انہی لوگوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتا ہے، ان کی ہم نشینی اسے پسند آتی ہے اور وہ دوسروں کی بہ نسبت ہم زبان و ہم خیال لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، گفتگو کرنا، رسم و راہ رکھنا زیادہ بہتر تصور کرتا ہے، شاعر نے پرندوں کی نفسیات کو پیش کرتے ہوئے اپنے اس شعر میں انسانی فطرت کی جانب اشارہ کیا ہے، کبوتر جب پرواز کرتا ہے تو دوسرے کبوتروں کی معیت میں رہتا ہے اور اسی طرح باز (پرندہ) بھی اپنے ہم جنسوں کی صحبت میں رہتا ہے اور انھیں کے ساتھ اڑنا پسند کرتا ہے، ٹھیک یہی حال کارخانۂ قدرت میں ہر بشر کا ہے کہ وہ بھی اسی صفت سے متصف ہوتا ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے ”کند ہم جنس باہم جنس پرواز“
 
آواز دہل شنیدی و از دور خوش آئی
تم نے دور سے ڈنکے کی آواز سنی اور تم خوش ہوگئے۔
اردو میں اسی طرح کا محاورہ ہے کہ ’’دور کا ڈھول سہانا ہوتا ہے‘‘
 
شنیدند، گفتند برخاستند
آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اور چلے بھی گئے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اہم موضوعات پر نشست ہوتی ہیں، لوگ آتے ضرور ہیں مگر اکثر کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، ایسے ہی موقعوں کے لئے یہ فقرہ استعمال کیا جاتا ہے۔
 
آزمودہ را آزمودن خطاست
آزمائے ہوئے شخص کو دوبارہ آزمانا غلطی ہے۔

اگر کسی شخص سے معاملات کرنے کا موقع ہاتھ آیا ہو اور اس نے اپنے معاملات میں سنجیدگی نہ دکھائی ہو اور جھوٹ بول کر اپنا کام نکالنے کی کوشش کی ہو تو دوبارہ صاحب معاملہ سے بھلے ہی معافی مانگے یا دوبارہ غلطی نہ دہرانے کی بات کہے، اس کے باوجود اس پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ وہ دوبارہ ویسی ہی حرکت کرے گا جیسی حرکت پہلے کرچکا ہے، کیونکہ فریب دہی اور دروغ گوئی اس کی فطرت میں شامل ہوتی ہے، اس لئے کہا جاتا ہے آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزمانا بیوقوفی ہے۔
 
تدبیر کند بندہ، تقدیر زَند خندہ
انسان تدبیر کیا کرتا ہے اور تقدیر اُس پر ہنستی رہتی ہے

گویا کام کا دارو مدار محض انسان کی تدبیر اور کوشش پر نہیں ہے بلکہ قسمت بھی کوئی قوت ہے جو تدبیر کو ناکام بنا کر اپنے فیصلے الگ ہی دیا کرتی ہے۔
 
میراث پدر خواہی، علم پدر آموز
یعنی اگر تو اپنے باپ کی میراث کا خواہاں ہے تو پہلے اس جیسا علم حاصل کر

یہ شیخ سعدی کے گلستان کا مصرعہ ہے
 
نہ ہر کہ آئنہ سازد سکندری دارد
ضروری نہیں کہ جو شخض آئینہ ساز ہو، وہ بادشاہی بھی کرسکتا ہو۔

یہ اصل میں حافظ شیرازی کے شعر کا دوسرا مصرعہ ہے پورا شعر کچھ یوں ہے
نہ ہر کہ چہرہ بر افروخت دلبری دارد
نہ ہر کہ آئنہ سازد سکندری دارد
ضروری نہیں کہ جو اپنے چہرے کو چمکالے وہ دلبری بھی جانتا ہو،
ضروری نہیں کہ جو شخض آئینہ ساز ہو، وہ بادشاہی بھی کرسکتا ہو۔
 

سیما علی

لائبریرین
زمین جنبد نہ جنبد گل محمد
زمین ہل جائے تو ہل جائے گل محمد اپنی بات پر قائم ہے

زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد

چاہے زمین اپنی جگہ سے سرک جائے مگر فُلاں آدمی ٹَس سے مَس نہ ہو گا ( ٹس سے مس نہ ہونے والے یا اپنی بات پر اڑے رہنے والے کے متعلق کہتے ہیں ) ۔
 
Top