اردو میں مستعمل فارسی ضرب الامثال ۔۔۔ صابر علی سیوانی

محمداحمد

لائبریرین
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اچھی شعری تخلیق پیش کرنے یا بہترین اردو ادب کو منصۂ شہود پر لانے کے لئے فارسی زبان کا علم ضروری ہے ۔کسی بھی نامور ادیب یا شاعر کی تخلیقات کا مطالعہ کیجئے تو اس نظریئے کی صداقت سامنے آجائے گی اور اندازہ ہوجائے گا کہ شاعر یا تخلیق کار فارسی زبان کا علم ضرور رکھتا ہے ۔ روایتی غزل گوئی ہو یا عوامی شاعری ، ترقی پسند شاعری ہو یا جدید ادب ، فارسی سے چشم پوشی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے ۔ جدید غزل کے پرستار جو روایتی اردو غزل گوئی سے کلی طور پر منحرف ہیں اور اپنی شاعرانہ کاوشوں کو عوامی بنانے کی کوشش میں سرگرم ہیں ، وہ بھی فارسی کے بغیر اپنے ضمیر کی بات بہتر طور پر نہیں ادا کرسکتے ہیں ۔ عربی اور فارسی کے ہزاروں الفاظ ، محاورے ، فقرے ، جملے ، ضرب الامثال اردو روزمرہ کے جزو لاینفک بن چکے ہیں اور اب کیفیت یہ ہے کہ ان کو اردو زبان سے خارج ہی نہیں کیا جاسکتا ہے ، بلکہ کچھ فقرے اور محاورے تو اس طرح سے زبان زد خاص و عام ہوچکے ہیں کہ انھیں ان کی روزمرہ کی گفتگو سے بھی الگ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

اردو میں خاص طور پر ادب و شعر میں فارسی مصرعے ، فقرے اور محاورے ضرب الامثال کے طور پر ہمیشہ ہی زیر استعمال رہے ہیں ، لیکن زمانے کے تغیرات اور انگریزی زبان کی سرعت کے ساتھ اثر پذیری نے اردو زبان پر انگریزی کے غلبہ کی روایت کو فروغ دینے کا کام کیا ہے ۔ اب تو حالت یہ ہے کہ کوئی بڑا ادیب ، دانشور یا شاعر جب تک اپنی تحریروں میں انگریزی کے الفاظ جا بجا استعمال نہیں کرتا ہے تو اسے اطمینان ہی نہیں ہوتا ہے ، حالانکہ وہ جن انگریزی الفاظ کا استعمال اپنی تحریروں میں کرتا ہے اس کے متبادل نہایت خوبصورت ، معنویت سے پُر اور سہل الفہم لفظیات اردو میں موجود ہیں بلکہ مستعمل بھی ہیں ، لیکن اسے تو زمانے کے شانہ بشانہ چلنے اور انگریزی دانی کا زعم دکھانا مقصود ہوتا ہے ۔ جب ایسی روایت کی اتباع کرنے کا رجحان فروغ پاچکا ہو تو بھلا ایسی حالت میں ان فارسی محاوروں ، فقروں اور ضرب الامثال کی طرف توجہ کی کسے فکر ہوگی ، جن سے صدیوں سے ہماراگلستانِ ادب معطر رہا ہے ۔ زیر نظر مضمون میں ایسے ہی فارسی محاوروں ، مصرعوں ، فقروں اور ضرب الامثال کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، جن کا اردو میں عام طور پر استعمال ہوتا رہا ہے اور جن میں سے بعض اب بھی مستعمل ہیں ، لیکن وقت کے ہاتھوں انھیں پامال ہو کر ہمارے ادب کے منظرنامے سے غائب ہونے کا خطرہ لاحق ہوچکا ہے ۔ یہاں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ ان فارسی فقروں ، مصرعوں اور محاروں کا لفظی ترجمہ نہیں کیا جائے بلکہ اس بات کی سعی کی گئی ہے کہ ان کی معنویت بھی ان کے ترجمہ سے ظاہر ہوجائے اور قاری کا ذہن اسے آسانی سے قبول کرسکے ۔

(۱) خطائے بزرگان گرفتن خطاست (بزرگوں کی غلطیوں کی گرفت خود ایک خطا ہے) ۔

ہندوستانی تہذیب اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہے کہ بڑوں کی غلطیوں پر انگلی اٹھائی جائے ۔ ان کی غلطیوں کو خاموشی سے نظر انداز کردینا بہتر تصور کیا جاتا ہے ۔ اس کا یہ نتیجہ نہیں اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان سے غلطی سرزد نہیں ہوتی ہے یا ہر بات میں ان کی اندھی تقلید کی جانی چاہئے ، بلکہ ان کی بزرگی اور عمر رسیدگی کے باعث احتراماً ان کی غلطیوں کو نظر انداز کردینے کی روایت ہماری تہذیب کی ایک صحت مند علامت ہے ۔ اس فقرے کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ ان کی خطاؤں کی نشاندہی اور گرفت کرکے انھیں شرمندہ کرنا بجائے خود غلط ہے اور اس سے اجتناب مستحسن قرار دیا جاتا ہے ، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بعض بزرگ افراد اپنی عمر رسیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی غلطیاں بار بار دہراتے ہیں ، جن کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم بزرگ ہیں ، ہماری ہر جائز اور ناجائز بات تسلیم کی جائے ۔ اس لئے ایسے بزرگوں کی خطاؤں کی نشاندہی بھی ضرور کی جانی چاہئے تاکہ انھیں احساس ہوسکے کہ اب زمانہ بدل چکا ہے اور زمانے کی روش پر چل کر ہی باعزت زندگی گزاری جاسکتی ہے ۔

(۲) پدرم سلطان بود ، تُراچہ ؟ (میرا باپ بادشاہ تھا ۔ تیرا باپ کیا ہے؟)

یہ فقرہ کم علمی اور شیخی بگھارنے والا ہے ۔ یہ فقرہ وہ لوگ استعمال کرتے ہیں ، جو اپنی برتری ، بڑائی اور فضیلت بہ زبان خود بیان کرنا چاہتے ہیں ۔ گویا آبا واجداد کے کارناموں پر خود اپنی نام نہاد کامیابی کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں ۔ سیاق و سباق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ثقہ اور سنجیدہ حلقوں میں ایسی شیخی کا اظہار مستحسن شمار نہیں کیا جاتا ہے ، کیونکہ انسان کی فضیلت و برتری کا شمار اس کی اپنی حصولیابیوں کی وجہ سے ہوتا ہے نہ کہ آبا و اجداد کی عزت و عظمت کے حوالے سے ۔

(۳) گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل (اگر بولوں تو مشکل اور نہ بولوں تو بھی مشکل ہے)

