اردو میں مستعمل فارسی ضرب الامثال ۔۔۔ صابر علی سیوانی

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی ، یہ بات مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی۔

میری رائے میں تو اتنا کافی ہے کہ استاد ہمیشہ استاد ہی رہتا ہے چاہے شاگر کتنا ہی آگے نکل جاتا ہے۔ اور یہ کہ شاگرد اگر کبھی کسی معاملے میں پھنس جاتا ہے تو اُس کو گُر کی بات استاد سے ہی ملتی ہے۔
آپ نے بالکل درست کہا، یہ ضرب المثل اسی موقع پر بولی جاتی ہے جہاں پر شاگرد اپنی تمام فہم استعمال کر کے بھی کامیاب نہ ہو اور استاد یا کوئی اس کا مسئلہ حل کر دے۔ اس کا ایک مترادف ایک پنجابی کہاوت ہے جو ہمارے والد صاحب مرحوم ہمیں ایسی ہی کسی صورتحال میں سنایا کرتے تھے کہ "بابے بِنا بھیڈاں نئیں چر دیاں" مطلب یہ کہ تجربہ کار چرواہے کہ بغیر بھیڑ بکریاں نہیں چرا کر تیں۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
چند ایک ضرب الامثال جو اس تحریر میں نہیں ہیں لیکن بہت مشہور ہیں:

-حافظ شیرازی کا شہرہ آفاق مصرع - "فکرِ ہرکس بقدرِ ہمتِ اوست"
-امیر خسرو کا شہرہ آفاق مصرع۔ "زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم"
-امیر خسرو کا ایک اور مصرع۔ "نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز"
-امیر خسرو کے ایک شعر کا چوتھا ٹکڑا۔ "من دیگرم تو دیگری"
- ایک اور مصرع نہ جانے کن بزرگ گا ہے۔ "قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید"

مزید یاد آئے تو بعد میں لکھ دونگا۔ :)

باقی تو پھر بھی کچھ نہ کچھ سمجھ آ رہے ہیں۔ لیکن آخری والا سمجھ نہیں آیا۔
 
اس سے مجھے یہ گمان ہو اکہ ایک دکھی دل والے شخص کو با رونق محفل بھی افسردہ افسردہ لگتی ہے، تاہم مصنف کی تشریح کچھ اور بتاتی ہے۔

ویب پر تلاش کرنے پر یہ صورت نظر آئی ہے شعر کی:

در محفلِ خود راہ مدہ همچو منی را
افسردہ دل افسردہ کند انجمنی را

لفظی ترجمہ:
اپنی محفل میں کسی مجھ ایسے کو راہ نہ دے (کہ) افسردہ دل ایک انجمن کو افسردہ کرتا ہے.
 
عقل مند را اشارا کافیست
میں نے یہ صورت بھی دیکھی ہے اس فقرے کی
عقل مندان را اشارہ کافی است
( عقل مندوں کے لیے اشارہ کافی ہے)
اور یوں یہ فقرہ سے مصرع بن جاتا ہے.
عقل و دانش بباید گریست
اگر جز تو داند که عزمِ تو چیست
بر آن رای و دانش بباید گریست

اگر تیرے سوا کوئی جانتا ہو کہ تیرا عزم کیا ہے تو اس رائے اور دانش پر رونا چاہیے.

سعدی شیرازی

چُناں نہ ماندو چنیں نیز ہم نہ خواہد ماند
رسید مژده کہ ایامِ غم نخواهد ماند
چنان نماند و چنین نیز هم نخواهد ماند

خوشخبری پہنچی ہے کہ غم کے دن باقی نہ رہیں گے(جب)ویسا نہیں رہا تو ایسا بھی نہیں رہے گا.

حافظ شیرازی
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
میں کوشش کروں گی کہ ایک آدھ محاورہ اپنی روز مرہ کی گفتگو میں ضرور ٹانکوں اس طرح یہ محاورے گفتگو میں عادتا استعمال ہوں گے اور یاد رہیں گے... کسی نے کہا کہ یہ کیا اتنی ثقیل اردو تو ہم کہیں گے محفل کا اعجاز ہے :) :)
شکریہ اردو محفل!
شکریہ احمد بھیا اور وارث بھیا!
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک ضرب المثل جو اردو میں کبھی عام تھی، "رسیدہ بُود بلائے ولے بخیر گذشت" یعنی بلا آئی تھی لیکن خیریت سے گزر گئی، چلی گئی۔

یہ آصفی ہروی کا ایک شعر ہے اصل میں:

نریخت دُردِ مئے و محتسب ز دیر گذشت
رسیدہ بُود بلائے ولے بخیر گذشت

اُس نے بچی کچھی مے نہ گرائی اور وہ محتسب دیر (بُتخانہ وغیرہ) سے چلا گیا، بلا آئی تھی لیکن خیریت سےچلی گئی۔
 
آخری تدوین:

فرحت کیانی

لائبریرین
تامرد سخن نگفتہ باشد ۔ عیب و ہنرش نہفتہ باشد (جب تک کوئی شخص کچھ کہنے کے لئے اپنی زبان نہیں کھولتا ، اس کے عیب و ہنر اس وقت تک پوشیدہ رہتے ہیں)