کبھی ایسی حالت پیدا ہوجاتی ہے کہ انسان کو خاموش رہنے اور بولنے دونوں صورتوں میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ۔ ایسے موقع پر اس مصرعے کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ مصرع مرزا غالب کے ایک قطعہ سے اخذ کردہ ہے ۔ اس مصرعے کا ایسے وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی شخص یہ محسوس کرے کہ اگر وہ اپنی صفائی میں کسی مسئلہ کی صراحت کے سلسلے میں کچھ بولتا ہے تو اس کی کوئی نہیں سنتا ہے اور اگر وہ خاموش رہتا ہے تو بھی اسے مورد الزام قرار دیا جاتا ہے ۔ اس مصرعے کے وجود میں آنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مرزا غالب نے جب شاعری شروع کی تو ابتدائی دور میں بہت مشکل اشعار کہا کرتے تھے ، جو بیشتر لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہوتے تھے ۔ غالب کی اسی مشکل پسندی پر ایک مشہور مقامی شاعر آغا جان عیشؔ نے یہ قطعہ موزوں کردیا ۔
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے ، اک کہے اور دوسرا سمجھے
کلامِ میر سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
آغا جان عیش کے اس قطعہ کے جواب میں مرزا غالب نے درج ذیل رباعی کہی ، جس کا ایک مصرعہ جو فارسی میں تھا ، ضرب المثل کی حیثیت اختیار گرگیا ۔ ملاحظہ کیجئے غالب کی عیشؔ کے جواب میں کہی گئی یہ رباعی:۔
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل!
سن سن کے اسے سخنورانِ کامل
آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
غالب کا یہ مصرع عوام کے درمیان غلط طور پر ’’گویا مشکل نہ گویا مشکل‘‘ مستعمل ہوچکا ہے ۔

(۴) من تُرا حاجی بگویم تو مُرا ملا بگو (میں تجھے حاجی کہتا ہوں اور تو مجھ کو ملا کہہ)

یہ محاورہ عام طور پر ’’من تیرا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘‘ کے طور پر مشہور ہے ، لیکن’’ حاجی بگو‘‘ کی بجائے ’’ملاّ بگو‘‘ درست ہے ۔ اکثر و بیشتر یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ آپس میں گٹھ جوڑ کرلیتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی تعریف کرکے لوگوں پر اپنی نام نہاد برتری ثابت کرنے کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ آج کل ادب میں یہ طریقہ عام ہوگیا ہے ۔ ایک ادیب دوسرے ادیب کی تعریف کرتا ہے اور دوسرا ادیب اس کی شان میں قصیدے پڑھتا ہے جو اس کی تعریف کرتا ہے ۔ عام طور پر کتابوں کے تبصرے کے معاملے میں یہ عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے ۔ یہ مقولہ ان کے اس کم باسواد باہمی معاہدہ کی جانب ایک بلیغ اشارہ ہے ، جو ایک دوسرے کے قصیدے پڑھنے کے لئے پابند عہد ہوتے ہیں ، حالانکہ یہ صحت مند روش نہیں ہے ۔

(۵) من آنم کہ من دانم (میں جو کچھ ہوں وہ میں خود ہی اچھی طرح جانتا ہوں)

یہ مقولہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کسی شخص کی تعریف کی جائے لیکن وہ خود کو اس کا مستحق نہ سمجھتا ہو ۔ ایسے موقع پر وہ شخص (جس کی تعریف کی جاتی ہے) کہتا ہے کہ آپ کی تعریف بصد شوق قبول ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں اس تعریف کا مستحق نہیں ہوں ۔ میں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہوں کہ میں کتنے پانی میں ہوں ۔ وہ انسان جو حقیقت پسند ہوتا ہے وہی یہ مقولہ استعمال کرتا ہے ورنہ بیشتر لوگ تو اپنی جھوٹی تعریف بھی سن کر پھولے نہیں سماتے ہیں اور تعریف کرنے والے کو دل ہی دل میں دعا بھی دیتے ہیں ۔ کیونکہ اپنی تعریف ہر شخص کو بھلی معلوم ہوتی ہے ۔


آوازِ سگاں کم نہ کنُد رزقِ گدارا (کتوں کے بھونکنے سے فقیروں کا رزق کم نہیں ہوجاتا ہے)

جب کسی فقیر کو دیکھ کر کتیّ بھونکتے ہیں ، تو کتوں کے بھونکنے سے ایسا نہیں ہوتا ہے کہ اسے بھیک نہیں ملتی ہے ۔ حالانکہ فقیر نے ان کتوں کا کچھ بھی بگاڑا نہیں ہوتا ہے ، اس کے باوجود وہ اپنی خصلت سے مجبور ہوتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح جب کسی شخص کی برائی کی جائے اور اس شخص کو خواہ مخواہ لوگوں میں بدنام کرنے اور اسے رسوا کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ اپنی برائی کرنے والے شخص سے کہتا ہے کہ ایسی بے بنیاد باتوں سے میری صحت پر کوئی اثر نہیں واقع ہوسکتا ہے ۔ جس طرح کتوں کے بھونکنے سے فقیر کا رزق کم نہیں ہوتا اسی طرح تمہاری بیہودہ اور بے بنیاد باتوں سے میرے رتبہ و مقام پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ سنجیدہ اور شریف لوگوں کے حلقوں میں یہ فقرہ اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ کیونکہ کسی بھی شخص کو کتے سے تشبیہ دینا کوئی اچھی بات نہیں ، لیکن یہاں استعارۃً اس لفظ کا استعمال ہوا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں یہ رجحان عام طور پر پایا جاتا ہے کہ کسی باعزت اور شریف انسان کو کسی ذاتی دشمنی کے باعث غلط الزام تراشی کے ذریعے بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، لیکن خدا جسے عزت دینا چاہے انسان اسے لاکھ کوششوں کے باوجود بھی ذلیل نہیں کرسکتا ہے ، کیونکہ عزت و ذلت خدا کے دست قدرت میں ہوتی ہے ۔

(۶) ہنوز دلی دور است (ابھی دلی دور ہے)

یہ فقرہ اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کسی کام کو مکمل ہونے میں دیر ہو اور کوئی شخص اس بات پر بضد ہو کہ کام تو پورا ہوگیا ، اب انتظار کس چیز کا ہے ؟ اس محاورے کے پیچھے ایک تاریخی واقعہ پوشیدہ ہے جس کا یہاں ذکر طوالت سے خالی نہ ہوگا ۔ المختصر یہ کہ جب کسی مقصد کے حصول میں تاخیر ہورہی ہو اور سامنے والا شخص اس کام کو مکمل کرنے کی ضد کرے یا اسے محسوس ہو کہ اب کام تو مکمل ہوگیا ، لیکن کام کرنے والا اس کام کی نزاکتوں سے واقف ہوتا ہے ۔ اسے اس کام کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے تو وہ اس شخص سے جو کام کی تکمیل کے احساس سے سرشار ہوتا ہے ، کہتا ہے کہ ’’ہنوز دلی دور است‘‘ ۔ (۷) خود کردہ را علاجے نیست (اپنے کئے کا کوئی علاج نہیں) اردو میں اسی سے ملتا جلتا ایک محاورہ رائج ہے کہ ’’کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلی بات واپس نہیں آتے ہیں‘‘ ۔ اسے دوسرے لفظوں میں محاورۃً یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے پیر پر کلہاڑی خود مارنا ۔ ظاہر ہے ایسے شخص کا کیا علاج ہوسکتا ہے جو اپنا بھلا بُرا خود ہی نہیں سمجھتا ۔ جس شخص کو ایسی بات یا کام کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی ہو جس میں سراسر اسی کا نقصان ہوتا ہے ۔ ایسے موقع پر ہی یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے ۔

(۸) کنُد ہم جنس باہم جنس پرواز (ایک ہم جنس پرندہ اپنے ہم جنس کے ساتھ پرواز کرتا ہے)

دراصل یہ ایک شعر کا پہلا مصرعہ ہے جو ضرب المثل کی شکل اختیار کرگیا ہے ۔ وہ شعر یوں ہے
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر ، باز با باز
یہ شعر انسان کی فطرف کی جانب اشارہ کرتا ہے ،کیونکہ معاشرے کا ہر شخص اپنے ہم مسلک ، ہم خیال ، ہم مزاج اور ہم زبان لوگوں کو تلاش کرتا ہے اور انہی لوگوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتا ہے ۔ ان کی ہم نشینی اسے پسند آتی ہے اور وہ دوسروں کی بہ نسبت ہم زبان و ہم خیال لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ،گفتگو کرنا ، رسم و راہ رکھنا زیادہ بہتر تصور کرتا ہے ۔ شاعر نے پرندوں کی نفسیات کو پیش کرتے ہوئے اپنے اس شعر میں انسانی فطرت کی جانب اشارہ کیا ہے ۔ کبوتر جب پرواز کرتا ہے تو دوسرے کبوتروں کی معیت میں رہتا ہے اور اسی طرح باز (پرندہ) بھی اپنے ہم جنسوں کی صحبت میں رہتا ہے اور انھیں کے ساتھ اڑنا پسند کرتا ہے ۔ ٹھیک یہی حال کارخانۂ قدرت میں ہر بشر کا ہے کہ وہ بھی اسی صفت سے متصف ہوتا ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے ’’کند ہم جنس باہم جنس پرواز‘‘

(۹) عقل مند را اشارا کافیست (عقل مند کو ایک اشارہ کافی ہوتا ہے)

اس مقولہ کا مطلب ایک عام انسان بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے ، جو تھوڑی بہت بھی اردو جانتا ہو ۔ احمق انسان کو ایک ہی بات بار بار سمجھانی پڑتی ہے ، جبکہ عقلمند شخص آنکھ کے اشارے سے ہی بہت سی باتیں سمجھ لیتا ہے ۔ کچھ اسی طرح کا ایک اور فارسی مقولہ بہت مشہور ہے ’’ہرچہ دانا کند ، کند ناداں لیک بعد از خرابیٔ بسیار‘‘ یعنی جو کام ایک عقلمند آدمی کرتا ہے وہی کام ایک نادان انسان بھی کرتا ہے ، لیکن کافی نقصان اٹھانے اور سخت تکلیف برداشت کرنے کے بعد ۔ اس لئے یہ مثل بھی مشہور ہے کہ ’’نادان کو الٹا بھی تو نادان ہی رہا‘‘ ۔

(۱۰) دروغ گورا حافظہ نباشد (جھوٹ بولنے والے شخص کا حافظہ نہیں ہوا کرتا ہے)

ایک جھوٹے شخص کی فطرت ہوتی ہے کہ اسے یہ یاد نہیں رہتا ہے کہ اس نے کس سے کیا کہا تھا اور کب کہا تھا ۔ کیونکہ وہ تو ہر وقت جھوٹ ہی بولتا رہتا ہے ۔ اگر سچ بات بولے گا تبھی تو اسے وہ بات یاد رہے گی ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص ایک آدمی سے کچھ کہتا ہے اور دوسرے سے کچھ اور ۔ عام طور پر یہ عمل غیر دانستہ ہوتا ہے ،کیونکہ اس کی یادداشت اس کا ساتھ نہیں دیتی ہے ۔ لیکن اکثر و بیشتر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے مزید جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ۔ اس کے باوجود اس کا جھوٹ ، سچ ثابت نہیں ہوپاتا ہے ، لیکن سچ بات بولنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حق گو کو کچھ اور یاد رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔ دروغ گوئی کی عادت کوموجودہ معاشرے میں عیب نہیں بلکہ ہنر تصور کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دروغ گو افراد کی سماج میں کثرت پائی جاتی ہے ، کیونکہ اخلاقی اقدار اب مٹنے لگی ہیں ، لیکن ’’دروغ مصلحت آمیز بہ راستی فتنہ انگیز‘‘ کی گنجائش رہتی ہے ۔

(۱۱) ہم خُرمہ وہم ثواب (خُرمے الگ ہاتھ آئے اور ثواب الگ ملے)

عام طور پر مذہبی محفلوں میں تقریب کے اختتام پر تبرک تقسیم کئے جاتے ہیں ، جس کا مقصد حصول ثواب ہوتا ہے ، اس فقرے کا مفہوم یہ ہے کہ یہ عمل بھی خوب ہے کہ ثواب بھی ملا اور کھانے کے لئے خُرمے بھی ہاتھ آئے ۔ اردو میں ایک مقولہ مشہور ہے کہ ’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘‘ اور یہ مقولہ مذکورہ فارسی مثل کی بہترین تشریح ہے ۔ اس لئے عقلمند افراد ایسے کاموں میں کبھی پیچھے نہیں رہتے ہیں ، جس میں ثواب کے ساتھ ساتھ مادی منفعت بھی ہو ۔ ایسے متعدد فارسی محاورے ، مقولے ، ضرب الامثال اردو میں عام طور پر مستعمل ہیں ، جن کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے کیونکہ دوسرے جملے ان مفاہیم کو پوری طرح ادا نہیں کرپاتے ، جو فارسی مقولے یا محاورے ادا کرتے ہیں ۔

۱۲۔آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری (جو بات ساری دنیا کے حسینوں میں ہے وہ تمہارے ذات واحد میں موجود ہے) ۔

یہ مقولہ کسی شخص کی تعریف و تحسین کے لئے مبالغہ آرائی کا سہارا لیتے ہوئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ساری دنیا ایک طرف اور آپ ایک طرف ۔ یعنی ساری دنیا کے مقابلے میں آپ کی تنہا ذات پیش کی جاسکتی ہے ۔ آپ اپنی خصوصیات و اوصاف میں بے مثال ہیں ۔ آپ کا کسی اور سے کیا مقابلہ ہوسکتا ہے لیکن اس مقولے میں مبالغہ کا عنصر واضح طور پر نظر آتا ہے جو بعید از حقیقت نظر آتا ہے ۔