یہ تو میرے لیے ہے۔ عیبوں کی پردہ داری۔
 

زیک

مسافر
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اچھی شعری تخلیق پیش کرنے یا بہترین اردو ادب کو منصۂ شہود پر لانے کے لئے فارسی زبان کا علم ضروری ہے ۔
کوئی سو سال قبل یہ بھی لازم تھا کہ اچھے انگریزی ادب کے لئے یونانی اور لاطینی زبان آتی ہو۔ وقت کے ساتھ ایسا نہ رہا۔
 

یاز

محفلین
ایک مصرعہ اکثر استعمال ہوتا ہے "ایں خیال است و محال است و جنوں"۔

اس کا مکمل شعر بھی کسی جگہ پڑھا تھا۔ جو (غلط طور پہ) مولانا رومی سے منسوب کیا گیا تھا۔

ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں
ایں خیال است و محال است و جنوں

"تو خدا کو بھی چاہتا ہے اور ذلیل دنیا کو بھی۔ یہ بس خیال، جنون اور ناممکن بات ہے"۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کوئی سو سال قبل یہ بھی لازم تھا کہ اچھے انگریزی ادب کے لئے یونانی اور لاطینی زبان آتی ہو۔ وقت کے ساتھ ایسا نہ رہا۔
یونانی اور لاطینی کی ضرورت شاید اس وجہ سے اب نہ رہی ہو کہ انگریزی نے ان زبانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اگر کبھی اردو کی بھی ایسی حیثیت ہو گئی تو ہم سے زیادہ خوش کون ہوگا۔ دوسری وجہ شاید یہ ہو کہ ابھی ہمارے "سو سال" پورے نہیں ہوئے۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
فائنل ائیر کے پراجیکٹ میں ایک ایرانی دوست سیروس شامل تھا جس سے میں کچھ فارسی سیکھتا تھا،اکثر ایک ضرب المثل کہتا تھا۔ مار از پونہ بدش می اید، اما در لانہ اش سبز می شود۔
پونہ ایک جڑی بوٹی ہوتی ہے جس سے سانپ کو الرجی ہوتی ہے اور وہ اس سے دور بھاگتا ہے۔ستم ظریفی یہ کہ یہ جڑی بوٹی پیدا بھی سانپ کے بل کے پاس ہوتی ہے۔ :)
جب انسان کسی مشکل سے بھاگنے کی بہت کوشش کرے اور وہ مشکل لامحالہ اس پر مسلط ہو ہی جاتی ہے تو اس ضرب المثل کامحل بنتا ہے۔فائنل ائیر میں ایسے محلات کافی آتے تھے ۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک اور خوبصورت مثل: ولی را ولی می شناسد (ولی کو ولی ہی پہچانتا ہے)
یعنی کسی کی اصلیت کو وہی پہچانتا ہے جو اس جیسا ہی ہو۔ زیادہ تر طنزیہ معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
آپ نے بالکل درست کہا، یہ ضرب المثل اسی موقع پر بولی جاتی ہے جہاں پر شاگرد اپنی تمام فہم استعمال کر کے بھی کامیاب نہ ہو اور استاد یا کوئی اس کا مسئلہ حل کر دے۔ اس کا ایک مترادف ایک پنجابی کہاوت ہے جو ہمارے والد صاحب مرحوم ہمیں ایسی ہی کسی صورتحال میں سنایا کرتے تھے کہ "بابے بِنا بھیڈاں نئیں چر دیاں" مطلب یہ کہ تجربہ کار چرواہے کہ بغیر بھیڑ بکریاں نہیں چرا کر تیں۔ :)
میں‌نے اس ضرب المثل کا مطلب یہ سنا تھا کہ کسی کام کو بہتر سے بہتر کرنے کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
فائنل ائیر کے پراجیکٹ میں ایک ایرانی دوست سیروس شامل تھا جس سے میں کچھ فارسی سیکھتا تھا،اکثر ایک ضرب المثل کہتا تھا۔ مار از پونہ بدش می اید، اما در لانہ اش سبز می شود۔
پونہ ایک جڑی بوٹی ہوتی ہے جس سے سانپ کو الرجی ہوتی ہے اور وہ اس سے دور بھاگتا ہے۔ستم ظریفی یہ کہ یہ جڑی بوٹی پیدا بھی سانپ کے بل کے پاس ہوتی ہے۔ :)
جب انسان کسی مشکل سے بھاگنے کی بہت کوشش کرے اور وہ مشکل لامحالہ اس پر مسلط ہو ہی جاتی ہے تو اس ضرب المثل کامحل بنتا ہے۔فائنل ائیر میں ایسے محلات کافی آتے تھے ۔ :)

ایک اور خوبصورت مثل: ولی را ولی می شناسد (ولی کو ولی ہی پہچانتا ہے)
یعنی کسی کی اصلیت کو وہی پہچانتا ہے جو اس جیسا ہی ہو۔ زیادہ تر طنزیہ معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔

عمدہ!
 
Top