۱۳ ۔ سپردم بتومایۂ خویش را ۔ تو دانی حساب کم و بیش را (میں نے اپنی زندگی کا پورا سرمایہ آپ کے حوالے کردیا ہے ۔ اب آپ ہی کمی بیشی کا حساب جانتے ہیں کہ حق ادا ہوا کہ نہیں)

بعض دفعہ پورا شعرہی ضرب المثل کی شکل اختیار کرلیتا ہے ، جس کی مثال یہ شعر ہے ۔ جب کوئی فنکار یا تخلیق کار اپنی پوری صلاحیت کا استعمال کرکے کوئی شاہکار پیش کرتا ہے اور وہ لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے اپنی فروتنی اور خاکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے حتی المقدور کوشش کرکے اپنی تخلیق (کتاب یا ادبی نگارش) آپ کے سامنے پیش کی ہے ۔

اب آپ ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ میں اپنی کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوپایا ہوں ۔

۱۴ ۔ ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجُا (دیکھو تو سہی کہ ہماری راہ کا فرق کہاں سے کہاں جاپہنچا ہے)

دراصل یہ حافظ شیرازی کے ایک مشہور شعر کا مشہور مصرع ہے ۔ شعر یوں ہے : صلاحِ کار کجا ومنِ خراب کجا ۔ ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجُا ۔ یعنی میرا خیر خواہ کس فکر میں ہے اور میں خود کس خیال میں ہوں ۔ دیکھو تو سہی کہ ہماری راہ کا فرق کہاں سے کہاں جاپہنچا ہے ۔ دراصل مصرع بالا جس کی وضاحت مقصود ہے ، یہ مصرع اپنے اور کسی دوسرے شخص کے مؤقف یا نقطۂ نظر کے فرق کی وضاحت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ گویا اتنے بڑے فرق کے ہوتے ہوئے بھلا سمجھوتے کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ اس مصرع کو ایک دوسرے موقع پر بھی استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی شخص دو فنکاروں یا دو بڑی شخصیتوں کا تقابل کررہا ہو ، جس میں دونوں کی صفات و خصائص ایک دوسرے سے بالکل جداگانہ ہوں یا ایک دوسرے سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہوسکتا ہو تو ایسے موقع پر کہا جاتا ہے کہ ’’ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تابکجُا‘‘ ۔ یعنی دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔

۱۵ ۔ چُناں نہ ماندو چنیں نیز ہم نہ خواہد ماند (وہ باقی نہیں رہا ، اور یہ بھی باقی نہیں رہے گا)

زمانہ کے تغیرات کو ہی دوام حاصل ہے ۔ وقت کو ثبات حاصل نہیں ہے یہ ہمیشہ گردش کرتا رہتا ہے ۔ یہاں ہر وقت انقلاب رونما ہوتا رہتا ہے کسی بھی انسان کا وقت یکساں نہیں رہتا ہے ۔ کبھی ایک شخص دولت سے مالا مال رہتا ہے اور دیکھتے دیکھتے وہ دوسروں کا محتاج بن جاتا ہے ۔ کسی شاعر کا ایک بہت ہی مشہور شعر ہے ۔
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

حالات تغیر پذیر ہوتے ہیں جو کل تھا وہ آج نہیں ہے اور جو آج ہے وہ کل نہیں ہوگا ۔ قدرت کا یہ نظام اٹل ہے اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے ۔ اسی جانب مصرع بالا میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ اس مصرع میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ جس طرح گزرا ہوا وقت اپنی راہ چلا گیا ، اسی طرح آج کا وقت بھی بہت جلد ماضی کا حصہ بن کر قصۂ پارینہ بن جائے گا ۔

۱۶ ۔ ملکِ خدا تنگ نیست ، پائے گدالنگ نیست (خدا کا ملک تنگ نہیں اور فقیروں کا پاؤں لنگڑا نہیں)

کوشش کرنے والے انسان کے لئے کوئی کام مشکل نہیں ہوتا ۔ کوشش کرنے کا ہر جگہ موقع ہے ۔ اگر ایک شخص کو اس کی کوشش کے باوجود کسی مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوپاتی ہے تو اسے دوسری جگہ اپنے مقصد کے حصول کی خاطر کوشش کرنی چاہئے کیونکہ دنیا بہت بڑی ہے اور کوشش کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی ہے۔ یہاں نہ سہی وہاں کام تو بن ہی جاتا ہے ۔ اس مقولہ میں ان لوگوں کے لئے ایک سبق بھی پوشیدہ ہے جو کسی کام میں کامیابی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ انھیں ہمت نہیں ہارنی چاہئے اور کوشش جاری رکھنی چاہئے کیونکہ ملک خدا تنگ نیست ، پائے گدا لنگ نیست ۔

۱۷ ۔ افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را (غمگین دل پورے انجمن کو افسردہ و رنجیدہ بنادیتا ہے)

کوئی شخص جب کسی محفل میں جاتا ہے اور اس کے چہرے پر رنجیدگی کے آثار ہوتے ہیں یا وہ شخص محفل میں کچھ ایسی دردناک باتیں سناتا ہے جس سے اس کا دل افسردہ ہوتا ہے ، تو اسے سن کر پوری محفل رنجیدہ و غمگین ہوجاتی ہے ۔ جبکہ کوئی تبسم آمیز گفتگو کرتا ہے تو دوسروں کے لبوں پر بھی مسکراہٹ رقصاں ہوجاتی ہے ۔ افسردگی و پژمردگی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے لوگوں میں خوشیاں بانٹنی چاہئے ۔

۱۸ ۔ شود ہم پیشہ باہم پیشہ دشمن (ہم پیشہ آدمی دوسرے ہم پیشہ شخص کا دشمن ہوتا ہے)

یہ بات عام طور پر دیکھی جاتی ہے کہ ایک ہی پیشے سے وابستہ لوگ ایک دوسرے سے حسد ، جلن اور کینہ رکھتے ہیں ۔ ان میں کم صلاحیت والا انسان احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے اور ایک باصلاحیت ہم پیشہ شخص سے اس کی ترقی ، مقبولیت اور ہردلعزیزی کی وجہ سے اسے جلن ہوتی ہے ۔ اسے یہ لگنے لگتا ہے کہ مجھے کوئی بھی نہیں پوچھ رہا ہے اور ہمارے ہم پیشہ دوسرے شخص کی بہت پذیرائی ہورہی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چونکہ ہم پیشہ لوگ اپنے میدان میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں ۔ کبھی کبھی اس سبقت لے جانے کی کوشش میں روزی روٹی کا معاملہ بھی سامنے آجاتا ہے ۔ اس لئے ان کا ایک دوسرے کی مخالفت بھی فطری ہوتی ہے ۔ تجربہ کار لوگوں کا کہنا ہے کہ اکثر وبیشتر کسی شخص کو سب سے زیادہ نقصان اس کے ہم پیشہ افراد سے ہی ہوتا ہے وہ الزام تراشی ، غیبت ، دروغ گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہم پیشہ فرد کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔

۱۹۔ بریں عقل و دانش بباید گریست (ایسی عقل و دانش پر تو رونا چاہئے)۔

اس محاورہ کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے ، جب کوئی شخص بے سر پیر َکی باتیں کرے جس کا جواب دینا خود کو اس شخص کی سطح پر لے جانے کے مترادف ہو ۔ ایسے شخص کی عقل و دانش پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کے لئے تو فارسی کا ایک دوسرا مقولہ درست ثابت ہوتا ہے کہ ’’جواب جاہلاں خاموشی باشد‘‘ یعنی جاہلوں کے سوال کا جواب دینے سے بہتر خاموشی اختیار کرنا ہوتا ہے ۔

۲۰ ۔ آزمودہ را آزمودن خطاست (آزمائے ہوئے شخص کو دوبارہ آزمانا غلطی ہے)

اگر کسی شخص سے معاملات کرنے کا موقع ہاتھ آیا ہو اور اس نے اپنے معاملات میں سنجیدگی نہ دکھائی ہو اور جھوٹ بول کر اپنا کام نکالنے کی کوشش کی ہو تو دوبارہ صاحب معاملہ سے بھلے ہی معافی مانگے یا دوبارہ غلطی نہ دہرانے کی بات کہے ۔ اس کے باوجود اس پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے ، کیونکہ وہ دوبارہ ویسی ہی حرکت کرے گا جیسی حرکت پہلے کرچکا ہے ۔ کیونکہ فریب دہی اور دروغ گوئی اس کی فطرت میں شامل ہوتی ہے ۔ اس لئے کہا جاتا ہے آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزمانا بیوقوفی ہے ۔

۲۰۔ داشتہ آید بکار ۔ گرچہ باشد سرِمار (رکھی ہوئی چیز کبھی نہ کبھی کام آتی ہے چاہے وہ سانپ کا سر ہی کیوں نہ ہو)

وہ لوگ جو معمولی اور وقتی طور پر بے مصرف سمجھ کر کسی چیز کو پھینک دیتے ہیں ، لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انھیں احساس ہوتا ہے کہ جو چیز میں نے فلاں وقت اور فلاں جگہ پھینک دی تھی ، وہ اس وقت ہوتی تو میرے کام آتی ۔ اس لئے کسی بھی معمولی چیز کو بھی حفاظت سے رکھنی چاہئے ۔ نہ جانے کب اس کی ضرورت پڑجائے ۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ داشتہ آید بکار ، گرچہ باشد سرِمار ۔ یعنی رکھی ہوئی چیز کبھی نہ کبھی ضرور کام آجاتی ہے بھلے ہی کسی سانپ کا سر ہی کیوں نہ ہو ۔ وہ بھی ایک دن کام آجاتا ہے ۔

۲۱ ۔ درکارِ خیر حاجتِ ہیچ استخارہ نیست (اچھا کام کرنے کے لئے استخارہ کی ضرورت نہیں)

جب کسی کام میں انسان پس و پیش محسوس کرے اسے ایسا لگے کہ اس کام کو کرنے میں نفع ہے یا نقصان تو ایسے وقت استخارہ کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ ایک اسلامی طریقہ ہے ۔ اس میں ایک مخصوص دعا پڑھی جاتی ہے اور پھر جس کام کے تئیں دل گواہی دیتا ہے کہ یہ کام کرنا چاہئے اسے کیا جاتا ہے ۔ لیکن جس کام کو کرنے میں صرف خیر ہی خیر پوشیدہ ہو ، اس کام کو کرنے میں استخارہ کی کیا ضرورت ہے ۔ بس نیکی کر دریا میں ڈال والے محاورے پر عمل کرنا چاہئے اور نتیجہ یا صلہ کی پروا سے بے خبر ہوجانا چاہئے ۔

۲۲ ۔ چاہ کنَ راچاہ درپیش (کنواں کھودنے والا پہلے خود ہی کنویں میں جاتا ہے)

برائی کرنے والا خود ہی برائی کا شکار ہوجاتا ہے ۔ جب کوئی شخص کسی کی برائی کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کی زبان ناپاک ہوتی ہے ۔ یا وہ شخص جو کسی کی برائی چاہتا ہے ، وہ خود بھی ایک نہ ایک دن اس برائی کی پاداش میں سخت آزمائش و امتحان میں گھر جاتا ہے ۔ کیونکہ جو شخص کسی کے لئے کنواں کھودتا ہے تو پہلے اسے اس کنویں کی گہرائی تک جانا پڑتا ہے ۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ برائی کا بدلہ کبھی اچھائی نہیں ملتا ہے ، برائی ہی ملتا ہے ۔

۲۳ ۔ بزرگی بہ عقل است نہ بسال (بزرگی عقل سے ہوتی ہے عمر سے نہیں)

یہ شیخ سعدی شیرازی کے ایک شعر کا مصرع ہے ۔ پورا شعرا اس طرح ہے ۔ تونگری بہ دل است نہ بمال ۔ بزرگی بہ عقل است نہ بسال ۔ یعنی مالداری دل سے ہوتی ہے مال سے نہیں اور بزرگی عقل سے ہوتی ہے عمر رسیدگی کی وجہ سے نہیں ۔ اکثر مالداروں کے پاس دل نہیں ہوتا ہے جبکہ اکثر دلدار لوگوں کے پاس دولت نہیں ہوتی ہے ۔ اس لئے اگر کوئی چھوٹا یا کم عمر انسان عقل کی بات کہے تو اس کی عمر کی کمسنی کی وجہ سے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس میں اگر وزن ہو تو اسے قبول کرنا چاہئے کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جس کی عمر زیادہ ہو وہ عقلمند بھی ہو کیونکہ عقل کا تعلق عمر سے نہیں ہوتا ہے ۔ کوئی بھی شخص عقلمند ہوسکتا ہے اس کے لئے کمسنی یا عمر رسیدگی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے ۔

۲۴ ۔ ہر کمالے راز والے (انتہائی ترقی کے بعد زوال شروع ہوتا ہے)۔

اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ انسان جب بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ جس بلندی پر بیٹھا ہے ، وہ وقتی ہے ۔ اس کے بعد تنزلی اس کے مقدر میں آنے والی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا ہے ۔ اپنے علاوہ دوسروں کو کمتر اور حقیر تصور کرتا ہے ۔ کسی کی بات آسانی سے نہیں سنتا ہے جبکہ اسے اپنی ترقی کی ناپائیداری پر توجہ دینی چاہئے ۔ ایسے ہی شخص کو اس کی اصل اوقات بتانے کے لئے کہا جاتا ہے ’’ہر کمالے راز والے‘‘ ۔

۲۵ ۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست (یہ سعادت بازو کی قوت کی وجہ سے نہیں ہے)

یہ مصرع اس شعر کا پہلا مصرع ہے ۔ ایں سعادت بزور بازو نیست ۔ تانہ بخشد خدائے بخشندہ ۔ جب تک عطا کرنے والا خدا کسی کو کوئی مرتبہ ، صلاحیت اور عزت نہ عطا کرے کسی شخص کے بازو کی طاقت سے وہ رتبہ یا وہ صلاحیت و عزت حاصل نہیں ہوتی ہے ۔ اکثر و بیشتر لوگ اس شعر کا استعمال خدا کی بزرگی اور اپنی خاکساری کا اظہار کرنے کے لئے لکھتے ہیں کہ میں نے جو کچھ بھی پیش کیا ہے اس میں اللہ کی مدد اور اس کی ودیعت کردہ صلاحیت کا ہی عمل دخل ہے ۔ اس میں میرا کچھ بھی حصہ نہیں ہے ۔

۲۶ ۔ گرُبہ کشتن روز اول (بلی کو پہلے ہی دن مارنا بہتر ہوتا ہے)

یعنی رعب پہلے ہی دن بیٹھتا ہے ۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ انسان کسی پر رعب ڈالنا چاہے تو پہلے ہی دن اس کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ ورنہ وہ شخص اگلے انسان کی نفسیات سے آگاہ ہوجائے گا اور بعد میں وہ لاکھ اس پر دھونس جمانا چاہے ، اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ عام طور پر لوگ نوجوانوں کو یہی مشورہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں جب اس کی شادی ہو تو روز اول ہی اگر آپ نے اپنی بیوی پر رعب نہیں جمایا تو بعد میں آپ اپنی بیوی پر رعب نہیں بٹھاسکتے ۔ کیونکہ پہلا تاثر ہی آخر دم تک اپنا اثر قائم رکھتا ہے ۔

۲۷ ۔ جائے استاد خالیست (استاد کی جگہ ہمیشہ خالی رہتی ہے)

شاگرد چاہے جتنی بھی ترقی کرجائے ۔ آگے بڑھ جائے ۔ علم و فضل کا مالک بن جائے ، لیکن اس کے باوجود استاد اس موقف میں رہتا ہے کہ اسے کچھ نہ کچھ سکھائے ۔ یعنی شاگرد کتنا بھی آگے بڑھ جائے وہ استادکا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے اور اسے کرنا بھی نہیں چاہئے ۔ کیونکہ استاد کی وجہ سے ہی اسے وہ عزت و منزلت اور رتبہ حاصل ہوتا ہے جس کی اسے توقع تک نہیں ہوتی ہے ۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ ’’جائے استاد خالیست‘‘ ۔

۲۸ ۔ صدر ہر جا کہ نشیند صدراست (صدر جہاں بھی بیٹھ جائے وہ صدر ہی ہوتا ہے) ۔

یعنی بزرگ ، حاکم یا کوئی بڑا آدمی ، جہاں بھی بیٹھ جائے وہی جگہ معزز سمجھی جاتی ہے ۔ صدر کے لئے ضروری نہیں کہ وہ اسٹیج پر ہی بیٹھے تو اسے صدر کہا جائے گا بلکہ وہ عام سامعین میں بھی بیٹھے تو وہ صدر ہی کہلاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بزرگ شخصیت کا حامل کوئی بھی انسان چاہے ، جہاں بھی رہے اس کا مقام کسی اچھی یا بری جگہ کی وجہ سے کم نہیں ہوتا ہے وہ ہر جگہ معزز ہی تصور کیا جاتا ہے ۔

۲۹ ۔ شنیدہ کیَ بود مانند دیدہ (سنا ہوا کب دیکھے ہوئے کے برابر ہوسکتا ہے)

یعنی سنی ہوئی بات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ہے جب تک اس بات کی حقیقت کے متعلق خود مشاہدہ نہ کیا جائے ۔ کسی واقعے کے بارے میں کوئی شخص اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر کچھ بھی بول سکتا ہے ، لیکن جب آپ اس واقعے کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں تو آپ کو حقیقت کا علم ہوجاتا ہے اور پوری سچائی سامنے آجاتی ہے ۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ سنی ہوئی باتوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے جب تک اس کی پوری تحقیق نہ ہوجائے ۔

۳۰ ۔ تامرد سخن نگفتہ باشد ۔ عیب و ہنرش نہفتہ باشد (جب تک کوئی شخص کچھ کہنے کے لئے اپنی زبان نہیں کھولتا ، اس کے عیب و ہنر اس وقت تک پوشیدہ رہتے ہیں)

عام طور پر کسی خاموش مزاج انسان کے تئیں غلط رائے قائم کرلی جاتی ہے ، لیکن جب وہ بولتا ہے تو اس کی صلاحیت ، اس کا نظریہ ، اس کی فکر اور اس کی علمی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ اس لئے کسی بھی شخص کے بارے میں اس وقت تک کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہئے جب تک وہ خاموش رہے ۔ کیونکہ آپ اس کی خوبیوں اور خامیوں سے اس وقت تک واقف نہیں ہوتے جب تک وہ اپنی زبان نہیں کھولتا ہے ۔ کبھی کبھی لوگ اپنی کم علمی چھپانے کے لئے بھی خاموش رہتے ہیں ، اور کبھی مصلحتاً بھی بعض افراد خاموشی اختیار کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ کیونکہ محفل میں ہر شخص بولنے کی ہمت نہیں کرتا ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جب کسی کے بارے میں جاننا چاہو تو اس کے بارے میں دوسروں سے مت پوچھو بلکہ اس سے خود گفتگو کرو ، پھر اس کے عیب و ہنر ، اس کی علمیت اور اس کی فکری بصیرت سامنے آجائے گی ۔ جو لوگ کسی کے خیالات جانے بغیر اس کے بارے میں غلط رائے قائم کرلیتے ہیں تو تجربہ کار افراد کہتے ہیں کہ تامرد سخن نگفتہ باشد ۔ عیب و ہنرش نہفتہ باشد

فارسی کے مذکورہ مقولے ، محاورے ، اقوال ، اشعار ، مصرعے اور ضرب الامثال ایسی معنویت لئے ہوئے ہیں جن کے نعم البدل اردو میں موجود نہیں ہیں اس لئے تحریر و تقریر میں ان مقولوں کی معنویت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ، کیونکہ اس میں تجربے کی ایک دنیا پوشیدہ ہوتی ہے جو حقائق پر مبنی ہوتی ہے ۔

اصل تحریر کا ربط
ایک
دو
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
فارسی کے مذکورہ مقولے ، محاورے ، اقوال ، اشعار ، مصرعے اور ضرب الامثال ایسی معنویت لئے ہوئے ہیں جن کے نعم البدل اردو میں موجود نہیں ہیں اس لئے تحریر و تقریر میں ان مقولوں کی معنویت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ، کیونکہ اس میں تجربے کی ایک دنیا پوشیدہ ہوتی ہے جو حقائق پر مبنی ہوتی ہے ۔
یہ بات ہر زبان کے محاورے کے بارے میں درست ہے۔ محاورہ، ضرب المثل یا پھر ایسا کوئی بھی زبان زد عام جملہ، اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آوازِ سگاں کم نہ کنُد رزقِ گدارا (کتوں کے بھونکنے سے فقیروں کا رزق کم نہیں ہوجاتا ہے)

جب کسی فقیر کو دیکھ کر کتیّ بھونکتے ہیں ، تو کتوں کے بھونکنے سے ایسا نہیں ہوتا ہے کہ اسے بھیک نہیں ملتی ہے ۔ حالانکہ فقیر نے ان کتوں کا کچھ بھی بگاڑا نہیں ہوتا ہے ، اس کے باوجود وہ اپنی خصلت سے مجبور ہوتے ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح جب کسی شخص کی برائی کی جائے اور اس شخص کو خواہ مخواہ لوگوں میں بدنام کرنے اور اسے رسوا کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ اپنی برائی کرنے والے شخص سے کہتا ہے کہ ایسی بے بنیاد باتوں سے میری صحت پر کوئی اثر نہیں واقع ہوسکتا ہے ۔ جس طرح کتوں کے بھونکنے سے فقیر کا رزق کم نہیں ہوتا اسی طرح تمہاری بیہودہ اور بے بنیاد باتوں سے میرے رتبہ و مقام پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ سنجیدہ اور شریف لوگوں کے حلقوں میں یہ فقرہ اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ کیونکہ کسی بھی شخص کو کتے سے تشبیہ دینا کوئی اچھی بات نہیں ، لیکن یہاں استعارۃً اس لفظ کا استعمال ہوا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں یہ رجحان عام طور پر پایا جاتا ہے کہ کسی باعزت اور شریف انسان کو کسی ذاتی دشمنی کے باعث غلط الزام تراشی کے ذریعے بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، لیکن خدا جسے عزت دینا چاہے انسان اسے لاکھ کوششوں کے باوجود بھی ذلیل نہیں کرسکتا ہے ، کیونکہ عزت و ذلت خدا کے دست قدرت میں ہوتی ہے ۔
عرفی کے مصرعے کے ساتھ نہ جانے کیوں سوتیلوں جیسا سلوک برتا گیا۔ نہ شاعر کا ذکر کیا ہے نہ اس کے شہرہ آفاق شعر کا بلکہ "کتے" کا لفظ دیکھ کر مصنف نے یہ بھی فرما دیا کہ سنجیدہ اورشریف لوگوں کے حلقے میں یہ "فقرہ" اچھا نہیں سمجھا جاتا حالانکہ بہت سے شریف الشرفا قسم کے مصنفین نے بھی اسے استعمال کیا ہے۔

عرفی تو میندیش ز غوغائے رقیباں
آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گدا را

"فقرے" کا لفظ بتا رہا ہے کہ شاید مصنف کو علم نہیں تھا کہ یہ مصرع ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
۱۲۔آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری (جو بات ساری دنیا کے حسینوں میں ہے وہ تمہارے ذات واحد میں موجود ہے) ۔

یہ مقولہ کسی شخص کی تعریف و تحسین کے لئے مبالغہ آرائی کا سہارا لیتے ہوئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ساری دنیا ایک طرف اور آپ ایک طرف ۔ یعنی ساری دنیا کے مقابلے میں آپ کی تنہا ذات پیش کی جاسکتی ہے ۔ آپ اپنی خصوصیات و اوصاف میں بے مثال ہیں ۔ آپ کا کسی اور سے کیا مقابلہ ہوسکتا ہے لیکن اس مقولے میں مبالغہ کا عنصر واضح طور پر نظر آتا ہے جو بعید از حقیقت نظر آتا ہے ۔
اگر مصنف کو علم ہوتا کہ یہ "مقولہ" ایک مشہور و معروف نعتیہ شعر کا مصرع ہے تو شاید کبھی نہ لکھتے کہ اس میں مبالغہ کا عنصر ہے۔ شعر مولانا جامی کا ہے:

حسنِ یوسف، دمِ عیسٰی، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری

مفہوم کچھ یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس حُسنِ یوسف بھی ہے، عیسیٰ کا دم بھی ہے، موسیٰ کا یدِ بیضا بھی ہے یعنی جو کچھ سارے کے سارے نبی رکھتے تھے وہ تنہا آپ کے پاس ہے۔
 
بلکہ "کتے" کا لفظ دیکھ کر مصنف نے یہ بھی فرما دیا کہ سنجیدہ اورشریف لوگوں کے حلقے میں یہ "فقرہ" اچھا نہیں سمجھا جاتا
ایسا معاملہ اردو محاورات و ضرب المثل کے استعمال میں بھی دیکھا ہے، کہ لوگ فوراً لغوی معنی کو لے کر برا مان جاتے ہیں۔
مثلاً ایک دفعہ دفتر میں کسی معاملہ پر گپ شپ جاری تھی، میں نے ایک بات کے ضمن میں کہا کہ ایسا کرتے ہوئے تو ہمیں موت پڑ جاتی ہے۔ جس پر کچھ لوگ فوراً بولے یار مرنے کا ذکر تو نہ کرو۔ :p
 

محمد وارث

لائبریرین
۲۱ ۔ درکارِ خیر حاجتِ ہیچ استخارہ نیست (اچھا کام کرنے کے لئے استخارہ کی ضرورت نہیں)

جب کسی کام میں انسان پس و پیش محسوس کرے اسے ایسا لگے کہ اس کام کو کرنے میں نفع ہے یا نقصان تو ایسے وقت استخارہ کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ ایک اسلامی طریقہ ہے ۔ اس میں ایک مخصوص دعا پڑھی جاتی ہے اور پھر جس کام کے تئیں دل گواہی دیتا ہے کہ یہ کام کرنا چاہئے اسے کیا جاتا ہے ۔ لیکن جس کام کو کرنے میں صرف خیر ہی خیر پوشیدہ ہو ، اس کام کو کرنے میں استخارہ کی کیا ضرورت ہے ۔ بس نیکی کر دریا میں ڈال والے محاورے پر عمل کرنا چاہئے اور نتیجہ یا صلہ کی پروا سے بے خبر ہوجانا چاہئے ۔
یہ بھی حافظ شیرازی کا مصرع ہے، مکمل شعر کچھ یوں ہے:

آں دم کہ دل بہ عشق دہی خوش دمے بوَد
در کارِ خیر حاجتِ ہیچ استخارہ نیست

تُو جس وقت بھی اپنے دل کو عشق میں لگا دے گا وہی وقت تیرے لیے اچھا اور مبارک ہوگا، کہ نیک کام کرنے میں کسی استخارہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ (پہلے مصرعے کے شروع میں "آں دم" کی جگہ "ہر گہ" لکھا بھی ملتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
۱۷ ۔ افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را (غمگین دل پورے انجمن کو افسردہ و رنجیدہ بنادیتا ہے)

کوئی شخص جب کسی محفل میں جاتا ہے اور اس کے چہرے پر رنجیدگی کے آثار ہوتے ہیں یا وہ شخص محفل میں کچھ ایسی دردناک باتیں سناتا ہے جس سے اس کا دل افسردہ ہوتا ہے ، تو اسے سن کر پوری محفل رنجیدہ و غمگین ہوجاتی ہے ۔ جبکہ کوئی تبسم آمیز گفتگو کرتا ہے تو دوسروں کے لبوں پر بھی مسکراہٹ رقصاں ہوجاتی ہے ۔ افسردگی و پژمردگی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے لوگوں میں خوشیاں بانٹنی چاہئے ۔
یہ بھی ایک مصرع ہے اور مطلعے کا مصرع ثانی ہے۔ مکمل شعر ملا نہیں، بہت عرصہ پہلے کسی کتاب میں پڑھا تھا اور اپنی طرف سے ترجمہ کر کے کہیں پوسٹ بھی کر دیا تھا لیکن ابھی ملا نہیں، بہرحال اس کا وزن (مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن) ہی ظاہر کر رہا ہے کہ مصرع ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
چند ایک ضرب الامثال جو اس تحریر میں نہیں ہیں لیکن بہت مشہور ہیں:

-حافظ شیرازی کا شہرہ آفاق مصرع - "فکرِ ہرکس بقدرِ ہمتِ اوست"
-امیر خسرو کا شہرہ آفاق مصرع۔ "زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم"
-امیر خسرو کا ایک اور مصرع۔ "نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز"
-امیر خسرو کے ایک شعر کا چوتھا ٹکڑا۔ "من دیگرم تو دیگری"
- ایک اور مصرع نہ جانے کن بزرگ گا ہے۔ "قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید"

مزید یاد آئے تو بعد میں لکھ دونگا۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ایسا معاملہ اردو محاورات و ضرب المثل کے استعمال میں بھی دیکھا ہے، کہ لوگ فوراً لغوی معنی کو لے کر برا مان جاتے ہیں۔
مثلاً ایک دفعہ دفتر میں کسی معاملہ پر گپ شپ جاری تھی، میں نے ایک بات کے ضمن میں کہا کہ ایسا کرتے ہوئے تو ہمیں موت پڑ جاتی ہے۔ جس پر کچھ لوگ فوراً بولے یار مرنے کا ذکر تو نہ کرو۔ :p
بہت زود رنج رہے ہوں گے یا آپ کی زبان کی تاثیر سے سہمے ہوئے ہوں گے۔ :p
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
چند ایک ضرب الامثال جو اس تحریر میں نہیں ہیں لیکن بہت مشہور ہیں:

-حافظ شیرازی کا شہرہ آفاق مصرع - "فکرِ ہرکس بقدرِ ہمتِ اوست"
-امیر خسرو کا شہرہ آفاق مصرع۔ "زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم"
-امیر خسرو کا ایک اور مصرع۔ "نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز"
-امیر خسرو کے ایک شعر کا چوتھا ٹکڑا۔ "من دیگرم تو دیگری"
- ایک اور مصرع نہ جانے کن بزرگ گا ہے۔ "قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید"

مزید یاد آئے تو بعد میں لکھ دونگا۔ :)
منتظر ہیں وارث بھائی۔ آپ کی طرف سے اس میں مزید اضافہ ضرور ہونا چاہیے۔ جزاک اللہ خیرا
 

محمداحمد

لائبریرین
افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را (غمگین دل پورے انجمن کو افسردہ و رنجیدہ بنادیتا ہے)

اس سے مجھے یہ گمان ہو اکہ ایک دکھی دل والے شخص کو با رونق محفل بھی افسردہ افسردہ لگتی ہے، تاہم مصنف کی تشریح کچھ اور بتاتی ہے۔
 
اس سے مجھے یہ گمان ہو اکہ ایک دکھی دل والے شخص کو با رونق محفل بھی افسردہ افسردہ لگتی ہے، تاہم مصنف کی تشریح کچھ اور بتاتی ہے۔
کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اچھی بھلی خوشگوار محفل میں لازمی کوئی ایسی بات کر دیتے ہیں، جیسے بادام کھاتے ہوئے اچانک کڑوا بادام آ جائے۔ :p
 

محمداحمد

لائبریرین
جائے استاد خالیست (استاد کی جگہ ہمیشہ خالی رہتی ہے)

شاگرد چاہے جتنی بھی ترقی کرجائے ۔ آگے بڑھ جائے ۔ علم و فضل کا مالک بن جائے ، لیکن اس کے باوجود استاد اس موقف میں رہتا ہے کہ اسے کچھ نہ کچھ سکھائے ۔ یعنی شاگرد کتنا بھی آگے بڑھ جائے وہ استادکا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے اور اسے کرنا بھی نہیں چاہئے ۔ کیونکہ استاد کی وجہ سے ہی اسے وہ عزت و منزلت اور رتبہ حاصل ہوتا ہے جس کی اسے توقع تک نہیں ہوتی ہے ۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ ’’جائے استاد خالیست‘‘ ۔

وارث بھائی ، یہ بات مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی۔

میری رائے میں تو اتنا کافی ہے کہ استاد ہمیشہ استاد ہی رہتا ہے چاہے شاگر کتنا ہی آگے نکل جاتا ہے۔ اور یہ کہ شاگرد اگر کبھی کسی معاملے میں پھنس جاتا ہے تو اُس کو گُر کی بات استاد سے ہی ملتی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اچھی بھلی خوشگوار محفل میں لازمی کوئی ایسی بات کر دیتے ہیں، جیسے بادام کھاتے ہوئے اچانک کڑوا بادام آ جائے۔ :p

جیسے ہم نے گذشتہ محفلین کراچی کی محفل میں خلیل الرحمٰن بھائی کے مزیدار ظریفانہ کلام کے بعد ایسی روتی دھوتی شاعری سُنائی کہ بے چارے محمد امین صدیق بھائی بے ساختہ پکار اُٹھے کہ احمد بھائی کوئی مزاحیہ کلام نہیں ہے آپ کے پلّے؟ :eek:

تب ہمیں اندازہ ہوا کہ کڑوے بادام کا حلوہ کچھ زیادہ ہی ہوگیا شاید۔ :):D:p
 
Top